حج بدل ایسے کریں

حج بدل کا مطلب ہے اپنے بدلے اپنے مصارف پر دوسرے سے حج کرانا،ایک شخص پر حج تو فرض ہے لیکن وہ کسی بیماری،معذوری یا مجبوری کی وجہ سے خود نہیں کرسکتاتو اس کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اپنا قائم مقام بنا کرحج کے لیے بھیج دے اور وہ شخص اس کی بجائے حج کرے پس کسی دوسرے کی طرف سے اس کی فرمائش کے مطابق حج کرنے کو حج بدل کہا جا تا ہے۔
اگر کسی کو اپنے مال سے زندہ یا مردہ عزیز قریب استاد پیر ومرشد کی طرف سے حج بدل کرنا ہے جس سے ثواب پہنچانا مقصود ہواور جس کی طرف سے حج کررہا ہے اس پر حج فرض نہیں ہے تو اس میں کوئی شرط نہیں جس میقات سے چاہے جونسا حج کرنا چاہے ادا کرلے یا کسی دوسرے شخص سے حج کرادے اس میں یہ بھی شرط نہیں کہ جس کی طرف حج کررہا ہے اس نے نائب بنایا ہو یا وصیت کی ہو ۔البتہ حج فرض کی ادائیگی کے لیے جو حج اسی کے مال سے ادا کیا جا رہا ہوجس کی طرف سے حج کرنا ہے اس میں بہت سی شرطیں ہیں۔
لیکن تین بنیادی شرطیں یہ ہیں،اگریہ تین شرطیں پا ئی گئیںتو وہ حج حج بدل کہلائے گا،اور اگر تینوں شرطیںیا ان میں سے کو ئی ایک شرط نہیں پا ئی گئی تو وہ حج بد ل نہیں بلکہ اس کو ’’حج نفل‘‘کہیں گے۔
٭…پہلی شرط یہ ہے کہ جس شخص کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے اس پر حج فرض تھالیکن وہ حج کیے بغیردنیا سے رخصت ہو گیا ہو ،یا ایسا معذور ہو گیا ہوکہ اب اس کے خودحج کرنے کی کوئی توقع نہ ہو۔
حج بدل کی پہلی قسم:…
حج بدل کی پہلی قسم یہ ہے کہ کسی پر حج فرض ہو ا،اس نے غفلت کی وجہ سے نہ کیا ،پھر وصیت کرکے رقم چھوڑ گیا ،تو اس کی طرف سے اس کی رقم سے حج بدل کے لئے جا نایہ پہلی قسم ہے۔اس حج بدل کی پہلی شرط یہ ہےکہ جس کی طرف حج کیا جا رہا ہے،اس پر حج فرض ہو چکا ہو،دوسری شرط اس نے وصیت کی ہو کہ میں اس فریضے کو ادا نہ کرسکا میرے ورثا میری طرف سے حج کروائیں،تیسری شرط یہ کہ حج کا پورے کا پورا خرچہ یا اس کا اکثر حصہ مرحوم کے مال سے دیا جائے۔
پہلا حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کی طرف سے جو حاجی حج بدل کے لئے جا ئے گا،اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نے اپنا حج کیا ہو ورنہ حج بدل مکروہ ہو جا ئے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس حج میںحج افراد کا احرام باندھنا پڑے گا۔حج تمتع یا حج قران نہیں کر سکتےوجہ یہ حج بدل میں ضروری ہو تا ہے کہ جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے،اس کی جو میقات ہے وہاں سے احرام باندھا جا ئے جبکہ آپ پڑھ چکے ہیںکہ حج تمتع اور قران والے جب میقات سے گزرتے ہیں تو انہوں نے عمرے کا احرام باندھا ہو اہوتا ہےمیقات سے گزرتے وقت حج کا احرام نہیں ہوتا،چونکہ یہ حج،حج افراد ہوگااس لئے اس کے بعد حج کی قربانی لازم نہیں ہو گی یہ حج بدل کی پہلی قسم ہے جس پر حج فرض تھا۔
حج بدل کی دوسری قسم:…
حج بدل کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی پر حج فرض نہیں تھایا حج فرض تھا لیکن اس نے وصیت نہیں کی تھی اب اس کے متعلقین یا اس کی اولاد یہ چاہتی ہے کہ ہم اپنے والدین کو زندگی میں حج نہ کراسکے،اب ان کی جگہ کسی اور کو حج کرواکے ان کو ثواب پہنچانا چاہتے ہیں اس میں میت کی طرف سے پیسہ خرچ نہیں ہو تا کسی اور کی رقم استعمال ہو تی ہےاس لئے اس میں کو ئی شرط نہیں جس نے حج نہیں کیا وہ بھی جا سکتا ہے اور اس میں تمتع قران بھی کیا جا سکتا ہےدرحقیقت یہ عام نفلی حج ہو گابس اتنا ہو گا کہ حج سے پہلےیا بعد یوں دعا کرلےیا اللہ اس حج کا ثواب فلاں کو پہنچادے۔
نفلی حج کا ثواب ایک سے زیادہ افراد کو پہنچایا جا سکتا ہے اور مُردوں کو بھی پہنچایا جاسکتا ہے،نفلی عبادات کا ثواب ایک یا زیادہ مُردہ اور زندہ سب کو پہنچایا جاسکتا ہے اور ثواب پہنچانے والے کے ثواب میں بھی کو ئی کمی نہیں آتی اس میں بہت زیادہ آسانی اور گنجائش ہے۔
حج بدل کے فضائل:…
تین جنتی :…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ (حج بدل میں) ایک حج کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں: …
ایک مرنے والا (جس کی طرف سے حجِ بدل کیا جا رہا ہے)
دوسرا حج کرنے والا ۔
تیسرا وہ شخص (یعنی وارث وغیرہ ) جو حج کرارہا ہے (یعنی حجِ بدل کے لئے روپیہ دے رہا ہے)۔
چار شخصوں کو ثواب: ۔
ایک حدیث میں ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنے میں چار شخصوںکو ثواب ملتا ہے:
(۱)…وصیت کرنے والے کو۔
(۲)… دوسرے اس کو جو اس وصیت کو لکھے۔
(۳)… روپیہ خرچ کرنے والے کو ۔
(۴)… حج کرنے والے کو ۔
حجِ بدل کر نے والے کو حج کا ثواب :…
ایک روایت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی کی طرف سے حج کرے، اس حج کرنے والے کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا اس کو ملتاجس کی طرف سے حج کیا جاتا ہے۔
جس نے اپنا فرض حج کر لیا ہو اس کو اپنے لئے نفلی حج کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے حجِ بدل کرنا افضل ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے میت کی طرف سے حج کیا تو میت کے لیے ایک حج لکھا جائے گااور حج کرنے والے کے لئے سات حج ہوں گے۔
حجِ بدل حج نفل سے افضل ہے:…
دوسرے کا حج فرض ادا کرنے کے لئے حج بدل کرنا اپنا نفلی حج ادا کرنے سے افضل ہے۔
دوسروں کی طرف سے حج کرنے کا ثواب بعض وجوہ سے اپنے حج کے ثواب سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے ۔
والدین کے لئے حج کی فضیلت :…
مسئلہ : والدین فوت ہو چکے ہوں یا حج کرنے سے عاجز ہوں، تو اولاد کو ان کے لئے حج کرنا مستحب ہے۔
حضرت ابو رزین رضی اﷲ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عرض کی، کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ حج اور عمرہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور نہ ہی سفر کر سکتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:…
حج عن ابیک واعتمر ۔
اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کرو۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:… جس نے اپنے والد یا والدہ کی طرف سے حج کیا۔ تو اس نے ان کے ذمہ سے حج ادا کر دیا۔ اور اسے دس حج کرنے کے برابر اجر ملے گا۔
اگر والدین پر حج فرض نہیں تھا، یعنی صاحب استطاعت نہیں تھے، بیٹا صاحب استطاعت ہے تو والدین کے لئے حج و عمرہ کر سکتا ہے ، لیکن یہ نفل حج ہو گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا تو بے شک اس نے ان کی طرف سے حج ادا کردیااوراس کو خود دس حج زائدکا ثواب ملے گا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس شخص نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا ان کا قرض اداکیا تو وہ قیامت کے دن ابراروں کے ساتھ اٹھا یا جا ئے گا ۔
بعض فقہا ء نے یہ لکھا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد اگر اولاد میں سے کو ئی ان کی طرف سے حج بدل کرے،اگرچہ والدین نے حج کی وصیت نہ کی ہوتو اﷲ تعالیٰ سے امید رکھنی چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ ان کے فرض حج کی جگہ اسے قبول فرما لیں گے۔
جب والدین میں سے کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ حج فرض ہو اور اس نے اس کی ادائیگی کی وصیت نہ کی ہو تو بیٹے کو والدین کی طرف سے بطورِ احسان حج کرا دینا یا خود اس کی طرف سے حج کرنا بہت زیادہ مستحب ہے۔ اور اگر خود یا کسی دوسرے شخص سے مکہ مکرمہ ہی سے حج کرائے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس سے اس میت کا حج فرض ادا ہو جائے گا۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے والدین کی طرف سے ان کے اتنقال کے بعد حج کرے، اس کے لئے جہنم کی آگ سے نجات ہے اور والدین کے لئے پورا حج لکھا جاتا ہے۔ ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی۔ اور اپنے کسی قریبی عزیزی و رشتہ دار کے لئے اس سے بڑھ کر صلہ رحمی نہیں ہو سکتی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی طرف سے حج کر کے اس کی قبر میں پہنچائے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس کے ذمہ کسی کا قرض ہو تا تو تم ادا کرتے یا نہ ؟ انہوں نے عرض کیا (ضرور) ادا کرتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا قرض ہے اس کو ادا کرو۔
ایصال ثواب کے لئے حج ِ بدل :…
مسئلہ : جس شخص پر حج فرض نہیں تھا اور حج کرنے کی وصیت بھی نہ ہو۔ اگر وارث اس کی طرف سے حج بدل کریں یا کرائیں، تو یہ نفلی حج ہو گا اور مرحوم کو اس کا ثواب انشاء اللہ ضرور پہنچے گا۔
اگر وصیت نہ کی ہو تو جیسا حج چاہے کر سکتا ہے۔ (یعنی افراد، تمتع ، قران) وہ حج بدل نہیں ہو گا، بلکہ برائے ایصال ثواب ہو گا۔ جس کا ثواب اللہ تعالیٰ اس کو پہنچا دے گا، جس کی طرف سے وہ کیا گیا ہو۔
حجِ بدل کون کب کرائے:…
مسئلہ:… کسی شخص پر حج فرض ہو گیا اور اس نے ادائے حج کا زمانہ اور حج کرنے کی قدرت بھی پائی ، لیکن حج نہیں کیا، پھر وہ حج کرنے سے معذور اور عاجز ہو گیا اور آئندہ بھی قدرت ہونے کی بظاہر کوئی امید نہیں مثلاً ایسا نابینا یا بیمار ہو گیا جس سے شفا کی امید نہیں یا اپاہج ہو گیا یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہو گیا کہ کر سواری پر سوار نہیں ہو سکتا تو اس کے ذمہ فرض ہے کہ اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کو بھیج کر خود حجِ بدل کرائے یا وصیت کر دے کہ میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حجِ بدل کرا دیا جائے۔
حج بدل کس سے کرایا جائے :…
بہتر یہ ہے کہ حجِ بدل ایسے شخص سے کرایا جائے جس نے اپنا حج کر لیا ہو۔ اگر کسی ایسے شخص سے حجِ بدل کرایا جس نے ابھی اپنا حج ادا نہیں کیا ، اور اس پر حج فرض بھی نہیں ہے تو حجِ بدل ادا ہو جائے گا مگر خلافِ اولیٰ ہو گا۔
اور اگر اس کے ذمہ اپنا حج فرض ہونے کے باوجود اس نے اب تک حج فرض ادا نہیں کیا تو اس کے لئے دوسرے کے واسطے حجِ بدل پر جانا جائز نہیں مکروہ تحریمی اور گناہ ہے مگر حجِ بدل کرانے والے کا حج فرض پھر بھی ادا ہو جائے گا۔
’’افضل یہ ہے کہ حج بدل کرنے والا اپنی طرف سے حج کر چکا ہو ۔ کیونکہ دوسرے کی طرف سے حج کرنے میں اپنے فرض کی ادائیگی فی الحال ترک ہو رہی ہے، لہٰذا ایسے شخص کو حج کرانے میں ایک قسم کی کراہت ہے۔
نیز اس لئے کہ اگر ایک مرتبہ پہلے حج کر چکا ہے، تو وہ مناسک حج سے زیادہ واقف ہو گا۔ علاوہ ازیں اس صورت میں اختلاف بھی نہیں رہتا، اس لئے یہ افضل ہے‘‘۔
صالح عالم حج کے مسائل سے واقف سے حج بدل کرانا افضل ہے۔
پس رشتہ دار اور اہل تعلقات کے مقابلہ میں کسی صالح عالم دین جو حج کر چکا ہو حج بدل افضل ہے۔
ضرور ی نہیں کہ مرد مرد کی طرف سے اور عورت عورت کی طرف سے حج بدل ادا کرے اگر مرد نے عورت کی طرف سے یا عورت نے مرد کی طرف سے حج بدل ادا کر لیا تب بھی ادائیگی ہو جائے گی، مگر عورت کے لئے سفر میں جانے کے لئے ضروری ہے کہ محرم ساتھ ہو، نیز شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کے حج بدل کے لئے سفر نہ کرے۔
اگر عورت مرد کی طرف سے حج بدل کرے تو جائز ہے مگر مرد سے حج بدل کرانا افضل ہے۔
حجِ بدل کے لئے معاوضہ لینے کا حکم :…
حج بدل کرنے پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں ہے ، چنانچہ اگر باقاعدہ معاوضہ طے کر کے حجِ بدل کرایا تو لینے والا اور دینے والا دونوں گناہگار ہوں گے البتہ آمر کا حج بدل ادا ہو جائے گا بشرطیکہ مامور ذکر کردہ شرائط کے مطابق آمر کی طرف سے حجِ بدل کرے۔
نفلی حج و عمرہ :…
اگر کسی کو اپنے مال سے زندہ یا مردہ عزیز قریب استاد پیرو مرشد کی طرف سے حج بدل کرنا ہے جس سے ثواب پہنچانا مقصود ہو اورجس کی طر ف سے حج کر رہا ہے اس پر حج فرض نہیں ہے تو اس میں کوئی شرط نہیں جس میقات سے چاہے جونسا حج کرنا چاہے ادا کر لے یا کسی دوسرے شخص سے حج کرا دے۔ اس میں یہ بھی شرط نہیں کہ جس کی طرف سے حج ادا کر رہا ہے اس نے نائب بنایا ہو یا وصیت کی ہو۔
نفل حج دوسرے شخص سے کرانے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہے کہ حج کرنے والا مسلمان ہو، عقل والا اور سمجھ بوجھ والا ہو۔ البتہ فرض حج کسی دوسرے سے کرانے کے لئے یہ شرطیں ہیں:
(۱)… جو شخص اپنا حج کرائے اس پر حج فرض ہونا۔
(۲)… حج فرض ہونے کے بعد خود حج کرنے سے عاجز ہونا۔
(۳)…موت کے وقت تک عاجز رہنا یا ایسا عذر ہونا جو عام طور سے ختم نہیں ہوتا۔
(۴)… دوسرے شخص کو اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم کرنا اگر خود موجود ہو اور اگر مر گیا ہو اور حج کرانے کی وصیت کر گیا ہو تو وصی یا وارث کا حکم کرنا شرط ہے۔
(۵)… مصارف سفر میں حج کرانے والے کا روپیہ خرچ ہونا۔
(۶)… احرام کے وقت حکم کر نے والے یعنی آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا۔
زبان سے یہ کہنا کہ فلاں کی طرف سے احرام باندھتا ہوں افضل ہے ضروری نہیں۔ دل سے نیت کرنا کافی ہے۔
(۷)… آمر کے وطن سے حج کرنا اگر تہائی مال میں گنجائش ہو۔ ورنہ جس جگہ سے میقات سے پہلے ہو سکے وہاں سے کرا دیا جائے۔ اگر اتنا بھی نہ ہو تو وصیت باطل ہے۔
(۸)… آمر کے مخالفت نہ کرنا۔ اگر آمر نے حج افراد کا حکم کیا تھا اور مامور نے تمتع کیا تو مخالف ہو گا اور تاوان واجب ہو گا یہ حج مامور کا ہو گا۔
نفلی حج اور نفلی عمرہ دوسرے سے کرانا ہر صور ت میں جائز ہے یعنی چاہے کرانے والا خود کرنے پر قادر ہو یا نہ ہو۔
کسی کی طرف سے نفلی حج ادا کرنے کے لئے شرط یہ بھی ہے کہ حج بدل کرنے اور کرانے والے مسلمان عاقل، اور صاحب شعور ہوں اور حج کی اجرت نہ لی گئی ہو۔
حج بدل کے مسائل :…
نیت:…حج بدل کرنے والا جس کی جانب سے حج کر رہا ہے ۔ احرام باندھنے کے وقت نیت کرے کہ میں فلاں کی جانب سے حج کر رہا ہوں۔
دل سے نیت کرنا احرام کے وقت فرض ہے اور زبان سے ارادہ کرنا کہ فلاں کی جانب سے احرام باندھتا ہوں ۔ اور لبیک فلاں کی جانب سے تو یہ افضل ہے۔
مسئلہ:… مامور یعنی حجِ بدل کرنے والے پر لازم ہے کہ احرام باندھنے کے وقت نیت اس شخص کے حج کی کرے جس کی طرف سے حجِ بدل کرایا ہے اور بہتر یہ ہے کہ احرام کے ساتھ جو تلبیہ پڑھے اس سے پہلے یہ الفاظ کہے ۔ ’’لبیک عن فلان‘‘ فلان کی جگہ اس کا نام ذکر کرے۔
حجِ بدل کی نیت اس طرح کریں:…
’’یا اللہ!میں اپنے والد یا فلاں کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں، اس کو میرے لئے آسان بنا دے اور قبول فرما لے۔‘‘(معین)
مسئلہ:… اگر احرام کے وقت اس کی طرف سے ا حرام کی نیت نہیں کی اور اعمال حج شروع کر دئیے تو حج بدل صحیح نہیں ہو گا۔
مسئلہ :… کسی شخص پر حج فرض تھا اور اس کے حکم سے کسی نے اس کی طرف سے حج کیا اور فرض یا نفل کی کچھ نیت نہیں کی تو آمر کا حج فرض ادا ہو جائے گا اور اگر نفل کی نیت کی تو حج فرض ادا نہ ہو گا۔
حجِ بدل کرنے والا حجِ بدل کی نیت سے دل سے یہ کرے کہ میں فلاں کی طرف سے مثلاً خالد کی طرف سے حج کا احرام باندھتا ہوں۔ آپ اس کو اس کے لئے قبول کر لیجئے اور میرے لئے آسان کر دیجئے ۔ اگر زبان سے بھی یہ الفاظ کہہ لے تو افضل ہے، ضروری نہیں ہے۔
بغیر وصیت کے حج ِ بدل :…
مسئلہ :… اگر کسی شخص پر حج فرض تھا اور وہ اپنے مال سے حج کرانے کی وصیت کئے بغیر مر گیا اور اس کی طرف سے اس کی اوالاد نے یا کسی دوسرے وارث نے حجِ بدل کر لیا تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ مرنے والے کا حج ادا ہو جائے گا۔ لیکن جس پر حج فرض ہوا اور خود ادا نہ کیا وہ اپنی طرف سے حج کرانے کی وصیت ضرور کرے، کوئی ضروری نہیں کہ وارث اس کی طرف سے حج بدل کریں یا کسی کو بھیج کر حج کرادیں ۔ حج بدل کی وصیت کر کے مرے گا تو اب ذمہ داری وارثوں کی ہو جائے گی۔ (۲)
خاتون حج کب کرائے :…
اگر عورت کے پاس بقدر ضرورتِ حج مال موجود ہو مگر ساتھ کے لئے کوئی محرم نہیں ملتا یا ملتا ہے مگر وہ اپنا خرچ برداشت نہیں کرسکتا اور عورت کے پاس اتنا مال نہیں کہ اپنے خرچ کے علاوہ محرم کا خرچ بھی خود برداشت کرے تو موت سے پہلے یہ وصیت کر دے کہ میری طرف سے حج بدل کرا دیا جائے یہ وصیت تہائی مال میںنافذ ہو گی ۔
حج بدل کرنے کا طریقہ :…
حجِ بدل ادا کرنے کا طریقہ وہی ہے جو عام حج کرنے کا ہے۔ اس میں اور حج کے احکام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف نیت کا فرق ہے کہ عام حج میںآدمی اپنی طرف سے حج کرنے کی نیت کرتا ہے، جبکہ حجِ بدل میں جس شخص کی طرف سے حجِ بدل کر رہا ہے اس کی طرف سے حج کرنے کی نیت کرتا ہے۔
حجِ بدل کی تیاری :…
حج کے پانچ دن ہوتے ہیں اور آٹھ ذی الحجہ سے حج کی تیاری شروع ہو تی ہے۔لیکن آج کل معلم رش کی وجہ سے اپنے متعلقہ حاجیوں کو سات ذی الحجہ کو ہی منیٰ لے جاتے ہیں۔ اس لئے سات ذی الحجہ سے ہی حج کی تیاری شروع کر دیں۔ مثلاً سر کے بال سنوار لیں، خط بنا لیں، مونچھیں کترلیں، ناخن کاٹ لیں ، زیرِ ناف اور بغل کے بال صاف کر لیں، احرام کی نیت سے غسل کر لیں ورنہ وضو کر لیں۔ اور اگر موقعہ ہو تو مرد حضرات حرم شریف جا کر احرام کی دو سفید چادریں اس طرح استعمال کریں کہ ایک سفید چادر لنگی کی طرح باندھ لیں اور دوسری دوپٹہ کی طرح اوڑھ لیں اور جوتے چپل اتار کر ہوائی چپل پہن لیں اور سر ڈھک کر دو رکعت نفل پڑھ لیں جبکہ مکروہ وقت نہ ہو۔ اور اگر حرم شریف جانے کا موقعہ نہ ہو تو اپنی رہائش پر ہی یہ نفل پڑھ لیں۔ خواتیں بہر حال اپنی رہائش پر ہی احرام کی نیت سے یہ نفلیں پڑھ لیں۔
حجِ بدل کا احرام:…
پھر جب منیٰ روانگی کا وقت ہو تو حج کی نیت کر لیں۔ سر کھول لیں اور ان الفاظ میں نیت کریں کہ ’’اے اللہ!میں فلاںکی طرف سے مثلاً خالد صاحب یا راشد صاحب کی طرف سے ان کے حج کی نیت کرتا ہوں۔ اس کو میرے لئے آسان فرما دیجئے اور ان کے لئے قبول فرما لیجئے ۔ ‘‘ اور پھر فوراً لبیک کہیں ، بہتر یہ ہے کہ جس کی طرف سے حج کر رہے ہوں اسی کی طرف سے لبیک کہیں۔ مثلاً پہلے یوں کہیں: ’’لبیک عن خالد ‘‘ اور فلاں کی جگہ اس کا نام مثلاً خالد کا نام ذکر کریں اور پھر پورا تلبیہ پڑھیں اور مسنون دعا کریں۔
احرام کی پابندیاں:…
اب احرام کی پابندیاں شروع ہو گئیں ۔ ان کی تفصیل کتاب میں دیکھ کر تازہ کر لیں اور ان کا خوب خیال رکھیں ۔ سات ذی الحجہ کی شام کو ہی آج کل عام طور پر منیٰ آ جاتے ہیں، تو راستہ میں بکثرت تلبیہ اور تسبیحات پڑھتے رہیں اور منٰی آ جائیں ۔ رات یہاں گزاریں، آٹھ ذی الحجہ کی فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء منٰی میں ہی ادا کریں، زیادہ تر وقت تلاوتِ قرآن کریم، تسبیحات، تلبیہ اور نوافل و دعا میں صرف کریں۔ بلا وجہ ادھر ادھر نہ گھومیں، فضول بات چیت میں وقت ضائع نہ کریں۔
۹ذی الحجہ ۔ حج کا دوسرا دن:…
نو /۹ ذی الحجہ کی فجر کی نماز منٰی میں ادا کریں اور نماز کے بعد تکبیرِ تشریق کہیں۔ لبیک کہیں اورتیاری کر کے زوال ہونے پر عرفات پہنچ جائیں۔ یاد رہے کہ تکبیرِ تشریق 9ذی الحجہ کی نماز فجر سے ۱۳ ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک بار پڑھنی واجب ہے۔
عرفات روانگی اور وقوف عرفہ :…
آج کل آٹھ ذی الحجہ کی شام کو نمازِ عشاء کے بعد ہی معلم حضرات حاجیوں کو عرفات لے جاتے ہیں، اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں۔ البتہ وقوفِ عرفہ کا وقت 9ذی الحجہ کے دن زوال سے شروع ہوتا ہے۔ بہر حال نو / 9ذی الحجہ کے زوال سے پہلے اگر ممکن ہو تو غسل کر لیں ورنہ وضو کر لیں اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر کچھ دیر آرام کر لیں، زوال ہوتے ہی وقوفِ عرفہ شروع کردیں۔ شام تک بکثرت تلبیہ پڑھیں، خوب توبہ و استغفار کریں، چوتھا کلمہ پڑھیں، الحاج و زاری سے دعا کریں۔ وقوفِ عرفہ کھڑے ہو کر کرنا افضل ہے اور بیٹھ کر بھی جائز ہے ۔ لہٰذا حسبِ سہولت جتنے دیر کھڑے ہو سکتے ہوں کھڑے ہو کر کرنا چاہئے۔ ورنہ بیٹھ کر اور لیٹ کر بھی جائز ہے۔
ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں اذان و اقامت کے ساتھ با جماعت ادا کریں۔ جب سورج غروب ہو جائے و مغرب کی نماز پڑھے بغیر تلبیہ پڑھتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہو جائیں۔
مغرب سے پہلے عرفات سے نہ نکلیں:…
بہت سے لوگ دوسروں کو دیکھا دیکھی خود ہی یا معلم کے اصرار پر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی عرفات سے نکل جاتے ہیں ، اور مزدلفہ روانہ ہو جاتے ہیں خوب یاد رکھنا چاہیے کہ معلم خواہ کتنا ہی اصرار کرے سورج ڈوبنے سے پہلے عرفات سے ہر گز نہ نکلیں ورنہ دم واجب ہو جائے گا۔
مزدلفہ روانگی اور قیام :…
سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ کے لئے روانہ ہوں، بعض لوگ مزدلفہ کی حدود سے باہر ہی ٹھہر جاتے ہیں، ان کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں بلکہ تلاش کر کے سعودی حکومت کی طرف سے لگے ہوئے بورڈ دیکھیں جن پر مزدلفہ کی حدود شروع ہو نے کی وضاحت ہوتی ہے۔ اور مزدلفہ کی حدود میں پہنچ کر کسی مناسب جگہ پر قیام کریں۔ یہاں پہنچ کر وضو کر کے عشاء کے وقت مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جماعت سے ادا کریں۔ دونوں نمازوں کے لئے ایک اذان اور ایک اقامت ہو گی۔ پہلے مغرب کی فرض نماز باجماعت ادا کریں۔ پھر تکبیرِ تشریق اور لبیک کہیں۔ اس کے فوراً بعد عشاء کی نماز باجماعت ادا کریں۔ اس کے بعد مغرب کی دو سنتیں پڑھیں اور پھر عشاء کی سنتیں اور وتر پڑھیں۔ نوافل پڑھنے نہ پڑھنے کا اختیار ہے۔
مبارک رات:…
یہ بڑی مبارک رات ہے، اس میں ذکر و تلاوت ، درود شریف اور دعا خوب دل لگا کر کریں اور تلبیہ پڑھیں ۔ اور کچھ دیر آرام بھی کر لیں۔ اور بڑے چنے کے برابر فی آدمی ستر کنکریاں چن لیں۔ صبح صادق ہونے پرا ذان دے کر سنت پڑھیں اور فجر کی نماز باجماعت ادا کریں اور وقوفِ مزدلفہ کریں۔ جب سورج نکلنے والا ہو تو منیٰ روانہ ہو جائیں۔
۱۰ ذی الحجہ ۔ حج کا تیسرا دن:…
جمرہ ٔعقبہ کی رمی:
منیٰ پہنچ کر جمرۃ عقبہ پر ایک ایک کر کے سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت یہ دعا پڑھیں: ’’بسم اللہ اللہ اکبر، رغما للشیطان ورضا للرحمن ‘‘ اور لبیک کہنا بند کریں۔ رمی کے بعد دعا کے لئے نہ ٹھہریں اور اپنی قیام گاہ چلے جائیں اس کے بعد قربانی کریں۔ قربانی خود کریں یا کسی معتمد ادارہ یا شخص سے کروائیں۔ جب یقین ہو جائے کہ قربانی ہو چکی ہے تو حلق کر لیں۔ یعنی مرد حضرات اپنا سر مونڈ لیں یا کسی سے منڈوالیں اور خواتین انگلی کے پورے سے کچھ زیادہ بال کاٹ لیں۔
طوافِ زیارت اور حج کی سعی :
طوافِ زیارت کریں، اس کا وقت ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ کے آفتاب غروب ہونے تک ہے۔ دن میں یا رات میں جب چاہیں کریں۔ اس طواف کا طریقہ وہی ہے جو عمرہ کے طواف کا ہے ۔ اسکے بعد سعی کریں۔ سعی کا بھی وہی طریقہ ہے جو عمرہ کی سعی کا ہے۔ سعی سے فارغ ہو کر منیٰ آ جائیںاور رات منیٰ میں بسر کریں۔
۱۱ذی الحجہ ۔ حج کا چوتھا دن :…
گیارہ /۱۱ ذی الحجہ کو اس پورے دن میں صرف ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے تینوں جمرات کی رمی۔ آج کی رمی کا وقت مستحب زوال کے بعد سے شروع ہو کر غروبِ آفتاب تک ہے غروب کے بعد مکروہ ہے۔ آج کل سہولت الحمد للہ بہت ہو گئی ہے اس لئے کوشش کریں کہ غروب آفتاب سے پہلے کر لیں۔ رمی کا طریقہ یہ ہے کہ جمرہ ٔ اولیٰ پر ایک ایک کر کے سات کنکریاں ماریں اور وہی دعا پڑھیں جو کل ۱۰ ذی الحجہ کی رمی کے وقت پڑھی تھی پھر ذرا ساآ گے ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کریں۔
اس کے بعد جمرۂ وسطیٰ پر سات کنکریاں ماریں اور ذرا سا آگے ہو کر قبلہ رو ہو کر دعا کریں۔ اس کے بعد جمرۂ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں اور اس کے بعد دعا نہ کریں، بلکہ قیام گاہ واپس آجائیں۔ قیام گاہ مین آکر ذکرو تلاوت ، توبہ و استغفار اور تسبیحات کرتے رہیں اور نمازیں با جماعت ادا کریں اور گناہوں سے دور رہیں۔
۱۲ذی الحجہ ۔ حج کا پانچواں دن:…
آج کے بعد بھی صرف ایک کام ہے اور وہ رمی ہے۔ آج بھی کل کی طرح تینوں جمرات کی رمی کریں۔ افعال اور ترتیب اور وقت وہی ہے جو ۱۱ ذی الحجہ کی رمی کی تھی ۔ رمی سے فارغ ہو کر اختیار ہے چاہے منیٰ میں قیام کریں اور چاہے مکہ مکرمہ آجائیں۔
طوافِ وداع:…
حج کے بعد جب مکہ مکرمہ سے وطن واپسی کا ارادہ ہو تو طوافِ وداع کریں، یہ طواف واجب ہے۔ اس طواف کا طریقہ عام نفلی طواف کی طرح ہے۔ لیجئے ! حجِ بدل پورا ہوا، شکر ادا کریں اور باقی ایام کی قدر کریں اور عمرے و طواف جس قدر چاہیں کریں اور عبادات میں مشغول رہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق دیں، آمین!
دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنے کا طریقہ:…
اپنے کسی عزیز رشتہ دار وغیرہ کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے۔ اور اس کے لئے دو صورتیں ہیں :
۱۔جس کے لئے عمرہ کرنے کا ارادہ ہو اسی کی طرف سے عمرہ کا احرام باندھیں اور اس کی طرف سے عمرہ کی نیت کریں۔
۲۔عمرہ خود ادا کریں اور آخر میں اس کا ثواب اس کو بخش دیں۔
احرام کا طریقہ:…
اگر دوسرے کی نیت سے عمرہ کرنا ہو تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ ناخن کتر لیں اور جسم کے غیر ضروری بال وغیر صاف کر لیں اور سر اور داڑھی کے بال سنوار لیں ۔اس کے بعد احرام کی نیت سے غسل کر لیں ورنہ کم از کم وضو کر لیں۔ اس کے بعد مرد حضرات ایک سفید چادر باندھ لیں اور دوسری جسم پر اوڑھ لیں ، اور جوتے اتار کر ہوائی چپل پہن لیں اور خواتین اپنے مخصوس طریقۂ احرام پر کتاب کے مطابق عمل کریں اسکے بعد اگر مکروہ وقت نہ ہو تو سر ڈھک کر دو رکعت نفل ادا کریں، پھر سر کھولیں اور یہ نیت کریں کہ:
’’اے اللہ! میں فلاں کی طرف سے عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں۔ مثلاً خالد کی طرف سے آپ اس کو میرے لیے آسان کر دیجئے اور خالد کے لئے قبول کر لیجئے۔ ‘‘ اور نیت کرتے ہی تین بار لبیک کہیں:
لبیک اللھم لبیک ، لبیک لا شریک لک لبیک ، ان الحمدوالنعمۃ لک والملک ، لا شریک لک ۔
اس کے بعد درود شریف پڑھ کر دعائیں مانگیں اور بہتر ہے کہ یہ دعا بھی مانگیں کہ:
’’اے اللہ! میں آپ کی رضا اور جنت مانگتا ہوں اور آپ کی ناراضگی اور دوزخ سے پناہ مانگتاہوں، اور اس موقع پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جو دعائیں مانگیں یا بتلائی ہیں وہ بھی مانگتا ہوں وہ سب میری طرف سے قبول کر لیجئے۔ ‘‘
سوئے حرم:…
نیت کرنے اور تلبیہ یعنی لبیک پڑھتے ہی احرام کی پابندیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ان کی پابندی کریں۔ نیت کرنے کے بعد بکثرت تلبیہ پڑھتے رہیں اور مسجدِ حرام کی طرف چل دیں۔ پورے ادب کے ساتھ اور آدابِ مسجد کا خیال کرتے ہوئے مسجدِ حرام میں داخل ہوں۔ بیت اللہ شریف پر نظر پڑے تو ذرا ایک طرف ہو کر تین بار اللہ اکبر کہیں ، تین بار لا الہ الا اللہ کہیں ، دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائیں اور خوب دعا کریں ۔ دعا سے فارغ ہو کر چادر کو دا ہنی بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالیں اور دایاں کندھا کھلا رہنے دیں۔
طواف کا طریقہ:…
اب حجرِاسود کی سیدھ میں اس طرح کھڑے ہوں کہ حجرِ اسود دائیں کندھے کی سیدھ میں آجائے، طواف کی نیت کریں کہ اے اللہ ! میں آپ کی رضا کے لئے عمرہ کا طواف کرتا ہوں۔ آپ اس کو آسان کر دیجئے اور قبول کر لیجئے۔ پھر حجرِ اسود کے سامنے آئیں اور دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور ہتھیلیوں کا رخ حجرِ اسود کی طر ف کر یں اور کہیں: ’’بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ‘‘ اور دونوں ہتھیلیاں چوم لیں۔ اس کے بعد دائیں طرف مڑ کر طواف شروع کریں، پہلے تین چکروں میں رمل کریں یعنی اکڑ کر شانے ہلاتے ہوئے قریب قریب قدم رکھ کر قدرے تیزی سے چلیں۔ باقی چار چکروں میں حسبِ معمول چلیں۔ طواف کے دوران مسنون دعائیں پڑھتے رہیں۔ ہر چکر پر حجرِ اسود کے سامنے پہنچ کر اگر بآسانی ممکن ہو تو حجرِ اسود کو استلام کریں ورنہ استلام کا اشارہ کرین۔ سات چکر پورے ہونے پر آٹھویں بار حجرِ اسود کا استلام یا اشارہ کر کے طواف ختم کریں۔
سعی:…
اب سعی کے لئے حجرِ اسود کا استلام یا شارہ کریں اور صفا کی طرف روانہ ہو جائیں۔ طواف باوضو کرنا ضروری ہے جبکہ سعی با وضو کرنا سنت ہے ، صفا پر پہنچ کر سعی کی نیت کریںکہ:
’’اے اللہ !میں آپ کی رضا کیلئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتا ہوں اس کو آسان فرمائیے اور قبول کر لیجئے۔
صفا سے اتر کر مروہ کی طرف چلیں، جب سبز لائٹوں کے نیچے چلیں تو مرد حضرات دوڑیں ، خواتیں نہ دوڑیں اور یہ دعا کریں:
رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ وَاَنْتَ لْاَعَزُّ الْاَکْرَم۔
مروہ پر پہنچ کر قبلہ رخ ہو کر دعا کرین۔ یہ ایک چکر ہوا ۔ دوسرا چکر صفا پر پورا ہو گا، اس طرح سات چکر پورے کریں ۔ ساتواں چکر مروہ پر ختم ہو گا۔ ساتوں چکر پورے کرنے کے بعد اگر مکروہ وقت نہ ہو تو شکرانہ کے د ونفل مسجد الحرام میں ادا کریں۔
حلق یاقصر اور عمرہ مکمل:۔
سعی کے بعد مرد سارے سر کے بال منڈائیں اور خواتین سارے سر کے بال انگلی کے ایک پورے کی لمبائی سے کچھ زیادہ کتر لیں،منڈوانے یا کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہو گیا ، احرام کی پابندیاں ختم ہو گئیں۔
دل و جان سے شکر اد کریں اور جن کی طرف سے عمرہ کیا ہے ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ پاک ان کا یہ عمرہ قبول فرمائیں۔ آمین۔ اور باقی اوقات کی قدر کریں۔ اپنے لئے عمرے اور طواف کریں ۔ دیگر عبادات میں لگیں اور آئندہ زندگی رب کائنات کی مرضیات کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔ اللہ پاک توفیق دیں۔ آمین۔
خلاصہ یہ کہ عمرہ اپنی طرف سے کرین یا کسی دوسرے کی طرف سے دونوں صورتوں میں طریقہ ایک ہی ہے، صرف نیت مین فرق ہے۔ اگر دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنا ہو تو اسی کی طرف سے نیت کرنا ضروری ہے۔
مدینہ طیبہ حاضری :…
کسی کی طرف سے حجِ بدل یا کسی کی طرف سے عمرہ ہو، دونوں میں مدینہ منورہ حاضری کا الگ سے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔
مدینہ منورہ سے واپسی:…
جب مدینہ منورہ سے واپسی ہو تو روضۂ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کریں اور اس جدائی پر آنسو بہائیں اور جس کی طرف سے حج یا عمرہ کیا ہے۔ اس کے اور اپنے لئے دعا کریں اور دوبارہ حاضری کی حسرت کے ساتھ واپس ہوں۔ (۱)
ماخذ:…
(۱)…سابقہ خطبہ…از :…پروفیسر حافظ عبد الشکور
(۲)…تبلیغی اور اصلاحی مضامین …از :…مولانا مفتی محمد عاشق الہٰی صاحب رحمہ اﷲ۔
(۳)… …مسائل رفعت قاسمی …از …مولانا محمدرفعت قاسمی صاحب
(۴)…عمدۃ المناسک …از …مولانامحمد عبدالمعبودصاحب
(۵)…سرکارِ دوعالم ﷺ کا طریقہ حج…از …مولانا مفتی محمد ارشاد القاسمی صاحب
(۶)…مسنون حج و عمر ہ …از …ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحب
(۷)… …رفیقِ حج …از …مولانا مفتی محمد رفیق عثمانی صاحب…
(۸)…معلم الحجاج …از …مولانا قاری سعید احمد صاحب
(۹)…مسائل و معلومات حج و عمرہ…از …محمد معین الدین احمد