مرد عورت کی قبر کی گہرائی میں کیا فرق ہے؟

سوال: السلام علیکم ورحمت اللہ
حضرت مرد عورت کی قبر کی گہرائی میں کیا فرق ہے، بتادیں.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
صندوقی قبر کے اوپر والے حصہ کی کم سے کم گہرائی نصف مرد اور زیادہ سے زیادہ پوری قامت ہے۔ نصف قامت سے زیادہ گہرا کرنا مستحب وبہتر ہے تاکہ لاش کا تعفن باہر نہ جائے اور مردہ، درندوں اور جانوروں سے محفوظ رہے۔ مرد و عورت کی گہرائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ گہرائی کو پسند فرمایا ہے۔ مردہ جس حصہ میں رکھا جائے اس کی گہرائی بقدر حاجت ہو یعنی اتنی ہو کہ اندرونی حصہ  کی چھت مردہ سے  چھو نہ سکے۔ قبر کی کشادگی بھی بقدر حاجت وآسانی رکھی جائے۔
عن الحسن قال: أوصی عمر أن یجعل عمق قبرہ قامۃ وبسطۃ ۔ (المصنف لابن أبي شیبہ ، الجنائز، ماقالوا إعماق القبر مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۷/۳۲۴، رقم: ۱۱۷۸۴)
یحفر القبر نصف قامۃ أو إلیٰ الصدر ولمن یزد کان حسناً وفی الحجۃ: روی الحسن بن زیاد عن الإمام أنہ قال طول القبر علی قدر طول الإنسان وعرضہ قدر نصف قامۃ … ثم یوضع المیت بینہما، ویسقف علیہ باللبن أو الخشب ولا یمس السقف المیت۔ (طحطاوی علی المراقی، کتاب الصلاۃ، باب أحکام الجنائز، فصل فی حملہا ودفنہا، دارالکتاب دیوبند/۶۰۷، شامی، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب فی دفن المیت زکریا ۳/۱۳۹، کراچی ۲/۲۳۴، مجمع الأنہر، کتاب الصلوٰۃ ، باب صلاۃ الجنائز، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۲۷۵،
والمقصود منہ المبالٰغۃ فی منع الرائحۃ وبنش السباع ۔شامی ۔
ردالمحتار باب صلوٰۃ الجنائز ج ۱ ص ۸۳۵۔ط۔س۔ ج۲ص۲۴۴۔
وفی التاتارخانیۃ (۱۷۲/۲): وفی بعض النوادر عن محمد رحمہ اللہ انہ قال ینبغی ان یکون مقدار العمق الی صدر رجل وسط القامۃ قال وکلما ازداد فھو أفضل۔
وفی الشامیۃ (۲۳۴/۲): قولہ نصف قامۃ او الیٰ حد الصدر، وان زاد الی مقدار قامۃ فھو أحسن کمافی الذخیرۃ۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٢٣\٥\١٤٣٩هجري