کامیاب استاذ بننے کے لئے 20 رہنما اصول

کاش ہمیں بھی  یہ بات سمجھ آجائے کہ: امام شعبی رحمہ اللہ سے کوئی سوال پوچھا گیا۔
جواب دیا: “مجھے نہیں معلوم۔”
کہا گیا: “آپ عراق کے مفتی و فقیہ ہیں اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں یقینا اس جواب سے آپ کو شرم تو محسوس ہورہی ہوگی؟”
جواب دیا فرشتے تو اس وقت نہیں شرمائے تھے جب انھوں نے کہا:
لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿٣٢﴾
ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم وحکمت والا تو تو ہی ہے. (32) البقرۃ
عتبہ بن مسلم کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ٣٤ ماہ تک رہا اس دوران کتنے ہی لوگوں نے آپ سے سولات کئے جن کا جواب یہ ہوتا:
“مجھے معلوم نہیں.”
ابوالحسین ازدی کہا کرتے تھے کہ: “لوگ مسئلہ میں بے جھجھک فتوی دیتے ہیں، اگر یہی مسئلہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا جاتا تو اس کے جواب کے لئے اہل بدر کو جمع کرلیتے-
(سنہرے اوراق)
کامیاب استاذ بننے کے لئے بیس رہنما اصول
بہترین استاذ وہ ہے جو بیک وقت نفسیات، اخلاقیات اور روحانیت میں مہارت رکھتا ہو۔ ان میں سے ہر مہارت کی خصوصیات  دوسری مہارت سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ اس لئے ہم ان تینوں مہارتوں کے لئے کچھ مشترکہ اصول ذکر کریں گے۔
1۔ اخلاص:
اچھا استاذ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ جس قدر بے لوث ہوگا، اس کی دلچسپی اسی قدر بڑھتی جائے گی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی ہی کم ہوتی چلی جائیں گی۔ اخلاص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت  پیدا ہوجاتی ہے۔
2۔ تقوی:
علم اور تقوی کا باہم گہرا تعلق ہے، اسی وجہ سے قرآن پاک میں خشیت الہی کا مدار “علم” کو قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ بات ہم پر مخفی نہیں کہ استاذ کے دل میں جتنی خدا خوفی ہوتی ہے اس کی زبان میں اسی قدر تاثیر ہوتی ہے۔
3۔ بہترین عملی کردار:
شاگرد اپنے استاذ کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے، یوں  استاذ کی چال ڈھال، عادات واطوار  اور  اخلاق وکردار لاشعوری طور پر بھی اس میں اترنے لگتے ہیں ۔ شاگرد کی دقتِ نظری کیسی ہوتی ہے. اس ضمن میں میں ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھوں گا۔ ہوا یوں کہ ایک دن  میری گھڑی خراب تھی تو میں گھر والوں کی گھڑی پہن کر کلاس میں چلا گیا، دورانِ درس میری پوری کوشش رہی کہ  گھڑی کپڑوں میں چھپی رہے، دن گزرگیا، بات آئی گئی ہوگئی، کچھ مدت کے بعد ایک طالب علم سے گفتگو ہورہی تھی، وہ درسگاہ میں میری کسی بات کا حوالہ دے رہا تھا مگر مجھے یاد نہیں آرہا تھا، میں نے مزید استفسار کیا تو اس نے کہا:
“استاد جی، جس دن آپ لیڈیز گھڑی پہن کر آئے تھے۔”
مجھے سخت حیرت ہوئی کہ طلبہ کتنی گہرائی سے استاد کو پڑھتے ہیں، بلکہ پڑھنے کے بعد اسے یاد رکھتے ہیں اور دوسروں سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔
4۔ تلاوت کا معمول:
تلاوت کا معمول روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ تلاوت کم از کم  اتنی اونچی آواز سے کرنی چاہئے کہ اسے خود سن سکے،
ان شآءاللہ اس عمل کی تاثیر وہ خود محسوس کرے گا۔
5۔ ذکر اللہ:
بہتر ہوگا کہ تلاوت کے علاوہ ذکر الہی کے لئے کچھ وقت الگ سے نکالے۔ قلب کے احیا (دل کو زندہ رکھنے) کے لئے یہ عمل نہایت موثر ہے۔
6۔ شکر:
اچھا مدرس وہ ہوتا ہے جس کی طبیعت میں شکر کا وصف موجود ہو،  شکر سے مراد  اس کی تینوں قسمیں ہیں، یعنی
1. قلبی،
2. لسانی اور
3. عملی۔
قلبی شکر کا مطلب ہے کہ دل میں منعم (محسن) کا احترام اور اس سے محبت ہو۔ جس ادارے سے اس کا روزگار وابستہ ہے وہاں کے منتظمین کا قلبی شکر بے حد ضروری ہے۔ جو مدرس اپنے طلبہ کے سامنے اپنے منعم کی برائیاں بیان کرتا ہے اور اس پر تنقید کرتا ہے وہ ناکام ترین مدرس ہے۔ شکرِ لسانی دو طریقوں سے ہوتا ہے، ایک وہ جس کی سورہ ضحی میں تعلیم دی گئی ہے:
“واما بنعمۃ ربک فحدث”
یعنی اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کیجئے، جسے تحدیث بالنعمت کہا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ  یہ ہے کہ اپنے محسن  کا شکر  زبان سے بھی ادا کرے جسے اللہ تعالی نے فرمایا:
“ان اشکر لی ولوالدیک”
(میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ
(جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ  کیا اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا)۔ عملی شکر سے مراد ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو ڈھنگ سے استعمال کرے، جو استاذ نعمتوں کا درست استعمال نہیں کرتا وہ ناشکرا اور ناکام مدرس ہے۔
7۔ حیا:
استاذ کے لئے حیا ایک ناگزیر وصف ہے۔ حیا کا مطلب ہے:
“انقباض النفس عن القبیح”
یعنی اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دی گئی باتوں /چیزوں سےاس کا جی تنگ پڑے، ایسی باتوں کی طرف جانا اس کے لئے گرانی کا باعث ہو۔ استاد میں حیا ہوگی تو آگے بھی یہ وصف ضرور متعدی ہوگا، مگر افسوس ہے  کہ موبائل  نے ہم اساتذہ کی حیا اگر ختم نہیں کی تو کم ضرور کردی ہے۔
8۔ ذمہ داری کا احساس:
یہ بات مشاہدے اور تجرے سے ثابت ہے کہ طلبہ کا غیر ذمہ دارانہ رویے کا ایک بڑا باعث استاد کا غیر ذمہ دارانہ مزاج ہے۔ کامیاب مدرس بننے کے لئے اپنے اندر ذمہ داری کا احساس جگانے کی ضرورت ہے۔
9۔ اچھی صحبت:
اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس کا مزاج اچھا ہو، اس کی بیٹھک  اچھے لوگوں کے ساتھ ہو،اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو۔ حدیث کے مطابق اسے عطار کے مانند ہونا چاہیے جس کے پاس سے گزرنے والا کم ازکم معطر ضرورہوسکے،نہ کہ لوہار کی طرح جس کی صحبت اختیار کرنے والے کو بھٹی کی تپش بھی گوارا کرنا پڑتی ہے۔ برے لوگوں سے خیرخواہی اور اصلاح کا تعلق تو رکھے مگر دوستی کا نہیں۔
10۔ تحمل اور برداشت:
تعلیم  اور تزکیہ کے میدان میں صبر وتحمل کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ انبیا کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ نے باربار اس  کی تلقین فرمائی ہے۔ استاذ میں جس قدر یہ خوبی ہوگی وہ اتنا ہی کامیاب مدرس ثابت ہوگا۔
11۔ زہد اور بے رغبتی:
ایک اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس میں کمال درجے کا زہد ہو، شاگرد کے مال پر اگر استاذ کی رال ٹپک رہی ہو تو شاگرد کی نظر میں ایسا استاذ ٹکے کا نہیں رہتا۔ حدیث میں جو ارشاد ہے:
“ازهد في الدنيا يحبك الله و ازهد فيما عند الناس يحبك الناس.”
(دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور لوگوں کےمال ومتاع سے نظریں پھیرلو لوگ تمہارے دیوانے بن جائیں گے) اس میں “الناس” کی جگہ طلبہ کو رکھ کر عملی مشاہدہ کیجئے، پھر ادراک ہوگا کہ کتنی بڑی  حقیقت بیان کی گئی ہے۔
12۔ عفو درگزر  اور  وسعتِ قلبی:
ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والا کبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا، استاذ کو اپنے اندر وسعتِ قلبی پیدا کرنی چاہئے۔ اللہ کی بھی یہی سنت ہے:
او یوبقھن بما کسبوا ویعف عن کثیر۔
13۔ خدمت خلق کا جذبہ:
افسوس ہے کہ اس اہم ترین عبادت کو ہم نے شعبوں میں تقسیم کردیا ہے، روزمرہ زندگی میں بطور عبادت اس   اصول کا اطلاق ہمارے ہاں نادر ہے۔ تبلیغ میں جانے والے احباب  سفرِ دعوت  میں ہر طرح کی خدمت اکرامِ مسلم سمجھ کر کرتے ہیں مگر گھر پہنچتے ہی یہ خدمت انہیں ذلت محسوس ہوتی ہے۔ استاذ اگراپنے طلبہ کے سامنے خدمتِ خلق  کا عملی نمونہ پیش کرے گا تو ان کے  دل میں عظمت بڑھے گی۔  اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ بیان کروں گا کہ ضعف اور نقاہت کی وجہ سے چونکہ طبیعت مستعد نہیں رہی،  ایک مرتبہ میں نے  کھانا  تناول کرنے کے بعد بچوں سے کہا کہ بیٹا دسترخوان  اٹھا لو، اتنے میں کیا سنتا ہوں کہ میرا چھوٹا نواسا دروازے سے نکلتے ہوئے کہہ رہا ہے “خود تو بڑے بنے بیٹھے ہیں اور ہمیں کام پر لگایا  ہواہے” ایسے موقع پر اگر  بچوں کو ڈانٹ دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ فرق پڑے گا کہ وہ یہی بات آپ کے سامنے کہنے سے باز رہیں گے مگر ان کے ذہنوں کو آپ  صرف اور صرف اپنے کردار سے کھرچ سکتے ہیں۔
14۔ قوت اور امانت:
اچھا پیشہ ور وہ ہوتا ہےجس میں قوت اور امانت کا وصف بخوبی موجود ہو۔ قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کا تبصرہ ذہنوں سے اوجھل نہیں رہنا چاہئے:
“ان خیر من استاجرت القوی الامین.”
(بہترین اجیر وہ ہے جو  قوی بھی ہو امین بھی)
استاد کی قوت اس کا وسعتِ مطالعہ، علمی رسوخ اور اپنے فن/ مضمون پر دسترس ہے۔ نالائق سے نالائق طالبعلم بھی اپنے استاذ کی علمی قابلیت کو اچھی طرح بھانپ لیتا ہے۔ استاذ کی “امانت ” کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ علم کو آگے منتقل کرنے میں کس قدر محتاط اور سخی ہے۔
15۔ رجائیت (پراُمید ہو):
اچھا استاذ کبھی مایوس نہیں ہوتا، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے جو اپنے گاہک کے سامنے پھل کی  ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کی بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہوجائے اور اگر خدانخواستہ وہ اس طرح کے جملے دہرانے لگے کہ:
“جناب بس کیلے کا تو موسم ہی نہیں رہا، اس کا گاہک بھی آج کل ڈھونڈے نہیں ملتا، یہ دیکھئے پڑے پڑے کیلے کالے ہونے لگے  ہیں، شکر ہے کوئی تو آیا.”
یہ سن کر کوئی بے وقوف ہی اس سے سودا خریدے گا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس علم کو “بیچ” رہے ہیں اس کی قدر خود ہمارے دل میں بھی نہیں ہے۔  یہی وجہ ہے کہ استاد کے ذریعے شاگروں میں مایوسی منتقل ہورہی ہے۔
16۔ اخلاقی جرات:
ایک اچھا استاذ اپنے اندر اخلاقی جرات رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اخلاقی جرات کا تعلق اخلاق سے ہے،  آپ کے اندر جتنی بھی بری باتیں ہوں جب تک ان سے جان نہیں چھڑالیتے اخلاقی جرات کا فقدان رہے گا۔
17۔ قول وفعل میں مطابقت:
جس استاذ کے قول وفعل میں تضاد ہو وہ ایک بدنام اور ناکام مدرس ہے۔
18۔ وضع قطع:
استاذ کو چاہئے کہ اپنے باطن کی طرح ظاہر کو بھی اللہ  کے رنگ میں رنگ دے۔ شریعت کے مطابق وضع قطع نہ صرف سنتِ نبوی کی اتباع ہے بلکہ اس سےآپ باوقار تشخص کی تعمیر کرسکیں گے۔
19۔ للّٰھیت:
دینی خدمات محض تنخواہ کے لئے سرانجام  نہ دے۔اس سے چاشنی اور لذت جاتی رہتی ہے۔اپنے کسی قول وفعل کے ذریعے شاگردوں کے سامنے بھی ایسا تاثر دینے سے باز رہے۔
20۔ شاگردوں کے حق میں دعاگو:
اپنے شاگردوں کے لئے ہمیشہ دعا گو رہے۔ یہ عمل اجر اور اخلاص بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ (اس ضمن میں ناقل (امیر حمزہ) مولانا جہانگیر صاحب کی (جنہوں نے اس سے پہلی نشست میں گفتگو فرمائی) قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کردہ ایک بات  کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں،  فرمایا کرتے تھے: استاذ کو اپنے شاگرد پر ہاتھ اٹھانے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں جب تک اس کے لئے تہجد میں چالیس راتیں اللہ سے نہ مانگ لے)
نوٹ: کوشش کی گئی ہے حضرت کے ذکر کردہ ارشادات کا  خلاصہ بیان کردیا جائے۔ تاہم کوئی بات قابلِ اعتراض محسوس ہو تو اسے میری طرف منسوب سمجھا جائے۔ یقینا تعبیر کا سقم ہوگا۔ اللہ تعالی یہ لکھنا، نشر کرنا اور پڑھنا قبول فرمائے اور عمل کی توفیق بخشے۔آمین آمین۔
مولانا یوسف خان صاحب استاذ جامعہ اشرفیہ کا الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ  میں خطاب..
واللہ تعالیٰ اعلم