ایک بڑی روشنی

ایک بڑی روشنی

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 573)

اللہ تعالیٰ کے ’’قُرب‘‘کا ایک اہم ذریعہ ’’استخارہ‘‘ ہے…جو بندہ ’’استخارہ‘‘ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ کو پاتا ہے اور اس ’’قرب‘‘ کو محسوس کرتا ہے… پھر جو جس قدر زیادہ استخارہ کرتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا چلاجاتا ہے… قریب،بہت قریب،بے حد قریب … یہاں تک کہ اس کا دل،اس کی آنکھیں اور اس کے اعضاء ’’نور‘‘ سے بھر جاتے ہیں،روشن ہو جاتے ہیں… بس ایک بات یاد رکھیں یہ سارے فائدے ’’استخارہ‘‘ کرنے کے ہیں…استخارہ کرانے کے نہیں…وہ لوگ جو مسلمان ہوکر  دوسروں سے ’’استخارہ‘‘ کراتے ہیں…معلوم نہیںاُن کی سوچ کیا ہوتی ہے…کیا وہ خود اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگنا چاہتے؟کیا وہ خود کو اللہ تعالیٰ سے دور سمجھتے ہیں؟…اگردور سمجھتے ہیں توکیا قریب نہیں ہوناچاہتے؟اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ نے حضرات صحابہ کرام کو …استخارہ سکھایا … بہت اہتمام کے ساتھ،بہت تاکید کے ساتھ… تاکہ ہرکوئی خود ’’استخارہ‘‘کرے…یہی حکم اُمت کے ہر فرد کے لیے ہے…

دور رہنے کی نحوست اور وبال

عرب کے مشرکین اللہ تعالیٰ سے دور ہوگئے تھے…حالانکہ کعبہ شریف کے پاس بیٹھے تھے …اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کی وجہ سے وہ … بدترین نحوستوں اورذلتوں میں ڈوبے ہوئے تھے … سفر کے لیے جانے لگتے تو دل میں کھٹکا کہ … معلوم نہیں سفر خیر کا ہوگا یا شر کا…چنانچہ باہر نکل کر ’’السانح والبارح‘‘ کے چکر میں پڑ جاتے … کسی پرندے کو دائیں طرف سے بائیں طرف جاتا دیکھتے توکہتے کہ سفر اچھا ہوگا…اور اگر کسی پرندے کو بائیں طرف سے دائیں طرف اُڑتا دیکھتے تو خوف سے کانپ جاتے اور سفر روک دیتے…پوری تیاری سے کسی کام پر نکلتے راستے میں کوئی کوّا نظر آجاتا تو کہتے کہ نحوست آگئی … فوراً گھر لوٹ جاتے… کبھی سورج سے ڈرتے تو کبھی چاند سے…کبھی ’’الّو‘‘ جیسے پرندے سے ڈرتے تو کبھی بلّی کی آواز سے …ہاں جواللہ تعالیٰ سے دور ہوجائے اُس کو ہرچیزڈراتی ہے،ہر چیز ستاتی ہے …بیچارے جانور اور پرندے جو خود عقل سے محروم…وہ کیا کسی اور کی قسمت کا فیصلہ کریں گے…مگر اللہ تعالیٰ سے دوری…بڑا وبال ہے بڑا وبال…انسان ہوکر بے جان پتھروں کوسجدے کرنا…جانوروں کا پیشاب تک پینا…اور سانپ کے سامنے ہاتھ جوڑنا کتنی ذلت کی بات ہے…مگر کروڑوں انسان یہ سب کچھ کرتے ہیں…کیونکہ ان کے پاس’’اللہ تعالیٰ‘‘ نہیں… یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان،اللہ تعالیٰ کا قرب اور اللہ تعالیٰ کانور اُن کے پاس نہیں…وہ اپنی قسمت بنانے کے لیے ہر کسی سے ڈرتے ہیں،ہر کسی کے سامنے جھکتے ہیںمگر پھر بھی مرجاتے ہیں ، بیمار ہوتے ہیں،تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اور اپنے مقدر سے زائد ایک لقمہ حاصل نہیں کرسکتے… مسلمانوں میں سے بھی جولوگ قسمت اور مستقبل کے چکر میں پڑجاتے ہیں…وہ گمراہی اور ذلت میںگرتے چلے جاتے ہیں… نہ کسی کی قسمت بدلتی ہے اور نہ کسی کو اپنے مستقبل کا پتہ چلتا ہے … بس ایک شیطانی نشہ لگ جاتا ہے کہ … آگے کی باتیں پتا ہوں،مستقبل کا علم ہو،غیب کا علم ہو …ہر سفر،ہرکام کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ یہ خیر والا ہے یا شر والا…اسی کے لیے ہاتھوں کی لکیریں دیکھی جاتی ہیں،ستاروں سے قسمت پوچھی  جاتی ہے اور طرح طرح کے شرکیہ کام کیے جاتے ہیں…فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا …ہر کوئی اپنے وقت پر مرتا ہے…اپنی قسمت کی کھاتا ہے… اور اپنے حصے کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے…مگر ایمان سے محرومی ہوتی چلی جاتی ہے …حضرت امام شافعیؒ سے کسی نے پوچھا کہ … اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا:ہر وقت مصیبتوں سے ڈرتے رہنا اور ہر وقت اس پریشانی میں رہنا کہ فلاں نعمت نہ چھن جائے اور فلاں مصیبت نہ آجائے…

عرب کے لوگ مشرک تھے…انہوں نے قسمت کا حال جاننے کے لیے طرح طرح کے طریقے بنارکھے تھے…کچھ لوگ دھوکا دیتے تھے اور باقی دھوکا کھاتے تھے…تیروں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے کا طریقہ  معروف تھا…پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی دولت عطاء فرمائی … انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب مل گیا  تو وہ…ان توہمات سے آزاد ہوئے اور ساری دنیا پر چھا گئے … کہاں وہ وقت تھا کہ وہ کوّوں اور بلیوں سے ڈرتے تھے…اور کہاں وہ وقت آیا کہ وہ بلاخوف سمندروں میںاُتر جاتے … اور جنگلی شیروں پر سواری کرتے… یہ ہے فرق اللہ تعالیٰ کے قرب اور اللہ تعالیٰ کی دوری کا…پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے قرب کا ایک اِنعام عطاء فرمایا…اور وہ اِنعام ہے ’’استخارہ‘‘سبحان اللہ ،’’استخارہ‘‘…

یعنی ایک روشنی،ایک نور، ایک قوت، ایک طاقت، ایک پروازاور خیر کا خزانہ…الحمدللہ مکمل دعوے اور شرح صدر سے کہتا ہوں کہ… استخارہ کو اپنا کر دیکھیں… تب آپ مان لیں گے کہ… جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ محض لفاظی نہیں… بلکہ ہر لفظ ایک حقیقت ہے…استخارہ واقعی روشنی،نور، قوت، طاقت، پرواز اور خزانہ ہے…بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے…

استخارے کی بلندی

ایک خاتون ہیں…اپنے اصلی وطن سے دور ہجرت کی زندگی…پھر شادی ہوئی تو خاوند سے نہ بنی اور بالآخر جدائی ہوگئی…مگر ان کو اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ نصیب تھا…اس لئے نہ ہجرت سے وہ گھبرائیں اور نہ طلاق سے وہ ٹوٹیں…گھر میں بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھیں کہ…ایک بہت ہی اونچی جگہ سے رشتے کا پیغام آگیا…ایسا رشتہ جس میں نہ سوچنے کی کچھ ضرورت، نہ انکارکی کچھ گنجائش …

خوشی ہی خوشی، سعادت ہی سعادت، بلندی ہی بلندی…مگر اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ بندے کو نہ خوشی میں غافل ہونے دیتا ہے اور نہ غم میں … لوگ اکثر خوشی اور غم میں اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں… مگر یہ اللہ والی خاتون اتنی عظیم خوشی میں بھی اپنے ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کو نہ بھولی… رشتے کا پیغام لانے والے سے کہا…

مَا اَنَا بِصَانِعَۃٍ شَیْئًا حَتّٰی اُوَامِرَ رَبِّیْ

میںاپنے رب سے پوچھے بغیر کچھ بھی کرنے والی نہیں

یہ فرما کر اپنی نماز کی جگہ جا کر نماز استخارہ شروع کردی…

اللہ تعالیٰ کو ان کے ’’قرب‘‘ کا یہ انداز ایسا پسندآیا کہ …ان کے نکاح کی تقریب اپنے ہاں عرش پر منعقد فرمائی…یہ دنیا کا واحد نکاح ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے نکاح کے بعد آسمانوں پر ہوا…اور پھر یہ قرآن پاک کی آیات میں بھی مہکا…یہ اُمّ المؤمنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح ہے… پوری تفصیل صحیح مسلم شریف کی روایت میں موجود ہے…

کا ش آج بھی مسلمان… اپنے نکاح کے معاملہ میں ’’استخارہ‘‘ کی روشنی اور قوت حاصل کریں تو زندگیاں اور گھر خوشیوں سے بھر جائیں … مگر لوگ’’استخارہ‘‘ نہیں کرتے…دوسروں سے استخارہ کرواتے ہیں… وہ استخارہ نہیں ہوتا … اس سے نہ کوئی روشنی ملتی ہے اور نہ کوئی خیر…

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجائو … وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے…اسے پالو،اسی سے خیر مانگ کر… اپنی جھولیاںہرخیر سے بھر لو…

جہاں سب کا علم ختم ہوجاتا ہے

ایک بچے کا پیشاب رک گیا اور جسم پھولنے لگا…ماں باپ نے اپنے علم اور تجربے کے مطابق دوائیاں ٹوٹکے استعمال کئے… مگر مرض بڑھتا گیا… آس پاس کے حکیموں کو دکھایا انہوں نے اپنے علم کے مطابق علاج کیا مگر بچے کی حالت خطرے تک جاپہنچی… اب پریشانی سے تڑپتے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے…ڈاکٹر اس کی حالت دیکھ کر چیخنے لگے کہ اتنی دیر کیوں کردی … اب ڈاکٹروں نے اپنے علم کے مطابق ٹیسٹ شروع کئے…ان کے علم اور ان کی مشینوں نے فیصلہ دیا کہ…بچے کا فوری آپریشن کیا جائے اور گردوں کی دھلائی ہوگی اور اس میں تاخیر موت کا سبب بن سکتی ہے… ماں باپ تیار ہوگئے ڈاکٹر نے کاغذ لا کر رکھا کہ اس پر دستخط کردوتاکہ … آپریشن شروع ہو… والدین دستخط کے لئے مکمل تیار تھے کہ ایک اللہ والے نے پوچھا:آپ نے ’’استخارہ‘‘ کیا ہے؟والدین نے کہا اس میں استخارہ کی کیا بات ہے… سب کا علم یہی فیصلہ دے رہا ہے اور اب اگر تاخیر ہوئی توہمارا لخت جگر مرجائے گا… اللہ والے نے کہا…دیکھو! جہاں مخلوق کا سارا علم ختم ہوتا ہے وہاں سے اللہ تعالیٰ کا علم شروع ہوتا ہے… اور استخارہ کا مطلب اللہ تعالیٰ کے اسی علم سے روشنی اور خیر حاصل کرنا ہے …چند منٹ کا کام ہے غفلت نہ کرو…والدین مان گئے فوراً دونوں ہسپتال کی مسجد میں گئے… وضوکیااوردورکعت قرب والی نماز…صلوٰۃ استخارہ ادا کی… یا اللہ خیر کا سوال، یا اللہ آپریشن میں خیر ہے تو کرادے، خیر نہیں تو بچالے،استخارہ کی مسنون دعاء پڑھی…ان کو پریشانی کی حالت میں شیطان نے ہڑبونگ مچا کر اللہ تعالیٰ سے دور کر دیاتھا… استخارہ کی دورکعتوں نے وہ دوری ’’ دور ‘‘ کردی… انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب ملا…دعاء کر کے واپس آئے تو ڈاکٹروں کی ٹیم جو پہلے آپریشن کا اِصرار کررہی تھی…اب مذبذب تھی …کیونکہ بچے کا جسم بہت پھول چکا تھا اور اسے کٹ لگانے سے پورا جسم بکھر سکتا تھا…چنانچہ کچھ دواء دینے اور انتظار کرنے کافیصلہ ہوا … والدین دواء لے کر بچے کو گھر لے آئے تو اس کی حالت بدلنے لگی…طویل قصہ ہے … مختصر یہ کہ تین دن میں… وہ بالکل تندرست ہوگیا…

اب ڈاکٹر کہنے لگے کہ…اگر اس دن والدین دستخط کردیتے اور آپریشن ہوجاتا تو یہ بچہ ختم ہوجاتا…

غلطی کا احساس

پچھلے کالم میں اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘کا بیا ن تھا… وہ کالم خود اپنے دل اور دماغ پر اللہ تعالیٰ کے قرب کی شعاعیں روشن کرتا رہا تو…ذہن استخارہ کے موضوع کی طرف متوجہ ہوا… تب اپنی ایک غلطی کا احساس ہوا…بخاری شریف میں استخارہ کی جو روایت آئی ہے… اس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ… رسول کریمﷺ ہمیںہر کام میں استخارہ کا حکم فرماتے تھے اور ہمیں استخارہ یوں سکھاتے تھے جس طرح قرآن مجید کی آیات سکھائی جاتی ہیں…یعنی ’’استخارہ‘‘ بہت اہتمام سے سکھایاجاتا تھا…مجھے احساس ہوا کہ ہم نے اپنی جماعت میں استخارہ سکھانے کا اب تک ایسا کوئی باقاعدہ اہتمام نہیں کیا…چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے رُفقاء بھی… دوسروں سے استخارہ کرانے کی ’’بدعت‘‘ میں مبتلا ہورہے ہیں اور اصل استخارے کی برکات سے بہت سے ساتھی دور ہیں…

اگرچہ استخارہ کی بات اور ترغیب وقتاً فوقتاً جماعت میں اور مضامین میں چلتی رہتی ہے… اور اصلاحی خطوط کے جواب میں بھی استخارہ کی ترغیب دی جاتی ہے… مگر اس مبارک عمل کے لئے جو خصوصی اہتمام ہونا چاہیے تھا وہ ہم اب تک نہ کر سکے…اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں …

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الَّذِی لا اِلٰہ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

استخارہ کیا ہے؟…استخارہ کیسے کیا جاتا ہے؟استخارہ کب کیا جاتا ہے؟استخارہ کتنی بار کیا جاتا ہے؟استخارے کا نتیجہ کیسے معلوم ہوتا ہے؟اور استخارہ کی اصل اہمیت کیا ہے؟

ان تمام باتوں کے مذاکرے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی استخارہ کی مسنون دعاء یادکرانے کا اہتمام بھی مطلوب ہے…

آج سے الحمدللہ… اس کالم کے ذریعہ … ’’تعلیم استخارہ‘‘ کی یہ مبارک مہم شروع کی جا رہی ہے… باقی تفصیل مکتوبات اور اگلے کالم میں آجائے گی ان شاء اللہ

جماعت کے تمام رفقاء کرام سے… درد مندانہ گزارش ہے کہ استخارہ کی دعاء ترجمہ کے ساتھ یاد کریں… استخارہ کا مسنون طریقہ سیکھیں … جن کو دعاء یا د ہے وہ کم ازکم دس افراد کو یہ دعاء یادکرائیں… پوری زندگی اپنے تمام کاموں میں استخارہ سے روشنی، قوت اور طاقت لیں…کبھی بھی کسی دوسرے سے اپنے لئے ’’استخارہ‘‘ہرگز، ہرگز،ہرگز نہ کرائیں… یہ شیعوں کا طریقہ اور بُری بدعت ہے…ہاں! اللہ والوں اور اہل علم سے مشورہ کرتے رہا کریں… جبکہ استخارہ خود کریں، ہردن کریں، ہر رات کریں اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘پاتے چلے جائیں ، پاتے چلے جائیں…

لاالہ الا اللّٰہ، لاالہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللھم صل علی سیدنا محمد و آلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا

لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭