کیا فارمی مرغی اور انڈے کھاسکتے ہیں؟


کیا فارمی مرغی اور انڈے کھاسکتے ہیں؟
ایس اے ساگر
آج کل اس بات پر بحث چل رہی ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ مارکیٹ میں آنے والا چکن کس طرح تیار ہوتا ہے۔ اس بارے میں مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ گوشت کو بہتر طریقے سے لیبل کرنا ضروری ہے۔ تو ہم ان مرغیوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں جس کا گوشت ہماری پلیٹوں تک پہنچتا ہے۔ شاید اتنا ہی کہ یہ لوہے کے لمبے لمبے شیڈز میں پلتی ہیں، بڑے بڑے پلاسٹک کے ڈرموں سے دانہ کھاتی ہے، وہاں پائپ اور چمنیاں لگی ہوتی ہیں۔
چبھتی ہوئی بدبو:
عام آدمی کے لیے یہ بالکل ایک کیمیکل پلانٹ جیسا ہی لگتا ہے۔ برطانیہ کے پیک ڈسٹرکٹ جیسے خوبصورت علاقے میں مرغیاں پالنے کے پلانٹ بالکل عجیب سے لگتے ہیں۔ صرف ایک چیز اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ان کے اندر کوئی زندہ چیزیں بھی رہ رہی ہیں اور وہ ہے ایکسٹریکٹر فین سے نکلنے والی چبھتی ہوئی بدبو۔ یہ پلانٹ کوئی روغن یا کھاد کی فیکٹری نہیں ہے۔ اسے لوئر فارم کہتے ہیں اور یہاں چکن پیدا کیے جاتے ہیں۔ یہ چکن صرف 33 یا 38 دنوں میں بڑھ کر اوسطاً 2.2 کلو گرام کے ہو جاتے ہیں۔ ذبح کے لیے بالکل تیار۔ یہاں سے چکن کبھی باہر نہیں نکلتے، ہر چیز چار بڑے شیڈز کے اندر ہی ہوتی ہے۔
بند دروازوں کے پیچھے:
شیڈز کے اندرونی حصے کی ہر وقت فلم بندی کی جاتی ہے اور اہم اعداد و شمار ریکارڈ کیے جاتے ہیں کہ کس پرندے نے کتنا پانی پیا، فیڈر کے ذریعے دیا گیا دس کلوگرام فیڈ کا کتنا حصہ کھایا، کون سے پرندے کا کتنا وزن ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لوئر فارم میں ہر سال ساڑھے 12 لاکھ چکن پیدا کیے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں بیچا جانے والا چکن کم و بیش اسی قسم کے فارموں سے آتا ہے۔ خیراتی ادارے کمپیشن ان ورلڈ فارمنگ (سی ڈبلیو ایف) کے کیمپین ڈائریکٹر ڈل پییلنگ کہتے ہیں کہ ’اس طرح کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی چکن فارمنگ بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہے۔ یہ لوگوں سے چھپائی جاتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں ابھی بھی فارم میں دانہ چگتے ہوئے چکن کا تصور ہے۔‘ برٹش پولٹری کونسل کے مطابق ملک میں فری رینج چکن پانچ فیصد پیدا ہوتا ہے، اورگینک ایک فیصد، جبکہ باقی 94 فیصد شیڈز میں پالے گئے پرندوں سے آتا ہے۔
فری رینج اور اورگینک چکن گوشت:
یہ انڈوں سے قدرے مختلف ہے جہاں فری رینج اور اورگینک انڈے برطانیہ کی پیداوار کا تقریباً 45 فیصد ہیں۔ انڈے پیدا کرنے والی اور چکن کا گوشت پیدا کرنے والی دو مختلف صنعتیں ہیں۔ 1950 سے دو طرح کی چکن فارمنگ کی جاتی رہی ہے۔ ایک وہ جو انڈے دینے والی مرغیوں کی فارمنگ کرتی اور دوسری گوشت کے لیے برائلر چکن کی پیداوار کرتی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں مختلف صنعتیں ہیں لیکن پھر بھی لوگ فری رینج انڈے خریدنا تو پسند کرتے ہیں لیکن فری رینج چکن پر کوئی اتنی خاص توجہ نہیں دیتے۔ ایک برائلر کی اوسط عمر 39 دن ہوتی ہے۔ اسی لیے حال ہی میں سی ڈبلیو ایف نے 39 دنوں کی ایک مہم چلائی کہ چکن کی پیداوار کے طریقے کو بیچتے ہوئے اچھی طرح لیبل کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ قیمتِ خرید اس کی بنیادی وجہ ہو۔ فری رینج اور اورگینک چکن کے گوشت کی قیمتوں میں فری رینج انڈوں کی نسبت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ جو 6.95 پاؤنڈ سے لے کر 19 پاؤنڈ تک کا ہے۔ لیکن انڈے چونکہ نسبتاً سستے ہوتے ہیں اس لیے ان کی قیمتوں میں تھوڑی بہت کمی بیشی کا پتہ نہیں چلتا۔ جبکہ فری رینج اور برائلر چکن کے گوشت میں فرق بہت واضح ہے۔ انڈوں کی صنعت میں بیٹری فارمنگ یعنی بہت ہی محدود جگہ میں اور برے حالات میں مرغیوں سے انڈے پیدا کروانے کے عمل کی اتنی مذمت کی گئی کہ سنہ 2012 میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ کئی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر لوگ یہ دیکھ لیں کہ کس طرح سستے چکن پیدا کیے جاتے ہیں تو شاید وہ چکن کھانا ہی چھوڑ دیں۔ اسی لیے اس صنعت سے منسلک زیادہ تر افراد عام لوگوں کو چکن فارمز کے دورے کروانے سے کتراتے ہیں۔ برٹش پولٹری کونسل سے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر لوئر فارم کے دورے کا بندوبست کیا گیا۔
مرغیوں کا سفید سمندر؟
اگر آپ باہر والی عمارت کے پہلے دروازے میں داخل ہوں تو آپ اپنے آپ کو کنٹرول روم میں پائیں گے جہاں سی سی ٹی وی کیمرے سے منسلک ٹی وی اسکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ کو شیڈ کے اندر مرغیوں کا ایک ازدحام نظر آئے گا۔ وہاں اس وقت 33,426 مرغیاں ہیں۔ ایک دن پہلے وہاں 45,000 تھیں، باقیوں کو ذبح کر دیا گیا ہے۔ ادھر موجود مرغیوں کی عمر 34 دن ہے۔ آپ ذرا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوں تو آپ اپنے آپ کو مرغیوں کے سفید سمندر میں پائیں گے۔ اندر حالات اتنے برے نہیں جتنے 2012 سے پہلے تھے۔ قدرتی روشنی کھڑکیوں سے اندر آ رہی ہے اور چکن تھوڑی بہت حرکت کرسکتے ہیں۔ زمین لکڑے کے چورے اور مرغیوں کی بیٹ کی وجہ سے نرم ہے۔ فرش کے نیچے ہیٹنگ سسٹم ہے۔ ہر سال مرغیوں کی سات کھیپیں یہاں تیار کی جاتی ہیں جو کہ تعداد میں تقریباً 310,000 بنتی ہیں۔ اس دوران تقریباً 3.3 فیصد پرندے قدرتی موت مر جاتے ہیں۔ ہر کھیپ کے بعد لکڑی کا چورا اور فضلہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور پوری جگہ کو ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔ ابھی اندر آئے ہوئے دس منٹ ہی ہوئے ہیں لیکن بدبو برداشت سے باہر ہے۔ یہ مرغیوں کی بیٹوں سے پیدا ہونے والے امونیا کی بو ہے۔ شیڈ میں ہوا کے اخراج کا بندوبست ہے تاکہ اس گیس کو انتہائی حد تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ شیڈ کے مالک ڈیوڈ سپیلر کہتے ہیں کہ انھیں اس بو کی عادت پڑ گئی ہے۔
’ہم نے امونیا، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کے لیول کو مانیٹر کیا ہے اور حقیقت میں یہ بہت زیادہ نہیں ہیں۔ لیکن یہ دوسری طرح کی بو ہے۔‘
’ایٹنگ اینیملز‘
باہر سورج چمک رہا ہے۔ کیا سپیلر کے دل میں نہیں آتا کہ وہ مرغیوں کو باہر جا کے دانا چگنے دیں؟ اس سوال پر وہ ہنس دیے اور کہا کہ ’ڈربی شائر کی پہاڑیوں پر سال کے زیادہ تر حصے میں تو پرندے نہیں بچیں گے۔‘ سپیلر کہتے ہیں کہ جینیاتی طور پر اکثر فری رینج پرندے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے، اگرچہ ان کی مٹی میں چیزیں چگنے کی صلاحیت ان کے گوشت میں ذرا مختلف مزہ ضرور پیدا کرتی ہے۔ باہر یہ جانور جب کیڑے مکوڑے، لیڈی برڈ اور بھنورے کھاتے ہیں تو ان کے گوشت کا ذائقہ ضرور بدلتا ہے۔ لیکن ’بند دروازوں میں رہنے والے پرندوں کو جانوروں کی پروٹین نہیں دی جا سکتی۔‘ کتاب ’ایٹنگ اینیملز‘ کے امریکی مصنف جوناتھن سفران فوئر کہتے ہیں کہ جانوروں کی پروٹین کبھی اتنی سستی نہیں تھی۔ امریکی اب 80 سال پہلے کی نسبت 150 گنا زیادہ چکن کھاتے ہیں۔ اگر چین اور انڈیا بھی اسی تناسب سے چکن کھانے لگیں تو تیزی سے تیار کیے گئے پرندوں کی تعداد سالانہ ایک ارب تک پہنچ جائے گی۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2014/10/141023_chicken_meat_as
صیہونی سازشیں اور کدّو کے فوائد:
اے مسلمانوں خدارا کچھ کھانے سے پہلے تحقیق کرلیجئے۔ عراق پر امریکی حملے کے دوران بغداد کی ایک قدیم عمارت بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد شہر کی صفائی شروع ہوئی تو اس عمارت کا ملبہ ہٹاتے ہوئے گہرائی سے ایک قدیم عمارت کے آثار دریافت ہوئے۔ یہ کسی درس گاہ کے آثار تھے۔ وہاں سے ایک قدیم قلمی نسخہ مکمل حالت میں دستیاب ہوا جس کا نام \”تحفة الاغانی\” تھا۔ مصنف کا نام عبداللہ بن طاہر البغدادی رضوی تھا۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف عالم دین اور صوفی تھے۔ یہ کتاب ان کے کشف پر مبنی پیشینگوئیوں پر مبنی ہے۔ اس میں ایک باب خاص طور پر ہند یعنی ہندوستان کے بارے میں ہے۔ اس میں حضرت لکھتے ہیں کہ ہند کے کچھ علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی لیکن ایک طویل عرصہ تک یہ ملک افراتفری اور بے چینی کا شکار رہے گا۔ اس کی جو وجہ اس کتاب میں بیان کی گئی وہ بہت ہولناک ہے۔ حضرت لکھتے ہیں کہ اس علاقے کے مسلمان خنزیر نما خوراک کھانے کے عادی ہوں گے اور یہی سبب ہوگا کہ وہ بتدریج دین سے دور ہوتے جائیں گے۔ یہ بہت عجیب بات تھی کیونکہ پاکستان میں لوگ بظاہر ایسی کوئی چیز نہیں کھاتے۔ 2011 میں یونیورسٹی آف مشیگن کے پروفیسر سٹورٹ جونز جو ڈپارٹمنٹ آف بائیو ٹکنولوجی کے سربراہ ہیں، انہوں نے اپنی ریسرچ میں ثابت کیا کہ برائلر چکن اور خنزیر کے گوشت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ برائلر جس ٹکنالوجی سے پیدا کیا گیا اس میں خنزیر کے ماڈل کو ہی فالو کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے سامنے آتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹر جونز کو نفسیاتی مریض قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا۔ نومبر 2015 میں ڈاکٹر سٹورٹ جونز کا اسی ہسپتال میں پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ اگر یہ تحقیق منظر عام پر آجاتی تو مغرب کی ملٹی بلین ڈالر برائلر چکن انڈسٹری تباہ ہوجاتی۔ اس انڈسٹری کے بَل پر انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹس کو جیسے ارب پتی کیا، وہ سلسلہ بھی ختم ہوجاتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان حرام گوشت کھا کے جن روحانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اس سے نجات مل جاتی۔انہی دنوں تل ابیب یونیورسٹی میں کدّو کے خواص پر ایک ریسرچ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ جو پولینڈ سے ہجرت کرکے اسرائیل میں آئے تھے ، وہ پچھلے بائیس برس سے کدّو کے خواص پر تحقیق کررہے تھے ۔ 2014 کے موسم گرما میں یہ تحقیق مکمل کرکے یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں پیش کی گئی۔ اس ریسرچ پیپر میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کدّو ایک ایسی مکمل غذا ہے جس کی مثال کسی اور غذا میں نہیں ملتی۔ اگر ایک انسان روزانہ دو وقت کدّو کھائے تو اس کی غذائی ضروریات بالکل پوری ہوجاتی ہیں۔ کدّو میں ایسے اجزاء شامل ہیں جو انسان کو ہر قسم کی بیماری سے بچالیتے ہیں۔ کینسر اور ایڈز کے مریضوں کو تجرباتی طور پر ایک مہینہ کدّو کھلائے گئے تو وہ بالکل بھلے چنگے ہوگئے۔ کدّو کے جوہر سے ہر قسم کی بیماری کے علاج کی ویکسین تیار کرنے کا تجربہ بھی کیا گیا اور نتائج حیران کن تھے۔ کسی بھی بیماری کے آخری سٹیج کے مریض کو بھی کدّو ویکسین لگائی گئی تو وہ ایک دن کے اندر پوری طرح صحت مند ہوگیا۔حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ کو بھی اس کے بعد منظر عام سے غائب کردیا گیا۔ تل ابیب ٹائمز میں ڈاکٹر ڈیوڈ کی بیوی مارشا ڈیوڈ کا انٹرویو بھی چھپا جس میں انہوں نے اپنے خاوند کی پراسرار گمشدگی پر سوالات اٹھائے اور اس کا تعلق ان کی ریسرچ سے جوڑتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اصل حقائق کو سامنے لایا جائے ۔ یہ معاملہ بھی بعد میں وقت کی گرد میں گم ہوگیا۔ اس ریسرچ کو اگر آفیشلی طور پر سامنے لایا جاتا تو اسلام کی حقّانیت کھل کر پوری دنیا کے سامنے واضح ہوجاتی اور یہود و ہنود کا کفر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا۔ درج بالا دو واقعات سے ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے کہ وہ اس تحریر کو سبحان اللہ کہہ کے شئیر کرے اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو حرام کھانے سے بچائے اور کدّو کے فوائد سے رو شناس کروائے۔ جزاکم اللہ
بشکریہ: شاہراہ ہدایت بخدمت گرامی قدر مفتی صاحب۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بعافیت ہونگے؟ اوپر کا میسیج میرے عزیز دوست مولوی راشد اعظمی (ابن مولانا افضال الحق جوہر القاسمی) نے بھیجا ہے ۔اسے ملاحظہ فرمائیں اور بتائیں کہ برائلر چکن کے بارے میں جس تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ایک مسلمان کیا رخ اختیار کرے؟
اس طرح کے میسیج کو نہ تو مکمل طور پر جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر یقین کرکے اسے کسی حکم شرعی کا مدار بنایا جاسکتا ہے؛ البتہ خواصِّ اشیاء میں ماہر دین داردو مسلمان ڈاکٹروں سے اگر ”برائلر“ چکن کا تجزیہ کرالیا جائے اور وہ پوری ایمان داری کے ساتھ تحلیل وتجزیہ کرکے اس تحقیق کی تصدیق کردیں تو احتیاطا اور از روئے تقویٰ لوگوں کو نہ کھانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے؛ لیکن برائلر چکن کے ناجائز ہونے کا فتوی پھر بھی نہیں دیا جاسکتا؛ کیوں کہ یہ از قبیل ”مرغ“ ہے اور مرغی ہی کا سہارا اس کو پیدا کرنے میں لیا گیا ہے؛ لہٰذا اس پر مرغ، مرغی ہی کا حکم لگے گا اگرچہ پیدا کرنے کے طریقہٴ عمل میں غیرشرعی چیزوں کا بھی استعمال کیا گیا ہو۔
یستفاد مما في الفتاوی الہندیة وغیرہ: فإن کان متولّدًا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأمّ، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا، وقیل: إذا نزا ظبي علی شاة أہلیة فإن ولدت شاةً تجوز التضحیة وإن ولدت ظبیًا لا تجوز (فتاوی ہندیة ۵/ ۲۹۷، ط: زکریا) وفي الدر مع الرد․․․ لأن المعتبر في الحلّ والحرمة الأم فیما تولد من مأکول وغیر مأکول (درمختار مع الشامي ۹/ ۴۴۲، ط: زکریا) وفیہ (۹/ ۴۹۱) ․․․ حلّ أکل جدي غذي بلبن خنزیر؛ لأن لحمہ لا یتغیر وما غذي بہ یصیر مستہکلا لا تبقی لہ أثرً إلخ (درمختار مع الشامي ۹/ ۴۹۱، ۴۹۲، ط: زکریا)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food–Drinks/146490
……..
فارمی مرغی کی اصل گدھ ہے، ہمیں اس کی تحقیق نہیں ہے، جہاں تک فارمی مرغی کے کھانے کا سوال ہے تو اس کا کھانا فی نفسہ جائز ہے اگرچہ بہ تحقیق یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کو پیدا کرنے میں گدھ یا کسی اور حرام جانور کا مادہ شامل کیا گیا ہے ؛ کیونکہ یہ از قبیل مرغ ہے اور مرغی ہی کا سہارا اس کو پیدا کرنے میں لیا جاتا ہے، نیز اس کی ظاہری شکل وصورت بھی حلال پرندے کی ہے؛ باقی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی وجہ سے احتیاط کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
یستفاد مما في الفتاوی الہندیة: فإن کان متولدا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأم، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا․․․․إذا نزا ظبی علی شاة أہلیة، فإن ولدت شاة تجوز التضحیة، وإن ولدت ظبیا لا تجوز(ہندیہ: ۵/۲۹۷، ط: زکریا) وعن ابن عباس قال: نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذي ناب من السباع وعن کل ذي مخلب من الطیر (مسلم، رقم: ۱۹۳۴)
………..
# فقہیات #
فارمی مرغی اور انڈے کا حکم:
اس وقت فارمی مرغی اور اس کے انڈے ایک بڑی تعداد میں عوام کی عمومی غذا کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں کہ اس کو بطور غذا استعمال بھی کیا جارہا ہے اور بطور مال اس کی خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے، تاہم آئے دن اس کے متعلق کچھ باتیں سننے کو ملتی ہیں اس لئے اس کی بابت کچھ احکام شرعیہ فتاوی کی روشنی میں پیش خدمت ہیں۔ (✍ : سفیان بلند)
1- پہلے: یہ سمجھیں کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے سوائے گوشت کے کہ اس میں اصل حرمت ہے جب تک کہ دلیل حلّت (حلال ہونے کی دلیل قائم نہ ہوجائے) چنانچہ مرغی کے گوشت کو بھی اس بھی اسی اعتبار سے دیکھا جائے گا اور اس کے انڈے کا مدار بھی اس کے گوشت پر ہے۔
2- دوسرا: کسی بھی حلال چیز کو حرام قرار دینے یا حرام چیز کو حلال قرار دینے سے قبل احتیاط کی ضرورت ہے، مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں:
کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جنکا مفصل ذکر سورة مائدہ کی (آیت) یا ایھا الذین امنوا لاتحرمو طیبت ما احل اللہ لکم، کے تحت معارف القران جلد سوم میں آچکا ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک، اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدةً حرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے۔
دوسرا، اگر عقیدةً حرام نہ سمجھے مگر بلا کسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے جسکا ذکر آگے آتا ہے اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولیٰ ہے۔
تیسرا، یہ ہے کہ نہ عقیدةً حرام سمجھے، نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ہمیشہ ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے، یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے، تب تو یہ بدعث اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور اگر ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلا کراہت جائز ہے، بعض صوفیائے کرام سے جو ترکِ لذائذ کی حکایتیں منقول ہیں وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔
(معارف القرآن سورہ تحریم)
3- تیسرا: یہ ہے کہ اگر کوئی حلال چیز ہو مگر وہ طبی اعتبار سے مضر سمجھی جاتی ہو تو وہ قابل ترک تو قرار دی جاسکتی ہے تاہم اس کو حرام قرار دینا کسی طرح شرعا جائز نہیں جب تک اس پر شرعی دلیل سے حرمت قائم نہ ہوجائے۔
4- چوتھا: کسی بھی چیز کو حلال و حرام قرار دینا دیانات سے تعلق رکھتا ہے اور دیانات میں مسلم کی خبر کا اعتبار ہے، غیر مسلم کی بات کا اعتبار نہیں۔
5- پانچواں: اگر کسی چیز کی حقیقت و ماہیت اس طور پر بدل جائے کہ اس کا نام و خواص اور شکل و صورت و اوصاف بالکلیہ بدل جائیں تو اس کو فقہاء کی اصطلاح میں تبدیل ماہیت اور انقلاب حقیقت کہا جاتا ہے اور ایسی صورت میں اگر وہ حرام چیز حلال بن جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، یہ بات واضح رہے کہ انقلاب حقیقت ممکن ہے جیسا کہ حضرت علامہ شامی رحمہ اللہ کے نزدیک دلائل کی رو سے یہی بات ثبوت تک پہنچتی ہے:
”وَالظَّاہِرُ أنَّ مَذْہَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَالله اعلم․ (رد المحتار: 239/1، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)
ترجمہ: اور ظاہر سی بات ہے کہ ہمارا مسلک انقلابِ ماہیات کے ثبوت کا ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو فقہائے کرام نے عین نجاست کے بدلنے میں ذکر فرمائی ہے، جیسے شراب کا سرکہ بن جانا اور خون کا مشک بن جانا اور اس جیسی دوسری چیزیں (رد المحتار) تو ہم نے سمجھ لیا کہ عین کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے جو اس (عین) پر مرتب ہوتا ہے۔
● حضرت مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
انقلابِ حقیقت سے مراد کیا ہے؟ تو واضح ہوکہ انقلابِ حقیقت سے مرادیہ ہے کہ وہ شے فی نفسہ اپنی حقیقت چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں متبدل ہوجائے، جیسے شراب سرکہ ہوجائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا وغیرہ کہ ان صورتوں میں شراب نے فی نفسہ اپنی حقیقت خمریہ اور خون نے اپنی حقیقت دمویہ اور نطفہ نے اپنی حقیقت منویہ چھوڑدی اور دوسری حقیقتوں میں متبدل ہوگئے، حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت دیا جاسکتا ہے کہ حقیقت اولیٰ منقلبہ کے آثار مختصہ اس میں باقی نہ رہیں۔(کفایت المفتی و فتاوی مظاہر علوم)
● حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب رحمہ اللہ نے انقلابِ ماہیت کو اپنے الفاظ میں اس طرح تعبیر فرمایا ہے:
”قلبِ ماہیت یہ ہے کہ سابق حقیقت معدوم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت و کیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص وآثار و امتیازات باقی رہیں؛ بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار وخواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بنالیا جائے۔ (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۲۶، ۲۷، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)
● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم فرماتے ہیں کہ :
صورت اور اوصاف سہ گانہ (رنگ، بو، مزہ) کی تبدیلی سے تحویلِ حقیقت ہو جاتی ہے، گو کسی شئی کا قوام اور مادہ باقی رہے، جیسے شراب سرکہ بن جائے تو اصل مادہ باقی رہتا ہے، اوصاف اور اثرات میں تبدیلی آتی ہے۔(قاموس الفقہ 94/2)
اب اس کے بعد فارم کی مرغیوں اور اس کے انڈوں کی بابت فتاوی کی روشنی میں اجمالی عرض ہے کہ فارمی مرغی اور اس کے انڈے از روئے شرع حلال ہیں البتہ اس مرغی کے استعمال سے اجتناب لازم ہے جو گندگی کھاتی ہو جس کی وجہ سے اس کا گوشت بدبو دار ہوجائے.
تفصیلی فتاوی ملاحظہ فرمائیں:
فارمی مرغی کے کھانے کا حکم:
● آج کل تقریباً ہر ملک میں مشینی سفید مرغی کا کاروبار عام ہے اور مرغیوں کی پرورش کے لئے ایسی خوراک دی جاتی ہے جس میں خون کی آمیزش کی جاتی ہے، جس سے مرغی جلد جوان ہوتی ہے اور اس غذا کی وجہ سے مرغی کے اندر خود بخود انڈے دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس قسم کی مرغی کا حکم یہ ہے کہ اگر مرغی کی غذا کا غالب حصہ اگر حرام ہو تو اس کا کھانا مکروہ ہے، اس کو تین دن بند رکھا جائے اور حلال غذا دی جائے، اس کے بعد کھایا جائے، اور ان کی خوراک میں حلال غالب ہو تو کھانا جائز ہے۔(فتاوی یوسفی جلد ١٠)
● اگر پولٹری فارم میں مرغیوں کو خنزیر کی چربی یا اس طرح کی چیزوں سے تیارشدہ کھانا کھلایا جائے تو ایسی مرغیوں کو کھاسکتے ہیں، البتہ اگر ان مرغیوں سے خنزیر کی بو آرہی ہو تو عارضی طور پر ان کو کچھ دن الگ رکھ کر حلال غذا کھلائی جائے اور جب ان سے بو زائل ہوجائے اس وقت ان کو ذبح کرکے کھایا جائے۔ (جواب : 25162 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
● فارم والی مرغی حلال ہے، حرام غذا کا اثر(مستہلک) ختم ہونے کے بعد کراہت بھی ختم ہوجاتی ہے، در مختار میں ہے کہ:
{حل أکل جدي غذی بلبن خنزیر لأن لحمه لا یتغیر وما غذي به یصیر مستہلکا لا یبقی له أثر } (جواب: 46011 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
● کسی جانور کا خون اگرچہ مال متقوم نہیں کہ اس کو فروخت کیا جائے لیکن بسا اوقات عرف کی وجہ سے ضرورت کے تحت ایک غیر مال بھی مال بن جاتا ہے اور فقہاء اسلام نے اس کی بیع کو جائز قرار دیا ہے، مثلاً گوبر وغیرہ تو صورتِ مسئولہ کے مطابق آجکل جانوروں کے خون سے چونکہ فارمی مرغیوں کی خوراک بنتی ہے اور ضرورت کے تحت عموماً اس کا کاروبار ہوتا ہے، اس لئے بناء بر عرف اس کو مال سمجھا جائے گا اور مذکورہ صورت میں تو وہ خون خون ہی نہیں رہتا بلکہ جل کر راکھ بن جاتا ہے، اس لیے جلے ہوئے خون کی تجارت بلا شک و شبہ جائز ہے۔
لما قال العلامۃ ظفراحمد العثمانی رحمہ اللہ:
یہ بیوپار جائز ہے…… ان اقوال کا مقتضاء یہ ہے کہ اگر کسی وقت خون کی قیمت بھی عرفاً ہوجائے تو اس کی بیع وشراء صحیح ہے اور خون کی راکھ تو پاک ہے، اس کی بیع صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔
(امدادالاحکام :٣٥٤،٣٥٥/٣ کتاب البیوع)
(فتاویٰ حقانیہ : ٥٦/٦)
(از فتاوی فریدیہ، عنوان: خون کے جل کر راکھ ہو جا نے پر اس کی تجارت کا حکم)
فارمی مرغی کے انڈے کا شرعی حکم:
کسی بھی جانور کے حلال و حرام ہونے میں اس کی ماں کا اعتبار ہوتا ہے اور یہی حکم اس کے انڈے کا ہے، اگر اس کی ماں حلال ہے تو وہ بھی حلال ہے اور اگر اس کی ماں حرام ہے تو وہ بھی حرام ہے، جب یہ بات واضح ہوگئی کہ فارمی مرغی حلال ہے تو اس کے انڈے بھی حلال ہونگے۔
● حضرت مفتی اعظم ہند مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جانوروں میں بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے، یعنی اگر ماں حلال ہے تو بچہ بھی حلال ہے، اگر ماں حرام ہے تو بچہ بھی حرام ہے، اگر گدھی کے ساتھ گھوڑا وطی کرے اس سے خچر پیدا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حرام ہوگا، اگر گائے کے ساتھ گدھا وطی کرے تو اس سے بچھڑا پیدا ہوا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حلال ہوگا، اب امید ہے کہ امریکن گائے کا سوال اور اس پر اشکال بھی حل ہوجائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
(دارالعلوم دیوبند ١٤٠١/٦/١٠)
● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
مرغی اور اس کے انڈے کا حلال ہونا حدیث سے ثابت ہے (الجامع للترمذي ، حدیث نمبر : ۱۸۲٤ ۔ محشی) اور اس پر امت کا اجماع اور اتفاق ہے (المغنی :١٠١/١ محشی) اس میں کوئی تفریق نہیں کہ نر کے اختلاط کے بعد انڈے ہوئے ہوں، یا اس کے بغیر، اگر تنہا مرغی سے بھی انڈا حاصل ہو تو ظاہر ہے کہ یہ انڈا مرغی کا جزو ہے، پھر اس انڈے سے بچہ ہو تو وہ بچہ بھی اس مرغی کا جزو قرار پایا، اور جب مرغی خود پاک اور حلال ہے تو اس سے حاصل ہونے والے اجزاء سوائے پیشاب، پائخانہ اور خون کے وہ بھی پاک ہونگے، اس لئے جیسے فطری نظام کے تحت ہونے والے انڈے اور بچے حلال ہیں، اسی طرح یہ بھی حلال ہیں۔
(کتاب الفتاوی جلد ٤)
● فتاوی بینات جلد ٤ میں ہے :
جس شبہ کا سائل نے اظہار کیا ہے کہ *باہر ممالک میں مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کی چربی و فضلہ کا استعمال ہوتاہے* تو یہ کئی وجوہ سے حرمت کی وجہ نہیں ہوسکتی :
1- اس وجہ سے کہ مرغیوں کی خوراک میں ان اشیاء کا استعمال قلیل مقدار میں ہوتا ہے، جبکہ دیگر اشیاء غالب ہوتی ہیں اور اعتبار غالب ہی کا ہوتا ہے۔
2- اس وجہ سے کہ مرغیوں کے نجاست کھانے کے بعد اس کی ماہیت اور حقیقت بدل جاتی ہے جس کی بناء پر حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، البتہ اگر نجس غذا کی وجہ سے گوشت میں بدبو پیدا ہوجائے تو گوشت کا کھانا جائز نہیں ہوگا،
کما فی الشامیة :
{تحبس الجلالة حتی یذھب نتن لحمہا وقدر بثلاثة ایام لدجاجة…. ولو أکلت النجاسة وغیرها بحیث لم ینتن لحمها حلت کما حل اکل جدی غذی بلبن خنزیر لان لحمہ لایتغیر وما غذی به یصیر مستہلکا لایبقی له اثر}
(قولہ:حلت) وعن هذا قالوا: لابأس باکل الدجاج لانه یخلط ولا یتغیر لحمه
(الدر المختارمع رد المحتار، کتاب الحظر و الاباحة:٣٤٠،٣٤٢/٦)
{لایکون نجسا…. ولاملح کان حماراً او خنزیرا ولا قذر وقع فی بئر فصار حمأۃ لانقلاب العین وبه یفتی، وفی الشامیة: لان الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومها فکیف بالکل؟۔۔۔ ونظیرہ فی الشرع : النطفة نجسة وتصیر علقة وهی نجسة وتصیر مضغة فتطہر}
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارۃ ،باب الانجاس:۱؍۳۲۵،۳۲۷۔ط: ایچ ایم سعید کراچی)
مرغی کو ذبح کرنے کے بعد چند احتیاط :
مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اگر اس کی آلائش اور گندگی نکالنے سے پہلے کھولتے ہوئے گرم پانی میں اتنی دیر ڈال دیا جائے کہ جس سے اس کی نجاست گوشت میں سرایت کرجائے تو ایسی صورت میں مرغی کا گوشت ناپاک ہوجائے گا اور اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، گویا گوشت کا ناپاک ہونا دو شرطوں کے ساتھ مقید ہے :
1- پانی کا غلیان (جوش) کی حد تک گرم ہونا۔
2- مرغی کو اتنی دیر پانی میں رکھنا کہ نجاست کا اثر گوشت میں سرایت کرجائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مرغی بیچنے والے اس طرح سے مرغیاں ذبح کرتے ہیں کہ جس میں مذکورہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، تو ان کا یہ عمل غیر شرعی ہوگا اور اس طریقے پر جو مرغیاں ذبح کی جائیں گی، ان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔
{قال الحصکفي: وکذا دجاجة ملقاة حالة علی الاء للنتف قبل شقہا – قال ابن عابدین: والعلةُ -اللہ اعلم- تشربها النجاسة بواسطة الغلیان، وعلیه اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس، لکن العلة المذکورة لا تثبت مالم یمکث اللحم بعد الغلیان زمانا یقع فی مثلہ التشرب والدخول فی باطن اللحم- إلخ} (الدر المختار مع رد المحتار: ٥٤٤/١ ط: زکریا)
(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
ناشر : دارالریان کراتشی
………