موت سے نکاح کے ختم وبقاء کی حقیقت

زوجین کا ایک دوسرے کی تجہیز وتکفین کا مسئلہ
سوال: کیا بیوی کو شوہر غسل دے سکتا ہے ؟؟؟

الجواب: شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیوی غسل بھی دے سکتی ہے اور کفنا بھی سکتی ہے۔ کیونکہ عدت ختم ہونے تک وہ بیوی ہے اسی لئے اس کے لئے نفقہ اور رہائش وغیرہ واجب ہے۔ لیکن اگر بیوی انتقال کرجائے تو چونکہ وہ خود محل نکاح تھی، اب مردہ ہوجانے کی وجہ سے محل نکاح نہ بچی۔ بلکہ اجنبیہ کی طرح ہوگئی۔ اسی لئے اس کی بہن سے شوہر  اب نکاح بھی کرسکتا ہے۔ جب شوہر کے لئے اجنبیہ ہوگئی تو اب شوہر اسے صرف چہرہ ہی دیکھ سکتا ہے نہ غسل دینے کی اجازت ہے نہ بلا حائل چھونے کی۔۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے:
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی الّٰہ علیہ وسلم سئل عن امرأۃ تموت بین رجالٍ، فقال: ’’تُیممَ بالصعید‘‘ ولم یفصل بین أن یکون فیہم زوجہا أو لا یکون۔ ولأن النکاح ارتفع بموتہا فلا یبقی حل المس والنظر؛ کما لو طلقہا قبل الدخول، ودلالۃ الوصف أنہا صارت محرمۃ علی التأبید، والحرمۃ علی التأبید تنافي النکاح ابتدائً وبقائً، وإذا زال النکاح صارت أجنبیۃ فبطل حل المس والنظر۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ / باب المرأۃ تغسل زوجہا ۲؍۳۵)
۔امام شعبی سے منقول ہے:
عن الشعبي قال: إذا ماتت المرأۃ انقطع عصۃ ما بینہا وبین زوجہا، وعنہ قال: لا یغسل الرجل امرأتہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۷؍۱۴۶ رقم: 11091۔11092 )
وإذا کان مع المرأۃ زوجہا لم یحل لہ أن یغسلہا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / الجنائز: غسل المیت ۳؍۱۴ رقم: ۳۶۰۶ زکریا)
ویمنع زوجہا من غسلہا ومسہا لا من النظر إلیہا علی الأصح وہي لا تمنع من ذٰلک۔ (تنویر الأبصار) وقال الشامي: أي من تغسیل زوجہا دخل بہا أو لا کما في المعراج … وفي البدائع: المرأۃ تغسل زوجہا لأن إباحۃ الغسل مستفادۃ بالنکاح فتبقی ما بقي النکاح، والنکاح بعد الموت باق إلی أن تنقضي العدۃ، بخلاف ما إذا ماتت فلا یغسلہا لانتہاء ملک النکاح لعدم المحل فصار أجنبیاً۔ (شامي ۳؍۹۰-۹۱ زکریا، شامي ۳؍۸۵-۸۶ بیروت، مجمع الأنہر ۱؍۲۶۶ مکتبہ فقیہ الأمت، طحطاوي ۳۱۳، بہشتي زیور ۲؍۵۴، امداد الاحکام ۲؍۴۳۶)
حضرت علی کا سیدہ فاطمہ رضی اللہ کو غسل دینا اولا تو ثابت نہیں ہے ۔کیونکہ اس روایت میں سخت کلام ہونے کی وجہ سے قابل احتجاج نہیں ۔کیونکہ حضرت فاطمہ کو غسل حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے دیا تھا۔حضرت علی چونکہ پانی وغیرہ کے انتظامات فرمائے تھے اس لئے ان کی طرف مجازا غسل کی نسبت کی گئی ہے
اور اگر بالفرض اس روایت کو صحیح مان بھی لیاجائے تو یہ حضرت علی کی خصوصیت ہے دوسروں کے لئے اس کا تعدیہ جائز نہیں ہے ۔دلیل خصوصیت یہ ہے کہ حضرت  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے انکار کے جواب میں حضرت علیؓ نے فرمایا، جیسا کہ رد المحتار میں ہے:
أَلَاتَرَى ﴿ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا اعْتَرَضَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ أَجَابَهُ بِقَوْلِهِ: أَمَاعَلِمْت أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّ فَاطِمَةَ زَوْجَتُك فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾ فَادِّعَاؤُهُ الْخُصُوصِيَّةَ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَذْهَبَ عِنْدَهُمْ عَدَمُ الْجَوَازِ۔
(ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز:۲/۱۹۸، مکتبہ سعید۔ شامیۃ:۱/۵۷۶)
(فتاویٰ محمودیہ:۸/۴۹۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۲۵۵، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر سبب اور رشتہ (موت کے بعد) ختم ہوجاتا ہے
لیکن میرا سبب اور رشتہ باقی رہتا ہے۔ اس خصوصیت کی بنیاد پہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو غسل دیا ہے۔
-دعا عمرُ بنُ الخطابِ عَلِيَّ بنَ أَبِي طَالِبٍ فسارَّهُ ثم قامَ عَلِيٌّ فجاءَ الصُّفَّةَ فوجدَ العباسَ وعَقِيلًا والحسينَ فشاوَرَهُمْ في تَزْويجِ عمرَ أمَّ كلثومٍ فغضِبَ عَقِيلٌ وقال يا عليُّ ما تَزيدُكَ الأيامُ والشهورُ والسنونُ إلَّا العَمَى في أمْرِكَ واللهِ لَئِنْ فعلْتَ لَيَكُونَنَّ ولَيَكُونَنَّ لِأَشْيَاءَ عَدَّدَهَا وَمَضَى يجرُّ ثوبَهُ فقال عَلِيٌّ لِلْعَبَّاسِ واللهِ مَا ذَلِكَ مِنْهُ نصيحةٌ ولكنْ دِرَّةُ عُمَرَ أَحْرَجَتْهُ إلى مَا تَرَى أَمَا واللهِ ما ذَاكَ رَغْبَةً فِيكَ يَا عَقِيلُ ولَكِنْ أَخْبَرَني عمرُ بنُ الخطابِ يقولُ سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ كلُّ سبَبٍ ونَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يومَ القيامةِ إلا سَبَبِي ونَسَبِي فضَحِكَ عمرُ وقالَ ويحَ عَقِيلٍ سفيهٌ أحمقُ
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: الهيثمي – المصدر: مجمع الزوائد – الصفحة أو الرقم: 4/274
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح۔
18428 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ [ص: 323] مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَتْنَا أُمُّ بَكْرٍ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنِ الْمِسْوَرِ أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ يَخْطُبُ ابْنَتَهُ فَقَالَ لَهُ قُلْ لَهُ فَلْيَلْقَنِي فِي الْعَتَمَةِ قَالَ فَلَقِيَهُ فَحَمِدَ الْمِسْوَرُ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ أَمَّا بَعْدُ وَاللَّهِ مَا مِنْ نَسَبٍ وَلَا سَبَبٍ وَلَا صِهْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ سَبَبِكُمْ وَصِهْرِكُمْ وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاطِمَةُ مُضْغَةٌ مِنِّي يَقْبِضُنِي مَا قَبَضَهَا وَيَبْسُطُنِي مَا بَسَطَهَا وَإِنَّ الْأَنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي وَسَبَبِي وَصِهْرِي وَعِنْدَكَ ابْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُكَ لَقَبَضَهَا ذَلِكَ قَالَ فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ
مسند أحمد
دنیا میں جس عورت کے متعدد نکاح ہوئے ہوں وہ جنت میں سب سے آخر والے شوہر کو ملے گی یا جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اس کو ملے گی ۔
جنتی مرد کو جنت میں پانچ سو حور عین ،چار ہزار باکرہ اور آٹھ ہزار ثیبہ ملیں گی۔
عن عبد اللہ بن أبي أوفى، قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «إن الرجل من أهل الجنة ليزوج خمس مائة حوراء، وأربع آلاف بكر، وثمانية آلاف ثيب، يعانق كل واحدة منهن مقدار عمره في الدنيا». (البعث والنشور للبيهقي:۱؍۲۲۴،باب ما جاء في صفة حور العين، والولدان، والغلمان،رقم الحدیث:۳۷۳،ت: الشيخ عامر أحمد حيدر،ط: مركز الخدمات والأبحاث الثقافية-بيروت٭الترغيب والترهيب -المنذري:۶؍ ۵۳۲،ط: دار إحیاء التراث العربي )
ان ہزاروں حور عین کے ساتھ دنیا والی بیوی بھی ملے گی۔ یہ تعلق بقاء نکاح کی وجہ سے نہیں بلکہ جنت میں از سر نو حل استمتاع ( نکاح ) ثابت ہوگا۔دنیا میں حل استمتاع کے اثبات کے لئے ایجاب وقبول ، شاہدین ، مہر وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ جنت میں ان کے بغیر ہی حل تمتع ( نکاح  ) ثابت ہوگا ۔آدم کا نکاح حوا سے جنت میں اسی طرح ہوا تھا ۔جنتیوں کا حوروں یا اپنی بیوی سے نکاح بھی اسی طرز پہ ہوگا۔
أيُّما امرأةٍ تُوُفِّي عنها زوجها ، فتزوَّجَتْ بعدَهُ ، فِهِي لآخِرِ أزواجِها
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني – المصدر: صحيح الجامع – الصفحة أو الرقم: 2704
خلاصة حكم المحدث: صحيح
خطَب مُعاوِيةُ بنُ أبي سُفيانَ أُمَّ الدَّرداءِ بعدَ وفاةِ أبي الدَّرداءِ فقالت أُمُّ الدَّرداءِ إنِّي سمِعْتُ أبا الدَّرداءِ يقولُ سمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ أيُّما امرأةٍ تُوفِّي عنها زوجُها فتزوَّجَتْ بعدَه فهي لآخِرِ أزواجِها وما كُنْتُ لأختارَكَ على أبي الدَّرداءِ فكتَب إليها مُعاوِيةُ فعليكِ بالصَّومِ فإنَّه مَحْسَمةٌ
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الطبراني – المصدر: المعجم الأوسط – الصفحة أو الرقم: 3/275
خلاصة حكم المحدث: لم يروه عن أبي بكر إلا الوليد
…..
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور کی جنازہ ازواج مطہرات نے پڑھی تو آج عورت اپنے شوہر کا جنازہ کیوں نہیں پڑھ سکتی؟
الجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازواج مطہرات کے بستروں پہ وحی کا نزول ہوتا تھا ۔۔۔خیر کا زمانہ تھا۔ اس لئے اس زمانہ میں عورتیں مسجد کی جماعتوں میں شریک بھی ہوتی تھیں
اور حضور کے جنازہ میں مردوں کے بعد عورتیں بھی جنازہ پڑھیں ۔
1628 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَحْفِرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثُوا إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَكَانَ يَضْرَحُ كَضَرِيحِ أَهْلِ مَكَّةَ وَبَعَثُوا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ وَكَانَ هُوَ الَّذِي يَحْفِرُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَكَانَ يَلْحَدُ فَبَعَثُوا إِلَيْهِمَا رَسُولَيْنِ وَقَالُوا اللَّهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ فَوَجَدُوا أَبَا طَلْحَةَ فَجِيءَ بِهِ وَلَمْ يُوجَدْ أَبُو عُبَيْدَةَ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص: 521] قَالَ فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ جِهَازِهِ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا النِّسَاءَ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا الصِّبْيَانَ وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ لَقَدْ اخْتَلَفَ الْمُسْلِمُونَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُحْفَرُ لَهُ فَقَالَ قَائِلُونَ يُدْفَنُ فِي مَسْجِدِهِ وَقَالَ قَائِلُونَ يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ قَالَ فَرَفَعُوا فِرَاشَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ فَحَفَرُوا لَهُ ثُمَّ دُفِنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ اللَّيْلِ مِنْ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ وَنَزَلَ فِي حُفْرَتِهِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَقُثَمُ أَخُوهُ وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَوْسُ بْنُ خَوْلِيٍّ وَهُوَ أَبُو لَيْلَى لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَحَظَّنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ عَلِيٌّ انْزِلْ وَكَانَ شُقْرَانُ مَوْلَاهُ أَخَذَ قَطِيفَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَدَفَنَهَا فِي الْقَبْرِ وَقَالَ وَاللَّهِ لَا يَلْبَسُهَا أَحَدٌ بَعْدَكَ أَبَدًا فَدُفِنَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ
سنن إبن ماجة. كتاب الجنائز
اس کے باجود حضور نے جمعہ اور جماعتوں میں گھر کے کونہ کو ان کے لئے افضل قرار دیا ہے
اللہ نے بھی قرآن میں گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے  “وقرن فی بیوتکن” الآیہ۔۔۔۔
عورتوں کے ستر کا لحاظ کرکے اور خوف فتنہ کی وجہ سے حضرت عمر کے زمانہ سے ہی عورتوں کو جماعتوں میں شریک ہونے کو بہتر نہیں سمجھا جاتا۔۔۔۔اس کے علی الرغم اگر عورت شوہر کے جنازہ میں شریک ہوگئی تو اس سے نماز جنازہ کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا صرف ایسا کرنا مکروہ ہے
فی البحر الرائق(۱۸۰/۲): وأما مایفسدھا فما أفسد الصلاۃ أفسدھا الاالمحاذۃ…
وفی جوھر النیرۃ(۱۳۰/۱): وان قامت امرأۃ الی جانب رجل لم تفسد علیہ صلاتہ۔
وفی حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح(صـ۲۴۶): (ولا یحضرن الجماعات لمافیہ من الفتنۃ والمخالفۃ) (قولہ ولا یحضرن الجماعات) لقولہ ﷺ ’’صلاۃ المرأۃ فی بیتہا أفضل من صلاتھا فی حجرتہا وصلاتھا فی مخدعھا أفضل من صلاتہا فی بیتہا‘‘۔قال الطحطاوی تحتہ: فالأفضل لھا ماکان استرلہا لافرق بین الفرائض وغیرھا کالتراویح الاصلاۃ الجنازۃ فلا تکرہ جماعتہن فیما لأنھا لم تشرع مکررۃ فلو انفردت تفوتہن۔
(قولہ والمخالفۃ) أی مخالفۃ الأمر لان اﷲ تعالیٰ امرھن بالقرار فی البیوت فقال تعالیٰ وقرن فی بیوتکن وقال ﷺ ’’بیوتہن خیر لھن لوکن یعلمن‘‘
وفی الدرالمختار(۵۶۶/۱): (ویکرہ حضورھن الجماعۃ) ولو لجمعۃ وعیدووعظ (مطلقا) ولو عجوزا لیلا (علی المذھب المفتی بہ لفساد الزمان واستثنیٰ الکمال بحثا العجائز المتفانیۃ۔
وفی الشامیۃ (۵۶۶/۱): (قولہ علی المذھب المفتی بہ) أی مذھب المتاخرین قال فی البحر: وقد یقال ھذہ الفتوی التی اعتمدھا المتأخرون
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں یہ مظنہ نہیں تھا اس لئے ازواج نے شرکت فرمائی۔ اس کی تعمیم مزاج شریعت کے خلاف ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی