کرپشن بے نقاب:…..تحریر یاسر محمد خان

کچھ بھنگی کہیں بیٹھے بھنگ گھوٹ رہے تھے۔ بھنگ تیاری کے آخری مراحل میں پہنچ چکی تھی۔ ایک چوہا کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور دھڑام سے بھنگ میں جاگرا۔ یہ لوگ اس مسئلے کا حل پوچھنے ایک عالم دین کے پاس جاپہنچے۔ عالم اُن کی باتیں سن کر سخت غصے میں بولے: ’’حرام خورو! بھنگ ویسے ہی حرام ہوتی ہے، چہ جائیکہ اُس میں چوہا بھی گرا ہوا ہو۔‘‘ پانامہ لیکس کے منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان میں تجزیہ نگاروں کا ایک طبقہ بڑے مدلل انداز میں ان کے اندر سے ایک بڑی عالمی سازش دریافت کررہا ہے۔ ان صاحبان علم کے دلائل ہمیں وقتی طور پر قائل بھی کرلیتے ہیں۔ ہم مان بھی لیتے ہیں کہ اس جال کے پیچھے کچھ ملکوں یا کچھ لوگوں کے مفادات ہیں۔ سوال پھر بھی اُسی طرح کھڑا ہے کہ پاکستان کی حد تک کیا کرپشن نہیں ہوئی؟ ملک کا کھرب ہا روپیہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیرقانونی طور پر بیرون ملک نہیں گیا؟ صاحبان اقتدار کی اولاد کے پاس جو بھاری سرمایہ پہنچا اُس کا سورس کیا تھا؟ کیا اندرون ملک چند سو روپے ٹیکس دینے والے ایام میں کھربوں روپیہ ہماری سرحدوں سے پار نہیں جارہا تھا؟ کیا پانامہ لیکس کی دوسری قسط میں 259 جن پاکستانیوں کے نام آئے ہیں اُن کی دستاویزات انٹرنیٹ پر نہیں دیکھی جاسکتیں؟

وہ ترقی یافتہ ملک جہاں کسی شخص کی عزتِ نفس جھوٹ سے مجروح کرنے کی پاداش میں لاکھوں پائونڈ یا ڈالر حرجانہ کے طور پر ادا کرنے پرتے ہیں، وہاں ادارے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے یہ سب کچھ دنیا کے سامنے کیوں لائے جارہے ہیں؟ ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ پانامہ لیکس سے کس غیرمسلم ملک کا فائدہ ہورہا ہے، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ اگر پاکستان کا سخت مالی نقصان ہوا ہے تو وہ کیسے پورا کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں قدرت نے ایک سنہری موقع دیا ہے۔ ہم اسے ضائع کرتے ہیں یا اس سے اپنے بچوں کا مستقبل سنوارتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ مفلسوں اور ناداروں کے پاکستان کو بدلنا ہے یا ویسا ہی رہنا ہے، اس کا فیصلہ اگلے چند ماہ میں ہوجائے گا۔

پانامہ لیکس کے بعد سے وزیراعظم سخت بدحواس دکھائی دیتے ہیں۔ فوراً انہوں نے قوم سے خطاب کیا، جو نہایت مایوس کن ثابت ہوا۔ سخت بیماری کے عالم میں وہ لندن روانہ ہوئے اور ہفتہ عشرہ میں اتنے صحت مند ہوئے کہ اب سخت گرمی میں جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔ اُن کی تقریریں گہرے غم و غصے سے بھرپور ہیں۔ اسلام آباد دھرنے کے دنوں میں بھی انہوں نے اس طرح کے بیانات نہیں دیئے تھے۔ اپوزیشن کے دبائو اور بی ٹی آئی کے جاتی عمرہ کے گھیرائو سے گھبراکر انہوں نے دوبارہ قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے ریفرنس سپریم کورٹ بھجوانے کا اعلان کیا۔ ٹی او آز پردہ سخت برہم ہوئے، بعد میں انہیں بھی کسی حد تک ماننے پر مجبور ہوگئے۔ اُن کے وفاقی اور صوبائی وزراء آگ اُگلتے پھررہے ہیں۔ انہوں نے جمعہ 13 مئی کو پارلیمنٹ میں آنے کا اعلان کیا۔ پھر اُسے تین روز کے لیے مؤخر کردیا گیا، وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے سوالات کے جواب دینے سے بالکل انکاری ہیں۔ وہ فرمارہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں۔ یہ جمہوریت کی سراسر نفی ہے۔ وہ دھرنے والوں اور دہشت گردوں کے ایجنڈے کو ایک قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک روپے کی کرپشن نہیں کی۔ اگر صورت حال یہ ہے تو انہیں پارلیمنٹ میں 7 سوالوں کے جوابات دینے سے کون سا امر مانع ہے۔ پی ٹی آئی برطانیہ میں نواز شریف خاندان کے 650 کروڑ (ساڑھے 6 ارب) کے اثاثوں کے ثبوت سامنے سے آئی ہے۔ اگر مخالفین جھوٹے ہیں تو اُن کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے کاغذات کہاں ہیں؟ غصہ، اشتعال، منہ سے اُڑتا تھوک سخت ترین زبان یہ تو ثبوت نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دولت شاید شریف خاندان سے بھی زیادہ ہے۔ وہ اپنا سارا امریکا میں انویسٹ کیے ہوئے ہے؟ اُس کا فلک بوس ٹرمپ ٹاور امریکا کی بلند ترین عمارتوں میں سے ہے۔

اصل فرق یہ ہے کہ دولت بیرون ملک ہو اور آپ غریب عوام کو تقریروں سے مالا مال کرکے اُنہیں نہال کیے جارہے ہوں۔ آپ اپنی والدہ کے ساتھ اور مریم نواز کلثوم نواز کے ساتھ جذباتی تصویریں میڈیا میں پھیلارہی ہوں۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ اعلان کررہے ہوں کہ مشکل گھڑی میں خاندان کے ساتھ ہوں۔ یہ ساری سرکس پارلیمنٹ میں وزیراعظم 15 منٹ میں ختم کرسکتے ہیں۔ ثبوت اُن کے ہمراہ ہوں اور سچائی اُن کے چہرے پہ اپنی تابانی بکھیر رہی ہو، مگر نہیں سیاسی دلدل مسلم لیگ ان کو نگلے جارہی ہے۔

منگل کے روز ملک کے 3 بڑے میڈیا ہائوسز نے ایک ساتھ یہ خبر دی کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے اور پانامہ معاملے کو جلد حل کرنے پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم سے گزارش ہے اپوزیشن اُن کو اتنا نقصان نہیں پہنچارہی، جتنا اُن کے وزرا پہنچارہے ہیں۔ ہر اخبار، ہر کالم، ہر ٹی وی چینل پر یہ راندہ درگاہ مخلوق عوامی شعور کا مذاق اُڑا رہی ہے۔ ان کی وکالت جہالت سے بھی بازی لے گئی ہے۔ یہ وہ ریچھ ہیں جو سوئے ہوئے مالک کو مکھیوں سے بچانے کے لیے پتھر مارکر اُس کا بھیجا نکالنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری ایک عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا ہے۔ وہ جب جارہا تھا تو ہم گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ اب تقریبات میں لذیذ کھانوں کے درمیان اعلیٰ عدالتی شخصیات کے وعظ سننے کو مل رہے ہیں۔ یہاں مصنف کا قلم خاموش ہوتا ہے تو اُس کی زبان گل افشانیِ گفتار کے اعلیٰ نمونے پیش کرنا شروع کردیتی ہے، جیسے جیسے انصاف اس معاشرے سے ناپید ہورہا ہے، انصاف نے مصلحین
کا روپ دھار لیا ہے۔ پندو نصیحت انصاف کی عباوں میں جاگھسا ہے اور ایسی جلوہ ریزی بکھیررہا ہے کہ آنکھیں خیرہ ہوئے جارہی ہیں۔ ایک سیکریٹری لیول کا ’’پیک سرونٹ‘‘ گھر میں 67 کروڑ نقدی اور زیورات سنبھالے بیٹھا ہے۔ شاید وہ بھی 14؍ اگست کو جھنڈا لہرانے کی تقریبات کا مہمان خصوصی بنتا ہوگا۔ وہ بھی حاضرین کو وعظ کرتا ہوگا اور حب الوطنی کا میڈل سینے پر سجائے رخصت ہوتا ہوگا۔ ایک بس ڈرائیور کا بیٹا ہمارے جیسے ہی ایک جمہوری ملک میں دنیا کے ایک بہت بڑے شہر کا میئر بن گیا ہے۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مضبوط امریکی صدارتی امیدوار کی آفر کو بڑی شان سے ٹھکرارہا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت میں ہڈیاں چچوڑنے والے واویلا مچائے ہوئے ہیں کہ کہیں اُن کی ہڈی کوئی دوسرا نہ چھین لے۔

ان لوگوں کی مخالفت میں پاکستان کے سب سے مشہور اپوزیشن لیڈر ہیں۔ وہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کی خوشی میں اس قوم کو معاف کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ملکوں کی سربراہی کسی سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ اُن کی ہر تقریر، اُن کا ہر انٹرویو کرکٹ سے شروع ہوتا ہے۔ میں وکٹیں گرادوں گا، ایک بال پر دو کھلاڑی آئوٹ کردوں گا۔ ابھی ایمپائر کی انگلی اُٹھنے والی ہے۔ زبردست ٹی 20 میچ ہونے والا ہے، نواز شریف کو ہرادوں گا۔ میں ہی آپ کا کپتان ہوں، خواجہ آصف کی وکٹ جلد گرے گی، حکومت کا کیچ بائونڈری سے پکڑلوں گا۔ سارے وزیر سلی پوائنٹ (کرکٹ میں کھڑے ہونے کی ایک جگہ، یہاں مطلب ہے حماقت) پر کھڑے ہیں۔ بائونسر مار کر جبڑا توڑ دوں گا۔ یہ ہیں وہ چند ارشادات جو ہمارا لیڈر ہمارے کانوں میں سیسے کی طرح انڈیلتا رہتا ہے۔ ہمارے لیڈر کا چٹانوں کی طرح مضبوط عقیدہ ہے کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، ان ہزاروں لاکھوں سالوں میں 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے جیسا بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا اور شاید روز حشر تک ایسا عظیم کارنامہ وجود میں نہ آئے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ میدان حشر میں جب درماندہ پاکستانی پہنچیں گے تو اُن کے ہاتھ میں ورلڈ کپ ہوگا۔ اونچی عمارتوں پر ایک مرغِ بادنما ہوتا ہے جو ہمیں ہوا کا رُخ بتاتا ہے۔ ہمارا یہ لیڈر ہر ہفتے عشرے میں 180 ڈگری کے انقلاب کے ساتھ رونما ہوتا ہے۔ سیاسی بے یقینی اور بے بصیرتی کا کوئی مجسمہ بنانا ہو اس لیڈر سے بہتر شبیہ حالیہ انسانی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔ ہمارے اس لیڈر کو ایک صوبے میں اقتدار نصیب ہوا۔ وہاں حکومت کے لیے ایسا نابغہ تلاش کیا گیا کہ عوام کی زندگی میں کوئی سکھ چین لانے کا الزام اُس معصوم آدمی پر نہیں دھرا جاسکتا۔

وزیراعظم صاحب قوم پر رحم فرمائیں اور ہمیں کرکٹ سے بچائیں۔ اگر اُن کا دامن صاف نہیں تو وہ اپنی پارٹی کی کسی پاک دامن شخصیت کو اقتدار سونپ دیں تاکہ نظام چلتا رہے۔ ملکی دولت بیرون ملک غیرقانونی طریقے سے نہ جائے۔ کرپشن میں کمی آئے۔ نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے خودمختار ہوں۔ ان کی نکیل سرکار کے ہاتھ میں نہ ہو۔ عدلیہ اپنے عدالتی فیصلوں کے ذریعے بولے اور وہ فیصلے عدلیہ کے وقار کو بڑھائیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ابتدا سے ہی اس ملک میں عملی طور پر دو قانون رائج ہیں۔ غریب غربا کے لیے قانون کی کتابوں میں لکھا ہر لفظ ہی حتمی ہے۔ امیروں ڈکٹیٹروں کے لیے ان کتابوں کے اندر کافی گنجائش نکل آتی ہے۔ ہر لفظ کی تشریح نہایت وسیع معنی اختیار کرلیتی ہے۔ اگر قانون ہر کیس میں ایک ہی ہو تو ہم یہ سب کچھ نہ دیکھیں جو اب دیکھ رہے ہیں۔ ہوبہو ایک جیسے کیسوں میں دو صوبوں کی عدالتیں بالکل مختلف فیصلے دے رہی ہیں۔ جیسے جیسے ہمارا قانونی زوال تیز ہورہا ہے ہم اُسے وعظ و نصیحت سے سنبھالا دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ منافقت ہماری سماجی زندگی کا سب سے بڑا اصول بن گیا ہے۔ ہم صرف دوسروں کا احتساب چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کے بعض سرکردہ راہنمائوں کی اپنی آف شور کمپنیاں نکل آئی ہیں۔ اُن کی ڈھٹائی دیکھیے وہ پھر بھی حکومت کا ہی احتساب چاہتے ہیں۔ جس دن پانامہ لیکس کی دوسری قسط آنی تھی، اخبار دیکھا تو اُس میں کچھ نہ تھا۔ میڈیا خبروں سے بھرا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ صحافت بھی پانامہ لیکس میں جگہ پاگئی ہے۔ جمعہ کی صبح ہمارے مہربان وزیراعظم فرمارہے ہیں اپوزیشن پارلیمنٹ میں مجھ سے سوال و جواب نہیں کرسکتی۔ سو حالات تیزی سے کرکٹ میچ کی طرف جارہے ہیں۔ بچپن میں ایک استاذ بتایا کرتے تھے کہ جس چیز سے ڈرو گے، وہ آگے آجائے گی۔ ہم کرکٹ سے ڈر کر بھاگے تھے، لگتا ہے ہمارا انجام کرکٹ کے اسٹیڈیم میں ہی ہوگا۔ ہوسکتا ہے ورلڈ کپ کا طوق ہر پاکستانی کے گلے میں جلد ہی ڈال دیا جائے یا پھر ایمپائر کرکٹ کا میچ سرے سے ہی کینسل کردے۔