توسل’ اولیاء’ کرامات


توسل’ اولیاء’ کرامات
ہم تو َسُّل(وسیلہ بنانے یا پکڑنے)کو کس طرح سمجھیں اوراس سے متعلق احکام و عقائد
ہم بزرگانِ دین اوران کی کرامات کو کس طرح مانیں ان سے متعلق احکام و عقائد

عقیدہ:
انبیاء کرام علیہم السلام، صلحاء، اولیاء، صدیقین و شہداء اور اتقیاء کا توسل جائز ہے، یعنی ان کے وسیلہ سے دعاء مانگنا جائز ہے۔تشریح
جیسے نیک اعمال کا توسل جائز ہے ایسے ہی نیک اور برگزیدہ ہستیوں کا توسل بھی جائز ہے، کیونکہ ذوات یعنی نیک لوگوں کا توسل در حقیقت اعمال ہی کا توسل ہے۔
توسل کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعاء کرے کہ یا اللہ! میں نبی کے وسیلہ سے یا آپ کے فلاں ولی کے وسیلہ سے اپنی دعاء کی قبولیت چاہتا ہوں اور اپنی حاجت بر اری کا خواستگار ہوں، یا اسی جیسے دوسرے کلمات کہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
توسل نیک ہستیوں کی زندگیوں میں بھی جائز ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی جائز ہے۔ دلائل
عقیدہ:
بزرگوں کا وسیلہ بنانے کے بجائے براہِ راست انہیں سے حاجت مانگنا اور ان کو مشکل کشا سمجھنا شرک ہے۔ دلائل

عقیدہ:
اولیاء اللہ سے کرامتوں کا ظاہر ہونا حق ہے، جیسا کہ انبیاء کرام علیہم السلام سے معجزات کا ظاہر ہونا حق ہے۔تشریح
کرامت اس خرقِ عادت کام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی توقیر بڑھانے کے لئے ان کے ہاتھوں سے ظاہر فرماتے ہیں۔و الکرامۃ خارق للعادۃ الا انھا غیر مقرونۃ بالتجدی و ھی کرامۃ للولی۔ (شرح فقہ اکبر:۷۹)بند
عقیدہ:
ولی ہونے کے لئے آثارِ ولایت کا پایا جانا ضروری ہے، کوئی شخص محض قرابتِ ولی کی بناء پر ولی نہیں ہوسکتا۔ دلائل
عقیدہ:
معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔تشریح
معجزہ اور کرامت کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نبی کے ہاتھوں معجزہ ظاہر فرمانے پر قادر ہیں، ایسے ہی وہ ولی کے ہاتھوں کرامت ظاہر کرنے پر بھی قادر ہیں۔ کرامت کے ظاہر ہونے میں کسی ولی کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا؛ بلکہ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں اور جو کرامت چاہتے ہیں اپنے کسی نیک بندے کے ہاتھوں ظاہر فرما دیتے ہیں۔
ہر خرقِ عادت کام خواہ وہ معجزہ ہو یا کرامت، تین امور کی بناء پر وجود میں آتا ہے، علم، قدرت اور غناء، اور یہ تین صفات علی وجہ الکمال ذات باری تعالیٰ ہی میں موجود ہیں، لہٰذا معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اولیاء اللہ سے کرامتیں ظاہر ہونا کوئی ضروری نہیں، ممکن ہے کوئی شخص اللہ کا دوست اور ولی ہو اور عمر بھر اس سے کوئی کرامت ظاہر نہ ہو۔دلائل
عقیدہ:
کسی ولی کی کرامت در حقیقت اس نبی کا معجزہ ہوتی ہے جس کی امت میں سے یہ ولی ہے، کیونکہ اس امتی کی کرامت نبی کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ دلائل
عقیدہ:
اولیاء کی بعض کرامات جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہیں ان پر ایمان لانا فرض ہےاور جو کرامات دلائلِ ظنیہ سے ثابت ہیں انہیں تسلیم کرنا بھی ضروری ہے، ایسی کرامات کا انکار ضلالت و گمراہی ہے۔تشریح
اولیاء کی بعض کرامات جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہیں ان پر ایمان لانا اور ان کو دل و جان سے قبول کرنا فرض ہے، ایسی قطعی کرامات میں سے کسی ایک کے انکار سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، مثلاً اصحابِ کہف کا کئی سو سال تک سوئے رہنا، حضرت مریم علیہا السلام کے بطنِ مبارک سے بغیر شوہر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیدا ہونا، حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھل کا آجانا وغیرہ۔