حلال جانور کے ممنوع اعضاء پتہ سے شوگر کا علاج ؟


حلال جانور کے ممنوع اعضاء پتہ سے شوگر کا علاج ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسئلہ اھم ھے
شوگر کا مریض بکرے کا پتا کھالے تو شفایاب ھوجاتا ھے، دواؤں کی ضرورت نھیں رھتی اور وہ سب کچھ کھاتا پیتا ھے ایسا دعوی ھے استعمال کرنے والوں کا، ایک مسلمان شوگر کا مریض اسے استعمال کرسکتا ھے؟ اور اگر اس کا استعمال حرام ھونے کی وجہ سے ممنوع ھے تو مچھلی کے پتے کا کیا حکم ھے؟ حضرات مفتیان عظام جواب مرحمت فرما کر مشکور و ممنون ھوں ۔
نظامی القاسمی ۔بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
شرعی طریقہ سے ذبح کئے ہوئے حلال جانور (بھیڑ بکری اور اس سے اوپر کے جانور وغیرہ) کے سات اعضا کھانا ممنوع وناجائز ہے۔
حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بکری کے سات اعضاء کھانے کوپسند نہیں کرتے تھے۔
(1) خون
(2) مادہ جانور کی شرمگاہ
(3) خصیتین
(4) غدود
(5) نرجانور کی پیشاب گاہ
(6) مثانہ
(7) پِتَّہ
ان میں اول الذکر قطعا حرام ہے۔ نص قرآنی سے اس کی حرمت ثابت ہے ۔باقی چھ چیزیں طبعا ناپسند وخبیث ہونے کی وجہ سے “و یحرم علیھم الخبائث (الاعراف :۱۵۷) کے عموم میں داخل ہوکے مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہیں۔
روی الأوزاعي عن واصل بن أبي جمیل عن مجاہد قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یکرہ من الشاۃ سبعًا: الدم، والمرارۃ، والذکر، والأنثیین، والحیاء، والغدۃ، والمثانۃ۔ (السنن الکبری للبیہقي ۱۰؍۱۱ رقم: ۱۹۷۰۰- ۱۹۷۰۱، کذا في کتاب الآثار / باب ما یکرہ من الشاۃ الدم وغیرہ ۱۷۹)

ویکرہ من الشاۃ الحیا، وہو الفرج، والخصیۃ، والمثانۃ، والذکر، والمرارۃ، والغدۃ، والدم المسفوح۔ قال الإمام: الدم حرامٌ وأکرہ الستۃ۔ (مجمع الأنہر، کتاب الخنثیٰ / مسائل شتیٰ ۴؍۴۸۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
وکرہ تحریمًا من الشاۃ سبع: الحیاء، والخصیۃ، والغدۃ، والمثانۃ، والمرارۃ، والدم المسفوح، والذکر۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الخنثی / مسائل شتیٰ ۶؍۷۴۹ کراچی)
فالذي یحرم أکلہ منہ سبعۃ: الدم المسفوح، والذکر، والأنثیان، والقبل۔

في ’’مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر‘‘: ویکرہ من الشاۃ الحیا والخصیۃ والمثانۃ والذکر والغدۃ والمرارۃ والدم المسفوح۔ شرح ملتقی الأبحر۔ وفي مجمع الأنہر: (ویکرہ من الشاۃ الحیا) مقصورًا، وہو الفرج (والخصیۃ والمثانۃ والذکر والغدۃ والمرارۃ والدم المسفوح) لما روی الأوزاعي عن واصل بن جمیلۃ عن مجاہد قال: کرہ رسول اللہ ﷺ من الشاۃ الذکر والأنثیین والقبل والغدۃ والمرارۃ والمثانۃ والدم۔ اہـ ۔ (۴/۴۸۹، کتاب الخنثی، مسائل شتی، بیروت)
وفي ’’حاشیۃ الطحطاوي علی الدر المختار‘‘ : وزید نخاع الصلب ۔ اہـ ۔
(۴/۳۶۰، مسائل شتی)
وفي ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : قال أبوحنیفۃ رضي اللہ عنہ: الدم حرام وأکرہ الستۃ وذلک لقولہ عز وجل : {حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر} [البقرۃ : ۱۷۳] الآیۃ ۔ فلما تناولہ النص قطع بتحریمہ ، وکرہ ما سواہ لأنہ مما تستخبثہ الأنفس وتکرہہ ، وہذا المعنی سبب الکراہیۃ لقولہ تعالی : {ویحرّم علیہم الخبائث} [الأعراف : ۱۵۷] ۔ (۶/۴۶۴ ، کتاب الخنثی ، مسائل شتی)
(فتاویٰ محمودیہ:۲۶/۲۱۷، ۲۱۸، میرٹھ، قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا:ص/۶۴، ۶۵)

پتہ کی تھیلی اگر شرعا ذبح کئے حلال جانور کی ہے تو ان کا خارجی استعمال بطور دوا درست ہے۔ اور پتہ کا پانی کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ ماکول اللحم جانور کا پتہ ہے تو امام محمد کے قول کے مطابق وہ پانی بھی پاک ہے بطور دوا اس کا استعمال درست ہے۔
مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری اس مسئلہ پہ تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
اور پتے کے پانی کا حکم اس جانور کے پیشاب کے مانند ہے؛ لہٰذا امام محمدؒ کے ماکول اللحم جانور کے پیشاب پاک ہونے کے قول کی بناء پر ضرورۃً ماکول اللحم جانوروں کے پتہ کا پانی بیچنا اور خریدنا جائز ہوسکتا ہے۔ (مستفاد: بہشتی زیور اختری ۹؍۱۰۶)
وبول ماکول اللحم نجس نجاسۃ مخففۃ وطہرہ محمدؒ۔ (الدر المختار، کتاب الطہارۃ / باب المیاہ ۱؍۳۶۵ زکریا)
اور پتہ کی تھیلی پیشاب کی تھیلی اور عضو تناسل کی بیع کے سلسلہ میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس جانور کو باقاعدہ شرعی طریقہ پر ذبح کیا گیا ہے تو دباغت کے بغیر بھی ان اشیاء کی بیع اور ان کا خارجی استعمال درست ہے، اور اگر باقاعدہ ذبح نہیں کیا گیا تو دباغت کے بعد ان چیزوں کا بیچنا درست ہوگا، اور ان کی آمدنی حلال ہوگی۔ (مستفاد: بہشتی زیور اختری ۹؍۱۰۵)

کتاب النوازل جلد 10 ،صفحہ 244)

مچھلی کا پتہ پاک ہے۔ حلال جانور کے مکروہ اعضا کی طرح مچھلی کے پتہ کا حکم نہیں ہے۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب رقمطراز ہیں:

مچھلی کا خون دَرحقیقت خون نہیں؛ چونکہ وہ خشک ہونے کے بعد سفید ہوجاتا ہے؛ حالانکہ خون خشکی کے بعد سیاہ رہتا ہے، اس لیے خون پر قیاس کرکے پتہ کو بھی پاک کہنا بعید ازقیاس معلوم نہیں ہوتا اور اگر یہ کہا جائے کہ خون پر پتے کوقیاس کرنا اس لیے دُرست نہیں کہ پتہ حرام ہے؛ جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الذبائح، جلد نمبر:۵، صفحہ نمبر:۲۷۱، میں ذکر فرمایا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی حرمت سے اس کی نجاست لازم نہیں، جیسے کہ زہر کا استعمال ناجائز ہے، اس کے باوجود اس وجہ سے وہ نجس نہیں ہوتا؛ اسی طرح پتہ بھی ایک سمیاتی اثرات کا مجموعہ ہے، جوسمیت کی وجہ سے اگر ناجائز ہو تو اس سے اس کی پاکی پر اثر نہیں پڑتا۔
(فتاویٰ عثمانی:۱/۳۵۵، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، یوپی)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور