پردے کا صحیح مفہوم


پردہ

پردے کا صحیح مفہوم

س… میں شرعی پردہ کرتی ہوں، کیونکہ دِینی مدرسہ کی طالبہ ہوں، اور مجھے پریشانی جب ہوتی ہے جب میں کسی تقریب وغیرہ میں مجبوراً جاتی ہوں تو اپنا برقع نہیں اُتارتی۔ جس کی وجہ سے لوگ مجھے برقع اُتارنے پر مجبور کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ: “پردے کا ذکر تو قرآن میں نہیں آیا، بس اوڑھنی کا ذکر آیا ہے۔” حالانکہ انہوں نے پورا مفہوم اور اس کی تفسیر وغیرہ نہیں پڑھی ہے، بس صرف یہ کہتے ہیں کہ: “جب اسلام نے چادر کا ذکر کیا ہے تو اتنا پردہ کیوں کرتی ہو؟” اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: “اسلام نے اتنی سختی نہیں رکھی، جتنی آپ کرتی ہیں۔” وہ کہتے ہیں کہ: “چہرہ، ہاتھ اور پاوٴں وغیرہ کھلے رہیں” حالانکہ میں کہتی ہوں ان سے کہ اس کا ذکر تو صرف نماز میں آیا ہے پردے میں نہیں۔ اور آج کل اس فتنے کے دور میں تو عورت پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ مکمل پردہ کرے بلکہ اپنا چہرہ، ہاتھ وغیرہ چھپائے۔ پردے کے متعلق آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتادیجئے تاکہ ان لوگوں کے علم میں یہ بات آجائے کہ “شرعی پردہ” کہتے کسے ہیں؟ اور کتنا کرنا چاہئے؟

ج… آپ کے خیالات بہت صحیح ہیں، عورت کو چہرے کا پردہ لازم ہے، کیونکہ گندی اور بیماری نظریں اسی پر پڑتی ہیں۔ چہرہ، ہاتھ اور پاوٴں عورت کا ستر نہیں، یعنی نماز میں ان اعضاء کا چھپانا ضروری نہیں، لیکن گندی نظروں سے ان اعضاء کا حتی الوسع چھپانا ضروری ہے۔

س… آپ نے کیا ایسا مسئلہ بھی اخبار میں دیا تھا کہ اگر لڑکی پردہ کرتی ہے اپنے سسرال میں اور وہاں پردے کا ماحول نہیں ہے، اپنے دیوروں اور دُوسرے رشتہ داروں سے تو کیا آپ نے یہ جواب میں لکھا تھا کہ پردہ اتنا سخت بھی نہیں ہے، اگر وہ پردہ کرتی ہے تو چادر کا گھونگھٹ گراکر اپنا کام کرسکتی ہے۔ میں یہ نہیں سمجھتی کہ چہرہ چھپانے سے اس کا وجود چھپ جائے، میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ جب لڑکی پردہ کرتی ہے تو گویا وہ اپنے نامحرموں سے اوجھل ہوجاتی ہے، جیسا کہ مرنے کے بعد اس کا وجود نہیں ہوتا دُنیا میں۔ آپ کا یہ مسئلہ میری نظروں سے نہیں گزرا، آپ سے گزارش ہے کہ تفصیل سے ذرا بتادیجئے تاکہ ان لوگوں کے علم میں بھی یہ بات باآسانی آجائے کہ پردے کے متعلق کتنا سخت حکم ہے؟

ج… میں نے لکھا تھا کہ ایک ایسا مکان جہاں عورت کے لئے نامحرموں سے چاردیواری کا پردہ ممکن نہ ہو، وہاں یہ کرے کہ پورا بدن ڈھک کر اور چہرے پر گھونگھٹ کرکے شرم و حیاء کے ساتھ نامحرموں کے سامنے آجائے (جبکہ اس کے لئے جانا ناگزیر ہو)۔

کیا صرف برقع پہن لینا کافی ہے یا کہ دِل میں شرم و حیا بھی ہو؟

س… خواتین کے پردے کے بارے میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ کیا صرف برقع پہن لینا پردے میں شامل ہوجاتا ہے؟ آج کل میرے دوستوں میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ چند دوست کہتے ہیں کہ: “برقع پہن لینے کے نام کا کہاں حکم ہے؟” وہ کہتے ہیں: “صرف حیا کا نام پردہ ہے۔” میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ پردے کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ تفصیلاً بتائیں۔

ج… آپ کے دوستوں کا یہ ارشاد تو اپنی جگہ صحیح ہے کہ: “شرم و حیا کا نام پردہ ہے” مگر ان کا یہ فقرہ نامکمل اور ادھورا ہے۔ انہیں اس کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہئے کہ: “شرم و حیا کی شکلیں متعین کرنے کے لئے ہم عقلِ سلیم اور وحیٴ آسمانی کے محتاج ہیں۔”

یہ تو ظاہر ہے کہ شرم و حیا ایک اندرونی کیفیت ہے، اس کا ظہور کسی نہ کسی قالب اور شکل میں ہوگا، اگر وہ قالب عقل و فطرت کے مطابق ہے تو شرم و حیا کا مظاہرہ بھی صحیح ہوگا، اور اگر اس قالب کو عقلِ صحیح اور فطرتِ سلیمہ قبول نہیں کرتی تو شرم و حیا کا دعویٰ اس پاکیزہ صفت سے مذاق تصوّر ہوگا۔

فرض کیجئے! کوئی صاحب بقائمی ہوش و حواس قیدِ لباس سے آزاد ہوں، بدن کے سارے کپڑے اُتار پھینکیں اور لباسِ عریانی زیبِ تن فرماکر “شرم و حیا” کا مظاہرہ کریں تو غالباً آپ کے دوست بھی ان صاحب کے دعویٴ شرم و حیا کو تسلیم کرنے سے قاصر ہوں گے، اور اسے شرم و حیا کے ایسے مظاہرے کا مشورہ دیں گے جو عقل و فطرت سے ہم آہنگ ہو۔

سوال ہوگا کہ عقل و فطرت کے صحیح ہونے کا معیار کیا ہے؟ اور یہ فیصلہ کس طرح ہو کہ شرم و حیا کا فلاں مظاہرہ عقل و فطرت کے مطابق ہے یا نہیں؟

اس سوال کے جواب میں کسی اور قوم کو پریشانی ہو، تو ہو، مگر اہلِ اسلام کو کوئی اُلجھن نہیں۔ ان کے پاس خالقِ فطرت کے عطا کردہ اُصولِ زندگی اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہیں، جو اُس نے عقل و فطرت کے تمام گوشوں کو سامنے رکھ کر وضع فرمائے ہیں۔ انہی اُصولِ زندگی کا نام “اسلام” ہے۔ پس خدا تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرم و حیا کے جو مظاہرے تجویز کئے ہیں وہ فطرت کی آواز ہیں، اور عقلِ سلیم ان کی حکمت و گہرائی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ آئیے! ذرا دیکھیں کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مقدسہ میں اس سلسلے میں کیا ہدایات دی گئی ہیں۔

۱:… صنفِ نازک کی وضع و ساخت ہی فطرت نے ایسی بنائی ہے کہ اسے سراپا ستر کہنا چاہئے، یہی وجہ کہ خالقِ فطرت نے بلاضرورت اس کے گھر سے نکلنے کو برداشت نہیں کیا، تاکہ گوہرِ آب دار، ناپاک نظروں کی ہوس سے گردآلود نہ ہوجائے، قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

“وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّةِ الْأُوْلٰی۔” (الاحزاب:۳۳)

ترجمہ:… “اور ٹکی رہو اپنے گھروں میں اور مت نکلو پہلی جاہلیت کی طرح بن ٹھن کر۔”

“پہلی جاہلیت” سے مراد قبل از اسلام کا دور ہے، جس میں عورتیں بے حجابانہ بازاروں میں اپنی نسوانیت کی نمائش کیا کرتی تھیں۔ “پہلی جاہلیت” کے لفظ سے گویا پیش گوئی کردی گئی کہ انسانیت پر ایک “دُوسری جاہلیت” کا دور بھی آنے والا ہے جس میں عورتیں اپنی فطری خصوصیات کے تقاضوں کو “جاہلیتِ جدیدہ” کے سیلاب کی نذر کردیں گی۔

قرآن کی طرح صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صنفِ نازک کو سراپا ستر قرار دے کر بلاضرورت اس کے باہر نکلنے کو ناجائز فرمایا ہے:

“وعنہ (عن ابن مسعود رضی الله عنہ) عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: المرأة عورة فاذا خرجت استشرقھا الشیطان۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰة ص:۲۶۹)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت سراپا ستر ہے، پس جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک کرتا ہے۔”

۲:… اور اگر ضروری حوائج کے لئے اسے گھر سے باہر قدم رکھنا پڑے تو اسے حکم دیا گیا کہ وہ ایسی بڑی چادر اوڑھ کر باہر نکلے جس سے پورا بدن سر سے پاوٴں تک ڈھک جائے، سورہٴ احزاب آیت:۶۹ میں ارشاد ہے:

“یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ ِلّأَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ۔”

ترجمہ:… “اے نبی! اپنی بیویوں، صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (جب باہر نکلیں تو) اپنے اُوپر بڑی چادریں جھکالیا کریں۔”

مطلب یہ کہ ان کو بڑی چادر میں لپٹ کر نکلنا چاہئے، اور چہرے پر چادر کا گھونگھٹ ہونا چاہئے۔ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس دور میں خواتینِ اسلام کا یہی معمول تھا۔ اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ: “خواتین، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز کے لئے مسجد آتی تھیں تو اپنی چادروں میں اس طرح لپٹی ہوئی ہوتی تھیں کہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔”

مسجد میں حاضری، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سننے کی ان کو ممانعت نہیں تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو بھی یہ تلقین فرماتے تھے کہ ان کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ان کے لئے بہتر ہے۔ (ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دِقتِ نظر اور خواتین کی عزّت و حرمت کا اندازہ کیجئے کہ مسجدِ نبوی، جس میں ادا کی گئی ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کے لئے اس کے بجائے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کو افضل اور بہتر فرماتے ہیں۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں جو نماز ادا کی جائے، اس کا مقابلہ تو شاید پوری اُمت کی نمازیں بھی نہ کرسکیں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اقتدا میں نماز پڑھنے کے بجائے عورتوں کے لئے اپنے گھر پر تنہا نماز پڑھنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔ یہ ہے شرم و حیا اور عفت و عظمت کا وہ بلند ترین مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتینِ اسلام کو عطا کیا تھا اور جو بدقسمتی سے تہذیب جدید کے بازار میں آج ٹکے سیر بِک رہا ہے۔

مسجد اور گھر کے درمیان تو پھر بھی فاصلہ ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے قانونِ ستر کا یہاں تک لحاظ کیا ہے کہ عورت کے اپنے مکان کے حصوں کو تقسیم کرکے فرمایا کہ: فلاں حصے میں اس کا نماز پڑھنا فلاں حصے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“عن عبدالله عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا۔” (ابوداوٴد ج:۱ ص:۸۴)

ترجمہ:… “عورت کی سب سے افضل نماز وہ ہے جو اپنے گھر کی چاردیواری میں ادا کرے، اور اس کا اپنے مکان کے کمرے میں نماز ادا کرنا اپنے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے، اور پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا آگے کے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔”

بہرحال ارشادِ نبوی یہ ہے کہ عورت حتی الوسع گھر سے باہر نہ جائے، اور اگر جانا پڑے تو بڑی چادر میں اس طرح لپٹ کر جائے کہ پہچانی تک نہ جائے، چونکہ بڑی چادروں کا بار بار سنبھالنا مشکل تھا۔ اس لئے شرفاء کے گھرانوں میں چادر کے بجائے برقع کا رواج ہوا، یہ مقصد ڈھیلے ڈھالے قسم کے دیسی برقع سے حاصل ہوسکتا تھا، مگر شیطان نے اس کو فیشن کی بھٹی میں رنگ کر نسوانی نمائش کا ایک ذریعہ بنا ڈالا۔ میری بہت سی بہنیں ایسے برقعے پہنتی ہیں جن میں ستر سے زیادہ ان کی نمائش نمایاں ہوتی ہے۔

۳:… عورت گھر سے باہر نکلے تو اسے صرف یہی تاکید نہیں کی گئی کہ چادر یا برقع اوڑھ کر نکلے، بلکہ گوہرِ نایاب، شرم و حیا کو محفوظ رکھنے کے لئے مزید ہدایات بھی دی گئیں۔ مثلاً: مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی اور اپنی عصمت کے پھول کو نظرِ بد کی بادِ سموم سے محفوظ رکھیں، سورة النور آیت:۳۰، ۳۱ میں ارشاد ہے:

“قُلْ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ، اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔”

ترجمہ:… “اے نبی! موٴمنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے خبردار ہے۔”

“وَقُلْ لِّلْمُوٴْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔”

ترجمہ:… “اور موٴمن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں، مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے ․․․․الخ۔”

ایک ہدایت یہ دی گئی ہے کہ عورتیں اس طرح نہ چلیں جس سے ان کی مخفی زینت کا اظہار نامحرموں کے لئے باعثِ کشش ہو، قرآن کی مندرجہ بالا آیت کے آخر میں فرمایا ہے:

“وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔”

ترجمہ:… “اور اپنا پاوٴں اس طرح نہ رکھیں کہ جس سے ان کی مخفی زینت ظاہر ہوجائے۔”

ایک ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر اچانک کسی نامحرَم پر نظر پڑجائے تو اسے فوراً ہٹالے، اور دوبارہ قصداً دیکھنے کی کوشش نہ کرے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے علی! اچانک نظر کے بعد دوبارہ نظر مت کرو، پہلی تو (بے اختیار ہونے کی وجہ سے) تمہیں معاف ہے، مگر دُوسری کا گناہ ہوگا۔” (مسندِ احمد، دارمی، ترمذی، ابوداوٴد، مشکوٰة)

بغیر پردہ عورتوں کا سرِ عام گھومنا

س… بغیر پردے کے مسلمان عورتوں کا سرِعام گھومنا کہاں تک جائز ہے؟

ج… آج کل گلی کوچوں میں، بازاروں میں، کالجوں میں اور دفتروں میں بے پردگی کا جو طوفان برپا ہے، اور یہود و نصاریٰ کی تقلید میں ہماری بہو بیٹیاں جس طرح بن ٹھن کر بے حجابانہ گھوم پھر رہی ہیں، قرآنِ کریم نے اس کو “جاہلیت کا برج” فرمایا ہے، اور یہ انسانی تہذیب، شرافت اور عزّت کے منہ پر زناٹے کا طمانچہ ہے۔ ترمذی، ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، مستدرک میں بہ سندِ صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ:

“عن ابی الملیح قال: قدم علٰی عائشة نسوة من أھل حمص فقالت: من این أنتن؟ ․․․․ قالت: فانی سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول لا تخلع امرأة ثیابھا فی غیر بیت زوجھا الا ھتکت الستر بینھا وبین ربھا۔” (مشکوٰة، واللفظ لہ، ترمذی ص:۱۰۲)

ترجمہ:… “جس عورت نے اپنے گھر کے سوا دُوسری کسی جگہ کپڑے اُتارے اس نے اپنے درمیان اور اللہ کے درمیان جو پردہ حائل تھا، اسے چاک کردیا۔”

عورت کے سر کا ایک بال بھی ستر ہے، اور نامحرموں کے سامنے ستر کھولنا شرعاً حرام اور طبعاً بے غیرتی ہے۔

نامحرموں سے پردہ

س… تائی، چچی، ممانی کے پردے کا کیا حکم ہے؟ وہ دیور یا جیٹھ وغیرہ کے بیٹوں سے آیا پردہ کرے گی یا نہیں؟ اگر گھر میں ساتھ رہتے ہوں تو کس حد تک پردہ کرے؟

ج… تائی، چچی، ممانی بھی غیرمحرَم ہیں، ان سے بھی پردہ کا حکم ہے، اگر چاردیواری کا پردہ ممکن نہ ہو تو چادر کا پردہ کافی ہے۔

س… چچا سسر، ماموں سسر سے پردے کا کیا حکم ہے؟

ج… وہی ہے جو اُوپر لکھا ہے۔

عورت کو پردے میں کن کن اعضاء کا چھپانا ضروری ہے؟

س… میرے شوہر کا کہنا ہے کہ عورت نام ہی پردہ کا ہے، لہٰذا اس کو ہمہ وقت پردہ کرنا چاہئے، ورنہ معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوں گی، حتیٰ کہ وہ باپ بھائی سے بھی پردہ کرے کیونکہ نفس تو سب کے ساتھ ہے، لیکن حرج کی وجہ سے اسلام نے اس کو واجب قرار نہیں دیا، لیکن کرنا چاہئے۔

دوم:… یہ کہ عورت بازار جائے تو اسلام اس کو مردوں پر فوقیت نہیں دیتا اور “لیڈیز فرسٹ” انگریزی کا مقولہ ہے، مثلاً: چند مردوں کو روٹی لینا ہے، قطار میں کھڑے ہیں، ایک عورت آئی اس کو پہلے روٹی مل گئی تو شوہر کے بقول یہ ان تینوں کے حقوق غصب کرنا ہے۔ لیکن میرا موقف یہ ہے کہ مقولہ اگرچہ انگریز کا ہے لیکن اس میں عورت کا احترام ہے، ایسا ہونا چاہئے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

سوم:… یہ کہ عورت اپنے باپ اور سگے بھائی سے بھی زیادہ دیر بات نہ کرے اور نہ مذاق کرے، بس بقدرِ ضرورت سلام دُعا اور خیریت دریافت کرسکتی ہے۔ جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ ان کی یہ بات نامناسب ہے، پردے سے انکار نہیں لیکن ایک حد تک۔

چہارم:… عورت کا بازار جانا حرام ہے، جبکہ میں نے سنا ہے کہ “عورت کا وہ سفر جو شرعی سفر ہو وہ محرَم کے بغیر کرنا حرام ہے” تو کیا عورت بقدرِ ضرورت کپڑا وغیرہ خریدنے کے لئے بازار نہیں جاسکتی، جبکہ مردوں اور عورتوں کی پسند میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اب عورت پردے کے ساتھ بازار جائے تو کیا حرج ہے، منہ کا چھپانا واجب نہیں مستحب ہے۔

پنجم:… کیا عورت کا پردہ جتنا اجنبی غیرمحرَم سے ضروری ہے اتنا ہی پردہ رشتہ دار نامحرَم (مثلاً چچازاد، ماموں زاد وغیرہ) سے بھی ضروری ہے؟ کیا اس میں کوئی فرق ہے؟ حالانکہ ان سے پردے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔

ج… پردے کے مسئلے میں آپ اور آپ کے شوہر دونوں راہِ اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔

۱:… عورت کی شرم و حیا کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ کسی وقت بھی کھلے سر نہ رہے، لیکن باپ، بھائی، بیٹا، بھتیجا وغیرہ جتنے محرَم ہیں ان کے سامنے سر، گردن، بازو اور گھٹنے سے نیچے کا حصہ کھولنا شرعاً جائز ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی اجازت دی ہو اس پر ناگواری کا اظہار شوہر کے لئے حرام اور ناجائز ہے۔ البتہ اگر کوئی محرَم ایسا بے حیا ہو کہ اس کو عزّت و ناموس کی پروا نہ ہو، وہ نامحرَم کے حکم میں ہے اور اس سے پردہ کرنا ہی چاہئے۔

۲:… عورت یا ماں ہے، یا بیٹی ہے، یا بہن ہے، یا بیوی ہے، اور یہ چاروں رشتے نہایت مقدس و محترم ہیں۔ اس لئے اسلام عورت کی بے حرمتی کی تلقین ہرگز نہیں کرتا، بلکہ اس کی عزّت و احترام کی تلقین کرتا ہے، معلوم ہوگا کہ حاتم طائی کی لڑکی جب قیدیوں میں برہنہ سر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ردائے مبارک اوڑھنے کے لئے مرحمت فرمائی۔ اسی طرح اگر عورت کی ضرورت کو مردوں سے پہلے نمٹادیا جائے تو یہ اس کے ضعف و نسوانیت کی رعایت ہے، اس کو انگریزی مقولہ “لیڈیز فرسٹ” سے کوئی تعلق نہیں۔ معلوم ہوگا کہ جہاد میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ البتہ “لیڈیز فرسٹ” کے نظریے کے مطابق انگریزی معاشرے میں عورتوں کو جو ہر چیز میں مقدم کیا جاتا ہے اسلام اس کا قائل نہیں۔ چنانچہ نماز میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی گئی ہیں، اس لئے “لیڈیز فرسٹ” کا نظریہ بھی غلط ہے، اور آپ کے شوہر کا یہ موقف بھی غلط ہے کہ عورت کا احترام نہ کیا جائے اور اس کے ضعف و نسوانیت کی رعایت کرتے ہوئے اس کو پہلے فارغ نہ کیا جائے۔

۳:… جن محارِم سے پردہ نہیں، ان سے بلاتکلف گفتگو کی اجازت ہے۔ آپ کے شوہر کا یہ کہنا کہ: “ان سے زیادہ بات نہ کی جائے” صحیح نہیں، بلکہ افراط ہے، البتہ ناروا مذاق کرنے کی اپنے محارِم کے ساتھ بھی اجازت نہیں۔

۴:… عورت کا بغیر ضرورت کے بازاروں میں جانا جائز نہیں، اور غیرمردوں کے سامنے چہرہ کھولنا بھی جائز نہیں، اس مسئلے میں آپ کی بات غلط ہے اور یہ تفریط ہے، عورت کو اگر بازار جانے کی ضرورت ہو تو گھر سے نکلنے کے بعد گھر آنے تک پردے کی پابندی لازم ہے، جس میں چہرے کا ڈھکنا بھی لازم ہے۔

۵:… اجنبی نامحرموں سے چاردیواری کا پردہ ہے، اور جو نامحرَم رشتہ دار ہوں اور عورت ان کے سامنے جانے پر مجبور ہو ان سے چادر کا پردہ لازم ہے۔ اس کی تفصیل حضرت تھانوی کے رسالہ “تعلیم الطالب” سے نقل کرتا ہوں، اور وہ یہ ہے:

“جو رشتہ دار شرعاً محرَم نہیں، مثلاً: خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد بھائی یا بہنوئی، یا دیور وغیرہ، جوان عورت کو ان کے رُوبرو آنا اور بے تکلف باتیں کرنا ہرگز نہ چاہئے۔ جو مکان کی تنگی یا ہر وقت کی آمد و رفت کی وجہ سے گہرا پردہ نہ ہوسکے تو سر سے پاوٴں تک تمام بدن کسی میلی چادر سے ڈھانک کر شرم و لحاظ سے بہ ضرورت رُوبرو آجائے، اور کلائی، بازو اور سر کے بال اورپنڈلی ان سب کا ظاہر کرنا حرام ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے رُوبرو عطر لگاکر عورت کو آنا جائز نہیں اور نہ بجتا ہوا زیور پہنے۔” (تعلیم الطالب ص:۵)

عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کام کرنا

س… آج کے دور میں جس طرح عورت، مرد کے شانہ بشانہ چل رہی ہے، وہ ہر کام جو اسلامی نقطہٴ نظر سے صحیح تصوّر نہیں کیا جاتا، اس میں بھی عورت نے ہاتھ ڈالا ہوا ہے، پوچھنا یہ چاہتی ہوں کہ کیا یہ عورت کا شانہ بشانہ کام، اسلام میں جائز ہے؟

ج… اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا دائرہٴ کار الگ الگ بنایا ہے، عورت کے کام کا میدان اس کا گھر ہے، اور مرد کا میدانِ عمل گھر سے باہر ہے۔ جو کام مرد کرسکتا ہے، عورت نہیں کرسکتی، اور جو عورت کرسکتی ہے، مرد نہیں کرسکتا۔ دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ جو لوگ مرد کا بوجھ عورت کے نحیف کندھوں پر ڈالتے ہیں وہ عورت پر ظلم کرتے ہیں۔

کیا پردہ ضروری ہے یا نظریں نیچی رکھنا ہی کافی ہے؟

س… پردہ سے متعلق “چہرہ کھلا رکھ لینا” اور نظریں نیچی رکھ لینا ہی شرعی پردہ ہے یا ظاہراً چہرہ چھپانا بھی ضروری ہے؟ کسی ایک صوبے کے سابق ڈی آئی جی ایک رات بات چیت کے دوران مصر تھے کہ سورہٴ نور میں صرف نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے، پردے کا نہیں، کیونکہ اس میں تو مردوں سے بھی نگاہ نیچی رکھنے کا کہا ہے پھر مرد کو بھی برقع پہننا چاہئے۔

ج… شرعاً چہرے کا پردہ لازم ہے، یہ غلط ہے کہ سورہٴ نور میں صرف نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے، یہ حکم تو مردوں اور عورتوں کو یکساں دیا گیا ہے، عورتوں کو مزید برآں ایک حکم یہ دیا گیا کہ سوائے ان حصوں کے جن کا اظہار ناگزیر ہے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد صحابی عورتیں پورا چہرہ چھپاکر صرف ایک آنکھ کھلی رکھ کر نکلتی تھیں۔ علاوہ ازیں سورہٴ احزاب میں حکم دیا گیا ہے کہ اپنی چادریں اپنے گریبانوں پر لٹکالیا کریں یعنی گھونگھٹ نکالیں، چہروں اور سینوں کو چھپائیں۔

بہنوئی وغیرہ سے کتنا پردہ کیا جائے؟

س… کیا قریبی رشتہ دار جو غیرمحرَم ہیں، مثلاً: بہنوئی وغیرہ سے اس طرح کا پردہ کیا جاسکتا ہے کہ نظریں نیچی رکھ لے، چہرہ کھلا رکھ لیں؟ یا گھونگھٹ میں غیرمحرَم سے گفتگو کرنا کیسا ہے؟

ج… قریبی نامحرموں سے گھونگھٹ کیا جائے، اور بہنوئی سے بے تکلفی کی بات نہ کی جائے۔

چہرہ چھپانا پردہ ہے، تو حج پر کیوں نہیں کیا جاتا؟

س… چہرہ چھپانا پردہ ہے تو پھر حج کے موقع پر پردہ کیوں نہیں؟ اسی طرح ایک حدیث کا مفہوم، کم و بیش مجھے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، یہ ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا: میں شادی کر رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: جاکر اسے دیکھ کر آوٴ۔ اس طرح اس حدیث سے بھی چہرہ کھلا رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ذرا اس کی بھی وضاحت فرمادیں تاکہ عقلی تشنگی بھی دُور ہوسکے۔

ج… اِحرام میں عورت کو چہرہ ڈھکنا جائز نہیں، پردے کا پھر بھی حکم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، نامحرموں کی نظر چہرے پر نہ پڑنے دے۔ جس عورت سے نکاح کرنا ہو، اس کو ایک نظر دیکھ لینے کی اجازت ہے، لیکن ان دونوں باتوں سے یہ نتیجہ نکال لینا غلط ہے کہ اسلام میں چہرے کا پردہ ہی نہیں۔

پردے کے لئے موٹی چادر بہتر ہے یا مروّجہ برقع؟

س… پردے کے لئے موٹی چادر بہتر ہے یا آج کل کا برقع یا گول ٹوپی والے پُرانے برقعے؟

ج… اصل یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن مع چہرے کے ڈھکا ہوا ہونا ضروری ہے، اس کے لئے بڑی چادر جس سے سر سے پاوٴں تک بدن ڈھک جائے کافی ہے، مگر چادر کا سنبھالنا عورت کے لئے مشکل ہوتا ہے، اس لئے شرفاء نے چادر کو برقع کی شکل دی، پُرانے زمانے میں ٹوپی والے برقعے کا رواج تھا، اب نقاب والے برقع نے اس کی جگہ لے لی ہے۔

کیا دیہات میں بھی پردہ ضروری ہے؟

س… چونکہ ہم لوگ دیہات میں رہتے ہیں، دیہات میں پردے کا انتظام نہیں، یعنی رواج نہیں۔ زیادہ کھیتی باڑی کا کام ہے اس لئے عورتوں کو مردوں کے ساتھ ساتھ کام کرنا ہوتا ہے اور گھر کا کام بھی۔ پانی بھرنا اور استعمال کی چیزیں بھی عورتیں ہی خریدتی ہیں اور یہ تو عرصہ دراز سے کام چل رہا ہے اور عورتیں صرف دوپٹہ اوڑھ کر باہر نکلتی ہیں، اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ذرا وضاحت سے تحریر کریں۔

ج… پردہ ہونا تو چاہئے کہ شرعی حکم ہے، ہمارے دیہات میں اس کا رواج نہیں، تو یہ شریعت کے خلاف ہے۔

کیا چہرے کا پردہ بھی ضروری ہے؟

س… عورتوں کے پردے کے بارے میں جواب دیا گیا کہ چہرہ کھلا رکھ سکتی ہیں، لیکن زیب و آرائش نہ کریں تاکہ کشش نہ ہو، کیا چہرے کا پردہ نہیں ہے؟

ج… شرعاً چہرے کا پردہ لازم ہے، خصوصاً جس زمانے میں دِل اور نظر دونوں ناپاک ہوں، تو ناپاک نظروں سے چہرے کی آبرو کو بچانا لازم ہے۔

کسی کا عمل حجت نہیں، شرعی حکم حجت ہے

س… اسلام میں مسلمانوں کے لئے نامحرَم سے بات تو درکنار ایک سر کا بال تک نہیں دیکھنا چاہئے، لیکن “جنگ” اخبار میں اتوار ۳۰/جولائی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں ایک تصویر چھپی ہے جس میں دِکھایا گیا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کے سابق اِمام السید اسعد بیوض تمیمی سے لاہور میں ایک خاتون مصافحہ کر رہی ہے۔ اس تصویر کو لاکھوں مسلمانوں نے دیکھا ہوگا اور ہم جیسے کچی عمر کے بچے تو یہی سمجھیں گے کہ عورت سے یعنی نامحرَم عورت سے ہاتھ ملانا گناہ نہیں ہے، جبکہ یہ سابق اِمام السید اسعد بیوض تمیمی صاحب نامحرَم سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ آپ اس بارے میں ذرا واضح کردیں کہ یہ اِمام صاحب صحیح کر رہے ہیں جبکہ یہ سیّد بھی ہیں؟ بہت نوازش ہوگی آپ کی۔

ج… آج کل کی جدید عربی میں “السید”، “جناب” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو عرب ممالک کے دورے پر گئے تھے، بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ عرب اخبارات ان کی خبریں “السید نہرو” کے نام سے چھاپتے تھے۔

اسلامی نقطہٴ نظر سے نامحرَم کے ساتھ ہاتھ ملانا حرام ہے، اور کسی نامحرَم کے بدن سے مس کرنا ایسا ہے جیسے خنزیر کے خون میں ہاتھوں کو ڈبودیا جائے۔ مسجدِ اقصیٰ کے سابق اِمام کا فعل خلافِ شرع ہے، اور خلافِ شرع کام خواہ کوئی بھی کرے اس کو جائز نہیں کہا جائے گا۔

سفر میں راستہ دیکھنے کے لئے نقاب لگانا

س… سفر میں راستہ دیکھنے کے لئے چہرہ یا آنکھیں کھلی رکھنا مجبوری ہے، کیا اس موقع پر نقاب لگائے؟

ج… جی ہاں! نقاب استعمال کیا جائے۔

نیکر پہن کر اکٹھے نہانا

س… پانی کے کنویں جو بستی کے اندر ہوتے ہیں عام طور پر لوگ وہاں صرف نیکر پہن کر نہاتے ہیں، جبکہ پانی بھرنے کے لئے مرد اور خواتین، بچے سبھی آتے جاتے رہتے ہیں، ایسی صورت میں صرف نیکر پہن کر کنویں پر نہانا جائز ہے یا نہیں؟

ج… یہ طریقہ شرم و حیا کے خلاف ہے، مرد کی رانیں اور گھٹنے ستر میں شمار ہوتے ہیں، ان کو عام مجمع میں کھولنا جائز نہیں۔

عورت اور پردہ

س… کیا خواتین کے لئے ہاکی کھیلنا، کرکٹ کھیلنا، بال کٹوانا اور ننگے سر باہر جانا، کلبوں، سینماوٴں یا ہوٹلوں اور دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کرنا، غیرمردوں سے ہاتھ ملانا اور بے حجابانہ باتیں کرنا، خواتین کا مردوں کی مجالس میں ننگے سر میلاد میں شامل ہونا، ننگے سر اور نیم برہنہ پوشاک پہن کر نعت خوانی غیرمردوں میں کرنا، اسلامی شریعت میں جائز ہے؟ کیا علمائے کرام پر واجب نہیں کہ وہ ان بدعتوں اور غیراسلامی کردار ادا کرنے والی خواتین کے برخلاف حکومت کو انسداد پر مجبور کریں؟

ج… اس سوال کے جواب سے پہلے ایک غیور مسلمان خاتون کا خط بھی پڑھ لیجئے، جو ہمارے مخدوم حضرتِ اقدس ڈاکٹر عبدالحی عارفی مدظلہ کو موصول ہوا، وہ لکھتی ہیں:

“لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوکر پختہ ہوگیا ہے کہ حکومتِ پاکستان پردے کے خلاف ہے، یہ خیال اس کوٹ کی وجہ سے ہوا ہے جو حکومت کی طرف سے حج کے موقع پر خواتین کے لئے پہننا ضروری قرار دے دیا گیا ہے، یہ ایک زبردست غلطی ہے، اگر پہچان کے لئے ضروری تھا تو نیلا برقع پہننے کو کہا جاتا۔

حج کی جو کتاب رہنمائی کے لئے حجاج کو دی جاتی ہے اس میں تصویر کے ذریعے مرد، عورت کو اِحرام کی حالت میں دِکھایا گیا ہے، اوّل تو تصویر ہی غیراسلامی فعل ہے، دُوسرے عورت کی تصویر کے نیچے ایک جملہ لکھ کر ایک طرح سے پردے کی فرضیت سے انکار ہی کردیا، وہ تکلیف دہ جملہ یہ ہے کہ: “اگر پردہ کرنا ہو تو منہ پر کوئی آڑ رکھیں تاکہ منہ پر کپڑا نہ لگے” یہ تو دُرست مسئلہ ہے، لیکن “اگر پردہ کرنا ہو” کیوں لکھا گیا؟ پردہ تو فرض ہے؟ پھر کسی کی پسند یا ناپسند کا کیا سوال؟ بلکہ پردہ پہلے فرض ہے حج بعد کو۔ کھلے چہرے ان کی تصویروں کے ذریعے اخبارات میں نمائش، ٹی وی پر نمائش، یہ سب پردے کے اَحکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ فلم کے پردے پر اسلام اور اسلامی شعائر کی اس قدر توہین و استہزاء ہو رہا ہے اور علمائے کرام اسلام تماشائی بنے بیٹھے ہیں، سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور بدی کے خلاف، بدی کو مٹانے کے لئے اللہ کے اَحکام سنا سناکر پیروی کروانے کا فریضہ ادا نہیں کرتے، خدا کے فضل و کرم سے پاکستان اور تمام مسلم ممالک میں علماء کی تعداد اتنی ہے کہ ملت کی اصلاح کے لئے کوئی دِقت پیش نہیں آسکتی، جب کوئی بُرائی پیدا ہو اس کو پیدا ہوتے ہی کچلنا چاہئے، جب جڑ پکڑ جاتی ہے تو مصیبت بن جاتی ہے۔ علماء ہی کا فرض ہے کہ ملت کو بُرائیوں سے بچائیں، اپنے گھروں کو علماء رائج الوقت بُرائیوں سے بچائیں، اپنی ذات کو بُرائیوں سے دُور رکھیں تاکہ اچھا اثر ہو۔

تعلیمی ادارے جہاں قوم بنتی ہے غیراسلامی لباس اور غیرزبان میں ابتدائی تعلیم کی وجہ سے قوم کے لئے سودمند ہونے کے بجائے نقصان کا باعث ہیں۔ معلّم اور معلّمات کو اسلامی عقائد اور طریقے اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے، طالبات کے لئے چادر ضروری قرار دی گئی، لیکن گلے میں پڑی ہے، چادر کا مقصد جب ہی پورا ہوسکتا ہے جب معمر خواتین باپردہ ہوں، بچیوں کے ننھے ننھے ذہن چادر کو بار تصوّر کرتے ہیں، جب وہ دیکھتی ہیں معلمہ اور اس کی اپنی ماں گلی بازاروں میں سر برہنہ، نیم عریاں لباس میں ہیں تو چادر کا بوجھ کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگتا ہے۔ بے پردگی ذہنوں میں جڑ پکڑ چکی ہے، ضرورت ہے کہ پردے کی فرضیت واضح کی جائے، اور بڑے لفظوں میں پوسٹر چھپواکر تقسیم بھی کئے جائیں، اور مساجد، طبّی ادارے، تعلیمی ادارے، مارکیٹ جہاں خواتین ایک وقت میں زیادہ تعداد میں شریک ہوتی ہیں، شادی ہال وغیرہ وہاں پردے کے اَحکام اور پردے کی فرضیت بتائی جائے۔ بے پردگی پر وہی گناہ ہوگا جو کسی فرض کو ترک کرنے پر ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، ہمارے معاشرے میں ننانوے فیصد بُرائیاں بے پردگی کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں، اور جب تک بے پردگی ہے بُرائیاں بھی رہیں گی۔

راجہ ظفرالحق صاحب مبارک ہستی ہیں، اللہ پاک ان کو مخالفتوں کے سیلاب میں ثابت قدم رکھیں، آمین! ٹی وی سے فحش اشتہار ہٹائے تو شور برپا ہوگیا، ہاکی ٹیم کا دورہ منسوخ ہونے سے ہمارے صحافی اور کالم نویس رنجیدہ ہوگئے ہیں۔

جو اخبار ہاتھ لگے، دیکھئے، جلوہٴ رقص و نغمہ، حسن و جمال، رُوح کی غذا کہہ کر موسیقی کی وکالت! کوئی نام نہاد عالم ٹائی اور سوٹ کو بین الاقوامی لباس ثابت کرکے اپنی شناخت کو بھی مٹا رہے ہیں، ننھے ننھے بچے ٹائی کا وبال گلے میں ڈالے اسکول جاتے ہیں، کوئی شعبہ زندگی کا ایسا نہیں جہاں غیروں کی نقل نہ ہو۔

راجہ صاحب کو ایک قابلِ قدر ہستی کی مخالفت کا بھی سامنا ہے، اس معزّز ہستی کو اگر پردے کی فرضیت اور افادیت سمجھائی جائے تو اِن شاء اللہ مخالفت، موافقت کا رُخ اختیار کرلے گی۔ عورت سرکاری محکموں میں کوئی تعمیری کام اگر اسلام کے اَحکام کی مخالفت کرکے بھی کر رہی ہے تو وہ کام ہمارے مرد بھی انجام دے سکتے ہیں بلکہ سرکار کے سرکاری محکموں میں تقرّر مرد طبقے کے لئے تباہ کن ہے، مرد طبقہ بے کاری کی وجہ سے یا تو جرائم کا سہارا لے رہا ہے یا ناجائز طریقے اختیار کرکے غیرممالک میں ٹھوکریں کھا رہا ہے۔”

بدقسمتی سے دورِ جدید میں عورتوں کی عریانی و بے حجابی کا جو سیلاب برپا ہے، وہ تمام اہلِ فکر کے لئے پریشانی کا موجب ہے، مغرب اس لعنت کا خمیازہ بھگت رہا ہے، وہاں عائلی نظام تلپٹ ہوچکا ہے، شرم و حیا اور غیرت و حمیت کا لفظ اس کی لغت سے خارج ہوچکا ہے۔ اور حدیثِ پاک میں آخری زمانے میں انسانیت کی جس آخری پستی کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: “وہ چوپایوں اور گدھوں کی طرح سرِ بازار شہوت رانی کریں گے” اس کے مناظر بھی وہاں سامنے آنے لگے ہیں۔ اِبلیسِ مغرب نے صنفِ نازک کو خاتونِ خانہ کے بجائے شمعِ محفل بنانے کے لئے “آزادیٴ نسواں” کا خوبصورت نعرہ بلند کیا۔ ناقصات العقل والدِّین کو سمجھایا گیا کہ پردہ ان کی ترقی میں حارج ہے، انہیں گھر کی چاردیواری سے نکل کر زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے۔ اس کے لئے تنظیمیں بنائی گئیں، تحریکیں چلائی گئیں، مضامین لکھے گئے، کتابیں لکھی گئیں، اور پردہ جو صنفِ نازک کی شرم و حیا کا نشان، اس کی عفت و آبرو کا محافظ، اور اس کی فطرت کا تقاضا تھا، اس پر “رجعت پسندی” کے آوازے کسے گئے، اس مکروہ ترین اِبلیسی پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ حوّا کی بیٹیاں اِبلیس کے دامِ تزویر میں آگئیں، ان کے چہرے سے نقاب نوچ لی گئی، سر سے دوپٹہ چھین لیا گیا، آنکھوں سے شرم و حیا لوٹ لی گئی، اور اسے بے حجاب و عریاں کرکے تعلیم گاہوں، دفتروں، اسمبلیوں، کلبوں، سڑکوں، بازاروں اور کھیل کے میدانوں میں گھسیٹ لیا گیا، اس مظلوم مخلوق کا سب کچھ لٹ چکا ہے، لیکن اِبلیس کا جذبہٴ عریانی و شہوانی ہنوز تشنہ ہے۔

مغرب، مذہب سے آزاد تھا، اس لئے وہاں عورت کو اس کی فطرت سے بغاوت پر آمادہ کرکے مادر پدر آزادی دِلا دینا آسان تھا، لیکن مشرق میں اِبلیس کو دُہری مشکل کا سامنا تھا، ایک عورت کو اس کی فطرت سے لڑائی لڑنے پر آمادہ کرنا، اور دُوسرے تعلیماتِ نبوّت، جو مسلم معاشرے کے رگ و ریشہ میں صدیوں سے سرایت کی ہوئی تھیں، عورت اور پورے معاشرے کو ان سے بغاوت پر آمادہ کرنا۔

ہماری بدقسمتی، مسلم ممالک کی نکیل ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو “ایمان بالمغرب” میں اہلِ مغرب سے بھی دو قدم آگے تھے، جن کی تعلیم و تربیت اور نشوونما خالص مغربیت کے ماحول میں ہوئی تھی، جن کے نزدیک دِین و مذہب کی پابندی ایک لغو اور لایعنی چیز تھی اور جنھیں نہ خدا سے شرم تھی، نہ مخلوق سے۔ یہ لوگ مشرقی روایات سے کٹ کر مغرب کی راہ پر گامزن ہوئے، سب سے پہلے انہوں نے اپنی بہو، بیٹیوں، ماوٴں، بہنوں اور بیویوں کو پردہٴ عفت سے نکال کر آوارہ نظروں کے لئے وقفِ عام کیا، ان کی دُنیوی وجاہت و اقبال مندی کو دیکھ کر متوسط طبقے کی نظریں للچائیں، اور رفتہ رفتہ تعلیم، ملازمت اور ترقی کے بہانے وہ تمام اِبلیسی مناظر سامنے آنے لگے جن کا تماشا مغرب میں دیکھا جاچکا تھا۔ عریانی و بے حجابی کا ایک سیلاب ہے، جو لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا ہے، جس میں اسلامی تہذیب و تمدن کے محلات ڈُوب رہے ہیں، انسانی عظمت و شرافت اور نسوانی عفت و حیا کے پہاڑ بہہ رہے ہیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سیلاب کہاں جاکر تھمے گا اور انسان، انسانیت کی طرف کب پلٹے گا؟ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ جب تک خدا کا خفیہ ہاتھ قائدینِ شر کے وجود سے اس زمین کو پاک نہیں کردیتا، اس کے تھمنے کا کوئی امکان نہیں: “رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا!”

جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے، عورت کا وجودہ فطرةً سراپا ستر ہے اور پردہ اس کی فطرت کی آواز ہے۔

حدیث میں ہے:

“المرأة عورة، فاذا خرجت استشرفھا الشیطان۔”

(مشکوٰة ص:۲۶۹ بروایت ترمذی)

ترجمہ:… “عورت سراپا ستر ہے، پس جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک کرتا ہے۔”

اِمام ابونعیم اصفہانی نے حلیة الاولیاء میں یہ حدیث نقل کی ہے:

“عن أنس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما خیر للنساء؟ – فلم ندر ما نقول – فجاء علی رضی الله عنہ الٰی فاطمة رضی الله عنھا فاخبرھا بذٰلک، فقالت: فھلا قلت لہ خیرٌ لھنّ ان لا یرین الرجال ولا یرونھنّ۔ فرجع فأخبرہ بذٰلک، فقال لہ: من علّمک ھٰذا؟ قال: فاطمة! قال: انھا بضعة منّی۔

سعید بن المسیّب عن علیّ رضی الله عنہ انّہ قال لفاطمة: ما خیر للنساء؟ قالت: لا یرین الرجال ولا یرونھنّ، فذکر ذٰلک للنبی صلی الله علیہ وسلم فقال: انما فاطمة بضعة منی۔” (حلیة الاولیاء ج:۲ ص:۴۰، ۴۱)

ترجمہ:… “حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا: بتاوٴ! عورت کے لئے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب نہ سوجھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں سے اُٹھ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے اسی سوال کا ذکر کیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ لوگوں نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ان کو کوئی دیکھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واپس آکر یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جواب تمہیں کس نے بتایا؟ عرض کیا: فاطمہ نے! فرمایا: فاطمہ آخر میرے جگر کا ٹکڑا ہے ناں۔

سعید بن مسیب، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ: عورتوں کے لئے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ فرمانے لگیں: یہ کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ مرد ان کو دیکھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا تو فرمایا: واقعی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔”

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اِمام ہیثمی نے “مجمع الزوائد” (ج:۹ ص:۲۰۳) میں بھی مسندِ بزار کے حوالے سے نقل کی ہے۔

موجودہ دور کی عریانی اسلام کی نظر میں جاہلیت کا تبرّج ہے، جس سے قرآنِ کریم نے منع فرمایا ہے، اور چونکہ عریانی قلب و نظر کی گندگی کا سبب بنتی ہے، اس لئے ان تمام عورتوں کے لئے بھی جو بے حجابانہ نکلتی ہیں اور ان مردوں کے لئے بھی جن کی ناپاک نظریں ان کا تعاقب کرتی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“لعن الله الناظر والمنظور الیہ۔”

ترجمہ:… “اللہ تعالیٰ کی لعنت دیکھنے والے پر بھی اور جس کی طرف دیکھا جائے اس پر بھی۔”

عورتوں کا بغیر صحیح ضرورت کے گھر سے نکلنا، شرفِ نسوانیت کے منافی ہے، اور اگر انہیں گھر سے باہر قدم رکھنے کی ضرورت پیش ہی آئے تو حکم ہے کہ ان کا پورا بدن مستور ہو۔

مرد کا ننگے سر پھرنا انسانی مروّت و شرافت کے خلاف ہے اور عورت کے لئے گناہِ کبیرہ ہے

س… میرے ذہن میں بچپن ہی سے ایک سوال ہے کہ اسلام میں ننگے سر، سرِ عام پھرنا جائز ہے؟ میں دس سال کا بچہ ہوں اور مجھے لکھنا بھی صحیح نہیں آتا، مہربانی فرماکر غلطیاں نکال دیں۔ میرے خط کا جواب ضرور دیں، شکریہ۔

ج… تمہارے خط کی غلطیاں تو ہم نے ٹھیک کرلیں، مگر تمہارا سوال اتنا اہم ہے کہ کسی طرح یقین نہیں آتا کہ یہ سوال دس سال کے بچے کا ہوسکتا ہے۔

لو! اب جواب سنو! اسلام بلند اخلاق و کردار کی تعلیم دیتا ہے اور گھٹیا اخلاق و معاشرت سے منع کرتا ہے، ننگے سر بازاروں اور گلیوں میں نکلنا اسلام کی نظر میں ایک ایسا عیب ہے جو اِنسانی مروّت و شرافت کے خلاف ہے، اس لئے حضراتِ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اسلامی عدالت ایسے شخص کی شہادت قبول نہیں کرے گی۔ مسلمانوں میں ننگے سر پھرنے کا رواج انگریزی تہذیب و معاشرت کی نقالی سے پیدا ہوا ہے، ورنہ اسلامی معاشرت میں ننگے سر پھرنے کو عیب تصوّر کیا جاتا ہے، اور یہ حکم مردوں کا ہے۔ جبکہ عورتوں کا برہنہ سر، کھلے بندوں پھرنا اور کھلے بندوں بازاروں میں نکلنا صرف عیب ہی نہیں بلکہ گناہِ کبیرہ ہے۔

نابالغ بچی کو پیار کرنا

س… ایک بچی جو تیسری کلاس میں پڑھتی ہے میں اس کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، وہ بچی میرے کو بہت اچھی لگتی ہے، کبھی کبھی میں اس سے پیار بھی کرلیتا ہوں، لیکن پھر خوفِ خدا سے دِل کانپ کر رہ جاتا ہے، پھر سوچتا ہوں یہ تو بچی ہے۔ آپ سے اِلتماس ہے کہ اتنی چھوٹی بچی سے پیار کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… اگر دِل میں غلط خیال آئے تو اس سے پیار کرنا جائز نہیں، بلکہ ایسی صورت میں اس کو پڑھانا بھی جائز نہیں۔

ٹی وی کے تفہیمِ دِین پروگرام میں عورت کا غیرمحرَم مرد کے سامنے بیٹھنا

س… ٹیلی ویژن کے پروگرام تفہیمِ دِین میں خواتین شرکاء بھی ہوتی ہیں جو اسلامی سوالات کے جواب دیتی ہیں، لیکن خود ایک غیرمحرَم مرد کے سامنے منہ کھولے بیٹھی ہوتی ہیں۔ کیا یہ اسلام میں منع نہیں ہے؟

ج… اسلام میں تو منع ہے، لیکن شاید ٹیلی ویژن کا اسلام کچھ مختلف ہوگا۔

کیا غیرمسلم عورت سے پردہ کرنا چاہئے؟

س… ایک غیرمسلم نوکرانی جو گھر میں کام کرتی ہے، مسلمان عورت کو اس سے کیا پردہ کرنا چاہئے؟ کیونکہ اسلام کی رُو سے غیرمسلم عورت مرد کے حکم میں آتی ہے۔ قرآن میں عورتوں کو پردے کے بارے میں یہ الفاظ بھی ہیں: جو انہی کی طرح کی عورتیں ہوں ان سے پردہ نہیں کرنا چاہئے، “انہیں کی قسم کی عورتوں” کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ پردہ دار ہوں یا مسلمان عورتیں ہوں؟

ج… ان کا حکم نامحرَم مردوں کا ہے، ان کے سامنے چہرہ، ہاتھ اور پاوٴں کھول سکتی ہیں، باقی پورا وجود ڈھکا رہنا چاہئے۔

عورتوں کا نیوی میں بھرتی ہونا شرعاً کیسا ہے؟

س… پچھلے جمعہ کے روزنامہ “جنگ” میں ایک اشتہار شائع ہوا، جو پاکستان نیوی (بحریہ) میں عورتوں کی بھرتی کے بارے میں تھا۔ لکھا ہے کہ پاکستان نیوی میں خواتین سیلرز وردی پہن کر ڈیوٹی مثلاً: کلرک وغیرہ بھرتی کرنا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں اور بالخصوص پاکستان میں جہاں اسلامی نظام رائج کرنے کی کوششیں جاری ہیں، عورتوں کا بھرتی کرنا یا کام کرنا جائز ہے؟ دُوسری بات یہ ہے کہ یہ خواتین وردی پہنیں گی، آپ کو علم ہوگا کہ وردی پہننے سے (جو تنگ لباس ہوتا ہے) عورت کے لئے بے پردگی ہوگی، بالخصوص عورت کی قمیص تنگ ہوگی، اس کے اعضائے زینت دُور سے نظر آئیں گے، کیا یہ ناجائز نہیں؟

ج… کیا اس کا ناجائز ہونا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات ہے؟ عورتیں اسپتالوں میں نرسنگ کر رہی ہیں، جہازوں میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہی ہیں وغیرہ وغیرہ، یہ سب کچھ جائز ہی سمجھ کر کیا جارہا ہے۔

بالغ لڑکی کو پردہ کرانا، ماں باپ کی ذمہ داری ہے

س… شرعی رُو سے لڑکی کو پردہ کرانا کس کے ذمہ ہے، ماں کے یا باپ کے؟

ج… بچی کو جب وہ بالغ ہوجائے پردہ کرانا ماں باپ کی ذمہ داری ہے، اور خود بھی اس پر فرض ہے۔

عورتوں کو گھر میں ننگے سر بیٹھنا کیسا ہے؟

س… کیا عورتیں گھر میں ننگے سر بیٹھ سکتی ہیں؟

ج… کوئی غیرمحرَم نہ ہو تو عورت گھر میں سر ننگا کرسکتی ہے۔

کیا بیوی کو نیم عریاں لباس سے منع کرنا اس کی دِل شکنی ہے؟

س… اگر بیوی نیم عریاں لباس پہنے مثلاً: ساڑھی وغیرہ جس میں اس کا پیٹ ناف تک کھلا ہوتا ہے، تو اس کا شوہر اس کو منع کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ ڈانٹ کر منع کردیتا ہے، اس پر بیوی روتی ہے، تو کیا یہ دِل شکنی ہوگی اور یہ گناہ ہوگا یا نہیں؟

ج… بیوی اگر گناہ میں مبتلا ہو تو شوہر پر لازم ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اگر ڈانٹنے سے اصلاح ہوسکتی ہے تو یہ بھی کرے۔ اگر ایمان شکنی ہوتی ہوئی دیکھے تو دِل شکنی کی پروا نہ کرے۔

فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو بھائی بہن گلے مل سکتے ہیں

س… بھائی بہن ایک دُوسرے کے گلے لگ کر مل سکتے ہیں؟

ج… فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو ٹھیک ہے۔

عورت کی آواز بھی شرعاً ستر ہے

س… بعض برادریوں میں شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً عورتوں کی مجالس ہوتی ہیں، جن میں عورتیں جمع ہوتی ہیں اور لاوٴڈ اسپیکر پر ایک عورت وعظ و نصیحت کرتی ہے، خوش الحانی سے نعتیں پڑھی جاتی ہیں، غیرمرد سنتے ہیں اور خوش الحانی سے پڑھی گئی نعتوں میں لذّت لیتے ہیں۔ یہ مجالس آیا ناجائز ہیں یا جائز؟ اگر غیرمرد اس میں دِلچسپی لیں تو اس کا گناہ منتظمین پر ہوتا ہے یا نہیں؟ اس مقصد کے لئے صحیح لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟

ج… عورت کی آواز شرعاً ستر ہے اور غیرمردوں کو اس کا سننا اور سنانا جائز نہیں، خصوصاً جبکہ موجبِ فتنہ ہو۔ جلسے کے منتظمین، یہ گانے والیاں اور سننے والے سبھی گناہگار ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی اور بددُعا کے مستحق ہیں۔

س… شریعت میں عورت کی آواز کو بھی ستر قرار دیا گیا ہے، لیکن بازار جانے کی صورت میں خواتین اس کی پابند نہیں رہ سکتیں، ویسے بھی اللہ کے نزدیک بازار سب سے ناپسندیدہ جگہ ہے۔ اکثر خواتین کو ہمارے مرد بھائیوں نے بازار جانے پر خود مجبور کر رکھا ہے، کیا بحالت شدید مجبوری ایک پردہ دار خاتون اشیائے ضرورت کی خریداری کرسکتی ہے؟ اور ایسا کرنے پر وہ گناہ کی تو مرتکب نہ ہوگی؟

ج… اصل تو یہی ہے کہ عورت بازار نہ جائے، لیکن اگر ضرورت ہو تو پردے کی پابندی کے ساتھ خرید و فروخت کرسکتی ہے، مگر نامحرَم کے سامنے آواز میں لچک پیدا نہ ہو۔

غیرمحرَم عورت کی میّت دیکھنا اور اس کی تصویر کھینچنا جائز نہیں

س… کیا مری ہوئی عورت کا چہرہ عام آدمی کو دِکھانا، تصویر کھینچنا جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

ج… غیرمحرَم کو دیکھنا جائز نہیں، اور تصویر لینا بھی جائز نہیں۔

لیڈی ڈاکٹر سے بچے کا ختنہ کروانا

س… ہمارے ہاں میٹرنٹی ہوم میں لڑکے کا ختنہ لیڈی ڈاکٹر کرتی ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی اہمیت اور اس کے جائز و ناجائز ہونے کا تعین کریں کیونکہ بعض لوگ اس کو غلط اور مکروہ کہتے ہیں۔

ج… شرعاً کوئی حرج نہیں۔

خالہ زاد یا چچازاد بھائی سے ہاتھ ملانا اور اس کے سینے پر سر رکھنا

س… اسلام کے نزدیک خالہ زاد، چچازاد وغیرہ جیسے رشتوں میں کس قسم کا تعلق جائز ہے؟ فرض کریں نسرین اور اکبر آپس میں خالہ زاد ہیں اور آپس میں بالکل بہن بھائیوں کی طرح پیار کرتے ہیں، تو کیا یہ دونوں بالکل سگے بہن بھائیوں کی طرح مل سکتے ہیں؟ اکبر جب نسرین کے گھر جاتا ہے تو اس سے مصافحہ کرسکتا ہے اور نسرین اکبر کے سینے پر سر رکھ کر اسے رُخصت یا خوش آمدید کہہ سکتی ہے یا صرف اکبر کا نسرین کے سر پر ہاتھ رکھنا ہی کافی ہے؟

ج… خالہ زاد اور چچازاد بھائیوں کا حکم نامحرَم اجنبی مردوں کا ہے، جن اُمور کا خط میں ذکر ہے یہ ناجائز ہیں۔

سگی چچی جس سے نکاح جائز ہو اس سے پردہ ضروری ہے

س… سگی چچی سے پردے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

ج… سگی چچی بیوہ یا مطلقہ سے شرعاً نکاح جائز ہے تو پردہ بھی لازم ہے۔

بغرضِ علاج اعضائے مستورہ کو دیکھنا اور چھونا شرعاً کیسا ہے؟

س… میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر) کا طالبِ علم ہوں، جسمِ انسانی کی اصلاح ہماری تعلیم و تربیت کا موضوع ہے، تربیت کے زمانے میں ہمیں جسمِ انسانی کے تمام اعضاء کی ساخت سمجھائی جاتی ہے اور تمام اعضائے انسانی میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کی تدابیر پڑھائی جاتی ہیں۔ بعض اوقات بغرضِ علاج اور زیر تربیت ڈاکٹروں کو بغرضِ تربیت مرد و عورت کے مستور حصوں کو دیکھنا پڑتا ہے، مجھے اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بالخصوص عورت (مریضہ) کے مستور اعضاء کو دیکھنا یا ہاتھ لگانا مثلاً عملِ زچگی میں پیش آنے والی بیماریوں کا بغرضِ علاج دیکھنا اور زیر تربیت ڈاکٹروں کا بغرضِ تربیت اس عمل کو دیکھنا جائز ہوگا یا نہیں؟ یاد رہے کہ یہ عمل صرف شدید ضرورت کے وقت بغرضِ علاج اور بغرضِ تربیت کیا جاتا ہے اور کالج کے قواعد اور نصاب کے مطابق تمام زیر تربیت ڈاکٹروں کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ صورتِ مسئولہ کے پیشِ نظر آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ کسی زیر تربیت ڈاکٹر (مرد) کے لئے بغرض تربیت کسی مریضہ کے اندامِ نہانی اور عملِ زچگی کو دیکھنا تاکہ زیر تربیت ڈاکٹر آئندہ بوقتِ ضرورت کسی ایسی عورت (مریضہ) کا علاج یا آپریشن کرسکے جائز ہے یا نہیں؟

ج…

“وفی شرح التنویر: ومداواتھا، ینظر الطبیب الٰی موضع مرضھا بقدر الضرورة۔ اذا لضرورات تتقدر بقدرھا۔ وکذا نظر قابلة وختان۔ وینبغی ان یعلم امرأة تداویھا لأن نظر الجنس الی الجنس اخف۔ وفی الشامیة: قال فی الجوھرة: اذا کان المرض فی سائر بدنھا غیر الفرج یجوز النظر الیہ عند الدوا لأنہ موضع ضرورة۔ وان کان فی موضع الفرج فینبغی ان یعلم امرأة تداویھا، فان لم توجد وخافوا علیھا ان تھلک او یصیبھا وجع لا تحتملہ، یستروا منھا کل شیٴ الا موضع العلة ثم یداویھا الرجل ویغض بصرہ ما استطاع الا عن موضع الجرح ․․․․ الخ۔ فتأمل والظاھر ان ینبغی ھنا للوجوب۔ (رَدّ المحتار ج:۶ ص:۷۱)

ترجمہ:… “اور شرح تنویر میں عورت کے علاج کے سلسلے میں ہے کہ: بقدرِ ضرورت مرد طبیب عورت کی مرض والی جگہ کو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ضرورت کو مقدارِ ضرورت میں محدود رکھا جاتا ہے۔ دائی جنائی اور ختنہ کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے کہ بقدرِ ضرورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ عورت کو عورت کے علاج کا طریقہ سکھایا جائے کیونکہ عورت کا عورت کے حصہٴ مستور کو دیکھنا بہرحال اَخف ہے۔ شامیہ میں جوہرہ کے حوالے سے ہے کہ: جب شرم گاہ کے علاوہ عورت کے کسی حصہٴ بدن میں مرض ہو تو مرد طبیب بغرضِ علاج بقدرِ ضرورت مرض کی جگہ کو دیکھ سکتا ہے۔ اگر شرم گاہ میں بیماری ہو تو کسی خاتون کو اس کا طریقہٴ علاج سمجھا دے، اگر ایسی کوئی عورت نہ ملے یا اس مریضہ کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہو، یا ایسی تکلیف کا اندیشہ ہو کہ جس کا وہ تحمل نہ کرسکے گی تو ایسی صورت میں مرد طبیب پورا بدن ڈھانپ کر بیماری والی جگہ کا علاج کرسکتا ہے، مگر باقی بدن کو نہ دیکھے، حتی الوسع غضِ بصر کرے۔”

ان روایات سے مندرجہ ذیل اُمور مستفاد ہوئے:

۱:… طبیب کے لئے عورت کا علاج ضرورت کی بنا پر جائز ہے۔

۲:… اگر کوئی معالج عورت مل سکے تو اس سے علاج کرانا ضروری ہے۔

۳:… اگر کوئی عورت نہ مل سکے، تو مرد کو چاہئے کہ اعضائے مستورہ خصوصاً شرم گاہ کا علاج کسی عورت کو بتادے، خود علاج نہ کرے۔

۴:… اگر کسی عورت کو بتانا بھی ممکن نہ ہو، اور مریضہ عورت کی ہلاکت یا ناقابلِ برداشت تکلیف کا اندیشہ ہو تو لازم ہے کہ تکلیف کی جگہ کے علاوہ تمام بدن ڈھک دیا جائے، اور معالج کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو زخم کی جگہ کے علاوہ باقی بدن سے غضِ بصر کرے۔

بچہ جنائی کا کام خاص عورتوں کا ہے، اگر معاملہ عورتوں کے قابو سے باہر ہو (مثلاً: آپریشن کی ضرورت ہو اور آپریشن کرنے والی کوئی لیڈی ڈاکٹر بھی موجود نہ ہو) تو شرائطِ مندرجہ بالا کے ساتھ مرد علاج کرسکتا ہے۔ ہمارے یہاں تہذیبِ جدید کے تسلط اور تدین کی کمی کی وجہ سے ان اُمور کی رعایت نہیں کی جاتی اور بلاتکلف نوجوانوں کو زچگی کا عمل ہسپتالوں میں دِکھایا جاتا ہے جو شرعاً و عقلاً قبیح ہے۔ اگر طالبِ علم کو اس پر مجبور کیا جائے تو اس کے سوا کیا مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو قلب و نظر کو بچائے اور اِستغفار کرتا رہے، واللہ اعلم!

کیا ۴۵، ۵۰ سال عمر کی عورت کو ایسے لڑکے سے پردہ کرنا ضروری ہے جو اس کے سامنے جوان ہوا ہو؟

س… کیا ۴۵، ۵۰ سال کی عمر کی عورت پر نامحرَم سے پردہ نہ کرنا صحیح ہے؟ وہ اس لئے کہ ایک عورت ۲۵ سال کی ہے، اس کے محلہ میں کسی کے ولادت ہوئی ہے، آج اس عورت کی عمر پچاس سال ہے، جبکہ اس کے سامنے ہونے والا بچہ آج جوان ہے، اور وہ اس لئے پردہ نہیں کرتی کہ اس کے سامنے پلا اور جوان ہوا، یہ میرا بیٹا اور میں اس کی ماں کے برابر ہوں۔

ج… قرآنِ کریم کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو بڑی بوڑھی نکاح کی میعاد سے گزرگئی ہو وہ اگر غیرمحرَم کے سامنے چہرہ کھول دے، بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں، لیکن پردہ اس کے لئے بھی بہتر ہے۔ اور یہ بات محض فضول ہے کہ: “یہ بچہ تو میرے سامنے پل کر جوان ہوا ہے، اس لئے اس سے پردہ نہیں۔”

برقع کے لئے ہر رنگ کا کپڑا جائز ہے

س… کس قسم کے رنگ کا کپڑا شریعتِ مطہرہ میں برقع کے لئے استعمال کرنا چاہئے؟

ج… ہر قسم کے رنگین کپڑے کا برقع استعمال کرسکتی ہے، اصل چیز ڈھانپنا ہے۔

بے پردگی اور غیراسلامی طرزِ زندگی پر قہرِ الٰہی کا اندیشہ

س… میں آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دِلانا چاہتا ہوں، اُمید ہے کہ آپ بغیر کسی رُو رعایت کے جواب سے مستفیض فرمائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائے، قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “لوگو! تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلی اُمتوں پر، تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاوٴ” اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں مرد اور خواتین ایک دُوسرے سے آزادانہ طور پر ملتے ہیں، خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہٴ زندگی میں کام کر رہی ہیں۔ آج کی عورت بے پردہ ہوکر، بناوٴ سنگھار کے ساتھ بازاروں، گلی کوچوں اور بس اِسٹاپوں غرض کہ ہر جگہ پر اِٹھلاتی نظر آتی ہے، اس بے پردہ عورت کا لباس نیم برہنگی کا احساس دِلاتا ہے اور نیک طینت مرد کی نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “عورتیں اپنی زینت نہ دِکھاتی پھریں” اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت غیرمرد کے سامنے نہ آئے، ہاں! پردے میں رہ کر اپنی ضروری حاجتوں کو پورا کرسکتی ہے، آپ کہیں گے کہ مرد غیرعورت کو دیکھتے ہی کیوں ہیں؟ اور یہی سوال ہر بے پردہ عورت بھی کرتی ہے، میرا استدلال یہ ہے کہ کیا عورت کو غیرمرد کا دیکھنا جائز ہے؟

حضرت عائشہ صدیقہ ایک مرتبہ ایک نابینا صحابی کے سامنے آگئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! یہ نابینا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تو نابینا نہیں ہو! اس طرح آپ صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت عائشہ کو تنبیہ فرمائی اور قیامت تک آنے والی خواتین کے لئے ہدایت۔ اب آپ بتائیے کہ آج کے دور میں کوئی مرد یا عورت روزہ رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن سکتا ہے جبکہ ہر طرف بنی سنوری عورتیں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں؟ اور اس پر عورتوں کی یہ ہٹ دھرمی کہ مرد ہمیں دیکھتے ہی کیوں ہیں؟ مرد کہاں کہاں نظریں نیچی کریں گے، عورت سایے کی طرح ہر جگہ ساتھ ساتھ ہے، کیا عورت برقع یا چادر اوڑھ کر ضروری کام نہیں کرسکتی؟ کیا وہ بغیر دوپٹہ کے ٹرانسپیرنٹ لباس پہن کر دُنیا کے کام انجام دے سکتی ہے؟ یہ بنیادی اَحکامات عورت نے پسِ پشت ڈال دئیے اور روزہ رکھنے لگی، جس میں طہارت، تقویٰ اور پرہیزگاری بنیادی جز ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ اس سلسلے میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔

ج… آپ نے ہمارے عریاں معاشرے کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس پر سوائے اظہارِ افسوس اور اِنَّا ِللهِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھنے کے میں کیا تدبیر عرض کرسکتا ہوں؟ شرم و حیا عورت کی زینت ہے، اور پردہ اس کی عزّت و عصمت کا نگہبان! سب سے اوّل تو خود ہماری خواتین کو اپنا مقام پہچاننا چاہئے تھا، ان عورتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے جو بناوٴ سنگھار کرکے بے محابا بازاروں میں نکلتی ہیں۔ کیا کوئی عورت جس کے دِل میں ذرّہٴ ایمان موجود ہو وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت لینے کے لئے تیار ہوسکتی ہے؟

دُوسرے:… ان خواتین کے والدین، بھائیوں، شوہروں اور بیٹوں کا فرض ہے کہ جو چیز اسلامی غیرت کے خلاف ہے اسے برداشت نہ کریں، بلکہ اس کی اصلاح کے لئے فکرمند ہوں، حیا اور ایمان دونوں اہم ترین ہیں، جب ایک جاتا ہے تو دُوسرا بھی اسی کے ساتھ رُخصت ہوجاتا ہے۔

تیسرے:… معاشرے کے برگزیدہ اور معزّز افراد کا فرض ہے کہ اس طغیانی کے خلاف جہاد کریں، اور اپنے اثر و رُسوخ کی پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کو اس گندگی سے نکالنے کی فکر کریں۔

چوتھے:… حکومت کا فرض ہے کہ اس کے انسداد کے لئے عملی اقدامات کرے۔ اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارا پورے کا پورا معاشرہ ملعون اور اخلاق باختہ قوموں کی غلط رَوِش پر چل نکلا ہے، وضع و قطع، نشست و برخاست اور طور و طریق سب بدکردار و بداَطوار قوموں کے اپنائے جارہے ہیں۔

اگر اس خوفناک ذِلت و گراوٹ اور شر و فساد کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو اندیشہ اس بات کا ہے کہ خدانخواستہ اس قوم پر قہرِ الٰہی نازل نہ ہو، نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسولہ!

نامحرَم جوان مرد و عورت کا ایک دُوسرے کو سلام کرنا

س… اکثر ہمارا واسطہ تایازاد، چچازاد، ڈاکٹروں، اُستادوں اور اسی طرح کے محرَم اور نامحرَم لوگوں سے پڑتا ہے۔ جبکہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے یہ اچھا محسوس نہیں ہوتا کہ سلام یا ابتدائی کلمات ادا کئے بغیر بات کی جائے، عورت (بالغ و نابالغ) کیا مردوں محرَم و غیرمحرَم کو سلام کرسکتی ہے؟ اگر نہیں، تو بات کا آغاز کس طرح کرے؟

ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم (آپ پر میں اور میرے والدین قربان) سے دریافت کیا کہ اسلام کی کون سی صفات بہترین ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ: کھانا کھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا چاہئے خواہ تم اس کو جانتے ہو یا نہیں۔

ج… نامحرَم کو سلام کرنا، جبکہ دونوں جوان ہوں، فتنے سے خالی نہیں، اس لئے سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا دونوں جائز نہیں۔

دیور اور جیٹھ سے پردہ ضروری ہے، اس معاملے میں والدین کی بات نہ مانی جائے

س… آج کل بہت سے جرائم دیور اور جیٹھ کی وجہ سے ہو رہے ہیں، میری نگاہ سے ایک حدیث گزری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اگر دیور بھابھی سے پردہ نہ کرے تو اس پر ہلاکت ہو، اور اگر بھابھی اس سے پردہ نہ کرے تو اس پر ہلاکت ہو۔ میں نے جب یہ شرط اپنے گھر میں عائد کی، یعنی اپنی بیوی سے دیور اور جیٹھ کے پردے کے لئے کہا تو میرے گھر والوں نے مجھے گھر سے نکل جانے کی دھمکی دی۔ دُوسری طرف یہ بھی حکم ہے کہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔ ایک سنت پر عمل کرنے کے لئے دُوسری سنت کو ترک کرنا پڑ رہا ہے، اگر کہیں یہ عمل ہوتا ہے تو معاشرے کے لوگ اسے بے غیرت کہتے ہیں کہ اپنے بھائیوں پر شک کرتا ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتایا جائے۔

ج… عورت اپنے دیور، جیٹھ کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے، چہرے کا پردہ کرے، بے تکلفی کے ساتھ باتیں نہ کرے، ہنسی مذاق نہ کرے، بس اتنا کافی ہے۔ اس پر اپنی بیوی کو سمجھا لیجئے۔ آج کل چونکہ پردے کا رواج نہیں، اس لئے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ والدین کی بے ادبی تو نہ کی جائے، لیکن خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بات کہیں تو ان کے حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔