رُوٴیتِ ہلال

خود چاند دیکھ کر روزہ رکھیں، عید کریں یا رُوٴیتِ ہلال کمیٹی پر اعتماد کریں

س… موجودہ دور میں جس کو سائنسی فوقیت حاصل ہے، رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کے اعلان پر عموماً رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہیں اور عید منائی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے، روزہ رکھا جائے یا نہیں؟ عید کی جائے یا نہیں؟ جبکہ صحیح احادیث میں حکم وارد ہے: “چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو” دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹی کے اعلان پر کیا روزہ رکھنا یا عید کرنا واجب ہے؟

ج… حدیث کا مطلب تو ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہے کہ ہر شخص چاند دیکھ کر روزہ رکھا کرے اور چاند دیکھ کر چھوڑا کرے، بلکہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ رُوٴیت کے ثبوت سے رمضان اور عید ہوگی۔ رُوٴیتِ ہلال کمیٹی اگر شرعی قواعد کے مطابق چاند کی رُوٴیت ہونے کے بعد اعلان کرے تو عوام کو اس کے اعلان پر روزہ یا عید کرنا ہوگی۔ باقی رُوٴیتِ ہلال کمیٹی اہلِ علم پر مشتمل ہے، یہ حضرات ثبوتِ رُوٴیت کے مسائل ہم سے تو بہرحال زیادہ ہی جانتے ہیں، اس لئے ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہئے۔

رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کا فیصلہ

س… موجودہ رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کا فیصلہ چاند کے بارے میں خصوصاً رمضان اور عیدین کے بارے میں جو ریڈیو اور ٹیلیویژن پر نشر ہوتا ہے، پورے ملک پاکستان کے لئے واجب العمل ہے یا ملک کا کوئی حصہ اس سے خارج ہے، اور موجود رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کے ارکان جنابِ والا کے نزدیک معتبر ہیں یا نہیں؟

ج… جہاں تک مجھے معلوم ہے رُوٴیتِ ہلال کا فیصلہ شرعی قواعد کے مطابق ہوتا ہے، اور یہ پورے ملک کے لئے واجب العمل ہے، اور جب تک یہ کام لائقِ اعتماد ہاتھوں میں رہے اور وہ شرعی قواعد کے مطابق فیصلے کریں، ان کے اعلان پر عمل لازم ہے۔

رُوٴیتِ ہلال کا مسئلہ

س… ہم نے یہی پڑھا ہے اور سنا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر بند کرو، اور میں نے ایک نہایت بزرگ صاحبِ شریعت سے یہ سنا ہے کہ جو لوگ صائم الدہر ہوتے ہیں، یعنی ہمیشہ روزے رکھتے ہیں، ان کو سال میں پانچ دن کے روزے حرام ہیں، عیدالفطر کار وزہ، اور ذی الحجہ کی ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳/ تاریخ کے روزے۔ اور عام لوگوں کے لئے یہ ہدایت ہے کہ شعبان کی ۲۹، ۳۰/تاریخ کو روزہ نہ رکھیں، تاکہ رمضان کے روزے کے ساتھ اس کا اتصال نہ ہو، لیکن ہمیشہ سے مردان اور پشاور صوبہ سرحد کے اکثر اضلاع میں ایک دن پہلے روزہ شروع کردیتے ہیں، حالانکہ وہاں بھی ہلال کمیٹیاں قائم ہیں، اور کسی جگہ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے کہ چاند ہوگیا ہے، اور جب کبھی ان لوگوں سے بات کرو تو یہ جاہلانہ جواب ملتا ہے کہ آپ لوگوں کے ۲۹ ہوئے اور ہمارے تو پورے ۳۰ ہوگئے۔

ج… مردان وغیرہ علاقوں میں ایک دو دن پہلے رُوٴیت کیسے ہوجاتی ہے؟ یہ معما ہماری سمجھ میں بھی نہیں آیا، بہرحال جب ملک میں رُوٴیتِ ہلال کمیٹی مقرّر ہے اور سرکاری طور پر مرکزی رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کو چاند ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے، تو مرکزی رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کسی عالم کا فیصلہ شرعاً حجتِ ملزمہ نہیں، اس لئے ان علاقوں کے لوگوں کا فرض ہے کہ مرکزی رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پابندی کریں اور اگر ان علاقوں میں چاند نظر آجائے تو باضابطہ شہادت مرکزی رُوٴیتِ ہلال کمیٹی یا اس کے نامزد کردہ نمائندہ کے سامنے پیش کرکے اس کے فیصلے کی پابندی کریں۔

چاند کی رُوٴیت میں مطلع کا فرق

س… بوقتِ درس و تدریس اُستاذ صاحب (مرحوم) نے چاند سے متعلق مسائل کی وضاحت بحوالہ معتبر کتب نیچے دئیے گئے بیانات سے کی ہے، آپ نے فرمایا:

“۱:… وشرط مع غیم للفطر نصاب الشھادة لا الدعویٰ (ولا عبرة لاختلاف فی المطالع)۔

۲:… ویلزم حکم اھل احدی البلدتین لأھل بلدة اخریٰ۔

۳:… وجہ قول المعتبرین ان سبب الوجوب وھو شھود الشھر لم یوجد فی حقھم، فلا یوجب وجود فی حق غیرھم۔

۴:… فقد ثبت عن النبی صلی الله علیہ وسلم اجازة شہادة الواحد فی رمضان، اخرجہ اصحاب السنن، وفی سنن الدارقطنی بسند ضعیف ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کان لا یجزی فی الافطار الا شھادة الرجلین۔”

ترجمہ:…”۱:… اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو عیدالفطر کے چاند کے لئے نصابِ شہادت شرط ہے، مگر دعویٰ شرط نہیں، اور اختلافِ مطالع کا کوئی اعتبار نہیں۔

۲:… اور ایک شہر کے فیصلے کی پابندی دُوسرے شہر والوں کو بھی لازم ہے۔

۳:… جو حضرات اختلافِ مطالع کا اعتبار کرتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ روزہ واجب ہونے کا سبب ماہِ رمضان کی آمد ہے اور وہ (اختلافِ مطالع کی وجہ سے) دُوسرے لوگوں کے حق میں نہیں پایا گیا، لہٰذا ایک مطلع میں چاند کا نظر آنا، دُوسرے مطلع میں ہلالِ رمضان کے وجود کو ثابت نہیں کرتا۔

۴:… چنانچہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلالِ رمضان میں ایک آدمی کی شہادت کو قبول فرمایا، یہ حدیث سنن میں ہے۔ اور سننِ دارقطنی میں بہ سندِ ضعیف مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر میں صرف دو مردوں کی شہادت قبول فرماتے تھے۔”

درج بالا بیانات صحیح ہیں یا غلط ہیں؟ چاند سے متعلقہ اعلان کے معتبر اور غیرمعتبر ہونے کے بارے میں بحوالہ بیانات کتبِ معتبرہ و مستند وضاحت فرمائیں۔ آپ کا فتویٰ ہمارے لئے سند کی حیثیت رکھتا ہے، اس سے پیشتر بھی غیرمعترضانہ و غیرمعروف طریقہ پر بہت سے متنازع فیہ مسائل کے حل کے بارے میں آپ سے استفادہ کیا گیا، اور آپ کے فتاویٰ ہر لحاظ سے قابلِ عمل سمجھے گئے ہیں۔

ج:… آپ نے جو عبارتیں لکھی ہیں، وہ صحیح ہیں، لیکن بہت مجمل نقل کی ہیں، میں ان سے متعلقہ مسائل کی آسان الفاظ میں وضاحت کردیتا ہوں۔

۱:… اگر مطلع صاف ہو اور چاند دیکھنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو تو رمضان اور عید دونوں کے چاند کے لئے بہت سے لوگوں کی شہادت ضروری ہے، جن کی خبر سے قریب قریب یقین ہوجائے کہ چاند ہوگیا ہے، البتہ اگر کوئی ثقہ مسلمان باہر سے آیا ہو یا کسی بلند جگہ سے آیا ہو تو رمضان کے چاند کے بارے میں اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔

۲:… اگر مطلع ابر آلود یا غبار آلود ہو تو رمضان کے چاند کے لئے صرف ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کہ اس نے چاند دیکھا ہے، لیکن عید کے چاند کے لئے یہ شرط ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں کہ انہوں نے خود چاند دیکھا ہے، نیز یہ بھی شرط ہے کہ یہ گواہ لفظ “اشہد” کے ساتھ گواہی دیں، یعنی جس طرح عدالت میں گواہی دی جاتی ہے، اسی طرح یہاں بھی یہ الفاظ کہیں کہ: “میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے چاند دیکھا ہے۔” جب تک نصابِ شہادت (دو عادل ثقہ مسلمان مردوں کا، یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہی دینا) اور لفظِ شہادت کے ساتھ گواہی نہ ہو، عید کا چاند ثابت نہیں ہوگا۔

۳:… جب ایک شہر میں شرعی شہادت سے رُوٴیت کا ثبوت ہوجائے تو دُوسرے شہروں کے حق میں بھی یہ رُوٴیت واجب العمل ہوگی یا نہیں؟

اس ضمن میں تین اُصول کا سمجھ لینا ضروری ہے:

اوّل یہ کہ ایک شہر کی رُوٴیت کا ثبوت دُوسرے شہر والوں کے لئے درج ذیل تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے ہوسکتا ہے:

۱:- شہادت علی الشہادت: یعنی دُوسرے شہر میں دو عاقل بالغ عادل مسلمان یہ گواہی دیں کہ فلاں شہر میں ہمارے سامنے دو عاقل بالغ عادل گواہوں نے رُوٴیت کی گواہی دی۔

۲:- شہادت علی القضاء: یعنی دُوسرے شہر میں دو عاقل بالغ عادل مسلمان یہ گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی نے رُوٴیت ہوجانے کا فیصلہ کیا۔

۳:- تواتر و استفاضہ: یعنی دُوسرے شہر میں متفرق جماعتیں آکر یہ بیان کریں کہ فلاں شہر میں رُوٴیت ہوئی ہے، اور یہ جماعتیں اتنی زیادہ ہوں کہ اس شہر کے حاکم کو قریب قریب یقین ہوجائے کہ واقعی فلاں شہر میں چاند ہوگیا ہے۔

اگر ان تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے ایک شہر کی رُوٴیت دُوسرے شہر میں ثابت ہوجائے تو دُوسرے شہر والوں کے حق میں بھی یہ رُوٴیت حجت ہوگی۔

دُوسرا اُصول یہ ہے کہ ایک قاضی کا فیصلہ صرف اس کے زیرِ ولایت علاقوں اور شہروں کے حق میں حجت ہے، جو علاقے اور شہر اس کے زیرِ ولایت نہیں، ان پر اس قاضی کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا، البتہ اگر ثبوتِ رُوٴیت سے مطمئن ہوکر دُوسرے شہر یا علاقے کا قاضی بھی رُوٴیت کا فیصلہ کردے تو اس کے زیرِ حکومت علاقوں میں بھی رُوٴیت ثابت ہوجائے گی۔

تیسرا اُصول یہ ہے کہ جن علاقوں میں اختلافِ مطالع کا فرق نہیں ہے، ان میں تو ایک شہر کی رُوٴیت کا دُوسرے شہر والوں کے حق میں لازم العمل ہونا (بشرطیکہ مندرجہ بالا دونوں اُصولوں کے مطابق اس دُوسرے شہر تک رُوٴیت کا ثبوت پہنچ گیا ہو) سب کے نزدیک متفق علیہ ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن جو شہر ایک دُوسرے سے اتنے دُور واقع ہوں کہ دونوں کے درمیان اختلافِ مطالع کا فرق ہے، ایسے شہروں میں ایک کی رُوٴیت دُوسرے کے حق میں لازم ہوگی یا نہیں؟

اس میں ظاہر مذہب یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا کوئی اعتبار نہیں، اس لئے اگر دو شہروں کے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہو تب بھی ایک شہر کی رُوٴیت دُوسرے کے حق میں حجتِ ملزمہ ہے، بشرطیکہ رُوٴیت کا ثبوت شرعی طریقے سے ہوجائے، یہی مالکیہ اور حنابلہ کا مذہب ہے، لیکن بعض متأخرین نے اس کو اختیار کیا ہے کہ جہاں اختلاف مطالع کا فرق واقعی ہے، وہاں اس کا شرعاً بھی اعتبار ہونا چاہئے، حضراتِ شافعیہ کا بھی یہی قول ہے، لیکن فتویٰ ظاہر مذہب پر ہے کہ اختلافِ مطالع کا مطلقاً اعتبار نہیں، نہ بلادِ قریبہ میں اور نہ بلادِ بعیدہ میں۔

رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کا دیر سے چاند کا اعلان کرنا

س… آپ کو علم ہے کہ اس بار رُوٴیتِ ہلال کمیٹی نے تقریباً رات ساڑھے گیارہ بجے رمضان المبارک کے چاند کے ہونے کا اعلان کیا، جبکہ آبادی کا بیشتر حصہ عشاء کی نماز ادا کرکے اس اطمینان کے ساتھ سوگیا کہ چاند نہیں ہوا، (یاد رہے کہ کراچی میں چاند ہونے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی)، اس طرح ہزاروں افراد نہ تو نمازِ تراویح ادا کرسکے اور نہ ہی صبح روزہ رکھ سکے، اس سلسلے میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے شرعی جوابات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔

الف:… اتنی رات گئے چاند کے ہونے کی اطلاع کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

ج… رُوٴیتِ ہلال کمیٹی کو پہلے شہادتیں موصول ہوتی ہیں، پھر وہ ان پر غور کرتی ہے کہ یہ شہادتیں لائقِ اعتماد ہیں یا نہیں؟ غور و فکر کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچتی ہے اس کا اعلان کردیتی ہے، اس میں بعض اوقات دیر لگ جانا بعید نہیں، کام کرنا مشکل ہوتا ہے، اس پر تنقید آسان ہوتی ہے۔

ب:…کیا اس صورت میں عوام پر قضا روزہ لازم ہوگا، جبکہ انہوں نے یہ روزہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑا یا حکومتِ وقت پر اس روزے کا کفارہ ادا کرنا واجب ہوگا؟

ج… جب لوگوں کو رُوٴیتِ ہلال کے فیصلے کا علم ہوجائے تو ان پر روزہ رکھنا لازم ہے، اور جن لوگوں کو علم نہ ہوسکے، وہ روزہ کی قضا کرلیں، جو روزہ رہ جائے اس کا کفارہ نہیں ہوتا، صرف قضا ہوتی ہے، حکومت پر قضا نہیں۔

قمری مہینے کے تعین میں رُوٴیت شرط ہے

س… مختلف مذہبی و غیرمذہبی تنظیمیں اِفطار و سحری کے نظام الاوقات سائنسی طریقے سے حاصل کئے ہوئے اوقات شائع کرکے ثواب کماتی ہیں، اسی حساب سے اِفطار اور سحری کرتے ہیں، کیا سائنسی طریقے سے نیا چاند نکلنے کے وقت کو تسلیم کرنا مذہباً منع ہے؟ اگر نہیں تو پھر سائنسی حساب سے ہر ماہ کا آغاز کیوں نہیں کرتے؟ اگر کرتے تو پچھلے سال سعودی عرب میں اٹھائیس کا عید کا چاند نہ ہوتا۔

ج… قمری مہینے کا شروع ہونا چاند دیکھنے پر موقوف ہے، فلکیات کے فن سے اس میں اتنی مدد تو لی جاسکتی ہے کہ آج چاند ہونے کا امکان ہے یا نہیں؟ لیکن جب تک رُوٴیت کے ذریعہ چاند ہونے کا ثبوت نہ ہوجائے محض فلکیات کے حساب سے چاند ہونے کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ چاند ہونے میں رُوٴیت کا اعتبار ہے، فلکیات کے حساب کا اعتبار بغیر رُوٴیت کے نہیں۔