شادی: چند مخصوص مسائل


سوال: ان میں کون سے کام حرام ہیں، کونسے حلال اور کونسے مکروہ تحریمی، مکروہ مباح اور کون سے اخلاقی طور پر درست نہیں۔
(۱) حیض کے دوران بیوی کے پستانوں کے درمیان شوہر کا اپنا ذکر رگڑکر منی خارج کرنا اور بیوی کا اپنے شوہر کے ذکر کو پکڑکر منی خارج کرنا۔
(۲) جماع سے پہلے شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنا۔
(۳) شوہر کے کہنے پر بیوی کا صرف رات کو کمرے میں مختصر لباس برا و انڈرویئر پہننا۔
(۴) شوہر اور بیوی کارات کو اکھٹے ننگا ہوکر سونا۔
(۵) بطور جنسی کھیل شوہر کا بیوی یا بیوی کا شوہر کے ہاتھ پاؤں یا آنکھیں باندھ کر جماع کرنا۔
(۶) شوہر کا بیوی کی مقعد یا منہ کے علاوہ جسم کے کسی بھی حصے پر منی خارج کرنا۔
(۷) شوہر اور بیوی کاایک دوسرے کا سارا بدن چاٹنا۔ یا ایک دوسرے کے جسم پر کوئی میٹھی چیز لگاکر چاٹنا۔
(۸) شوہر کا اپنی بیوی یا بیوی کا اپنے شوہر کو سوتا پاکر پیارسے اس کے کا جسم کا بوسہ لینا، ذکر، فرج یا پستان پر ہاتھ پھیرنا۔
(۹) سپاری کے علاوہ بیوی کا شوہر کے ذکر کو منہ میں لے کر چاٹنا شوہر کا بیوی کے فرج کے بیرونی لبوں کواوپرسے چاٹنا اور بظر کو زبان سے اشتعال دلانا جبکہ منی منہ میں نہ جائے۔
Published on: Oct 16, 2011
جواب # 34910
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1804=231-11/1432
(۱) دوران حیض شوہر بیوی کے پستانوں کے درمیان ذکر رگڑکر منی خارج کرسکتا ہے لیکن بلاضرورت ایسا کرنا اچھا نہیں۔
(ب) بیوی کا شوہر کے ذکر کو پکڑ کر منی خارج کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ ولو مکن امرأتہ أو أمتہ من العبث بذکرہ فأنزل کرہ ولا شيء علیہ وفي الشامي تحت قولہ کرہ الظاہر أنہا کراہة تنزیة لأن ذلک بمنزلة ما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین․
(۲) جماع سے پہلے شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے کپڑے اتارنا جائز ہے لیکن پورے کپڑے اتارکر ننگے ہونا بے حیائی ہے۔
(۳) شوہر کے کہنے پر بیوی کا صرف رات کو انڈرویئر اور برا پہننا جائز ہے․․․
(۴) شوہر اور بیوی کا اکٹھے ننگا ہوکر سونا جائز ہے لیکن ایسا کرنا کچھ اچھا نہیں۔
(۵) آپسی رضامندی سے بطور جنسی کھیل شوہر کا بیوی یا بیوی کا شوہر کے ہاتھ پاوٴں یا آنکھیں باندھ کر جماع کرنا جائز ہے۔
(۶) بالارادہ ایسا کرنا تلویث بالنجاست ہے۔
(۷) علاوہ مواقع نجاست کے دوسری جگہیں چاٹنا اگرچہ جائز ہے لیکن ایسا کرنا بہتر نہیں۔
(۸) کوئی حرج نہیں قال أبویوسف سألت أبا حنیفة عن رجل یمس فرج امرأتہ وہي تمس فرجہ لتحرک آلتہ ہل تری بذلک بأسا قال لا: وأرجو أن یعطي الأجر ہندیة․
(۹) یہ جانوروں کا طریقہ ہے، ایسا کرنا مکروہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/34910
……….
سوال # 12008
میں ازدواجی زندگی کے متعلق چند سوالات کرنا چاہتاہوں۔
(۱) جماع کے دوران انزال کے وقت دل ہی دل میں کون سی دعا پڑھی جاتی ہے؟ برائے کرم اردو ترجمہ کے ساتھ بتادیں۔
(۲) میں نے: جنت اور جنت میں لے جانے والے عمل، نامی کتاب میں: اسمائے حسنہ، کے باب میں: المغنی، کے فضائل میں یہ پڑھا ہے کہ: دوران جماع دل ہی دل میں زبان ہلائے بغیر صرف خیال سے اس اسم مبارک کو پڑھنے سے بیوی کے دل میں شوہر کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ تو کیا جماع کے دوران اس طرح کا ورد کیا جاسکتا ہے؟
(۳) حیض کے دنوں میں جب صرف بیوی نے شلوار پہنی ہوئی ہو تو کیا
(الف) شوہر اس کی رانوں کے درمیان جماع کرسکتا ہے؟
(ب) پستانوں کے درمیان جماع کرسکتے ہیں؟
(ج) اور اگر ہاں تو کیا ایسی صورت میں جب شوہر کی منی خارج نہ ہوئی ہو تو کیا پھر بھی شوہر پر غسل فرض ہوجائے گا؟
Published on: May 2, 2009
جواب # 12008
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 602=433/ل
انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھنی چاہیے:
اللّٰہُمَّ لاَ تَجْعَلْ لِّلشَّیْطَانِ فِیْمَا رَزَقْتَنَا نَصِیْبًا
ترجمہ: اے اللہ آپ ہمیں جو بچہ عطا فرمائیں گے اس میں شیطان کا حصہ نہ بنائیں۔
(۲) دوران جماع دل دل میں : المغنی، پڑھ سکتے ہیں۔
(۳) (الف) شلوار کے اوپر سے رانوں کے درمیان سے فائدہ اٹھاسکتا ہے، بغیر شلوار کے فائدہ اٹھانا حرام ہے۔
(ب) مکروہ ہے۔
(ج) فرج کے علاوہ میں ذکر رگڑنے سے انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوگا۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/12008
بیوی کی شرمگاہ چاٹنا
س: سوال یہ ہے کہ بیوی کی شرمگاہ چاٹناجائزہے یانہیں؟
ج: جواب:بیوی کی شرمگاہ کو چاٹنا غیرشریفانہ اورغیرمہذب عمل ہے، میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی غیرمناسب ہے اورنسیان کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ لہذا اس سے حتراز کرنا چاہئے۔ حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
مانظرت اَو مارأیت فرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قط۔
[سنن ابن ماجہ:138،ابواب النکاح، ط:قدیمی]
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی، یا یہ فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سترکبھی نہیں دیکھا۔ اس حدیث کے ذیل صاحب مظاہرحق علامہ قطب الدین دہلویؒ لکھتے ہیں:
ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ ہیں کہ:
نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا سترکبھی دیکھا اورنہ کبھی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ستردیکھا۔
ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہراوربیوی ایک دوسرے کا ستردیکھ سکتے ہیں لیکن آداب زندگی اورشرم وحیاء کا انتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کا سترنہ دیکھیں۔ [مظاہرحق، 3/262، ط: دارالاشاعت کراچی] دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا اتي احدكم اھله فليستتر ولا يتجرد تجرد العيرين
[سنن ابن ماجہ: ابواب النکاح،ص:138، ط: قدیمی کراچی]
جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے توپردے کرے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو۔ (یعنی بالکل برہنہ نہ ہو) مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:بیشک شرمگاہ کاظاہری حصہ پاک ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر پاک چیز کومنہ لگایا جائے اورمنہ میں لیا جائے اور چاٹا جائے۔ ناک کی رطوبت پاک ہے توکیا ناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا، اس کی رطوبت کومنہ میں لینا پسندیدہ چیز ہوسکتی ہے؟ تو کیا اس کو چومنے کی اجازت ہوگی؟ نہیں ہرگزنہیں، اسی طرح عورت کی شرمگاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں، سخت مکروہ اور گناہ ہے……غورکیجئے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے، قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے، درودشریف پڑھا جاتا ہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کو دل کیسے گواراکرسکتاہے؟ [فتاویٰ رحیمیہ، 10/178، ط:دارالاشاعت کراچی] فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%A8%DB%8C%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D9%85%DA%AF%D8%A7%DB%81-%DA%86%D8%A7%D9%B9%D9%86%D8%A7/2015-01-22
کیا میاں بیوی کو یہ جائز ہے کہ ایک دوسرے میں ہیجان پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی فرج (شرمگاہ) چاٹے؟ الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب اللہ سبحانہ وتعالى نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کو باعث راحت وسکون بنایا ہے ۔ [الأعراف : 189] لیکن انکے لیے حدود وقیود بھی مقرر فرمائی ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے لیے باعث راحت بن سکتے ہیں ۔ آج کل فحاشی وعریانی کا دور دورہ ہے اور نوجوان نسل فحش فلموں, سیکسی کہانیوں, شہوانی تصاویر اور جنسی تعلیم کے نام پر لکھی گئی بے حیائی کا پرچار کرتی کتابوں میں یہود ونصارى اور دہریت زدہ معاشروں میں پائی جانے والی گندگی پر مطلع ہوتی ہے اور پھر اسی گند کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے اور اس پر مستزاد کہ اپنے اس قبیح وشنیع فعل کو سند جواز بخشنے کے لیے دلائل بھی تلاش کیے جاتے ہیں ۔ جبکہ دین اسلام طہارت و پاکیزگی کا درس دیتا ہے ۔ اور گندگی و ناپاکی سے بنی نوع انسان کو دور رکھتا ہے ۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیویوں کو مردوں کے لیے کھیتی قرار دیا ہے اور انہیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کہ وہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ اپنی شرمگاہ کو کہیں استعمال نہ کریں ۔ اور پھر جماع کرنے کے ہمہ قسم طریقوں کو جائز وروا رکھا بشرطیکہ صرف اور صرف فرج (شرمگاہ) کے راستہ سے جماع کیا جائے۔ منہ میں جماع کرنا یا دبر میں یا کسی اور راستہ میں جماع کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی بارہ میں سنن ابی داود میں ایک مفصل حدیث بھی موجود ہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ أَوْهَمَ إِنَّمَا كَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ مَعَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ يَهُودَ وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَكَانُوا يَرَوْنَ لَهُمْ فَضْلًا عَلَيْهِمْ فِي الْعِلْمِ فَكَانُوا يَقْتَدُونَ بِكَثِيرٍ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ مِنْ أَمْرِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَأْتُوا النِّسَاءَ إِلَّا عَلَى حَرْفٍ وَذَلِكَ أَسْتَرُ مَا تَكُونُ الْمَرْأَةُ فَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ أَخَذُوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ يَشْرَحُونَ النِّسَاءَ شَرْحًا مُنْكَرًا وَيَتَلَذَّذُونَ مِنْهُنَّ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَهَبَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فَأَنْكَرَتْهُ عَلَيْهِ وَقَالَتْ إِنَّمَا كُنَّا نُؤْتَى عَلَى حَرْفٍ فَاصْنَعْ ذَلِكَ وَإِلَّا فَاجْتَنِبْنِي حَتَّى شَرِيَ أَمْرُهُمَا فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ أَيْ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ يَعْنِي بِذَلِكَ مَوْضِعَ الْوَلَدِ
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھی ہے کہ انصاری لوگ بت پرست تھے اور یہودی اہل کتاب تھے اور انصاری لوگ یہودیوں کو علم میں اپنے سے افضل سمجھتے تھے لہذا بہت سے کاموں میں انکی پیروی کرتے تھے ۔ اور اہل کتاب کے ہاں یہ بات رائج تھی کہ وہ عورتوں کے ساتھ صرف ایک ہی طریقہ سے جماع کرتے تھے اور اس سے عورت زیادہ چھپی رہتی تھی ۔ اور انصاریوں نے بھی ان ہی سے یہ بات اخذ کی تھی اور یہ قریشی لوگ عورتوں سے کھل کر جماع کرتے اور آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر جماع کرتے تو جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصاری عورت سے شادی کر لی تو وہ اپنے طریقے سے اس کے ساتھ جماع کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی بیوی اس بات کا انکار کرتی تھی اور کہتی کہ ہم صرف ایک ہی انداز سے جماع کے قائل ہیں لہذا وہی طریقہ اپناؤ یا مجھ سے دور رہو ۔ حتى کہ انکا معاملہ طول پکڑ گیا اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچا تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی: ” نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ” تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو ان سے جماع کرو ۔ یعنی خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے خواہ لٹا کر یعنی اولاد والی جگہ سے ۔ سنن ابي داود كتاب النكاح باب جامع النكاح (2164) اس حدیث میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جماع کرنے کے تمام تر اسلوب جائز و درست ہیں بشرطیکہ جماع وہاں سے کیا جائے جہاں سے اولاد کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ اور وہ صرف ایک ہی راستہ یعنی فرج کا راستہ ۔ لہذا جنسی ہیجان پیدا کرنے کے لیےبھی میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ منہ میں نہیں لے سکتے ۔ اسکے لیے حلال اور پاکیزہ طریقہ کار اپنائے جائیں ۔ اس بارہ میں تفصیل جاننے کے لیے سوال نمبر 100 سوال نمبر 669 اور سوال نمبر 888 ملاحظہ فرمائیں۔ هذا, والله تعالى أعلم, وعلمه أكمل وأتم, ورد العلم إليه أسلم, والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم, وصلى الله على نبينا محمد وآله وسلم وكتبه أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا الله عنه
http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-517.html