خاتون میت کا پوسٹ مارٹم کیوں کروائیں لیڈی ڈاکٹر سے ؟


How postmortems allowed in Islam for Muslim lady? خاتون میت کا پوسٹ مارٹم کیوں کروائیں لیڈی ڈاکٹر سے ؟
ایس اے ساگر

بے پردگی اور حیا سے عاری ماحول میں جب سعودی مفتی اعظم نے سعودی عرب کی وزارت صحت سے کہا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ مملکت میں مرد ڈاکٹر مردہ خواتین کا پوسٹ مارٹم نہ کریں تو امت مسلمہ چونکنے پر مجبور ہوگئی۔اپنی خواتین کے علاج معالجہ میںلیڈی ڈاکٹروں کو تلاش کرنے والوں اس وقت بڑی ڈھارس بندھی جب انھیں پتہ چلا کہ سعودی اخبار ’عکاظ‘ www.okaz.com.sa میں حکام نے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ کے خط پر یہ حکم جاری کیا ہے کہ خواتین کی لاشوں کا بعد از مرگ معائنہ محض خواتین ڈاکٹر ہی کریں۔مفتی شیخ عبدالعزیز نے اپنے خط میں کہا کہ مسلمان کے جسم کی حرمت یکساں رہتی ہے‘چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ‘ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کسی خاتون کی میت کو خواتین ہی غسل دیتی ہیں اسی طرح کسی خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی محض خواتین کو ہی کرنا چاہئے۔ سعودی وزارت صحت کے نائب سیکریٹری ڈاکٹر عبدالعزیز محمد الحمیدی کا کہنا ہے کہ مفتی اعظم کا خط موصول ہونے کے بعد مملکت کے تمام علاقوں میں وزارتِ صحت کے دفاتر کو اس سلسلہ میں احکامات جاری کردئے گئے ہیں جبکہ اسپتالوں میں تعینات عملہ پر زور دیا گیا ہے کہ ہر ممکن حد تک کوشش کی جائے کہ خواتین کا پوسٹ مارٹم لیڈی ڈاکٹر ہی کریں۔ حرمین شریفین کی بدولت عالم اسلام میں سعودی عرب ہدایت کا مرکز شمارکی ہے، غنیمت یہ ہے کہ یہاں آج بھی خواتین کو مرد رشتہ دار کی اجازت کے بغیر ملازمت کرنے اور میڈیکل آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی متعدد نکات کی جانب متوجہ کیا ہے۔
… کسی عورت کے ولی اس کے بیٹے یا بھائی ہیں، بہنوئی ولی نہیں، نہ وارث، اس لئے اس کو ولی مقرّر کرنا غلط ہے، البتہ اگر وہ نیک دین دار اور شرعی مسائل سے واقف ہے تو یہ وصیت کرنا کہ وہ کفن دفن کی نگرانی کرے، یہ درست ہے۔
….موت کے بعد بیوی کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، ہاتھ نہیں لگاسکتا۔
بیوی کے انتقال سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے، اس لئے شوہر کا بیوی کے مرنے کے بعد اسے ہاتھ لگانا اور غسل دینا جائز نہیں، اور شوہر کے مرنے پر نکاح کے آثار عدّت تک باقی رہتے ہیں، اس لئے بیوی کا شوہر کے مرنے کے بعد اس کو ہاتھ لگانا اور غسل دینا صحیح ہے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کی زوجہ محترمہ کے غسل دینے پر تو کوئی اِشکال نہیں، البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ محلِ اِشکال ہے، لیکن اوّل تو اس سلسلہ میں 3 روایتیں مروی ہیں، ایک یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل دیا تھا، دوم یہ کہ اسماء بن عمیس اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل دیا تھا، سوم یہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتقال سے پہلے غسل فرمایا اور نئے کپڑے پہنے اور فرمایا کہ میں رخصت ہو رہی ہوں، میں نے غسل بھی کرلیا ہے، اور کفن بھی پہن لیا ہے، مرنے کے بعد میرے کپڑے نہ ہٹائے جائیں۔ یہ کہہ کر قبلہ رو لیٹ گئیں اور روح پرواز کرگئی، ان کی وصیت کے مطابق انہیں غسل نہیں دیا گیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل دینے کی روایت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا و علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصیت تھی، اس سے عام حکم ثابت نہیں ہوتا۔
… بیوی کے انتقال کے بعد شوہر اس کا منہ دیکھ سکتا ہے، ہاتھ نہیں لگاسکتا، جنازہ کو کندھا دے سکتا ہے، نمازجنازہ میں بھی شریک ہوسکتا ہے، عورت کو لحد میں اتارنے کیلئے اس کے محرَم رشتہ دار ہونے چاہئیں، اگر وہ نہ ہوں تو دوسرے لوگ اتاریں، ان میں شوہر بھی شریک ہوسکتا ہے۔
….بیوی کے مرتے ہی دنیوی احکام کے اعتبار سے میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے، اور شوہر کی حیثیت ایک لحاظ سے اجنبی کی ہوجاتی ہے۔
… میّت جس کمرے میں ہو اس کی بجائے دوسرے کمرہ میں تلاوت کی جائے، البتہ غسل کے بعد میّت کے پاس پڑھنے میں بھی مضائقہ نہیں۔
… مردہ جسم کو غسل دیتے وقت لوگ پانی میں بیری کے پتے ڈالنا سنت سے ثابت ہے۔
… غیرمردوں کو مردہ عورت کا منہ دکھانا جائز نہیں، اور گناہ منہ دکھانے والوں کو ہوگا، اور مردہ عورت بھی اس پر اپنی زندگی میں راضی تھی تو وہ بھی گناہگار ہوگی، ورنہ نہیں، عورتوں کو وصیت کردینی چاہئے کہ ان کے مرنے کے بعد نامحرموں کو ان کا منہ نہ دکھایا جائے۔
….میّت کو جلد سے جلد دفن کرنے کا حکم ہے، لواحقین کے انتظار میں رات بھر اٹکائے رکھنا بہت بری بات ہے۔
….غسل کیلئے مردہ کو تختہ پر رکھنے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو قبلہ کی طرف پاوں کرکے لٹانا، دوسرے قبلہ کی طرف منہ کرنا جیسے قبر میں لٹاتے ہیں، دونوں میں سے جگہ کی سہولت کے مطابق جو صورت اختیار کرلی جائے جائز ہے لیکن زیادہ بہتر دوسری صورت ہے۔
…. ایک بار غسل دینے کے بعد غسل دینے کی ضرورت نہیں۔
….شوہر کا بیوی کے جنازے کو کندھا دینا جائز ہے۔
…. اگر عورت کے محرَم موجود ہوں تو لحد میں ان کو اتارنا چاہئے، اور اگر محرَم موجود نہ ہوں یا کافی نہ ہوں تو لحد میں اتارنے میں شوہر کے شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ عورت کو مرد، اور مردوں کو عورتیں غسل نہیں دے سکتیں، خدانخواستہ ایسی صورت پیش آجائے کہ عورت کو غسل دینے والی کوئی عورت نہ ہو، یا مرد کو غسل دینے والا کوئی مرد نہ ہو تو تیمم کرادیا جائے، اگر عورت کا کوئی محرَم مرد یا مرد کی کوئی محرَم عورت ہو تو وہ تیمم کرائے، اور اگر محرَم نہ ہو تو اجنبی اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر تیمم کروائے۔ پوری تفصیل کسی عالم سے سمجھ لی جائے۔
… مرد کیلئے مسنون کفن میں
1… بڑی چادر، پونے تین گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
2… چھوٹی چادر، اڑھائی گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
3… کفنی یا کرتا، اڑھائی گز لمبا، ایک گز چوڑا شامل ہے جبکہ عورت کے کفن میں دو کپڑے … سینہ بند، دو گز لمبا، سوا گز چوڑا۔… اوڑھنی ڈیڑھ گز لمبی، قریباً ایک گز چوڑی زید ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں نہلانے کیلئے تہبند اور دستانے اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ کفن کیلئے نیا کپڑا خریدنا ضروری نہیں۔
… میّت کے جنازے کو کندھا دینا مسنون ہے، اور بعض احادیث میں جنازے کے چاروں طرف کندھا دینے کی فضیلت بھی آئی ہے۔
طبرانی کی معجمِ اوسط میں بہ سندِ ضعیف حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ… جس شخص نے میّت کے جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دیا، اللہ تعالیٰ اسے اس کے چالیس بڑے گناہوں کا کفارہ بنادیں گے۔
امام سیوطی رحمة اللہ علیہ نے الجامع الصغیر کی جلد2 صفحہ 170 بروایت ابنِ عساکر، حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے۔فقہائے امت نے جنازہ کو کندھادینے کا سنت طریقہ یہ لکھا ہے کہ پہلے دس قدم تک دائیں جانب کے اگلے پائے کو کندھا دے، پھر دس قدم تک اسی جانب کے پچھلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے اگلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے پچھلے پائے کو، پس اگر بغیر ایذادہی کے اس طریقہ پر عمل ہوسکے تو بہتر ہے‘جنازہ کیلئے کھڑے ہوجانا بہتر ہے۔
… جب ہمارے قریب سے جنازہ گزر رہا ہو اور لوگ بیٹھے ہوئے ہوں تو کھڑے ہوجانا بہتر ہے۔
….شوہر اپنی بیوی کے جنازہ میں شریک ہوسکتا ہے۔
….… ناپاک آدمی کا جنازے کو کندھا دینا مکروہ ہے، دل کیساتھ جسم اور کپڑوں کو بھی پاک کرنا چاہئے، جس شخص کو اپنے بدن اور کپڑوں کے پاک رکھنے کا اہتمام نہ ہو، وہ دِل کو پاک رکھنے کا کیا خاک اہتمام کرے گا؟
….عورت کی میّت کو ہر شخص کندھا دے سکتا ہے۔
… قبر میں تو صرف محرم مردوں کو ہی اتارنا چاہئے‘اگر محرَم نہ ہوں یا کافی نہ ہوں تو غیرمحرَم بھی شامل ہوسکتے ہیں‘ لیکن کندھا دینے کی سب کو اجازت ہے۔
….قبرستان میں جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا خلافِ ادب ہے۔
… قبر میں کوئی بھی چیز بچھانا درست نہیں۔
… قبر میں مردے کیساتھ قرآن مجید یا اس کا کچھ حصہ دفن کرنا ناجائز ہے، کیونکہ مردہ قبر میں پھول پھٹ جاتا ہے، قرآن مجید ایسی جگہ رکھنا بے ادبی ہے، یہی حکم دیگر مقدس کلمات کا ہے، سلف صالحین کے یہاں اس کا تعامل نہیں تھا۔
… میّت کو قبر میں قبلہ رخ لٹانا چاہئے، چت لٹاکر صرف منہ قبلہ کی طرف کردینا کافی نہیں، یہ مسئلہ صرف اہلِ حدیث کا نہیں، فقہِ حنفی کا بھی یہی مسئلہ ہے، لیکن میّت کے پیچھے پتھر رکھنے کی بجائے دیوار کیساتھ مٹی کا سہارا دے دیا جائے تاکہ میّت کا رخ قبلہ کی طرف ہوجائے۔
قبر میں رکھ دینے کے بعد پھر منہ کھول کر دِکھانا اچھا نہیں، بعض اوقات چہرے پر برزخ کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں لوگوں کو مرحوم کے بارے میں بدگمانی کا موقع ملے گا۔
… مٹی کی تین مٹھیاں ڈالنا مستحب ہے، پہلی مٹھی ڈالتے وقت ’منھا خلقنٰکم‘ دوسری کے وقت ’وفیھا نعیدکم‘ جبکہ تیسری کے وقت ’ومنھا نخرجکم تارة اخریٰ‘ پڑھے، اگر یہ عمل نہ کیا جائے تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔
… علامہ شامی نے باب الاذان اور کتاب الجنائز میں نقل کیا ہے کہ قبر پر اذان دینا بدعت ہے۔ سلف صالحین سے ثابت نہیں، البتہ دفن کے بعد کچھ دیر کیلئے قبر پر ٹھہرنا اور میّت کیلئے دعا و استغفار کرنا سنت سے ثابت ہے۔
….آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اس قسم کے متعددواقعات پیش آئے کہ ایک مردہ کو کئی بار دفن کیا گیا، مگر زمین اس کو اگل دیتی تھی، نعوذ باللہ من ذالک، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوںفرمایا تھا کہ زمین تو اس سے بھی زیادہ گناہگار لوگوں کو قبول کرلیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ تمہیں عبرت دلانا چاہتے ہیں۔
… علامہ شامی رحمة اللہ علیہ حاشیہ درمختار میں لکھتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ اگر میّت کو دفن کرنا ممکن ہو تو دفن کرنا فرض ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمین پر میّت کو رکھ کر اوپر قبر کی شکل بنادی جائے تو کافی نہیں اور فرض ادا نہیں ہوگا۔
… کفایت المفتی میں لکھا ہے کہ اپنی زندگی میں قبر تیار کروالینا مباح ہے۔
….علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے تاتارخانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اپنے لئے قبر تیار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور اس پر اجر ملے گا، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ، ربیع بن خشم، اور دیگر حضرات نے ایسا ہی کیا تھا۔ کسی کو شک ہوتو شامی‘ ج 2، ص 244، مطبوعہ مصر جدید سے رجوع کرسکتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں بھی تاتارخانیہ سے یہی نقل کیا ہے۔
… ترمذی، مشکوٰة ص 148حدیث میں پکی قبریں بنانے کی ممانعت آئی ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے، ان پر لکھنے سے اور ان کو روندنے سے منع فرمایا۔ صحیح مسلم، مشکوٰة میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس مہم پر بھیجا کہ میں جس مورتی کو دیکھوں اسے توڑ ڈالوں، اور جس اونچی قبر کو دیکھوں اس کو ہموار کردوں۔ بوداود، مشکوٰة ص149 میں قاسم بن محمد (جو امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکے بھتیجے ہیں، فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ اماں جان! مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں رفیقوں رضی اللہ عنہما کی قبور مبارکہ کی زیارت کروائیے، انھوں نے میری درخواست پر تین قبریں دکھائیں جو اونچی نہ تھی، نہ بالکل زمین کے برابر تھیں (کہ قبر کا نشان ہی نہ ہو) اور ان پر بطحا کی سرخ کنکریاں پڑی تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی قبور شریفہ بھی روضہ اقدس میں پختہ نہیں۔ فقہائے امت نے بوقت ضرورت کچی قبر کی لپائی کی اجازت دی ہے، اور ضرورت ہو تو نام کی تختی لگانے کی بھی اجازت ہے، جس سے قبر کی نشانی رہے، لیکن قبریں پختہ بنانے، ان پر قبے تعمیر کرنے اور قبروں پر قرآن مجید کی آیات یا میّت کی مدح میں اشعار لکھنے کی اجازت نہیں دی، قبریں زینت کی چیز نہیں، بلکہ عبرت کی چیز ہے۔ شرح صدور میں حافظ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک نبی علیہ السلام کا کسی قبرستان سے گزر ہوا تو انہیں کشف ہوا کہ قبرستان والوں کو عذاب ہو رہا ہے، ایک عرصہ کے بعد پھر اسی قبرستان سے گزر ہوا تو معلوم ہوا کہ عذاب ہٹالیا گیا، نبی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس عذاب ہٹائے جانے کا سبب دریافت کیا تو ارشاد ہوا کہ پہلے ان کی قبریں تازہ تھیں، اب بوسیدہ ہوچکی ہیں، اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں ایسے لوگوں کو عذاب دوں جن کی قبروں کا نشان تک مٹ چکا ہے۔
… قبر اندر اور باہر سے کچی ہونی چاہئے، یہ صورت کہ قبر چاروں طرف سے پکی کردی جائے اور اوپر کی سطح میں تھوڑا سا نشان کچا چھوڑ دیا جائے، یہ بھی صحیح نہیں۔
:… قبر کی چھت بھی کچی ہونی چاہئے، لیکن اگر زمین نرم ہو کہ سیمنٹ کے بلاک کے بغیر چھت ٹھہر ہی نہیں سکتی (جیسا کہ بعض مقامات پر یہ صورتحال ہے، تو باَمرِ مجبوری یہ صورت جائز ہے۔
… اگر قبر اس کے بغیر نہ ٹھہرتی ہو تو دیواروں کو پختہ کیا جاسکتا ہے، مگر قبر پکی بنانا گناہ ہے، تختی لگانا شناخت کیلئے جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ آیات اور دیگر مقدس کلمات نہ لکھے جائیں، تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔
… قبر کشادہ اور گہری کھودی جائے (کم از کم آدمی کے سینے تک ہو)۔
…قبر کو نہ زیادہ اونچا کیا جائے، نہ بالکل زمین کے برابر رہے، بلکہ قریباً ایک بالشت زمین سے اونچی ہونی چاہئے۔
…قبر کو پختہ نہ کیا جائے، نہ اس پر کوئی قبہ تعمیر کیا جائے، بلکہ قبر کچی ہونی چاہئے، خود روضہ………… اقدس کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کی قبورِ مبارکہ بھی کچی ہیں، البتہ کچھ مٹی سے لپائی کردینا جائز ہے۔
… قبر کی نہ تو ایسی تعظیم کی جائے کہ عبادت کا شبہ ہو، مثلاً: سجدہ کرنا، اس کی طرف نماز پڑھنا، اس کے گرد طواف کرنا، اس کی طرف ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ اور نہ اس کی بے حرمتی کی جائے، مثلاً: اس کو روندنا، اس کیساتھ ٹیک لگانا، اس پر پیشاب پاخانہ کرنا، اس پر گندگی پھینکنا یا اس پر تھوکنا وغیرہ۔
… شناخت کیلئے پتھر لگانا درست ہے، مگر اس پر آیات وغیرہ نہ لکھی جائیں، شناخت کیلئے نام لکھ دیا جائے۔
… عالمگیری میں ہے کہ قبرستان میں جوتے پہن کر چلنا جائز ہے، تاہم ادب یہ ہے کہ جوتے اتاردے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ میّت کے دفن ہونے کے بعد واپسی کیلئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، جو حضرات دفن کے وقت موجود ہوں وہ تدفین کے بعد کچھ دیر وہاں ٹھہر کر میّت کیلئے دعا و اِستغفار میں مشغول رہیں، اور میّت کیلئے منکر نکیر کے جواب میں ثابت قدمی کی دعا کریں۔
… بعض اوقات قبرستانوں میں اکثر قبریں ملی ملی ہوتی ہیں، اور کسی مخصوص قبر تک پہنچنے کیلئے قبروں پر چلنا… قبروں کو روندنا جائز نہیں، پس بچ بچاکر اس قبر تک جاسکتا ہے تو چلا جائے، ورنہ دور ہی سے فاتحہ پڑھ لے، قبروں کو روندنے سے پرہیز کرے۔
… حدیث میں قبروں کو روندنے، ان پر بیٹھنے اور ان سے تکیہ لگانے کی ممانعت آئی ہے، اس لئے یہ امور جائز نہیں۔
… دفن کے بعد میّت کو نکالنا درست نہیں۔ عالمگیریہ میں فتاویٰ قاضی خان سے نقل کیا ہے کہ اگر غلطی سے میّت کا رخ قبلہ سے دوسری طرف کردیا گیا، یا اس کو بائیں پہلو پر لٹادیا گیا، یا اس کا سر پائینتی کی طرف اور پاوں سرہانے کی طرف کردیا تو مٹی ڈالنے کے بعد اس کو دوبارہ کھولنا جائز نہیں، اور اگر ابھی تک مٹی نہیں ڈالی تھی صرف لحد پر اینٹیں لگائی تھیں تو اینٹیں ہٹاکر اس کو سنت کے مطابق بدل دیا جائے۔
…. مردے کو دوسری جگہ لے جانے کا حکم یہ ہے کہ بعض حضرات نے تو اس کو مطلقاً جائز رکھا ہے، اور بعض فرماتے ہیں کہ مسافت سفر 48 میل سے کم لے جانا تو صحیح ہے، اس سے زائد مسافت پر منتقل کرنا مکروہ ہے۔ یہ مسئلہ تو دفن کرنے سے پہلے منتقل کرنے کا ہے، لیکن ایک جگہ دفن کرنے کے بعد پھر مردے کو دوسری جگہ منتقل کرنا قطعاً جائز نہیں۔ درمختار وغیرہ میں لکھا ہے کہ اگر زمین نرم ہوتو تابوت میں دفن کرنا جائز ہے، ورنہ مکروہ ہے۔ تابوت کی اونچائی اتنی ہونی چاہئے کہ آدمی اس میں بیٹھ سکے، آج کل جو رواج ہے کہ میّت کو دور دراز ملکوں سے لایا جاتا ہے، اور کئی کئی دن تک لاش خراب ہوتی ہے، یہ رسم بہت سی وجوہ سے قبیح ہے۔
… میّت کی بیوہ کے علاوہ باقی گھر والوں کو تین دن تک سوگ کرنے کی اجازت ہے، اور بیوہ کو عدّت ختم ہونے تک سوگ کرنا واجب ہے۔ میّت والے گھر میں کھانا پکانے کی ممانعت نہیں، مگر چونکہ وہ لوگ غم کی وجہ سے کھانے کا اہتمام نہیں کریں گے، اس لئے میّت کے گھر والوں کو قریبی عزیزوں یا ہمسایوں کی طرف سے دو وقت کھانا بھیجنا مستحب ہے، برادری والوں کو کھانا تقسیم کرنا محض ریا و نمود کی رسم ہے، اور ناجائز ہے۔
… میّت کے گھر والوں کو ایک دن ایک رات کا کھانا دینا مستحب ہے۔
… جس گھر میں میّت ہوجائے وہاں چولہا جلانے کی کوئی ممانعت نہیں، چونکہ میّت کے گھر والے صدمے کی وجہ سے کھانا پکانے کا اہتمام نہیں کریں گے، اس لئے عزیز و اقارب اور ہمسایوں کو حکم ہے کہ ان کے گھر کھانا پہنچائیں اور ان کو کھلانے کی کوشش کریں۔ اپنے چچازاد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو یہ حکم فرمایا تھا، اور یہ حکم بطور استحباب کے ہے، اگر میّت کے گھر والے کھانا پکانے کا انتظام کرلیں تو کوئی گناہ نہیں، نہ کوئی عار یا عیب کی بات ہے۔
… تعزیت سنت ہے، جس کا مطلب ہے اہلِ میّت کو تسلی دینا، فاتحہ پڑھنے کیلئے میّت کے گھر جانے کی ضرورت نہیں، تعزیت کیلئے جانا چاہئے، فاتحہ اور ایصالِ ثواب اپنے گھر پر بھی کرسکتے ہیں، جو شخص ایک دفعہ تعزیت کرلے، اس کا دوبارہ تعزیت کیلئے جانا سنت نہیں، تین دن تک افسوس کا حکم ہے، دور کے لوگ اس کے بعد بھی اظہارِ افسوس کرسکتے ہیں، فاتحہ کی غرض سے بیٹھنا خلافِ سنت ہے۔
… اکابر و مشائخ کو مساجد یا مدارس کے احاطے میں دفن کرنے کو فقہائے کرام رحمة اللہ علیہم نے مکروہ لکھا ہے۔
بحوالہhttp://www.okaz.com.sa/new/Issues/20131201/Con20131201658442.htm”http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-3/1300-miya

How postmortems allowed in Islam for Muslim lady?
By: S. A. Sagar
A very important and fundamental principle should be remembered with regards to the human body in that the human body, whether dead or alive, is considered sacred according to Islam. Thus cutting it, mutilating it and tampering with it in any way is considered blameworthy and unlawful.
Allah Most High says:
…………And verily we have honoured the children of Adam…………. (Surah al-Isra, V.70)
A human body is sacred even after death. The Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: …………Breaking the bone of a dead person is similar (in sin) to breaking the bone of a living person…………. (Sunan Abu Dawud, Sunan Ibn Majah & Musnad Ahmad)
Imam, Abu Ja…………far al-Tahawi (Allah have mercy on him) states in the explanation of this Hadith:
…………The Hadith shows that the bone of a dead person has the same sanctity and honour as the bone of living person…………. (Mushkil al-Athar)
Allama Ibn Abidin (Allah have mercy on him) states:
…………A human being is honoured according to Shariah even if one is a non-believer (kafir), and the meaning is that one…………s body and organs are sacred. Hence, it will not be permissible to even break the bone of a dead non-believer…………s body…………. (Radd al-Muhtar)
Thus the human body, dead or alive, has great significance. It is honoured and sacred, and because of the sanctity that is attached to it, it will be unlawful to tamper with it, cut parts of it or dishonour it in any way.
Based on this very important principle, many scholars have declared that carrying out post-mortems is unlawful, because it violates the sanctity of the human body. Cutting and dissecting the human body cannot be considered permissible regardless of what beneficial results may stem out from carrying out a post-mortem.
Moreover, in carrying out a post-mortem, the body of the deceased person will be stripped naked. This, in itself, is also not permitted without a genuine and valid reason, they say.
Also, the body will be denied the many injunctions and rituals prescribed by Shariah, such as promptly burying it, not transferring it from one place to another, ritual bath (ghusl), shrouding (kafn), etc.
Due to the above reasons, these contemporary scholars have declared that post-mortems are unlawful unless when there is a genuine need, such as for criminal identifications and when one is forced by law.
They state that Muslims, living in places where post-mortems become necessary by law, should struggle in order to avoid post-mortems, because the benefits can be obtained from other sources also. However, if one is compelled by law, it would be permitted due to need and necessity.
On the other hand, some contemporary scholars are somewhat relaxed with the issue of post-mortems. They put forth examples of Islamic jurisprudence (fiqh) where permission is given to cut open the dead body due to need. For example:
If a pregnant woman dies with her baby alive in her stomach, it will be necessary to cut open her body and remove the baby. However, if the baby was also dead, it will not be permitted to cut open her body. (See: al-Fatawa al-Hindiyya and Fath al-Qadir)
Imam al-Kasani (Allah have mercy on him) states:
…………If a pregnant woman died with her child trapped in her stomach, then if it is thought the child will be alive, her stomach will be cut open, because we have been faced with two evils and we are choosing the lesser of the two. Cutting open the dead mother…………s stomach is lesser of an evil than killing the living baby………….
Another example is that of a person who unjustifiably and unlawfully swallowed a precious item, like a gemstone, of another person and then died. In such a case, if the one whose precious item he swallowed was to demand compensation, then if the deceased person left some money behind, it will be paid from his leftover wealth. However, if he left nothing behind, his body will be cut open and the precious stone or item will be removed from him and returned to its owner. (See: Fath al-Qadir and al-Fatawa al-Hindiyya)
Thus, in light of the above two examples, this group of scholars give permission for carrying out post-mortems. They state that, based on the rule of …………choosing the lesser of two evils………… post-mortems would be justified even for medical research and scientific purposes.
The reason being-they say- is that in carrying out medical research on few dead bodies, we are saving the lives of many others. By compromising one aspect (of dishonouring the human body) there is larger benefit at stake. By carrying out post-mortems, medical students will benefit, justice will prevail and also contagious diseases will be controlled.
In my personal view, I think post-mortems should only be restricted to cases of need, such as when one is compelled by law for the purpose of criminal identification. However, carrying out post-mortems for medical research should be avoided, especially when the objective can be obtained by operating on animals and plastic bodies.
As far as the work of the doctor is concerned, if post-mortem is a legal requirement, then it would be permitted for him/her to perform the post-mortem. However, if that is not the case, one should avoid it.
And Allah knows best
Muhammad ibn Adam al-Kawthari
Darul Iftaa, Leicester, UK, http://spa.qibla.com/issue_view.asp?HD=1&ID=3579&CATE=168

011213 khatoon maiyyat ka postmortum kiyo karwaye lady doctor sey by s a sagar