شیعہ اور اہل ہنود کے ساتھ کھانا پینا؟

شیعہ اور اہل ہنود کے ساتھ کھانا پینا؟
سوال(۸۲۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہم لوگ زیادہ تر شیعہ اور اہلِ ہنود کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں، جس کی وجہ سے کھانا پینا بھی ہوتا ہے، آپ کی اپنی رائے کیا ہے؟ مطلع فرمائیں؛ تاکہ ہم لوگ اِسی طرح رہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر یہ ہے کہ کفار کے یہاں کھانے سے احتراز کیا جائے؛ لیکن اگر ضرورت پڑجائے اور ناپاکی اور حرام کی ملاوٹ کا علم نہ ہو تو کافر کے ساتھ کھانے کی بھی گنجائش ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۱۷۲)
شیعہ کے یہاں کھانا بھی درست ہے، اِلا یہ کہ اِس بات کا علم ہوجائے کہ اُس نے نجاست ملائی ہے۔
عن أبي ثعلبۃ الخشني قال: سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن قدور المجوس، قال: أنقوہا غسلاً واطبخوا فیہا۔ (جامع الترمذي، کتاب أبواب السیر / باب ما جاء في الانتفاع بآنیۃ المشرکین ۱؍۲۸۴ کراچی)
قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: ویکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل، ومع ہٰذا لو أکل أو شرب فیہا قبل الغسل جاز، ولا یکون آکلاً ولا شاربًا حرامًا۔ وہٰذا إذا لم یعلم بنجاسۃ الأواني، فأما إذا علم فإنہ لا یجوز أن یشرب ویأکل منہا قبل الغسل، ولو شرب أو أکل کان شاربًا وآکلاً حرامًا۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الرابع عشر في أہل الذمۃ ۵؍۳۴۷ زکریا)
ولا یأکلون من أطعمۃ الکفار ثلاثۃ أشیاء: اللحم، والشحم، والمرق۔ ولا یطبخون في قدورہم حتی یغسلوہا۔ (النتف في الفتاویٰ، کتاب الجہاد / باب ما لا یؤکل من أطعمۃ الکفار ۴۳۵ کراچی)
والأکل والشرب في أواني المشرکین مکروہ، ولا بأس بطعام المجوس إلا ذبیحتہم، وفي الأکل معہم۔ وعن الحاکم عبد الرحمٰن: لو ابتلی بہ المسلم مرۃً أو مرتین، لا بأس بہ، أما الدوام علیہ فمکروہ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الکراہیۃ / الفصل الثالث فیما یتعلق بالمعاصي ۴؍۳۴۶ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۱۵؍۶؍۱۴۱۵ھ
مرغوب الرحمٰن عفی عنہ