مذاہب و فرق

تعارف مذاہبِ عالم ا ور ان کے بنیادی و امتیازی نظریات
تعارف فرقِ باطلہ ا وران کے بنیادی و امتیازی عقائد ونظریات
تعارف فرقِ ضالہ ا وران کے بنیادی وامتیازی عقائد ونظریات

تعارف ہندومذہب اور اس کے عقائد و نظریات
تعارف سکھ مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
تعارف مجوس مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
تعارف یہود مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
تعارف نصاریٰ مذہب اور اس کے عقائد و نظریات

تعارف ہندومذہب اور اس کے عقائد و نظریات
ہندو دھرم دنیا کا قدیم ترین دھرم اور مذہب ہے، اس مذہب کاکوئی ایسا داعی یا پیغمبر نہیں جیسا مذہبِ اسلام، عیسائیت اور یہودیت وغیرہ کا ہے، ہندو دھرم میں کوئی ایسا متفق علیہ عقیدہ، فلسفہ یا اصول نہیں ہے جس کا ماننا تمام ہندوؤں پر لازم ہو، ہندو دھرم بذاتِ خود کوئی ایسا دھرم یا ادارہ نہیں جو لوگوں کو عبادات اور ضابطہ کا پابند بنائے۔
(ہندو ازم:۳، ناشر دار العلوم دیوبند)
ہندوستان میں ۱۷۰۰ قبل مسیح آریوں کا پہلا جتھا آیا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے وہ ہندوستان وارد ہونا شروع ہوئے، آریائی قوم اپنے مسلک اور روایات کا عَلم لے کر ہندوستان وارد ہونا شروع ہوئی، یہی عَلم ہندو دھرم کا مآخذ ہے۔
(مذاھبِ عالم کا تقابلی مطالعہ:۱۰۰)
ہندو مذہب کی قدامت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس لفظ کے استعمال کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک سے ۲۳۰۰ سال قبل ملتا ہے۔
(ہندو ازم:۱۰، ناشر دار العلوم دیوبند)
ہندو دھرم کی مختلف تعریفات:
ہندو دھرم وہ ہے جو اصلاً ویدوں، اپنشدوں اور پرانوں وغیرہ سے مؤید ہو اور جو ایشور کو قادر مطلق، غیر متشکل ہونے میں شبہ نہ کرتے ہوئے مختلف روپ اختیارکرنے کی بھی بات مانتا ہو، اُسے کسی گرنتھ یا شخص کا قیدی نہیں بتاتا، جو روح کو اس سے الگ نہیں کرتا، اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرنے کے ساتھ علامتوں (مثلاً مورتیوں) کو مسترد نہیں کرتا، ’’جوکرم‘ یوگ‘ بھگتی اور گیان‘‘ کی راہ پر چلتے ہوئے دھرم، ارتھ اور ’جوکچھ‘ کو زندگی کا نصب العین بتاتا ہے۔
(ہندو دھرم: از ڈاکٹر پرشاد:۱۰۲۔ بحوالہ ہندو ازم:۸، ناشر دار العلوم دیوبند)

ہندو دھرم کا اصل مأخذ دھارمک کتب ہیں، بقیہ مأخذ اور بنیادیں انہی پر مبنی ہیں، دھارمک کتابوں کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
(۱) سرتی، (۲) سمرتی، (۳) دھرم شاستر، (۴) دھرم سوتر، (۵) رزمیہ تخلیقات، (۶) پران، (۷) اپنشد، ویدانت، وغیرہ۔
ان میں بنیادی کتب پہلی دو ہیں، یعنی سرتی اور سمرتی، زیادہ تر اصطلاحات انہی کتاب کے تحت آجاتی ہیں۔
سرتی کے معنیٰ ہیں سنی ہوئی باتیں، اس کے ذیل میں ’’وید‘‘ آتا ہے، کیونکہ ویدوں کو جاننے اور یاد کرنے کا روایتی طریقہ یہ تھا کہ انہیں استاذ سے گاتے ہوئے سنا جائے، اس لئے انہیں سرتی کتب کہا جاتا ہے۔
سمرتی کے معنیٰ ہیں یاد کیا ہوا، ویدوں کے علاوہ دیگر کتب کا شمار سمرتی میں ہوتا ہے۔
(مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ:۱۰۱۔ ہندو ازم:۱۴)
ویدوں کے علاوہ دیگر اکثر کتب مسلکی نوعیت کی ہیں اور ویدوں کے مقابلہ میں دوسرے درجہ کی اہمیت کی حامل ہیں، ان میں واقعات، کہانیاں، ضابطۂ اخلاق، عبادت کی رسمیں اور فلسفیانہ مکاتب فکر کی رودادیں وغیرہ پائی جاتی ہیں۔
دھرم شاستر، دھارمک قانون کو کہا جاتا ہے جو نثر میں ہوتا ہے، منظوم قانون کو دھرم سوتر کہا جاتا ہے، رزمیہ تخلیق میں جنگ وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، جیسے رامائن، مہا بھارت اور گیتا کا شمار رزمیہ اور فلسفیانہ دونوں قسم کی تحریرووں میں ہوتا ہے۔
پران پرانے اور قدیم کو کہتے ہیں، اپنشد اور ویدانت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اپنشد کے معنیٰ ہیں علمِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے استاد کے پاس جاکر بیٹھنا، اُس لفظ کو اپنشت بھی پڑھا جاتا ہے، ویدانت کا مطلب ہے وید کا آخری یا اس کے بعد۔(ہندو ازم:۱۴)
ویدوں کا شمار ہندوؤں میں سب سے قدیم اور بنیادی کتب ہوتا ہے، وید سنسکرت لفظ ’’ود‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنیٰ ہیں ’’علم و معرفت حاصل کرنا‘‘، ویدوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے، مگر اصل وید ایکیا چار ہیں، باقی شروحات ہیں، چار وید یہ ہیں:
(۱) رگ وید۔ (۲) یجر و ید۔ (۳) سام وید۔ (۴) اتھرو وید۔
ان چاروں میں اصل رگ وید ہے، دیگر ویدوں میں اس کے منتروں، اشلوکوں، رسوم اور معلومات کو الگ الگ کرکے مرتب کیا گیا ہے۔
رگ وید کا غالب حصہ دیوتاؤں کی مدح و ثناء پر مشتمل ہے، ہندو سماج میں جن مختلف فلسفوں اور نظریات کو عروج و فروغ ملا، مثلاً توحید، شرک، ودیت واد، وحدت الوجود، نظریہ تشکیک، عمل، ثواب اور عقیدۂ تناسخ، ان سب کا مأخذ رگ وید کو مانا جاتا ہے۔
رگ وید رشی یعنی شاعر اور مصنف اپنی پسند سے مختلف دیوتاؤں کو مخاطب کرکے منتر کہتے ہیں، تین سو تین (۳۰۳) کے قریب رشیوں نے اسّی (۸۰) کے قریب دیوتاؤں کی مدح و ثناء میں منتر گائے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل دیوتا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:
اگنی، اندر، وایو، ورن، مترا، اندر دانی، پرتھوی، وشنو، پوشن، آیو، سوتہا، اوشا، رودر، راکا، سوریہ، وام دیو، اپنا، پتریٰ، سرماپوتر، مایا بھید، وشو دیو اور سرسوتی وغیرہ۔
زیادہ تر منتر اگنی اور اندر دیوتا کے لئے گائے گئے ہیں، ہندو عقیدہ کے مطابق اگنی دیوتا آسمان اور زمین کے دیوتاؤں کے درمیان نمائندہ ہے، اس کے سہارے اور دیوتا بلائے جاتے ہیں، اندر ایک طاقتور دیوتا مانا جاتا ہے جو برق باری اور بارش وغیرہ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
دوسرا وید ’’یجر وید‘‘ ہے، جو ضخامت میں رگ وید کا دو تہائی ہے، اس کا بیشتر حصہ نثری ہے، کچھ منظوم ہے، یہ قربانیوں کے موقع پر گایا جاتا ہے۔
تیسرا وید ’’سام وید‘‘ ہے، اس وید میں راگ اور گیت ہیں، ہندوستانی موسیقی کا مأخذ یہی وید ہے، یہ رگ وید سے نصف ہے۔
چوتھا وید، ’’اتھرو وید‘‘ ہے، یہ وید نصف کے قریب نثر میں ہے، اس کا زیادہ حصہ جادو کے متعلق ہے، یہ وید قدیم آریوں کے تمدن کا آئینہ دار ہے۔
بہت سے ہندو اہل علم ویدوں کو خدا کی طرح غیر مخلوق مانتے ہیں، لیکن اکثر ہندو علماء ان کے ازلی اور غیر مخلوق ہونے کا انکار کرتے ہیں، ان کادورِ تخلیق ۱۲۰۰۰۔سال قبلِ مسیح، ۱۸۰۰۔قبلِ مسیح، ۲۵۰۰۔قبلِ مسیح، ۱۰۰۰۔قبل مسیح اور ۶۰۰۔قبل مسیح بتلایا گیا ہے۔

(مذاھبِ عالم کا تقابلی مطالعہ:۱۰۳۔ ہندوستانی مذاھب:۱۳ تا ۱۸۔ ہند وزم:۱۶ تا ۲۴)

ہندوؤں کے عقیدہ میں بے شمار دیوتا اور دیویاں ہیں، ہندو دھرم میں تین بڑے خدا ہیں، ’’براہمہ‘‘ دیوتا عالم کا خالق اور کائنات کا نقطۂ آغاز تصور کیا جاتا ہے، اس دیوتا کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے، دوسرا بڑا دیوتا ’’وشنو‘‘ ہے، یہ ویدی معبود ہے، اُسے معبود شمس ظاہر کیا گیا ہے، ہندو عقیدہ میں یہ رحم کا دیوتا ہے، اشیاء کی حفاظت اور بقاء کا ذمہ دار ہے۔
تیسرا بڑا دیوتا ’’شیو‘‘ ہے، یہ برباد کرنے والا دیوتا سمجھا جاتا ہے، ان کے علاوہ ثانوی حیثیت کے اور دوسرے بہت سے دیوتا اور اور دیویاں ہندو مذہب میں مانے گئے ہیں، انہیں دیوتاؤں کی بناء پر ہندو دھرم میں بہت سی فرقہ بندیاں ہیں۔
ہندو دیوتاؤں میں گائے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے، ہندو ویدوں سے لے کر پرانوں، سمرتیوں اور قصص تک میں گائے اور بیل کی عظمت اور پرستش کا ذکر ہے، قدیم ہندوستان میں دھرماتما لوگ گائے کے گوبر میں سے دانے چن چن کر کھاتے اور اس کا پانی نچوڑ کر پیتے تھے، تمام دھرم شاستروں میں گائے، بیل کے گوبر اور پیشاب کو پینا گناہوں کی معافی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
(منو سمرتی، بحوالہ مذاھبِ عالم کا تقابلی مطالعہ:۱۵۴)

ہندو دھرم میں ’’نیوگ‘‘ کے نام پر زناکاری کو جائز قرار دیا گیا ہے، نیوگ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر مرجائے تو اُسے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے، اگر وہ چاہے تو کسی غیر مرد سے ہم بستر ہوکر اپنی شہوت کو تسکین دے سکتی ہے، اسی طرح غیر مرد سے وہ اولاد بھی پیدا کرسکتی ہے، اسی طرح اگر کسی عورت کا شوہر زندہ ہو مگر اس سے اولاد پیدا نہ ہوتی ہو تو یہ عورت کسی غیر مرد سے تعلقات استوار کرکے اولاد پیدا کرسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ:۱۸۴)
ہندو عقیدہ میں اللہ تعالیٰ کی طرح مادہ اور روح کو ازلی و ابدی قرار دیا گیا ہے، ہندو دھرم عقیدۂ تناسخ کا قائل ہے، تناسخ کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد اپنے اعمال کےمطابق انسانی روح کو مختلف روپ بدلنا پڑیں گے، گناہوں اور نیکیوں کے باعث اُسے بار بار جنم لینا اور مرنا پڑے گا، آریوں کا عقیدہ ہے کہ روحوں کی تعداد محدود ہے، اللہ تعالیٰ نئی روح پیدا نہیں کرسکتا ہے، اس بناء پر ہر روح کو اس کے گناہوں کی وجہ سے تناسخ کے چکر میں ڈال رکھا ہے، ہر گناہ کے بدلے روح ایک لاکھ چوراسّی ہزار (۱۸۴۰۰۰) مرتبہ مختلف شکلوں جنم لیتی ہے، یہ بھی نظریہ ہے کہ روح اپنے گذشتہ اعمال و علم کی بناء پر حصولِ جسم کے لئے کبھی تو رحمِ مادر میں داخل ہوتی ہے اور بعض روحیں مقیم اشیاء پودے وغیرہ میں داخل ہوتی ہیں۔
(کھر اپنشد:۵۔ بحوالہ مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالبہ:۱۹۰)
وحئ الہٰی سے بغاوت کے نتیجہ میں ہندو دھرم کفر کی تاریکی میں بھٹک رہا ہے اور رب ذو الجلال کو چھوڑ کر مختلف دیوتاؤں اور دیویوں کو مان کر شرک جیسے ظلمِ عظیم جرم کا مرتکب ہے۔
تعارف سکھ مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
سکھ مذہب کے بانی گرو نانک صاحب تھے جو لاہور سے تقریباً پچاس میل جنوب مغرب میں واقع ایک گاؤں تلونڈی میں ۱۴۶۹ءمیں پیدا ہوئے، جو اب ننکانہ صاحب کہلاتا ہے، والد کا نام مہتا کالو تھا، بیدی کھتری خاندان سے تعلق رکھتے تھے، گرو نانک نے ابتدائی عمر میں سنسکرت اور ہندو مذہب کی مقدس کتابوں کا علم حاصل کیا، پھر گاؤں کی مسجد کے مکتب میں عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی، بچپن ہی سے مذہبی لگاؤ رکھتے تھے، جو روز بروز بڑھتا گیا، پنجاب کے مشہور صوفیاء کرام شیخ اسماعیل بخاری، سید علی ہجویری، بابا فرید، علاء الحق، جلال الدین بخاری، مخدوم جہانیاں اور دوسرے بزرگوں سے کسبِ فیض کیا، اسی وجہ سے نانک صاحب کے مسلمان ہونے کا عقیدہ ان کی زندگی ہی سے مسلمانوں میں چلا آرہا ہے، نانک صاحب نے پچیس سال تک سفر کئے، ۱۴۹۷ء میں انہوں نے اسفار کا سلسلہ شروع کیا، پہلا سفر، مشرقی ہندوستان میں بنگال، آسام، اڑیسہ اورراجستھان کا کیا، دوسرے سفر میں جنوب کی طرف گئے اور سری لنگا تک پہنچے، تیسرا سفر شمال کی طرف کیا، اس سفر میں ہمالیہ کی پہاڑی ریاستوں اور کشمیر ہوتے ہوئے تبت تک گئے، چوتھا سفر سعودی عرب، عراق، ایران اور وسط ایشیاء تک ہوا، اسی سفر میں گرو نانک نے ایک حاجی اور مسلم فقیر جیسا لباس اختیار کیا اور حج بھی کیا، واپسی پر ایک گاؤں کی بنیاد ڈالی جس کا نام کرتار پور رکھا اور وہیں بس گئے، زندگی کے آخری ایام میں اپنے ایک مرید ’’راہنا‘‘ کو گرو کے منصب پر فائز کیا اور خود رحلت فرما گئے، گرو نانک خالص توحید کے قائل تھے، رسالت کے قائل تھے، تمام ارکانِ اسلام نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے قائل تھے، خود حج کیا تھا، قرآن مجید اور آسمانی کتابوں کے قائل تھے، قیامت کے قائل تھے، ختمِ نبوت کے قائل تھے اور اس پر ایمان لانے کا حکم فرماتے تھے۔
(گرنتھ صاحب، راک محلہ:۲۴، بحوالہ ہندوستانی مذاہب:۶۷۔ مذاہبِ عالم:۲۰۳، جسنم ساکھی:۱؍۲۲۱، بحوالہ ہندوستانی مذاھب۔)

سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘ ہے، جو سکھوں کے پانچویں گرو ’’ارجن سنگھ‘‘ نے تیار کی، گرنتھ صاحب کے سارے کلام میں ’’مول منتر‘‘ (بنیادی کلمہ) کو سب سے مقدس سمجھا جاتا ہے، مول منتر کا مفہوم یہ ہے کہ:
’’خدا ایک ہے، اسی کا نام سچ ہے، وہی قادرِ مطلق ہے، وہ بے خوف ہے، اسے کسی سے دشمنی نہیں، وہ ازلی و ابدی ہے، بے شکل و صورت ہے، قائم بالذات ہے، خود اپنی رضا اور توفیق سے حاصل ہوجاتا ہے‘‘۔
(ہندوستانی مذاہب:۶۳)

مول منتر کے بعد دوسرا درجہ ’’جپ جی‘‘ کو حاصل ہے، گرو نانک کی تعلیمات عشقِ الہٰی کے حصول پر بڑا زور دیا گیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ عشقِ الہٰی حاصل کرنے کے لئے انسان کو انانیت، خواہشاتِ نفس، لالچ دنیا سے تعلق اور غصہ کو چھوڑنا ضروری ہے، سکھ مذہب میں بنیادی طریقِ عبادت ’’نام سمرن‘‘ یعنی ذکر الٰہی ہے، یہ خدا کا نام لیتے رہنے کا ایک عام طریقہ ہے، جس کے لئے چھوٹی تسبیح کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اجتماعی شکل میں باجماعت موسیقی کے ساتھ گرنتھ صاحب کے کلام کا ورد بھی ہوتا ہے۔
(ہندوستانی مذاہب:۶۳)
عشقِ الہٰی کے حصول کے لئے ’’نام سمرن‘‘ کے علاوہ سادھو سنگت، سیلوا، ایمانداری کی روزی، عجز و انکساری اور مخلوق خدا سے محبت و ہمدردی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
گرونانک تناسخ کے بھی قائل بتلائے گئے ہیں، ان کے خیال میں جب تک انسان عشقِ الہٰی میں کمال حاصل کرکے خدا کو نہیں پالیتا وہ بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا رہے گا، اسی طرح ان بے شمار زندگیوں کی تعداد ایک لاکھ چوراسّی ہزار (۱۸۴۰۰۰) بتلائی گئی ہے۔
(ہندوستانی مذاہب:۶۴)
گرو نانک صاحب کی تعلیم میں ’’گرو‘‘ کا تصور مرکزی حیثیت رکھتا ہے، یعنی خدا تک پہنچنے کے لئے ایک پیر و مرشد کی رہبری اور رہنمائی ضروری ہے، چنانچہ سکھوں میں دس گرو گذرے ہیں، پہلے گرو ’’راہنا‘‘ کو نانک صاحب نے ’’انگد‘‘ کا خطاب دیا، گرو ’’انگد‘‘ نے گرونانک صاحب اور دوسرے صوفی سنتوں کا کلام لکھنے کے لئے سکھوں کا اپنا رسم الخط ’’گور مکھی‘‘ ایجاد کیا۔
تیسرے گرو ’’امر داس‘‘ زیادہ مشہور ہوئے، جنہوں نے سکھ عقیدت مندوں کو منظم کرنے کے لئے بڑی خدمات سر انجام دیں۔
چوتھے گرو ’’رام داس‘‘ نے سکھوں کی شادی اور مرنے کی رسومات ہندو مذہب سے الگ متعین کیں، ’’ستی‘‘ کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا۔
پانچویں گرو ’’ارجن سنگھ‘‘ نے ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘ تیار کی، امرتسر کے تالاب میں سکھوں کے لئے ایک مرکزی عبادت گاہ ’’ہری مندر‘‘ کی تعمیر کی، جسے اب ’’دربار صاحب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
گرو ارجن سنگھ نے سکھوں سے ’’دسونتھ‘‘ یعنی عشرہ وصول کرنے کا انتظام کیا اور تین شہر ’’ ترن تارن، کرتار پور اور ہر گوبند پور‘‘ آباد کئے، پھر اس کی بادشاہِ وقت جہانگیر سے مخالفت ہوگئی، جہانگیر نے گرو ارجن سنگھ کو قتل کروادیا اور اس کا مال و اسباب سب ضبط کرلیا۔
نویں گرو ’’تیغ بہادر‘‘ تھے، دس سال تک گرو رہے، اورنگ زیب عالمگیر انہیں دہلی بلوایا اور اسلام پیش کیا، انکار پر قتل کرادیا۔
دسویں اور آخری گرو تیغ بہادر کے بیٹے ’’گرو گوبند سنگھ‘‘ تھے، انہوں نے سکھوں کو منظم کرنے کے لئے باضابطہ ارادت کا سلسلہ شروع کیا، وفاداری کے سخت ترین امتحان کے بعد مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ سکھوں کو ایک مخصوص رسم ’’امرت چکھنا‘‘ کے ذریعہ حلقہ مریدین میں داخل کیا اور انہیں ’’خالصہ‘‘ کا لقب دیا، اس کے بعد اس حلقہ میں عمومی داخلہ ہوا اور ہزاروں سکھ ’’خالصہ‘‘ میں داخل ہوئے، گرو گوبند سنگھ (شیر) اور عورتوں کے لئے ’’کور‘‘ (شہزادی) کا استعمال اور ’’ک‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کا رکھنا ضروری قرار دیا:
(۱) کیس یعنی بال۔ (۲) کنگھا۔ (۳) کڑا (ہاتھ میں پہننے کے لئے)۔ (۴) کچھ یعنی جانگینہ۔ (۵)کرپان یعنی تلوار۔
(ہندوستانی مذاہب:۶۴ تا ۶۶)
گرو گوبند سنگھ کی شروع سے ہی مغل حکومت سے مخالفت رہی، ’’خالصہ‘‘ کی تشکیل کے بعد مغل حکومت سے لڑنے کے لئے انہوں نے فوجی کار روائیاں شروع کیں، لیکن اورنگ زیب عالمگیر کے مقابلہ میں انہیں سخت فوجی ہزیمت اٹھانی پڑی، ان کی فوجی قوت پارہ پارہ ہوئی اور ان کے خاندان کے تمام افراد بھی مارے گئے، گرو گوبند سنگھ نے بھیس بدل کر زندگی کے آخری ایام ’’دکن‘‘ میں گذارے جہاں دو افغانیوں نے انہیں قتل کردیا۔
گرو گوبند سنگھ نے یہ طے کردیا تھا کہ آئندہ سکھوں کا گرو نہ ہوگا؛ بلکہ ان کی مذہبی کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘ ہی ہمیشہ گرو کا کام دے گی۔
(ہندوستانی مذاہب:۶۶)
تعارف مجوس مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
مجوس ایک خدا کے بجائے دو خدا مانتے ہیں، ایک خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خیر اور بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ اس کو یزدان کہتے ہیں، دوسرے خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ہر برائی اور شر کو پیدا کرتا ہے، اس کا نام اہرمن رکھتے ہیں، مجوسیت کے عقیدہ کے مطابق آگ بڑی مقدس چیز ہے، اس کو پوجتے ہیں، ہر وقت اس کو جلائے رکھتے ہیں، ایک لمحہ کے لئے بھی اس کو بجھنے نہیں دیتے، مجوس آگ کےساتھ ساتھ سورج اور چاند کی بھی پرستش کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ مذہب بھی باطل اور شرک ہے کہ اس مذہب میں دو خدا مانے جاتے ہیں اور آگ، سورج اور چاند کو پوجا جاتا ہے۔
مسلمانوں کو ان کے ساتھ بہت سے معاملات میں اہل کتاب جیسا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن ان کا ذبیحہ کھانے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا، اسلام پھیلنے کے ساتھ ساتھ یہ مذہب ختم ہوتا چلا گیا۔
(احکام القرآن للقرطبی:۱؍۴۳۳۔ الفصل فی الملل و الاھواء و النحل:۱؍۴۹)
تعارف مجوس مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
مجوس ایک خدا کے بجائے دو خدا مانتے ہیں، ایک خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خیر اور بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ اس کو یزدان کہتے ہیں، دوسرے خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ہر برائی اور شر کو پیدا کرتا ہے، اس کا نام اہرمن رکھتے ہیں، مجوسیت کے عقیدہ کے مطابق آگ بڑی مقدس چیز ہے، اس کو پوجتے ہیں، ہر وقت اس کو جلائے رکھتے ہیں، ایک لمحہ کے لئے بھی اس کو بجھنے نہیں دیتے، مجوس آگ کےساتھ ساتھ سورج اور چاند کی بھی پرستش کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ مذہب بھی باطل اور شرک ہے کہ اس مذہب میں دو خدا مانے جاتے ہیں اور آگ، سورج اور چاند کو پوجا جاتا ہے۔
مسلمانوں کو ان کے ساتھ بہت سے معاملات میں اہل کتاب جیسا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن ان کا ذبیحہ کھانے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا، اسلام پھیلنے کے ساتھ ساتھ یہ مذہب ختم ہوتا چلا گیا۔
(احکام القرآن للقرطبی:۱؍۴۳۳۔ الفصل فی الملل و الاھواء و النحل:۱؍۴۹)
تعارف یہود مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
لفظ یہود یا تو ہود سے لیا گیا ہے، جس کا معنیٰ یہ ہے ’’توبہ‘‘ یا یہواد سے لیا گیا ہے، جو حضرت یوسف علیہ السلام کا بھائی اور بنی اسرائیل میں سے تھا، اور تغلیباً اس کا اطلاق تمام بنی اسرائیل پر کیا جاتا ہے۔
یہودی بزعمِ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہیں، تورات ان کی آسمانی کتاب ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انہیں بنی اسرائیل کہا جاتا تھا، یہودی کب سے کہا جانے لگا حتمی طور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
یہودی مذہب کے بڑے عجیب و غریب عقائد ہیں، مثلاً یہودی اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین مخلوق ہیں، یہودی اللہ کے بیٹے ہیں، دنیا میں اگر یہودی نہ ہوتے تو زمین کی ساری برکتیں اٹھالی جاتیں، سورج چھپالیا جاتا، بارشیں روک لی جاتیں، یہود، غیر یہود سے ایسے فضل ہیں جیسے انسان جانوروں سے افضل ہیں، یہودی پر حرام ہے کہ وہ غیر یہودی پر نرمی و مہربانی کرے، یہودی کے لئے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ غیر یہودی کے ساتھ بھلائی کرے، دنیا کے سارے خزانے یہودیوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، یہ ان کا حق ہے، لہٰذا ان کے لئے جیسے ممکن ہو ان پر قبضہ کرنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ صرف یہودی کی عبادت قبول کرتا ہے، ان کے عقیدہ میں انبیاء کرام علیہم السلام معصوم نہیں ہوتے؛ بلکہ کبائر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
دجال ان کے عقیدہ میں امام عدل ہے، اس کے آنے سے ساری دنیا میں ان کی حکومت قائم ہوجائےگی، یہ حضرت عیسیٰ علیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے قائل نہیں ہیں، حضرت مریم علیہا السلام پر تہمت لگاتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ ہم نے انہیں سولی پر لٹکا کر قتل کردیا ہے، قرآن مجید نے ان کے غلط نظریات کی جا بجا تردید کی ہے۔
حضرت عزیز علیہ السلام کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، ان کے عقیدہ میں اللہ تعالیٰ زمین و آسمان بنانے کے بعد تھک گئے اور ساتویں دن آرام کیا، اور وہ ساتواں دن ہفتہ کا دن تھا، اس قسم کے اور بھی بہت سارے واہی عقیدے ان کے مذہب کا حصہ ہیں، یہ اہل کتاب ہیں اور اپنے ان عقائد کی بناء پر کافر و مشرک ہیں۔
(الادیان و الفرق، بحوالہ العقیدۃ الحنفیۃ:۱۴۰)
تعارف نصاریٰ مذہب اور اس کے عقائد و نظریات
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بستی کا نام نصرانہ ، ناصرہ یا نصوریہ تھا، اسی بستی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان لوگوں کو نصاریٰ کہا جاتا ہے، جو بزعمِ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔
انہی عیسائی یا مسیحی نہیں کہنا چاہئے، اس لئے کہ عیسائی یا مسیحی کے معنیٰ ہیں حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے اتباع کرنے والے، جبکہ فی الواقع یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے روگردانی کی اور انہیں بدل ڈالا، اسی لئے قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں انہیں دو ناموں سے نہیں پکارا گیا بلکہ انہیں نصاریٰ، اہل کتاب اور اہل انجیل کہا گیا ہے، اغلب یہی ہے کہ انہیں دوسری صدی عیسوی کے اوئل میں نصاریٰ کا لقب دیا گیا۔
یہ بزعم خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہیں، انجیل ان کی آسمانی کتاب ہے، ان کے عقائد بھی کفر و شرک پر مبنی ہیں، مثلاً عقیدۂ تثلیث کے قائل ہیں کہ الوہیت کے تین جزء اور عناصر ہیں، باپ: خود ذات باری تعالیٰ، بیٹا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اور روح القدس حضرت جبرئیل علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سولی پر لٹکائے جانے کے قائل ہیں، اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے شجرِ ممنوعہ سے دانہ کھایا تو وہ اور ان کی ذریت فناء کی مستحق ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کھایا، اپنے کلمہ اور ازلی بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوجسم ظاہری عطا فرما کر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بھیجا، چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام نے جب اس کلمہ کو ازلی کو جنا تو وہ الٰہ کی ماں بن گئیں، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بے گناہ ہونے کے باوجود سولی پر چڑھنا گوارا کرلیا تاکہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خطاء کا کفارہ بن سکیں۔
نصاریٰ کے بہت سے گروہ ہیں، مثلاً کیتھولیک اور پروپیسٹنٹ وغیرہ، مگر ان کے اصولی عقائد پر سب متفق ہیں، بعض فروع میں ان کا اختلاف ہے۔
نصاریٰ اہل کتاب ہیں اور اپنے عقیدۂ تثلیث، الوہیتِ مسیح علیہ السلام اور انکارِ نبوتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر شرکیہ و کفریہ عقائد کی بناء پر کافر اور مشرک ہیں۔
جو شخص انہیں یا یہود کو صحیح مذہب والا سمجھتا ہے یا ان کے بارے میں جنتی ہونے کا یا جہنمی نہ ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
جہاں تک حقیقی تورات اور انجیل کا تعلق ہے تو وہ سچی آسمانی کتابیں ہیں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی، لیکن یہ دونوں آسمانی کتابیں اور زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل کی گئی تھی تبدیل کردی گئیں، آج تورات اور انجیل کے نام سے جو کتابیں موجود ہیں یہ وہ آسمانی کتابیں نہیں ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر نازل ہوئی تھیں، بلکہ محرف اور تبدیل شدہ ہیں، ان کی جو بات قرآن مجید اور احادیث معتبرہ کے مطابق ہو وہ مقبول ہے، ورنہ مردود اور ان کی جس بات کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہوں ہم اس کی تصدیق کریں ے اور نہ ہی تکذیب کریں گے۔
(الادیان و الفرق:۳۰، بحوالہ العقیدۃ الحنفیۃ:۱۴۱۔ الفصل فی الملل:۱؍۴۴تا۶۴ و ۲۴۱)
تعارف فرقۂ روافض ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ خوارج ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ معتزلہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ مشبّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ جہمیہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ مرجیّہ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ جبریّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ قدریّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ کرامیّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ اسماعیلی ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ مہدویت ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ ذکری (مہدوی) ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ نیچریہ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ بہائی ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ قادیانی ’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ انجمن صدیق دیندار’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ اسماعیلیہ(آغا خانی) کاتعارف،اجمالی عقائداوران کاحکم
تعارف فرقۂ اسماعیلی بوہری’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فتنۂ منکرینِ حدیث ’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ روافض ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عبداللہ ابن سبا یہودی شخص نے اسلام قبول کیا، اس کا مقصد دینِ اسلام میں فتنہ پیدا کرنا اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا تھا، وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیدا ہونے والے فتنہ میں پیش پیش تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں بھی ملوث ہوا، اس شخص کے عقائد و نظریات سے رفض نے جنم لیا، رفض کے بہت سے گرو ہ ہیں، بعض محض تفضلی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تمام صحابہؓ سے افضل سمجھتے اور کسی صحابیؓ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرتے، بعض تبرائی ہیں کہ چند صحابہؓ کے علاوہ باقی سب کو برا بھلا کہتے ہیں، بعض الوہیتِ علیؓ کے قائل ہیں، بعض تحریف قرآن کے قائل ہیں، بعض صفات باری تعالیٰ کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں، بعض اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر بھی بہت سی چیزیں واجب ہیں، بعض آخرت میں رؤیتِ باری تعالیٰ کے قائل نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔
(مسند احمد:۱۔۱۰۳۔ رجال کشی:۱۰۸۔ الاعتصام:۲۔۱۸۱۔ جاء دور المجوس:۳۵۔)

فرقۂ روافض کے نظریات و عقائد
اہل سنت و الجماعت کا فرقہ شیعہ سے اختلاف تو بہت سی چیزوں میں ہے، مگر چند اختلاف بنیادی ہیں:
۱۔ قرآن مجید کو اصل نہ ماننا۔
۲۔ امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے۔
۳۔ نبی کریم ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد چار صحابہؓ کے سوا (معاذ اللہ) سب مرتد ہوگئے تھے۔
۴۔ کلمہ طیبہ میں تبدیلی۔
۵۔ متعہ (زنا) جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
۶۔ عقیدۂ رجعت پر ایمانا لانا بھی واجب ہے۔
نوٹ: اس کے علاوہ اور بھی کئی عقائد اور نظریات میں فرقہ شیعہ کا اہل سنت والجماعت سے اختلاف ہے، مگر بنیادی نظریات و عقائدیہی ہیں جو اوپر گذرے۔
اہلِ روافض کے بارے میں اہلِ فتاویٰ کی رائے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:
’’اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے اور باتیں بنانے والے نکلیں گے، اور ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے‘‘۔ (ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴)
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
الصارم المسلول میں فرماتے ہیں کہ: ’’اگر کوئی صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کو جائز سمجھ کر کرے تو وہ کافر ہے، صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہے، جو صدیق اکبرؓ کی شان میں گالی دے تو وہ کافر ہے، رافضی کا ذبیحہ حرام ہے، حالانکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے، روافض کا ذبیحہ کھانا اس لئے جائز نہیں کہ شرعی حکم کے لحاظ سے یہ مرتد ہیں‘‘۔ (الصارم المسلول:۵۷۵)
مولانا احمد رضا خان بریلوی کا فتویٰ:
اپنی کتاب رد الرافضہ میں بڑی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں، جس کا اختصار یہ ہے کہ: ’’جو حضرات حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما خواہ ان میں سےایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگر چہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے، کتاب معتبر و فقہ حنفی کی تصریحات اور عام ائمۂ ترجیح و فتویٰ کی تصحیحات سے یہ مطلقاً کافر ہیں‘‘۔ (رد الرافضہ)
رفض کے ہر گروہ کے عقائد دوسرے گروہ سے مختلف ہیں، لہٰذا بحیثیتِ مجموعی ان پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
(رد المحتار:۴۔۲۳۷۔ البزازیہ:۶۔۳۱۸۔ بحر الرائق:۵۔۱۲۲)
تعارف فرقۂ خوارج ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
خوارج، خارج کی جمع ہے، خارج لغت میں باہر نکلنے والے کو کہتے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو امامِ برحق، واجب الاطاعت کی بغاوت کرکے اس کی اطاعت سے باہر نکل جائے۔
یہ لفظ ان باغیوں کا لقب اور نام بن گیا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بغاوت کرکے ان کی شان میں بہت سی گستاخیاں کیں، مسئلہ تحکیم کے موقع پر یہ گروہ پیدا ہوا، یہ تقریباً بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) لوگ تھے، ان کے مختلف نام تھے، مثلاً محکمہ، حروریہ، نواصب اور مارقہ وغیرہ، ان لوگوں کے ظاہری حالات بڑے اچھے تھے، لیکن ظاہر جتنا اچھا تھا باطن اتنا ہی برا تھا۔
مسئلۂ تحکیم کے بعد لوگ حروراء مقام پر چلے گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں سمجھائیں اور انہیں امیر کی اطاعت میں واپس لائیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سمجھانے سے بہت سے لوگ ان سے الگ ہوگئے اور امیر کی اطاعت میں واپس آگئے، لیکن ان کے بڑے اور ان کے موافقین اپنی ضد پر اڑے رہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تشریف لائے، مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا، انہوں نے صحابئ رسول حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کے ساتھ معرکہ ہوا، خارجیوں کی قیادت عبد اللہ بن وھب اور ذی الخویصرہ حرقوص بن زید وغیرہ کے ہاتھ میں تھی، اس جنگ کے نتیجہ میں اکثر خارجی قتل ہوگئے۔
خوارج حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کو کافر اور مخلد فی النار قرار دیتے تھے، اس شخص کو بھی کافر کہتے تھے جو ان کا ہم مسلک ہونے کے باوجود ان کے ساتھ قتال میں شریک نہ ہوتا ہو، مخالفین کے بچوں اور عورتوں کے قتل کے قائل تھے، رجم کے قائل نہیں تھے، اطفالُ المشرکین کے خلود فی النار کے قائل تھے، اس بات کے بھی قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو بھی نبی بنادیتے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم ہو کہ یہ بعد میں کافر ہوجائے گا، اس بات کے بھی قائل تھے کہ نبی بعثت سے پہلے معاذ اللہ کافر ہوسکتا ہے، خوارج مرتکبِ گناہِ کبیرہ کو کافر اور مخلد فی النار قرار دیتے تھے، اس پر وہ کفرِ ابلیس سے استدلال کرتے تھے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرکے مرتکبِ کبیرہ کافر ہوا تھا، اس بناء پر اس کو کافر قرار دے دیا گیا، معلوم ہوا کہ مرتکبِ کبیرہ کافر ہوجاتا ہے؛ حالانکہ ابلیس محض ارتکابِ کبیرہ کی بناء پر کافر نہیں ہوا، بلکہ حکمِ خداوندی کے مقابلہ میں انکار و تکبر اس کے کفر کا سبب ہے۔(الملل و النحل:۸۸۔ الاعتصام:۲۔۱۸۵)
تعارف فرقۂ معتزلہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا، اس فرقہ کا بانی واصل بن عطاء الغزال تھا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جو حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد تھا، ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بناء پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔
معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے، کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں، خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے، ان کے مذہب کے پانچ اصول ہیں:
(۱) عدل۔ (۲)توحید۔ (۳) نفاذِ وعید۔ (۴) منزلۃ بین منزلتین۔ (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔
(۱) عقیدۂ عدل کے اندر درحقیقت انکارِ عقیدۂ تقدیر مضمر ہے، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شر کا خالق نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو خالقِ شر مانیں تو شریر لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جو کہ خلافِ عدل ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں۔
(۲) ان کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن مجید مخلوق ہیں، اگر انہیں غیر مخلوق مانیں تو تعدد قدماء لازم آتا ہے جو توحید کے خلاف ہے۔
(۳) نفاذِوعید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جو عذاب بتلائے ہیں اور جو جو وعیدیں سنائی ہیں، گنہگاروں پر ان کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کرسکتا اور نہ کسی گنہگار کی توبہ قبول کرسکتا ہے، اس پر لازم ہے کہ گنہگار کو سزا دے، جیسا کہ اس پر لازم ہے کہ نیکو کار کو اجر و ثواب دے، ورنہ نفاذِ وعید نہیں ہوگا۔
(۴) منزلۃ بین منزلتین کا مطلب یہ ہے کہ معتزلہ ایمان اور کفر کے درمیان ایک تیسرا درجہ مانتے ہیں اور وہ مرتکبِ کبیرہ کا درجہ ہے، ان کے نزدیک مرتکبِ کبیرہ یعنی گنہگار شخص ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا، گویا نہ وہ مسلمان ہے اور نہ کافر۔
(۵) امر بالمعروف کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ جن احکامات کے ہم مکلّف ہیں دوسروں کو ان کا حکم کریں اور لازمی طور پر ان کی پابندی کروائیں، اور نہی عند المنکر یہ ہے کہ اگر امام ظلم کرے تو اس کی بغاوت کرکے اس کے ساتھ قتال کیا جائے۔
معتزلہ کے یہ تمام اصول اور ان کی تشریحات عقل و قیاس پر مبنی ہیں، ان کے خلاف واضح آیات و احادیث موجود ہیں، نصوص کی موجودگی میں عقل و قیاس کو مقدم کرنا سراسر غلطی اور گمراہی ہے۔
(شرح عقیدۃطحاویۃ:۵۲۱۔ الاعتصام:۲۔۱۷۷ تا ۱۸۱)
تعارف فرقۂ مشبّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
یہ وہ فرقہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ صفات میں تشبیہ دیتا ہے، اس فرقہ کا بانی داؤد جواربی ہے، یہ مذہب، مذہبِ نصاریٰ کے برعکس ہے کہ وہ مخلوق یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خالق کے ساتھ ملاتے ہیں، اور انہیں بھی الٰہ قرار دیتے ہیں اور یہ خالق کو مخلوق کے ساتھ ملاتے ہیں، اس مذہب کے باطل اور گمراہ ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔(شرح عقیدۃ سفارینیہ:۱۔۹۱)
تعارف فرقۂ جہمیہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
جہم بن صفوان سمرقندی کی طرف منسوب فرقہ کا نام جہمیہ ہے، اس فرقہ کے عجیب و غریب عقائد ہیں، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی نفی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’وجودِ مطلق‘‘ کا نام ہے، پھر اس کے لئے جسم بھی مانتے ہیں، جنت اور جہنم کے فناء ہونے کے قائل ہیں، ان کے نزدیک ایمان صرف ’’معرفت‘‘ کا نام ہے اور کفر فقط ’’جہل‘‘ کا نام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے لئے جسم کے قائل ہیں، ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا کوئی فعل نہیں ہے، اگر کسی کی طرف کوئی فعل منسوب ہوتا ہے تو وہ مجازاً ہے۔
جہم بن صفوان، جعد بن درہم کا شاگرد تھا، جعد وغیرہ کا مذہب یہ بھی تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ نہیں ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ نہیں ہیں، خالد بن عبداللہ القسری نے واسط شہر میں عید الاضحیٰ کے دن لوگوں کی موجودگی میں جعد کی قربانی کی اور اُسے ذبح کردیا، معتزلہ نے بھی کچھ عقائد ان سے لئے ہیں۔
(شرح عقیدۃ طحاویۃ:۵۲۲)
تعارف فرقۂ مرجیّہ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
ارجاء کے معنیٰ ہیں پیچھے کرنا، یہ فرقہ اعمال کی ضرورت کا قائل نہیں ہے، یہ اعمال کی حیثیت کو بالکل پیچھے کردیتے ہیں، ان کے نزدیک ایمان صرف تصدیق کا نام ہے، تصدیق قلبی حاصل ہو تو بس کافی ہے، ان کا کہنا ہے جیسے کفر کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی مفید نہیں، ایسے ہی ایمان یعنی تصدیق کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ مضر نہیں، جس طرح ایک کافر عمر بھر حسنات کرتے رہنے سے ایک لمحہ کے لئے بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا، جنت اس پر حرام ہے، اسی طرح گناہوں میں غرق ہونے والا مومن ایک لمحہ کے لئے بھی جہنم میں نہیں جائے گا، جہنم اس پر حرام ہے، یہ مذہب بھی باطل اور سراسر گمراہی ہے؛ کیونکہ قرآن و حدیث میں جابجا مسلمانوں کو اعمالِ صالحہ کرنے کا اور اعمالِ سیئہ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔(شرح عقیدۃ سفارینیۃ:۱۔۸۹)
تعارف فرقۂ جبریّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
یہ فرقہ بھی جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہے، یہ فرقہ بندہ کو جمادات کی طرح مجبور محض مانتا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ بندہ کو اپنے افعال پر کوئی قدرت و اختیار نہیں؛ بلکہ اس کا ہر عمل محض اللہ تعالیٰ کی تقدیر، علم، ارادہ اور قدرت سےہوتاہے، جس میں بندے کا اپنا کوئی دخل نہیں۔
یہ مذہب صریح البطلان ہے، نقل و عقل اور مشاہدہ کے خلاف ہے، اگر انسان کے پاس کوئی اختیار نہیں اور یہ مجبور محض ہے تو پھر اس کے لئے جزاء و سزاء کیوں ہے؟(شرح عقیدۃ طحاویۃ:۵۲۴)
تعارف فرقۂ قدریّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
یہ جبریہ کے برعکس نظریات کا حامل فرقہ ہے، یہ انسان کو قادرِ مطلق مانتا ہے اور تقدیر کا منکر ہے، احادیث میں قدریہ کو اس امت کا مجوس کہا گیا ہے، مجوس دو خداؤں کے قائل ہیں اور یہ ہر ایک کو قادرِ مطلق کہہ کر بے شمار خداؤں کے قائل ہیں۔
یہ مذہب بھی باطل اور قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے خلاف ہے، قرآن و سنت اور عقل و مشاہدہ سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ انسان نہ تو مجبور محض ہے اور نہ ہی قادرِ مطلق، بلکہ کاسب ہے اور کسب کا اختیار اپنے اندر رکھتا ہے۔(سنن ابوداؤد:۲۔۶۴۴۔ مرقاۃ:۱۔۱۷۸)
تعارف فرقۂ کرامیّہ ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
یہ فرقہ محمد بن کرام کی طرف منسوب ہے، اس فرقہ کا نام کرامیہ (بفتح الکاف و تشدید الراء) یا کرامیہ (بکسر الکاف مع تخفیف الراء) ہے، یہ شخص سجستان کا رہنے والا تھا، صفات باری تعالیٰ کا منکر تھا، ان کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف اقرار باللسان کا نام ہے، لیکن محققین کی رائے کے مطابق ان کا یہ مذہب دنیوی احکام کے اعتبار سے ہے، آخرت میں ایمان معتبر ہونے کے لئے ان کے لئے تصدیق ضروری ہے، بہر حال مجموعی اعتبار سے یہ بھی غلط اور گمراہ فرقہ ہے، ان کے مذہب میں مسافر پر نماز فرض نہیں ہے، مسافر کے لئے قصر نماز کے بجائے دو مرتبہ اللہ اکبر کہہ لینا کافی ہے۔(الفصل فی الملل و النحل:۱۔۳۶۹۔ ۳۔۱۴۲)
تعارف فرقۂ اسماعیلی ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
اسماعیلی مذہب، اسلام کے برخلاف واضح کفریہ عقائد اور قرآن و سنت کے منافی اعمال پر مشتمل مذہب ہے۔
اس مذہب کے بانی پیر صدر الدین ۷۰۰ہجری میں ایران کے ایک قریہ ’’سبزدار‘‘ میں پیدا ہوئے، خراسان سے ہندوستان آئے، سندھ، پنجاب اور کشمیر کے دورے کئے اور نئے مذہب کی بنیاد ڈالنے کے حوالہ سے ان دوروں میں بڑے بڑے تجربات حاصل کئے، چنانچہ سندھ کے ایک گاؤں ’’کوہاڈا‘‘ کو اپنا مرکز و مسکن قرار دیا، ایک سو اٹھارہ (۱۱۸) سال کی طریل عمر پاکر پنجاب، بہاول پور کے ایک گاؤں ’’اوچ‘‘ میں اس کا انتقال ہوا،اس نے اسماعیلی مذہب کا کھوج لگاکر اسماعیلیوں کو یہ مذہب دیا۔(تاریخ اسماعیلیہ:۵۳)
اسماعیلی مذہب کےعقائد ونظریات
اسماعیلی مذہب کا کلمہ یہ ہے: اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد انّ محمداً رسول اللہ و اشھد ان امیر المؤمنین علی اللہ۔(اسماعیلی تعلیمات، کتاب نمبر:۱، ۱۹۶۸ء)
اسماعیلی مذہب کے عقیدہ امامت کے متعلق عجیب و غریب نظریات ہیں، ان کے نظریہ میں ’’امام زماں‘‘ ہی سب کچھ ہے، وہی خدا ہے، وہی قرآن ہے، وہی خانہ کعبہ ہے، وہی بیت المعمور (فرشتوں کا کعبہ) ہے، وہی جنت ہے، قرآن مجید میں جہاں کہیں لفظ اللہ آیا ہے اس سے مراد بھی امام زمان ہی ہے۔
(وجہ دین:۱،۱۴۲،۱۵۰۔ علم کے موتی:۱، ۱۲،۲۹، ۴۳)

اسماعیلی ختمِ نبوت کے منکر ہیں، چنانچہ ان کے مذہب کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام عالم دین کے اتوار ہیں، حضرت نوح علیہ السلام سوموار ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام منگل ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام بدھ ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جمعرات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالم دین کے روزِ جمعہ ہیں اور سنیچر یعنی ہفتہ کے آنے کا انتظار ہے، اور وہ قائم القیامۃ ہیں، ان کے زمانہ میں اعمال نہیں ہوں گے بلکہ اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(وجہ دین:۶۶)
اسماعیلی مذہب میں قرآن مجید اور قیامت کا انکار کیا گیا ہے، قرآن امامِ زمان کو قرار دیا گیا ہے اور ان کے ساتویں حضرت قائم القیامۃ کے زمانہ سنیچر کو قیامت قرار دیا گیا ہے۔
(فرمان نمبر:۱۴، از فرامین سلطان محمد شاہ، بمبئی واڑی۔ وجہ دین:۶۶)
اسماعیلی مذہب کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
(۱) دعاء کے لئے ہمیشہ جماعت خانہ میں حاضر ہونا اور وہیں دعاء پڑھنا۔
(۲)آنکھ کی نظر پاک ہونا۔
(۳) سچ بولنا۔
(۴) سچائی سے چلنا۔
(۵) نیک اعمال۔
(فرمان نمبر:۸۳۔ زنجبار:۱۳.۹.۱۸۹۹ء)

اسماعیلی مذہب میں نماز نہیں ہے، اس کی جگہ دعاء ہے، روزہ فرض نہیں، زکوٰۃ نہیں، اس کے بدلہ میں مال کا دسواں حصہ بطورِ دسوند امامِ زمان کو دینا لازم ہے، حج نہیں ہے، اس کے بدلہ میں امامِ زمان کا دیدار ہے، یا اسماعیلیوں کا حج پہلے ایران میں ہوتا تھا، اب ممبئی بھی حج کرنے جاتے ہیں۔
(تاریخ اسماعیلیہ:۵۵۔ فرمان نمبر:۱۱، کچھ ناگلپور:۱۵،۱۱،۱۹۰۳؁ء۔ فرمان نمبر:۸۳۔ زنجبار: ۱۳.۹.۱۸۹۹ء)

اسماعیلی مذہب کا حکم
اسماعیلی مذہب کی کفریات کی بناء پر ان کو مسلمان سمجھنا یا ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔(امداد الفتاویٰ:۶۔۱۱۴۔ فتاویٰ حقانیہ:۱۔۳۸۵)
تعارف فرقۂ مہدویت ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
سید محمد جونپوری سلطان محمود شرقی ( 1440ء۔ 1457ء) کے عہد میں سوموار 14/جمادی الاولیٰ 842ھ مطابق 9/ ستمبر 1443ء جو نپور میں پیدا ہوئے ،ان کے والد بزرگوار کا نام سید خان اور والدہ محترمہ کا نام بی بی آخا تھا جو بعد میں ان کے مریدوں نے بدل کر ظہور مہدی کے روایات کے مطابق سید عبد اللہ اور بی بی آمنہ کر لیا تھا۔
شجرہ نسب
سید عبد اللہ بن عثمان بن موسیٰ بن قاسم بن نجم الدین بن عبد اللہ بن یو سف بن یحییٰ بن نعمت اللہ بن اسماعیل بن موسیٰ کا ظم بن جعفر صادقؒ بن محمد بن باقر ؒبن علی بن زین العابدین بن سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بن حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ۔
سید محمد جب چار سال چار دن کے ہوئے تو ان کے والد نے ان کو بڑے بھائی سید احمد کے ساتھ شیخ دانیال خضری جو نپوریؒ کی شاگردی میں دے دیا۔
آپ بچپن ہی سے بڑے ہو نہار اور بلا ذہین تھے ۔ انہوں نے سات سال کی عمر میں حفظ قرآن اور بارہ سال کی عمر میں تمام علوم ظاہری کی تحصیل مکمل کر لی تھی ۔ان کی وسیع معلومات ، کثرت مطالعہ اور غیر معمولی ذہانت سے بڑے بڑے علماء دنگ رہ جاتے اسی بناء پر انہیں اسد العلماٰ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔
مہدویوں کے علاوہ معاصرین اور متاخرین علما وصوفیاء نے بھی ان کی علمی استعداد اور قابلیت اور زہد وتقویٰ کی تعریف کی ہے ۔ مولانا عبد القادر بدایونی لکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان کی قابلیت اور خوبیوں سے انکار نہیں کر سکتا ۔ مولنا جمال الدین ،علامہ ابو الفضل میاں ،حاتم سنبھلی اور شیخ علی متقی جیسے علماءئے نا مدار نے بھی ان کی علمی قابلیت اور زہد وورع کی تعریف کی ہے اور ان کی بزرگی تسلیم کی ہے ۔
سید محمد جو نپوری نے تعلیم سے فارغ ہو کر چھوٹی عمر ہی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور ان کے درس میں بے شمار طلباء اور عقیدتمندوں کا جمگھٹا لگا رہتا ۔ان کے درس میں امیر وغریب ہر سطح کے لوگ شامل ہو تے ۔ ان میں سے ایک سلطان حسین شرقی والی جونپور بھی تھے وہ ان کے علم ومعرفت کے بڑے گر ویدہ تھے اور ان سے اپنی وابستگی کا اظہار فخر سے کیا کرتے تھے ۔
جب سید محمد چالیس سال کے ہوئے تو سلطان حسین شرقی کے کئی بار درخواست کر نے کے با وجود 887ھ/ 1482ء میں جونپور سے ہجرت کر گئے تا کہ وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں جا کر تبلیغ کریں اس سفر میں ان کے ہمراہ ان کی زوجہ محترمہ اللہ دی بیٹے سید محمود ، خلیفہ میاں شاہ دلاور اور شیخ بھیک اور بہت سے دوسرے احباب بھی تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ دانا پور ( عظیم آباد، پٹنہ) پہنچے تو ان کی زوجہ محترمہ ، بیٹے سید محمود اور خلیفہ شاہ دلاور کو روحانی اشارہ ہوا کہ وہ مہدی ہیں اور اپنے مہدی ہو نے کا اعلان کردیں ۔انہوں نے خود بھی اس اشارے کی تصدیق تو کی مگر فر مایا کہ اس حقیقت کا اعلان ہم خدا کے حکم سے ایک معینہ وقت پر کریں گے ۔ دانا پور سے پھر وہ کالپی وچندیری ہو تے ہوئے ما نڈو پہنچے ۔وہاں کے بے شمار لوگ ان کے پاکیزہ اخلاق، سنت نبوی کی اتباع اور مواعظ حسنہ سے ہدایت یاب ہوئے ۔سلطان غیاث الدین خلجی ( 1469 ۔ 515ء) والی مالوہ کو جب ان کے علم ومعرفت کی خبر ہوئی تو اس نے بھی ان کی زیارت کی خواہش کی لیکن اس وقت اپنے بیٹے نصیر الدین ( 1500۔1511ء) کے زیر حراست تھا ۔اس لئے اپنی حسرت کو پورا نہ کر سکا ۔ تاہم اس نے ان کی پیغام بھیجوایا کہ وہ اپنے چند مریدوں کو میرے پاس ضرور بھیجیں تاکہ میں ان سے مستفید ہو سکوں ۔اس پر انہوں نے اپنے دو مریدوں سید سلام اللہ اور میاں ابو بکر کو اس کے پاس بھیجا ۔ سلطان غیاث الدین خلجی نے ان پر سونے اور چاندی کے سکوں کی بارش کر دی اور ان سے سید محمد جو نپوری کے متعلق بڑی تفصیل سے دریافت فر مایا ۔ان کے جوابات سے وہ بڑا متاثر ہوا اور ان کے مہدی آخر الزماں ہو نے پر ایمان لے آیا ۔اس نے ان کو بطور فتوح کے بہت سے مال وزر نذر کیا لیکن انہوں نے ان کی طرف نگاہ تک نہ کی اور خود رکھنے یا مریدوں میں تقسیم کرنے کے بجائے اس کو سلطان کے ملازموں ہی میں بانٹ دیا ۔جب لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ انہوں نے اس رقم کو کیوں قبول نہیں کیا تو فر مایا کہ میرے مرید اور ارادتمند کسی دنیاوی مال ومتاع کے لالچ کے بغیر خدائے برحق کی تلاش میں ہیں اور انہیں ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں ۔
اس موقع پر سلطان غیاث الدین خلجی کے خاص امراء میں سے ایک میاں الہداد حمید بھی ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے ۔وہ بڑے پایہ کے عالم ، عمدہ شاعر اور بلند پایہ مصنف تھے اور بڑی شہرت کے مالک تھے ۔بعد میں وہ مہدویوں کے خلیفہ ششم ہوئے ۔ان کی کثیر التعداد تصنیفات ہیں جن میں سے مرثیہ مہدی موعود ،ایک دیوان ،رسالہ بار امانت اور رسالہ در ثبوت مہدیت بڑی مشہور ہیں ۔ان کی ان تصنیفات سے مہدوی تحریک کو بھی بڑی تقویت اور شہرت حاصل ہوئی ان کے ایک قابل قدر شاگرد ابن خواجہ طہ صاحب دیوانِ مہری بھی بڑے قابل قدر انسان تھے ۔
اس کے بعد سید محمد نے 888ھ مطابق 1484ء میں جاپنایز پہنچ کر وہاں کی جامع مسجد میں ڈیرے جمادیے ۔وہاں بے شمار لوگ ان کی وعظ وتلقین سننے آتے تھے ۔ان میں سے ایک سلطان محمود بیگڑہ ( 1511ھ) بھی تھے وہ ان سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی ان سے ذاتی طور پر ملاقات کی خواہش کی مگر بعض امراء نے ان کی ملاقات کو مصلحت حکومت کے خلاف سمجھا ۔۔۔ سید محمد وہاں ڈیڑھ سال رہے ۔اور اس دوران میں ہزاروں لوگ ان سے مستفیض ہوئے ۔اسی جگہ ان کی اہلیہ وفات پا گئیں اور وہیں قلعہ میں دفن ہوئیں۔
وہاں سے پھر وہ برہان پور ہوتے ہوئے دو لت آباد پہنچے اور اس جگہ کے صوفیا کے مزارات کی زیارت کی ۔پھر وہ احمد نگر پہنچےان دونوں وہاں ملک احمد نظام شاہ اول ( 1490ح مطابق 1508ء ) کی حکومت تھی وہ بھی ان کا گر ویدہ ہو گیا اور اس نے ان سے بیٹے کی ولادت کے لئے دعا کی خواہش کی ۔ چنانچہ ان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فر مایا جس کا نام بر ہان نظام رکھا ۔ بعد میں وہ سات برس کی عمر میں سلطان برہان نظام شاہ اول کے نام سے ( 1808۔ 1553ء ) سلطنت کا وارث ہوا ۔
احمد نگر سے پھر وہ بیدر پہنچے وہاں ان دنوں ملک قاسم برید کی حکومت تھی اور وہاں بھی بے شمار ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے ۔
احمد نگر سے گلبرگہ گئے اور وہاں سید محمد گیسو دراز بندہ نواز کے مزار کی زیارت کی ۔
اس سفر کے بعد اپنے 360 پیروکاروں کے ساتھ 901ھ میں بندر گاہ ابھول سے بحری جہاز میں مکہ معظمہ چلے گئے جہاں طواف کعبہ کے بعد رکن یمانی اور مقام ابرا ہیم کے در میان 901 ھ 1495 ۔1494ء میں کھلم کھلا اپنے مہدی ہو نے کا اعلان کیا ۔تاریخ مہدوی کے مطابق یہ ان کے مہدی ہو نے کا سب سے پہلا اعلان اور دعویٰ سمجھا جاتا ہے ۔اس کے بعد وہ چند ماہ مزید مکہ معظمہ میں رہے مگر مدینہ منورہ میں حاضری دیئے بغیر ہندوستان چلے آئے ۔
مختلف شہروں اور ملکوں کا سفر کرتے ہوئے قندھار سے فرہ پہونچے اور 63سال کی عمر میں بروز سوموار 19 ذی قعدہ 910ح مطابق 23اپریل 1504 میں یہیں انتقال ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ان کے خلیفہ میاں الہداد نے ان کی قبر پر ایک بڑا درد ناک مرثیہ پڑھا تھا ۔ان کی وفات کے بعد ان کے بہت سے مرید واپس ہندوستان چلے آئے تھے اور جو تھوڑے بہت فرہ میں رہے ،ان میں سے ایک شیخ محمد فرا ہی تھے جنہوں نے بعد میں اپنے عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔
سید محمد جونپوری کی مہدوی تحریک اکابر امت کی نظر میں
ملا عبد القادر بدایونی منتخب التواریخ میں لکھتے ہیں کہ سید محمد ایک عارف صادق تھے اور فقر ومعرفت کی دنیا میں وہ بڑے پایہ کی ہستی تھےلیکن ان کے مریدوں نے غلط راستہ اختیار کر لیا ۔ مفتی غلام سرور لاہوری لکھتے ہیں کہ وہ بڑے حال مست بزرگ تھے جس طرح بعض صوفیا نے جذب ومستی کی حالت میں ‘‘انا اللہ‘‘ اورانا الحق‘‘ کہہ دیا تھا اسی طرح ان کی زبان سے بھی ‘‘انا مہدی‘‘ نکل گیا تھا ، لیکن جب وہ ہوش میں آئے تو تائب ہوئے اور اپنے مہدی موعود ہونے سے انکار کیا ۔تاہم بعض جاہل لوگوں نے ان کی دوسری بات کا اعتبار نہ کیا اور ان کی پہلی بات پر ہی اصرار کیا اور وہ ان کو مہدی موعود سمجھنے لگے ۔گویا وہ تمام چاہِ ذلت میں گر گئے اور دوسرے 72 فر قوں کی طرح اپنے فرقہ کو ‘‘مہدویہ ‘‘ کہنے لگے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کے خیال میں ان کے ‘‘انا مہدی‘‘ کہنے سے مطلب امام مہدی نہ تھا بلکہ اس کا مطلب ھادی ومہدی تھا اور یہ اسی طرح ہے جس طرح بعض لوگ اولیاء کرام کو ان کی روحانی بلندی وصف کی بناء پر ہادی ومہدی کہہ دیا کرتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خود سید محمد جونپوری نے اپنے پیر کاروں کو سمجھایا کہ میں مہدی مو عود نہیں ہوں لیکن انہوں نے ان کی بات کا یقین نہ کیا اور اپنے ہی عقیدہ پر قائم رہے ۔
شیخ عبد الرحمٰن چشتی مرآۃ الاسرا میں لکھتے ہیں کہ سید محمد بہت بڑے عارف تھے لیکن کشف میں غلطی کر گئے اور علامہ ابو الفضل آئین اکبری میں لکھتے ہیں کہ سید محمد علوم ظاہری ومعنوی کے بڑے عظیم المرتبت عالم تھے ،لیکن دیوانگی کی حالت میں دعوی مہدویت کے مرتکب ہوئے ۔ (الغزالی ویب سائٹ)
عقائد فرقہ مہدویت
عقیدہ(1) سید محمد جونپوری ولی کامل اور مکمل ہیں۔
عقیدہ(2) سید محمد جونپوری مہدی مو عود ہیں 905ھ میں دعویٰ مہدویت کر کے 910ھ میں انتقال کیا۔
عقیدہ(3) تصدیق مہدیویت سید محمد جونپوری فرض ہے ان کا اور ان کی مہدویت کا انکار کفر ہے۔
عقیدہ(4)شیخ موصوف اگر چہ داخل امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن افضل ہیں چاروں خلفاء رضوان اللہ علیہ اجمعین سے۔
عقیدہ(5)سید محمد جونپوری سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ہیں ابراہیم وموسیٰ وعیسی ٰوآدم اور تمام انبیاء اور مرسلین سے۔
عقیدہ(6) سید محمد جونپوری اگرچہ تابع تام ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیکن رتبہ میں آنحضرت خاتم المرسلین کے برابر ہیں کہ دونوں میں سر مو کمی وبیشی نہیں ہے۔
عقیدہ(7) یہ کو جو احادیث رسول خدا کی اور تفاسیر قرآن اگر چہ کیسی ہی روایات صحیحہ سے مروی ہوں لیکن شیخ جونپور کے بیان واحوال سے مقابل کر کے دیکھنا اگر مطابق ان کے احوال کے ہوویں صحیح جاننا ورنہ غلط جا ننا ۔
عقیدہ(۸)یہ کہ شیخ موصوف کو با الذات مفترض الطاعات جانتے ہیں یعنی جو کچھ انہوں نے کہا یا کیا اس کی اتباع دوسروں پر فرض ہو گئی۔(الغزالی ویب سائٹ)
فرقہ مہدویہ کاحکم
فرقۂ مہدویہ جس کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی موعود کی ولادت جونپور میں ۱۴/جمادی الاولی۸۴۷ھ کو ہوچکی ہے اور وہ دنیا میں آکر چلے گئے ، اب کوئی مہدی نہیں آئے گا، یہ عقیدہ احادیث صحیحہ کے قطعاً خلاف اور بالکل غلط ہے احادیث صحیحہ میں جس مہدی موعود کا ذکر ہے وہ قرب قیامت میں دجال کے وقت ظاہر ہونگے، حضرت حسن ؓکی اولاد میں سے ہوں گے، نصاری سے آپ کی بہت عظیم الشان جنگ ہوگی اور آپ ان پر فتحیاب ہوں گے ،آپ کے زمانہ میں دین کی خوب اشاعت ہوگی ، دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گی ،مکہ مکرمہ کے باشندےان سے بیعت کریں گے،اور جس سال آپ کاظہور ہوگا اس سال رمضان میں چاند اور سورج کا گہن ہوگا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوگی ، آپ کے حالات کتب احادیث میں تفصیل سےبیان کئے گئے ہیں علامہ ابو محمد عبد الحق حقانی نے بھی اپنی مشہور معروف کتاب “عقائد اسلام “میں امام مہدی موعود کا احادیث کی روشنی میں تفصیل سےتذکرہ فرمایا ہے۔۔۔یہ فرقہ سید محمد جونپوری کو صرف مہدی موعود ہی نہیں سمجھتا ، بلکہ ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ وہ تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے اور اسی طرح خلفائے راشدین سے افضل ہیں ، اور ان کا مرتبہ حضور اکرمﷺ کے بالکل برابر ہے سرِ مو کمی بیشی نہیں ہے ، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام ،حضرت نوح علیہ السلام وغیرہ انبیاء علیہم السلام کو (معاذاللہ)کامل الایمان نہیں سمجھتے، اور جو ان کے عقیدہ کے مطابق محمد جونپوری کو مہدی موعود نہ مانے وہ کافر ہے ، اس کے علاوہ اور بھی عقائد ِ باطلہ ہیں جن کو ابو رجا محمد رحمہ اللہ نے اپنی کتب”ہدیۂ مہدویہ”میں انہی کی کتابوں کے حوالوں سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ ان کا رد کیا ہے اور آپ نے کتاب کے شروع میں اختصاراً ان کے عقائد باطلہ کو بیان کرکے اہل سنت والجماعت کے عقائد صحیحہ سے تقابل کرکے واضح فرمایا ہے کہ ان کے عقائد قطعاً اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں ۔
(فتاویٰ رحیمیہ:۱۷۸/۱،فتاویٰ محمودیہ:۳۰۰/۲،آپ کے مسائل اور ان کا حل:۱۹۲/۱)

(مزید تفصیلات کےلئے یہاں کلک کریں )
تعارف فرقۂ ذکری (مہدوی) ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
ذکری فرقہ کی بنیاد دسویں صدی ہجری میں بلوچستان کے علاقہ ’’تربت‘‘ میں رکھی گئی، ملا محمد اٹکی نے اس کی بنیاد رکھی جو ۹۷۷ ہجری میں پیدا ہوا اور ۱۰۲۹ ہجری میں وفات پاگیا، ملا محمد اٹکی نے پہلے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا، پھر نبوت کا دعویٰ کیا، آخر میں خاتم الانبیاء ہونے کا دعویٰ کردیا۔
ذکری فرقہ کے عقائد ونظریات
ذکری فرقہ کا بانی ملا محمد اٹکی، سید محمد جونپوری کے مریدوں میں تھا، ان کی وفات کے بعد اس نے ذکری فرقہ کی بنیاد رکھی، ان دونوں فرقوں کے مابین بعض عقائد میں مماثلت پائی جاتی ہے اور بعض عقائد کا آپس میں فرق ہے، مثلاً مہدویہ کے نزدیک سید محمد جونپوری مہدی ہے اور ذکری کے نزدیک نبی آخر الزماں ہے، مہدویہ کے نزدیک سید محمد جونپوری ’’فراہ‘‘ میں وفات پاگئے اور ذکریہ کے نزدیک وہ نور ہے، مرے نہیں، مہدویہ کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور ذکری کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف نبی ہیں خاتم النبیین نہیں، مہدویہ کے نزدیک قرآن مجید حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپؐ کی بیان کردہ تعبیر و تفسیر معتبر ہے، اور ذکریہ کے نزدیک قرآن سید محمد جونپوری پر نازل ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں واسطہ ہیں، اس کی وہی تعبیر و تفسیر معتبر ہے، جو سید محمد جونپوری سے بروایت ملا محمد اٹکی منقول ہے، مہدویہ کے نزدیک قرآن مجید میں مذکور لفظ ‘‘محمد’’ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور ذکریہ کے نزدیک اس سے مراد سید محمد جونپوری ہے، مہدویہ ارکانِ اسلام نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت کے قائل ہیں، اور ذکریہ ان تمام کو منسوخ مانتے ہیں، ذکریہ نے حج کے لئے کوہ مراد کو متعین کیا، ’’برکہور‘‘ ایک درخت کو جو تربت سے مغرب کی طرف ہے، ’’مہبط الہام‘‘ قرار دیا، تربت کی ایک کاریز ’’کاریز ہزئی‘‘ کو زمزم کا نام دیا، یہ کاریز اب خشک ہوچکی ہے، جبکہ مہدویہ ان تمام اصطلاحات سے بے خبر ہیں۔
ذکری فرقہ وجود میں آنے کا سبب در اصل یہ بنا کہ سید محمد جونپوری کی وفات کے بعد ان کے مریدین تتربتر ہوگئے، بعض نے واپس ہندوستان کا رخ کیا اور بعض دیگر علاقوں میں بکھر گئے، انہیں مریدوں میں سے ایک ملا محمد اٹکی ’’سرباز‘‘ ایرانی بلوچستان کے علاقہ میں جا نکلا، ان علاقوں میں اس وقت ایران کے ایک فرقہ باطنیہ جو فرقہ اسماعیلیہ کی شاخ ہے آباد تھی، یہ لوگ سید کہلاتے تھے، ملا محمد اٹکی نے اس فرقہ کے پیشواؤں سے بات چیت کی، مہدویہ اور باطنیہ کا آپس میں جب ملاپ ہوا تو اس کے نتیجہ میں ایک تیسرے فرقہ ’’ذکری‘‘ نے جنم لیا، ملا محمد اٹکی اپنے آپ کو مہدی آخر الزمان کا جانشین کہتا تھا۔
ذکری فرقہ کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے اصول و فروع کے اعتبار سے مسلمان نہیں ہیں، اس لئے ان کا حکم قادیانیوں، بہائیوں اور ہندوؤں کی طرح غیر مسلم اقلیت کا ہے، جو لوگ ذکریوں کو مسلمان تصور کرتے ہیں، ان میں شامل ہیں، ان کو توبہ کرنی چاہئے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل:۱/۱۸۶)
تعارف فرقۂ نیچریہ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
بانی فرقہ نیچریہ سر سیّد احمد خان کے مختصر حالات
ولادت: ۱۷/اکٹوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔
ملازمت: ان کے والد کا انتقال کم عمری میں ہی ہوگیا تھا، اس لئے ان کو شروع ہی میں ملازمت کرنی پڑی، ابتداء میں وہ حکومت کے مستقل ملازم رہے۔
اس کےبعد وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوگئے اور ان کو پھر عدالت میں سر رشتہ دار بنادیا گیا، ان کی مسلسل ترقی ہوتی رہی، جنگ آزادی کے وقت وہ بجنور میں بحثیت سب جج تھے، اس کے بعد ترقی پاکر وہ صدر الصدور، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہوئے، اس کے بعد بجنور سے مراد آباد میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
انہوں نے یہیں پر رہ کر ہی اسبابِ بغاوت ہند اور دوسری بعض کتابیں لکھیں۔
تعلیمی کوشش: مئی ۱۸۶۲ء میں سر سید کا تبادلہ غازی پور کردیا گیا تو وہاں پر انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ سائنسی علوم انگریزی سے اردو زبان میں تراجم کرکے شائع کئے جائیں اور یہاں پر بھی ایک اسکول کھولا۔
اس کے بعد جب ۱۸۶۴ء میں سرسید کا تبادلہ علی گڑھ میں ہوا تو انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی کا دفتر غازی پور سے علی گڑھ منتقل کردیا، وہاں سے ایک رسالہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے جاری کیا، جو سرسید کی وفات تک شائع ہوتا رہا۔
سر سید کے عقائد
شروع میں سر سید غیر مقلد تھے اور پھر انہوں نے اجتہاد شروع کردیا اور پھر انگلستان ۱۸۶۹ء میں اپنے بیٹوں کے ساتھ گئے اور پھر وہاں سے الحاد کا راستہ کھلا اور اپنے عقائد کی خوب اشاعت کی۔
تصانیف: کئی کتابیں لکھیں، ان میں سے:۱۔آئینِ اکبری۔ ۲۔تاریخ فیروز شاہی تصحیح و تحشیہ کرکے چھپوائی۔ ۳۔آثار الصنادید۔ ۴۔تہذیب الاخلاق(رسالہ)۔ ۵۔اسبابِ بغاوتِ ہند۔
وفات: ۲۷/مارچ ۱۸۹۸ء میں علی گڑھ میں انتقال ہوا اور وہاں کالج کے قریب دفن کئے گئے۔

فرقہ نیچریہ کے عقائد و نظریات
۱۔ ملائکہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۳۱۔ تفسیر القرآن:۱/۴۶)
۲۔ شیطان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۳۱)
۳۔ حضرت آدم علیہ السلام نے شجرۂ ممنوعہ نہیں کھایا تھا۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۳۱)
۴۔ قبر میں عذاب نہیں ہوتا۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۶۵)
۵۔ جنت اور جہنم کا انکار کرتے ہیں۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)
۶۔ جسموں کے ساتھ حشر نہیں ہوگا۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)
۷۔ حوروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)
۸۔ تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۹)
۹۔ معجزات کا انکار کرتے ہیں۔ (تہذیب الاخلاق:۳/۳۱)
۱۰۔ آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ (نور الآفاق:۲/۵۲)
۱۱۔ اجماع حجت نہیں ہے۔ (نور الآفاق:۲/۵۲)
۱۲۔ قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔ (نور الآفاق:۴/۱۶)
۱۳۔ حیوانات کی تصویر حلال ہے۔ (نور الآفاق:۱۴/۱۱۵)
۱۴۔ اکثر احادیث صحیح نہیں ہیں۔ (نور الآفاق:۱۴/۱۸۷۔ تفسیر القرآن:۱/۴۶)
۱۵۔ جنّ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (نور الآفاق:۱۴/۷۔ تفسیر القرآن:۱/۱۰۰)
۱۶۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار۔ (نور الآفاق:۵/۵۴۔ تفسیر القرآن:۱۲/۴۲)
۱۷۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے۔ (نور الآفاق:۲۲/۶)
۱۸۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد تھے۔ (نور الآفاق:۱/۳)
۱۹۔ شق القمر کا انکار کرنا۔ (نور الآفاق:۹/۱)
۲۰۔ نبی کریم ﷺ کے شق صدر کا انکار، اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں۔ (ضمیمہ نور الآفاق:۱/۱۔ تفسیر القرآن:۶/۷۵)
۲۱۔ معراج کا انکار کرنا۔ (ضمیمہ نور الآفاق)
۲۲۔ امام مہدی کا انکار کرنا کہ وہ قیامت کے قریب نہیں آئیں گے۔ (نور الآفاق:۳/۹۶)
۲۳۔ انسان نبی کے برابر ہوسکتا ہے۔ (نور الآفاق:۳/۵۷)
۲۴۔ کسی بھی نبی نے توحید کی تعلیم مکمل نہیں کی، سب کی (معاذ اللہ) ناقص رہی۔ (نور الآفاق:۳/۶۳)
۲۵۔ ایصالِ ثواب نہیں ہوتا۔ (نور الآفاق:مطبوعہ جمادی الاولیٰ۔رمضان ۹۶ھ)
فرقہ نیچریہ کے بارے میں اہلِ فتاویٰ کی رائے
جب فرقہ نیچریہ عروج پر تھا تو مولانا علی بخش خان نے مکہ معظمہ جاکر سر سید کے مذہبی عقائد کے خلاف وہاں سے مذاہب اربعہ کے مفتیوں سے فتویٰ حاصل کی، ان چاروں مذاہب کے مفتیوں کا اس بات پر اتفاق پایا گیا، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہ شخص ضال اور مضل ہے بلکہ وہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے کہ مسلمانوں کے اغواء کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا فتنہ یہود و نصاریٰ کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے، واجب ہے اولو الامر پر اس شخص سے انتقام لینا ضرب اور قید اس کی تادیب کرنا چاہئے۔‘‘
اور پھر مولوی علی بخش خان نے مدینہ منورہ کے مفتی اعظم سے فتویٰ حاصل کیا، اس میں انہوں نے یہ تحریر فرمایا:
’’جو کچھ در مختار اور اس کے حواشی سے معلوم ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ شخص یا تو ملحد ہے یا شروع سے کفرکی جانب مائل ہوگیا یا زندیق ہے، کوئی دین نہیں اور اہلِ مذہب حنفی کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ، گرفتاری کے بعد بھی قبول نہیں ہوتی، پس اگر اس شخص نے گرفتاری سے پہلے توبہ کرلی اور گمراہیوں سے رجوع کرلیا اور اس میں توبہ کی علامتیں ظاہر ہوگئیں تو قتل نہ کویا جائے ورنہ اس کا قتل واجب ہے۔ (منصب روز لیل و نہار لاہور، فتویٰ نمبر:۱۹۔۵۔۱۹۷۰ء)
تعارف فرقۂ بہائی ،امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
بہائی فرقہ مرزا محمد علی شیرازی کی طرف منسوب ہے، محمد علی ۱۸۲۰ء میں ایران میں پیدا ہوا، اثناء عشری فرقہ سے تعلق رکھتا تھا، اسی نے اسماعیلی مذہب کی بنیاد ڈالی، محمد علی نے بہت سے دعوے کئے، ایک دعویٰ یہ کیا کہ وہ امام منتظر کے لئے ’’باب‘‘ یعنی دروازہ ہے، اسی واسطے اس فرقہ کو ’’فرقہ بابیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، بہائیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے وزیر ’’بہاء اللہ‘‘ کا سلسلہ آگے چلا، دوسرے وزیر ’’صبح الاول‘‘ کا سلسلہ نہ چل سکا۔
محمد علی کے دعوؤں میں سے ایک دعویٰ یہ تھا کہ وہ خود مہدی منتظر ہے، اس بات کا بھی دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے اندر حلول کئے ہوئے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنی مخلوق کے لئے ظاہر کیا ہے، وہ قربِ قیامت میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ظہورِ موسیٰ علیہ السلام کا بھی قائل تھا، دنیا میں اس کے علاوہ کوئی بھی نزولِ موسیٰؑ کا قائل نہیں ہے، وہ اپنے بارے میں اس بات کا بھی مدعی تھا کہ وہ ’’اولوا العزم من الرسل‘‘ کا مثل حقیقی ہے، یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں وہی نوح تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں وہی موسی تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانے میں وہی عیسی تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وہی محمد تھا۔ (معاذ اللہ)
اس کا ایک دعویٰ یہ تھا کہ اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں کوئی فرق نہیں ہے، وہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا بھی منکر تھا، اس نے ’’البیان‘‘ نامی ایک کتاب لکھی جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ کتاب قرآن مجید کا متبادل ہے، ایک دوسری کتاب ’’الاقدس‘‘ لکھی جس کے بارے میں اس کا دعویٰ تھا کہ یہ کتاب میری طرف بھیجی جانے والی وحی الہٰی پر مشتمل ہے، اس نے تمام محرماتِ شرعیہ کو جائز قرار دیا اور کتاب و سنت سے ثابت اکثر احکامِ شرعیہ کا انکار کیا، اسلام کے بر خلاف ایک جدید اسلام پیش کرنے کا دعویٰ کیا، انہی تمام باطل دعوؤں پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کے بعد اس کا بیٹا عباس المعروف عبد البہاء اس کا خلیفہ مقرر ہوا۔
یہ فرقہ بھی اپنے باطل اور کفریہ نظریات کی بناء پر دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
(شرح فقہ اکبر:۸۶۔ عقیدۃ السلف:۱۰۷۔ بحوالہ عقیدہ حنفیہ:۴۵)
تعارف فرقۂ قادیانی ’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ قادیانی کے بانی غلام احمد قادیانی کے حالات
نام: غلام احمد تھا، والد کا نام: حکیم غلام مرتضیٰ تھا، وطن قادیان ، ضلع گورداسپور، پنجاب ہے۔
پیدائش: سنہ ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔
تعلیم: ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی، مرزا کو تعلیم سے زیادہ زبان سیکھنے کا شوق تھا، اس لئے اس نے اردو کے علاوہ فارسی، عربی اور انگریزی سیکھی۔
ملازمت: ابتداءًا سیالکوٹ کی عدالت میں محرر تھا اور جب مختار کاری کا امتحان دیا تو اس میں فیل ہوگیا۔
مناظرہ و مباحثہ کا شوق: مناظرہ اور مباحثہ کا مرزا کو بہت شوق تھا، آریوں اور عیسائیوں سے انہوں نے خوب مناظرے کئے۔
بدزبانی اور فحش گوئی: مرزا کی زبان بہت آزاد تھی، جس کو جو مرضی میں آئے کہہ دیتا، اس طرح کہنے میں اس کو کوئی عار نہ تھا، علماء اسلام کو سخت کلامی اور گالی گلوج کرتا تھا۔
ان کی فحش گوئی کا ایک نمونہ: مرزا صاحبنے ایک شخص کے بارے میں یہ اشعار کہے:
و من اللئام اری رجیلا فاسقا غولا لعینا نطفۃ السفھاء
ترجمہ: میں کمینوں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتا ہوں کہ وہ ایک شیطان ملعون ہے، بیوقوفوں کا نطفہ ہے۔
مشکر خبیث مفسد و مزوّراً نحس یسمّی السعد فی الجھلاء
ترجمہ: بدگو اور خبیث اور مفسداور جھوٹے ملمع کرکے دیکھانے والا، منحوس ہے جس کا نا م جاہلوں نے سعد رکھا ہے۔
اذیتنی خبیثاً فلستُ بصادق ان لم تمت بالخزییا ابن جفاء
ترجمہ: اپنی خبائث سے مجھے بہت دکھ دیا ہے، پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ آئے اے حرامی!۔(حقیقۃ الوحی، مطبوعہ میگزین قادیان کانتمہ: ۱۴۔تا۔ ۱۹)
مرزا غلام احمد قادیانی سے سب سے پہلے مجدد ہونے کا دعویٰ، پھر محدث ہونے کا اور پھر ۱۸۹۱ء میں عیسیٰ (علیہ السلام) ہونے کا دعویٰ کیا، اور ۱۸۹۲ء میں اس نے اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر ۱۹۰۱ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کردیا، مرزا غلام احمد کی زندگی مختلف اور متضاد دعویٰ کے گرد گھومتی ہے اور تمام دعوے آپس میں متضاد تھے۔
وفات: بالآخر مرزا غلام احمد کا ۲۶ مئی ۱۹۱۸ء کو لاہور میں انتقال ہوا مگر دفن قادیان میں کیا گیا۔
فرقہ قادیانی کے عقائد و نظریات
۱۔ آخری نبی جناب رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ (حقیقۃ النبوۃ:۸۲، ۱۶۱۔ تریاق القلوب:۳۷۹)
۲۔ مرزا غلام احمد پر وحی بارش کی طرح نازل ہوتی تھی، وہ وحی کبھی عربی میں کبھی ہندی میں اور کبھی فارسی اور کبھی دوسری زبان میں بھی ہوتی تھی۔ (حقیقۃ الوحی:۱۸۰۔ البشری:۱/۱۱۷)
۳۔ مرزا غلام احمد کی تعلیم اب تمام انسانوں کے لئے نجات ہے۔ (اربعین:۴، ۱۷)
۴۔ جو مرزا غلام احمد کی نبوت کو نہ مانے وہ جہنمی کافر ہے۔ (حقیقۃ النبوۃ:۲۷۲، فتواویٰ احمدیہ:۳۷۱)
۵۔ مرزا غلام احمد کے معجزات کی تعداد دس لا کھ ہے۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی:۱۳۶) (جبکہ رسول اللہﷺ کے تین ہزار ہیں)
۶۔ مرزا نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر شان والا تھا۔ (قول فصل:۶۔احمدپاکٹ بکس:۲۵۴۔ اربعین:۱۰۳)
۷۔ مرزا بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل تر ہے۔ (دافع البلاد:۲۰۔ازالہ کلاں:۶۷)
۸۔ مرزا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیگر انبیا اور صحابہ کرامؓ کے بارے میں تحقیر آمیز جملے استعمال کئے ہیں۔ (حاشیہ ضمیمہ انجام آثم:۴۔ روحانی خزائن:۱۶/۱۷۸۔ اعجازِ احمدی:۱۸/۸۳/۵۲)
۹۔ قرآن کی کئی ایک آیات سے مراد مرزا غلام احمد ہے۔ مثلاً:
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ (اعجاز احمد:۱۱/۲۹۱۔ دافع البلاد:۱۳)
ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ تمام ادیان پر غالب رہے۔
۱۰۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشین گوئیاں جھوٹی نکلیں۔ (اعجاز احمدی:۱۴)
۱۱۔ جہاد کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ (حاشیہ اربعین:۱۵۴۔ خطبہ البا:۲۵)
۱۲۔ مرزا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات مردوںو کو زندہ کرنا وغیرہ کو کھیل کھلونے قرار دیتا ہے کہ ایسا کھیل تو کلکتہ اور بمبئی میں بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ (حاشیہ ازالہ اوہام:۲۱، ۱۲۱۔حقیقۃ الوحی:۷۸)
۱۳۔ رسول اللہ ﷺ کو درجاتی معراج نہیں ہوئی کشف ہوا تھا۔ (ازالہ اوہام کلاں:۱۴۴)
۱۴۔ مرنے کے بعد میدانِ حشر میں جمع ہونا نہیں ہوگا، مرنے کے بعد سیدھا جنت یا جہنم میں چلے جائیں گے۔ (ازالہ اوہام کلاں:۱۴۴)
۱۵۔ فرشتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ تو ارواح کواکب ہے، جبرئیل امین وحی نہیں لاتے تھے، وہ تو روح کواکب نیر کی تاثیر کا نزول وحی ہے۔ (توضیحِ مرام:۲۹)
۱۶۔ اللہ اور رسولﷺ پر افتراء کیا ہے۔ (ازالہ اوہام خورد:۳۹۶۔ ازالہ اوہام خورد:۳۹۶۔ ازالہ اوہام:۳۹۸)
۱۷۔ مرزا تمام انبیاء کا مظہر ہے، تمام کمالات جو انبیاء علیہم السلام میں تھے وہ سب مرزا میں موجود ہیں۔ (قول فصل:۶۔ تشحیذ الاھان:۱۰/۱۰،۱۱)
۱۸۔ حضرت عیسیٰؑ مرچکے ہیں، وہ قیامت کے قریب بالکل نہیں آئیں گے۔ (ازالہ کلاں:۲/۳۱۱)
۱۹۔ قرآن و حدیث کے بارے میں تحقیری الفاظ استعمال کرنا۔ (کلمہ فصل:۷۳، تحفہ گولڑویہ:۳۸۔ روحانی خزائن:۱۹/۱۴۰۔ اعجاز احمد:۳۰)
نوٹ: اس کے علاوہ اور بھی چیزوں میں اہل اسلام کااس سے اختلاف ہے، مختصر طورپر ان ۱۹/عقائد ہی کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔
فرقہ قادیانی کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
اہل فتاویٰ کے نزدیک بالاتفاق فرقہ قادیانی کافر ہے، ان عقائد کی وجہ سے جو ذکر کئے گئی ہیں۔
۱۔ رجب ۱۳۳۶ ہجری میں فتویٰ تکفیرِ قادیانی کے نام سے شائع ہوا، اس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے دستخط کئے، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
دیوبند، سہارنپور، تھانہ بھون، رائے پور، دہلی، کلکتہ، بنارس، لکھنو، آگرہ، مراد آباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، روالپنڈی، ملتان، ہوشیار پور، گودھرا، میسور، جہلم،سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، حیدرآباد دکن، بھوپال وغیرہ۔ (فتویٰ تکفیرِ قادیانی: طبع کتب خانہ اعزازیہ دیوبند، ضلع سہارنپور، یوپی)
۲۔ اسی طرح فتویٰ اہل حدیث امرتسر کے دفتر سے ۱۹۲۵ عیسوی میں فتویٰ جاری ہوا، ’’فسخ نکاح مرزائیاں‘‘ کے نام سے، اس میں بھی بر صغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے دستخط کئے تھے۔
۳۔ اسی طرح سعودی عرب سے ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں حرمین شریفین، بلاد حجاز، شام وغیرہ عرب ممالک کے علماء کے دستخط ہیں، اس میں ایک جملہ یہ بھی ہے:
’’لاشک ان اذنابہ من القادیانیۃ واللاھوریۃ کلھا کافرون‘‘۔ (القادیانیۃ فی نظر علماء الامۃ الاسلامیۃ، طبع مکہ مکرمہ)
ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ مرزا غلام احمد کے تمام متبعین خواہ قادیانی ہو یا لاہوری سب کافر ہیں۔
(مزید تفصیلات کےلئے یہاں کلک کریں )
تعارف فرقۂ انجمن صدیق دیندار’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
بانی فرقہ کا نام صدیق حسین ہے، پیدائش ۱۳۰۳ھ م ۱۸۸۶ء میں بمقام بالم پیٹ ضلع ورنگل ۱؎ دوشنبہ کے دن صبح ۱۰ بجے ہوئی، یہ چھوٹا سا گاؤں دریائے کرشنا اور دریائے گوداوری کے درمیان واقع ہے ، والدین کے بارے میں لکھاہے کہ میرا ددھیال مدراس کے علاقہ چنکل پیٹ سے تعلق رکھتا ہے اور ننھیال دکن کے علاقۂ اودگیر سے وابستہ ہے، خاندان کے بارے میں بتلایا ہے کہ وہ سادات ِ کرام کا ہے ، ان کے بقول پیدائش سے متعلق یہ تمام تفصیلات ہندواوتاروں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہیں ،عملاً ان میں کوئی رد وبدل واقع نہیں ہوا ہے ۔
پیدائش کے بعد جب ان کے والد نے انہیں دیکھاتوخداجانے کیا محسوس کیا کہ بجائے فرط ِ مسرت سے انہیں چومنے چمکارنے کے اپنی اہلیہ کو ہدایت دی کہ اسے کوڑی پر پھینک دیا جائے تو بہتر ہے ، لیکن ماں کی ممتا نے اس ہدایت پر عمل کوگوارا نہ کیا، پال پوس کر امت کے لئے ایک آزمائش اور گمراہی کا سرچشمہ بنادیا۔
پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو گلبرگہ میں ابتدائی تعلیم دلائی گئی، ۱؎ اعلیٰ تعلیم سٹی کالج حیدرآباد ، محمڈن کالج مدراس ، پرسین کالج لاہور سے حاصل کی، دوسری جگہ کس طرح پڑھایہ تو نہیں معلوم ، البتہ مدراس کی تعلیم کے دوران سرکشی وانانیت کے مزاج سے زچ ہوکر استاذ ِ محترم نے پیشین گوئی کی کہ ’’تم کسی کام کے نہیں ہو‘‘، چنانچہ یہی ہوا کہ موصوف کسی اچھے کام کے قابل کبھی نہ ہوئے ، زندگی میں کچھ سرگرمیاں کیں بھی تو یہی کہ اچھے خاصے مسلمانوں کو مرتد کرتے رہے، کتابیں بھی لکھیں تو جنگ وجدال ہی پر لکھیں، معتقدین کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد انہوں نے میڈیسن کی تعلیم بھی حاصل کی اور اپنے زمانہ کے ماہر امراض ِ چشم بن گئے، وہ فنونِ سپہ گری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے ، بقول معتقدین کے انہیں گیارہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
مذہبی ودینی تعلیم کہاں حاصل کی اور کن علماء سے حاصل کی؟ اس کے جواب سے ان کی کتابیں خاموش ہیں ،یا تو ان کے اساتذہ ومشائخ کا تذکرہ شان کے خلاف ہونے کی وجہ سے پردۂ خفا میں رکھا گیا یا پھر دینی تعلیم کا ذوق نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے کسی عالم ِ دین سے استفادہ ہی نہ کیا ہوگا، البتہ اس کا ذکر ضرورملتا ہے کہ انہوں نے دجال ِ وقت اور کذاب ِ زمانہ مرزا غلام احمد قادیانی کے لٹریچر سے علمی استفادہ اور اس کے گمراہ وبے دین خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کے دست ِ دجل پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا ہے، یہ بیعت بھی بعض مصالح خاصہ کے تحت بعد میں فسخ کرلی تھی، نیز محمد علی لاہوری قادیانی کی شادگرد ی بھی نصیب رہی، معتقدین نے ناگپور کے حضرت تاج الدین باباؒ، دکن کے حضرت مسکین شاہؒ اور علامہ شبلی نعمانی ؒسے ملاقاتوں کا ذکر بہت فخر سے کیا ہے ، مگر اس سے نہ شرف ِ تلمذ کا پتہ چلتا ہے نہ تکمیل ِ سلوک کا، اس لئے اس کا ذکر محض رنگ جمانے اور وزن بنانے کے لئے یا دینی تعلیم نہ ہونے کے عیب پر پردہ ڈالنے کے لئے معلوم ہوتا ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ موصوف نے تمام فرقہائے اسلام کے بزرگوں سے استفادہ کیاتھا اور غالباً اسی وجہ سے ان کا دین رطب ویابس اور حق وباطل کا معجون ِ مرکب بن گیا تھا۔
موصوف نے زندگی میں بہرحال بڑی مشقتیں اٹھائیں ، مصیبتیں جھیلیں ، صعوبتیں برداشت کیں ، ناکام ہوتے رہے، پابندیاں لگتیں اور زبان بندیاں ہوتی رہیں ، گرفتار کئے جاتے اور شہر بدر کئے جاتے رہے،جیلیں کاٹیں ، ان کے رفقاء بھی بڑی بڑی مہمیں اپنے گرو کی بشارتوں اور وعدوں کی بنیاد پر لے کر اٹھتے اور نامراد ہوتے رہے، مگر افسوس کہ یہ سب کچھ اسلام ِ حقیقی کے بجائے اپنے مخترعہ وخانہ ساز اسلام بلکہ بے دینی والحاد کے لئے کیا جاتا رہا، کاش ! کہ یہ قربانیاں حقیقی اسلام کے لئے ہوتیں تو دنیا نہ سہی عقبیٰ تو سنور ہی جاتی، مگر بُرا ہو نفس وشیطان کے دھوکوں اور حرص وہوس کے خوابوں کا کہ آدمی جب ان کے چکر میں آجاتا ہے تو خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃْ کا مصداق بن کر ہی دم لیتا ہے۔
اجمالی عقائد فرقہ انجمن صدیق دیندار
چن بسویشور کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا مظہر بنایا
چن بسویشورنبی کے قائم مقام ہے
انبیاء ِ کرام اور خلفاء ِ راشدین چن بسویشور کے رفقاء ہیں
اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ کا مقام ایک ہی ہے
انبیاء ظہور ِ اولیٰ میں تارے تھے تو ظہور ِ ثانی میں چاند ہوگئے
اولیاء ِ کرام اﷲ تعالیٰ کے بچے ہیں
بارہواں امام بروز ِ محمد کہلاتاہے
چن بسویشورکے چیلے صحابۂ نبیؐ کے برابر ہیں
اﷲ کے پردہ میں وحدت کے سوا کیاہے؟
چن بسویشور کی آمد سے قبل مسلمانوں کو نبی کی معرفت نہ تھی
مہدی کی مسلمانوں پر کوئی حجت نہیں
امام الجہاد ہونے کا دعویٰ
معاد کی حقیقت نبی کریم ﷺ کا دوسرا جنم ہے
نبی کریم ﷺ کی دوسری بعثت لازمی ہے
آیات ِ قرآن کا من مانی ترجمہ
مقام ِ محمود اور مہدیت بھی چن بسویشور کی میراث ہے
فرقہ انجمن صدیق دیندارکاحکم
یہ جماعت قادیانیوں کی ایک شاخ ہے اور اس جماعت کا بانی بابو صدیق دین دار چن بسو یشور خود بھی نبوت بلکہ خدائی کا مدعی تھا ،بہر حال یہ جماعت مرتد اور خارج از اسلام ہے۔(آپ کے مسائل اوران کا حل:۲۳۶)
(مزید تفصیلات کےلئے یہاں کلک کریں )
فرقہ اسماعیلیہ(آغا خانی) کاتعارف،اجمالی عقائداوران کاحکم
آغا خان شاہ کریم الحسینی کے حالات
آغا خان کی پیدائش ۱۳ ڈسمبر ۱۹۳۶ عیسوی میں بعض کے نزدیک بمبئی میں اور بعض کے نزدیک پیریس میں ہوئی۔
جانشین: ۱۹۵۷ء میں جب آغا خان سوم امام سلطان محمد شاہ کا انتقال ہوا تو اب اختلاف ہوا کہ ان کا جانشین کون ہوگا؟ لوگوں میں دو فرقہ ہوئے، حقیقی ان کا بیٹا علی سلطان خان جس کو شہزادہ علی خان بھی کہتے ہیں، ان کو ۴۹واں امام مانتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ ان کے لئے شاہ کریم الحسینی کو ۴۹واں امام مانتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ آغا خان سوم نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ میرا جانشین شاہ کریم الحسینی ہوگا، اسی میں شیعہ مسلم اسماعیلی کمیونٹی کا مفاد ہے۔
آغا خان کہنے کی وجہ: اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے جب ان کا ۴۵واں امام خلیل اللہ (متوفی:۱۲۳۳) ایک سازش کے تحت قتل کردئے گئے جس پر اسماعیلیوں کو خوش کرنے کے لئے خلیل اللہ کے دو سالہ لڑکے جس کا نام حسن علی تھا اس کو آغا خان کا لقب دیا، جس پر انہیں آقا خان محلاتی پکارا جانے لگا اور ایرانی بادشاہ نے اپنی لڑکی سے اس کی شادی بھی کردی، مگر بادشاہ فتح علی کی وفات کے بعد حسن علی شاہ آغا خان محلاتی کو ایران میں بڑی مشکلات پیش آئیں، اس لئے انہوں نے ایران کو چھوڑ کر ہندوستان میں بمبئی آکر سکونت اختیار کرلی، پھر یہاں آکر آقا خان سے آغا خان استعمال ہونے لگا۔ (آغاخانیت علمائے امت کی نظر میں:۱۰)
تعلیم: دورانِ تعلیم ہی جانشینی وجود میں آگئی اور امامت کی اہم ذمہ داری طالب علم کے زمانہ میں ہی مل گئی، اس لئے اس سے تعلیم پر بہت اثر پڑا اور تعلیم موقوف ہوگئی، لیکن ۱۹۵۸ء میں انہوں نے دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع اور بی، اے، آنرز کے دوران پرنس کریم آغا خان نے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔
شادی: انہوں نے اکتوبر ۱۹۶۹ء میں سلیمہ نامی لڑکی (جس کا پہلے نام ماڈل سیلی تھا جو پہلے مذہباً عیسائی تھی) سے شادی کی، جس سے تین بچے پیدا ہوائے: (۱)پرنسس زہرہ۔ (۲)پرنس رحیم۔ (۳)پرنس حسین۔ اور پھر ۲۵سال کے بعد اس کو طلاق دیدی، پھر پرنس آغا خان نے سلیمہ کو ۵۰ملین پونڈکی رقم دی، جس میں سے ۲۰ملین پونڈ نقد اور ۳۰ ملین پونڈ کے زیورات شامل ہیں، اخبارات کے بقول یوروپ میں کسی بھی طلاق کی صورت میں اتنی بری رقم آج تک کسی بھی عورت کو نہیں دی گئی۔ (روزنامہ جنگ کراچی:۹/اپریل ۱۹۹۵)
دنیا کے امیر ترین آدمی: آغا خان اس وقت دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، آغا خان کریم پرنس انگریزی، فرانسیسی، اطالوی زبانیں روانی سے بولتے ہیں، مگر عربی اور اردو میں اٹک اٹک کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
مشاغل: ان کے مشاغل میں سے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹبال، ٹینس اور کشتی رانی شامل ہیں، اسکیٹنگ میں وہ ایران کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اولمپک چمپین بنے۔
القابات: انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے اس کو ’’ہز ہائنس‘‘ کا لقب دیا اور سابق شاہ ایران رضا پہلوی نے ’’ہز رائل ہائنس‘‘ کا لقب دیا تھا۔
آغا خانی فرقہ(اسماعیلی) کے نظریات و عقائد کی کہانی انہی کی زبانی
ریلیجئس (مذہبی کمیٹی) نیو جماعت خانہ، بریٹیو روڈ، کراچی۔۳
آغا خانی مذہبی عبادت کا پیغام
حقیقی مومنوں کو یا علی مدد!
بیان یہ ہے کہ ہم لوگ آغا خانی ہیں،ہمارا تعلق اسماعیلی تنظیم سے ہے، جس کی ذمہ داری لوگوں کو مذہبی معلومات فراہم کرنا ہے، ہمیں جماعت خانوں میں مکھی صاحب کی زیر سرپرستی جو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، اس کی روشنی میں ہم آغاخانی، بندگی، عبادت، جو جماعت خانوں میں کرتے ہیں اس کی مکمل وضاحتی تفصیل ہم تحریر کر رہے ہیں:
۱۔ سلام ہمارا ہے: یا علی مدد اور ہمارے سلام کا جواب: ہے: مولا علی مدد۔ (سبق نمبر۲،ص:۷۔ شکھشن مالا درسی کتاب برائے مذہبی نائٹ اسکولز)
۲۔ کلمہ ہمارا ہے: اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ و اشھد ان علی اللہ۔ (شکھشن مالا، مطبوعہ اسماعیلیہ اسوایشن برائے ہند بمبائی)
۳۔ وضو کی ہمیں ضرورت نہیں، ا س لئے کہ ہمارے دل کا وضو ہوتا ہے۔
۴۔ نماز جگہ ہر آغا خانی پر فرض ہے تین وقت کی دعاء جو جماعت خانے میں آکے پڑھے پانچ وقت فرض نماز کے بدلے، ہماری دعاء میں قیام و رکوع کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں قبلہ رخ کی ضرورت نہیں ہے، ہم ہر سمت رخ کرکے پڑھ سکتے ہیں، جس کے لئے دعاء میں حاضر امام کا تصور ہونا بہت ضروری ہے(ہم دعاء کی کتاب اس پیغام کے ساتھ بھیج رہے ہیں، آپ خود بھی پڑھیں اور دوسرے روحانی بھائیوں کو بھی دیں)۔
۵۔ روزہ تو اصل میں آنکھ، کان اور زبان کا ہوتا ہے، کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، ہمارا روزہ سوا پہر کا ہوتا ہے، جو صبح دس بے کھول لیا جاتا ہے، وہ بھی اگر مومن رکھنا چاہے، ورنہ روزہ فرض نہیں، البتہ سال بھر میں جس مہینے کا چاند جب بھی جمعہ کے روز کا ہوگا اس دن ہم روزہ رکھتے ہیں۔
۶۔ زکوٰۃ کے بجائے ہم آمدنی میں روپیہ پر دو آنہ (دسوند) فرض سمجھ کر جماعت خانہ میں دیتے ہیں۔
۷۔ حج ہمارا حاضر امام کا دیدار ہے (وہ اس لئے کہ زمین پر خاد کا روپ صرف حاضر امام ہے)۔
۸۔ ہمارے پاس تو بولتا قرآن یعنی حاضر امام موجود ہے، مسلمانوں کے پاس تو خالی کتاب ہے۔ (فرسان نمبر۵۳، کلام امام حسینؓ:۲/۳۹۳)
۹۔ ہمارے صبح و شام تک کے گناہ مکھی صاحب چھینٹا ڈال کر معاف کرتے ہیں، ہم میں سے اگر کوئی آدمی روز جماعت خانہ نہ جاسکے تو جمعہ کے روز مہینہ بھر کے گناہ چاند رات کو پیسے دے کر چھینٹا ڈلوا کر اور آبِ شفاء (یعنی گھٹ پاٹ) پی کر معاف کراسکتا ہے۔ (شکھشن مالا درجہ سوم، سبق نمبر۶،ص:۲۱۔مطبوعہ اسماعیلیہ اسوایشن برائے ہند بمبائی)
۱۰۔ ہماری بندگی/عبادت کا طریقہ یہ ہے کہ:
حاضر امام ہمیں ایک بول/اسم اعظم دیتے ہیں جس کے عوض ہم ۷۵ روپئے ادا کرتے ہیں جس کی بندگی/ عبادت ہم رات کے آخری حصہ میں ادا کرتے ہیں، ۵سال کی بندگی/عبادت معاف کرانے کے ہم ۵۰۰ روپئے اور ۱۲/سال کی بندگی/عبادت معاف کرانے کے لئے ۱۲۰۰/روپئے اور لائف ممبر (پوری زندگی، عمر) کی بندگی معاف کرانے کے لئے ۵۰۰۰/روپئے ہم جماعت خانوں میں دے دیتے ہیں۔
نورانی: حاضر امام کے نور کو حاصل کرنے کے لئے ۷۰۰۰/روپئے ہم جماعت خانوں میں دیتے ہیں، جس سے ہمیں حاضر امام کا نور حاصل ہوتا ہے۔
فدائین: قیامت کے روز حاضر امام سے ہم اپنے آپ کو بخشوانے (حاضر امام کے نور کے ساتھ اپنے نور کو ملائے جانے کا خرچہ ۲۵۰۰۰/روپئے ہم جماعت خانوں میں دیتے ہیں۔
ناندی: خیرات کو کہتے ہیں، ہمارے گھروں میں بہترین قام کے پکنے والے کھانے، عمدہ قسم کے کپڑے و زیورات ہم جماعت خانوں میں خیرات (ناندی۸) دیتے ہیں۔
جماعت خانے والے اس ناندی کو نیلام کرکے اس کی رقم جماعت خانے میں جمع کردیتے ہیں۔
۱۱۔ امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے۔
۱۲۔ ان کا امام خدا میں حلول کرگیا ہے، اس لئے امام ہی حقیقت میں خدا ہے (معاذ اللہ) اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (سبق نمبر۱،ص:۴، شکھشن مالا نمبر۱، منظور شدہ درسی کتاب برائی ریلیجئس نائٹ اسکولز)
آغا خانی (اسماعیلیہ) فرقہ کا حکم
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
(۱)جس شخص کو اسلامی تعلیمات اور آغا خانی عقائد و نظریات سے ذرا بھی شدبد ہو اسے اس امر میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ آغا خانی جماعت بھی قادیانی جماعت کی طرح زندیق و مرتد ہے، چنانچہ قرن اولیٰ سے لےکر آج تک کے تمام اہل علم ان کے کفر و ارتداد اور زندقہ و الحاد پر متفق ہیں، جو لوگ جہالت اور ناواقفیت کی وجہ سے آغا خانیوں کو بھی مسلمان ہی کا ایک فرقے سمجھتے ہیں، ان کی بے خبری و لا علمی حد درجہ لائق افسوس اور لائق صد ماتم ہے۔الخ۔(آغاخانیت علماء امت کی نظر میں:۱۵۴)
(مزید تفصیلات کےلئے یہاں کلک کریں )
تعارف فرقۂ اسماعیلی بوہری’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ بوہری جماعت کے بانی سیدنا محمد برہان الدین کے مختصر حالات
نام: برہان الدین۔پیدائش:۲۰/ربیع الآخر مطابق ۶/مارچ ۱۹۱۵ء بھارت کے شہر سورت میں پیدا ہوئے۔
والد کانام: طاہر سیف الدین تھا، طاہر سیف الدین برہان الدین کی پیدائش سے چالیس دن پہلے ۵۱ویں داعی بنائے تھے۔
تعلیم: ابتداءاً تعلیم اپنے علاقہ میں ہی حاصل کی اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف تھیالوجی کی اعزازی سند دی۔
تعلیمی خدمات: انہوں نے اپنا مسلک جامعہ سیفیہ میں نافذ کیا، اس کی دوشاخیں بنائیں، ان میں سے ایک اپنی پیدائشی شہر سورت میں، دوسری کراچی میں ہے۔
طاہر سیف الدین نے ۱۹ سال کی عمر میں ۱۹۳۴ء میں سیدنا برہان الدین کو ۵۲واں داعی مقرر کردیا، اتفاق سے جانشینی اور ولادت کا دن ایک ہی تھا۔
بوہری مراکز
بوہری مراکز کے نام پر کئی تاریخی عمارتیں بنوائی، جس میں فاطمی دور کی یادگار مسجد الاجامع الاونور کی تعمیر نو کروائی، ساتھ ہی قاہرہ کی دوسری مساجد مثلاً جامع ازہر، جامع القمر، جامع جیوشی اور جامع لوتو کی شکستہ عمارت کو تعمیر کروایا، چند سال قبل یعنی ۲۰۰۲ میں کوفہ کے اندر جامع علی ابن ابی طالبؓ کی ترمیم و احیاء کا کام انجام دیا، علاوہ ازیں یمن میں دعاۃ کرام کی تاریخی مساجد (عبادت خانے) بھارت میں سورت کی تاریخی جامع معظم اور دوسری کئی مساجد (عبادت خانے) دنیا بھر میں بوہرہ مراکز بھی سیکڑوں اپنے عبادت خانے تعمیر کروائے۔
کارنامہ: ۱۴۰۱ھ میں برہان الدین نے اپنی جماعت کے لوگوں کو تلقین کی کہ سود چھوڑ کر قرضۂ حسنہ کا طریقہ اختیا کریں۔
ان کی شب وروز کی محنت سے ۴۰ممالک میں بوہری جماعت فعال بن کر ابھری ہے، ہر سال برہان الدین مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں، وہ کئی زبانوں کے ماہر بھی بتائے جاتے ہیں، اس وقت ان کی عمر ۱۰۲ سال ہے۔
فرقہ بوہری کے نظریات و عقائد
۱۔ امام طیب کی نسل میں برابر امامت کا سلسلہ جاری رہا ہے، گرچہ امام طیب غائب ہیں مگر ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ داعیوں کو ہدایات دیتے رہتے ہیں۔
۲۔ سود لینا جائز ہے۔
۳۔ دیوالی (مندر سوار) پر وہ بھی روشنی کرتے ہیں۔
۴۔ ہندی مہینوں کے اعتبار سے حساب کتاب کو ضروری سمجھتے ہیں۔
۵۔ مسجد، جماعت خانہ، قبرستان سب ان کا جدا ہے۔
۶۔ اپنے اسلاف کی اقتداء میں عموماً یہ سفید لباس پہنتے ہیں۔
۷۔ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ مولانا علی ولی اللہ وصی رسول اللہ ہے۔
۸۔ اذان میں اشھد ان محمداً رسول اللہ کے بعد اشھد ان مولانا علیا ولی اللہ اور حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل محمد و علی خیر البشرو عشرتھا علی خیر العمل کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں۔ (مذاہب اسلام:۲۹۲، محمد نجم الغنی)
فرقہ بوہری کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
(۱) جامعہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ:
بوہری فریقہ اپنے عقائدِ فاسدہ کی بناء پر دائرۂ اسلام سے خارج ہے ان کے ساتھ تعلقات رکھنا، دوستی رکھنا، ناجائز ہے۔ (فتویٰ نمبر:۱۶۲۲)
(۲) دار الافتاء و الارشاد ناظم آباد کا فتویٰ:
بوہری آغا خانیوں کا ایک فرقہ ہے، آغا خانیوں کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کسی سے مخفی نہیں، ان کا کلمہ، نماز اور عقائد غرض کہ ہر چیز کفریہ اور اسلام سے ہٹ کر ہے۔ (فتویٰ نمبر:۴۲/۶۲۹)
(۳) جامعہ بنوریہ، سائٹ ایریا، کراچی کا فتویٰ:
معروف فرقہ بوہری بھی اپنے باطل عقائد و نظریات کی بناء پر دائرۂ اسلام سے خارج اور رافضیوں کی ہی ایک شاخ ہے جو قرآن کریم میں تحریف، شراب، زنا کو حلال، خلفائے راشدینؓ کے علاوہ دیگر صحابہ کرامؓ سے متعلق معاذ اللہ کافر ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے زندیق ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے، ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ (فتویٰ نمبر:۲۳۵۶۵)
تعارف فتنۂ منکرینِ حدیث ’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فتنۂ منکرین حدیث کو سمجھنے سے پہلے چند اصولی باتیں

پہلی بات : حدیث نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور آپؐ کی تقریرات کو کہتے ہیں۔
دوسری بات :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ کو قولی حدیث، افعالِ مبارکہ کو فعلی حدیث اور کسی متبعِ شریعت (یعنی مسلمان) کے آپؐ کے سامنے کوئی کام کرنے یا اس کے کسی کام پر مطلع ہونے پر خاموشی اختیار فرمانے کو تقریری حدیث کہتے ہیں۔
فالحدیث اقوال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم و تقریراتہ و السنۃ و افعال الرسول و صفاتہ زیادۃ علی اقوالہ و تقریراتہ۔ (میزان الاعتدال:۱۔۹)
تیسری بات : جس حدیث کے راوی ہر زمانہ میں اتنی تعداد میں ہوں کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا یا اتفاقاً ان سے جھوٹ صادر ہونا محال ہو، اس کو حدیث متواتر یا خبر متواتر کہتے ہیں۔
والمتواتر فی الحدیثمن بلغ رواتہ کثرۃ بحیث یستحل تواطؤھم علی الکذب۔ (میزان الاعتدال:۱۔۹)
چوتھی بات : خبر متواتر کے قطعی ہونے کا علم ہوجانے کے بعد اس کا منکر کافر ہے۔
فصار منکر المتواتر و مخالفہ کافرا۔ (کشف االاسرار:۲۔۶۷۱) و المتواتر: یفید العلم القطعی۔ (میزان الاعتدال:۱۔۹)
پانچویں بات : جس حدیث کے راوی ہر زمانہ میں اس قدر کثیر نہ ہوں؛ البتہ کسی زمانہ میں تین سے کم بھی نہ ہوں تو اس کو خبر مشہور کہتے ہیں۔
فی الخبر المشہور و یسمیٰ المستفیض ھو ما یرویہ اکثر من اثنتین من غیر ان یبلغ حد التواتر۔ (کوثر النبیؐ:۵)
چھٹی بات : جس حدیث کے راوی کسی زمانہ میں تین سے کم ہوں اس کو خبر واحد کہتے ہیں۔
وهو كل خبر يرويه الواحد أو الاثنان فصاعدا لا عبرة للعدد فيه بعد أن يكون دون المشهور والمتواتر۔ (کشف الاسرار:۲۔۶۸۷)
ساتویں بات : خبر واحد کا منکر کافر نہیں، تاہم ضال، مضل اور فاسق و فاجر ہے۔
ولا يكفر منكر خبر الآحاد في الأصح۔ (شرح عقیدۃ سفارینیہ:۱۔۱۹)
آٹویں بات : خبر متواتر یقین کا فائدہ دیتی ہے اور خبر واحد ظن کا فائدہ دیتی ہے۔
و المتواتر یفید العلم القطعی و خبر الواحد الصحیح یفید الظن۔ (میزان الاعتدال:۱۔۹)
نویں بات : قرآن مجید میں جس ظن کی پیروی سے روکا گیا ہے وہ بے سند اور بے دلیل بات کے معنیٰ میں ہے اور خبر واحد جس ظن کا فائدہ دیتی ہے وہ جانبِ راجح اور غالبِ ظن کے معنیٰ میں ہے، لہٰذا قرآن مجید کی ایسی آیات سے خبر واحد کی حجیت کا انکار کرنا غلط ہے۔
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ (البقرۃ:۴۶) وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ۔ (ص:۲۴)
دسویں بات : خبر واحد دلائل اور حججِ شرعیہ میں سے ایک شرعی دلیل اور حجت ہے۔
يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك مع انه كان رسولا إلى الناس كافة ويجب عليه تبليغهم فلو كان خبر الواحد غير مقبول لتعذر ابلاغ الشريعة إلى الكل ضرورة لتعذر خطاب جميع الناس شفاها وكذا تعذر إرسال عدد التواتر إليهم وهو مسلك جيد ينضم إلى ما احتج به الشافعي ثم البخاري۔ (فتح الباری:۱۳۔۲۹۲)
گیارویں بات : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس لکھی ہوئی احادیث موجود تھیں، مثلاً حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت جابر، حضرت انس، حضرت عمرو بن حزام، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا، تاہم اکثر صحابہؓ احادیث کو زبانی یاد رکھتے تھے، دوسری صدی ہجری میں احادیث کو باقاعدہ کتابی شکل میں لکھا گیا، اس سے پہلے بھی احادیث لکھی ہوئی موجود تھیں۔
(صحیح بخاری:۱۔۲۸،۴۵۱۔ صحیح مسلم:۱۔۴۹۵۔ سنن نسائی:۲۔۲۵۲۔ مستدرک حاکم:۳۔۵۷۳۔ مصنف ابن ابی شیبۃ:۸۔۴۱۔ طبقات ابن سعد:۵۔۴۹۳۔ جامع بیان العلم:۱۔۷۲۔ تدریب الراوی:۲۔۲۱۶۔ تھذیب التھذیب:۸۔۳۵۳۔)

بارویں بات : احادیثِ مبارکہ ہر زمانہ میں محفوظ رہی ہیں، البتہ طریقِ حفاظت بدلتے رہے ہیں، قرنِ اول میں ضبطِ صدر کے ذریعہ محفوظ تھیں، اس کے بعد ضبطِ کتابت کے ذریعہ محفوظ ہیں۔
(فتح الباری:۱۔۱۶۸۔)

تیرویں بات : قرآن مجید کے بعد دوسری بڑی دلیل حدیثِ نبویؐ ہے، اس کے بعد اجماعِ امت کا درجہ ہے، چوتھے درجہ کی دلیل قیاسِ شرعی ہے۔
و خلاصۃ القول ان الائمۃ قاطبۃ مجمعون علی اتخاذ الحدیث الصحیح قاعدۃ اساسیۃ بعد کتاب اللہ تعالیٰ و انہ یجب العمل بہ فی القضاء و الافتاء۔ (میزان الاعتدال:۱۔۱۹)
چودویں بات : احادیثِ مبارکہ کا موضوع اور بیان بہت وسیع ہے، اس حوالہ سے احادیث کی بہت سی قسمیں بن جاتی ہیں ،احادیثِ مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ تمثیلات پر مشتمل ہے، بعض احادیث میں احکام بیان کئے گئے ہیں، بعض احادیث میں ادعیہ کو بیان کیا گیا ہے، بعض احادیث میں جنت، جہنم، حشر، نشر اور آخرت کے احوال بیان کئے گئے ہیں، بعض احادیث میں فضائل کو بیان کیا گیا ہے، بعض احادیث میں علاماتِ قیامت، آئندہ رونما ہونے واقعات اور پیش گوئیاں بیان کی گئی ہیں، بعض احادیث میں فتن کو بیان کیا گیا ہے، بعض احادیث آداب پر مشتمل ہیں، بعض احادیث میں احوالِ برزخ و قبر وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے، بعض احادیث میں حقوق کو بیان کیا گیا ہے، بعض احادیث میں حدود و قصاص اور تعزیرات کو بیان کیا گیا ہے۔ (۱۳)
خلاصہ یہ کہ احادیث میں دین کا بہت بڑا حصہ بیان کردیا گیا ہے، انکارِ حدیث سے ان تمام چیزوں کا انکار لازم آتا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
اعلم ان انواع علوم الحدیث کثیرۃ لا تعد، قال الجازمی فی کتاب العجالۃ علم الحدیث یشتمل علی انواع کثیرۃ تبلغ مائۃ کل نوع منھا علم مستقل لو اتفق الطالب فیہ عمرہ لما ادرک نھایتہ۔ (تدریب الراوی:۱۔۱۹) مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:حجۃ اللہ البالغۃ:۲۔۲۹۴۔)
پندرویں بات : سب سے پہلے معتزلہ نے بعض علمی قسم کے شبہات کی بناء پر خبر واحد کی حجتی کا انکار کیا، جبکہ خبر واحد کے حجت ہونے پر قرآن و حدیث کے بے شمار دلائل موجود ہیں، دورِ حاضر کے منکرینِ حدیث نے بے دینی اور اتباعِ حواہشات کی بناء پر حدیث کی حجیت کا انکار کیا ہے، ان میں عبداللہ چکڑالوی، حافظ اسلم جیراج پوری، نیاز فتح پوری، ڈاکٹر احمد دین، علامہ مشرقی، چوہدری غلام احمد پرویز اور تمناء عمادی پھلواری وغیرہ شامل ہیں، ان تمام کے نظریات اسلام سے متصادم ہیں اور ضلالت و گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔
کان لظھور الاعتزال فی القرن الثالث الھجری علی ید واصل بن عطاء اثر کبیر فری نشأۃ الخلاف بین ھذہ الفرق و اھل السنۃ تناول کثیراً …… حتی تجر أو اعلی الاحادیث النبویۃ بردھا اذا لم یجدوا لھا تأویلًا تستسیغہ عقولھم۔ (میزان الاعتدال:۱۔۲۱۔ انکارِ حدیت کے نتائج:۳۳)
سولویں بات : منکرینِ حدیث کبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب الاطاعت ہونے کا ہی انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’من حیث الرسول آپؐ کی اطاعت نہ صحابہؓ پر واجب تھی اور نہ ہم پر واجب ہے‘‘، اور کبھی کہتے ہیں ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صحابہ کرامؓ کے لئے حجت تھے، ہمارے لئے حجت اور دلیل نہیں ہیں‘‘، اور کبھی کہتے ہیں ’’احادیث تمام انسانوں کے لئے حجت ہیں؛ مگر احادیث محفوظ نہیں ہیں، یہ قابلِ اعتماد ذرائع سے ہم تک نہیں پہنچیں‘‘، انجام اور مآل سب کا ایک ہی ہے کہ موجودہ کتبِ حدیث ناقابلِ اعتماد اور ناقابلِ عمل ہیں۔
(انکارِ حدیت کے نتائج:۳۳۔)

سترہویں بات : منکرینِ حدیث کے پاس اپنے نظریہ کے اثبات کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہے، چند شبہات اور وساوس ہیں جن کو وہ پیش کرتے ہیں، ذیل میں ہم عام فہم انداز میں ان کے شبہات کا جواب ذکر کرتے ہیں۔
اٹھارویں بات : صحیح مسلم کی ایک روایت میں حدیث لکھنے سے ممانعت وارد ہے، جبکہ بے شمار مواقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے کا حکم فرمایا ہے، حدیث نہی میں اول تو رفع و وقت کا اختلاف ہے، دوسرے ایک ہی ورق پر قرآن پاک اور حدیث لکھنے سے نہی مراد ہے، یا نہی ان لوگوں کو تھی جو اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے، یا یہ نہی منسوخ ہے اور ناسخ بعد کی وہ احادیث ہیں جن میں لکھنے کا حکم موجود ہے۔
(فتح الباری:۱۔۲۰۸۔ شرح النووی علی صحیح مسلم:۲۔۴۱۵۔ فتح الملھم:۱۔۲۶۰۔ تدریب الراوی:۶۹۔)

انیسویں بات : قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تفسیر و بیان کا حق دیا ہے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محض سفیر سمجھنا سراسر غلط اور قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے، نیز قرآن مجید اپنی جامعیت کے باوجود محتاجِ تفسیر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم از روئے قرآن اس کے مفسّر اور شارح ہیں اور احادیثِ مبارکہ قرآن مجید کی تفسیر و شرح ہے۔
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ۔ (النحل:۴۴) لأن القرآن يكون محتملاً لأمرين فأكثر فتأتي السنة بتعيين أحدهما فیرجع الی السنۃ و یترک مقتضی الکتاب۔ (الموافقات:۴۔۸)
بیسویں بات : قرآن مجید کی بے شمار آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو لازمی اور ضروری قرار دیا گیا ہے، لہٰذا احادیث کو چھوڑ کر قرآن مجید پر عمل کرنا ناممکن ہے۔
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ۔ (اٰل عمران:۳۲) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔ (النساء:۵۹) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا۔ (الانفال:۴۶) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ۔ (محمد:۳۳) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔ (الاحزاب:۷۱)
اکیسویں بات : بعض احادیث روایت بالمعنیٰ کے طور پر منقول ہیں، مگر اس کے لئے ایسی شرائط مقرر کی گئی ہیں کہ روایت بالمعنیٰ کے طور پر مروی احادیث کی صحت میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی، نیز عقل و نقل اس پر شاہد ہیں کہ کسی بات کو محض اس وجہ سے رد نہیں جاتا کہ یہ روایت بالمعنیٰ کے طور پر مروی ہے۔
فإن لم يكن عالما عارفًا بالألفاظِ ومقاصدها، خبِيرًا بما يُحيل معانيها، بصيرًا بمقادير التفاوت بينها؛ فلا خلافَ أنه لا يجوزُ له ذلك۔ (مقدمہ ابن الصلاح:۱۰۵)
بائیسویں بات : بعض احادیث میں ظاہری تعارض نظر آتا ہے، مگر اس کو ترجیح، تطبیق، تنسیخ اور توقف وغیرہ ذریعہ دور کردیا گیا ہے، لہٰذا یہ تعارض حجیتِ حدیث میں مانع نہیں، ورنہ قرآن مجید کی بعض آیات میں بھی ظاہری تعارض پایا جاتا ہے، کیا اس سے قرآن مجید کے حجت ہونے کا بھی انکار کردیا جائے گا؟
أحدهما أن يمكن الجمع بين الحديثين ولا يتعذر إبداء وجه ينفي تنافيهما فيتعين حينئذ المصير إلى ذلك والقول بهما معا۔ (مقدمہ ابن الصلاح:۳۹۰) القسم الثاني : أن يتضادا بحيث لا يمكن الجمع بينهما وذلك على ضربين: أحدهما : أن يظهر كون أحدهما ناسخا و الآخر منسوخا فيعمل بالناسخ ويترك المنسوخ، والثاني: أن لا تقوم دلالة على أن الناسخ أيهما والمنسوخ أيهما : فيفزع حينئذ إلى الترجيح ويعمل بالأرجح منهما والأثبت كالترجيح بكثرة الرواة أوبصفاتهم في خمسين وجها من وجوه الترجيحات وأكثر ولتفصيلها موضع غير ذا والله سبحانه أعلم ۔ (مقدمہ ابن الصلاح:۳۹۱) وإذا تعارض الحديثان ففي كتب الشافعية يعمل بالتطبيق ثم بالترجيح ثم بالنسخ ثم بالتساقط ، وفي كتبنا يؤخذ أولاً بالنسخ ثم بالترجيح ثم بالتطبيق ثم بالتساقط۔ (العرف الشذی:۴۳)
تیئیسویں بات : احادیثِ مبارکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لئے بھی حجت تھیں اور تاقیامت مسلمانوں کے لئے حجت ہیں، لہٰذا یہ سمجھنا کہ احادیث صرف صحابہ کرامؓ کے لئے حجت تھیں ہمارے لئے نہیں، بدیہی البطلان ہے، اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت صرف عہدِ صحابہؓ تک کے لئےتھی، بعد کے لوگوں کے لئے نہیں تھی۔
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا۔ (الاعراف:۱۵۸) وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا۔ (سبأ:۲۸) تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا۔ (الفرقان:۱) أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ حَدَّثَهُ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ۔ (صحیح مسلم:۲۔۱۴۳) وفيه أيضا بشرى ببقاء الإسلام وأهله إلى يوم القيامة لأن من لازم بقاء الجهاد بقاء المجاهدين وهم المسلمون۔ (فتح الباری:۲۔۴۲)
چوبیسویں بات : احادیثِ مبارکہ انہی معتبر ذرائع اور واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں جن واسطوں سے قرآن مجید پہنچا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ احادیث ہم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچیں اور یہ ہمارے لئے حجت نہیں، غلط ہے، اور اس طرح کہنے سے قرآن مجید سے بھی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
(صحیح مسلم:۲۔۱۴۳۔ فتح الباری:۲۔۴۲۔)

پچیسویں بات : آیتِ قرآنی إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔ (الحجر:۹) میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور قرآن مجید الفاظ و معانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے اور معانئ قرآن احادیثِ مبارکہ ہیں، لہٰذا قرآن مجید اور حدیثِ مبارکہ دونوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور دونوں محفوظ ہیں، اس آیت کی بناء پر یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف الفاظِ قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، حدیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا، لہٰذا صرف قرآن محفوظ ہے اور حدیث محفوظ نہیں غلط ہے۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّهُ قَالَ لِرَجُلٍ أحمق، أتجد الظهر في الكتاب اللَّهِ أَرْبَعًا لَا يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ! ثُمَّ عدد عليه الصلاة الزكاة وَنَحْوَ هَذَا، ثُمَّ قَالَ: أَتَجِدُ هَذَا فِي كِتَابِ اللَّهِ مُفَسَّرًا! إِنَّ كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى أَبْهَمَ هَذَا، وَإِنَّ السُّنَّةَ تُفَسِّرُ هَذَا۔ (تفسیر القرطبی، جامع بیان العلم:۲۔۳۶۵)
چھبیسویں بات : شرم و حیاء کے مسائل بھی دین اور شریعت کا حصہ ہیں، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں اس قسم کے مسائل بیان کئے گئے ہیں، ان مسائل کی بناء پر حدیث کی حجیت کا انکار کرنا اور ایسی احادیث کو من گھڑت کہنا غلط ہے، یہ تو شریعت کی جامعیت کی دلیل ہے، کیا اس بناء پر ایسی آیات کا بھی انکار کردیا جائے گا؟
ستائیسویں بات : صحیح احادیث کی تعداد پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) ہے، تعددِ طرق کی بناء پر یہ تعداد سات لاکھ (۷۰۰۰۰۰) سے بھی متجاوز ہے، لہٰذا اگر کسی محدث کے بارے میں یہ کہا جائے کہ انہیں اتنی لاکھ احادیث یاد تھیں یا انہوں نے اتنی لاکھ مثلاً ساتھ، چھ یا تین لاکھ احادیث میں انتخاب کرکے فلاں کتاب لکھی ہے تو یہ تعداد تعددِ طرف و اسناد کی بناء پر بیان کی جاتی ہے، متنِ حدیث کے حوالہ سے بیان نہیں کی جاتی۔
قال العراقي في هذا الكلام نظر لقول البخاري أحفظ مائة ألف حديث صحيح ومائتي ألف حديث غير صحيح قال ولعل البخاري أراد بالأحاديث المكررة الأسانيد والموقوفات فربما عد الحديث الواحد المروي بإسنادين حديثين ….. قال الإمام أحمد صح سبعمائة ألف وكسر قال جمعت في المسند أحاديث انتخبتها من أكثر من سبعمائة ألف وخمسين ألفا۔ (تدریب الراوی:۱۔۴۷) قال بن الجوزی: ان المراد بھذا العدد الطرق لا المتون۔ (شوق حدیث:۳۹)
جس سے آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ فتنۂ انکارِ حدیث کیا ہے۔
(مزید تفصیلات کےلئے یہاں کلک کریں )
فرقہ منکرین حدیث کے بانی مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے حالات
حدیث کا انکار اگرچہ اس سے پہلے سر سیّد احمد خان، مولوی چراغ علی نے بھی کیا، مگرہ وہ کھل کر سامنے نہیں آئے، یہ عبد اللہ چکڑالوی ہی ہے جس نے سب سے پہلے کھلم کھلا حدیث کا انکار کیا۔
نام: اس کا نام ابتداءًا قاضی غلام نبی تھا اور یہ چکڑالہ ضلع میانوالی کا رہنے والا تھا، مگر نبی اور حدیث کی نفرت کی وجہ سے اس نے اپنا نام غلام نبی سے بدل کر عبد اللہ رکھ لیا۔
تعلیم: اس نے تعلیم ڈپٹی نذیر احمد سے حاصل کی، کیونکہ ڈپٹی نذیر احمد بھی ترک تقلید کی طرف مائل تھے، تو یہ اثر عبد اللہ کے اندر بھی آیا اور پھر یہی اثر بڑھتے بڑھتے انکارِ حدیث تک پہنچ گیا۔
عبد اللہ چکڑالوی کا انکارِ حدیث
ابتداء میں یہ خود اپنی مسجد میں بخاری شریف کا درس دیتے رہے مگر پھر آہستہ آہستہ حدیث کا بالکل انکار کرنا شروع کردیا، سید قاسم محمود صاحب اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں تحریر کرتے ہیں:
’’ایک عرصہ تک بخاری شریف کا اس نے درس جاری رکھا، مگر طبعی اضطراب نے بخاری اور قرآن کا توازن شروع کردیا، بعض احادیث کو خلافِ آیات اللہ قرار دے کر اعلان کردیا کہ جب قرآن ایک مکمل ہدایت ہے تو حدیث کی ضرورت ہی کیا ہے؟ (یہ سن کر) چینیاں والی مسجد کے مقتدی کچھ عرصہ تک تو برداشت کرتے رہے، پھر ایک دن مسجد سے نکال دیا‘‘۔ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)
آگے سید محمود قاسم لکھتے ہیں: ’’جب عبد اللہ چکڑالوی کو مسجد سے نکال دیا گیا تو ایک متشدد مقتدی محمد غبش عرف چٹو پھدالی ان کو سییانوالی بازار اپنے مکان میں گیا جہاں احاطہ میں ایک مسجد بناکر اہل قرآن کے مسائل کی تشہیر شروع کردی‘‘۔(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)
ان کے چچازاد بھائی قاضی قمر الدین جو حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ اور احمد حسن کانپوری کے شاگرد تھے انہوں نے کھل کر مقابلہ کیا، نیز عبد اللہ چکڑالوی کے لڑکے قاضی ابراہیم نے بھی اپنے والد صاحب کا مسلک ماننے سے انکار کردیا، دوسرے صاحبزادے قاضی عیسیٰ اگرچہ کچھ دنوں تک والد کے ساتھ رہے، مگر پھر ان کو بھی توبہ کی توفیق ہوئی۔
قرآن کی تفسیر
عبد اللہ چکڑالوی نے قرآن نے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی جس کا نام ترجمۃ القرآن بآیات القرآن ہے، اس تفسیر میں کھل کر جگہ جگہ پر اس نے انکارِ حدیث کیا، مثلاً ایک جگہ پر لکھتے ہیں:
’’کسی جگہ سے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی شئی آپﷺ پر نازل ہوئی تھی، اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سوا اور چیز سے دین اسلام میں حکم کرے گا تو وہ مطابقِ آیاتِ مذکورہ بالا کافر، ظالم اور فاسق ہوجائے گا‘‘۔ (ترجمۃ القرآن:۴۲۔ مطبوعہ ۱۳۲۰ھ، لاہور)
اسی طرح اس نے ایک دوسری کتاب ’’برھان القرآن علی صلوٰۃ القرآن‘‘ لکھی جو چار سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں بھی اس نے خوب حدیث کا انکار کیا ہے۔
موت کا عبرتناک واقعہ
ایک مرتبہ لوگوں نے موقع دیکھ کر اس کو سنگسار کردیا کہ اتنا پتھروں سے مارا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ مرنے کے قریب ہے تو نیم مردہ حالت میں اس کو ملتان سے اس کے آبائی گاؤں چکڑالہ لے گئے، پھر چند ہی دنوں کے بعد دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)
غلام احمد پرویز کے حالات
موصوف کا پورا نام غلام احمد پرویز اور والد کا نام چودھری فضل دین تھا، متحدہ ہندوستان کے معروف شہر بٹالہ (ضلع گورداس پور) کے ایک سنی حنفی گھر میں ۹/جنوری ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے، ان کے دادا حکیم مولوی رحیم بخش اپنے وقت کے مانے ہوئے صوفی بزرگ تھے اور اور چشتیہ نظامیہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیم: ابتدائی تعلیم اور مذہبی تعلیم پرویز نے اپنے گھر پر ہی والد اور دادا کی زیر نگرانی حاصل کی، ایک انگریزی اسکول Alady of England سے ۱۹۲۱ء میں میٹرک پاس کیا، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ۱۹۲۴ء میں B.A. کی ڈگری حاصل کی، ۱۹۲۷ء میں گورنمنٹ آف انڈیا کے مرکزی سکریٹریٹ میں ملازمت اختیار کیا اور بہت جلد ترقی پاکر Heme Department کے Stablishment Division میں ایک عہدہ پر کام کیا، کچھ عرصہ بعد غلام احمد پرویز کی ملاقات حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ بذات خود منکرین حدیث میں شمار کئے جاتے تھے) سے ہوئی اور صحبت کیونکہ عادات کو منتقل ہونے میں معاون ہوتی ہے، لہٰذا جو سوچ اسلم جیراجپوری کی تھی اس سوچ نے پرویز کی تنکیرِ حدیث کی سوچ کو مزید جِلا بخشی اور اسلم جیراجپوری کا ایک جانشین تیار ہوتا چلا گیا، جوکہ بعد میں فتنہ انکارِ حدیث کے نشر و اشاعت کا بڑا ذریعہ بنا، پرویز نے ۱۹۳۸ء میں ’’طلوعِ اسلام‘‘ رسالہ جاری کیا، اس کا پہلا شمارہ اپریل ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا اور یہی در اصل وہ مرکز بنا جہاں سے لوگوں کے ذہنوں کو اسلام، دین اور علماء سے متنفر کرنے کا آغاز ہوا اور اسلام کے لبادے میں قرآنی فکر اور قرآنی بصیرت جیسے خوبصورت الفاظ کو استعمال کر کے لوگوں شرعی حدود و قیود میں آزاد زندگی کے سبز باغ دکھائے گئے۔
وفات: غلام احمد پرویز کا انتقال ۲۴/ فروری ۱۹۸۵ء میں ہوا۔
فرقہ پرویزیت (منکرینِ حدیث) کے عقائد و نظریات
۱۔ حدیث عجمی سازش ہے۔ (مقام حدیث:۱/۴۲۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)
۲۔ آج جو اسلام دنیا میں رائج ہے اس کا قرآنی دین سےکوئی واسطہ نہیں ہے۔ (مقام حدیث:۱/۳۹۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)
۳۔ قرآن مجید میں جہاں پر اللہ اور رسول کا نام آیا ہے اس سے مراد مرکز ملت ہے۔ (اسلامی نظام:۸۶۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی۔ معارف القرآن:۴/۶۲۶)
۴۔ اور جہاں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے۔ (معارف القرآن:۴/۶۲۶)
۵۔ قرآن میں أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (نساء:۵۹) میں اولی الامر سے مراد افسرانِ ماتحت ہیں۔ (اسلامی نظام:۱۱۰)
۶۔ رسول کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ اللہ کا قانون انسانوں تک پہنچادیں۔ (سلیم کے نام (پرویز):۲/۳۴، ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)
۷۔ آپﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کی اطاعت نہیں ہوگی، اطاعت زندوں کی ہوتی ہے۔ (سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
۸۔ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب انسانوں کو اپنا معاملہ خود ہی حل کرنا ہوگا۔ (سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
۹۔ مرکز ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات، نماز، روزہ، معاملات وغیرہ میں جس چیز کو دل چاہے بدل دے۔ (قرآنی فیصلے:۳۰۱۔ ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)
۱۰۔ اللہ تعالیٰ کا (معاذ اللہ) کوئی خارج میں وجود نہیں ہے، بلکہ اللہ ان صفات کا نام ہے جو انسان اپنے اندر تصور کرتا ہے۔ (معارف القرآن:۴/۴۲۰)
۱۱۔ آخرت سے مراد مستقبل ہے۔ (سلیم کے نام ۲۱واں خط:۲/۱۲۴)
۱۲۔ آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں، یہ تو نام ہے نوعِ انسانی کا۔ (لغات القرآن:۱/۲۱۴)
۱۳۔ آپﷺ کا قرآن مجید کے سوا کوئی معجزہ نہیں ہے۔ (سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)
۱۴۔ نماز مجوسیوں سے لی ہوئی ہے، قرآن مجید نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ قیامِ صلوٰۃ یعنی نماز کے نظام کو قائم کرنے کا حکم ہے، مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کو ان بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے جن سے اللہ کی ربوبیت کی عمارت قائم ہوجائے۔ (قرآن فیصلے:۲۶۔ معارف القرآن:۴/۳۲۸۔ نظامِ ربوبیت:۸۷)
۱۵۔ آپﷺ کے زمانہ میں نماز دو وقت میں تھی(فجر و عشاء)۔ (لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)
۱۶۔ زکوٰۃ اس ٹیکس کا نام ہے جو اسلامی حکومت لیتی ہے۔ (قرآنی فیصلے:۳۷۔ سلیم کے نام ۵واں خط:۱/۷۷)
۱۷۔ آج کل زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ ٹیکس ادا کردیا جاتا ہے، تو اب زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ (نظامِ ربوبیت:۷۸)
۱۸۔ حج نام ہے عالمِ اسلامی کی عالمی کانفرنس کا۔ (لغات القرآن:۲/۴۷۴)
۱۹۔ قربانی تو صرف عالمی کانفرنس میں شرکاء کے کھلانے کے لئے تھی، باقی قربانی کا حکم کہیں نہیں۔ (رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے:۵۵/۱۰۴)
۲۰۔ قرآن کی روح سے سارے مسلمان کافر ہوتے، موجودہ زمانہ کے مسلمان برہمنو سماجی مسلمان ہیں۔ (سلیم کے نام ۳۵واں خطا:۳/۱۹۷)
۲۱۔ صرف چار چیزیں حرام ہیں: (۱)بہتا ہوا خون۔ (۲)خنزیر کا خون۔ (۳)غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں۔ (۴)مردار۔ (حلال و حرام کی تحقیق)
۲۲۔ جنت اور جہنم کی بھی کوئی حقیقت نہیں، جو صرف انسانی ذات کی کیفیات کے یہ نام ہیں۔ (لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام لاہور)
پرویزیت(منکرینِ حدیث) کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمانے پر مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ نے پرویزیت کے خلاف ایک فتویٰ لکھا ہے جس میں ان کے عقائد کو بھی واضح کر کے قرآن و حدیث اور کتب عقائد سے ایک ایک عقیدہ کا جواب دیا ہے اور پھر اس فتویٰ کی تمام عالم اسلام کے ہر ملک کے تقریباً ۱۰۵۰/مشاہیر علماء نے تصدیق کی کسی نے بھی ان کے کفر سے انکار نہیں کیا، متفقہ فیصلہ کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس میں عالم اسلام کے تمام ہی مسلک والوں نے فرقہ پرویزیت کو کافر کہا ہے۔
(ادیانِ باطلہ اور صراط مستقیم:۴۰۱)