نمازکی اہمیت وفضیلت:از:قاری محمد اکرام

o…شاگرد:استادِ محترم! نماز کسے کہتے ہیں؟
٭…استاد:اسلام چند خیالی باتوں یا چند زبانی اعتقادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک عملی مذہب ہے اس لیے اُس نے اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ اور حضرت رسولِ مقبول صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے اور توحید ورسالت کی گواہی دینے کے بعد زیادہ زور عمل پر دیا ہے ۔اور ایک مومن ومسلمان کے لیے سب سے پہلا اور سب سے بڑا فرض ہمارے مذہب اسلام میں نماز ہے۔ نماز خدا تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کر نے کا ایک خاص طریقہ ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت رسولِ مقبول صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے حدیثوں میں مسلمانوں کو سکھلایا اور بتلا یا ہے۔
عبادات میں سب سے پہلی اور اہم چیز نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، اس اہم اور تاکیدی فرض کی فکر مسلمانوں میں آہستہ آہستہ مٹتی جا رہی ہے۔ اول تو اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں، اور جو کچھ لوگ پڑھتے بھی ہیں، ان میں سے بھی اکثر بنا سیکھے ہی پڑھتے ہیں۔ ہماری نمازوں میں بہت سی ایسی غلطیاں اور کوتاہیاں عام ہوتی جا رہی ہیں، جن کی وجہ سے نماز یا تو سرے سے خود ادا ہی نہیں ہوتی، یا مکمل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ نصیب فرمائے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!نماز دن رات میں کتنی دفعہ فرض ہے؟
٭…استاد:نماز اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ کی خاص عبادت ہے جو دن رات میں پانچ دفعہ فرض کی گئی ہے،قران شریف کی پچاسوں آیتوں میں اور حضرت رسولِ مقبول صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی سینکڑوں حدیثوں میں نماز کی بڑی سخت تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کو دین کا ستون اور دین کی بنیا د کہا گیا ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!نماز پڑھنے سے کیا فائدہ ہو تا ہے؟
٭…استاد:نمازپڑھنے میں بہت سے فائدے ہیں :مثال کے طور نمازی آدمی کا بدن اور کپڑے پاک صاف اور ستھرے رہتے ہیں۔اگرنماز ٹھیک طریقے سے ادا کی جا ئے اور ﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کو حاضر وناظر سمجھتے ہوئے پورے دھیان سے خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھی جا ئے تو اس سے آدمی کا دل پاک وصاف ہو تا ہے اور اس کی زندگی درست ہو جا تی ہے اور برائیاں اس سے چھوٹ جاتی ہیں اور نیکی اور سچائی کی محبت اور خدا تعالیٰ جل شانہ‘ کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جا تا ہے۔نمازی آدمی سے خدا تعالیٰ راضی ہو تا ہے اور حضرت محمد مصطفٰے صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نمازی سے راضی اور خوش ہو تے ہیں۔نمازی آدمی خدا تعالیٰ کے نزدیک نیک ہو تا ہے۔نمازی آدمی کی نیک لوگ دنیا میں عزت کرتے ہیں۔نمازی آدمی کو مرنے کے بعد خدا تعالیٰ آرام اور سُکھ سے رکھتا ہے۔
اسی لئے اسلام میں دوسرے تمام فرضوں سے زیادہ اس کی تاکید ہے اور اسی واسطے رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کا دستور تھا کہ جب کو ئی شخص آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے پاس آکر اسلام قبول کرتا توآپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم توحید کی تعلیم کے بعد پہلا عہد اُس سے نماز ہی کا لیا کرتے تھے،اس سے معلوم یہ ہوا کہ کلمہ ٔاسلام کے بعد نماز ہی اسلام کی بنیاد ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!اگر کوئی نماز نہ پڑھتا ہو تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
٭…استاد:نماز نہ پڑھنے والا شخص ایک طرح سے خدا تعالیٰ کا باغی ہے وہ جس قدر بھی ذلیل ورسوا کیا جائے اور جتنا بھی اس کو عذاب دیا جائے بلاشبہ وہ اس کا مستحق ہے۔
نبی کریم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نماز نہ پڑھنے کو کفر کی بات اور کافروں کا طریقہ قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے:…جو شخص نماز نہ پڑھے اس کا دین میں کو ئی حصہ نہیں…صحیح مسلم کی ایک حدیث میںحضور اکرم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:… بندہ اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ بند ہ اگر نماز چھو ڑ دے گا تو کفر سے مل جا ئے گا اور اس کا یہ عمل کا فروں کا سا عمل ہوگا۔
نماز پڑھنا کتنی بڑی دولت اور کیسی نیک بختی ہے اور نماز چھوڑنا کتنی بڑی ہلاکت اور کیسی بد بختی ہے۔اس لئے ہم سب کو چاہئیے کہ نماز کے بغیر اسلام کا دعویٰ بے ثبوت اور بے بنیا د ہے نماز پڑھنا ہی وہ خاص اسلامی عمل ہے جو اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ سے ہمارا تعلق جو ڑتا ہے اور ہم اس کی رحمت کا مستحق بنا تا ہے۔
غرض نماز کا اسلام میں بہت ہی اونچا درجہ اور اس کی بہت ہی فضیلت ہے اس لئے نماز کو سیکھ کر صحیح طریقے سے پڑھنا اور اس کا اہتمام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔نماز کا وقت ہو تے ہی سارے کا موں کو چھوڑ کرنماز کی تیاری شروع کردینی چاہئیے۔مرد اور بچے نماز اہتمام کے ساتھ جماعت سے مسجد میں ادا کریں۔
oشاگرد: استادِ محترم!نماز کی ادائیگی کے لیے کون سی شرائط ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے؟
٭…استاد:طہارت نماز کے لئے اولین شرط ہے، طہارت کا جتنا زیادہ اہتمام کیا جائے گا، نماز اتنی ہی اچھی ہوگی۔ اس لیے نماز کی ادائیگی سے قبل مسنون طریقے سے وضو کرلینا ضروری ہے۔
وضو کرنے کا سنت طریقہ:…
o…شاگرد: استادِ محترم وضو کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
٭…استاد:…کسی اونچی جگہ پر قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جائیے، اور تسمیہ پڑھ کر وضو کی نیت کر لیجئے، اور سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ کلائیوں سمیت دھو لیں، پھر تین دفعہ کلی کریں، اور مسواک کریں۔ اگر روزے سے ہوں تو غرارہ نہ کریں، اس سے پانی حلق سے اترنے کا خدشہ ہے، پھر تین بار ناک میں پانی ڈالیں، اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کر کے جھاڑ لیں، اگر آپ کا روزہ ہے تو ناک میں پانی ڈالتے وقت بھی احتیاط کریں، ناک کے صرف نرم نرم حصے تک ہی پانی پہنچائیں۔ پھر تین دفعہ پورا منہ دھوئیں، پیشانی کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک سب جگہ پانی بہ جائے، مکمل اہتمام کے ساتھ دھوئیں، کوئی بال برابر بھی جگہ سوکھی نہ رہنے پائے۔ پھر داڑھی کا خلال کریں۔ پھر تین دفعہ داہناں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئیں پھر تین دفعہ بایاں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئیں، اور ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر خلال کریں اور اگر کوئی انگوٹھی وغیرہ پہنی ہوئی ہو تو اس کو بھی ہلا لیں تاکہ اچھی طرح پانی پہنچ جائے۔ پھر ایک دفعہ سارے سر کا مسح کریں، پہلے دونوں ہاتھوں کے ساتھ سر کے اوپر کی طرف پیشانی سے شروع کریں، اور ہاتھوں کو سر کے پیچھے کی طرف آخر تک لے جائیں، اور پھر دونوں ہاتھوں کو سر کی دونوں اطراف سے یعنی دائیں اور بائیں سے پیچھے سے آگے کی طرف لائیں، پھر کان کا مسح کریں، کان کی اندر کی طرف کا شہادت والی انگلی سے اور باہر کا انگوٹھوں سے مسح کریں، پھر انگلیوں کی پشت سے گردن کا مسح کریں، لیکن گلے کا مسح نہ کریں اس سے منع کیا گیا ہے۔ کان اور گردن کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں، سارے مسح کے لئے ایک ہی دفعہ ہاتھوں کو گیلا کرنا کافی ہے، سارا مسح اسی سے کریں۔ پھر تین بار داہناں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئیں، اور پھر تین دفعہ بایاں پاؤں، اور بائیں ہاتھ کی چھنگلی سے پیروں کی انگلیوں کا خلال کریں، دائیں پاؤں کی چھنگلی سے خلال شروع کریں، اور بائیں پاؤں کی چھنگلی پر ختم کریں۔
یہ وضو کرنے کا سنت طریقہ ہے، لیکن اس میں بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی چھوٹ جائے تو وضو نہیں ہوتا، ایسی چیزوں کو فرض کہتے ہیں۔ اور بعض ایسی ہیں کہ ان کے چھوٹ جانے سے وضو تو ہو جاتا ہے لیکن ان کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور شریعت میں ان کے کرنے پر تاکید بھی آئی ہے۔ اگر کوئی اکثر چھوڑ دیا کرے تو گناہ گار ہوتا ہے، ایسی چیزوں کو سنت کہتے ہیں۔ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ثواب ہوتا ہے اور نہ کرنے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، اور شریعت میں ان کے کرنے کی تاکید بھی نہیں آئی ایسی باتوں کو مستحب کہتے ہیں۔
وضو کے فرض:…
o…شاگرد:استادِ محترم!وضو میں کتنی چیزیں فرض ہیں؟
٭…استاد:یعنی وہ چیزیں جن کا وضو میں اہتمام کرنا ضروری ہے، اگر چھوڑ دیں تو وضو نہیں ہو گا۔ ایسی چیزیں چار ہیں:…
(۱)ایک مرتبہ سارا منہ دھونا(۲) ایک ایک مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھونا (۳)ایک مرتبہ چوتھائی سر کا مسح کرنا۔(۴) ایک مرتبہ دونوں پاؤںٹخنوں سمیت دھونا۔
وضو کی سنتیں:…
o…شاگرد:استادِ محترم!وضو کی سنتیں کیا ہیں؟
٭…استاد:پہلے گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا، تسمیہ یعنی بسم اللہ پڑھنا، کلی کرنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، سارے سر کا مسح کرنا، ہر عضو کو تین بار دھونا، کانوں کا مسح کرنا، ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرنا۔ وضو کو ترتیب کے ساتھ کرنا۔ یہ سب وضو کی سنتیں ہیں، اس کے علاوہ جو ہیں، یعنی قبلہ کی طرف منہ کرنا اونچی جگہ پر بیٹھنا وغیرہ یہ سب مستحب ہیں۔
کوشش کرکے اس طریقہ کے مطابق وضو کرنے کی عادت ڈالیں، اور پھر ایک مرتبہ اپنے علاقے کے کسی عالم یا اپنی مسجد کے امام صاحب کو وضو کر کے دکھائیں، اگر ٹھیک ہے تو بہت اچھا، وگرنہ وہ جن غلطیوں کی نشاندہی کریں ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو عملی طور پر وضو کر کے دکھلاتے تھے، آپ بھی عملی طور پر سیکھنے کی کوشش کریں۔ اور مساجد کے آئمہ کرام سے گزارش ہے کہ اپنی مسجد میں مقتدیوں کو عملی طور پر وضو کرنا سکھائیں۔
اور اپنے وضو میں مسواک کا لازمی اہتمام کریں، کیونکہ حضورﷺ مسواک بہت اہتمام کے ساتھ فرمایا کرتے تھے، اور اس کی خوب تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اور کوشش کریں کہ مسجد میں کوئی بدبو دار چیز کھا کر نہ آئیں، حضورﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو جائے تو اپنے منہ کو مسواک کر کے اچھی طرح صاف کر لیں، تاکہ بدبو زائل ہو جائے۔
غسل کرنے کا سنت طریقہ:…
o…شاگرد:استادِ محترم! غسل کرنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟
٭…استاد:…پہلے دونوں ہاتھ گٹوں تک دھو لیں، اگر جسم پر کہیں نجاست لگی ہو تو اسے دھو لیں، اگر نجاست نظر نہ بھی آئے تو احتیاطاً استنجا کی جگہ کو دھو لینا چاہئے، پھر پورا وضو کریں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ایسی جگہ ہے جہاں پانی کی نکاسی کا اہتمام نہیں تو پیر نہ دھوئیں، بلکہ غسل کے بعد اس جگہ سے نکل کر پیر دھوئیں، وگرنہ دھو لیں۔ پھر وضو کے بعد تین بار اپنے سر پر پانی ڈالیں، پھر تین بار دائیں کندھے پھر بائیں کندھے پر پانی ڈالیں اس طرح کہ سارے جسم پر پانی بہ جائے۔ غسل کرتے وقت پورے جسم کو ہاتھوں کے ساتھ ملنا چاہئے، احتیاط کرنی چاہئے کہ پورے جسم میں ایک بال برابر بھی جگہ خشک نہ رہنے پائے، وگرنہ غسل نہ ہو گا۔
غسل کا بیان کردہ یہ طریقہ سنت کے موافق ہے۔ اس میں بعض چیزیں فرض ہیں، ان میں سے اگر کوئی چیز چھوٹ جائے تو غسل نہیں ہوتا۔ اور بعض چیزیں سنت ہیں، اگر عمل کیا جائے تو ثواب ہوتا ہے، اگر چھوٹ جائیں تو بھی غسل ہو جاتا ہے لیکن چھوڑنا نہ چاہئیے۔
غسل کے فرائض:…
o…شاگرد:استادِ محترم! غسل میں کتنے فرض ہیں؟
٭…استاد:غسل کے صرف تین فرض ہیں۔ (۱) اس طرح کلی کرنا کہ سارے منہ میں پانی چلا جائے(۲) ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا(۳) سارے بدن پر پانی پہنچانا۔
اوپر بیان کردہ طریقے میں باقی جتنی چیزیں ہیں وہ سب سنت ہیں۔
٭…نمازوں کے اوقات:…
o…شاگرد:استادِ محترم!نمازِ فجر کا وقت کب شروع ہو تا ہے؟
٭…استاد:نماز فجر کا وقت سورج نکلنے سے تقریباً سوا گھنٹہ پہلے سے شروع ہو تا ہے،جب اجالا ہو جا ئے اور اتنا وقت ہو کہ سنت کے موافق اچھی طرح نماز ادا کی جا ئے اور نماز سے فارغ ہو نے کے بعد بھی اتنا وقت باقی رہے کہ اگر یہ نماز کسی وجہ سے درست نہ ہو ئی ہو تو سورج نکلنے سے پہلے پہلے دوبارہ سنت کے موافق نماز پڑھی جا سکتی ہو ایسا وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!نماز ظہر کا کب شروع ہو تا ہے؟
٭…استاد:نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد سے شروع ہو تا ہے اور ٹھیک دوپہر کے وقت ہر چیز کا جتنا سایہ ہو اس کے علاوہ جب ہر چیز کا سایہ اس چیز سے دو گنا ہو جا ئے تو ظہر کا وقت ختم ہو جا تا ہے۔
گرمی کے موسم میں اتنی تاخیر کرکے پڑھنا کہ گرمی کی تیزی کم ہو جا ئے اور سردیوں کے موسم میں اول وقت پڑھنا مستحب ہے۔لیکن اس کاخیال رکھنا چاہئیے کہ ظہر کی نماز بہرحال ایک مثل کے اندر پڑھ لی جا ئے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!نماز ِعصر کا وقت بتا ئیں؟
٭…استاد:جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہو جا ئے تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جا تا ہے اور غروبِ آفتاب تک رہتا ہے۔لیکن جب آفتاب بہت نیچا ہو جا ئے اور دھوپ کمزور اور پیلی پیلی ہو جا ئے تو اس وقت نماز مکروہ ہو تی ہے اس سے پہلے پہلے عصر کی نماز پڑھ لینی چاہئیے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!نمازِ مغرب کا وقت بتا دیںکہ کب شروع ہوتا ہے؟
٭…استاد:جب آفتاب غروب ہو جا ئے تو مغرب کا وقت شروع ہو تا ہے اور سپیدی یعنی شفقِ ابیض کے غائب ہونے سے پہلے پہلے تک مغرب کا وقت رہتا ہے۔اورنمازِ مغرب اول وقت میں مستحب ہے اور بلا عذر دیر کر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!نمازِ عشاء کا وقت کیا ہے؟
٭…استاد:عشاء کا وقت نمازِمغرب کے ڈیڑھ دو گھنٹے بعد سے شروع ہو تا ہے اور صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے تک رہتا ہے۔اور ایک تہائی رات تک مستحب وقت ہے اس کے بعد آدھی رات تک مُباح ہے۔اس کے بعد مکرو ہو جا تا ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!نماز وتر کا وقت کب شروع ہو تا ہے اور وتر کا مستحب وقت کون سا ہے؟
٭…استاد:نمازِ وتر کا وقت وہی ہے جو عشاء کا ہے لیکن وتر کی نماز نماز عشاء کی نماز سے پہلے جا ئز نہیں ہو تی۔گویا عشاء کی نماز کے بعد اس کا وقت ہوتا ہے۔اور اگر کسی کو اپنے اوپر بھروسہ ہو کہ اخیر رات میں ضرور جاگ جاؤں گا تو اس کے لئے اخیر رات کو وتر پڑھنا مستحب ہے لیکن اگر جاگنے پر بھروسہ نہ ہو تو سونے سے پہلے ہی وتر کی نماز ادا کر لینا چاہئیے۔
٭…رکعاتِ نما ز:…
o…شاگرد:استادِ محترم!پانچوں نمازوں کی رکعتوں کے بارے میں بتا دیجئے؟
٭…استاد:پانچوں نمازوں کی رکعتوں کی تعدا داس طرح ہے کہ:…
نمازِ فجر کی چار رکعتیں ہیں:…پہلے دو سُنّتیں( مؤکدہ) پھر دو فرض۔
نمازِ ظہر کی آٹھ رکعتیں:…پہلے چار سُنّتیں(غیر مؤکدہ) پھر چار فرض پھر دو سُنّتیں(مؤکدہ) پھر دو نفل۔
نمازِ عصر کی آٹھ رکعتیں:…پہلے چار سُنّتیں (غیر مؤکدہ) پھر چا رفرض۔
نمازِ مغرب کی سات رکعتیں:…پہلے تین فرض پھر دو سُنّتیں(مؤکدہ) پھر دو نفل۔
نمازِ عشاء کی سترہ رکعتیں:…پہلے چا رسُنّتیں(غیرمؤکدہ) پھر چار فرض پھر دو سُنّتیں(مؤکدہ) پھر دو نفل پھر تین وتر۔
جمعہ کے ظہر کے وقت نمازِ ظہر کی بجا ئے نماز جمعہ پڑھتے ہیں جس کی چودہ رکعتیں ہیں پہلے چا رسُنّتیں(مؤکدہ)پھر دو فرض امام کے ساتھ پھر چار سُنّتیں(مؤکدہ) پھر دو سُنّتیں(غیر مؤکدہ)پھر دو نفل۔
نمازِ جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے بلا جماعت نمازِ جمعہ ادا نہیں ہوتی۔اگر کسی کو امام کے ساتھ نمازِ جمعہ نہ ملے تو اس کی جگہ نمازِ ظہر پڑھے۔
اور نمازِ جمعہ عورتوں پر فرض نہیں ہے وہ اس کی جگہ نمازِ ظہر پڑھیں۔
٭…اذانِ نماز:…
o…شاگرد :استادِ محترم!اذان کسے کہتے ہیں؟
٭…استاد:نماز سے کچھ دیر پہلے بلند آواز کے ساتھ مخصوص الفاظ سے نماز کی طرف بلانے کو اذان کہتے ہیں۔اذان کے الفاظ یہ ہیں:…
اَللّٰہُ اَکْبَرُط اللہ سب سے بڑا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُط اللہ سب سے بڑا ہے (ایک آوازمیں)
اَللّٰہُ اَکْبَرُط اللہ سب سے بڑا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُط اللہ سب سے بڑا ہے (ایک آوازمیں)
اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓ اِٰلہَ اِلَّا اللّٰہُ ط (دو دفعہ کہے)میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط (دو دفعہ کہے)میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ طآئو نماز کی طرف (ذرا دائیں منہ کرکے دوبارکہے)
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ط آئو کامیابی کی طرف(ذرا بائیں منہ کرکے دوبارکہے)
اَللّٰہُ اَکْبَرُط اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُط اللہ سب سے بڑا ہے۔ (صرف ایک دفعہ کہے)
لَآ اِٰلہَ اِلَّا اللّٰہُ طاﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں
صبح کی اذان میںحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ طکے بعداَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ طنماز نیند سے بہتر ہے۔(دو دفعہ کہنا چاہئے)
اقامت میں حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ طکے بعدقَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ طبے شک نماز کھڑی ہوگئی(بھی دو دفعہ کہنا چاہئیے)
اذان واقامت میں سنت یہ ہے کہ :…اَللّٰہُ اَکْبَرُط وقف کے ساتھ پڑھیں،جیسے:اَللّٰہُ اَکْبَرْط اسی طرح اذان واقامت کے ہر کلمہ کا آخری حرف وقف کے ساتھ پڑھیں۔
اذان سے قبل صلوٰۃ وسلام کا مسئلہ:…
o…شاگرد: استا دِ محترم!اذان سے قبل صلوٰۃ وسلام پڑھنا کیسا ہے؟
٭…استاد:اَذان سے قبل وبعد جس انداز سے درود وسلام پڑھنے کا رِواج ہے یہ بدعت ہے۔اسی طرح حلقہ بناکر لاؤڈ سپیکر پر درودو سلام کے نام سے جو کچھ ہو تا ہے،محض ریا کاری ہے۔درود شریف بلاشبہ افضل ترین عبادت ہے اگر واقعی درود وسلام پڑھنا ہو تو مسجد یا گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کرنہایت خشوع وادب کے ساتھ پڑھیں لوگوں کو اپنی سُریلی آوازیں سنانا کو ئی عبادت نہیں۔واﷲ اعلم!
اَذان تو رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے بابرکت زمانے سے چلی آتی ہے،مگر اَذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا رِواج ابھی چند برسوں سے شروع ہوا ہے،اگر یہ دین کی بات ہو تی تو رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم ضرور اس کی تعلیم فرماتے اور صحابہ کرام رضی اﷲ علیہم،تابعین عظام، اور بزرگانِ دین رحمہ اﷲ علیہم اس پر عمل کرتے ،جب سلف صالحین نے اس پر عمل نہیں کیا،نہ رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اس کی تعلیم فرمائی تو اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھنا بد عت ہوا اور رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو ہمارے دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔
تمام اعمال سے مقصود رضائے الٰہی ہے اور رضائے الٰہی اس عمل پر مرتب ہو تی ہے جو رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے ارشاد فرمودہ طریقے کے مطابق ہو،البتہ شریعت اذان کے بعددرود وسلام پڑھنے اور اس کے بعد دعائے وسیلہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم ص۲۹۳،از:…مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اﷲ)
o…شاگرد: استا دِ محترم!دعائے وسیلہ کیا ہے؟اور درود کونسا پڑھنا افضل ہے؟
٭…استاد:جب اذان ختم ہو تو نماز والادرود شریف پڑھنا افضل ہے اور پھر مندرجہ ذیل دعائے وسیلہ پڑھے:…
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ القَآئِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہ‘ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ط(حوالہ حصن حصین ص ۱۵۷)
اے اللہ! اے پروردگار اس پوری پکارکے اور قائم ہونے والی نماز کے رب تو حضرت محمد صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو وسیلہ اور فضیلت عطا ء فرما،اور ان کو مقام محمود میں کھڑا کر جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے۔ بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
٭…نماز کی ادائیگی کا سنت طریقہ اورنما ز میں پڑھے جا نے والے کلمات:…
o…شاگرد: استا دِ محترم!نماز پڑھنے کا سنت طریقہ کیا ہے اور جو کچھ پڑھا جا تا ہے اس کے نام اور عبارتیں کیا کیا ہیں؟
٭…استاد:جب نماز کا وقت ہو جا ئے تو ہمیں چاہئیے کہ پہلے اچھی طرح سنت طریقہ کے مطابق وضو کریں اور یوں سمجھیں کہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے دربار کی حاضری کے لئے اور اس کی عبادت کے لئے یہ پاکی اور یہ صفائی ضروری ہے،اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے وضو میں بھی ہمارے لئے بڑی رحمتیں اور برکتیں رکھی ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ:… وضو میں جسم کے جو حصے اور جو اعضا دھوئے جا تے ہیں،ان اعضا ء سے ہونے والے گناہ وضو ہی کی برکت سے معاف ہو جا تے ہیں اور ان گنا ہوں کا ناپاک اثر گو یا وضو کے پا نی سے دھل جا تا ہے۔
وضو کے بعد جب ہم نماز کے لئے کھڑے ہو نے لگیں تو چاہیے کہ خوب اچھی طرح دل میں یہ خیال جما ئیں کہ ہم گنا ہگار اور سیاہ کا ر بندے اپنے اُس مالک ومعبود کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیںجو ہمارے ظاہر وباطن اور کھلے چھپے سب حالات جانتا ہے اور قیامت روز ہم کو اُس کے سامنے پیش ہو نا ہے۔
نیت:…
نیت دل کا ارادہ ہے نماز پڑھنے سے پہلے متعین کرے کہ نماز فرض ہے یا سنت، با جماعت ہے یا علیحدہ، کتنی رکعات ہیں اور پانچ نمازوں میں سے کون سی نماز ہے۔ پس دل ہی دل میں ان امور کی تعیین کافی ہے۔ لیکن اگر کسی کو وساوس آتے ہوں اور وہ نماز شروع کر کے توڑ دیتا ہو یا نماز کے خشوع و خضوع اور دھیان میں کمی آتی ہو اس خیال سے کہ کہیں نیت میں غلطی تو نہیں ہو گئی، اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ زبان سے بھی کلمات دہرا لے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔)بخاری(
قیام:…
صحت مند آدمی کے لئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص اس سے معذور ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور اگر بیٹھنے کی ہمت بھی نہ ہو تو لیٹ کر نماز پڑھے۔ ایسی حالت میں سجدہ کے لئے رکوع سے زیادہ جھکے۔ اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو نماز کو مؤخر کرنے کی اجازت ہے چونکہ اس کے بعد کوئی مرحلہ نہیں اور آنکھوں کے اشارہ سے نماز نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ نوافل میں اختیار ہے چاہے کھڑے ہو کر ادا کرے یا بیٹھ کر۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر تو بہر حال نماز ادا کرو۔ )بخاری(
اللہ اکبر کہتے ہوئے نماز شروع کرے، تکبیر کے بعد سلام پھیرنے کے تک نماز کے علاوہ تمام خارجی کام حرام ہو گئے، اسی لئے اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں اور ہر ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کے لیے تکبیر کہے۔
نماز کی نیت کے بعد نمازی دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اس طرح اٹھائے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں قبلہ کی طرف ہوں ، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں نہ بہت ملی ہوں نہ کھلی ہوئی ہوں بلکہ اصلی حالت پر رہیں۔
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ جب نماز شروع کرنے کی تکبیر کہتے تو ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ دونوں انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر ہو جاتے۔)طحاوی(
اللہ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ اس طور پر باندھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رہے اور انگوٹھے اور چھنگلیا کا حلقہ بنا کر گٹے کو پکڑ لے اور باقی تین انگلیاں کلائی پر رہیں۔
حالت قیام میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا مسنون ہے:…حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کی سنت یہ ہے کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھا جائے۔)ابو داؤد(
اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر ناف کے نیچے ہاتھ باندھے امام ہو یا مقتدی آہستہ آواز سے یہ ثناء پڑھے۔

اَللّٰہُ اَکْبَرُ اللہ سب سے بڑا ہے (اس کے بعد یہ ثناء پڑھے)
سُبْحٰنَٰکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِٰلہَ غَیْرُکَ ۔
اے اللہ تو پاک ہے اور میں تیری تعریف کے ساتھ تجھے یاد کرتا ہوں تیرا نام برکت والا ہے اور تیری شان بڑی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں
پھر تعوذ اور تسمیہ پڑھیں (وہ یہ ہیں)
ثناء پڑھنے کے بعد منفرد اور امام کو چاہئے کہ پست آواز سے یہ تعوذ پڑھے اور مقتدی ثناء پڑھ کر خاموش ہو جائے۔
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO
میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں شیطان مردود سے ،
تعوذ کے بعد امام آہستہ آواز سے تسمیہ پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت بڑا مہربان اور بہت بڑا رحم کرنے والا ہے۔
حضورﷺ کی سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل تسمیہ بلند آواز سے پڑھنے کا نہیں تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھیں، لیکن کسی ایک کو بھی )بلند آواز سے( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔)مسلم(
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے جمہور صحابہ کا بھی عمل یہی تھا۔ جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ بھی ہیں اور ان کے بعد تابعین کا بھی یہی مسلک تھا۔ سفیان ثوریؒ، ابن المبارکؒ، امام احمدؒ، اسحاقؒ، یہ سب کے سب تسمیہ اونچی پڑھنے کے قائل نہ تھے، بلکہ کہتے تھے کہ تسمیہ آہستہ پڑھنی چاہئے۔)ترمذی: ما جاء فی ترک الجہر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم(
اگر نمازی امام ہے تو بسم اللہ کے بعد فجر، مغٖرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھے اور ظہر و عصر کی نمازوں میں آہستہ۔
اگر نمازی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہے تو خاموش رہے۔ اگر اکیلا نماز پڑھ رہا ہے تو وہ بھی تسمیہ کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھے۔
منفرد سورۃ فاتحہ پڑھے ،منفرد وہ شخص ہے جو اکیلا نماز پڑھے۔ ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھے:…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْلعٰلَمِیْنَ O اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِO اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ O اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْھِمْO غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَO اٰمین
ہر قسم کی تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لائق ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے بڑا مہربان اور نہایت رحیم ہے روز جزاء کا مالک ہے۔اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ہم کو سیدھا راستہ دکھا ایسے لوگوں کے راستے پر جن پر تونے اپنا انعام کیانہ ان کے راستے پر جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کے راستے پر۔
الحمد شریف ختم کر کے آہستہ سے آمین کہیں پھر سورۃ اخلاص یا کوئی اور سورۃ یا د ہو تو پڑھیں۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :’’جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘۔
اس حدیث کی تشریح کے لئے ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضرات تابعین و محدثینؒ کی طرف رجوع کرتے ہیں، چونکہ وہ آنحضورﷺ کے مطلوبہ مفہوم و مراد کو بخوبی سمجھتے تھے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اکیلا نماز پڑھے، اس کے لئے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، لیکن اگر امام کے پیچھے ہو تو ضروری نہیں ہے۔
اسی لئے امام بخاریؒ کے استاذ اور ایک عظیم محدث امام احمدؒ نے بھی حضرت عبادہؓ والی اس حدیث کو منفرد پر ہی محمول کیا ہے جسے امام ترمذیؒ نے نقل کیا ہے۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر اس کی نماز نہیں ہوگی، اس کی دلیل حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوگی۔ مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ امام بخاریؒ کے استاذ امام احمدؒ فرماتے ہیں نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد مبارک کا مفہوم وہ ہے جو ایک جلیل القدر صحابی نے سمجھا ہے کہ یہ حدیث منفرد کے بارے میں ہے۔)ترمذی: ترک القرأۃ خلف الامام(
تعلیمات قرآنیہ اور ارشادات نبویہ کے مطالعہ سے یہ بات نکھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ با جماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ اور زائد سورۃ نہیں پڑھنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’…اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ )الاعراف:۲۰۴(
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عبد اللہ بن مغفلؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی۔)تفسیر ابن کثیر(
امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر امت کا اجماع ہے۔)یعنی اس آیت کے مذکورہ شان نزول میں(امام زید بن اسلمؒ اور ابو العالیہؒ فرماتے ہیں: ’’کہ بعض لوگ امام کے پیچھے قرأت کیا کرتے تھے تو یہ حکم نازل ہوگیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔)المغنی(
حضرت بشیر بن جابرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعودؓ نے نماز پڑھائی تو انہوں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ امام کے ساتھ قرأت کرتے ہیں۔ نماز کے بعد آپ نے ایسے لوگوں کو ڈانتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو اس کے باوجود تم اس بات کو نہیں سمجھتے، کیا اب بھی تمہارے سمجھنے کا وقت نہیںآیا‘‘۔)تفسیر ابن کثیر(
اس تفصیل سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی لہٰذا جب امام قرآن پڑھ رہا ہو تو مقتدی خاموش رہیں۔
یہاں یہ حقیققت بھی پیش نظر رہے کہ اس آیت میں دو قسم کے حکم ہیں۔ )۱( غور سے سنو۔ )۲( خاموش رہو۔ ان دونوں پر عمل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مقتدی امام کے ساتھ قرأت نہ کرے۔ چاہے امام اونچی قرأت کر رہا ہو یا آہستہ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ جو مقتدی جہری نمازوں میں امام کے ساتھ پڑھے گا، اس نے مندرجہ بالا دونوں حکموں کی خلاف ورزی کی کہ نہ تو امام کی قرأت کو غور سے سنا اور نہ خاموش رہا اور جو مقتدی سری نمازوں میں امام کے ساتھ پڑھے گا، اس نے دوسرے حکم کی مخالفت کی کہ خاموش نہیں رہا۔ اسی لئے مشہور مفسر امام ابو بکر جصاصؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت کی رو سے جس طرح جہری نمازوں میں مقتدی کو امام کے ساتھ پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ اس طرح سری نمازوں میں بھی امام کے ساتھ پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ چونکہ تلاوت قرآن کے وقت اس کو سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے۔ اس میں جہری نماز کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ الغرض جب امام بلند آواز سے پڑھ رہا ہو تو ہم پر اس کا سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے اور جب وہ آہشتہ پڑھ رہا ہو تو خاموش رہنا بہر حال ضروری ہے چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ امام قرآن پڑھ رہا ہے‘‘۔)احکام القرآن(
بہر حال اس آیت میں خاموشی کا حکم ہے، اور خاموش رہنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب مقتدی امام کے پیچھے قرأت نہ کرے۔
صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث ہے۔ جس میں خود رسول اللہﷺ نے امام اور مقتدی کی ذمہ داریوں کا تعین فرمادیا ہے۔
حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور راہ سنت دکھائی ہمیں نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہوئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو سیدھا کر لیا کرو۔ پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہو جاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھ لے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعاء قبول کرے گا اور جب وہ تکبیر کہہ کر رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہہ کر رکوع کرو۔ واضح رہے کہ امام تم سے پہلے رکوع میں جاتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے اٹھتا ہے۔ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناک الحمد کہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول کرے گا چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کے توسط سے یہ بتایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تعریف کر کے دعا مانگے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور جب امام تکبیر کہہ کر سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہہ کر سجدہ کرو۔)مسلم شریف(
علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمدؒ، امام مسلمؒ اور امام اسحاقؒ نے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا اس پر کسی طرح کا کلام اثر انداز نہیں ہوتا۔
جب امام سورۃ فاتحہ مکمل کر چکے تو مقتدی آہستہ سے آمین کہے۔ یہی اولیٰ )یعنی اقرب الی السنۃ( ہے۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں منقول ہے جس میں حضورﷺ نے نماز کا طریقہ بتلایا کہ جب امام ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ پڑھ لے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعاء قبول کر لے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آمین کہے اور آسمان میں ملائکہ بھی کہیں اور ایک دوسرے میں موافقت ہو جائے تو آمین کہنے والے کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آمین دعاء ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ آمین ذکر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دعاء میں اخفا )آہستہ( کا حکم فرمایا ہے۔
’’ادعو ربکم تضرعاً وخفیہ انہ لا یحب المعتدین۔‘‘ )الاعراف۵۵(
’’اللہ سے دعاء کرو گڑگڑا کر اور خفیہ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس آیت کے ذیل میں ابن کثیرؒ نقل کرتے ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازوں کو بلند کرنا شروع کر دیا۔ تو رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اے لوگو! میانہ روی سے کام لو تم کسی بہرے یا غائب شخص کو نہیں پکار رہے، جس کو تم پکارتے ہو وہ ہر بات کو سننے والا ہے نزدیک ہے۔ (تفسیر ابن کثیر۔ ج۲)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے۔آمین دعا ہے۔آمین ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دعا میں اخفاء پوشیدگی، اور عاجزی کا حکم دیا ہے۔
جو لوگ اونچی آواز میں دعا کرتے تھے نبی کریمﷺ نے ان کو روکا۔
اللہ تعالیٰ ہر )اونچی، ہلکی( آواز کو سننے والے اور ہر شخص کے قریب ہیں۔
لہٰذا آہستہ آواز سے آمین کہنی چاہئے چونکہ یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے۔
اسی لئے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مختصر سے جملے میں سارے مسئلہ کو حل کر دیا کہ:
’’اگر آمین دعا ہو تو سورۃ اعراف کی آیت نمبر۵۵ کی رو سے آمین آہستہ کہنا چاہئے اور اگر آمین ذکر ہو تب بھی سورۃ اعراف کی آیت نمبر۲۰۵ کی رو سے آہستہ کہنی چاہئے۔
وہ آیت یہ ہے:…
’’واذکر ربک فی نفسک تصرعاً وخفیہ ودون الجہر من القول۔‘‘ )الاعراف ۲۰۵(
ابو معمر حضرت عمر رضی اللہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں امام چار چیزوں کو آہستہ آواز سے کہے۔ )۱( تعوذ )۲( تسمیہ )۳( آمین )۴( ربنا لک الحمد)عینی شرح ہدایہ(
آہستہ آمین کی ترجیح کے لئے اتنا کافی ہے کہ آیات قرآنیہ اور مسلم کی حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
قرآن کریم کی کسی ایک آیت سے بھی اونچی آواز میں آمین کہنے کا ثبوت نہیں ملا۔
کسی صحیح حدیث میں آمین اونچی کہنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
بلند آواز سے آمین کہنا نہ تو نبی کریمﷺ سے ثابت ہوا اور نہ ہی چاروں خلفائے راشدین سے۔ اور جو کوئی روایات اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہیں، وہ جرح اور تنقید سے خالی نہیں۔‘‘)آثار السنن(
سورۃ فاتحہ کے بعد امام اور منفرد کوئی اور سورۃ، ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھیں۔
قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَد’‘O اَللّٰہُ الصَّمَدُO لَمْ یَلِدْO وَلَمْ یُوْلَدْO وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ کُفُوًا اَحَد’‘O
اے نبی کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے اس سے کوئی پیدا نہیں ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔
الحمد شریف کے بعد قرآن شریف کی کوئی سورۃ یا اس کا کچھ حصہ پڑھنا چاہیے،اور کم سے کم ہرمسلمان مرد وعورت کوچار سورتیں حفظ ہو نی چاہییں،تاکہ نماز کی ہر رکعت میںالگ الگ قرأت کرسکے۔کیونکہ سورۂ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں ایک ہی سورۃ پڑھنا مکروہ ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم ص۳۷۷)
ظہر، عصر، عشاء اور مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورۃ ملائیں، آخری رکعات میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھیں۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکی عادت مبارکہ یہ تھی کہ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورۃ اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور کبھی کبھار ہمیں ایک آیت سنا دیتے تھے اور پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے لمبا کرتے تھے، عصر اور صبح میں بھی یوں ہی کرتے۔ )بخاری: ما یقرأ فی الآخریین بفاتحۃ الکتاب(
امام اور منفرد ظہر، عصر میں قرأت آہستہ کریں۔ فجر، نماز جمعہ، عیدین، رمضان میں باجماعت وتر میں امام بلند آواز سے قرأت کرے، مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعات میں بلند اور بقیہ میں آہستہ قرأت کرے۔
حضرت ابو معمر نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرمﷺ ظہر اور عصر میں قرأت کیا کرتے تھے؟ فرمایا: ’’ہاں‘‘ ابو معمر نے عرض کیا آپ کو کیسے معلوم ہوتا تھا؟ فرمایا: ’’آپﷺ کی داڑھی مبارکہ کے ہلنے سے معلوم ہو جاتا تھا کہ آپ پڑھ رہے ہیں۔)بخاری: باب القرأۃ فی العصر(
٭…رکوع:…
قرأت سے فارغ ہو کر سیدھا رکوع میں چلا جائے اور رفع یدین نہ کرے، اس طرح رکوع سے اٹھتے ہوئے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین نہ کرے چونکہ قرآن کریم، حدیث شریف، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل اور بہت سے اسلاف کا یہی عمل رہا ہے، لہٰذا یہی اولیٰ اور بہتر ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور اکرمﷺ کی مسنون نماز کا طریقہ نہ بتاؤں؟ پھر آپؓ نے نماز پڑھی اور صرف نماز کی ابتداء میں رفع الیدین کیا۔
)ترمذی: ما جاء فی رفع الیدین(
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپﷺ صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ بعد میں نہیں۔
حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے ابتدائے تکبیر کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین کرنا ثابت نہیں ہے‘‘۔
چنانچہ سورۃ کے ختم ہونے پر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کیلئے جھک جائو رکوع میں دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑ لو رکوع میں کمر سر کے برابر ہو دونوں بازو پسلیوں سے جدا رہیں پنڈلیاںاور رانیں پلر کی طرح سیدھی رہیں۔ترچھی نہ ہوں ۔ اور پیٹ کو ذرا نیچے کی طرف جھکا لو ۔
سُبْحَاْنَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ (ترجمہ)پاکی بیان کرتا ہوں میں اپنے پروردگار بزرگ کی۔
پورے اطمینان اور حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ تین یا پانچ مرتبہ پڑھیں۔
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، وہ نماز کافی نہیں جس میں نمازی رکوع میں اپنی کمر کو سیدھا نہ رکھے۔)ترمذی(
پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ (اللہ نے اس کی سنی جس نے اس کی تعریف کی ) کہتے ہوئے سیدھا کھڑے ہو جائیں اور ربنا لک الحمد کہیں۔ با جماعت نماز ہو تو امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی رَبَّنَا لَکَ اْلحَمْد کہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ پھر آپﷺ رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور کھڑے ہو کر ربنا لک الحمد کہتے۔)بخاری(
ربنا لک الحمد کے بعد حَمْداً کَثِیْراً طَیِّباً مُّبَارَکاً فِیْہِ پڑھنا مستحب ہے اس کی بڑی فضیلت ہے۔
حضرت رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی اکرمﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ رکوع سے اٹھے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہا، ایک مقتدی نے کہا ’’ربنا لک الحمد حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ‘‘۔ آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’یہ انوکھی بات کس نے کی؟‘‘۔ ایک شخص نے عرض کیا ’’جی میں نے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا میں نے تیس )۳۰( سے زائد فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کو لکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔)بخاری: فصل اللہم ربنا ولک الحمد(
پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدہ میں چلے جائیں۔ سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھیں پھر ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی، اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے اس کے برعکس یعنی جو عضو سب سے آخر میں رکھا ہے اسے پہلے اٹھائیں اور آخر تک یہی ترتیب رکھیں۔ سجدہ میں کہنیوں کو جسم سے علیحدہ رکھیں۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپ سجدہ کرتے تو گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے اور اٹھتے وقت گھٹنوں سے پہلے ہاتھ اٹھاتے۔ )ترمذی(
٭…دونوں سجدے:…
پھراَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے سجدے میں اس طرح جائو کہ سینے کو آگے جھکائے بغیر پہلے دونوں گھٹنے زمین پر رکھو پھر دونوں ہاتھوں کے بیچ میں پہلے ناک پھر پیشانی زمین پر رکھو پھر سجدے کی تسبیح پورے اطمینان اور حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ تین یا پانچ مرتبہ پڑھیں۔
سُبحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی(پاکی بیان کرتا ہوں میں اپنے پروردگار برتر کی)
پھر تکبیر کہتے ہوئے سیدھے بیٹھ جائیں، اس دوران یہ دعاء پڑھنا مستحب ہے۔
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ، وَارْحَمْنِی، وَاجْبُرْنِیْ، وَاھْدِنِیْ، وَارْزُقْنِیْ‘‘)ترمذی: ما یقول بین سجدتین(
سجدہ میں کہنیاں زمین پر نہ بچھائیں کہ یہ آداب سجدہ کے خلاف ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ سجدہ میں اعتدال کرو۔ اور تم میں سے کوئی بھی سجدہ میں کہنیوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔)مسلم: الاعتدال فی السجود(
سجدہ سات اعضاء کو زمین پر لگا دینے کا نام ہے، اگر کوئی عضو بھی زمین سے بلند رہے گا تو اسی درجہ میں سجدہ ناقص شمار ہوگا۔ اعضائے سجدہ کا ذکر حدیث میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں، پیشانی پر اور آپ نے ناک کی طرف بھی اشارہ کیا، دونوں ہاتھوں پر، دونوں گھٹنوں پر، دونوں پاؤں کی انگلیوں پر۔ )اور ہمیں یہ بھی حکم دیا گیا کہ( ہم نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں‘‘۔)بخاری: باب السجود علی الانف(
سجدے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں پائوں کھڑے ہوں اور ان کی انگلیاں قبلے کی طرف ہوں چہرہ دونوں ہتھیلیوں کے عین بیچ میں ہو اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کے برابر ہوں انگلیاں ملی ہوئی ہوں اور سیدھی قبلہ رخ ہوں، کہنیاں پسلیوں سے اور رانیں پیٹ سے الگ رہیں اور بالکل سیدھی پلر کی طرح ہوں ، ترچھی نہ ہوں ۔ نیز کہنیاں کھڑی رہیں زمین سے نہ لگیں، اس کے بعد اَللّٰہُ اکْبَرْ کہتے ہوئے اٹھو اور سیدھے بیٹھ پھر اَﷲُ اکْبَرْکہہ کر دوسرا سجدہ اسی طرح کرو، پھر اَﷲُ اکْبَرْ کہتے ہوئے کھڑے ہوجائو، اٹھتے وقت زمین پر ہاتھ نہ ٹیکو، یہ ایک رکعت پوری ہوگئی ، سجدوں کے بعد اٹھنے پر دوسری رکعت شروع ہوگئی۔
حضرت نعمان بن ابی عیاش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے سے اٹھتے تو بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ہو جاتے تھے۔)الدرایہ(
اسلاف امت کا اجماع و اتفاق اس بات پر ہے کہ پہلی اور تیسری رکعت کے بعد بیٹھے بغیر سیدھا کھڑا ہو جانا چاہئے۔
پھر بسم اللہ پڑھ کر الحمد شریف پڑھو پھر کوئی اور سورۃ ملائو اور پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت پوری کرو۔یہ بات یاد رکھو کہ اگر امام کے پیچھے نماز پڑھو تو ثناء کے بعد خاموش ہو جائو اور امام کی قرأت سنو، الحمد شریف اور سورۃ پڑھنے کی ضرورت نہیں دوسری رکعت ختم کرنے پر تشہد کیلئے بیٹھ جائو۔دونوں سجدوں کے درمیان اور تشہد پڑھنے کی حالت میں اس طرح بیٹھا جائے کہ دایاں پائوں کھڑا رکھو اور اس کی انگلیاں قبلے کی طرف رہیں۔اور بایاں پائوں بچھا کر اس پر بیٹھ جائو ، بیٹھنے کی حالت میں دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر قبلہ رخ کر کے رکھو اور پھر تشہد یعنی التحیات پڑھو۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میںہے کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات کے لئے بیٹھنا ہے اور آپ اپنا بایاں پاؤں بچھاتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
٭…التحیات:…
اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ‘O اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ O اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓ اِٰلہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘O
تمام زبان کی عبادتیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں اور بدن کی عبادتیں اور مالی عبادتیں بھی ، سلام تم پر اے نبی (ﷺ)اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ، سلامتی ہو ہم پراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پرمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اوررسول ہیں۔
اگر دورکعت والی نماز ہے التحیات کے بعد درج ذیل درود شریف اور دعاء پڑھ کر سلام پھیر دے اگر تین یا چار رکعت والی نماز ہے تو پھر التحیات پڑھ کر اَللّٰہُ اکْبَرْ کہتے ہوئے تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوجائے۔ اور بسم اللہ پڑھ کر صرف الحمد شریف پڑھے اور رکوع میں چلا جائے اسی طرح چوتھی رکعت پوری کرے ، ہاں اگر چار رکعت والی نماز سنت نفل یا تین وتر ہیں تو تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کے ساتھ سورۃ بھی ملائے۔
مسئلہ نمبر(۱)جب اَشْھَدُ اَنَ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پر پہنچے تو بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر لَآاِلٰہَ کہتے وقت اپنی انگلی شہادت اٹھائے اور اِلَّا اللّٰہُکہتے ہوئے چھوڑ دے، مگرحلقہ اور عقد کی ہیئت کو آخر تک باقی رکھے کیونکہ ایسا کرنا سنت ہے۔
دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی ساتھ والی انگلی کو شہادت والی انگلی کہتے ہیں، چونکہ جب نمازی نماز میں اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے تو یہ انگلی بھی یہی شہادت دیتی ہے۔ لہٰذا تشہد میں جب اشہد ان لا الٰہ پر پہنچیں تو ہاتھ کی بڑی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائیں، شہادت کی انگلی سے اشارہ کریں اور الا اللہ پر انگلی کو نیچے کر لیں اور یہ حلقہ نماز کے آخر تک بنائے رکھیں۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملا لیتے۔)مسلم(
مسئلہ نمبر(۲)اگر یہ نماز چار رکعت یا تین رکعت والی ہے تو التحیات صرف عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ تک پڑھے ، اگر غلطی سے فرض واجب یا سنت مؤکدہ کے درمیانی التحیات میں درود شریف اللّٰھُم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍتک یا اس سے زیادہ پڑھ لے تو سجدہ سہو کرنا پڑے گا اگر اس سے کم پڑھا تو سجدہ سہو نہ آئے گا۔
مسئلہ نمبر(۳)فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورۃ نہ ملائے اگر کوئی غلطی سے سورۃ ملالے تو نماز ہوجائے گی اور سجدہ سہو بھی نہ کرنا پڑے گا۔
درود شریف:…اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ط اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ط
اے اللہ رحمت بھیج محمدصلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر اور آپ کی آل پر جیسا کہ تونے رحمت بھیجی ہے ابراہیم علیہ الصلوٰۃُ والسلام اور ا ن کی آل پرتحقیق تو تعریف کے لائق بزرگی والا ہے اے اللہ برکت نازل فرما محمدصلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم اور آپ کی اولاد پرجیسا کہ تونے برکت فرمائی ابراہیم علیہ الصلوٰۃُ والسلام پر اور ان کی آل پر تحقیق تو تعریف کے قابل بزرگی والا ہے۔
یہ درود شریف دراصل رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے لئے اور آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی آل کے لیے(یعنی آپ کے گھر والوں اور آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے خاص دینی تعلق رکھنے والوں کے لیے)رحمت اور برکت کی دعا ہے۔ہم کو دین کی نعمت اور نماز کی دولت چونکہ حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم ہی کے واسطے سے ملی ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ نے حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے اس احسان کے شکرئیے کے طور پر ہمارے ذمہ مقرر کیا ہے کہ جب نماز پڑھیں تو اس کے آخر میںحضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے لیے اورحضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے خاص متعلقین کے لیے رحمت وبرکت کی دعا بھی کریں۔
٭…درود شریف کے بعد کی دعائیں:…
ان سب کو پڑھ لیں یا کوئی ایک دعاء پڑھ لیں تو بھی کافی ہے۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا ٓ اَنْتَ فَا غْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ط
اے اللہ تحقیق میں نے ظلم کیا اپنی جان پر بہت ظلم اور کوئی نہیں بخشتا گناہوں کو سوا تیرے سو بخش میرے لئے اپنی بخشش سے اور رحم فرما مجھ پر ،بے شک تو ہی بخشنے والا بہت رحم والا ہے۔
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط رَبَّنَا وَتَقَبَّل دُعَآئِ ط رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤمِنِْینَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ ط
اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا بنااور میری نسل کو بھی ،اے رب میری دعاء قبول فرما اے رب ہمارے بخش مجھ کو اور میرے والدین کو اور تمام مؤمنین کو جس دن حساب قائم ہو۔
اس کے بعد دائیں طرف اور پھر بائیں طرف سلام پھیر دیں سلام پھیرتے وقت دائیں ، بائیں فرشتوں اور تمام مومنین جنات وانسانوں کی نیت کریں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ (سلام ہو تم پر اور اللہ کی رحمت)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے۔)ترمذی(
اگر با جماعت نماز ہو۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں پڑھنی ہوتیں تو امام کو چاہئے کہ سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے۔
حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نماز سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہو کر بیٹھتے۔)بخاری(
٭…نماز کے بعد کی مسنون تسبیحات ،دعاء :…
o…شاگرد:استادِ محترم!فرض نماز کے بعد کیا پڑھنا چاہئیے؟
٭…استاد:ہر فرض نماز کے بعد سلام پھیر کر تین بار اَسْتَغْفِرُ اللّہ کہہ کر ان تسبیحات کا پڑھنا بہت فضیلت کا باعث ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں فقراء اور مہاجرین حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مالدار لوگ تو اعلیٰ درجات اور جنت کی نعمتوں میں ہم سے سبقت لے گئے۔ آپﷺ نے پوچھا وہ کیسے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نماز روزہ میں وہ ہمارے ساتھ شریک ہیں لیکن وہ مالی خیرات کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ایسی چیز بتاؤں کہ جس سے تم بھی سبقت لے جانے والوں کے برابر ہو جاؤ اور اپنے بعد والوں کے علاوہ اور کوئی تم سے افضل نہ رہے۔ انہوں نے عرض کیا، ضرور۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر ۳۳،۳۳بار پڑھا کرو۔
حضرت ابو صالحؓ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد پھر فقراء اور مہاجرین بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی ہماری طرح یہ عمل شروع کر دیا، ارشاد ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔)مسلم(
حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ہر نماز کے بعد یہ تسبیحات پڑھنے والا کبھی ناکام نہیں ہوگا )ہمیشہ کامیاب ہوگا( سبحان اللہ ۳۳دفعہ، الحمد للہ ۳۳دفعہ، اللہ اکبر ۳۴دفعہ۔(مسلم)
نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے۔مندرجہ ذیل دعا پڑھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط(مسلم و ترمذی ۱: ص ۶۶)اے اللہ تو سلامتی والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے تو بڑا بابرکت ہے اے صاحب عظمت اور بزرگی کے۔
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ط
اے رب ہمارے دے ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی اورہمیں بچادوزخ کے عذاب سے (پارہ نمبر2سورۃ البقرہ)
o…شاگرد :استادِ محترم!کیا دعاء ہاتھ اٹھا کر مانگنی جائز ہے یا نہیں؟
٭…استاد:فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کی بابت بعض لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض تو اس کو نماز کا ایک جزو شمار کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کو ناجائز اور بدعت کہتے ہیں۔ حالانکہ نماز کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہے، اس وقت رب ذوالجلال کے حضور ہر قسم کی دعا کی جا سکتی ہے۔ عربی میں ہو یا اپنی زبان میں بس اس دعا کو سمجھ کر اخلاص اور حضوری قلب کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اس وقت دعا کرنا مستحب ہے لیکن نماز کا لازمی حصہ نہیں۔ اس معاملے میں شدت اختیار کرنا اعتدال کے منافی ہے۔اسے نماز کا لازمی حصہ نہیں کہنا چاہئے، اور اگر کوئی مانگتا ہے تو اس کو ناجائز یا بدعت نہیں کہنا چاہئے، یہ ایک مستحب عمل ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا ہے کریم ہے جب بندہ اللہ کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو حیا آتی ہے کہ وہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردیں۔)ترمذی(
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب بھی کچھ لوگ اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں تو اللہ ضرور ان کے ہاتھوں میں وہ چیز ڈال دیتے ہیں جو انہوں نے مانگی۔)مجمع الزوائد(
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رات کے آخری حصہ کی دعا اور فرض نمازوں کے بعد کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔(ترمذی)
پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ اجتماعی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ تیسری حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ فرض نماز کے بعد قبولیت دعا کا وقت ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
دعا کے شروع وآخر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور حضورﷺ پر درود شریف پڑھنا چاہئے۔ انہماک، توجہ اور حضوری قلب کے ساتھ گڑگڑا کر دعا مانگنی چاہئے۔ اور اس یقین کے ساتھ دعا مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سن رہا ہے۔ اور وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور مشکلات کو حل کرتا ہے۔ پریشانیوں کو رفع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی دعاؤں کو قبول کرنے والا اور مشکلات کو حل کرنے والا نہیں ہے۔ دراصل دعا مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، اگر اس کے تمام تر آداب کا خیال رکھتے ہوئے مکمل توجہ کے ساتھ مانگی جائے۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور نبی کریمﷺ کے ہمراہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ جب میں نماز پڑھ کر بیٹھ گیا تو میں نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی پھر نبی اکرمﷺ پر درود پڑھا پھر اپنے لئے دعا کی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اب اللہ تعالیٰ سے مانگ تجھے دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے مانگ تجھے دیا جائے گا۔)ترمذی(
سجدہ سہو اور اس کا طریقہ:…
o…شاگرد :استادِ محترم!نماز میں اگر کوئی بھول ہو جا ئے تو کیا کرنا چاہیے،کیا نماز کو دوبارہ پڑھنا چاہیے؟
٭…استاد:اگر نماز کے فرائض میں سے کوئی فرض بھولے سے پہلے ادا ہو جائے یا اس کی ادائیگی میں کچھ تاخیر ہو جائے یا کوئی واجب چھوٹ جائے یا رکعتوں کی صحیح تعداد بھول جائے تو سجدہ سہو کر لینے سے نماز صحیح ہو جائے گی اور اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز ٹوٹ جائے گی اور نئے سرے سے ادا کرنی پڑے گی۔
سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں )یعنی نماز کی آخری رکعت میں( تشہد کے بعد درود شریف اور دعا سے پہلے دائیں طرف سلام پھیر کر دو سجدے کریں، پھر تشہد درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دیں۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بھول یہ ہے کہ نمازی بیٹھنے کی بجائے کھڑا ہو جائے یا کھڑا ہونے کی بجائے بیٹھ جائے، یا )تین چار رکعت والی نماز میں( دو رکعتوں کے بعد )بھول کر( سلام پھیر دے، تو ایسا شخص سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے۔)طحاوی(
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت عبد اللہ ابن عباس حضرت عبد اللہ بن زبیر حضرت انس حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اور دوسرے بہت سے صحابہ سے بھی سلام کے بعد سجدہ سہو منقول ہے۔)طحاوی(
اگر با جماعت نماز میں امام سے کوئی غلطی ہو جائے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ امام کو متنبہ کرنے کے لئے بلند آواز سے سبحان اللہ کہیں تا کہ امام متوجہ ہو کر صحیح کیفیت پر لوٹ آئے۔
اسی طرح قعدہ اولیٰ چھوٹ جانے پر سجدہ سہو: جو شخص بھول کر قعدہ اولیٰ نہ کرے، تو اگر کھڑے ہونے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ جائے، اگر کھڑے ہونے کے بعد یاد آئے تو اب بیٹھے نہیں نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر لے۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اکرمﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے۔ پھر جب آپ نے نماز پوری کر لی تو سجدہ سہو کیا اور پھر سلام پھیرا۔)بخاری(
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تمہیں نماز میں شک آ جائے تو چاہئے کہ شک کو ختم کر کے یقینی بات پر عمل کیا جائے۔ جب اسے مکمل ہونے کا یقین ہو جائے تو پھر دو سجدہ سہو کر لے، اب اگر اس کی نماز پہلے سے مکمل تھی تو یہ ایک اضافی رکعت نفل ہو جائے گی اور اگر واقعی ایک رکعت کم تھی تو اس کی نماز پوری ہو جائے گی، اور سجدے شیطان کو ذلیل کرنے کے لئے ہوں گے۔)ابن ماجہ(
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ میں نے دو رکعتیں پڑھ لیں ہیں یا تین۔ تو حکم یہ ہے کہ جو پڑھ لیا ہے اسے دو رکعتیں شمار کرے، اور نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر لے۔یعنی کم والے احتمال کو اختیار کیا جائے۔
مرد اور عورت کی نماز کا فرق:…
o…شاگرد :استادِ محترم!مرد اور عورت کی نماز میں کیا فرق ہے؟
٭…استاد:عورتوں کی نماز صحیح احادیث مبارکہ کی روشنی میں مردوں کی نماز سے کچھ مختلف ہے۔ مثلاً :
٭… عورتیں چھپ کر نماز پڑھیں،جبکہ مرد حضرات مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں۔
٭…عورتیں تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ دوپٹے سے نکالے بغیر ہاتھوں کی انگلیاں کندھوںتک اور ہتھیلیاں سینے تک اٹھائیں، جب کہ مرد کانوں تک اٹھائیں۔
٭… خواتین دونوں ہاتھ سینے پر باندھیں، جبکہ مرد ناف کے نیچے باندھیں۔
٭…خواتین رکوع میں اپنے بازئووں کو پیٹ کے ساتھ چمٹا کر اتنا جھکیں کہ انگلیاں گھٹنوں پر پہنچ جائیں، جب کہ مرد خوب جھک کر گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ یں۔
٭…خواتین سجدے میں جاتے وقت سینہ آگے جھکاکر اس طرح جائیں کہ پہلے گھٹنے ، پھر ہاتھ زمین پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی ہوں پھر ناک وپیشانی دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھیں، دونوں پائوں داہنی طرف نکال کر خوب سمٹ کر سجدہ کریں کہ پیٹ رانوں سے اور بازو پہلو کی پسلیوں سے مل جائیں جب کہ مرد بازو کھلے اور پائوں کھڑے رکھیں۔
٭…خواتین کیلئے جلسہ یا تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پائوں دائیں طرف نکال کر دائیں پنڈلی کو بائیں پنڈلی پر رکھ کر کولہے پر بیٹھیں ، دونوں ہاتھ رانوں پر رکھیں اور انگلیاں خوب ملی ہوئی ہوں۔ جب کہ مرد بائیں پائوں پر بیٹھیں اور دایاں پائوں کھڑا رکھیں۔اور ہاتھ کی انگلیاں گھٹنوں پر رکھیں ۔
( ماخذ:مرد و عورت کی نماز کا فرق (از: …مفتی محمد رضوان صاحب)
٭…دعاء مانگنے کا سلیقہ سیکھئے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!دعا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
٭…استاد:فرض نمازوں کے بعد دعاء قبول ہوتی ہے لہٰذا دعاء میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ اور دعاء مانگنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دعاء کیلئے سینہ یا کندھوں تک اٹھائے دونوں ہاتھ آپس میں ملے ہوئے ہوں۔انگلیوں کارخ قبلہ کی طرف ہو ہتھیلیوں کا رخ منہ کی طرف ہو اور نظر ہاتھوں پر ہو جب ہاتھ اچھی طرح کھڑے کر لے پھر الحمد اللہ رب العالمین پڑھے پھر درود شریف پڑھے پھر دعا مانگے اگر عربی زبان میں دعاء یا د نہ ہوتو اپنی زبان میں ہی مانگے نہایت عاجزی اور خشوع سے دعاء مانگے قبولیت کی امید رکھے بلند آواز کی بجائے آہستہ آہستہ دعاء مانگے اور پھر درود شریف پڑھے اور دعاء کے ختم پر دونوں ہاتھ اپنے منہ پر پھیر لے۔
دُعاء دراصل دِل کا عمل ہے، زبان سے تو اس کا بس ظہور ہوتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ہاتھوں کا اُٹھنا اور زبان سے دُعاء کے الفاظ کا نکلنا، دُعاء کی صورت اور اس کی ظاہری شکل ہے۔ دُعاء کی حقیقت توجہ کے ساتھ دِل کی طلب اور دِل کا اللہ سے مانگنا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جب آدمی کو رنج اور غم ہوتا ہے تو وہ روتا ہے۔ اس کے منہ سے رونے کی آواز نکلتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں، لیکن یہ رونے کی آواز اور آنکھوں سے آنسو، رنج اور غم کی اَصل حقیقت نہیں ہے، بلکہ اس کی ظاہری شکل و صورت ہے۔ اَصل رنج و غم وہ ہے، جو دِل میں ہوتا ہے، آنکھوں اور منہ سے اس کا ظہور ہوتا ہے۔ آج ہماری عام حالت یہ ہے کہ کم اَز کم فرض نماز کے بعد ہم دُعاء کرتے ہیں اور بعض اوقات خوب دیر تک دُعاء کرتے ہیں، لیکن یہ دُعاء صرف زبان کی اور ہاتھوں کی ہوتی ہے، دِل متوجہ نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ ہمارا حال درست فرمائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دُعاء نہیں ہے، دُعاء کی صرف صورت ہے۔
آپ ابھی سے اس کی عادت ڈالیے کہ آپ کی دُعاء اصلی ہو اور حقیقی ہو، دُعاء کی صرف شکل و صورت نہ ہو۔ خاص کر تنہائی میں دِل کی پوری توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی عادت ڈالئے۔ اس سے اِیمان کی حقیقت مانگئے، علم و معرفت مانگئے، نماز کی حقیقت اور تقویٰ مانگئے، دِین کی خدمت کی توفیق مانگئے۔ تنہائیوں میں رو رو کے اور تڑپ تڑپ کے مانگئے، پھر دیکھئے اللہ کا کیسا فضل ہوتا ہے؟ خاص کر حضوراکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی ماثور دُعاؤں سے مناسبت پیدا کیجیے۔ حدیث کی ہر کتاب میں کتاب الدعوات ہے، جس میں مختلف موقعوں کی حضور اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی سینکڑوں دُعائیں جمع کر دی جاتی ہیں۔ یہ دُعائیں حضور انور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کا خاص الخاص ورثہ ہیں اور بڑا بیش بہا خزانہ ہے اور اس کی کنجی ہمارے، آپ ہی کے پاس ہے، جو ان مدرسوں میں حدیث کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ افسوس! ہمیں اس خزانے کے جواہرات کی قدر نہیں۔ اَگر کوئی ایسا آلہ یا میٹر ہوتا، جس سے آخرت کے لحاظ سے چیزوں کی قدر و قیمت جانچی جا سکتی تو معلوم ہو سکتا کہ حضور انور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی چھوٹی چھوٹی دُعائیں، دُنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں، آپ کو توفیق دے کہ اس کی اس نعمت کی قدر جانیں اور اس کا شکر اَدا کریں کہ اس نے اس عربی تعلیم اور ہمارے ان دِینی مدرسوں کی برکت سے، ہمارے لئے اس خزانے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ذرا حضور اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی ان دُعاؤں کے مضامین پر تو غور کیجیے! حضورصلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی ایک مشہور مختصر دُعاء ہے:
اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اَخْشَاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ اَبَدًا حَتّٰی اَلْقَاکَ وَ اَسْعِدْنِیْ بِتَقْوَاکَ وَ لَا تَشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ۔
اَے اللہ! مجھے ایسا کر دے کہ میں ہر وقت تجھ سے اس طرح ڈروں کہ گویا ہر دم تجھے دیکھ رہا ہوں اور مجھے تقویٰ کی صفت عطا فرما کے نیک نصیب بنا دے اور ایسا نہ ہو کہ تیری نافرمانی کر کے بدبخت ہو جاؤں۔
{مسئلہ }نماز کے بعد سجدہ میں گر کر دعاء مانگنا جائز نہیں۔(شامی ص۵۷۷ج۱)
٭…نماز وِترپڑھنے کا طریقہ:…
o…شاگرد :استادِ محترم! نمازِ وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟
٭…استاد:عشاء کے فرض اور سنتوں کے بعد یہ تین رکعتیں ہوتی ہیں جو کہ واجب ہیں پہلی دو رکعتیں عام طریقہ پر پڑھ کر قعدہ کیا جاتا ہے اور التحیات پڑھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں تیسری رکعت میں الحمد شریف اور کوئی اور سورۃ پڑھ کر اَللّٰہُ اَکْبَرُکہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر پھر ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور دعائے قنوت پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الخَیْرَ ط وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ اَللّٰہُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِق’‘ ط
اے اللہ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تیری بخشش چاہتے ہیں اور تجھ پر ایمان رکھتے ہیں اور تجھ پربھروسہ کرتے ہیں اور تیری خوبیاں بیان کرتے ہیں اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور علیحدہ رہتے ہیں اور ہم چھوڑتے ہیں ، اس کو جو تیری نافرمانی کرے اے اللہ ہم تیری عبادت کرتے اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف دوڑتے ہیں تیری جناب میں حاضر ہوتے ہیں اور تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں تحقیق تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ ماہ رمضان میں نمازوتر تراویح کے بعد امام کے ساتھ باجماعت ادا کی جاتی ہے تینوں رکعتوں میں امام باآواز بلند قرأت کرتاہے مگر مقتدی خاموش رہتے ہیں جب امام تیسری رکعت کی قرأت ختم کر لے تو وہ اللہ اکبر کہہ کرہاتھ اٹھائے پھر امام اور مقتدی دونوں مندرجہ بالا دعائے قنوت پڑھیں اس کے بعداﷲاَکْبَرْ کہہ کر رکوع کریں مگر ماہ ِرمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں نماز وتر بلاجماعت کے ہی ادا کی جاتی ہے۔
o…شاگرد:…استادِ محترم!حضورِ اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟
٭…استاد:نبوت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کا طریقہ بھی بتایا گیا لیکن چونکہ کفار قریش کا ڈر تھا اس لئے چھپ کر نمازادا کرتے تھے جب نماز کا وقت آتا کسی پہاڑ کی گھاٹی میں چلے جاتے اور وہاں نماز پڑھ لیتے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی درہ میں نماز پڑھ رہے تھے اتفاق سے ابو طالب آنکلے انہوں نے دیکھا تو پوچھا! بھتیجے یہ تم کیا کررہے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اسلام کی دعوت دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے اس عبادت شبانہ کے متعلق مختلف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مختلف روایتیں ہیں ایک راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات بھر نماز میں کھڑے رہتے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے پھر سو جاتے پھر اٹھ بیٹھتے اورنماز ادا فرماتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کے بعد اٹھتے تھے اور تیرہ رکعتیں ادا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت نو رکعت کی ہے۔ محدثین نے ان سب میں تطبیق دی ہے کہ آپ ان طریقوں میں سے ہر ایک طریقہ سے نماز ادا کرتے تھے ہرراوی نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے عام طور پر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل وہی تھا جو حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زبانی گزر چکا ہے۔
فرائض پنجگانہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کم از کم سنن و نوافل کی انتالیس رکعتیں روزانہ معمولاً ادا فرماتے تھے دو صبح‘ چار چار‘ چاشت‘ چھ ظہر‘ چار پہلی‘ اور دو بعد نماز (حسب روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) دو مغرب‘ چھ عشاء‘ تیرہ عشاء و وتران کے علاوہ صلوۃ الاوابین‘ سنت تحیۃ مسجد وغیرہ الگ تھیں۔
تمام سنن میں سب سے زیاہ صبح کی دو رکعتوں کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سختی سے پابند تھے کسی وقت بھی خلاف معمول اگر چھوٹ جاتی تو اس کی قضا پڑھتے حالانکہ اصل شریعت کی رو سے اس کی ضرورت عام امت کیلئے نہیں ایسا واقعہ حضر میں صرف ایک ہی دفعہ پیش آیا ہے ظہر و عصر کے درمیان ایک وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر کے بعد کی دو رکعت نہ پڑھ سکے نماز عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کے حجروں میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی چونکہ یہ نمازبالکل خلاف معمول تھی۔ اس لئے ازواج مطہرات (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) نے استفسار کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعہ بیان فرمایا عام امت کیلئے ایک نماز کی قضا ایک دفعہ کافی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس چیز کو شروع کرتے تھے پھر اسے ترک کرنا پسند نہیں فرماتے تھے اس لئے ام المومنین حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قضا کو تمام عمر ادا کیا۔
رمضان المبارک کا مہینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادتوں کیلئے سب سے زیادہ ذوق افزا تھا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیاض تو تھے ہی لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا اور جبرئیل علیہ السلام قرآن سنانے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیاضی کی کوئی حد نہ رہتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیاضی ہوا سے بھی آگے نکل جاتی۔ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زیادہ عبادت گزار ہوجاتے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکہتی ہیںکہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات رات بھر بیدار رہتے تھے۔ ازواج مطہرات (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) سے بے تعلق ہوجاتے تھے اہل بیت کو نماز کیلئے جگاتے تھے اس اخیرہ عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عموماً اعتکاف بیٹھا کرتے تھے یعنی ہمہ وقت مسجد میں بیٹھ کر یاد الٰہی اور عبادت میں مصروف رہتے تھے۔
قرآن مجیدکی تلاوت روزانہ فرماتے تھے‘ ابو دائود کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت کا وقت نمازعشا کے بعد تھا روزانہ سورتوں کی تعداد مقرر تھی اسی تعداد کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلاوت کرلیا کرتے تھے رمضان المبارک میں پورے قرآن کا دور کرتے تھے۔
جو چیز نماز کی حضوری میں خلل ڈالتی تھی اس سے احتراز فرماتے تھے ایک دفعہ چادر اوڑھ کر نماز ادا فرمائی جس میں دونوں طرف حاشئے تھے نماز میں اتفاقاً حاشیوں پر نظر پڑگئی نماز سے فارغ ہوکر فرمایا کہ یہ لے جاکر فلاں شخص کو دے آئو اور اس سے انجانی مانگ لائو‘ حاشیوں نے نماز کی حضوری میں خلل ڈالا۔
ایک دفعہ دروازے پر منقش پردہ پڑا ہوا تھا نماز میں اس پر نگاہ پڑی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اس کو ہٹا دو اس کے نقش و نگار حضور قلب میں خلل ڈالتے ہیں۔
اس سبق میںنماز کے متعلق کچھ ضروری باتیں عرض کی ہیں کیونکہ نماز وہ کیمیا اثر عبادت ہے کہ اگرا س کو دھیان کے ساتھ اور سمجھ سمجھ کے اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کیا جائے تو وہ انسان کو ا عمال واخلاق میں فرشتہ بنا سکتی ہے۔
رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو امت کے نماز پر قائم رہنے کی اتنی فکر تھی کہ بالکل آخری وقت میں جب کہ حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے اور زبان سے کچھ فرمانا بھی مشکل تھا اُس وقت بھی آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمت کو نماز پر قائم رہنے اور نماز کو قائم رکھنے کی بڑی تاکید کے ساتھ وصیت فرمائی تھی۔
پس جو مسلمان آج نماز نہیں پڑھتے اور نماز کو قائم کرنے اور رواج دینے کی کو شش نہیں کرتے،وہ خدارا سوچیں کہ قیامت میں وہ کس طرح حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے آنکھ ملا سکیں گے،جب کہ وہ حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی آخری وصیت کو بھی پا مال کر رہے ہیں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہمیں نماز قائم کرنے کی تو فیق فرما ئیں۔