تقلید و اجتہاد


ہم تقلید کو اس طرح مانیں اوراس سے متعلق احکام و عقائد
ہم اجتہاد کو اس طرح مانیں اور اس سے متعلق احکام و عقائد

تقلید کی تعریف: ناواقف آدمی کا کسی جاننے والے پر اعتماد کرکے اس کے قول پر عمل کرنا اور دلیل کا مطالبہ نہ کرنا تقلید کہلاتا ہے۔
عام مسلمانوں میں اتنی استعداد و صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ براہِ راست قرآن و سنت کو سمجھ سکیں، متعارض دلائل میں تطبیق یا ترجیح کا فیصلہ کرسکیں، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ کسی مجتہد کا دامن پکڑیں اور اس کے بیان کردہ مسائل و احکام پر عمل کریں۔
ائمہ مجتہدین بہت سے گذرے ہیں، مگر تقلید صرف چار اماموں، امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے، اس لئے کہ انہی ائمۂ اربعہؒ کے فقہی مذاہب مدون شکل میں محفوظ ہیں اور باقی اماموں کے فقہی مذاہب نہ تو اس طرح مدون شکل میں محفوظ ہیں اور نہ ہی ان مذاہب کے علماء پائے جاتے ہیں کہ بوقتِ ضرورت ان کی طرف مراجعت کی جائے، لہٰذاائمۂ اربعہ میں سے ہی کسی ایک امام کی تقلید واجب ہوگی۔
بر صغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں چونکہ اکثر فقہ حنفی ہی کے علماء پائے جاتے ہیں لہٰذا ان ملکوں میں رہنے والوں پرعموماً فقہ حنفی کی تقلید لازم ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن وسنت کے واضح احکامات میں کسی امام و مجتہد کی کوئی تقلید نہیں ہوتی۔تشریح
تقلید صرف ان مسائل و احکام میں کی جاتی ہے جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہیں ہوتا یا قرآن و سنت کا مطلب سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے یا ان کے ایک سے زائد معنیٰ ہوتے ہیں یا ان کے معنیٰ میں کوئی اجمال یا ابہام ہوتا ہے یا قرآن و سنت یا ان سے نیچے درجہ کے دلائل میں تعارض ہوتا ہے، چنانچہ قرآن و سنت کے وہ احکام و مسائل جو قطعی ہیں یا ان کا حکم واضح ہے کہ ان میں کسی قسم کا کوئی اجمال و ابہام یا تعارض وغیرہ نہیں، ان مسائل میں کسی امام و مجتہد کی کوئی تقلید نہیں ہوتی، مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت اور زنا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت گری اور شراب نوشی وغیرہ کی حرمت میں کسی امام کی تقلید نہیں کی جاتی، ایسے احکامات کے بارے میں براہِ راست قرآن و سنت پر عمل کیا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ قرآن وسنت کے واضح احکامات ہیں۔
تقلید صرف مسائل شرعیہ فرعیہ میں ہوتی ہے، چنانچہ جو احکام شریعت تواتر و بداہت سے ثابت ہیں ان میں تقلید نہیں ہوتی، دین کے بنیادی عقائد میں تقلید نہیں ہوتی، قرآن و سنت کی نصوص قطعی الدلالۃ غیر معارضہ میں بھی تقلید نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تقلید صرف اس غرض کے لئے کی جاتی ہے کہ قرآن و سنت سے جو مختلف المعانی احکام ثابت ہورہے ہیں ان میں سے کوئی ایک معنیٰ متعین کرنے کے لئے اپنی ذاتی رائے استعمال کرنے کے بجائے سلف میں سے کسی صالح مجتہد کی رائے اور فہم پر اعتماد کیا جائے۔تشریح
ظاہر ہے کہ یہ دوسری صورت انتہائی محتاط اور صواب ہے، کیونکہ ائمہ مجتہدین متقدمین کے پاس جو علم و فہم، تقویٰ و للہیت، حافظہ و ذکاوت، دین و دیانت اور قربِ عہدِ رسالت جیسے اوصاف تھے بعد کے لوگوں میں اور بالخصوص آج کے لوگوں میں ویسے اوصاف نہیں ہیں، چنانچہ جو اعتماد ائمہ مجتہدین پر کیا جاسکتا ہے بعد کے لوگوں پر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی آدمی اپنے اوپر ویسا اعتماد کرسکتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تقلید سے قرآن و سنت ہی کی پیروی اور اتباع مقصود ہوتی ہے، تقلید میں مجتہد کی حیثیت شارح کی ہوتی ہے۔تشریح
مقلد اس کی تشریح و تعبیر پر اعتماد کرتا ہے نہ کہ مجتہد کو بذاتِ خود واجب الاطاعت سمجھ کر اس کی اطاعت کرتا ہے، کیونکہ واجب الاطاعت ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اس لئے واجب ہے کہ آپؐ نے اپنے قول و فعل سے احکامِ الہٰی کی ترجمانی فرمائی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ائمہ مجتہدین کو شارع یا معصوم سمجھنا قطعی طور پر غلط ہے۔تشریح
ائمہ مجتہدین کو شارع، معصوم اور انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح خطاؤں سے پاک سمجھنا قطعی طور پر غلط ہے، وہ شارع، معصوم اور خطاؤں سے پاک نہیں ہیں، ان کے ہر اجتہاد میں احتمالِ خطاء موجود ہے، لیکن انہیں خطاء پر بھی اجر ملتا ہے اور وہ اجرِ اجتہاد ہے، خطاء نہ ہو تو دو اجر ملتے ہیں، ایک اجرِ اجتہاد اور دوسرا اجرِ صواب۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اب تقلید مطلق جائز نہیں بلکہ تقلید شخصی ہی واجب ہے۔تشریح
عہدِ صحابہؓ و تابعین میں تقلید مطلق و تقلیدِ شخصی دونوں پر عمل رہا ہے اور دونوں کی بکثرت مثالیں موجود ہیں، اس وقت تقلید کی یہ دونوں قسمیں جائز تھیں، لیکن اب تقلید مطلق جائز نہیں بلکہ تقلید شخصی ہی واجب ہے، یعنی کسی ایک متعین مجتہد ہی کی تقلید کرنا، اس لئے کہ اب اگر تقلید مطلق کو جائز قرار دیا گیا تو چونکہ تقویٰ و خوفِ خدا کا وہ معیار باقی نہیں جو پہلے زمانوں میں تھا، لوگ بجائے شریعت پر عمل کرنے کے اپنی خواہشات پر عمل کریں گے، جس مسئلہ میں جس امام کے قول میں آسانی دیکھیں گے اسی کو اختیار کرلیں گے، اس میں خواہشات کی اتباع ہوگی، شریعت کی پیروی اور اتباع نہیں ہوگی، جبکہ تقلید سے مقصود شریعت کی اتباع ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ائمہ مجتہدین کو بُرا بھلا کہنا، اس تقلیدِ شرعی کو شرکیہ تقلید کہنا اور اجتہاد کی استعداد و صلاحیت نہ ہونے کے باوجود راست قرآن و حدیث پر غلط سلط عمل کرنا ،ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے آدمی اہل السنۃ و الجماعۃ سے خارج ہوجاتا ہے اور اہلِ بدعت و ہویٰ میں داخل ہوجاتا ہے۔

تعریف: اجتہاد اس خاص قوتِ استنباط کا نام ہے جس کے ذریعہ آدمی قرآن و حدیث کے خفیہ و دقیق احکام و معانی اور اسرار و علل کو انشراحِ صدر کے ساتھ حاصل کرلیتا ہے کہ عام لوگوں کی یہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا، نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد ہو سکتا ہے، اجتہاد کے لئے اہلِ اجتہاد ہونا اور اس میں ان تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جو ایک مجتہد کے لئے شرط ہے، مزید یہ کہ اجتہاد میں انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کی راہ اختیار کرنی چاہئے، یعنی تمام اہل اجتہاد مل کر نئے پیش آمدہ مسائل کا حل نکالیں۔(اجتہاد کے شرائط فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں) دلائل
.بند
عقیدہ:
امورِ قطعیہ و اجماعیہ میں اجتہاد نہیں ہوتا اور ایک مجتہد کا اجتہاد دوسرے مجتہد پر حجت نہیں ہوتا۔ دلائل
عقیدہ:
آج کل اجتہاد کے نام پر اباحیت اور تحریفِ دین کو عام کیا جا رہا ہے، اس قسم کی اباحیت قطعاً ناجائز ہے اور اُسے ہرگز اجتہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
تصوف و تزکیہ
ہم تصوف و تزکیہ کےاس طرح قائل ہوں اور اس سے متعلق احکام و عقائد

عقیدہ:
شیوخ اور صوفیاء کرام بہت گزرے ہیں؛ لیکن ان میں چار بزرگ زیادہ مشہور ہیں جن کے سلسلہ میں عام طور پر لوگ بیعت ہوتے ہیں(۱) حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ جن کے سلسلہ کو قادریہ کہتے ہیں(۲) حضرت شیخ معین الدین حسن چشتیؒ جن کے سلسلہ کو چشتیہ کہا جاتا ہے(۳)حضرت شیخ محمد بہاء الدین نقشبندؒ جن کے سلسلہ کو نقشبندیہ کہاجاتا ہے(۴)حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہر وردیؒ جن کے سلسلہ کو سہروردیہ کہاجاتا ہے۔تشریح
مقصدِ تصوف یعنی رضائے الہٰی اور قربِ خداوندی کسی طریقہ میں آسانی اور جلدی سے حاصل ہوجاتا ہے اور کسی طریقہ میں ریاضت و مجاہدہ درکار ہوتا ہے، روحانیت کی ارتقاء میں اگرچہ ان طرق کے افکار و نظریات اور اصول ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر سب کا مطلوب و مقصود ایک ہی ہے اور وہ ہے باطن کا تزکیہ اور حق تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضاء حاصل کرنا۔