ڈارک ویب؛ انٹرنیٹ کا مکروہ چہرہ


ڈارک ویب؛ انٹرنیٹ کا مکروہ چہرہ
ایس اے ساگر
اپنے سیل فون، لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ میں جو ورلڈ وائیڈ ویب کے ذریعہ آپ انٹرنیٹ کو دن رات استعمال کرتے ہیں، اس کے متعلق کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ یہ کیا ہے؟ اور کتنے حصوں پر مشتمل ہوتا ہے…. اس کے بارے میں آپ کو کتنی معلومات ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنا انٹرنیٹ آپ روز استمعال کرتے ہیں وہ کل انٹرنیٹ کا صرف چار فیصد ہے؟ اور جسے آپ استعمال کررہے ہیں وہ محض ’سرفیس فیب‘ Surface Web یا’ لائٹ ویب Light Web ‘ سے موسوم ہے۔ ’سرفیس ویب‘ میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل ،فیس بک، ویکیپیڈیا اور یوٹیوب وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتی ہیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔جن کے لنکس کو گوگل کے اندر ایڈ کیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم سرچ کرتے ہیں تو ا ن کے تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔
لیکن اس کے پس پشت ’ڈارک ویب‘ Dark Web یا ’ڈیپ ویب‘ Deep Web بھی کارفرما ہوتی ہے جو صارف کے زیر استعمال ’سرفیس فیب‘ سے پانچ سو گنا بڑا اور وسیع ہے، اس میں ’سرفیس فیب‘ استعمال کرنے والے ہر شخض، ہر ادارے اور ہر حکومت کی ہر قسم کی معلومات مجتمع ہوتی ہیں….! لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی!
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین ،سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتی ہیں۔ یہاں پر کاروبار ہوتا ہے ڈرگز کا، ویپنز کا، کنٹریکٹ کلنگز کا، چائیلڈز پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو فائٹس کا، ملکوں کے راز چرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضا بیچنے اور خریدنے کا، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا۔ یعنی ہرقسم کا غیر قانونی کام یہاں پر ہوتا ہے۔ ان کو پکڑنا بہت ہی مشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔ کیونکہ ’ڈیپ ویب‘ کا ایک حصہ ہے جو تمام انٹرنیٹ کا تھل ہے، وہ ’ڈارک ویب‘ یا ’بلیک نیٹ‘ کہلاتا ہے….! کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ہے لیکن یہاں دنیا کا ہر غیر قانونی و غیر انسانی کام ہوتاہے….! منشیات، اسلحہ اوربردہ فروشی سے لے کر ایک انسان کو ذبح کر کے گوشت کھانے تک ’ڈیپ ویب‘ عام براو ¿ذر کے ذریعہ باآسابی کھل سکتا ہے۔ مگر اسے کوئی سرچ نہیں کر سکتا۔ اس کے کھلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جس نے ’ڈیپ ویب‘ کی وہ سائٹ بنائی ہے اس کا لنک جو چند الٹے سیدھے کوڈ نما الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے، اسے کسی بھی براﺅذر میں میں ڈال دیا کر انٹر کردیا جائے تو سائٹ کھل جاتی ہے۔ جب کہ ’ڈارک ویب‘ کسی بھی عام براؤزر سے کبھی بھی نہیں کھلتا ماسوائے ٹی او آر، ٹور Tor پروجیکٹ نامی براؤزر کے جس کی سائٹس کی ایکسٹینشنز onion ’اونین‘ ہوتی ہیں جو صرف’ٹور‘ براؤزر پر ہی کھلتی ہے۔ اس کا بھی سائٹ لنک عجیب الٹے سیدھے کوڈ نما نمبروں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے سائٹ کوڈ کا علم ہو، تب ہی کھلتا ہے۔ مگر ’ٹور‘ کے کچھ اپنے سرچ انجن ہیں جن پر مطلوبہ سائٹ یا مطلوبہ ویڈیوز یا مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کرکے باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اسی میں مزید ایک قدم آگے ’ریڈ رومس‘ Red Rooms  ہے۔ جہاں بند کمروں میں دنیا کا بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔ جیسے زندہ انسانوں کی کھال کھینچنا، آنکھیں نکالنا، ناک اور کان میں، آلہ تناسل وغیرہ کاٹنا، اس میں سلاخیں گھسانا وغیرہ وغیرہ۔
اس سب کے بعد اس سب کا باپ ’میریا نس ویب ‘Mariana’s Web ہے۔ جسے نہ کوئی جان سکا، نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے؛ اسرائیل، امریکہ وغیرہ نیز اس کے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈاٹا بیس موجود ہے۔
ڈارک ورلڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو ‘ریڈ رومز’ کہا جاتا ہے۔ وہاں تک عام صارف کی رسائی تقریبا ناممکن ہوتی ہے۔۔ ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں….وہاں تک رسائی بغیر پیسوں کے نہیں ہوتی….ان سائٹس پر جانور یا انسانوں پر لائیو تشدد پیش کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں….آپ’بٹ کوائن‘ Bitcoin کی شکل میں پیسے ادا کرکے فرمائش کرسکتے ہیں کہ اس جانور یا انسان کا فلاں عضو نکال دو ….حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہو….تو آپ کو محض اس اعتراف کے نتیجہ میں جیل کی ہوا کھانی پڑسکتی ہے …
علاوہ ازیں سائبر کی دنیا میں ایک ایسی ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یوروپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں….عام شخص کا قتل بیس ہزار یورو….صحافی کا قتل ستر ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں ایک ویب سائٹس ایسی بھی ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتی ہیں۔
٭پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ دو ہزار چودہ میں ٹریس کرکے بین ban کردی گئی۔ وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر فروخت کرتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام، گھر کے پتے اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی….اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی ایف بی آئی نے دو ہزار چودہ میں اس کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور اس کے’ سرور‘ کو’ ٹریس‘ کر کے اسے بند کر دیا، یہ الگ بات ہے کہ اس کے مالکان آج تک فرار ہیں۔ چونکہ یہ ویب سائٹ اب آپریٹ نہیں ہوتی،ا س لئے نام ظاہر کردیا گیا ہے۔
٭ ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسے گیمز بھی پائے جاتے ہیں جو عام دنیا میں شاید پابند ’بین‘ Ban کر دئے جائیں۔ایسے ہی ایک خوفناک گیم کا نام ’سیڈ ستان‘یاشیطان ہے۔اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔
٭انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ’ڈارک ویب ورلڈ‘ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کوفروخت کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں، وہ دو ہزار پندرہ میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔ اسی ورلڈ میں انھیں مذکورہ گروپ کا سامنا کرنا پڑا، جس کا نام ’بلیک ڈیتھ‘ تھا اور انھوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی پیش کش کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرزطلب کررہا تھا۔
٭ کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جس کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ جیساگزشتہ دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے:
”کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں….اسے خود کاٹنے کی اجازت ہوگی….“
٭جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس یعنی جہاز کا ایک آلہ تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل پر مشتمل ہوتا ہے جوبرباد نہیں ہوتا….اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہو اتھا۔ ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں۔ وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے….
٭ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے تیار کئے گئے ہیں۔
لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے….آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔
یہ دنیا ایسے لوگوں اور گروہوں کا مسکن ہوتی ہیں جو خود کو عام دنیا یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
بٹ کوائن کرنسی کی سائنس: کیا اس میں انویسٹمنٹ کرنی چاہئے؟
ایک تحقیق کے مطابق گوگل سرچ انجن کے ڈیٹا بیس میں صرف 16 فیصد ویب صفحات کا اندراج موجود ہے جبکہ باقی ویب سائٹس اب بھی گوگل کی پہنچ سے دور ہیں۔ اس لیے انہیں کسی کے لیے بھی تلاش کافی مشکل ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ڈارک ویب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو مشکل ضرور بنا دیتی ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب سیکیورٹی ایجنسیاں ایسی ویب سائٹس تک پہنچنے اور ان کو چلانے یا استعمال کرنے والوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال ڈارک ویب پر منشیات کا کاروبار کرنے والی بڑی مارکیٹ ’ سلک روڈ‘ کو چلانے والے شخص راس البرکٹ کی گرفتاری میں کامیابی ہے۔
اسی طرح امریکی ادارے ایف بی آئی نے حال ہی میں ڈاک ویب پر بچوں سے جنسی تشدد کی ویب سائٹ چلانے والے دو افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔
مختصر یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا، ا ±ن کے ساتھ جنسی تشدد اور ا ±ن کوقتل کر دینا، ان کی لائیو ویڈیو پیش کرنا دراصل ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائٹ کے ممبر کے ذریعہ اس سے باقاعدہ ’لطف اندوز‘ ہوتے ہیں۔ یہ سب وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔ پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہیں۔ بظاہر مہذب دنیا دراصل ایک ایسی شیطانی دنیاکا حصہ ہے جس کی خباثت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آچکی ہے۔ یہاں کچھ ب رے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں!

The dark web is the World Wide Web content that exists on darknets, overlay networks that use the Internet but require specific software, configurations or authorization to access. The dark web forms a small part of the deep web, the part of the Web not indexed by web search engines, although sometimes the term deep web is mistakenly used to refer specifically to the dark web.The darknets which constitute the dark web include small, friend-to-friend peer-to-peer networks, as well as large, popular networks like Tor, Freenet, and I2P, operated by public organizations and individuals. Users of the dark web refer to the regular web as Clearnet due to its unencrypted nature.[8] The Tor dark web may be referred to as onionland,[9] a reference to the network’s top-level domain suffix .onion and the traffic anonymization technique of onion routing.