قرآن وحدیث کے بعد فقہ کی ضرورت

قرآن وحدیث کے بعد فقہ کی ضرورت۔
اختلاف ائمہ کی حیثیت۔ 
ترک وتاویل نصوص کے وجوہ واسباب۔ 
اشاعرہ وماتریدیئین کا اجمالی تعارف

سوال :-     فقہ حنفی کن کے اقوال وفتاوی کو کہتے ہیں؟ سنا ہے فقہ حنفی میں اکثر فتاوی صاحبین کے قول پہ ہیں۔ تو ہم حنفی کیوں کہلاتے ہیں؟ صاحبین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف کیوں کیا؟
جواب :-      فقہ حنفی ہی نہیں، بلکہ تمام دبستان فقہ، جو کسی امام کی طرف منسوب ہیں دراصل ایک شخص کی ذاتی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ وہ اس شہر کے علماء وفقہاء کی آراء کا ترجمان ہے۔فقہ حنفی کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔؛یعنی فقہ حنفی  بھی صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول وفتوی کا نام نہیں۔
آنجناب کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فقہ حنفی میں اکثر فتاوی صاحبین کے قول پر ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  نے تدوین فقہ کے لئے علماء وفضلاء کی ایک کمیٹی قائم فرمائی تھی۔ آپ اس کمیٹی کے صدر تھے۔ ان تمام علماء وفضلاء کی موجودگی میں استنباط واستخراج کا یہ مہتم بالشان کام انجام پایا جسے ہم “فقہ حنفی” کہتے ہیں۔ ان علماء وفضلاء کی تعداد سینکڑوں سے لے کر ہزاروں تک تھی۔ لیکن ان میں چالیس علماء خصوصی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اور مختلف علوم وفنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے۔ امام شعرانی رحمہ اللہ نے “المیزان” میں اس کمیٹی کے طرز استدلال کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ علامہ شامی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو امام ابوحنیفہ اپنے تمام اصحاب علم وفن سے مشورہ، بحث ومباحثہ اور تبادلہ خیالات فرماتے۔ پہلے ان سے کہتے کہ جو کچھ ان کے پاس حدیث اور اقوال صحابہ کا ذخیرہ ہے وہ پیش کریں۔ پھر اس کے بعد امام صاحب اپنا ذخیرہ حدیث سامنے رکھتے۔ تاآنکہ بات طے پاتی۔ اور امام ابو یوسف اسے قلمبند کرتے۔ اسی شورائی طریقے پر سارے اصول منضبط ہوئے۔ ایسا نہیں ہوا کہ امام صاحب نے تنہا کوئی بات کہی ہو۔ ایک ایک مسئلہ پہ مہینوں بحث جاری رہتی۔ ہر پہلو پہ اعتراضات واشکالات پیدا کئے جاتے۔ ہر کوئی اپنے فہم سے جواب دیتا۔ جب ہر جانب اور گوشہ سے اطمنان ہوجاتا تب جچے تلے الفاظ میں درج رجسٹر کرلیا جاتا۔ اگر فقہ حنفی کسی فرد واحد کی بات ہوتی تو اس میں غلطی کا احتمال تھا۔ جہاں چالیس، چالیس جید ماہرین فن علماء  ہوں اور پوری سنجیدگی اور دیانتداری سے مہینوں تک ایک ایک اصل پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ کی روشنی میں بحث وتمحیص ہو تو غلطی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟
پھر بھی بتقاضائے بشریت استنباط میں لغزشوں کا صدور ممکن تھا۔ اس لئے اس کامل حزم واحتیاط کے باوجود  صدر مجلس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اعلان فرمادیتے تھے کہ اگر کسی مسئلہ کا کتاب وسنت کے خلاف ہونا ثابت ہوجائے تو ہر مسلمان کو کامل اختیار ہے بلکہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ اسے ترک کردے اور صراحت کے ساتھ حدیث سے جو مسئلہ ثابت ہوتا ہو اس پر عمل کرے۔ عقود رسم المفتى 17.
اسی پر بس نہیں، انہوں نے اپنے تلامذہ کو حکم دے رکھا تھا کہ تم خواہ مخواہ کسی ایک بات پر جم نہ جانا، بلکہ کسی ایک مسئلہ میں کوئی وزن اور قابل اعتماد دلیل شرعی مل جائے تو پھر اس کو اختیار کرنا اور اس کا دوسروں کو حکم دینا۔ اذاصح الحديث فهو مذهبي .
اس لئے کہ مقصد کتاب وسنت اور اقوال صحابہ پر عمل ہے۔ اپنی بات پر ضد اور اپنے فہم کی اشاعت پیش نظر نہیں۔
(ميزان شعرانی 50/1 )
چنانچہ آپ کے تلامذہ نے اس قول کی اہمیت محسوس کی، اور جہاں کہیں کسی مسئلہ میں دلائل وبراہین کی روشنی میں شبہ پیدا ہوا اسے ترک کردیا اور کتاب وسنت کے دائرہ میں جو دوسری صحیح صورت حال نظر آئی، اس پر عمل کیا۔ چنانچہ آپ کے شاگردوں نے بیسیوں مسائل میں دلائل اور اپنے فہم کی بنیاد پر اپنے استاذ سے اختلاف کیا۔۔۔ پھر حضرات صاحبین کا اپنے استاذ وامام  سے اختلاف، اصول میں نہیں تھا! اصول وضوابط میں تو وہ بھی امام صاحب کے مقلد ہیں۔ صرف فروعات میں دلائل وفہم کی بنیاد انھوں نے اختلاف کیا ہے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ صاحب مذہب کے زمانہ میں مسائل و حالات دوسرے تھے۔ مرور زمانہ کے ساتھ تقاضے اور چیلنج بھی بدل گئے۔ لہذا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے وضع کردہ اصول کی روشنی میں  حالات وزمانے کے لحاظ سے جزئیات وفروعات کا استنباط خود وقت کا تقاضہ تھا۔ اور بعد کے زمانے میں بھی قیامت تک یہ راہ کھلی رہے گی۔
امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ نے اس عظیم الشان کام کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ فقہ حنفی کی موجودہ صورت کی تخم ریزی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی نے کوفہ میں ڈالی تھی۔ جس کی نسل بہ نسل علقمہ، ابراہیم اور حماد نے آبیاری کی۔ اور اپنے اجتہادات کے ذریعہ اس میں اضافہ کرتے رہے۔ پھر اس سرمایہ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے پورے تفحص و تنقیح کے بعد مرتب کروایا ۔۔۔۔ امام ابو یوسف نے پورے علاقہ مشرق میں اس کو رواج دیا اور امام محمد نے ان دفینوں کو سینوں میں محفوظ فرمایا۔ اسی کو لوگوں نے استعارہ کی زبان میں اس طرح کہا ہے:
“ابن مسعود نے فقہ کی کاشت کی، علقمہ نے سیراب کیا، ابراہیم نے کاٹا، حماد نے دانے الگ کئے۔ابوحنیفہ نے پیسا، ابو یوسف نے گوندھا، محمد بن الحسن نے روٹی پکائی اور تمام لوگ اس روٹی سے کھا رہے ہیں۔
سوال :-    کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے آثار امت کی دینی ضروریات واحکام کی رہبری سے قاصر وناکافی ہیں؟ کہ فقہ اور اس کی طویل ترین کتابیں وفتاوی کے ہم محتاج ہوں؟
یعنی اب تو احادیث و آثار مدون ہوکے کتابی شکل میں ہر جگہ دستیاب بھی ہیں تو پھر ان کے ہوتے ہوئے فقہ کی حیثیت اور ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟
جواب  :-  قرآن وحدیث میں قیامت تک پیش آنے والے جزئیات وفروعات  ہر دور کے جدید پیش آمدہ مسائل و تقاضے   تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کئے گئے، ورنہ اتنی طویل ہدایات کا تحمل انسان کے لئے مشکل ترین امر ہوجاتا! 
اس لئے انسانی ہدایت کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ قرآن وحدیث میں بنیادی طور پہ اصول ذکر فرمادیئے گئے ہیں اور امت میں اجتہاد کی صلاحیتوں سے مالا مال افراد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تخریج واستنباط کرکے نئے پیش آمدہ مسائل کے احکام متعین کریں اور اجتہاد کی صلاحیت سے محروم عوام الناس کو یہ حکم کیا گیا کہ وہ واقف کاروں سے مسائل معلوم کرکے عمل کیا کریں۔
مجتہدین امت نے جب استخراج واستنباط کی محنت شروع فرمائی تو اس کے لئے تین مصادر؛ 
1. کتاب اللہ، 
2. سنت رسول اللہ اور 
3. اجماع امت کو بنیاد بنایا اور 
4. نئے پیش آمدہ تقاضے کے مطابق ان تینوں مصادر سے مستفاد “قیاس” (فقہ) کو چوتھا ماخذ قرار دیا۔
انہی چار بنیادوں پہ پورے احکام شریعت کا مدار ہے۔ اور اس پہ تمام امت کا اجماع ہے۔
نیز تدوین فقہ کی ضرورت اس لئے بھی محسوس کی گئی کہ اسلامی فتوحات کے پوری دنیا میں پھیل جانے اور عرب وعجم کے اختلاط نے نت نئے مسائل کھڑے کئے۔ مزاجوں میں تیزی سے انقلاب آیا۔ ایران وروم اور دیگر عجمی ممالک کی سہل پسندی عام ہوگئی۔ لوگ اپنے اپنے کاروبار، زراعت وکھیتی اور دیگر شعبہائے زندگی میں منہمک ہوگئے، اسلام کی خاطر جد وجہد اور قربانی کا جذبہ کم ہوتا جارہا تھا۔سب کے پاس نہ وقت بچا اور نہ ہی ممکن رہا کہ ہر شخص اپنے اپنے کاموں میں انہماک کے ساتھ ساتھ احادیث واثار سے احکام  ڈھونڈ نکالے۔
اس لئے حالات کا تقاضہ ہوا کہ کتاب وسنت کی تعلیمات واحکام ایک نئے انداز سے مرتب ہوں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال تلاش کئے جائیں اور دین کا سارا ذخیرہ سامنے رکھ کر “نظام حیات ” کی ترتیب ایسے جاذب نظر اور دلکش انداز میں دی جائے کہ جسے عالم وجاہل، ذہین وغبی، عربی وعجمی، اور شہری  و دیہاتی ہر ایک بآسانی سمجھ لے۔ اور جو مسائل قرآن وحدیث واقوال صحابہ میں صراحتہ مذکور نہیں، وہ ائمہ مجتہدین کے باہمی غور وتدبر اور بحث وتمحیص سے مستنبط ہوں تاکہ عجلت پسند اور سہل طبعیت لوگ بھی تلاش وتجسس کی مشقت سے بچ کے کتاب وسنت پہ عمل پیرا ہوسکیں۔اسی ضرورت کے لئے فقہ کی تدوین عمل میں آئی۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ضرورت کا ادراک فرماکر فقہ کو مدون کیا اور اسے اس طرح باب اور فصل وار مرتب کیا جس طرح آج اس کی مرتب شکل پائی جاتی ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے لوگوں کے اجتہاد واستنباط کا مدار حافظہ پہ تھا۔ کتابی شکل میں کسی کا اجتہاد واستنباط مرتب نہیں تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “موطا مالک” امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس طریقہ کی پیروی کی ہے۔ (خیرات الحسان، صفحہ 31 )
فقہ کی حیثیت صرف مظہر احکام کی ہے، مثبت کی نہیں، یعنی جس طرح زمین کی تہ میں موجود پانی کو پمپ کے ذریعہ ظاہر اور حاصل کیا جاتا ہے، پانی نکالنے والا پانی کا خالق نہیں۔اسی طرح قرآن وحدیث کے احکام خفیہ مستنبطہ (فقہ ) کو مجتہدین امت نے صرف ظاہر کئے ہیں۔مجتہدین ان احکام کے خالق نہیں وہ صرف مظہر ہیں، فقہ ان کی خانہ ساز کوئی چیز نہیں ہے۔
سوال :-   قرآن وحدیث سے مستنبط مسائل کی تدوین فقہ کی شکل میں اگر ضروری ہی تھی تو پھر چاروں فقہ کی پیروی ہی ضروری کیوں ہے؟
جواب :-  منجانب اللہ ان چاروں کو مقبولیت عطا ہوئی اور یہ چاروں فقہ مکمل، مرتب اور مدون شکل میں موجود ہیں۔ دوسرے فقہ مرتب ومدون شکل میں محفوظ نہیں رہے، بصورت دیگر ان کی پیروی بھی کی جاتی!
سوال :-   چاروں ائمہ متبوعین کے مابین اختلاف کیوں ہوا؟  کیا یہ فرقہ بندی نہیں؟
جواب  :-  ہر آدمی کا ذہن اور فہم یکساں نہیں، فہم  وفراست میں تفاوت ہونا فطری امر ہے، جیسے قانون دانوں میں قانون کی تشریح وتوضیح میں اختلاف ہوتا ہے حالانکہ ہر ملک کے آئین ودستور کی کتاب ایک ہی ہوتی ہے لیکن کوئی وکلاء اور ججوں کے اختلاف فہم کو برا نہیں کہتا،
اسی طرح قرآن وحدیث کی مراد سمجھنے میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین بھی اختلاف ہوا تھا۔ بخاری جلد دوم صفحہ 591  میں “باب مرجع النبي من الأحزاب”  کے تحت حدیث مذکور ہے جس میں بنو قریضہ میں عصر پڑھنے اور نہ پڑھنے کی بابت مراد رسول سمجھنے میں صحابہ کا اختلاف ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک فریق پر بھی نکیر نہ فرمائی بلکہ دونوں کی تحسین فرمائی، جس سے پتہ چلا کہ خواہشات نفس کی وجہ سے دین میں اختلاف کرنا فرقہ بندی ہے ۔۔ منشاء خدا اور مراد رسول سمجھنے میں رائے کا اختلاف فرقہ بندی نہیں بلکہ عین رحمت ہے۔
سوال :-  چاروں ائمہ مجتہدین کے مذاہب الگ الگ ہیں۔ ان میں سے کس کو اختیار کیا جائے؟  بیک وقت چاروں کی پیروی ممنوع کیوں ہے ؟
جواب :-  چاروں فقہی مسالک برحق ہیں ان میں کسی بھی ایک طریقہ کو عمل کے لئے منتخب کرلے۔ بیک وقت چاروں کی پیروی کرنے سے نفس بے قید ہوجائے گا۔ اور جس مسلک کا جو مسئلہ خواہش نفس کے موافق ہوگا، اس کو اختیار کرلے گا اور ظاہر ہے یہ اتباع شریعت نہیں بلکہ اتباع ہوی ہے۔لہذا عامی کے لئے کسی بھی ایک کی پیروی لازم ہے تاکہ شریعت پر عمل بھی ہو، سہولت بھی۔یکسوئی بھی اور نفس کی بے قیدی سے امن بھی۔
سوال :-     مفتی بہ اقوال کسے کہتے ہیں؟
جواب :-  امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ باضابطہ تالیف وتصنیف میں مشغول نہ ہوسکے۔البتہ ان کے شاگرد امام محمد نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنے دونوں اساتذہ کے علوم کو اپنی تالیفات میں جمع فرمایا۔ اور پورے فقہ حنفی کے مسائل کو کتاب وار اور فصل وار  مدون فرمایا۔ چنانچہ فقہ حنفی کی بنیاد زیادہ تر امام محمد کی تالیفات میں جمع فرمودہ روایات ومسائل پر ہے۔
مسائل حنفیہ کے تین طبقات ہیں:
1۔۔۔۔ ظاہر الروایہ ؛ یہ امام محمد کی کتب ستہ : مبسوط، زیادات، جامع صغیر، جامع کبیر، سیر صغیر اور سیر کبیر  کی روایتوں کو کہا جاتا ہے۔۔مسائل حنفیہ کا یہ درجہ سب سے اعلی واقوی ہے اور اس کی سند مذہب حنفی میں مشہور ومعروف ہے۔ انہی کتابوں کے مسائل کو “مفتی بہ اقوال” کہا جاتا ہے۔
استفادہ کی سہولت کی خاطر امام ابوالفضل محمد بن محمد الشہیر بالحاکم الشہید المروزی البلخی المتوفی سنہ 334 ھجری نے “الکافی” کے نام سے امام محمد کی مذکورہ چھ کتابوں کا خلاصہ تیار کردیا۔ جو فقہ حنفی میں کافی معتمد سمجھی جاتی ہے۔
پہر “الکافی” کی مختلف شروحات لکھی گئیں۔سب سے مشہور اور قابل قدر  شرح شمس الائمہ سرخسی کی مبسوط ہے جو طبقہ فقہاء میں  “مبسوط سرخسی” کے نام سے معروف یے۔
2۔۔۔۔ غیر ظاہر الروایہ/ روایةالنوادر ۔۔۔۔ اس میں امام محمد کی دیگر تصنیفات ،مثلا؛
کیسانیات، ہارونیات، جرجانیات، رقیات۔ امام ابو یوسف کی امالی،  یا حسن بن زیاد کی روایت ہے۔
3۔۔۔۔۔ الفتاوی والواقعات ۔
سوال :-  ماتریدی کون ہیں؟ احناف فقہ میں حنفی ہیں لیکن عقائد میں حنفی کی بجائے ماتریدی کیوں؟
جواب :-  امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ قرآن وحدیث سے استنباط واستخراج مسائل میں ہمہ تن انہماک واشتغال کی وجہ سے فن حدیث، اسی طرح فن کلام کی طرف خاطر خواہ توجہ مبذول نہیں کرسکے لیکن پھر بھی ان دونوں علوم میں آپ کی بیش بہا نقوش موجود ہیں۔ الفقہ الاکبر اور مسند ابی حنیفہ اس سلسلہ کی کڑی ہے۔
آپ کے بعد آپ کے تلامذہ واصحاب؛ مثلا ابو یوسف، محمد  اور امام زفر وغیرہ نے بھی عقائد وعلم کلام کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ۔۔ ان کے علاوہ جو علم کلام پہ وسیع ترین پیمانے پہ کام ہوا ہے، اس کے لئے امام ابوحنیفہ کے ہی دو شاگرد؛ امام ابوالحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتریدی زیادہ مشہور ہوئے۔
امام ابوالحسن اشعری متوفی سنہ 324ھ  صاحب “الجوھر المضیئہ” کی صراحت کے بموجب حنفی المذہب تھے۔ فروعی مسائل میں متشدد نہ تھے۔فقہ المذاہب پہ آپ کی وسیع نظر تھی۔ اس لئے تمام مجتہدین کی  تصویب کرتے تھے۔ آپ نے تمام مجتہدین کے اصول وعقائد کی معرفت و تحقیق کرکے اہل سنت والجماعت  کے متفقہ عقائد کی بنیاد ڈالی اور اس کے لئے بکثرت کتابیں لکھیں۔سنہ 324ھ میں انتقال فرمایا، اور بغداد کے محلہ مشرع الزوایا میں مدفون ہوئے ۔
اسی زمانے میں ماوراء النہر کے علاقہ میں ایک دوسرے عالم اور متکلم امام ابو منصور ماتریدی  علم کلام اور عقائد اسلام کی طرف توجہ کی ۔۔۔۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تین واسطوں سے شاگرد تھے۔ شیخ ماتریدی پکے حنفی المذہب اور بڑے متوازن دماغ کے آدمی تھے ۔۔۔ معتزلہ سے برسرپیکار رہنے کی وجہ سے امام ابوالحسن اشعری کے علم کلام میں بعض ا نتہاء پسندانہ باتیں آگئی تھیں اور بعد کے اشاعرہ نے معاملہ کو اور آگے بڑھادیا۔
امام ابو منصور ماتریدی نے اسے حشو وزوائد سے پاک کردیا اور اہل سنت والجماعت کے علم کلام کی مزید تنقیح وتہذیب کی، نیز اس کو زیادہ معتدل اور جامع بنا دیا۔ ابو منصور اور ان کے متبعین کا یہ اختلاف جزئی اور محدود تھا۔۔۔ماتریدئیین نے اشاعرہ سے جن مسائل میں اختلاف کیا ان کی تعداد 12 یا بقول بعضے 30 یا 40 سے زیادہ نہیں تھی، اور ان میں بھی بیشتر اختلاف لفظی تھا۔
شیخ ماتریدی بہت بڑے مصنف تھے۔ معتزلہ اور روافض کی رد میں آپ کی بڑی فاضلانہ تصانیف ہیں۔ آپ کی کتاب “تاویلات القرآن” اپنے موضوع پر بڑی فاضلانہ اور جلیل القدر تصنیف ہے۔ جس سے آپ کی قابلیت اور اعلی درجہ کی ذکاوت کا اندازہ ہوتا ہے۔
علم کلام کے دونوں بانی حنفی المذہب تھے لیکن ان کے ظہور وشیوع کے بعد ائمہ ثلاثہ؛ امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ واصحاب اشعری مشہور ہوئے۔ اور امام ابوحنیفہ کے اصحاب وتلامذہ  ماتریدی سے۔
سوال :-  مذہب غیر پر عمل کرنے کی گنجائش کس حد تک ہے؟
جواب :-  عام حالتوں میں اپنے معین مذہب سے خروج کرنا اور دیگر فقہی مذاہب میں پائی جانے والی سہولتوں کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اظطراری اور ناقابل برداشت داعیہ کے وقت مذاہب اربعہ کے دائرہ میں رہتے ہوئے اہل بصیرت ارباب افتاء کے اجماعی فیصلہ کی بنیاد پر مذہب غیر پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے خرق اجماع لازم نہ آتا ہو۔۔۔۔
ان شرائط کے بعد رخصت پہ عمل کرلینے کی وجہ سے تقلید شخصی کا ترک لازم نہیں آتا۔
سوال :-  فقہ حنفی کا کون سا قول قرآن وحدیث کے خلاف ہے؟ احناف احادیث ترک کیوں کرتے ہیں؟ یا خواہ مخواہ کی تاویل کیوں کرتے ہیں؟
جواب  :-  فقہ حنفی کا ایک قول بھی قرآن وحدیث کے خلاف نہیں۔ ہم تو فقہ حنفی کو چاروں فقہی مذاہب کی بہ نسبت سب سے زیادہ قرآن وسنت کے قریب سمجھتے ہیں۔ صرف احناف کی ہی بات نہیں ہے!
چاروں ائمہ متبوعین کو بہت سے مسائل میں بعض نصوص کو ترک کرنا پڑا ہے۔ لیکن یہ ترک’ نعوذ باللہ ۔۔ نصوص کو نظر انداز کرنے کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ کسی تاویل کے پیش نظر انھوں نے بعض نصوص کو لیا اور بعض کو چھوڑا۔
مثلا امام مالک رحمہ اللہ تعارض آثار کے وقت تعامل اہل مدینہ کو فیصل بتاکر مخالف نصوص کی تاویل کرتے ہیں۔۔۔
امام شافعی رحمہ اللہ قیام حجاز کے دوران تعامل اہل حجاز کو ترجیح دے کر مخالف نصوص کی تاویل کرتے تھے، پھر جب مصر وعراق کا سفر ہوا، وہاں ثقہ رواة کے واسطوں سے روایات سامنے آئیں تو اب تعامل اہل حجاز کے مقابلہ میں ان روایتوں کو ترجیح دی۔ اس لئے فقہ شافعی میں قول جدید اور قول قدیم منقول ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عام طور پر حدیث کو اپنے ظاہر پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور متعارض روایات میں ہر روایت کو اپنے مورد تک خاص کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے متبعین کا طریقہ تعارض ادلہ و احادیث کی صورت میں یہ ہے کہ یا تو ان متعارض ادلہ وآثار کو منسوخ مانتے ہیں یا مرجوح، یا اس انداز سے تاویل کرتے ہیں کہ دونوں میں تطبیق ہوجائے اور اور دونوں پر عمل ہوجائے۔ یعنی حضرات احناف سب نصوص کو دو حصوں میں منقسم کرتے ہیں؛
1. اولا قاعدہ کلیہ 
2. ثانیا جزئی واقعات۔
پھر اگر حدیث میں ذکر کردہ کوئی جزئی واقعہ کسی قاعدہ کلیہ سے متعارض ہوتا ہے تو ایسی صورت میں احناف قاعدہ کلیہ کی رعایت زیادہ کرتے ہیں۔ اور جزئی واقعہ کو ایسے معنی پر منطبق کرتے ہیں جو قاعدہ کلیہ کے خلاف نہ ہو۔ ان بنیادوں پر ہم یہ کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کا کوئی قول اصل  میں کتاب وسنت سے معارض نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
شکیل منصور القاسمی
سیدپور ۔بیگوسرائے۔ بہار
١٨\٩\٢٠١٧م