ائمہ اربعہ کے حق پر ہونے کا مطلب

س… عرض یہ ہے کہ مسئلہ تقلید میں بندہ ایک عجیب مشکل کا شکار ہے۔ الحمدلله میں حنفی سنی ہوں، کچھ عرصہ قبل مولانا مودودی کے “مسلم اعتدال” کے بارے میں پڑھتا رہا، ان کی رائے یہ ہے کہ جب چاروں امام حق پر ہیں، تو پھر ہم جس وقت جس کے مذہب پر چاہیں عمل کرلیں، کوئی نقصان نہ ہوگا۔ مثلاً: کبھی رفع یدین کرے، کبھی نہ کرے، کبھی امام کے پیچھے سورة پڑھے، کبھی نہ پڑھے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات واقعی متأثر کن ہے جس کے بعد درج ذیل سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں:

۱:…چاروں امام کے حق پر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ایک امام کے نزدیک امام کے پیچھے قراء ت سختی سے منع ہے، جبکہ دوسرا امام اسے ضروری قرار دیتا ہے، اور نہ پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی، (اسی طرح کے اور دوسرے فرق ہیں جو آپ کے علم میں ہیں)۔

۲:…اگر کوئی شخص کبھی کبھار چاروں اماموں کے مسلک پر عمل کرلے تو کیا حرج ہے؟

۳:…چاروں اماموں کی باتوں پر عمل، کیا قرآن و حدیث پر عمل نہ ہوگا؟

۴:…صرف امام ابوحنیفہ کی تقلید کو ضروری سمجھ کر دوسروں کے مسلک پر عمل نہ کرنے کے کیا دلائل ہیں؟

۵:…عقلی دلائل کے علاوہ چاروں مذہبوں پر عمل نہ کرنے کے شرعی دلائل کیا ہیں؟

۶:…نیز تقلید کی اہمیت بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کریں اور اہل حدیث حضرات جو تقلید کی وجہ سے ہم پر طعن کرتے ہیں، تو ان کی بات کہاں تک درست ہے؟ (آپ کی کتاب اختلافِ امت میں بھی غالباً ان سوالات کے مکمل یا تفصیلی جواب نہیں ہیں)۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کی نماز میں جو فرق ہے تو قرآن و حدیث کے اس سلسلے میں کیا دلائل ہیں؟ کیونکہ اہل حدیث حضرات کی خواتین مردوں کی طرح نماز پڑھتی ہیں اور ہماری خواتین سے یہ لوگ دلیل مانگتے ہیں۔

ج… چاروں اماموں کے برحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ چونکہ چاروں امام شرائطِ اجتہاد کے جامع تھے، اور انہوں نے انسانی طاقت کے مطابق مرادِ الٰہی کے پانے کی کوشش کی، اس لئے جس مجتہد کا اجتہاد جس نتیجہ تک پہنچا اس کے حق میں وہی حکمِ شرعی ہے، اور وہ من جانب اللہ اسی پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ اب ایک مجتہد نے دلائلِ شرعیہ پر غور کرکے یہ سمجھا کہ امام کی اقتداء میں قراء ت ممنوع ہے، لقولہ تعالیٰ: “فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ” ولقولہ علیہ السلام: “واذا قرأ فانصتوا!” وقولہ علیہ السلام: “اذا امن القاری فامنوا!” تو یہ مجتہد ان دلائلِ شرعیہ کے پیش نظر مجبور ہوگا کہ اس سے سختی کے ساتھ منع کرے۔

دوسرے مجتہد کی نظر اس پر گئی کہ نماز میں سورہٴ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی کے لئے ضروری ہے، خواہ امام ہو یا مقتدی، یا منفرد، تو یہ اپنے اجتہاد کے مطابق اس کے ضروری ہونے کا فتویٰ دے گا۔

الغرض ہر مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرنے اور فتویٰ دینے کا مکلف ہے، یہی مطلب ہے ہر امام کے برحق ہونے کا۔

۲:…جو شخص شرائطِ اجتہاد کا جامع نہ ہو وہ اختلافی مسائل میں کسی ایک مجتہد کا دامن پکڑنے اور اس کے فتویٰ پر عمل کرنے کا مکلف ہے، اسی کا نام تقلید ہے، پھر تقلید کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کبھی کسی امام کے فتویٰ پر عمل کرلیا، کبھی دوسرے امام کے فتویٰ پر، یا ایک مسئلے میں ایک امام کے فتویٰ کو لے لیا، اور دوسرے مسئلے میں دوسرے امام کے فتویٰ کو، لیکن آدمی کا نفس حیلہ جو ہے، اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو عام لوگوں کے بارے میں اس کا احتمال غالب ہے کہ اپنے نفس کو جس مجتہد کا فتویٰ اچھا لگے گا، یا جو فتویٰ نفس کی خواہش کے مطابق ہوا کرے گا اس کو لے لیا کرے گا، اس صورت میں شریعت کی پیروی نہیں ہوگی بلکہ ہوائے نفس کی پیروی ہوگی، اس لئے عوام کو خواہشِ نفس کی پیروی سے بچانے اور انہیں شریعتِ خداوندی کا پابند کرنے کے لئے یہ قرار دیا گیا کہ کسی ایک امام کے پابند ہوجائیں۔

اور بعض صورتوں میں اس بے قیدی سے تلفیق لازم آئے گی، جس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے وضو کی حالت میں عورت کو چھوا، یا اپنے عضو مستور کو ہاتھ لگایا، اس نے کہا کہ: میں اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ کے قول کو لیتا ہوں -ان کے نزدیک ان چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا- پھر اس کے بدن سے خون نکلا تو کہا کہ: میں اس مسئلے میں امام شافعی کے قول کو لیتا ہوں کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ تو اس شخص کا وضو بالاجماع ٹوٹ گیا، مگر اس نے بزعمِ خود ایک مسئلے میں ایک امام کے اور دوسرے مسئلے میں دوسرے امام کے قول کو لے کر یہ سمجھا کہ اس کا وضو قائم ہے، ظاہر ہے کہ ایسی تلفیق شرعاً باطل ہے۔

البتہ بعض صورتوں میں اپنے امام مقتداء کے قول کو چھوڑ کر دوسرے امام کے قول کو لینا جائز اور بعض اوقات بہتر ہے، مثلاً: دوسرے امام کے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور یہ شخص کمالِ احتیاط کی بنا پر دوسرے امام کے فتویٰ پر عمل کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال ابھی گزرچکی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مسِ مرأة اور مسِ ذکَر ناقضِ وضو نہیں، دوسرے ائمہ کے نزدیک ناقض ہے، تو کوئی حنفی بہ تقاضائے احتیاط اپنے عمل کے لئے دوسرے ائمہ کے قول کو لے تو یہ ورع و تقویٰ کی بات ہے۔ یا امام شافعی کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اگر کوئی شافعی المذہب اس مسئلے میں حنفیہ کے فتویٰ پر عمل کرے تو یہ ورع و تقویٰ کی بات ہے۔ لیکن جس مسئلے میں دوسرے امام کے قول پر عمل کرنے میں اپنے امام کی مخالفت لازم آتی ہے، وہاں دوسرے کے قول پر عمل کرنا خلافِ احتیاط ہوگا۔ مثلاً: کوئی شخص فاتحہ خلف الامام کے مسئلے میں امام شافعی کے قول پر عمل کرتا ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ مکروہِ تحریمی بلکہ حرام کا مرتکب ہوگا، ایسی حالت میں امام ابوحنیفہ کے مذہب پر عمل کرنے والے کے لئے امام شافعی کے فتویٰ پر عمل کرنا احتیاط نہیں، بلکہ ارتکابِ حرام کا اندیشہ ہے جو ظاہر ہے کہ خلافِ احتیاط ہے۔

اور اسی احتیاط کی ایک نوع یہ ہے کہ ایک شخص اگرچہ درجہ اجتہاد پر فائز نہیں لیکن قرآن و حدیث کے نصوص میں اچھی دسترس رکھتا ہے، شریعت کے اصول و مقاصد اور مبادی پر نظر رکھتا ہے، احکام کے علل و اسباب کی معرفت میں اس کو فی الجملہ حذاقت و مہارت حاصل ہے، اس کا دل اپنے امامِ مقتداء کے کسی مسئلہ پر مطمئن نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقابلے میں دوسرے امامِ مجتہد کا فتویٰ اسے اقرب الی الکتاب والسنة نظر آتا ہے، ایسے شخص کے لئے اس مسئلے میں دوسرے امام کی تقلید کرلینا روا ہوگا، مگر شرط یہ ہے کہ اس دوسرے امامِ مجتہد کے فتویٰ کے تمام شروط و قیود کا لحاظ رکھے، ورنہ وہی تلفیق لازم آئے گی جس کا حرام بالاجماع ہونا اوپر آچکا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ تفقہ اور اجتہاد بڑی ہی نازک اور دقیق و لطیف چیز ہے، ہم ایسے عامیوں کو اس کا ٹھیک ٹھیک سمجھنا بھی مشکل ہے، لہٰذا ہمارے لئے دین و ایمان کی سلامتی اور خود رائی وکج روی سے حفاظت اسی میں ہے کہ “یک در گیرد محکم گیر” پر عمل کریں۔ اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ: “کبھی رفع یدین کرلیا، کبھی نہ کیا، کبھی امام کے پیچھے قراء ت کی، کبھی نہ کی” ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو کبھی یکسوئی نصیب نہ ہوگی، بلکہ ہمیشہ متحیر و متردد رہے گا کہ یہ صحیح ہے یا وہ؟ “پھر کبھی کیا، کبھی نہ کیا” کا کوئی معیار تو اس کے ذہن میں ہونا چاہئے کہ کبھی کرنے کی وجہ کیا تھی؟ اور کبھی نہ کرنے کا باعث کیا ہوا؟ کرید کر دیکھا جائے تو اس کا سبب بھی وہی تردد و تحیر نکلے گا، اور کبھی دل کی چاہت۔ جبکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ چاروں امام اپنے اجتہاد کے مطابق برحق ہیں تو کیوں نہ “یک در گیرد محکم گیر” پر عمل کیا جائے؟

۳:…اختلافی مسائل میں بیک وقت سب پر عمل کرنا تو بعض صورتوں میں ممکن ہی نہیں کہ ایک قول کو لے کر دوسرے کو بہرحال چھوڑنا پڑے گا، اور اگر چاروں کے اقوال پر عمل کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جس مسئلے میں جس کے قول پر چاہا عمل کرلیا یا جب جی چاہا ایک ہی مسئلے میں ایک کے قول پر عمل کرلیا اور جب جی چاہا دوسرے کے قول پر، تو اس کے بارے میں اوپر عرض کرچکا ہوں، بلاشبہ چاروں اماموں کا عمل قرآن و حدیث ہی پر ہے، گو مدارکِ اجتہاد مختلف ہیں، لہٰذا کسی ایک کی باتوں کو عمل کے لئے اختیار کرلینا بھی قرآن و حدیث پر ہی عمل کرنا ہے۔

۴:…کسی ایک امام کی اقتداء کو لازم پکڑنا (خواہ وہ امام ابوحنیفہ ہوں یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد) اس کی ضرورت تو اوپر عرض کرچکا ہوں کہ تشہی اور تلفیق سے دین کی حفاظت ہم عامیوں کے لئے اسی میں ہے۔ یہ دلیل تو تمام ائمہ کی تقلیدِ شخصی کی ہے، اس میں امام ابوحنیفہ کی تخصیص نہیں، مگر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جس امامِ مجتہد کی پیروی کی جائے اس کے اصول و فروع، راجح مرجوح، قوی و ضعیف کا علم ہونا ضروری ہے، پاک و ہند اور افغانستان سے لے کر مشرقِ بعید تک امام ابوحنیفہ کا مذہب عام طور سے رائج رہا، اور ان ممالک میں فقہ حنفی کی کتابوں کا ذخیرہ اور اس مذہب کے ماہرین بہ کثرت رہے، جن سے رجوع کرنا ہر شخص کے لئے آسان تھا، دوسرے ائمہ کے مذاہب کا رواج ان علاقوں میں نہیں تھا، اس لئے ان علاقوں میں امام ابوحنیفہ کی تقلید رائج ہوئی، جیسا کہ بلادِ مغرب میں مالکی مذہب کا عام چرچا رہا، اور دوسرے مذاہب کا رواج وہاں شاذ و نادر کے حکم میں رہا، اس لئے ان علاقوں میں امام مالک کی تقلید متعین ہوگئی۔ الغرض ہمارے علاقوں میں امام ابوحنیفہ کی تقلید اس بنا پر ضروری قرار پائی کہ یہاں فقہ حنفی کے ماہرین موجود رہے، اور بلادِ مغرب میں فقہ مالکی کی تقلید ضروری ٹھہری کہ وہاں اس کے ماہرین موجود تھے، جہاں دوسری فقہ کے ماہرین ہی موجود نہ ہوں وہاں دوسری فقہ پر عمل کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اور اس پر عمل کیسے ممکن ہے؟

۵:…گزشتہ بالا نکات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سوال کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، اس لئے کہ مطلق تقلید یا تقلیدِ شخصی محض عقلی چیز نہیں، بلکہ شریعتِ مطہرہ کی تعمیل کی عملی شکل ہے، اور جو دلائل شریعت کی پیروی کے ہیں وہی ایک عامی کے لئے کسی امامِ مجتہد کی اقتداء کے مثبت ہیں۔ اور آیتِ شریفہ: “فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ” (النحل:۴۳) اور حدیثِ نبوی: “قتلوہ، قتلھم الله، الا سئلوا اذا لم یعلموا، فانما شفاء العیّ السوٴال” (مشکوٰة ص:۵۵، بروایت ابی داوٴد عن جابر، وابن ماجہ عن ابن عباس) میں اسی کا ضروری ہونا ذکر فرمایا گیا ہے۔

۶:…تقلید کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اوپر واضح ہوچکی ہے، اور سچی بات تو یہ ہے کہ جو حضرات تقلید کی بنا پر ہم ضعفا پر طعن کرتے ہیں، تقلید سے ان کو بھی مفر نہیں، کیونکہ ایک عامی آدمی جو قرآن و حدیث کے فہم میں مرتبہٴ اجتہاد پر فائز نہیں، لامحالہ وہ کسی کی مان کر ہی چلے گا، اور مختلف فیہ مسائل میں کسی نہ کسی امامِ مجتہد کی تحقیق پر اعتماد کرنا اس کے لئے ناگزیر ہوگا، مگر ہم ضعفا میں اور ان حضرات میں چند وجوہ سے فرق ہے:

اول:…یہ کہ ہم ایک امامِ مجتہد کی تحقیق پر عمل کرتے ہیں، جس کی امامت اور درجہٴ اجتہاد پر اس کا فائز ہونا تمام اکابرِ امت کو مسلّم ہے (اس کا خلاصہ میں اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم میں قلم بند کرچکا ہوں)، اس کے باوجود ہم دوسرے اکابر ائمہ اور ان کے متبعین کے بارے میں زبانِ طعن دراز نہیں کرتے، بلکہ ان کے حق میں ان کے اجتہاد کو واجب العمل جانتے ہیں۔ اور یہ حضرات اپنے سوا باقی سب کو باطل پرست جانتے ہیں، ان پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں، گویا ان حضرات کے نزدیک عمل بالحدیث کا تقاضا پورا نہیں ہوتا جب تک مقبولانِ الٰہی کی پوستین دری نہ کی جائے اور ان پر گمراہی و باطل پرستی کا فتویٰ صادر نہ کیا جائے․․․!

دوم:…یہ کہ ہم امام ابوحنیفہ کی تحقیق پر عمل پیرا ہیں، جنہوں نے صحابہ کرام کا زمانہ پایا اور صحابہ و تابعین کو دین پر عمل کرتے ہوئے بچشم خود دیکھا۔ اور یہ حضرات اکثر و بیشتر امام بخاری یا شیخ ابن تیمیہ کی تحقیق کو اَولیٰ و راجح سمجھتے ہیں، اور کبھی ان کو بھی چھوڑ کر حافظ ابن حزم کی تحقیقات کو سرمہٴ چشمِ بصیرت سمجھتے ہیں، اب یہ حضرات ہی انصاف فرمائیں کہ صحابہ و تابعین کے دور میں (جس کو حدیث شریف میں خیرالقرون فرمایا گیا ہے) دین پر بہتر عمل ہو رہا تھا یا موٴخر الذکر اکابر کے زمانے میں؟

سوم:…یہ کہ ہم لوگوں کو اپنے عامی ہونے کا اعتراف ہے، اس لئے کسی امامِ مجتہد کی اقتداء دین کی پیروی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ حضرات اس کے باوجود کہ ایک آیت یا حدیث کا ترجمہ کرنے کے لئے بھی اردو تراجم کے محتاج ہیں، اپنے آپ کو عامی ماننے میں عار سمجھتے ہیں اور اپنے کو ائمہ مجتہدین کے ہم پلہ بلکہ ان سے بھی بالاتر سمجھتے ہیں!

بہرحال اہل حدیث حضرات اگر ہم عامیوں پر اس لئے طعن کرتے ہیں کہ ہم اپنے جہل کا اعتراف کرتے ہوئے کسی عالم ربانی اور عالم حقانی کی پیروی کو اتباعِ شریعت کے لئے کیوں ضروری سمجھتے ہیں؟ تو ہم ان کی طعن و تشنیع سے بدمزہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے علم و اجتہاد میں برکت فرمائیں، ہم لوگ بھی انشاء اللہ! اکابر ائمہ کی اقتداء کرتے ہوئے جنت میں پہنچ ہی جائیں گے۔

وہاں پہنچ کر انشاء اللہ! ان طعن کرنے والے حضرات کو بھی کھل جائے گا کہ ان کے طعن و تشنیع کی کیا قیمت تھی․․․؟

۷:…عورت کی نماز کے بارے میں “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” حصہ دوم کے مسئلہ نمبر:۴ میں ضروری تفصیل لکھ چکا ہوں، وہاں ملاحظہ فرمالیا جائے، مگر یہاں ایک نکتہ کا مزید اضافہ کروں گا:

میں نے وہاں تین روایات ذکر کی ہیں، دو مرفوع، ایک خلیفہ راشد حضرت علی کا قول۔ نیز میں نے وہاں یہ بھی ذکر کیا کہ قریب قریب تمام ائمہ اور فقہائے امت، مرد و عورت کی نماز میں (بعض مسائل میں) فرق کے قائل ہیں، جن کی تفصیل ان کی کتبِ فقہیہ سے معلوم ہوسکتی ہے۔

اہل حدیث حضرات جو نماز کے مسائل میں مرد و زن کی تفریق کے قائل نہیں، وہ عموماً احادیث کے عموم سے استدلال کرتے ہیں، جن میں فرمایا گیا ہے کہ رکوع اس طرح کیا جائے، سجدہ یوں کیا جائے اور قعدہ یوں کیا جائے۔ ان حضرات نے ان احادیث کو مرد و عورت کے لئے عام سمجھا اور جن احادیث کا میں نے اوپر حوالہ دیا ان کو ضعیف قرار دے کر مسترد کردیا۔ حالانکہ اگر ان حضرات نے غور فرمایا ہوتا تو انہیں یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ چاروں اماموں نے مرد و عورت کی نماز میں بعض مسائل میں جو تفریق فرمائی ہے اس کا منشا ستر ہے، جس کی طرف میں “اختلافِ امت” میں اشارہ کرچکا ہوں، اور یہ منشا خود احادیثِ صحیحہ میں مصرح ہے، چنانچہ مردوں کے لئے جمعہ اور جماعت کی حاضری کو لازم قرار دیا گیا ہے، لیکن عورتوں کے لئے اسی تستر کی بنا پر ان کا وجوب ساقط کردیا گیا، اور ان کے حق میں: “وبیوتھن خیر لھن” (مشکوٰة ص۹۶) فرمایا گیا، اس لئے جن احادیث میں دونوں کی نماز میں تفریق کا مضمون وارد ہوا ہے وہ اگر ضعیف بھی ہوں تب بھی وہ عمومات کے مقابلے میں لائق ترجیح ہوں گی، کیونکہ عورت کا عورت ہونا خود اس کے تستر کو چاہتا ہے، پھر ائمہ مجتہدین کا بالاتفاق فیصلہ بھی اسی کا موٴید ہے، امام بخاری نے تعلیقاً ام الدرداء رضی اللہ عنہا کا اثر نقل کیا ہے کہ وہ مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہہ تھیں۔ (ج:۱ ص:۱۱۴)

حافظ ابن حجر کی تحقیق یہ ہے کہ: “یہ ام الدرداء صغریٰ ہیں جو تابعیہ ہیں، اور تابعی کا مجرد عمل خواہ اس کے مخالف موجود نہ ہو حجت نہیں۔”

اس کے مقابلے میں مسند امام ابی حنیفہ کی روایت ہے کہ: “حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھی؟ فرمایا: پہلے چار زانو بیٹھتی تھیں، پھر انہیں حکم دیا گیا کہ سمٹ کر بیٹھا کریں۔” (لامع الدراری ج:۱ ص:۳۳۱)

ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی خواتین کا عمل جو حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت تھا، ام الدرداء صغریٰ تابعیہ کے عمل سے اَولیٰ اور انسب ہوگا، اور چونکہ اس حکم اور عمل کا منشا وہی تستر تھا، اس لئے اس علت سے مردوں اور عورتوں کی نماز میں تفریق دوسری جزئیات میں بھی ثابت ہوجائے گی، جو مذکورہ بالا احادیث میں مصرح ہیں، اور ائمہ اربعہ کے درمیان متفق علیہا بھی ہیں۔ وبالله التوفیق، والله اعلم وعلمہ اتم واحکم!

انبیاء کرام کے فضلات کی پاکی کا مسئلہ

س… ہماری مسجد میں گزشتہ جمعہ میں ایک خطیب صاحب نے اپنے وعظ میں یہ فرمایا تھا کہ: ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پیشاب کرکے ایک صحابی کو دیا کہ اس کو باہر پھینک آوٴ، ان صحابی نے باہر جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کے جذبے میں وہ پیشاب پی لیا، اس کے بعد تمام زندگی ان کے جسم سے خوشبو آتی رہی۔ اس کے بعد خطیب صاحب نے فرمایا: چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بول و براز پاک تھا، اس میں عام انسانوں کی طرح ناپاکی یا بدبو نہ تھی، لہٰذا صحابی کے اس عمل پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔

خطیب صاحب کے اس بیان پر مسجد میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، اکثر لوگوں نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ واقعہ سند سے خالی ہے، ایسے خطیب کی امامت جائز نہیں جو خلافِ سند واقعات بیان کرکے غیرمسلموں کو اسلام پر تنقید کا موقع دے۔ لوگوں کے اعتراضات مندرجہ ذیل تھے:

۱:…ایسا کوئی واقعہ مستند کتب میں نہیں ملتا۔

۲:…اگر ایسا ہوا بھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں بشریت کی کوئی خصوصیت نہ تھی اور وہ مکمل نوری تھے۔

۳:…اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو پیشاب پھینکنے کا حکم دیا تھا تو صحابی کے لئے حکم زیادہ اہمیت رکھتا تھا یا محبت کے جذبات؟

۴:…دوسرے مذاہب کے لوگوں پر پیشاب پینے کا اعتراض کیونکر کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ وہ بھی عقیدہ رکھتے ہوں کہ ان کے اوتاروں میں بھی ایسے ہی کچھ صفات تھے، وغیرہ وغیرہ۔

مولانا صاحب! آپ اس مسئلہ پر کچھ روشنی ڈالنا گوارا کریں گے تاکہ لوگوں کو تسلی ہوسکے، کیونکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام فطرت کے مطابق ہے، اور پیشاب والا معاملہ انسان کی نظر میں خلافِ فطرت ہے، ہم اپنے مذہب کی اشاعت میں غیرمسلموں کو کیسے قائل کرسکتے ہیں؟

ج… لوگوں کے چار اعتراض جو آپ نے نقل کئے ہیں، ان میں پہلا اعتراض اصل ہے، یعنی یہ کہ یہ واقعہ مستند ہے یا نہیں؟ دوسرے سوالات سب اس کی فرع ہیں، کیونکہ اگر کوئی واقعہ ہی ایسا نہ ہو تو پھر یہ سوالات متوجہ نہیں ہوتے۔

اس واقعہ کو تسلیم کرنے کے بعد مسلمانوں کے ذہن میں سوالات کا پیدا ہونا ضعفِ ایمان، ضعفِ محبت اور ضعفِ علم کی وجہ سے ہے، کیونکہ محبت میں سوالات پیدا نہیں ہوا کرتے، اور اگر صحیح علم ہوتا تو یہ توجیہ کرسکتے تھے کہ ممکن ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہو کہ آپ کے فضلات کا نجس نہ ہونا عام انسانوں سے آپ کی امتیازی خصوصیت کی دلیل ہے۔ یہ دوسرے سوال کی توجیہ ہوسکتی تھی۔

تیسرے سوال کی توجیہ یہ ہوسکتی تھی کہ کبھی کبھی جذبہٴ محبت غالب آجاتا ہے، اور آدمی اس میں معذور سمجھا جاتا ہے، جیسے صلح نامہ حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا کہ: “محمد رسول اللہ” کے لفظ کو مٹادو! انہوں نے عرض کردیا کہ: میں آپ کے نامِ پاک کو نہیں مٹاسکتا! یہ بات انہوں نے حکمِ صریح کے مقابلے میں غلبہٴ محبت کی وجہ سے فرمائی تھی، اس لئے اس پر ان کو کوئی عتاب نہیں فرمایا گیا۔

چوتھے سوال کی یہ توجیہ ہوسکتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ پیشاب نوشی کا حکم فرمایا، نہ اس کا قانون بنایا، البتہ ایک مغلوب المحبت کو معذور سمجھا، اب عام لوگوں کے پیشاب پینے کا جواز اس سے کیسے نکل آیا؟

الغرض ضرورت اس بات کی تھی کہ پہلے یہ معلوم کیا جاتا کہ یہ واقعہ ہے بھی یا نہیں؟ پھر یہ معلوم کیا جاتا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کا بھی وہی حکم ہے جو ہم ایسے ناپاک لوگوں کے بول و براز کا ہے؟ یا اس سلسلے میں آپ کی کچھ خصوصیات بھی ہیں؟ اس بارے میں علمائے ربانی کی تحقیق کیا ہے؟ اور امام ابوحنیفہ و شافعی اور ان کے اکابر متبعین کیا فرماتے ہیں؟ پھر یہ معلوم کیا جاتا کہ ایک حکم سب کے لئے یکساں ہوتا ہے؟ یا بعض اوقات موقع و محل کی خصوصیت سے حکم مختلف بھی ہوسکتا ہے؟

جن مولانا صاحب نے ناواقف اور بے سمجھ عوام کے سامنے بغیر تشریح کے یہ واقعہ بیان کردیا، انہوں نے بھی غیرذمہ داری کا ثبوت دیا، اور جنہوں نے یہ واقعہ سنتے ہی اعتراضات کی بوچھاڑ کردی اور مسئلہ کی نوعیت معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی، انہوں نے بھی کچھ فہم و دانش کا ثبوت نہیں دیا، والله اعلم!

سائل کا دُوسرا خط

“جناب مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی․․․ السلام علیکم۔

محترم! میرے مکتوب کا جواب تو موصول ہوگیا لیکن نامکمل سا ظاہر ہو رہا ہے۔ اصل سوال کا جواب اپنی جگہ قائم ہے۔ یعنی جو واقعہ محترم خطیب صاحب نے بیان کیا تھا اس کا حوالہ کسی مستند راوی یا کتاب کا درکار تھا۔ میں نے چند معترضین کو آپ کا جواب دکھایا تو وہی سوال کیا گیا کہ اس کتاب اور مصنف کا نام بتایا جائے جس میں اس کا ذکر کیا گیا ہے، بلکہ ایک صاحب نے تو یہ بھی فرمایا کہ: ایک مرتبہ کسی جلسے میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا تھا، لیکن جب ان سے اس کی سند مانگی گئی تو وہ بھی نہ دے سکے، بلکہ سند مانگنے والے پر ایمان کی کمزوری کا فتویٰ صادر کرکے لعنت و ملامت کرنے لگے، جیسا کہ آپ نے اپنے جواب میں فرمایا، یعنی: “اس واقعہ کو تسلیم کرنے کے بعد مسلمانوں کے ذہن میں سوالات کا پیدا ہونا ضعفِ ایمان، ضعفِ محبت اور ضعفِ علم کی وجہ سے ہے۔”

اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جو عالم یا خطیب کوئی بھی واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرکے بغیر کسی حوالے کے بیان کردے اس کو صدقِ دل سے تسلیم کرلیا جائے ورنہ ضعفِ ایمان کا فتویٰ لگ جائے گا۔ اس طرح تو کچھ علماء (جن کو ہم علماء سوء ہی کہہ سکتے ہیں) بہت سے اپنے مطلب کے واقعات بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہیں اور آپ اس کو بھی تسلیم کریں گے کہ علماء سوء (جو بظاہر عالم ہی ہوتے ہیں) کو عام آدمی شناخت نہیں کرسکتا، اس کی پکڑ تو اسی وقت ہوسکتی ہے جب وہ واقعات کے ساتھ مستند حوالہ بھی دے۔

ہمیں یہ تسلیم ہے بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء اور بشر میں افضل تر ہیں، ان کے ساتھ خصوصیات بھی تسلیم کرنا ایمان کا تقاضا ہے، لیکن اس کا کیا جائے کہ آج کا دور مادّیت اور سائنس کا دور ہے، عوام کی اکثریت خاص طور پر مغربی افکار سے متأثر ہے، ان کو مطمئن کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہوسکے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہئے، لہٰذا اگر مندرجہ ذیل سوالات کے جواب دے سکیں تو لوگوں کی تسلی ہوسکتی ہے:

۱:…اس واقعہ کا ذکر جس کتاب میں ہے اس کا اور اس کے مصنف کا نام۔

۲:…صحابی مذکور کے عمل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات۔

۳:…دوسرے صحابہ کرام پر واقعہ کے اثرات (جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز نہ صرف پاک ہیں بلکہ خوشبو کے حامل ہیں) اور یہ بھی معلوم ہے کہ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر چیز سے اپنی جانوں سے زیادہ محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ دہن اور وضو کے پانی کو بھی اپنے چہروں پر مل لیا کرتے تھے۔”

ج… میری گزشتہ تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اول تو معلوم کیا جائے کہ یہ واقعہ کسی مستند کتاب میں موجود ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے بارے میں اہل علم و اکابر ائمہ دین کی تحقیق کیا ہے؟ ان دو باتوں کی تحقیق کے بعد جو شبہات پیش آسکتے ہیں ان کی توجیہ ہوسکتی ہے، اب ان دونوں نکتوں کی وضاحت کرتا ہوں۔

امرِ اوّل:…یہ ہے کہ یہ واقعہ کسی مستند کتاب میں ہے یا نہیں؟ حافظ جلال الدین سیوطی کی کتاب “خصائص کبریٰ” میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی خصوصیات جمع کی گئی ہیں۔ اس کی دوسری جلد کے صفحہ:۲۵۲ کا فوٹو آپ کو بھیج رہا ہوں، جس کا عنوان ہے: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بول و براز پاک تھا”، اس عنوان کے تحت انہوں نے احادیث نقل کی ہیں، ان میں سے دو احادیث -جن کو میں نے نشان زد کردیا ہے- کو مع ترجمہ نقل کرتا ہوں:

۱:…”واخرج ابویعلیٰ والحاکم والدارقطنی والطبرانی وابونعیم عن ام ایمن قالت: قام النبی صلی الله علیہ وسلم من اللیل الیٰ فخارة فبال فیھا، فقمت من اللیل وانا عطشانة فشربت ما فیھا، فلما اصبح اخبرتہ، فضحک وقال: اما انک لا یتجعن بطنک ابدا! ولفظ ابی یعلیٰ: انک لن تشتکی بطنک بعد یومک ھذا ابدا!”

ترجمہ:…”ابویعلیٰ، حاکم، دارقطنی، طبرانی اور ابونعیم رحمہم اللہ نے سند کے ساتھ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مٹی کے پکے ہوئے ایک برتن میں پیشاب کیا، پس میں رات کو اُٹھی، مجھے پیاس تھی، میں نے وہ پیالہ پی لیا۔ صبح ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تجھے پیٹ کی تکلیف کبھی نہ ہوگی! اور ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ: آج کے بعد تم پیٹ کی تکلیف کی شکایت نہ کروگی!”

۲:…”واخرج الطبرانی والبیھقی بسند صحیح عن حکیمة بنت امیمة عن امھا قالت: کان للنبی صلی الله علیہ وسلم قدح من عیدان یبول فیہ ویضعہ تحت سریرہ، فقام فطلبہ فلم یجدہ فسأل عنہ فقال: این القدح؟ قالوا: شربتہ برة خادمة ام سلمة التی قدمت معھا من ارض الحبشة۔ فقال النبی صلی الله علیہ وسلم: لقد احتظرت من النار بحظار!”

ترجمہ:…”طبرانی اور بیہقی نے بہ سند صحیح حکیمہ بنت امیمہ سے اور انہوں نے اپنی والدہ حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لکڑی کا ایک پیالہ رکھا رہتا تھا، جس میں شب کو گاہ و بے گاہ پیشاب کرلیا کرتے تھے، اور اسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے، آپ ایک مرتبہ (صبح) اُٹھے، اس کو تلاش کیا تو وہاں نہیں ملا، اس کے بارے میں دریافت فرمایا، تو بتایا گیا کہ اس کو برہ نامی حضرت ام سلمہ کی خادمہ نے نوش کرلیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس نے آگ سے بچاوٴ کے لئے حصار بنالیا۔”

یہ دونوں روایتیں مستند ہیں، اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان کی تخریج کی ہے، اور اکابرِ امت نے ان واقعات کو بلانکیر نقل کیا ہے، اور انہیں خصائصِ نبوی میں شمار کیا ہے۔

امر دوم:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے بارے میں اکابرِ امت کی تحقیق:

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ “فتح الباری” باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان (ج:۱ ص:۲۷۲ مطبوعہ لاہور) میں لکھتے ہیں:

“وقد تکاثرت الادلة علیٰ طہارة فضلائہ وعد الائمة ذالک من خصائصہ فلا یلتفت الیٰ ما وقع فی کتب کثیر من الشافعیة مما یخالف ذالک، فقد استقر الامر بین ائمتھم علی القول بالطہارة۔”

ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے پاک ہونے کے دلائل حدِ کثرت کو پہنچے ہوئے ہیں، اور ائمہ نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے، پس بہت سے شافعیہ کی کتابوں میں جو اس کے خلاف پایا جاتا ہے، وہ لائقِ التفات نہیں، کیونکہ ان کے ائمہ کے درمیان طہارت کے قول ہی پر معاملہ آن ٹھہرا ہے۔”

۱:…حافظ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے عمدة القاری (ج:۲ ص:۳۵ مطبوعہ دارالفکر بیروت) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کی طہارت کو دلائل سے ثابت کیا ہے، اور شافعیہ میں سے جو لوگ اس کے خلاف کے قائل ہیں ان پر بلیغ ردّ کیا ہے، اور ج:۱ صفحہ:۷۹ میں حضرت امام ابوحنیفہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بول اور باقی فضلات کی طہارت کا قول نقل کیا ہے۔

۲:…امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مہذب (ج:۱ ص:۲۳۳) میں بول اور دیگر فضلات کے بارے میں شافعیہ کے دونوں قول نقل کرکے طہارت کے قول کو مروّجہ قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

“حدیث شرب المرأة البول صحیح رواہ الدارقطنی وقال ھو حدیث صحیح وھو کان فی الاحتجاج لکل الفضلات قیاسًا۔”

ترجمہ:…”عورت کے پیشاب پینے کا واقعہ صحیح ہے، امام دارقطنی نے اس کو روایت کرکے صحیح کہا ہے، اور یہ حدیث تمام فضلات کی طہارت کے استدلال کے لئے کافی ہے۔”

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:

“صحح بعض ائمة الشافعیة طہارة بولہ صلی الله علیہ وسلم وسائر فضلاتہ وبہ قال ابوحنیفة کما نقلہ فی المواھب اللدنیة عن شرح البخاری للعینی۔”

(رد المحتار ج:۱ ص:۳۱۸ مطبوعہ کراچی)

ترجمہ:…”بعض ائمہ شافعیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بول اور باقی فضلات کی طہارت کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ بھی اسی کے قائل ہیں جیسا کہ مواہب لدنیہ میں علامہ عینی کی شرح بخاری سے نقل کیا ہے۔”

مُلَّا علی قاری جمع الوسائل شرح الشمائل (ج:۲ ص:۲ مطبوعہ مصر ۱۳۱۷ھ) میں اس پر طویل کلام کے بعد لکھتے ہیں:

“قال ابن حجر: وبھذا استدل جمع من ائمتنا المتقدمین وغیرھم علیٰ طھارة فضلاتہ صلی الله علیہ وسلم، وھو المختار، وفاقاً لجمع من المتأخرین فقد تکاثرت الادلة علیہ وعدہ الائمة من خصائصہ صلی الله علیہ وسلم۔”

ترجمہ:…”ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ہمارے ائمہ متقدمین کی ایک جماعت اور دیگر حضرات نے احادیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کی طہارت پر استدلال کیا ہے، متأخرین کی جماعت کی موافقت میں بھی یہی مختار ہے، کیونکہ اس پر دلائل بہ کثرت ہیں اور ائمہ نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں شمار کیا ہے۔”

امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:

“ثم مسألة طہارة فضلات الانبیاء توجد فی کتب المذاھب الاربعة۔” (فیض الباری ج:۱ ص:۲۵۰)

ترجمہ:…”فضلاتِ انبیاء کی طہارت کا مسئلہ مذاہبِ اربعہ کی کتابوں میں موجود ہے۔”

محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں:

“وقد صرح اھل المذاھب الاربعة بطہارة فضلات الانبیاء ․․․․ الخ۔” (معارف السنن ج:۱ ص:۹۸)

ترجمہ:…”مذاہبِ اربعہ کے حضرات نے فضلاتِ انبیاء کے پاک ہونے کی تصریح کی ہے۔”

الحمدللہ! ان دونوں نکتوں کی وضاحت تو بقدرِ ضرورت ہوچکی، یہ واقعہ مستند ہے اور مذاہبِ اربعہ کے ائمہ فقہاء نے ان احادیث کو تسلیم کرتے ہوئے فضلاتِ انبیاء علیہم السلام کی طہارت کا قول نقل کیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر اعتراض کیا جائے تو اس کو ضعفِ ایمان ہی کہا جاسکتا ہے!

اب ایک نکتہ محض تبرعاً لکھتا ہوں، جس سے یہ مسئلہ قریب الفہم ہوجائے گا۔ حق تعالیٰ شانہ کے اپنی مخلوق میں عجائبات ہیں، جن کا ادراک بھی ہم لوگوں کے لئے مشکل ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے بعض اجسام میں ایسی محیرالعقول خصوصیات رکھی ہیں جو دوسرے اجسام میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ ایک کیڑے کے لعاب سے ریشم پیدا کرتا ہے، شہد کی مکھی کے فضلات سے شہد جیسی نعمت ایجاد کرتا ہے، اور پہاڑی بکرے کے خون کو نافہ میں جمع کرکے مشک بنادیتا ہے۔ اگر اس نے اپنی قدرت سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسامِ مقدسہ میں بھی ایسی خصوصیات رکھی ہوں کہ غذا ان کے ابدانِ طیبہ میں تحلیل ہونے کے بعد بھی نجس نہ ہو، بلکہ اس سے جو فضلات ان کے ابدان میں پیدا ہوں وہ پاک ہوں تو کچھ جائے تعجب نہیں۔ اہل جنت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کھانے پینے کے بعد ان کو بول و براز کی ضرورت نہ ہوگی، خوشبودار ڈکار سے سب کا کھایا پیا ہضم ہوجائے گا، اور بدن کے فضلات خوشبودار پسینے میں تحلیل ہوجائیں گے۔ جو خصوصیت کہ اہل جنت کے اجسام کو وہاں حاصل ہوگی، اگر حق تعالیٰ شانہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیمات کے پاک اجسام کو وہ خاصیت دنیا ہی میں عطا کردیں تو بجا ہے، پھر جبکہ احادیث میں اس کے دلائل بہ کثرت موجود ہیں، جیسا کہ اوپر حافظ ابن حجر کے کلام میں گزر چکا ہے، تو انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو اپنے اوپر قیاس کرکے ان کا انکار کردینا، یا ان کے تسلیم کرنے میں تأمل کرنا صحیح نہیں، مولانا رومی فرماتے ہیں:

ایں خورد گردد پلیدی زو جدا

واں خورد گردد ہمہ نور خدا

آخر میں حضراتِ علمائے کرام اور خطبائے عظام سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ عوام کے سامنے ایسے امور نہ بیان کریں جو ان کے فہم سے بالاتر ہوں، ولله الحمد أولًا واٰخرًا!

فیض الباری اور رافضی پروپیگنڈا

س… ازراہ کرم یہ بتائیں کہ حدیث کی مشہور کتاب بخاری شریف کی علمائے دیوبند نے اب تک کتنی شروح لکھی ہیں؟ اور ان میں سب سے مستند اور بہتر شرح کون سی ہے جسے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ محمد انور شاہ کشمیری صاحب نے کوئی شرح لکھی ہے، کیا وہ اپنے صحیح اور مستند متن کے ساتھ مطبوعہ صورت میں مل سکتی ہے؟ اور کیا اس مطبوعہ شرح بخاری کو اعتماد و یقین کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے؟

ج… صحیح بخاری کی کوئی مستقل شرح تو اس وقت ذہن میں نہیں، جو اکابرِ دیوبند میں سے کسی نے لکھی ہو، البتہ اکابر مشائخ دیوبند کے درسی افادات ان کے تلامذہ نے اپنی عبارت میں قلم بند کرکے شائع کئے، ان میں “لامع الدراری” حضرت گنگوہی کی تقریر ہے، جو ان کے تلمیذ حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندہلوی نے جمع کی تھی، اور وہ ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا ابن مولانا محمد یحییٰ کے حواشی کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح امام العصر حضرت العلامہ مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے درسی افادات ان کے تلمیذ حضرت مولانا سیّد بدرعالم میرٹھی مہاجر مدنی نے “فیض الباری” کے نام سے شائع کئے، حضرت شاہ صاحب اردو میں تقریر فرماتے تھے، مولانا سیّد بدرعالم نے ان کو عربی میں منتقل کرکے قلم بند کیا، (اسی طرح حضرت گنگوہی کی مندرجہ بالا تقریر کو بھی حضرت مولانا محمد یحییٰ نے عربی میں قلم بند کیا تھا)۔

اس کے بعد ہر سال دورہٴ حدیث کے طلبہ اپنے اکابر کی تقریریں قلم بند کرتے ہیں، ان میں سے بعض شائع بھی ہوچکی ہیں۔ جن میں شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا فخر الدین (نور اللہ مراقدہم) کی تقریریں زیادہ معروف ہیں اور یہ سب اردو میں ہیں۔

س… ایک شخص جو خود کو عالم دین کہلاتا ہو، اور خود کو اہل سنت و جماعت ثابت کرتا ہو، وہ قرآن شریف میں تحریفِ لفظی کا قائل ہو، اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ جبکہ یہی سنا گیا ہے کہ قرآن شریف میں کسی طرح کوئی تحریف ممکن نہیں کیونکہ اس کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے، امید ہے کہ تحقیقی اور قطعی جواب سے نوازیں گے۔

ج… اہل سنت میں کوئی شخص قرآن کریم میں تحریفِ لفظی کا قائل نہیں، بلکہ اہل سنت کے نزدیک ایسا شخص اسلام سے خارج ہے۔ اس مسئلہ کو میری کتاب “شیعہ سنی اختلافات اور صراطِ مستقیم” میں دیکھ لیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ان صاحب کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہوگی۔

س… آپ کی خدمت میں ایک سوال قرآن مجید میں تحریفِ لفظی کے قائل کے بارے میں شرعی حکم کے جاننے کے لئے پیش کیا تھا۔ آپ نے جواب کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ: “میرا خیال ہے کہ آپ کو ان صاحب کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہوگی” اس جملے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ آپ سے مزید اطمینان کروں تاکہ تحریفِ لفظی کے قائل کے بارے میں مجھے یقین رہے کہ شریعت کا حکم کیا ہے؟ اس لئے آپ کی خدمت میں اس عالم دین کے اصل الفاظ پیش کرتا ہوں، وہ فرماتے ہیں:

“میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ قرآن میں محققانہ طور پر (معنوی ہی نہیں) تحریفِ لفظی بھی ہے، یا تو لوگوں نے جان بوجھ کر کی ہے یا کسی مغالطے کی وجہ سے کی ہے۔”

ان الفاظ میں وہ یہی فرما رہے ہیں کہ قرآن کریم میں تحریفِ لفظی ہے، جبکہ ہم نے یہی سنا ہے کہ قرآن کریم اپنے نزول سے آج تک ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے۔ قرآن میں سامنے سے یا پیچھے سے باطل راہ نہیں پاسکتا اور قرآن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے، اور یہی سنا ہے کہ قرآن میں کسی طرح تحریف کا قائل کوئی مسلمان نہیں، اگر کوئی مسلمان کہلانے والا ایسا کہے تو وہ مرتد ہوجاتا ہے۔ اب تک شیعہ فرقہ کے بارے میں سنا تھا کہ وہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں، لیکن ایک اہل سنت و جماعت کہلانے والے عالم نے تحقیقی طور پر ایسا کیا ہے، اس لئے مجھے بہت تشویش ہوئی کہ قرآن کی ہر طرح حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے، اس کے باوجود قرآن میں تحریف مانی جارہی ہے، اس لئے میں نے حقیقت جاننے کے لئے آپ سے رہنمائی چاہی ہے۔ یہ بھی بتائیے کہ ماضی میں بھی کبھی کوئی سنی عالم قرآن میں تحریفِ معنوی یا تحریفِ لفظی کا قائل رہا ہے؟ امید ہے کہ آپ قطعی شرعی احکام سے آگاہ فرمائیں گے، شکریہ!

ج… میں پہلے خط میں عرض کرچکا ہوں کہ اہل سنت میں کوئی شخص تحریف فی القرآن کا قائل نہیں، میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ: “آپ کو ان صاحب کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہوگی” میرا یہ خیال صحیح نکلا، چنانچہ آپ نے جو عبارت ان صاحب سے منسوب کی ہے وہ ان کی عبارت نہیں، بلکہ غلط فہمی سے آپ نے منسوب کردی ہے۔

اس کی شرح یہ ہے کہ فیض الباری (ج:۳ ص:۳۹۵) میں حضرت ابن عباس کے قول کی (جو صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۶۹ میں منقول ہے) کہ: “اللہ تعالیٰ نے تمہیں (مسلمانوں کو) بتادیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کے نوشتہ کو بدل ڈالا، اور کتاب میں اپنے ہاتھوں سے تبدیلی پیدا کردی ہے۔” اس کی شرح میں حضرت امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:

“جاننا چاہئے کہ تحریف (فی الکتب السابقہ) میں تین مذہب ہیں۔ ۱:ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ کتبِ سماویہ میں تحریف ہر طرح کی ہوئی ہے، لفظی بھی اور معنوی بھی۔ ابن حزم اسی کی طرف مائل ہیں۔ ۲:ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ تحریف قلیل ہے، شاید حافظ ابن تیمیہ کا رجحان اسی طرف ہے۔ ۳:اور ایک جماعت تحریفِ لفظی کی سرے سے منکر ہے، پس تحریف ان کے نزدیک سب کی سب معنوی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس (موٴخر الذکر) مذہب پر لازم آئے گا کہ (نعوذ باللہ) قرآن بھی محرف ہو، کیونکہ تحریفِ معنوی اس میں بھی کچھ کم نہیں کی گئی (واللازم باطل فالملزوم مثلہ)۔ اور جو چیز میرے نزدیک محقق ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں (یعنی کتبِ سماویہ میں) تحریفِ لفظی بھی ہوئی ہے یا تو انہوں نے جان بوجھ کر کی یا غلطی کی وجہ سے؟ پس اللہ تعالیٰ ہی اس کو بہتر جانتے ہیں۔”

یہ حضرت شاہ صاحب کی پوری عبارت کا ترجمہ ہے، اب دو باتوں پر غور فرمائیے:

اوّل:…یہ کہ حضرت ابن عباس کے ارشاد میں اہل کتاب کا اپنی کتاب میں تحریف کردینا مذکور تھا، حضرت شاہ صاحب نے اس سلسلے میں تین مذہب نقل کئے۔ ایک یہ کہ اہل کتاب کی کتاب میں تحریف بکثرت ہے۔ دوم یہ کہ تحریف ہے تو سہی مگر کم ہے۔ سوم یہ کہ تحریفِ لفظی سرے سے نہیں صرف تحریفِ معنوی ہے۔ حضرت شاہ صاحب ان تین اقوال کو نقل کرکے اپنا محققانہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ: اہل کتاب کی کتاب میں تحریفِ لفظی موجود ہے، اب رہا یہ کہ یہ تحریف انہوں نے جان بوجھ کر کی ہے یا غلطی کی وجہ سے صادر ہوئی ہے؟ اس کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ الغرض گفتگو تمام تر اس میں ہے کہ اہل کتاب کی کتاب میں تحریفِ لفظی ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو قلیل ہے یا کثیر؟ اسی کے بارے میں تین مذاہب ذکر فرمائے ہیں اور اسی تحریف فی الکتاب کے بارے میں اپنا محققانہ فیصلہ صادر فرمایا ہے، قرآن کریم کی تحریفِ لفظی کا دور و نزدیک کہیں تذکرہ ہی نہیں کہ اس کے بارے میں حضرت شاہ صاحب یہ فرمائیں کہ: “جو چیز کہ میرے نزدیک محقق ہوئی ہے وہ یہ کہ اس میں تحریفِ لفظی موجود ہے۔”

دوم:…شاہ صاحب نے تیسرا قول یہ نقل کیا تھا کہ کتبِ سابقہ میں صرف تحریفِ معنوی ہوئی ہے، تحریفِ لفظی نہیں ہوئی، حضرت شاہ صاحب اس کو غلط قرار دیتے ہوئے ان قائلینِ تحریف کو الزام دیتے ہیں کہ اگر صرف تحریفِ معنوی کی وجہ سے ان کتب کو محرف قرار دیا جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ قرآن کریم کو بھی محرف کہا جائے -نعوذ باللہ- کیونکہ اس میں بھی لوگوں نے تحریفِ معنوی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس سے دو باتیں صاف طور پر واضح ہوتی ہیں، ایک یہ کہ قرآن کریم کی تحریفِ معنوی کے ساتھ اس مذہب والوں کو الزام دینا، اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریفِ لفظی کا کوئی بھی قائل نہیں۔ دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ اگر حضرت شاہ صاحب -نعوذ بالله- قرآن کریم کی تحریفِ لفظی کے قائل ہوتے تو صرف تیسرے مذہب والوں کو الزام نہ دیتے، بلکہ پہلے اور دوسرے قول والوں پر بھی یہی الزام عائد کرتے۔

یہ میں نے صرف اس عبارت کی تشریح کی ہے جس سے آپ کو حضرت شاہ صاحب کی بات سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے، ورنہ قرآن کریم کا تحریفِ لفظی سے پاک ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی بھی منکر نہیں ہوسکتا۔ حضرت شاہ صاحب کی کتاب مشکلات القرآن کا مقدمہ ملاحظہ فرمالیا جائے۔

حسنِ اتفاق کہ اسی طرح کا ایک سوال امام اہل سنت حضرت مولانا ابو زاہد محمد سرفراز خان صفدر زید مجدہم سے بھی کیا گیا، انہوں نے فیض الباری کی اس عبارت کی وضاحت فرمائی ہے جس سے شیعہ تحریفِ قرآن پر استدلال کرتے ہوئے اسے مناظروں میں پیش کرتے ہیں۔ شیعہ یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ -نعوذ بالله- فیض الباری میں ہے کہ امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری اور مولانا بدرعالم میرٹھی قدس اللہ اسرارہما بھی تحریف کے قائل تھے۔

حضرت مولانا محمد سرفراز خان دامت برکاتہم العالیہ نے اس پروپیگنڈا کا جواب اور غلط فہمی کی وضاحت اپنے ایک مسترشد جناب مولانا عبدالحفیظ صاحب کے نام ایک مکتوب میں فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ اسے عام کیا جائے۔ جس پر موصوف نے اس کی فوٹواسٹیٹ بھیج کر ہم پر احسان فرمایا ہے۔ چونکہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے مکتوبِ سامی میں درج فیض الباری کی عربی عبارتوں کا اردو ترجمہ نہ تھا، اس لئے افادہٴ عام کی غرض سے اس کا اردو ترجمہ کردیا گیا۔

ذیل میں حضرت مولانا ابو زاہد سرفراز خاں صفدر کی وضاحت انہیں کے الفاظ میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

“امامِ اہلِ سنت کا مکتوب”

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

“عزیز القدر جناب حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب دام مجدہم۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، مزاجِ گرامی!

عزیز القدر! فیض الباری ج:۳ ص:۳۹۵ میں ہے:

“واعلم ان فی التحریف ثلاثة مذاھب۔ ذھب جماعة الیٰ ان التحریف فی الکتب السماویة قد وقع بکل نحو فی اللفظ والمعنی جمیعا، وھو الذی مال الیہ ابن حزم۔ وذھب جماعة الیٰ ان التحریف قلیل، ولعل الحافظ ابن تیمیة جنح الیہ۔ وذھب جماعة الیٰ انکار التحریف اللفظی راسًا فالتحریف عندھم کلہ معنوی، قلت یلزم علیٰ ھذا المذھب ان یکون القرآن ایضاً، والذی تحقق عندی ان التحریف فیہ لفظی ایضا اما انہ عن عمد منھم او لمغلطة، فالله تعالیٰ اعلم بہ!”

ترجمہ:…”معلوم ہونا چاہئے کہ تحریف کے بارے میں تین مذہب ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ کتبِ سماویہ میں تحریفِ لفظی اور معنوی دونوں ہوئی ہیں، ابن حزم اسی کے قائل ہیں۔ دوسری جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ کتبِ سماویہ میں تھوڑی سی تحریف ہوئی ہے، غالباً ابن تیمیہ کا جھکاوٴ اسی طرف ہے۔ تیسری جمات کی رائے یہ ہے کہ تحریفِ لفظی تو نہیں ہوئی البتہ تحریفِ معنوی ہوئی ہے۔ اس جماعت کے نظریہ کے مطابق لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی تحریف سے خالی نہیں، کیونکہ اس میں بھی تحریفِ معنوی ہوئی ہے۔ لیکن میرے نزدیک محقق بات یہ ہے کہ اس میں تحریفِ لفظی بھی ہوئی ہے، یا تو انہوں نے عمداً ایسا کیا ہے، یا پھر مغالطہ کی بنا پر ایسا ہوا ہے، والله اعلم!”

عزیز القدر! اس عبارت میں “فیھا” کی جگہ “فیہ” لکھا گیا ہے، اصل عبارت یوں ہے:

“ان التحریف فیھا (ای الکتب السماویة کالتوراة والانجیل وغیرھما) لفظی ایضًا۔”

ترجمہ:…”فیھا کی ضمیر کا مرجع کتبِ سماویہ ہیں، یعنی کتبِ سماویہ تورات، زبور و انجیل وغیرہ میں تحریف ہوئی ہے نہ کہ قرآن میں۔ مگر فیہ کی ضمیر مفرد مذکر کی وجہ سے یہ مغالطہ ہوا کہ شاید قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔”

اس کی دلیل فیض الباری ج:۴ ص:۵۳۷ کی یہ عبارت ہے:

“واعلم ان اقوال العلماء فی وقوع التحریف ودلائلھم کلھا قد قضیٰ عنہ الوطر المحشی فراجعہ۔”

بخاری شریف کے پچیس پاروں کا حاشیہ حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری نے لکھا ہے، فالج کے حملے کے بعد بقیہ پانچ پاروں کا حاشیہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے کیا ہے۔ سوانح قاسمی از مولانا محمد یعقوب صاحب اور اس مقام پر حاشیہ میں محشی یعنی حاشیہ لکھنے والے حضرت نانوتوی نے حاجت پوری کردی ہے اور مقام کا حق ادا کردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: بخاری ج:۲ ص:۱۱۲۷ کا حاشیہ نمبر:۱)۔

فیض الباری ہی میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت نے لکھا ہے:

“والذی ینبغی فیہ النظر ھٰھنا انہ کیف ساغ لابن عباس انکار التحریف اللفظی، مع ان شاہد الوجود یخالفہ، کیف وقد نعی علیھم القرآن انھم کانوا یکتبون بایدیھم ثم یقولون ھو من عند الله وما ھو من عند الله وھل ھذا الا تحریف لفظی ولعل مرادہ انھم ما کانوا یحرفونھا قصدا ولکن سلفھم کانوا یکتبون مرادھا کما فھموہ ثم کان خلفھم یدخلونہ فی نفس التوراة فکان التفسیر یختلط بالتوراة من ھذا الطریق۔ انتہی۔” (ج:۴ ص:۳۷)

ترجمہ:…”یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس نے تحریفِ لفظی کے نہ ہونے کا قول کس بنا پر کیا ہے؟ حالانکہ شواہد اس کے خلاف ہیں۔ پھر تحریفِ لفظی نہ ہونے کا قول کیونکر ممکن ہے، جبکہ قرآن مجید نے ان کے اس فعل قبیح کو ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے لکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ: “یہ اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے!” اور یہی تو تحریف ہے۔ غالباً تحریفِ لفظی نہ ہونے سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ قصداً ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کے اسلاف اپنی کتابوں میں اپنی سمجھ کے مطابق ایک مفہوم لکھ دیتے، لیکن ان کے بعد آنے والوں نے اس (تشریحی نوٹ) کو تورات کے متن میں شامل کرلیا، جس کی وجہ سے اصل اور شرح میں التباس ہوگیا اور یوں تحریفِ لفظی ہوگئی۔”

اس ساری عبارت سے واضح ہوا کہ تحریفِ لفظی توراة وغیرہ کتابوں میں ہوئی ہے نہ کہ قرآن کریم میں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی تشریح بھی حضرت نے کردی کہ سلف اپنی یاد کے لئے کتابوں میں تفسیری الفاظ لکھتے تھے، خلف نے ان کو بھی متن میں شامل کردیا۔

اس تحریر کو غور سے پڑھیں اور اس کی کاپیاں بناکر اپنی طرف سے علماء میں تقسیم کریں، بڑی دین کی خدمت ہوگی۔ اہل خانہ کو درجہ بدرجہ سلام اور دعائیں عرض کریں اور مقبول دعاوٴں میں نہ بھولیں، یہ خاطی بھی داعی ہے۔ والسلام

ابوالزاہد محمد سرفراز۔ از گکھڑ۔”

مسئلہ تقدیر کی مزید وضاحت

س… آپ نے اپنے جنگ کے کالم میں ایک خاتون کے سوال “تقدیر الٰہی کیا ہے؟” کا جواب تحریر فرمایا۔ آپ کے جواب نے ذہن میں پڑی ہوئی گرہ کو پھر سے اُجاگر کردیا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ہر چیز تقدیر الٰہی کے تابع ہے، انسان کی زندگی سے متعلق تمام باتیں پہلے سے لکھ دی جاتی ہیں۔

کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کے تابع ہے، یہ بات بالکل عیاں ہے، ذہن میں مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ نے یہ تحریر فرمایا کہ انسان کی زندگی کے تمام معاملات پہلے سے معین اور مقرر کردئیے گئے ہیں، مثلاً: رزق، شادی وغیرہ کے معاملات۔

پھر انسان کی زندگی میں کرنے کے لئے رہ ہی کیا جاتا ہے! یہ ضرور ہے کہ انسان کے ہزاروں سال کے مشاہدے میں یہ ضرور آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ معاملات پہلے سے طے فرمادیتے ہیں، مثلاً: زندگی و موت، شادی جیسے معاملات (حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ تعجب نہیں جو پروردگار عالم جوش رحمت میں ان معاملات میں بھی ردّ و بدل فرمادیتے ہوں) لیکن اگر تمام معاملات میں یہی صورتِ حال ہے تو انسان خفیف ترین کوشش بھی آخر کس لئے کرے؟

آپ نے زندگی کے تمام معاملات کے لئے جو جواب تحریر فرمایا ہے بلکہ آپ نے فیصلہ کن انداز میں تحریر فرمایا ہے، اس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ انسان کی ساری کوششیں لاحاصل ہیں، اس کی تمام کوششوں کا نتیجہ وہی نکلنا ہے جو اس کی کوشش شروع کرنے سے پہلے لکھا جاچکا ہے، پھر وہ کسی بھی کام کے لئے سعی و کوشش کیوں کرے؟ جبکہ اسے معلوم ہے کہ اس کی ہر ہر سعی کا نتیجہ محض صفر کی شکل میں آنا ہے، نہیں! مولانا صاحب نہیں․․․! پروردگار اتنے کھٹور نہیں ہوسکتے، یہ محض شاعری نہیں:

نگاہِ مردِ موٴمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!

میں آپ کی توجہ ارشادِ باری تعالیٰ کے ان الفاظ کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گی، جس کا ترجمہ ہے کہ:

“ہر شخص کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی۔”

اب محترم یوسف صاحب! یہ دلیل نہ دیجئے گا کہ انسان کی کوشش کا فیصلہ بھی پہلے کیا جاچکا ہے، یعنی یہ کہ وہ کوشش کتنی کرے گا، یہ دلیل بحث برائے بحث ہوگی، کیونکہ اس کا مطلب وہی ہوجائے گا کہ ہر بات کا فیصلہ پہلے سے کیا جاچکا ہے، جبکہ مندرجہ بالا آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں نکالا جاسکتا۔

خدشہ ہے کہ لاکھوں افراد جو یہ کالم پڑھتے ہیں، آپ کے جواب سے زندگی کی ساری دلچسپیاں کھوچکے ہوں گے یا فکر میں مبتلا ہوچکے ہوں گے۔

دُعا کا فلسفہ:

آپ کے جواب سے مذہبِ اسلام میں دعا کا جو فلسفہ اور تصور ہے اور جو اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے کی نفی ہوتی ہے، جب آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کی زندگی کے سارے معاملات پہلے فیصل اور طے کردیتے ہیں، انسان کچھ بھی کرے، ہونا وہی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہے، اب اللہ کا کوئی بندہ اپنی کسی مشکل یا مصیبت سے نجات کے لئے پروردگارِ عالم سے التجا اور دعا کرتا ہے تو آپ کے جواب کے موجب وہ گویا دیوار سے سر پھوڑتا ہے، کیونکہ اس کی زندگی میں ہونا تو وہی ہے جو پہلے سے اس کی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے، پھر بھلا دعا کے لئے کیا جگہ باقی رہ جاتی ہے، پھر اس کا مطلب کیا ہے؟:

“اللہ تعالیٰ دُعا سننے والے ہیں!”

اور خالق کائنات کے یہ پُرشفقت الفاظ کہ: “اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو” کیا معنی رکھتے ہیں؟

یہ بھی یاد رکھئے Rigidity اور رحمت یکجا نہیں ہوسکتے، آپ نے اپنے جواب میں جو کچھ فرمایا ہے اس کے مطابق تو انسان کو ہمدردی سے پُر ان الفاظ کے برخلاف بالکل مایوس ہوجانا چاہئے، کیونکہ بقول آپ کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان کی دعائیں، اس کی التجائیں اور اس کی ساری زندگی کی کوششیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

تیسری بات جو آپ کے جواب کی تردید کرتی ہے وہ اقوامِ عالم کی تاریخ ہے، آج امریکہ اور پورا یورپ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، کم از کم مادّی ترقی کے لحاظ سے (ویسے اخلاقی لحاظ سے بھی وہ مسلمانوں سے کہیں بہتر ہیں)، ان کی یہ ترقی صرف اور صرف ان کی اَنتھک محنتوں اور مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اب اگر آپ یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیر میں پہلے سے ایسا لکھ دیا ہے تو آپ کو وہ تمام باتیں تسلیم کرنا ہوں گی۔ اول یہ کہ: اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کی تقدیر میں جن کو ہم کافر اور گمراہ قوم کہتے ہیں کامیابیاں اور آسائشیں لکھی ہیں اور یہ کہ ان کی کوششوں کا ان کو اجر دیتے ہیں۔ دوئم یہ کہ: انہوں نے اپنے پیرووٴں اور نام لیوا قوموں کی تقدیر میں ناکامیاں اور ذلت لکھی ہے، اور ان کی کوششوں کو محض ضائع کرنا لکھا ہے، اور یہ کہ آج دنیا بھر میں جو مسلمان ذلت اور رسوائی اُٹھارہے ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں، تو ان سب تباہ کاریوں میں وہ بالکل بے قصور اور بری الذمہ ہیں، کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض تقدیر کا لکھا ہے۔ محترم یوسف صاحب! یہ قوم پہلے ہی اپنی نااہلی اور Corruption میں انتہا کو پہنچ چکی ہے، اب اسے اور بے عملی کا Tranqulizer نہ دیجئے، یہ پہلے ہی خوابِ خرگوش میں بے خود ہے، اسے یہ بتائیے کہ:

ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخی افلاک میں ہے خاک زبوں

عطا ہو، رومی ہو، رازی کہ غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے بے آہ سحرگاہی!

ج… آپ کے تینوں سوالوں کا جواب میری تحریر میں موجود تھا، مگر جناب نے غور نہیں فرمایا، بہرحال آپ کی رعایت کے لئے چند امور دوبارہ لکھتا ہوں۔

اول:…تقدیر کا عقیدہ قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ میں مذکور ہے، اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تمام اہلِ حق کا متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لئے اس عقیدہ سے انکار کرنا یا اس کا مذاق اُڑانا اپنے دین و ایمان کا مذاق اُڑانا ہے۔

دوم:…آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کو آئندہ ہونے والے تمام واقعات کا علم تھا، اس علم کو اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے اسی علم اور اسی نوشتہ کے مطابق ہو رہا ہے، اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ بتائیے کہ اس عقیدہ کے کس حصہ سے آپ کو اختلاف ہے؟ کیا آپ کا ایمان نہیں کہ ہر چیز جو وجود میں آنے والی ہے، اللہ تعالیٰ کو ازل ہی سے اس کا علم تھا؟ اگر آپ کو اس سے انکار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدا کو بے علم یا بے علم کو خدا مانتی ہیں؟ اور یہ کفر ہے! اور اگر آپ کہتی ہیں کہ خدا کو علم تو تھا مگر ضروری نہیں جس طرح اس کو علم تھا اسی طرح چیزیں وقوع میں بھی آئیں، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا کا علم غلط نکلا، مثال کے طور پر میرے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کے حالات، افعال، اقوال، حرکات، سکنات وغیرہ وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ کا – نعوذ بالله- بے علم ہونا لازم آتا ہے، اور اگر معلوم تھیں تو کیا علمِ الٰہی کے خلاف ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہیں کہ اس کے خلاف ہوسکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے علم کا غلط ہونا لازم آیا -نعوذ بالله- اور اگر اس کے خلاف نہیں ہوسکتا تو یہی عقیدہٴ تقدیر ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اس کا عقیدہٴ تقدیر پر ایمان لانا لازم ہے، ورنہ اس کا دعویٴ ایمان صرف باطل ہے۔

سوم:…آپ نے یہ دیکھ لیا کہ: “ہر شخص کو وہی ملتا ہے جو اس نے کوشش کی” لیکن آپ نے یہ کیوں نہیں دیکھا کہ جس قرآن کا حوالہ آپ دے رہی ہیں، اسی قرآن میں یہ بھی تو لکھا ہے:

“اِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ ․․․․․ وَکُلُّ صَغِیْرٍ وَّکَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ۔” (القمر:۴۹ اور ۵۳)

ترجمہ:…”ہم نے ہر چیز کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا ہے ․․․․․․ اور ہر چھوٹی اور بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔”

یہی قدر جس کو قرآن ذکر کر رہا ہے “تقدیر” کہلاتی ہے، اور ہر چیز کے پہلے سے لکھے ہوئے ہونے کا قرآن اعلان کر رہا ہے، اب بتائیے کہ یہ تقدیر کا عقیدہ میرا اپنا تراشا ہوا ہے یا قرآن کریم ہی نے اس کو بیان فرمایا ہے؟

چہارم:…رہا انسان کے مجبور ہونے کا سوال! اس کا جواب میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ آدمی فلاں کام کو اختیار و ارادہ سے کرکے جزا و سزا کا مستحق ہوگا، پس تقدیر سے انسان کے اختیار و ارادہ کی نفی نہیں ہوتی، اور انسان کا اختیار تقدیر کے مقابل نہیں، بلکہ تقدیر کے ماتحت ہے۔ لیکن اگر یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ تقدیر کے ماننے پر تو انسان کا بقول آپ کے مجبور ہونا لازم آتا ہے، اور تقدیر کی نفی کی صورت میں اس کا قادرِ مطلق اور خالق ہونا لازم آتا ہے، آپ کے خیال میں انسان کو قادرِ مطلق اور اپنی تقدیر کا خود خالق ماننا کیا اس کو خدائی کے منصب پر بٹھانا نہیں؟

پنجم:…آپ کا یہ سمجھنا کہ اگر تقدیر برحق ہے تو انسان کی کوشش لاحاصل ہے، یہ اس لئے غلط ہے کہ انسان کو ارادہ و اختیار کی دولت دے کر محنت و سعی کا حکم دیا گیا ہے، اور تقدیر (علمِ الٰہی) میں یہ کہلایا گیا کہ فلاں شخص اتنی محنت کرے گا اور اس پر یہ نتیجہ مرتب ہوگا۔ جب محنت و کوشش بھی تقدیر پر لکھی ہوتی ہے اور اس پر مرتب ہونے والا نتیجہ بھی نوشتہٴ تقدیر ہے تو محنت لاحاصل کیسے ہوئی؟ اور “نگاہِ مردِ موٴمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں” تو میرے عقیدے کی تفسیر ہے، تقدیر میں لکھا ہوا ہے کہ فلاں مردِ موٴمن کی نگاہ سے فلاں کام ہوجائے گا، یہ بدلی ہوئی تقدیر بھی اصل تقدیر کے ماتحت ہے، اس سے باہر نہیں!

ششم:…آپ نے تقدیر کا مسئلہ سمجھا ہی نہیں، اس لئے دُعا کو تقدیر کے خلاف سمجھ لیا، حالانکہ دعا بھی اسباب میں سے ایک سبب ہے، اور تقدیر میں تمام اسباب بھی تحریر شدہ ہیں، پس تقدیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ فلاں بندہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے گا تو اس کا فلاں کام ہوجائے گا۔

ہفتم:…یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تقدیر کا عقیدہ نہ تو اسباب کے اختیار کرنے سے روکتا ہے نہ مایوسی پیدا کرتا ہے، بلکہ اس کے برعکس زیادہ سے زیادہ محنت کی دعوت دیتا ہے، اور مایوسیوں کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ عقیدہٴ تقدیر سے جاہل ہیں وہ بسااوقات حالات سے تنگ آکر خودکشی جیسی حماقت کرلیتے ہیں، لیکن آپ نے ایک پکے سچے موٴمن کو، جو اللہ تعالیٰ پر پورا ایمان اور بھروسہ رکھتا ہو، کبھی خودکشی کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔ عقیدہٴ تقدیر پر ایمان رکھنے والے جتنی دعائیں اور التجائیں اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں، دوسرے لوگ نہیں کرتے اور عقیدہٴ تقدیر پر ایمان رکھنے والے جتنی محنت کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیب نہیں۔ خود میری مثال آپ کے سامنے ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اپنے ضعف و کمزوری کے باوجود تین آدمیوں کے برابر کام کرتا ہوں، اس لئے آپ کا نظریہ معروضی طور پر غلط ہے۔

ہشتم:…آپ اقوامِ مغرب کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی احساسِ کمتری کا شکار ہیں، ان کی مادّی ترقی سے مرعوب ہوکر آپ نے ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں اخلاقی برتری کی بھی سند عطا کردی۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ انہیں کون سی اخلاقی برتری حاصل ہے؟ کیا ان ممالک میں زنا اور شراب نوشی کی شرح اسلامی ممالک کی نسبت کم ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ نیویارک میں چند گھنٹوں کے لئے بجلی کی رو چلی گئی تھی تو وہاں چوری، ڈاکہ زنی اور بدمعاشی کا کیسا بازار گرم ہوا تھا؟ کیا ان کی یہی اخلاقی برتری ہے جس کے قصیدے آپ پڑھ رہی ہیں․․․؟ اور پھر آپ ان کا مقابلہ آج کے مسلمانوں سے کر رہی ہیں “جن کو دیکھ کے شرمائیں یہود!” کیا ان مسلمانوں کی بدعملی عقیدہٴ تقدیر کی وجہ سے ہے؟ بلکہ عقیدہٴ تقدیر اور دیگر صحیح عقائد کے دل میں نہ رہنے کی وجہ سے ہے! اور اقوامِ مغرب کی مادّی ترقی اول تو میری نظر میں اس لائق ہی نہیں کہ اس کی طرف التفات کیا جائے، ان قوموں کو جو مادّی ترقی حاصل ہے، کیا ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی حاصل تھی؟ فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پر غور کیجئے! یہ مادّیت فرعون کے پاس تھی یا موسیٰ علیہ السلام کے پاس؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مقابلے میں نمرود کو دیکھئے! جو مادّی ساز و سامان اور کر و فر نمرود کو حاصل تھا کیا ابراہیم علیہ السلام کو بھی حاصل تھا؟ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر قیصر و کسریٰ کو لیجئے! کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہ مادّی ساز و سامان حاصل تھا جو قیصر و کسریٰ کو میسر تھا؟ اگر بقول آپ کے اہل مغرب مسلمانوں سے محض مادّی ترقی کی بنا پر فائق ہیں تو ذرا “اقوامِ عالم کی تاریخ” پر نظر ڈال کر دیکھئے! کیا دنیا کی آسائشیں انبیاء کرام علیہم السلام کے مقابلے میں گمراہ اور بے خدا قوموں کو حاصل نہیں رہیں؟

جہاں تک محنت و سعی کا تعلق ہے، میں اوپر بتاچکا ہوں کہ یہ تقدیر کے منافی نہیں، اگر بقول آپ کے کافروں کو کامیابیاں اور آسائشیں حاصل ہیں، تو یہ ان کی محنت کے صلے میں نوشتہٴ تقدیر ہے، اور اگر بقول آپ کے مسلمان ذلت و رسوائی اُٹھارہے ہیں تو یہ ان کی بدعملی کے نتیجے میں نوشتہٴ تقدیر ہے۔

نہم:…آپ کا یہ خیال سراسر غلط ہے کہ عقیدہٴ تقدیر نااہلی، مایوسی اور بے عملی سکھاتا ہے، کوئی موٴمن جو تقدیر الٰہی پر صحیح عقیدہ رکھتا ہو وہ کبھی نااہل، مایوس اور بے عمل نہیں ہوسکتا، اس نااہلی و بے عملی کا سبب اپنے دین سے انحراف ہے نہ کہ عقیدہٴ تقدیر!

دہم:…آخر میں گزارش کروں گا کہ عقیدہٴ تقدیر کا انکار کرکے قرآن کریم اور حدیث شریف کے فرمودات کی نفی نہ کی جائے، عقیدہٴ تقدیر برحق ہے! اگر ہم اسے مانیں تب بھی برحق ہے، اور اگر انکار کردیں تب بھی برحق ہے، اس کا صحیح اور برحق ہونا ہمارے ماننے یا نہ ماننے پر موقوف نہیں، اور جب تک اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کی نفی نہ کی جائے، عقیدہٴ تقدیر کی نفی ممکن نہیں، آپ کو اختیار ہے کہ عقیدہٴ تقدیر پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ کے علمِ محیط اور قدرتِ کاملہ کو مان لیں یا عقیدہٴ تقدیر کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت سے بھی دستبردار ہوجائیں۔ مشکل یہ ہے کہ آپ نے دین کے بنیادی عقائد کو باقاعدہ سیکھا نہیں، اس لئے ذہن اُلجھا ہوا ہے، اگر آپ دین کو سمجھنا چاہتی ہیں تو اپنی ادھوری معلومات پر اکتفا نہ کریں بلکہ دین کی کتابوں کو صحیح طور پر پڑھیں، میرا خیال ہے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب “بہشتی زیور” بھی آپ کی نظر سے نہیں گزری، آپ اس کا مطالعہ کریں اور پھر کوئی اشکال ہو تو اس کو رفع کرنے کے لئے حاضر ہوں!

فقہِ حنفی کی چند نصوص کی صحیح تعبیر

س…۱: اگر کسی عورت کو اجرت دے کر اس کے ساتھ زنا کرے تو اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فقہِ حنفی میں اس زنا پر حد نہیں ہے اور اپنی تائید میں یہ حوالہ پیش کرتے ہیں:

“لو استأجر المرأة لیزنی بھا فزنی لا یحد فی قول ابی حنیفة۔”

اس قول کی کیا تعبیر کی جائے گی؟

س…۲: یہ کہ کیا فی الواقع فقہِ حنفی کے بعض یا اکثر مسائل قرآن اور صحیح حدیثوں کے خلاف ہیں؟

س…۳: کیا امام اعظم رحمہ اللہ کے مقلدین کی تقلید ایسی ہے کہ اگر بالفرض امام صاحب کا کوئی مسئلہ قرآن پاک کی آیت یا کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو حنفی حضرات، قرآن پاک اور حدیثِ رسول کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں گے کہ: “چونکہ یہ آیت یا حدیث ہمارے امام کے قول کے مخالف ہے اس لئے ہم اس کو نہیں مانتے، ہمارے لئے امام کی تقلید اور ان کا مسئلہ لائق تقلید ہے۔” ایسا کہنا والے کا کیا حکم ہوگا؟

س…۴: جس شخص پر شہوت کا غلبہ ہو اور اس کی زوجہ یا لونڈی نہ ہو تو وہ شہوت میں تسکین حاصل کرنے کے لئے استمنا بالید کرسکتا ہے۔ اُمید ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا، اور زنا کا خوف ہو تو پھر استمنا بالید واجب ہے۔ (بحوالہ شامی ص:۱۵۶)

اُمید ہے کہ آں محترم اپنی ضروری مصروفیات میں سے وقت نکال کر مذکورہ سوالات کے جوابات سے مطلع فرمائیں گے، والسلام علیکم!

ج…۱: جس عورت کو اجرت دے کر زنا کیا ہو صاحبین کے نزدیک اس پر حد ہے، اور درمختار میں فتح القدیر سے نقل کیا ہے کہ:

“والحق وجوب الحد کالمستأجرة الخدمة۔”

(شامی ج:۴ ص:۲۹)

ترجمہ:…”اور حق یہ ہے کہ حد واجب ہے، جیسے خدمت کے لئے نوکر رکھی ہوئی عورت سے زنا کرنے پر حد واجب ہے۔”

حضرت امام ابوحنیفہ شبہ کی بنا پر حد کو ساقط فرماتے ہیں (اور تعزیر کا حکم دیتے ہیں) ان کا استدلال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے ہے جس کو امام عبدالرزاق نے مصنف میں بایں الفاظ نقل کیا ہے:

الف:…”اخبرنا ابن جریج قال ثنی محمد بن الحارث بن سفیان عن ابی سلمة بن سفیان: ان المرأة جائت عمر بن خطاب (رضی الله عنہ) فقالت: یا امیر الموٴمنین! اقبلت اسوق غنمًا، فلقینی رجل، فحفن لی حنفةً من تمر، ثم حفن لی حفنةً من تمر، ثم حفن لی حفنةً من تمر، ثم اصابنی۔ فقال عمر (رضی الله عنہ): قلت: ماذا؟ فاعادت، فقال عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) ویشیر بیدہ: مہر! مہر! مہر! ․․․․․ الخ۔”

ترجمہ:…”ہم سے بیان کی جریج نے، وہ فرماتے ہیں کہ: مجھ سے بیان کیا محمد بن حارث بن سفیان نے، وہ روایت کرتے ہیں ابوسلمہ بن سفیان سے کہ: ایک عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور بیان کیا کہ: اے امیرالموٴمنین! میں اپنی بکریاں لارہی تھی، پس مجھے ایک شخص ملا، اس نے مجھے مٹھی بھر کھجوریں دیں، پھر ایک اور مٹھی بھر کھجوریں دیں، پھر ایک اور مٹھی بھر کھجوریں دیں، پھر مجھ سے صحبت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو نے کیا کہا؟ اس نے اپنا بیان دہرایا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور اپنے ہاتھ سے اشارہ فرما رہے تھے: مہر ہے! مہر ہے! مہر ہے!”

ب:…”وعن سفیان بن عیینة عن الولید بن عبدالله عن ابی الطفیل ان امرأة اصابھا الجوع، فاتت راعیًا، فسألتہ الطعام، فابیٰ علیھا حتیٰ تعطیہ نفسھا، قالت: فحثیٰ لی ثلاث حثیات من تمر، وذکرت انھا کانت جھدت من الجوع، فاخبرت عمر، فکبر وقال: مھر! مھر! مھر! کل حفنةً مہر، ودرا عنھا الحد۔”

(مصنف عبدالرزاق ج:۷ ص:۴۰۶)

ترجمہ:…”نیز عبدالرزاق روایت کرتے ہیں سفیان بن عیینہ سے، وہ ولید بن عبداللہ بن جمیع سے، وہ ابوالطفیل (واثلہ بن اسقع صحابی رضی اللہ عنہ) سے کہ: ایک عورت کو بھوک نے ستایا، وہ ایک چرواہے کے پاس گئی، اس سے کھانا مانگا، اس نے کہا جب تک اپنا نفس اس کے حوالے نہیں کرے گی وہ نہیں دے گا، عورت کا بیان ہے کہ اس نے مجھے کھجور کی تین مٹھیاں دیں، اور اس نے ذکر کیا کہ وہ بھوک سے بے تاب تھی، اس نے یہ قصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا، آپ نے تکبیر کہی اور فرمایا: مہر ہے! مہر ہے! مہر ہے! اور اس سے حد کو ساقط کردیا۔”

ان دونوں روایتوں کے راوی ثقہ ہیں، حافظ ابن حزم اندلسی نے یہ دونوں روایتیں المحلّٰی میں ذکر کرکے ان پر جرح نہیں کی بلکہ مالکیوں اور شافعیوں کے خلاف ان کو بطورِ حجت پیش کیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

“واما المالکیون والشافعیون فعھدنا بھم یشنعون خلاف الصاحب الذی لا یعرف لہ مخالف اذا وفق تقلیدھم وھم قد خالفوا عمر، ولا یعرف لھم مخالف من الصحابة ․․․․․ بل ھم یعدون مثل ھٰذا اجماعًا، ویستدلون علی ذالک بسکوت من بالحضرة من الصحابة عن النکیر لذالک۔”

(محلی ابن حزم ج:۱۱ ص:۲۵۰)

ترجمہ:…”رہے مالکی اور شافعی، تو ہم نے ان کو دیکھا ہے کہ وہ ایسے صحابی کی مخالفت پر تشنیع کیا کرتے ہیں جس کے مخالف صحابہ میں سے کوئی معروف نہ ہو ․․․․․․ بلکہ اس کو “اجماع” شمار کرتے ہیں اور وہ اس اجماع پر استدلال کیا کرتے ہیں، ان صحابہ کے سکوت سے، جو اس موقع پر موجود تھے مگر انہوں نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔”

جب ان حضرات کا یہ اصول ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا واقعہ کو کیوں حجت نہیں سمجھتے باوجودیکہ حضراتِ صحابہ میں سے کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نکیر نہیں فرمائی؟ شاید کسی کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھوک کی مجبوری کی وجہ سے اس کو معذور و مضطر سمجھ کر اس سے حد کو ساقط کردیا ہوگا۔

حافظ ابن حزم اس احتمال کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

“فان قالوا: ان ابا الطفیل ذکر فی خبرہ انھا قد کان جھدھا الجوع، قلنا لھم: ․․․․․ ان خبر ابی الطفیل لیس فیہ ان عمر عذرھا بالضرورة، بل فیہ انہ درا الحد من اجل التمر الذی اعطاھا، وجعلہ عمر مہرا۔”

(محلی ج:۱۱ ص:۲۵۰)

ترجمہ:…”اگر مالکی اور شافعی حضرات یہ کہیں کہ ابوالطفیل نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ بھوک نے اس خاتون کو بے تاب کردیا تھا (شاید اس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے حد ساقط کردی ہوگی)، ہم ان سے کہیں گے کہ: ․․․․․․ ابوالطفیل کی روایت میں یہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اضطرار کی وجہ سے معذور قرار دیا تھا، بلکہ اس روایت میں تو یہ ہے کہ آپ نے کھجوروں کی وجہ سے حد ساقط کردی جو اس شخص نے دی تھیں، اور آپ نے ان کھجوروں کو مہر قرار دیا۔”

اس تفصیل سے دو باتیں واضح ہوگئیں، ایک یہ کہ سوال میں جو کہا گیا ہے کہ: “فقہ حنفی میں اس پر حد نہیں!” یہ تعبیر غلط ہے، آپ سن چکے ہیں کہ اس مسئلے میں فقہ حنفی کا فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے کہ اس پر حد لازم ہے۔

دوم یہ کہ جو لوگ اس مسئلے میں حضرت امام پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں وہ مسئلہ کو صحیح نہ سمجھنے کی وجہ سے کرتے ہیں، اور ان کا یہ طعن حضرت امام پر نہیں بلکہ درحقیقت ان کے پیش رو حضرت امیرالموٴمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ پر ہے، کسی مسئلہ سے اتفاق نہ کرنا اور بات ہے، لیکن ایسے مسائل کی آڑ لے کر ائمہ ہدیٰ پر زبانِ طعن دراز کرنا دوسری بات ہے۔

یہاں اس امر کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ زیر بحث صورت حضرت امام (اور ان کے پیش رو حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے نزدیک بھی زنا ہے، حلال نہیں، لیکن شبہ مہر کی وجہ سے حد ساقط ہوگئی، اس لئے یہ سمجھنا بدفہمی ہوگی کہ یہ دونوں بزرگ زنا بالاستیجار کو حلال سمجھتے ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے، وللبسط محل آخر!

ج…۲: یہ کہنا کہ: “فی الواقع فقہ حنفی کے بعض یا اکثر مسائل قرآن اور صحیح حدیثوں کے خلاف ہیں” قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے، فقہِ حنفی میں مسائل کا استناد قرآنِ کریم، احادیثِ نبویہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والتسلیمات)، اجماعِ اُمت اور قیاسِ صحیح سے ہے، البتہ ائمہ مجتہدین کے مدارکِ اجتہاد مختلف ہیں، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اجتہاد کی جس بلندی پر فائز تھے اس کا اعتراف اکابر ائمہ نے کیا ہے۔

ج…۳: سوال میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ بھی خالص تہمت ہے، ابھی اوپر مسئلہ مستأجرہ میں آپ نے دیکھا کہ احناف نے حضرت امام رحمہ اللہ کے قول کو چھوڑ کر صاحبین کے قول کو اختیار کیا اور یہ کہا: “والحق وجوب الحد!” اس قسم کی بہت سی مثالیں پیش کرسکتا ہوں، جہاں لوگوں کو بظاہر نظر آتا ہے کہ حنفیہ حدیثِ صحیح کے خلاف کرتے ہیں وہاں صرف امام کے قول کی بنا پر نہیں، قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کے قوی دلائل کے پیشِ نظر ایسا کرتے ہیں، اس کی بھی بہت سی مثالیں پیش کرسکتا ہوں، مگر نہ فرصت اس کی متحمل ہے، اور نہ ضرورت اس کی داعی ہے۔

ج…۴: درمختار میں ہے:

“فی الجوھرة: الاستمناء حرام وفیہ التعزیر۔”

ترجمہ:…”جوہرہ میں ہے کہ: استمنا بالید حرام ہے اور اس پر تعزیر لازم ہے۔”

علامہ شامی نے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے:

“قولہ: الاستمناء حرام ای بالکف اذا کان لاستجلاب الشہوة، اما اذا غلبتہ الشھوة ولیس لہ زوجة ولا اَمَة ففعل ذالک لتسکینھا فالرجا انہ لا وبال علیہ، کما قالہ ابواللیث، ویجب لو خاف الزنا۔”

(ردالمختار ج:۴ ص:۲۷ کتاب الحدود)

ترجمہ:…”اپنے ہاتھ سے منی خارج کرنا حرام ہے، جبکہ یہ فعل شہوت کو برانگیختہ کرنے کے لئے ہو، لیکن جس صورت میں کہ اس پر شہوت کا غلبہ ہو اور اس کی بیوی اور لونڈی نہ ہو، اگر وہ تسکینِ شہوت کے لئے ایسا کرلے تو امید کی جاتی ہے کہ اس پر وبال نہیں ہوگا، جیسا کہ فقیہ ابواللیث نے فرمایا، اور اگر زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسا کرنا واجب ہے۔”

اس عبارت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:

اوّل:…عام حالات میں یہ فعل حرام ہے، موجبِ وبال ہے اور اس پر تعزیر لازم ہے۔

دوم:…اگر کسی نوجوان پر شہوت کا غلبہ ہو کہ شدتِ شہوت کی وجہ سے اس کا ذہن اس قدر متوحش ہو کہ کسی طرح اس کو سکون و قرار حاصل نہ ہو، اور اس کے پاس تسکینِ شہوت کا کوئی حلال ذریعہ بھی موجود نہ ہو، ایسی اضطراری حالت میں اگر وہ بطورِ علاج اس عمل کے ذریعہ شہوت کی تسکین کرلے تو اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے توقع کی جاتی ہے کہ اس پر وبال نہ ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، لیکن اگر کوئی مظلوم دفع ظلم کی خاطر رشوت دینے پر مجبور ہوجائے تو توقع کی جاتی ہے کہ اس مظلوم پر موٴاخذہ نہ ہوگا، یہ فقیہ ابواللیث کا قول ہے۔

سوم:…اگر شدتِ شہوت کی بنا پر زنا میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہوجائے تو زنا سے بچنے کے لئے اس فعلِ بد کا ارتکاب ضروری ہوگا، یہ ایسی صورت ہے کہ کسی شخص کا دو حراموں میں سے ایک میں مبتلا ہوجانا ناگزیر ہے تو ان میں سے جو اَخف ہو اس کا اختیار کرنا لازم ہے۔

فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ اس اصول کو ان الفاظ سے تعبیر فرماتے ہیں:

“من ابتلی ببلیتین فلیختر اھونھما۔”

ترجمہ:…”جو شخص دو مصیبتوں میں گرفتار ہو اس کو چاہئے کہ وہ جو ان میں سے اَہوَن ہو اس کو اختیار کرلے۔”

شیخ ابن نجیم نے “الاشباہ والنظائر” کے فن اول کے قاعدہ خامسہ کے تحت اس اصول کا ذکر کیا ہے اور اس کی متعدد مثالیں ذکر کی ہیں، اس کی تمہید میں فرماتے ہیں:

“چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ جب دو مفسدے جمع ہوجائیں تو بڑے مفسدے سے بچنے کے لئے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے گا۔ امام زیلعی “باب شروط الصلوٰة” میں فرماتے ہیں کہ اس نوعیت کے مسائل میں اصول یہ ہے کہ جو شخص دو بلاوٴں میں گرفتار ہوجائے اور وہ دونوں ضرر میں مساوی ہوں تو دونوں میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے، اور اگر دونوں مختلف ہوں تو جو برائی ان میں سے اَہوَن ہو اس کو اختیار کرے، کیونکہ حرام کا ارتکاب صرف اضطرار کی حالت میں جائز ہے اور جس چیز کا ضرر زیادہ ہو اس کے اختیار کرنے میں کوئی اضطرار نہیں۔”

(الاشباہ والنظائر مع شرح حموی ج:۱ ص:۱۲۳، مطبوعہ ادارة القرآن، کراچی)

استمنا کی جس صورت کو شامی نے واجب لکھا ہے اس میں یہی اصول کارفرما ہے، یعنی بڑے حرام (زنا) سے بچنے کے لئے چھوٹے حرام (استمنا) کو اختیار کرنا، اس کو یوں سمجھنا کہ استمنا کی اجازت دے دی گئی ہے، یا یہ کہ اس کو واجب قرار دیا گیا ہے، قطعاً غلط ہوگا، ہاں! اس کو یوں تعبیر کرنا صحیح ہوگا کہ بڑے حرام سے بچنے کو واجب قرار دیا گیا ہے، خواہ یہ چھوٹے حرام کے ارتکاب کے ذریعہ ہو۔

رہا یہ کہ آدمی کو ضبطِ نفس سے کام لینا چاہئے، نہ زنا کے قریب پھٹکے، اور نہ استمنا کرے، یہ بات بالکل صحیح ہے، ضرور یہی کرنا چاہئے، لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص نفس و شیطان کے چنگل میں ایسا پھنس چکا ہو کہ زمامِ اختیار اس کے ہاتھ سے چھوٹ رہی ہو اور اس کو اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو کہ یا تو فاحشہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے روسیاہ ہو، یا اپنے ہاتھ سے غارتگر ایمان شہوت کو ختم کردے، ایسی حالت میں اس شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ ذرا عقل و شرع سے اس کا فتویٰ پوچھئے․․․! والله اعلم!

انسانی اعضاء کی پیوندکاری اور خون کا مسئلہ

س… مولانا صاحب! آج کل انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا سلسلہ چلا ہوا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ نئی تحقیقات اور سائنسی ایجادات نے ہمارے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرلی ہے، بعض لوگ ان تحقیقات سے نفع اُٹھانے کو عقل مندی اور اس سلسلے کی غیرشرعی تحقیقات سے بچنے والے حضرات کو تنگ نظر کہتے ہیں، اس طرح خون چڑھانے کا مسئلہ بھی ہے۔ آپ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

ج… اس سلسلے میں حال ہی میں حضرت مفتی صاحب مدفیضہم کی تازہ تألیف “انسانی اعضاء کی پیوندکاری” کے نام سے شائع ہوئی ہے، جس میں ان دونوں مسائل کے بارے میں متعدّد علمائے کرام (جن کے اسمائے گرامی حضرت مفتی صاحب نے تمہید میں ذکر کردئیے ہیں) کی متفقہ تحقیق کتاب و سنت اور فقہِ اسلامی کے دلائل کی روشنی میں درج کی گئی ہے، اس کا مختصر سا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے، تفصیلی دلائل کے لئے اصل کتاب کا مطالعہ فرمائیے۔

تمہید

زیرِ نظر مسئلہ انسانی خون اور انسانی اعضاء کے تبادلے کا معاملہ اس زمانے میں ایک ابتلائے عام کا معاملہ ہے، اور مسئلہ کتبِ فقہ میں منصوص نہیں، جب اس کے متعلق پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے متعدّد سوالات آئے تو احقر (مفتی صاحب) نے سنتِ اکابر کے مطابق مناسب سمجھا کہ انفرادی رائے کے بجائے ماہر علماء کی ایک جماعت اس میں غور و فکر اور بحث و تمحیص کرکے کوئی رائے متعین کرے، چنانچہ اس کے لئے ایک سوال نامہ مرتب کرکے فقہ و فتویٰ کے مراکز پاکستان میں کراچی، ملتان، پشاور وغیرہ اور انڈیا میں دیوبند، سہارنپور، دہلی وغیرہ میں بھیجے، اکثر حضرات کے جوابات موصول ہوئے، تو ان پر بھی اجتماعی غور و فکر مناسب تھا، مگر ملک گیر وسائل بھی آسان نہ تھے، اس کے لئے جتنے وقت اور طویل فرصت کی ضرورت تھی اس کا میسر ہونا بھی دُشوار تھا، اس لئے بحکم “ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ” یہ صورت اختیار کی کہ صرف کراچی کے اہلِ فتویٰ علماء کا اجتماع کرکے ان پر غور کیا جائے اور یہ اجتماع جس نتیجے پر پہنچے اس کو منضبط کرکے ملک اور بیرونِ ملک کے اربابِ فتویٰ کے پاس بھیج کر ان کی آراء اور فتاویٰ حاصل کئے جائیں تاکہ یہ ماہرین اہلِ فتویٰ کا اجتماعی فتویٰ ہوسکے۔ اس اجتماع میں حسبِ ذیل حضرات نے شرکت کی، اور مختلف تاریخوں کی پانچ چھ نشستوں میں باہر سے آئے ہوئے جوابات اور اس مسئلے کے ہر پہلو پر غور کیا گیا اور اس معاملے کے متعلق مذاہبِ اربعہ کی کتابوں کو سامنے رکھا گیا، یہ مجلس اتفاقِ رائے سے جس نتیجے پر پہنچی وہ آئندہ صفحات میں مع دلائل کے لکھا جارہا ہے، اسمائے شرکائے مجلس یہ ہیں:

دار العلوم کراچی سے:

۱:… محمد شفیع خادم دارالعلوم کراچی۔

۲:… مولانا محمد صابر صاحب نائب مفتی۔

۳:… مولانا سلیم اللہ صاحب مدرّس دارالعلوم۔

۴:… مولانا سحبان محمود صاحب دار العلوم کراچی۔

۵:… مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب دار العلوم کراچی۔

۶:… مولانا محمد رفیع صاحب دار العلوم کراچی۔

۷:… مولانا محمد تقی صاحب دار العلوم کراچی۔

مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاوٴن کراچی سے:

۸:… حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری شیخ الحدیث و مہتمم مدرسہ۔

۹:… مولانا محمد ولی حسن صاحب مفتی مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاوٴن کراچی۔

۱۰:… مولانا محمد ادریس صاحب مدرّس مدرسہ عربیہ اسلامیہ۔

اشرف المدارس سے:

۱۱:… مولانا مفتی رشید احمد صاحب مفتی و مہتمم مدرسہ۔

باہر سے جن حضرات کے تحقیقی فتاویٰ موصول ہوئے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:

۱:… حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند۔

۲:… حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب مفتی خیرالمدارس ملتان۔

۳:… مولانا عبدالستار صاحب مفتی خیر المدارس ملتان۔

۴:… مولانا محمد اسحاق صاحب نائب مفتی خیر المدارس ملتان۔

۵:… مولانا جمیل احمد صاحب تھانوی مفتی جامعہ اشرفیہ لاہور۔

۶:… مولانا مفتی محمود صاحب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان۔

۷:… مولانا عبداللطیف صاحب معین مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان۔

۸:… مولانا وجیہ صاحب مفتی دارالعلوم ٹنڈوالہ یار۔

اس مجلس نے خون اور اعضاء کے مسائل کے علاوہ اسی طرح کے دُوسرے اہم اور ابتلائے عام کے مسائل میں بحث و تمحیص کا بھی فیصلہ کیا ہے اور بحمداللہ اس وقت تک بہت سے اہم مسائل زیرِ بحث آکر مجلس کی رائے کی حد تک طے کرکے منضبط کرلئے گئے ہیں، جس میں مسائلِ ذیل شامل ہیں:

۱:… بیمہٴ زندگی کا مسئلہ۔

۲:… پراویڈنٹ فنڈ کے سود اور اس فنڈ کی رقم پر زکوٰة کا مسئلہ۔

۳:… بلاسود بینکاری کا مفصل نظام۔

۴:… یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ اور ان سے گوشت خریدنے کا مسئلہ۔

۵:… مشینی ذبیحہ کا مسئلہ۔

اس وقت خون اور اعضاء کے زیرِ بحث مسئلے کے متعلق جس قدر جوابات بیرونی حضرات سے وصول ہوئے یا ارکانِ مجلس نے اپنی تحقیق سے لکھے، ان سب پر غور و فکر کے بعد مجلس جس نتیجے پر پہنچی اس کو ان اوراق میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہر ایک کو الگ الگ لکھنے میں تکرار بھی ہوتا اور بے ضرورت ضخامت بھی بڑھتی، اس لئے بحث و تمحیص کے بعد جو کچھ منقح ہوا، اس کو ایک ترتیب سے لکھ لیا گیا اور دلائل کے حوالوں کو عوام کی سہولت کے لئے الگ لکھ دیا گیا ہے، والله المستعان!

مقدمہ

چند اُصولی مسائل

مسائل کی تفصیل سے پہلے چند اُصولی باتیں سمجھ لینا ضروری ہے، تاکہ آنے والے مسائل کے سمجھنے میں سہولت ہو۔

اوّل:… ہر حرام چیز انسانیت کے لئے مضر ہے:

خدائے حکیم و برتر نے جن چیزوں کو بندوں کے لئے حرام اور ممنوع قرار دیا ہے خواہ بظاہر ان میں کتنا ہی فائدہ نظر آئے لیکن درحقیقت وہ انسان اور انسانیت کے لئے مضر ہیں اور نفع کے بجائے نقصان کا پہلو ان میں غالب ہے۔ یہ نقصان کبھی جسمانی ہوتا ہے، کبھی رُوحانی۔ پھر کبھی تو اس قدر واضح ہوتا ہے کہ ہر عام و خاص اسے جانتا ہے، اور کبھی ذرا خفی ہوتا ہے جسے حاذق طبیب اور ماہر ڈاکٹر ہی جان سکتے ہیں، اور کبھی اتنا لطیف ہوتا ہے کہ نہ افلاطون و ارسطو کی عقل کی وہاں تک رسائی ہوسکتی ہے، نہ کسی جدید سے جدید آلے کی مدد سے اسے دریافت کیا جاسکتا ہے، بلکہ صرف حاسہٴ وحی اور فراستِ نبوّت ہی سے اسے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے، اِنِّیْ اَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔

دوم:… تکریمِ انسان اور اس کے دو پہلو

حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ظاہری و معنوی شرف و امتیاز بخشا ہے، وہ شکل و صورت میں سب سے حسین اور علم و ادراک میں سب سے فائق پیدا کیا گیا اور اسے کائنات کا مخدوم و مکرم بنایا گیا ہے، اس تکریم و شرف کا ایک پہلو یہ ہے کہ تمام کائنات اسی کی خدمت پر مأمور ہے، بہت سی چیزوں کو اس کی غذا یا دوا کے لئے حلال کردیا گیا ہے، اور اضطراری حالت میں حرام چیزوں کے استعمال کی بھی اسے اجازت دی گئی ہے، اور دُوسرا پہلو یہ کہ انسان کے اعضاء کو غذا اور دوا کے لئے ممنوع اور ان کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

سوم:… علاج میں شرعی سہولتیں:

اسلام کی نظر میں انسانی جان درحقیقت امانتِ الٰہیہ ہے، جسے تلف کرنا سنگین جرم ہے، اس کی حفاظت کے لئے بڑے سامان تیار کئے گئے ہیں، جن کے استعمال کا حکم ہے اور ایسی تدابیر اور علاج معالجے کو ضروری قرار دیا ہے جس سے مریض کی جان بچ سکے، مریض کی سہولت کے لئے نماز، روزہ، غسل، طہارت وغیرہ کے اَحکام الگ وضع فرمائے ہیں، اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اِضطرار کی حالت میں جان بچانے کے لئے کلمہٴ کفر بکنے کی، جو اسلام کی نظر میں بدترین جرم ہے، اجازت دے دی گئی، اسی طرح جو شخص بھوک سے مر رہا ہو اس کے لئے سدِ رمق تک خنزیر اور مردار کھانے کو مباح بلکہ ضروری کردیا گیا۔

چہارم:… اِضطرار کا صحیح درجہ کیا ہے؟

ناواقف حضرات ہر معمولی حاجت کو “اِضطراری حالت” کا نام دے لیتے ہیں، اس لئے ضروری ہوا کہ اس کی تنقیح کردی جائے۔

علامہ حموی “شرح اشباہ” میں لکھتے ہیں کہ: یہاں پانچ درجے ہیں: ضرورت (اِضطرار)، حاجت، منفعت، زینت اور فضول۔

اِضطرار:… یہ ہے کہ ممنوع چیز کو استعمال کئے بغیر جان بچانے کی کوئی صورت ہی نہ ہو، یہی وہ اِضطراری صورت ہے جس میں خاص شرائط کے ساتھ حرام کا استعمال مباح ہوجاتا ہے۔

حاجت:… یہ ہے کہ ممنوع چیز کو استعمال نہ کرنے سے ہلاکت کا اندیشہ تو نہیں لیکن مشقت اور تکلیف شدید ہوگی، اس حالت میں نماز، روزہ، طہارت وغیرہ کے اَحکام کی سہولتیں تو ہوں گی مگر حرام چیزیں مباح نہ ہوں گی۔

منفعت:… یہ ہے کہ کسی چیز کے استعمال کرنے سے بدن کی تقویت کا فائدہ ہوگا، اور نہ کرنے سے نہ ہلاکت کا اندیشہ ہے، نہ شدید تکلیف کا، اس حالت میں نہ کسی حرام کا استعمال جائز ہے، نہ روزہ کے اِفطار کی اجازت ہے، کسی حلال چیز سے یہ نفع حاصل ہوسکتا ہو تو کرے، ورنہ صبر کرے۔

زینت:… یہ ہے کہ اس میں بدن کی تقویت بھی نہ ہو، محض تفریحِ طبع ہو، ظاہر ہے کہ اس کے لئے کسی ناجائز چیز کے جواز کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے؟

فضول:… یہ کہ تفریح سے بھی آگے محض ہوس رانی مقصود ہو۔

ہماری بحث چونکہ اِضطرار کی حالت سے ہے، اس لئے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اِضطرار کی حالت میں کسی حرام چیز کے استعمال کی تین شرطیں ہیں:

الف:… مریض کی حالت واقعتا ایسی ہو کہ حرام چیز کے استعمال نہ کرنے سے جان کا خطرہ ہو۔

ب:… یہ خطرہ محض وہمی نہ ہو بلکہ کسی معتمد حکیم یا ڈاکٹر کے کہنے کی بنا پر یقینی ہو، اور کسی حلال چیز سے علاج ممکن نہ ہو۔

ج:… اس حرام چیز سے جان کا بچ جانا بھی کسی معتمد حکیم یا مستند ڈاکٹر کی رائے میں عادةً یقینی ہو۔

ان شرائط کے ساتھ حرام چیز کا استعمال مباح ہوجاتا ہے، مگر پھر بھی بعض صورتیں اس سے مستثنیٰ رہیں گی، مثلاً ایک شخص کی جان بچانے کے لئے دُوسرے کی جان لینا جائز نہیں، کہ دونوں کی جان یکساں محترم ہے۔

پنجم:… غیراِضطراری حالت میں علاج کی شرعی سہولت:

اگر اِضطرار کی حالت تو نہ ہو (جس میں جان کا خطرہ ہوتا ہے) مگر بیماری اور تکلیف کی شدّت سے مریض بے چین ہے (اسی حالت کو اُوپر حاجت سے تعبیر کیا گیا) تو اس صورت میں حرام اور نجس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ چونکہ اس کا حکم قرآن و سنت میں صراحتاً مذکور نہیں اس لئے فقہائے اُمت کا اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک جائز نہیں، اور جمہور فقہاء مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں، یعنی کسی معتمد ڈاکٹر یا حکیم کی رائے میں اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو، اور اس حرام چیز سے شفا حاصل ہونے کا پورا وثوق ہو۔

ان مقدمات کی روشنی میں اب زیرِ بحث دونوں مسئلوں کا حکم لکھا جاتا ہے۔

خون کا مسئلہ

سوال:… ایک انسان کا خون دُوسرے کے بدن میں داخل کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:… خون، انسان کا جزو ہے، اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو نجس بھی ہے، انسان کا جزو ہونے کی حیثیت سے اس کی مثال عورت کے دُودھ کی ہوگی جس کا استعمال علاج کے لئے فقہاء نے جائز لکھا ہے (عالمگیری ج:۴ ص:۱۱۲، طبع مصر)، خون کو بھی اگر اسی پر قیاس کرلیا جائے تو یہ قیاس بعید نہیں ہوگا، البتہ اس کی نجاست کے پیشِ نظر اس کا حکم وہی ہوگا جو حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا اُوپر مقدمہ میں ذکر کیا گیا، یعنی:

۱:… جب مریض اِضطراری حالت میں ہو، اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دئیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو خون دینا جائز ہے۔

۲:… جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی “حاجت” ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو لیکن اس کی رائے میں خون دئیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو تب بھی خون دینا جائز ہے۔

۳:… جب خون نہ دینے کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو، اس صورت میں خون دینے کی گنجائش ہے، مگر اجتناب بہتر ہے، کما فی الھندیة: “وان قال الطبیب یتعجل شفائک فیہ وجھان۔” (ج:۵ ص:۳۳۵)

۴:… جب خون دینے سے محض منفعت یا زینت مقصود ہو، یعنی ہلاکت یا مرض کی طوالت کا اندیشہ نہ ہو، بلکہ محض قوّت بڑھانا یا حسن میں اضافہ کرنا مقصود ہو، تو ایسی صورت میں خون دینا ہرگز جائز نہیں۔

سوال دوم:… کیا کسی مریض کو خون دینے کے لئے اس کی خرید و فروخت اور قیمت لینا بھی جائز ہے؟

جواب:… خون کی بیع تو جائز نہیں، لیکن جن حالات میں، جن شرائط کے ساتھ نمبر اوّل میں مریض کو خون دینا جائز قرار دیا ہے، ان حالات میں اگر کسی کو خون بلاقیمت نہ ملے تو قیمت دے کر خون حاصل کرنا صاحبِ ضرورت کے لئے جائز ہے، مگر خون دینے والے کے لئے اس کی قیمت لینا دُرست نہیں۔

سوال سوم:… کسی غیرمسلم کا خون مسلم کے بدن میں داخل کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:… نفسِ جواز میں کوئی فرق نہیں، لیکن یہ ظاہر ہے کہ کافر یا فاسق فاجر انسان کے خون میں جو اثراتِ خبیثہ ہیں ان کے منتقل ہونے اور اخلاق پر اثرانداز ہونے کا قوی خطرہ ہے، اسی لئے صلحائے اُمت نے فاسقہ عورت کا دُودھ پلوانا بھی پسند نہیں کیا، اس لئے کافر اور فاسق فاجر انسان کے خون سے حتی الوسع اجتناب بہتر ہے۔

سوال چہارم:… شوہر اور بیوی کے باہم تبادلہٴ خون کا کیا حکم ہے؟

جواب:… میاں بیوی کا خون اگر ایک دُوسرے کو دیا جائے تو شرعاً نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نکاح بدستور قائم رہتا ہے، واللہ اعلم!

اعضائے انسانی کا مسئلہ

سوال:… کسی بیمار یا معذور انسان کا علاج دُوسرے زندہ یا مردہ انسان کے اعضاء کا جوڑ لگاکر کرنا کیسا ہے؟

جواب:… اس وقت تک ڈاکٹروں نے بھی زندہ انسان کے اعضاء کا استعمال کہیں تجویز نہیں کیا، اس لئے اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ بحث طلب مسئلہ وہ ہے جو آج کل ہسپتالوں میں پیش آرہا ہے، اور جس کے لئے اپیلیں کی جارہی ہیں، وہ یہ کہ جو انسان دُنیا سے جارہا ہو، خواہ کسی عارضے کے سبب یا کسی جرم میں قتل کئے جانے کی وجہ سے، اس کی اجازت اس پر لی جائے کہ مرنے کے بعد اس کا فلاں عضو لے کر کسی دُوسرے انسان میں لگادیا جائے۔

بظاہر یہ صورت مفید ہی مفید ہے کہ مرنے والے کے تو سارے ہی اعضاء فنا ہونے والے ہیں، ان میں سے کوئی عضو اگر کسی زندہ انسان کے کام آجائے اور اس کی مصیبت کا علاج بن جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ یہ ایسا معاملہ ہے کہ عام لوگوں کی نظر صرف اس کے مفید پہلو پر جم جاتی ہے اور اس کے وہ مہلک نتائج نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں جن کا کچھ ذکر شروع بحث میں آچکا ہے (اصل کتاب میں اس کے مضر پہلووٴں پر مفصل بحث کی گئی ہے، تلخیص میں وہ حصہ حذف کردیا گیا)۔

مگر شریعتِ اسلام کے لئے، جو انسان اور انسانیت کی ظاہری اور معنوی صلاح و فلاح کی ضامن ہے، اس کے مضر اور مہلک نتائج سے صرفِ نظر کرلینا اور محض ظاہری فائدے کی بنا پر اس کی اجازت دے دینا ممکن نہیں۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بیکار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملے میں کسی کی رضامندی اور اجازت سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے، کیونکہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے، تکریمِ انسان کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت، کسی حال میں، کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر رہیں، جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاوٴں اور دواوٴں اور دُوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر ائمہٴ اربعہ اور پوری اُمت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے، واللہ اعلم!

انسانی اعضاء کی حرمت

س… میں ایم بی بی ایس کے سال آخر کی طالبہ ہوں، میں آپ کے مشورے اخبار “جنگ” کے کالم میں پڑھتی رہتی ہوں، اس وقت میں بھی اپنا ایک مسئلہ لے کر حاضر ہوئی ہوں۔ اس وقت میری سوِل اسپتال کے وارڈ S.I.U.T (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلائیزیشن) میں پوسٹنگ لگی ہوئی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں پہلی دفعہ Cadaver Kidney Transplantation (مردہ جسم سے گردہ نکال کر زندہ آدمی کے لگانا) ہوا ہے۔ یہ S.I.U.T میں ہی پرفارم کیا گیا ہے اور آج کل میں دُوسرا اس نوعیت کا آپریشن ہونے والا ہے۔ یہ دونوں گردے جو مردہ اشخاص کے جسم سے نکالے گئے، باہر کے ملک سے بھیجے گئے ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس وارڈ کی جو ایڈمنسٹریشن ہیں وہ ہم سب اسٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر یہ ڈسکشن کرنا چاہتی ہیں کہ آیا اگر کوئی ہم سے کہے کہ ہم مرنے کے بعد اپنے جسم کا کوئی عضو کسی مرتے ہوئے انسان کی جان بچانے کے لئے دے دیں تو ہمارا کیا رَدِّ عمل ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اسلامی نقطہٴ نظر سے اس بات کو غلط سمجھتے ہیں، تو سعودی عرب بھی ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں شاید ۷ یا ۸ سال سے کیڈایور ٹرانسپلانٹ ہو رہا ہے۔ میری کچھ اور دوستوں کا کہنا یہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ تو اس لئے اگر ہم Donorcard بھردیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے جسم سے ہمارا کوئی بھی عضو نکال کر کسی کے لگادیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

میرا اپنا اس بارے میں یہ خیال ہے کہ اس طرح کرنا مُردے کی بے حرمتی ہے اور یہ اسلام میں جائز نہیں۔ اب میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ فرمائیے کہ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ پلیز آپ اپنے دلائل ثبوت کے ساتھ دیجئے گا تاکہ مجھے آپ کا موقف دُوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے میں آسانی رہے۔

ج… اس مسئلے میں آپ کا موقف صحیح ہے، اور آپ کی رفیقاوٴں کا موقف غلط ہے، اس سلسلے میں چند باتیں ذہن میں رکھی جائیں:

۱:… آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے ایسی وصیت کرجائے کہ اس کے جسم کے اجزاء نکال کر کسی ضرورت مند کے بدن میں لگادئیے جائیں، تب تو اس کے بدن کے اجزاء نکالے جاتے ہیں، ورنہ نہیں۔ گویا یہ اُصول تسلیم کرلیا گیا ہے کہ مرنے والے کی اجازت کے بغیر اس کے بدن کے اجزاء استعمال نہیں کئے جاسکتے۔

۲:… اب جو لوگ کہ کسی دین و مذہب کے قائل ہی نہیں، یا دین و مذہب کے قائل تو ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ مذہب ہماری زندگی کے جائز و ناجائز سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ایسے لوگوں کو تو مذکورہ بالا اجازت نامے کے لئے مذہب سے اجازت لینے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ہمارا دین و مذہب اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اگر مذہب کی طرف سے اجازت ہو تو مذکورہ بالا وصیت جائز ہوگی، ورنہ ایسی وصیت غلط اور لغو و باطل ہوگی۔

۳:… یہ اُصول طے ہوا، تو اَب یہ دیکھنا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے اعضاء کا اور اس کے وجود کا مالک بنایا ہے؟ آدمی ذرا بھی غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کا وجود اور اس کے اعضاء اس کی ملکیت نہیں۔

بلکہ یہ ایک سرکاری مشین ہے جو اس کے استعمال کے لئے اس کو دی گئی ہے، اور سرکاری چیز سمجھ کر اس کی حفاظت و نگرانی بھی اس کے ذمہ لگائی ہے، لہٰذا اس کو ان اعضاء کے تلف کرنے کی اجازت نہیں، نہ فروخت کرنے ہی کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو خودکشی کی اجازت نہیں بلکہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص خودکشی کرے وہ تاقیامت اسی عذاب میں مبتلا رہے گا۔ پس جب انسان اپنے وجود کا مالک نہیں تو اعضاء کو فروخت بھی نہیں کرسکتا، نہ ہبہ کرسکتا ہے، نہ اس کی وصیت کرسکتا ہے، اور اگر ایسی وصیت کرجائے تو یہ وصیت غیرملک میں ہونے کی وجہ سے باطل ہوگی۔

۴:… علاوہ ازیں احترامِ آدمیت کا بھی تقاضا ہے کہ اس کے اعضاء کو “بکاوٴ مال‘ اور استعمال کی چیز نہ بنایا جائے، پس اعضاء ہبہ کی وصیت کرنا احترامِ آدمیت کے خلاف ہے۔

۵:… عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد آدمی بے حس ہوتا ہے، یہ خیال بھی صحیح نہیں، وہ صرف ہمارے جہان اور ہمارے مشاہدے کے اعتبار سے بے حس نظر آتا ہے، ورنہ دُوسری زندگی کے اعتبار سے اس میں احساس موجود ہے۔ اس بنا پر مردہ کے جسم کی چیرپھاڑ جائز نہیں کہ اس سے مردہ کو بھی ایسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسی زندہ آدمی کو تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے یعنی: “میّت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا۔”

(مشکوٰة، باب دفن المیّت، فصل دوم کی آخری حدیث نمبر:۱۷۱۴)

۶:… لوگ اپنی زندگی میں نہ آنکھوں کا عطیہ دیتے ہیں، نہ گردوں کا، کیونکہ جانتے ہیں کہ اس زندگی میں اس کو خود ان اعضاء کی ضرورت ہے، لیکن مرنے کے بعد کے لئے بڑی فیاضی سے وصیت کرجاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس زندگی کو تو زندگی سمجھتے ہیں لیکن مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے، یوں سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اعضاء گل سڑ جائیں گے، خاک میں مل جائیں گے اور ان اعضاء کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یہی عقیدہ کفارِ مکہ کا تھا اور یہی عقیدہ عام کافروں کا ہے۔ جو مسلمان ایسی وصیت کرتے ہیں وہ بھی انہی کافروں کے عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے۔

الغرض! اعضائے انسانی کی پیوندکاری جائز نہیں، اور ان اعضاء کے ہبہ کی وصیت باطل ہے۔

کیا نو سال کی عمر میں کوئی لڑکی بالغ ہوسکتی ہے؟

س… عورت کے بالغ ہونے کی کم از کم کتنی مدّت ہے؟ بعض لوگ حضرت عائشہ کی نو سال کی رُخصتی پر اعتراض کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ مدلل و مفصل جواب دیں۔

ج… یہ صرف ملحدین اور منکرینِ حدیث کی اُڑائی ہوئی بات ہے، ورنہ لڑکی نو سال کی بالغ ہوسکتی ہے، اس سلسلے میں روزنامہ “جنگ” کی خبر ملاحظہ ہو:

“برازیل میں ایک ۹ سالہ لڑکی گزشتہ ماہ ایک بچی کو جنم دے کر دُنیا کی کمسن ترین ماں بن گئی۔ اخبار ڈیلی مرر نے بدھ کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ماریا ایلاینی جینرز نے ۲۵/مارچ کو شمالی برازیل کے قصبہ ژاکوئی میں آپریشن کے ذریعے بچی کو جنم دیا، نوزائیدہ بچی کے باپ کی عمر ۱۶ برس بتائی جاتی ہے۔ ماریا ایلاینی کی خود کی ماں اسے جنم دینے کے بعد مرگئی تھی جس کے بعد سے ایک ۶۲ سالہ بے زمین کاشتکار نے اس کی کفالت کی۔ مرر نے کمسن ماں اور اس کی نوزائیدہ بچی کی تصویر بھی شائع کی ہے۔”

(روزنامہ “جنگ” کراچی ۱۰/اپریل ۱۹۸۶ء ص:۱۰)

۱۶/اپریل کے اخبارات میں اس “کمسن ماں” اور اس کی نومولود بچی کی تصویریں بھی شائع ہوئی ہیں۔ خیال ہے کہ برازیل کے اخبار “ڈیلی مرر” کے حوالے سے یہ عجیب و غریب خبر دُنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئی ہوگی۔ ماریا ایلاینی کا دُنیا کی سب سے “کمسن ماں” بن جانا بلاشبہ ایک اعجوبہ ہے، لیکن یہ واقعہ خود کتنا ہی عجیب و غریب ہو چونکہ وجود اور مشاہدے میں آچکا ہے اس لئے کوئی عاقل یہ کہہ کر اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟

صحیح بخاری شریف اور حدیث و سیر اور تاریخ کی تمام کتابوں میں اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور رُخصتی کا واقعہ خود اُمّ الموٴمنین ہی کی زبانی یوں منقول ہے:

“ان النبی صلی الله علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین، وادخلت علیہ وھی بنت تسع، ومکثت عندہ تسعًا۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۷۱)

ترجمہ:… “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد کیا جب وہ چھ سال کی تھیں، اور ان کی رُخصتی ہوئی جبکہ وہ نو سال کی تھیں، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نو سال رہیں۔”

فقہائے اُمت نے اس حدیث سے متعدّد مسائل اخذ کئے ہیں، مثلاً ایک یہ کہ والد اپنی نابالغ اولاد لڑکی، لڑکے کا نکاح کرسکتا ہے، چنانچہ امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے: “باب النکاح الرجل ولدہ الصغار” یعنی آدمی کا اپنی کمسن اولاد کا نکاح کردینا۔

اس کے ذیل میں حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:

“قال المھلب: اجمعوا انہ یجوز للأب تزویج ابنتہ الصغیرة البکر ولو کانت لا یطا مثلھا، الا ان الطحاوی حکی عن ابن شبرمة منعہ فیمن لا توطا، وحکی ابن حزم عن ابن شبرمة مطلقًا ان الأب لا یزوج بنتہ البکر الصغیرة حتی تبلغ، وتاذن، وزعم ان تزویج النبی صلی الله علیہ وسلم وھی بنت ست سنین کان من خصائصہ۔” (حاشیہ بخاری ص:۷۷۱، فتح الباری ج:۹ ص:۱۹۰)

ترجمہ:… “مہلب فرماتے ہیں کہ: اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ باپ کے لئے جائز ہے کہ اپنی چھوٹی کنواری بیٹی کا عقد کردے، اگرچہ وہ وظیفہٴ زوجیت کے لائق نہ ہو۔ البتہ امام طحاوی نے ابنِ شبرمہ سے نقل کیا ہے کہ جو لڑکی وظیفہٴ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں، باپ اس کا نکاح نہیں کرسکتا، اور ابنِ حزم نے ابنِ شبرمہ سے نقل کیا ہے کہ باپ چھوٹی بچی کا نکاح نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، اور اجازت دیدے، ابنِ شبرمہ کا خیال ہے کہ حضرت عائشہ کا چھ سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقد کیا جانا آپ کی خصوصیت ہے۔”

گویا اُمت کے تمام فقہاء و محدثین، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کو تسلیم کرتے ہیں، اور اس پر اَحکام کی تفریع کرتے ہیں، چودہ صدیوں کے کسی عالم نے اس واقعہ کا انکار نہیں کیا، لیکن منکرینِ حدیث اور ملاحدہ اس واقعہ کا (جو حدیث، سیرت، تاریخ اور فقہ کی بے شمار کتابوں میں درج اور چودہ صدیوں کی پوری اُمت کا مُسلَّمہ واقعہ ہے) انکار کرتے ہیں، اور انکار کی دلیل صرف یہ کہ نو سال کی بچی کی رُخصتی کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ نو سال کی لڑکی بالغ ہوسکتی ہے، چنانچہ “ہدایہ” میں ہے:

وأدنی المدة لذالک فی حق الغلام اثنا عشرة سنة وفی حق الجاریة تسع سنین۔” (ج:۳ ص:۳۵۶)

ترجمہ:… “بلوغ کی ادنیٰ مدّت لڑکے کے حق میں بارہ سال اور لڑکی کے حق میں نو سال ہے۔”

بہرحال یہاں اس مسئلے پر گفتگو مقصود نہیں، بلکہ کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی عجیب واقعہ اخبارات میں چھپتا ہے تو ہمارے پڑھے لکھے، روشن خیال حضرات کو نہ کوئی اِشکال ہوتا ہے، اور نہ اس کے تسلیم کرنے میں کوئی جھجک محسوس ہوتی ہے، اور نہ کسی کو انکار کی جرأت ہوتی ہے، اور اگر کوئی ایسے واقعہ کا انکار کردے تو ہمارا روشن خیال طبقہ اس کو احمق کہتا ہے۔ لیکن اسی نوعیت کا بلکہ اس سے بھی ہلکی نوعیت کا کوئی واقعہ حدیث کی کتابوں میں نظر آجاتا ہے تو اس کا فوراً انکار کردیا جاتا ہے، اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، احادیث اور محدثین پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، اور غریب مُلَّا کو پیٹ بھر کر گالیاں دی جاتی ہیں، اور کبھی کبھی اَزراہِ ہمدردی کتبِ حدیث کی “اصلاح” کا اعلان کردیا جاتا ہے، اور ایک دہائی بڑھاکر “چھ” کو “سولہ” اور “نو” کو “اُنیس” بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اتنی تمیز سے بھی کام نہیں لیا جاتا کہ جس طرح اُردو میں “چھ” کا اِملا “سولہ” کے ساتھ اور “نو” کا “اُنیس” کے ساتھ نہیں ہوسکتا، اسی طرح عربی میں یہ ناممکن ہے۔

سوال یہ ہے کہ اخبارات میں درج شدہ واقعات کو بلاچوں و چرا مان لینا، اور اسی نوعیت کے حدیث میں درج شدہ واقعات پر سو سو طرح کے شبہات ظاہر کرنا، اس کا اصل منشا کیا ہے؟ اس کا منشا یہ ہے کہ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ رسالت و نبوّت پر ایمان نہیں اور ان کے دِل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احوال اور افعال کی عظمت نہیں، اس لئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے خارقِ عادت واقعات کا بڑی جرأت و دلیری سے انکار کردیتے ہیں۔

پہلی بیوی کو خودکشی سے بچانے کے لئے تین طلاق کا حکم

س… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ: زید کی دو بیویاں ہیں، پہلی کا نام زینب اور دُوسری کا نام نرگس ہے۔ زید کو زینب نے دھمکی دی کہ اگر وہ اپنی بیوی نرگس کو فوراً طلاق نہیں دے گا تو وہ خودکشی کرلے گی۔ زید اپنی دُوسری بیوی نرگس کو ہرگز طلاق نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن زینب کی زبردستی کرنے اور اس کی جان جانے کے خطرے سے بچنے کے لئے اس نے نرگس کی غیرموجودگی میں زینب کے سامنے دو مرتبہ طلاق کہی۔ پھر اس کی مزید زبردستی کی وجہ سے تین مرتبہ، طلاق، طلاق، طلاق کہا، جبکہ نرگس حاملہ بھی ہے، زینب نے تین چار روز بعد نرگس کو یہ بات بتائی، (واضح رہے کہ زید سمجھتا تھا کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی)۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات بتائیں کہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ اس سلسلے میں بہت سے علمائے کرام سے فتویٰ بھی حاصل کئے گئے ہیں جن میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں، براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کون سا موقف دُرست ہے؟

ج… اس استفتاء کے ساتھ پندرہ فتاویٰ اس ناکارہ کے پاس بھیجے گئے ہیں، جن کا استفتاء میں حوالہ دیا گیا ہے، ان فتاویٰ کی فہرست درج ذیل ہے:

۱:… جناب مفتی عبدالمنان۔ تصدیق مفتی عبدالروٴف صاحب، دارالعلوم کورنگی، کراچی۔

۲:… جناب مفتی کمال الدین۔ تصدیق جناب مفتی اصغر علی، دارالعلوم کورنگی، کراچی۔

۳:… جناب مفتی انعام الحق۔ تصدیق جناب مفتی عبدالسلام، جامعة العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاوٴن کراچی۔

۴:… جناب مفتی فضل غنی، دار العلوم جامعہ بنوریہ، سائٹ، کراچی۔

۵:… جناب مفتی غلام رسول۔ تصدیق مفتی شریف احمد طاہر، جامعہ رشیدیہ ساہیوال (پنجاب)۔

۶:… جناب مفتی محمد عبداللہ، دار العلوم قمر الاسلام سلیمانیہ، پنجاب کالونی، کراچی۔

۷:… جناب مفتی محمد اسلم نعیمی، مجلس علمائے اہلِ سنت کراچی۔

۸:… جناب مفتی محمد فاروق۔ تصدیق مفتی محمد اکمل، دار الافتاء مدرسہ اشرفیہ، جیکب لائن کراچی۔

۹:… جناب مفتی محمد جان نعیمی، دار العلوم مجددیہ نعیمیہ، ملیر، کراچی۔

۱۰:… جناب مفتی غلام دستگیر افغانی، جامعہ ضیاء العلوم، آگرہ تاج کالونی، کراچی۔

۱۱:… مفتی لطافت الرحمن، جامعہ حنفیہ ، سعودآباد، کراچی۔

۱۲:… مفتی محمد عبدالعلیم قادری، دار العلوم قادریہ سبحانیہ، فیصل کالونی کراچی۔

۱۳:… جناب مفتی محمد رفیق، دار العلوم، جامعہ اسلامیہ، گلزار حبیب، سولجز بازار، کراچی۔

۱۴:… جناب مفتی شعیب بن یوسف، مدرسہ بحرالعلوم سعودیہ، عامل اسٹریٹ کراچی۔

۱۵:… جناب مفتی محمد ادریس سلفی، جماعت غربائے اہلِ حدیث، محمدی مسجد، برنس روڈ کراچی۔

ان میں سے اوّل الذکر تیرہ فتوے اس پر متفق ہیں کہ نرگس پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور وہ حرمتِ مغلظہ کے ساتھ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے، نہ رُجوع کی گنجائش ہے اور نہ شرعی حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح کی گنجائش ہے۔

اس ناکارہ کے نزدیک یہ تیرہ فتوے صحیح ہیں کہ نرگس اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب ان دونوں کے میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

اس مسئلے کے دلائل درج ذیل ہیں:

۱:… حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

“اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ ․․․ الٰی قولہ ․․․ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ․․․۔” (البقرة: ۲۲۹، ۲۳۰)

ترجمہ:… “وہ طلاق دو مرتبہ (کی) ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ، اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ (چھوڑنے کے وقت) کچھ بھی لو (گو) اس میں سے (سہی) جو تم نے ان کو (مہر میں) دیا تھا، مگر یہ کہ میاں بیوی دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو قائم نہ کرسکیں گے، سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے، یہ خدائی ضابطے ہیں، سو تم ان سے باہر مت نکلنا، اور جو شخص خدائی ضابطوں سے بالکل باہر نکل جائے، سو ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔ پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دیدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدّت کے بعد) نکاح کرلے، پھر اگر یہ اس کو طلاق دیدے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں، بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے، اور یہ خداوندی ضابطے ہیں، حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو دانش مند ہیں۔”

اس آیتِ شریفہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے دو مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسری طلاق دے دی تو بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ تیسری طلاق خواہ اسی مجلس میں دی گئی ہو یا الگ طہر میں، دونوں کا ایک ہی حکم ہے، چنانچہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے “باب من اجاز الطلاق الثلاث” میں اس آیت کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ تین طلاقیں خواہ بیک وقت دی گئی ہوں، تین ہی نافذ ہوجاتی ہیں۔ (صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۹۱)

۲:… امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے مندرجہ بالا باب کے ذیل میں عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے لعان کا واقعہ ذکر کیا ہے، جس کے آخر میں ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا:

“کذبت علیھا یا رسول الله ان امسکتھا، فطلقھا ثلاث قبل أن یأمرہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۹۱)

ترجمہ:… “یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد میں اس کو رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ باندھا، پس انہوں نے قبل اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے، اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔”

امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ تین طلاقیں خواہ بیک وقت دی جائیں، واقع ہوجاتی ہیں۔ اور حافظ ابنِ حزم رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عویمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر گرفت نہیں فرمائی، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تین طلاقیں بیک وقت دینا صحیح ہے۔ (المحلی ج:۱۰ ص:۱۷۰)

۳:… امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اسی باب میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ: رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا: یا رسول اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی، پس پکی طلاق دے دی۔

(صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۹۱)

اس حدیث میں “پکی طلاق دے دی” (بت طلاقی) سے مراد تین طلاقیں ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفصیل دریافت نہیں فرمائی کہ یہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی تھیں یا الگ الگ، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے، یعنی حرمتِ مغلظہ۔

۴:… اسی باب میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت عائشہ کی حدیث نقل کی ہے کہ: ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، اس نے دُوسرے شوہر سے (عدّت کے بعد) نکاح کرلیا، اور دُوسرے شوہر نے بھی اس کو طلاق دے دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ: کیا وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگئی؟ فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دُوسرے شوہر سے صحبت بھی کرے، جیسا کہ پہلے سے کی تھی۔ (صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۹۱)

۵:… صحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیس کا واقعہ مذکور ہے کہ: ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دی تھیں، ان کے نفقہ و سکنیٰ کا مسئلہ زیرِ بحث آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لئے نفقہ و سکنیٰ نہیں ہے۔ (صحیح مسلم ج:۱ ص:۴۸۳)

حافظ ابنِ حزم رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: یہ خبر متواتر ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس کے شوہر نے اس کو تین طلاقیں دے دیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقوں پر اعتراض نہیں فرمایا اور نہ یہ فرمایا کہ یہ خلافِ سنت ہے۔ (المحلی ج:۱۰ ص:۱۷۱)

۶:… امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوکر کھڑے ہوئے، پھر فرمایا کہ: کیا میرے موجود ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے؟

(نسائی ج:۲ ص:۹۹)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو تین ہوتی ہیں، ورنہ اگر ایک ہی ہوتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر غیظ و غضب کا اظہار نہ فرماتے۔

۷:… امام ابوداوٴد رحمة اللہ علیہ نے متعدّد طرق سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو “البتہ” طاق دے دی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ: میں نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا، فرمایا: حلفاً کہتے ہو کہ ایک کا ارادہ کیا تھا؟ عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے ایک ہی کا ارادہ کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی اس کو واپس لوٹادی۔

(ابوداوٴد ج:۱ ص:۳۰۰)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رکانہ رضی اللہ عنہ سے فرمانا کہ: “حلفاً کہتے ہو کہ تم نے ایک ہی کا ارادہ کیا تھا؟” اس امر کی دلیل ہے کہ “البتہ” کے لفظ سے بھی اگر تین طلاق کا ارادہ کیا جائے تو تین ہی واقع ہوتی ہیں، چہ جائیکہ صریح الفاظ میں تین طلاقیں دی ہوں۔

قرآن و حدیث کے ان دلائل کی روشنی میں ائمہٴ اربعہ، امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، امام مالک رحمة اللہ علیہ، امام شافعی رحمة اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ، امام بخاری رحمة اللہ علیہ اور تمام محدثین اس پر متفق ہیں کہ تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں، یا ایک مجلس میں، تین ہی شمار کی جائیں گی۔

فتویٰ نمبر:۱۴ ایک اہلِ حدیث کے قلم سے ہے، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تین طلاقیں جب ایک مجلس میں دی جائیں تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے، لہٰذا نرگس پر ایک طلاق واقع ہوئی، عدّت کے اندر شوہر اس سے رُجوع کرسکتا ہے۔

اہلِ حدیث عالم کا یہ فتویٰ صریحاً غلط اور مذکورہ بالا آیت و احادیث کے علاوہ اجماعِ اُمت کے بھی خلاف ہے، کیونکہ تمام اکابر صحابہ اس پر متفق ہیں کہ ایک لفظ یا ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کے چند فتاویٰ بطور نمونہ درج ذیل ہیں:

۱:… حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں، آپ اس کو سزا دیتے اور دونوں کے درمیان تفریق کرادیتے۔

(مصنف ابنِ ابی شیبہ ج:۶ ص:۱۱، مصنف عبدالرزاق ج:۶ ص:۳۹۶)

۲:… زید بن وہب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی، معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا تو اس شخص نے کہا کہ: میں تو یونہی کھیل رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سر پر درہ اُٹھایا اور دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔

(ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۳، عبدالرزاق ج:۶ ص:۳۹۳)

۳:… ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیں۔ فرمایا: تین طلاقیں اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں، اور ستانوے عدوان (ظلم و زیادتی اور حدودِ الٰہی سے تجاوز) ہے۔

(ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۳)

۴:… ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دی ہیں۔ فرمایا: تین طلاقیں اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں، باقیوں کو اپنی دُوسری عورتوں پر تقسیم کردو۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۳)

۵:… حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو ۹۹ طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا: پھر لوگوں نے تجھ سے کیا کہا؟ کہنے لگا کہ: لوگوں نے یہ کہا کہ تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی۔ فرمایا: لوگوں نے تیرے ساتھ شفقت و نرمی کرنا چاہی ہے (کہ صرف بیوی کو حرام کہا)، وہ تین طلاقوں کے ساتھ تجھ پر حرام ہوگئی، باقی طلاقیں ظلم و تعدی ہے۔

(ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۲، عبدالرزاق ج:۶ ص:۳۹۵)

۶:… ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا: تین طلاقوں نے اس کو حرام کردیا، باقی ۹۷ گناہ ہیں۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۲)

۷:… حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس نے اپنے رَبّ کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۱)

۸:… ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو سو مرتبہ طلاق دی ہے۔ فرمایا: تین کے ساتھ وہ تجھ پر حرام ہوگئی، اور ۹۷ کا اللہ تعالیٰ تجھ سے قیامت کے دن حساب لیں گے۔

(ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۴)

۹:… ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ فرمایا: تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، پس اللہ تعالیٰ نے اس کو ندامت میں ڈال دیا، اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہیں رکھی۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۱)

۱۰:… ہارون بن عنترہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ: میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، ایک شخص آیا اور کہا کہ: حضور! میں نے ایک ہی مرتبہ اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے ڈالیں، اب وہ تین طلاق کے ساتھ مجھ پر بائنہ ہوجائے گی یا ایک ہی طلاق ہوگی؟ فرمایا: تین کے ساتھ وہ تجھ پر بائنہ ہوگئی، اور ۹۷ کا گناہ تیری گردن پر رہا۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۳)

۱۱:… ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار ایک سو طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا: تین کے ساتھ تجھ پر بائنہ ہوگئی، باقی ماندہ کا گناہ تجھ پر بوجھ ہے کہ تو نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ہنسی مذاق بنایا۔

(ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۳)

۱۲:… حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ: ایک شخص نے ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ فرمایا: اس نے اپنے رَبّ کا گناہ کیا، اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۰)

۱۳:… حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ: ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں۔ فرمایا: تین نے بیوی کو اس پر حرام کردیا، باقی ماندہ زائد رہیں۔ (ابنِ ابی شیبہ ج:۵ ص:۱۳)

۱۴:… محمد بن ایاس بن بکیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو رُخصتی سے قبل تین طلاقیں دے دیں، پھر اس نے اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا، وہ مسئلہ پوچھنے کے لئے آیا، میں بھی اس کے لئے مسئلہ پوچھنے کی خاطر اس کے ساتھ گیا، اس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ پوچھا، دونوں نے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک وہ اس سے نکاح نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ دُوسری شادی نہ کرے۔ اس نے کہا کہ: میرا اسے طلاق دینا تو ایک ہی بار تھا، تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ: تیرے لئے جو کچھ بچ رہا تھا وہ تو نے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ (موٴطا امام مالک ص:۵۲۱)

دُوسری روایت میں ہے کہ معاویہ بن ابی عیاش انصاری کہتے ہیں کہ: وہ عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے تھے، اتنے میں محمد بن ایاس بن بکیر آئے اور کہا کہ: ایک بدوی نے اپنی بیوی کو رُخصتی سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، اس مسئلے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، حضرت ابنِ عباس اور حضرت ابوہریرہ کے پاس جاوٴ، میں ان دونوں کو حضرت عائشہ کے پاس بیٹھے چھوڑ کر آیا ہوں، ان سے پوچھو اور واپس آکر ہمیں بھی بتاوٴ۔ چنانچہ وہ ان دونوں کی خدمت میں گئے اور ان سے مسئلہ پوچھا، ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوہریرہ! ان کو فتویٰ دیجئے، کیونکہ آپ کے سامنے پیچیدہ مسئلہ آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک طلاق اس کو بائنہ کردیتی ہے، اور تین طلاقیں اس کو حرام کردیتی ہیں، یہاں تک کہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے بھی یہی فتویٰ دیا۔

(موٴطا امام مالک ص:۵۲۱، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۷ ص:۳۳۵، شرح معانی طحاوی ج:۲ ص:۳۷)

۱۵:… عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ: ایک شخص عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں فتویٰ لینے آیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو رُخصتی سے قبل تین طلاقیں دے دیں۔ عطاء کہتے ہیں کہ: میں نے کہا کہ: جس عورت کی رُخصتی نہ ہوئی ہو اس کی طلاق تو ایک ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ: تو تو محض قصہ گو ہے (مفتی نہیں)، ایک طلاق اس کو بائنہ کردیتی ہے اور تین طلاقیں اس کو حرام کردیتی ہیں، یہاں تک کہ وہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ (حوالہ بالا)

۱۶:… حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مطلقہ ثلاثہ شوہر کے لئے حلال نہیں رہی، یہاں تک کہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے۔

(طحاوی شریف ج:۲ ص:۳۸)

۱۷:… سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ: عائشہ خثیعمہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے (اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ان کی جگہ خلیفہ ہوئے) تو اس خاتون نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلافت کی مبارک باد دی۔ حضرت حسن نے فرمایا: تو حضرت علی کے قتل پر خوشی کا اظہار کرتی ہے؟ جا تجھے تین طلاق! انہوں نے فوراً اپنے کپڑوں سے اپنے بدن کو لپیٹ لیا اور عدّت میں بیٹھ گئیں، عدّت پوری ہوئی تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کا بقیہ مہر اس کو بھیج دیا اور دس ہزار درہم بطور عطیہ کے دئیے، یہ عطیہ جب اس خاتون کو موصول ہوا تو کہا: “متاع قلیل من حبیب مفارق” (جدائی اختیار کرنے والے محبوب کی جانب سے تھوڑا سا سامان آیا ہے)۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو رو پڑے، پھر فرمایا کہ: اگر میں نے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی (یا یہ فرمایا کہ اگر میرے والد ماجد نے مجھ سے یہ حدیث نہ بیان فرمائی ہوتی جو انہوں نے میرے نانا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی) کہ: “جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں تین طہروں میں دے دیں، یا تین مبہم دے دیں تو وہ اس کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے” تو میں اس خاتون سے رُجوع کرلیتا۔

(سننِ کبریٰ ج:۷ ص:۳۳۶)

یہ صحابہ کرام کے چند فتاویٰ ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں تین خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں، اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہیں، جو اپنے دور میں مرجعِ فتویٰ تھے، اور اس کے خلاف کسی صحابی سے ایک حرف بھی منقول نہیں، اس لئے یہ مسئلہ صحابہ کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ تین طلاقیں بہ لفظِ واحد تین ہی شمار ہوتی ہیں۔ چنانچہ چاروں مذاہب کے ائمہ، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ بھی صحابہ کرام کے اس اجماعی فتویٰ پر متفق ہیں۔ یہی فتویٰ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری (ج:۲ ص:۷۹۱) میں ذکر فرمایا ہے، اور یہی فتویٰ حافظ ابنِ حزم ظاہری رحمة اللہ علیہ کا ہے جیسا کہ انہوں نے المحلی (ج:۱۰ ص:۱۷۰) میں ذکر کیا ہے۔

الغرض “تین طلاق کا تین ہونا” ایک ایسی قطعی و یقینی حقیقت ہے جس پر تمام صحابہ کرام بغیر کسی اختلاف کے متفق ہیں، اکابر تابعین متفق ہیں، چاروں فقہی مذاہب متفق ہیں، لہٰذا جو شخص اس مسئلے میں صحابہ کرام کے راستے سے منحرف ہے وہ روافض کے نقشِ قدم پر ہے اور حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

“وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوٴْمِنِیْنَ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَھَنَّمَ، وَسَآئَتْ مَصِیْرًا۔” (النساء:۱۱۵)

ترجمہ:… اور جو کوئی مخالفت کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، جبکہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ، اور چلے سب مسلمانوں کے رَستے کے خلاف تو ہم حوالے کردیں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بُری جگہ پہنچا۔”

اہلِ حدیث مفتی نے اپنے فتوے میں (جو اجماعِ صحابہ اور ائمہٴ اربعہ کے اجماع کے خلاف ہے) جن دو احادیث سے استدلال کیا ہے ان پر کامل و مکمل بحث میری کتاب “آپ کے مسائل اور اُن کا حل” کی پانچویں جلد میں آچکی ہے، جس کا جی چاہے وہاں دیکھ لے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی حدیث جو رکانہ کی طلاق کے بارے میں مسندِ احمد سے نقل کی ہے، یہ اہلِ علم کے نزدیک مضطرب، ضعیف اور منکر ہے، اس کے راوی محمد بن اسحاق کے بارے میں شدید جرحیں کتب الرجال میں منقول ہیں، اور محدثین کا اس کی روایت کے قبول کرنے نہ کرنے میں اختلاف ہے، بعض اکابر اس کو دجال و کذاب کہتے ہیں، بعض اس کی مطلقاً توثیق کرتے ہیں، اور بعض نے یہ معتدل رائے قائم کی ہے کہ کسی حلال و حرام کے مسئلے میں ابنِ اسحاق متفرد ہو تو حجت نہیں، اسی طرح اس کا اُستاذ داوٴد بن حصین بھی خارجی تھا اور عکرمہ سے منکر روایت نقل کرنے میں بدنام ہے، اور عکرمہ بھی مجروح ہے، اور اس پر بہت سے اکابر نے جھوٹ بولنے کی تہمت لگائی ہے۔

ایک ایسی روایت جو مسلسل مجروح در مجروح در مجروح راویوں سے منقول ہو اس کو اجماعِ صحابہ اور اجماعِ اُمت کے مقابلے میں پیش کرنا انصاف کے منافی ہے۔ اور اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو “البتہ” طلاق دی تھی، جیسا کہ ابوداوٴد کے حوالے سے اُوپر گزرچکا ہے، چونکہ “البتہ” کا لفظ تین طلاق کے لئے بہ کثرت استعمال ہوتا ہے اس لئے راوی نے “البتہ” کے معنی تین سمجھ کر مفہوم نقل کردیا، بہرحال صحیح روایت وہ ہے جو امام ابوداوٴد نے متعدّد طرق سے نقل کی ہے۔

اسی طرح دُوسری حدیث جو صحیح مسلم سے نقل کی ہے، اس پر بھی اہلِ علم نے طویل کلام کیا ہے اور اس کے بہت سے جوابات ذکر کئے ہیں، سب سے بہتر جواب یہ ہے کہ ایک شخص تین طلاق الگ الگ لفظوں میں دیتا، یعنی أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، اور پھر کہتا کہ میں نے صرف ایک طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا، اور دُوسری اور تیسری مرتبہ کا لفظ محض تاکید کے لئے تھا تو ابتدائے اسلام میں اس کے قول کو معتبر سمجھا جاتا تھا، اور ایک طلاق کا حکم کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں اس کو منسوخ کردیا گیا، اور یہ قرار دیا گیا کہ تین طلاق کے بعد اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، چنانچہ امام ابوداوٴد نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ہی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ انہوں نے آیتِ شریفہ: “وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بَأَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ” کی تلاوت کرکے فرمایا:

“وذالک ان الرجل کان اذا طلق امرأتہ فھو أحق برجعتھا وان طلقھا ثلاثا فنسخ ذالک، فقال: الطلاق مرتان۔” (ابوداوٴد ج:۱ ص:۲۹۷)

ترجمہ:… “اور یہ یوں تھا کہ آدمی جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تو وہ اس سے رُجوع کرسکتا تھا، خواہ تین طلاقیں دی ہوں، پس اس کو منسوخ کردیا گیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: وہ طلاق (جس کے بعد رُجوع ہوسکتا ہے، صرف) دو مرتبہ کی ہے۔”

واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت اگر صحیح ہے تو منسوخ ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے “باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثا معا” میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔

(طحاوی ج:۲ ص:۳۶)

نیز امام ابوداوٴد نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی زیرِ بحث حدیث کو “باب بقیة نسخ المراجعة بعد التطلیقات الثلاث” کے ذیل میں نقل کرکے بتایا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ (ابوداوٴد ج:۱ ص:۲۹۹)

ان اُمور سے قطع نظر اہلِ حدیث کے مفتی صاحب کی توجہ چند اُمور کی طرف دِلانا چاہتا ہوں:

اوّل:… ان دونوں روایتوں کی نسبت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی ہے، جبکہ متواتر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابنِ عباس تین طلاق کے تین ہونے کا فتویٰ دیتے تھے۔ اگر ان کی ذکر کردہ یہ دونوں روایتیں، جن کا حوالہ مفتی صاحب نے دیا ہے، صحیح بھی ہوں اور اپنے ظاہر پر محمول ہوں اور منسوخ بھی نہ ہوں، اور حضرت ابنِ عباس انہی کے مطابق عقیدہ رکھتے ہوں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس کے باوجود وہ اپنی روایت کردہ احادیث کے خلاف فتویٰ صادر کریں؟ ظاہر ہے کہ کسی صحابی کے بارے میں یہ تصوّر نہیں کیا جاسکتا، لامحالہ ان روایات کو منسوخ کہا جائے گا۔

دوم:… فاضل مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ:

“نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دورِ خلافت میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں، عمر رضی اللہ عنہ نے مصلحتاً ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا حکم دے دیا تاکہ لوگ اس فعل سے رُک جائیں۔”

حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہلِ سنت اور روافض کے نقطہٴ نظر کا اختلاف سب کو معلوم ہے، اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن و سنت کے فیصلوں سے سرِمو انحراف نہیں کرتے تھے، اور کوئی بڑی سے بڑی مصلحت بھی ان کو خلافِ شرع فیصلے پر آمادہ نہیں کرسکتی تھی، اس لئے کہ “خلیفہٴ راشد” وہی کہلاتا ہے جو ٹھیک ٹھیک منہاجِ نبوّت پر قائم ہو، اس سے سرِمو تجاوز نہ کرے۔ ان حضرات کے جو واقعات یا فیصلے ایسے نظر آتے ہیں جن میں اس کے خلاف شبہ ہوتا ہے ان میں اہلِ سنت ان حضرات کے فیصلوں کو حق مانتے ہیں۔ اس کے برعکس روافض ان کے فیصلوں کو غلط، قرآن و سنت کے خلاف اور وقتی مصلحتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں، اس لئے وہ ان اکابر کو خلیفہٴ راشد نہیں بلکہ نعوذ باللہ خلیفہٴ جائر سمجھتے ہیں، چنانچہ طلاقِ ثلاثہ اور متعہ کے مسئلوں میں حضرت عمر کے موقف کو غلط سمجھتے ہیں۔ تعجب ہے کہ اہلِ حدیث بھی طلاق کے مسئلے میں اُصولی طور پر اہلِ تشیع کے ہم نوا ہیں، حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:

“وفی الجملة فالذی وقع فی ھٰذہ المسألة نظیر ما وقع فی مسألة المتعة سواء اعنی قول جابر: انھا کانت تفعل فی عھد النبی صلی الله علیہ وسلم وأبی بکر وصدرا من خلافة عمر، قال: ثم نھانا عمر عنھا فانتھینا۔ فالراجع فی الموضعین تحریم المتعة ایقاع الثلاث للاجماع الذی انعقد فی عھد عمر علٰی ذٰلک، ولا یحفظ ان أحدا فی عھد عمر خالفہ فی واحدة منھما، وقد دل اجماعھم علٰی وجود ناسخ، وان کان خفی عن بعضھم قبل ذٰلک حتی ظھر لجمیعھم فی عھد عمر، فالمخالف بعد ھٰذا الاجماع منابذ لہ والجمھور علٰی عدم اعتبار من احدث الاختلاف بعد الاتفاق۔” (فتح الباری ج:۹ ص:۳۶۵)

ترجمہ:… “خلاصہ یہ ہے کہ اس تین طلاق کے مسئلے میں جو واقعہ پیش آیا وہ ٹھیک اس واقعہ کی نظیر ہے جو متعہ کے مسئلے میں پیش آیا، میری مراد حضرت جابر کا قول ہے کہ: “متعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، حضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دور میں کیا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے ہمیں منع کردیا تو ہم باز آگئے۔”

پس دونوں جگہوں میں راجح یہ ہے کہ متعہ حرام ہے، اور تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس پر اجماع ہوگیا، اور کسی ایک صحابی سے بھی منقول نہیں کہ ان دونوں مسئلوں میں کسی ایک میں بھی اس نے حضرت عمر کی مخالفت کی ہو، اور حضراتِ صحابہ کرام کا اجماع اس اَمر کی دلیل ہے کہ ان دونوں مسئلوں میں ناسخ موجود تھا، مگر بعض حضرات کو اس سے قبل ناسخ کا علم نہیں ہوسکا، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سب کے لئے ظاہر ہوگیا۔

پس جو شخص اس اجماع کا مخالف ہو وہ اجماعِ صحابہ کو پسِ پشت ڈالتا ہے، اور جمہور اس پر ہیں کہ کسی مسئلے پر اتفاق ہوجانے کے بعد جو شخص اختلاف پیدا کرے وہ لائقِ اعتبار نہیں۔”

الغرض! اس مسئلے میں اہلِ حدیث حضرات کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اجماعی فیصلے سے اختلاف کرنا شیعہ عقیدے کی ترجمانی ہے اور عقیدہٴ اہلِ سنت کے خلاف ہے، اور حضرت عمر کا فیصلہ متعہ کے بارے میں صحیح ہے تو یقینا تین طلاق بہ لفظِ واحد کے بارے میں بھی برحق ہے، اور پوری اُمت پر اس فاروقی فیصلے کی، جس کی تمام صحابہ کرام نے موافقت فرمائی، پابندی لازم ہوجاتی ہے۔ اور ابنِ عباس کی روایت میں جو کہا گیا ہے کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تین کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا” اس کے معنی یہ لئے جائیں گے کہ نسخ کے باوجود بعض لوگوں کو علم نہیں ہوا ہوگا، اور وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ تین طلاق بہ لفظِ واحد کو ایک ہی شمار کیا جاتا ہے جبکہ طلاق دینے والے کی نیت تین کی نہ ہو، بلکہ ایک طلاق کی ہو۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی اس غلط فہمی کو دُور کردیا اور وضاحت کردی کہ یہ حکم منسوخ ہے، لہٰذا آج کے بعد کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے، اور تمام صحابہ کرام نے اس سے موافقت فرمائی۔

اور اگر نعوذ باللہ طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی مصلحت کی بنا پر غلط فیصلہ کیا تھا اور صحابہ نے بھی بالاجماع اس سے موافقت کرلی تھی، اور آج اہلِ حدیث حضرات، فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی غلطی کی اصلاح کرنے جارہے ہیں تو یوں کہو کہ شیعہ سچ کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے “متعہ شریف” پر پابندی لگاکر ایک حلال اور پاکیزہ چیز کو حرام قرار دے دیا، اور صحابہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلط فیصلے کی ہم نوائی کرلی، نعوذ باللہ، استغفر اللہ!

واضح رہے کہ ان مسئلوں کا حرام و حلال سے تعلق ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے کہ متعہ حرام ہے، اور جس عورت سے متعہ کیا جائے اس سے جنسی تعلق حرام ہے، اسی طرح جس عورت کو تین طلاق دی گئی ہوں وہ حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب اس سے بیوی کا سا تعلق قائم کرنا حرام ہے۔ اہلِ تشیع حضرات، فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس عورت سے متعہ کیا گیا ہو اس سے جنسی تعلق حرام نہیں بلکہ اتباعِ سنت کی وجہ سے موجبِ ثواب ہے۔ اِدھر اہلِ حدیث، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مطلقہ ثلاثہ حرام نہیں، بلکہ اتباعِ سنت کے لئے اسے بیوی بناکر رکھنا موجبِ ثواب ہے، انا لله وانا الیہ راجعون!

سوم:… اہلِ حدیث عموماً یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلے سے رُجوع کرلیا تھا، اس فتویٰ میں بھی جناب مفتی صاحب نے یہی بات دُہرائی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ:

“چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے سے رُجوع کرلیا۔”

اہلِ حدیث حضرات نے حضرت عمر پر پہلے تو یہ الزام لگایا کہ انہوں نے کسی وقتی مصلحت کے لئے اس سنت کو تبدیل کردیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ان کے دورِ خلافت تک مسلسل چلی آرہی تھی، اور پھر اس الزام کو مزید پختہ کرنے کے لئے ان پر یہ تہمت جڑ دی کہ انہوں نے اپنی غلطی کو خود بھی تسلیم کرلیا تھا، چنانچہ اس غلطی سے رُجوع کرلیا تھا۔ مفتی صاحب نے یہاں دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے، ایک صحیح مسلم ص:۴۷۷ (جلد کا نمبر نہیں دیا)، حالانکہ صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رُجوع کا کوئی ذکر نہیں۔ دُوسرا حوالہ حافظ ابنِ قیم کی کتاب “اغاثة اللھفان” کا ہے، جس کا نہ صفحہ ذکر کیا ہے اور نہ جلد نمبر۔ حالانکہ “اغاثة اللھفان” میں بھی یہ کہیں ذکر نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے سے رُجوع کرلیا تھا۔ مناسب ہوگا کہ یہاں حافظ ابنِ قیم کی کتاب “اغاثة اللھفان” کا صحیح حوالہ نقل کرکے اہلِ حدیث کی اس تہمت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی براء ت کی جائے۔

واضح رہے کہ ۱۳۹۱ھ میں سعودی حکومت نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ “طلاقِ ثلاثہ بہ لفظِ واحد” کے مسئلے پر غور کرنے کے لئے سعودیہ کے چوٹی کے علماء کی ایک ۱۷ رُکنی مجلس تحقیقات تشکیل دی، جس نے طرفین کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ “حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد” کے نام سے مرتب کیا اور اسے “ادارة البحوث العلمیة والافتاء والدعوة والارشاد” کے ترجمان “مجلة البحوث العلمیة ریاض” نے المجلد الأوّل العدد الثالث ۱۳۹۷ھ میں شائع کیا۔ میں “اغاثة اللھفان” کا حوالہ اسی مجلہ سے نقل کر رہا ہوں۔

حافظ ابنِ قیم، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“فلما راٰی أمیر الموٴمنین ان الله سبحانہ عاقب المطلق ثلاثا بان حال بینہ وبین زوجتہ وحرمھا علیہ حتی تنکح زوجا غیرہ علم ان ذالک لکراھة الطلاق المحرم وبغضہ لہ فوافقہ أمیر الموٴمنین فی عقوبتہ لمن طلق ثلاثا جمیعا بان الزمہ بھا وامضاھا علیہ۔”

(حکم الطّلاق الثلاث ص:۷۱)

ترجمہ:… “پس جب امیر الموٴمنین (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے دیکھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تین طلاق دینے والے کو یہ سزا دی ہے کہ تین طلاق کے بعد اس نے طلاق دینے والے کے درمیان اور اس کی مطلقہ بیوی کے درمیان آڑ واقع کردی اور بیوی کو اس پر حرام کردیا یہاں تک کہ دُوسرے شوہر سے نکاح کرے، تو امیر الموٴمنین نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ اس وجہ سے ہے کہ وہ حرام طلاق کو ناپسند فرماتا ہے اور اس سے بغض رکھتا ہے، لہٰذا امیر الموٴمنین نے اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ اس سزا میں اللہ تعالیٰ کی موافقت فرمائی اس شخص کے حق میں جو تین طلاقیں بیک وقت دے ڈالے، اس موافقت کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص پر تین طلاقیں لازم کردیں اور ان کو اس پر نافذ کردیا۔”

آگے بڑھنے سے پہلے حافظ ابنِ قیم کی مندرجہ بالا عبارت پر اچھی طرح غور کرلیا جائے کہ حافظ ابنِ قیم کے بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاق بہ لفظِ واحد کو نافذ اور لازم قرار دینے کے فیصلے میں منشائے خداوندی کی موافقت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے تین طلاق دینے والے کے لئے جو سزا اپنی کتابِ محکم میں تجویز فرمائی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیک وقت تین طلاق دینے والے پر یہ قرآنی سزا نافذ کرکے منشائے الٰہی کی تکمیل فرمادی۔ خلاصہ یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ کہ تین طلاق بہ لفظِ واحد تین ہیں، منشائے الٰہی کی تعمیل تھی۔

سبحان اللہ! کیسی عمدہ بات فرمائی ہے، ائمہٴ اربعہ اور پوری اُمت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو برحق سمجھتے ہوئے ان کی موافقت و رفاقت میں منشائے الٰہی کی تکمیل کو اپنا دین و ایمان سمجھتی ہے، جبکہ اہلِ حدیث حضرات، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے منشائے الٰہی کی مخالفت اور اہلِ تشیع کے منشا کی موافقت کر رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد برحق ہے:

“ان الله جعل الحق علٰی لسان عمر وقلبہ۔”

(مشکوٰة ص:۵۵۷)

ترجمہ:… “اللہ تعالیٰ نے حق عمر کی زبان اور قلب پر رکھ دیا ہے۔”

جس شخصیت کو رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے ناطق بالحق قرار دیا، اس کا فیصلہ خلافِ حق ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے عین مطابق ہوگا، اور اس کی مخالفت، حق کی مخالفت اور خدا و رسول کے منشا کے خلاف ہوگی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نقطہٴ نظر کی مندرجہ بالا وضاحت کرنے کے بعد حافظ ابنِ قیم یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ:

“فان قیل: فکان أسھل من ذٰلک أن یمنع الناس من ایقاع الثلاث ویحرمہ علیھم ویعاقب بالضرب والتأدیب من فعلہ لئلا یقع المحذور الذی یترتب علیہ؟ قیل لعمر الله! قد کان یمکنہ من ذٰلک ولذٰلک ندم علیہ فی اٰخر أیامہ وود أنہ کان فعلہ۔ قال الحافظ الاسماعیلی فی مسند عمر: أخبرنا أبویعلیٰ حدثنا صالح بن مالک حدثنا خالد بن یزید بن أبی مالک عن أبیہ قال: قال عمر رضی الله عنہ: ما ندمت علٰی شیء ندامتی علیٰ ثلاثة أن لا أکون حرمت الطلاق، علٰی أن لا أکون أنکحت الموالی وعلٰی أن لا أکون قتلت النوائح۔” (حوالہ بالا)

ترجمہ:… “اگر کہا جائے کہ اس سے آسان تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو تین طلاق دینے کی ممانعت کردیتے اور اس کو حرام اور ممنوع قرار دے دیتے اور اس پر ضرب و تعزیر جاری کرتے تاکہ وہ محذور جو اس تین طلاق پر مرتب ہوتا ہے، وہ واقع ہی نہیں ہوتا۔

یہ سوال اُٹھانے کے بعد حافظ ابنِ قیم خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں:

جواب یہ ہے کہ جی ہاں! بخدا ان کے لئے یہ ممکن تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ آخری زمانے میں اس پر نادم ہوئے اور انہوں نے یہ چاہا کہ انہوں نے یہ کام کرلیا ہوتا۔

حافظ ابو بکر الاسماعیلی “مسند عمر” میں فرماتے ہیں کہ: ہمیں خبر دی ابویعلیٰ نے، کہا ہم سے بیان کیا صالح بن مالک نے، کہا ہم سے بیان کیا خالد بن یزید بن ابی مالک نے اپنے والد سے، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے جتنی ندامت تین چیزوں پر ہوئی، اتنی کسی چیز پر نہیں ہوئی۔ ایک یہ کہ میں نے طلاق کو حرام کیوں نہ کردیا؟ دوم یہ کہ میں نے غلاموں کا نکاح کیوں نہ کرادیا؟ سوم یہ کہ میں نے نوحہ کرنے والی عورتوں کو قتل کیوں نہ کردیا؟”

لیجئے! یہ ہے وہ روایت جس کے سہارے اہلِ حدیث حضرات، ابنِ قیم کی تقلید میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ: “حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فیصلے سے رُجوع کرلیا تھا کہ تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہے، خواہ ایک ہی مجلس میں دی جائیں یا ایک لفظ سے۔” اہلِ حدیث کی بے انصافی و سینہ زوری دیکھنے کے لئے اس روایت کی سند اور متن پر غور کرلینا ضروری ہے۔

اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک اپنے والد سے اس قصے کو نقل کرتا ہے، اس خالد کے بارے میں امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:

“لم یرض ان یکذب علٰی أبیہ حتّٰی کذب علٰی أصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم۔”

(تہذیب التہذیب ج:۳ ص:۱۲۷)

ترجمہ:… “یہ صاحب صرف اپنے باپ پر جھوٹ باندھنے پر راضی نہیں ہوئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر بھی جھوٹ باندھا۔”

یہ جھوٹا اپنے والد کی طرف اس جھوٹ کو منسوب کرکے کہتا ہے کہ میرے والد نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اظہارِ ندامت کو بیان کیا جبکہ اس کے والد نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا اور وہ تدلیس میں بھی معروف تھا۔

(حکم الطّلاق الثلاث ص:۱۰۷)

حافظ ابنِ قیم پر تعجب ہے کہ وہ ایک کذّاب کی مجہول اور جھوٹی روایت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ندامت ثابت فرما رہے ہیں، اور اہلِ حدیث حضرات پر حیرت ہے کہ وہ اس کو حضرت عمر کے رُجوع کا نام دے رہے ہیں۔

سند سے قطع نظر اب روایت کے متن پر توجہ فرمائیے، روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کرکے یہ کہا گیا کہ مجھے زندگی میں ایسی ندامت کسی چیز پر نہیں ہوئی جتنی کہ اس بات پر کہ میں نے طلاق کو حرام قرار کیوں نہ دیا ․․․․ الخ۔

دین کا ایک مبتدی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ “طلاق” حق تعالیٰ شانہ کی نظر میں خواہ کیسی ہی ناپسندیدہ چیز ہو، بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال قرار دیا ہے اور قرآنِ کریم میں اس کے اَحکام بیان فرمائے ہیں۔ ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی زبان زد خاص و عام ہے کہ:

“أبغض الحلال الی الله الطّلاق۔”

(مشکوٰة ص:۳۸۳ بروایت ابوداوٴد)

ترجمہ:… “حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔”

پس جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا ہو اور صدرِ اوّل سے آج تک جس پر مسلمانوں کا تعامل چلا آرہا ہو، کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو حرام قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟ چہ جائیکہ اس قطعاً غلط اور باطل چیز کے نہ کرنے پر شدید ندامت کا اظہار فرمائیں، یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر خالص بہتان اور افتراء ہے۔

اگر کہا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد مطلق طلاق سے نہیں بلکہ تین طلاق سے ہے، تو اوّلاً یہ گزارش ہے کہ اس روایت میں کون سا قرینہ ہے جو تین طلاق پر دلالت کرتا ہے؟ ثانیاً: فرض کرلیجئے کہ یہی مراد ہے تو سوال یہ ہے کہ تین طلاق کو حرام قرار دینے سے یہ کیسے لازم آیا کہ کوئی اس حرام کا ارتکاب کرے گا تو طلاق واقع نہیں ہوگی؟ آپ دیکھتے ہیں کہ بیوی کو “تو میری ماں کی مانند” کہنا حرام ہے، قرآنِ کریم نے اس کو “منکر من القول” اور جھوٹ قرار دیا ہے، اس کے باوجود اگر کوئی شخص اس حرام کا ارتکاب کرکے بیوی سے ظہار کرلے تو کیا ظہار واقع نہیں ہوتا؟ اسی طرح بالفرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ تین طلاق کو حرام قرار دے کر اس پر پابندی لگانا چاہتے تھے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ آپ نے اپنے اس فیصلے سے رُجوع فرمالیا تھا کہ تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں، بلکہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر افسوس تھا کہ آپ نے تین طلاق پر پابندی کیوں نہ لگادی تو اس سے جمہور کے قول کی مزید تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس صورت میں روایت کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے صرف تین طلاق کے نفاذ پر اکتفا کیوں کیا، اسی کے ساتھ مجھے یہ بھی چاہئے تھا کہ میں تین طلاق کے واقع کرنے پر بھی پابندی لگادیتا اور ایسا کرنے والوں کو بیوی کی حرمتِ مغلظہ کا حکم دینے کے علاوہ ان کی گوشمالی بھی کرتا۔

الغرض! اوّل تو یہ روایت ہی سنداً و متناً غلط اور مہمل ہے، اور اگر بفرضِ محال اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس کے کسی لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امیر الموٴمنین فاروقِ اعظم الناطق بالصدق والصواب رضی اللہ عنہ نے اپنے سابقہ فیصلے سے رُجوع کرلیا تھا۔ حضرت امیر الموٴمنین رضی اللہ عنہ کی طرف اپنے فیصلے سے رُجوع کو منسوب کرنا آپ کی ذاتِ عالی پر سراسر ظلم اور بہتان و افتراء ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اہلِ حدیث حضرات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے کیا ضد ہے کہ ان کی طرف پے درپے جھوٹ منسوب کر رہے ہیں اور ان حضرات کو یہ سوچنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ محض وقتی ہوتا یا کسی مصلحت پر مبنی ہوتا یا آپ نے اس فیصلے سے آخری عمر میں رُجوع فرمالیا ہوتا تو تمام صحابہ کرام سے ائمہٴ اربعہ تک جماہیر سلف و خلف اس فیصلے پر مصر کیونکر رہ سکتے تھے؟

خلاصہ یہ کہ تین طلاق سے تین کا واقع ہونا قطعی برحق ہے، یہی خلیفہٴ راشد امیر الموٴمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ناطق فیصلہ ہے، اسی پر حضراتِ خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کا اجماعی فتویٰ ہے، اور اسی پر چاروں فقہائے اُمت و امامانِ ملت متفق ہیں، اس کے خلاف اگر کوئی فتویٰ دیتا ہے، خواہ وہ اہلِ حدیث ہو یا منکرِ حدیث، وہ قطعاً مردُود اور باطل ہے، وماذا بعد الحق الا الضلال! (حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا رہ جاتا ہے؟) کسی شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، یہ حلال نہیں کہ صحابہ کرام اور ائمہٴ اربعہ کے اجماعی فتوے کے خلاف تین طلاق کو ایک قرار دے اور مطلقہ ثلاثہ کو حلال قرار دے، حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ۔

فتویٰ نمبر:۱۵ میں (جو غربائے اہلِ حدیث کے مفتی صاحب کا تحریر کردہ ہے) یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ نرگس کے شوہر نے پہلی بیوی (زینب) کے جبر و اکراہ کی وجہ سے طلاق دی ہے، لہٰذا یہ طلاق واقع نہیں ہوئی، نہ تین نہ ایک۔

مفتی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ:

“جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ائمہ مالک، شافعی، احمد اور داوٴد وغیرہم کا بھی یہی مسلک ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی، جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ یہ بلادلیل اور جمہور صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیرمعتبر ہے۔”

اس سے قطع نظر کہ جبر و اکراہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟ یہاں چند اُمور لائقِ توجہ ہیں:

اوّل:… یہ کہ سوال میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ زید کی پہلی بیوی زینب نے دھمکی دی تھی کہ اگر نئی بیوی نرگس کو طلاق نہیں دوگے تو میں خودکشی کرلوں گی، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ واقعہ کی نوعیت اس سے یکسر مختلف تھی۔

ہوا یہ کہ زینب کے شوہر نے اس (نرگس) سے خفیہ شادی کرلی تھی، جبکہ وہ زینب کو حلفاً یقین دلاتا رہا کہ وہ ہرگز شادی نہیں کرے گا، پانچ سال کے بعد شوہر نے یکایک زینب کو اس شادی کی خوشخبری دی اور یہ بھی بتایا کہ نرگس دُوسرے بچے کے ساتھ ماشاء اللہ اُمید سے ہے۔

یہ غیرمتوقع خبر زینب کے ذہن پر بجلی بن کر گری اور اس نے رو رو کر اپنا بُرا حال کرلیا، شوہر سے ہرگز نہیں کہا کہ وہ خودکشی کرلے گی، لیکن شوہر سے اس کی پریشانی نہ دیکھی گئی تو اس نے زینب سے کہا کہ: تم پریشان نہ ہو، میں نرگس کو طلاق دے دُوں گا، اس پر زینب نے کہا کہ: اگر طلاق دینی ہے تو ابھی کیوں نہیں دے دیتے؟ اس پر شوہر نے دُوسری بیوی کا نام لے کر دوبارہ کہا کہ: میں نے اسے طلاق دی، میں نے اسے طلاق دی، اس پر زینب نے کہا کہ: تین طلاقیں دیں۔ شوہر نے اس کے کہنے پر مزید تین بار طلاق دے دی۔

اس واقعہ کو اس کی اصل شکل میں دیکھا جائے تو واقعہ کی نوعیت بدل جاتی ہے اور مفتی صاحب کا فتویٰ نمبر:۱۵ یکسر غیر متعلق ہوجاتا ہے، اور واضح ہوجاتا ہے کہ خودکشی کی دھمکی کا افسانہ محض مفتیوں کو متأثر کرنے کے لئے تراشا گیا ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل دیانت و امانت کا معیار یہاں تک گر گیا ہے کہ لوگ اعلانیہ طلاق دے کر مکر جاتے ہیں، اور حلال و حرام کا مسئلہ پوچھنے کے لئے بھی واقعہ کی اصل نوعیت بیان نہیں کرتے، بلکہ واقعات کو بدل کر اور خودساختہ کہانیاں بناکر مسائل دریافت کرتے ہیں، فالی المشتکی!

دوم:… اگر اسی واقعہ کو صحیح فرض کرلیا جائے جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے، تب بھی اس پر غور کرنا ہوگا کہ بیوی کی اس قسم کی دھمکی کو شرعاً “جبر و اکراہ” کہنا صحیح ہے؟ جبکہ یہ بیوی کی خالی خولی دھمکی تھی، نہ اس کے ہاتھ میں خودکشی کا کوئی آلہ تھا، اور نہ اقدامِ خودکشی کی کوئی اور علامت پائی گئی، اور کیا ایسی خالی دھمکی پر جبر و اکراہ کے شرعی اَحکام جاری ہوں گے؟ مثلاً:

۱:… کیا ایسی خالی دھمکیوں پر اس خاتون کے خلاف اقدامِ خودکشی کا مقدمہ شرعی عدالت میں دائر کیا جاسکتا ہے؟ اور عدالت اس پر اقدامِ خودکشی کی تعزیر جاری کرے گی؟

۲:… اگر کوئی نیک بخت اپنے شوہر کو دھمکی دے کہ اگر تم داڑھی نہیں منڈواوٴگے تو میں خودکشی کرلوں گی، کیا عورت کی دھمکی سے مرعوب ہوکر شوہر کے لئے داڑھی منڈانا حلال ہوگا؟

۳:… اگر عورت ایسی ہی دھمکی سے شوہر کو شراب نوشی پر، کلمہٴ کفر بکنے پر یا کسی اور فعلِ شنیع پر مجبور کرتی ہے تو کیا شوہر کے لئے ان افعالِ شنیعہ کے ارتکاب کی اجازت ہوگی؟ (واضح رہے کہ خود مفتی صاحب نے اپنے فتویٰ میں لکھا ہے کہ جبر و اِکراہ کی حالت میں کلمہٴ کفر بکنے کی بھی اجازت ہے)۔

۴:… کیا عورت کی ایسی دھمکی پر شوہر کے لئے کسی مسلمان کا مال چرانا یا اس کا تلف کرنا جائز ہوگا؟

۵:… عورت دھمکی دیتی ہے کہ: “غیراللہ کے آگے سجدہ کرو، یا فلاں مزار پر جاکر اس بزرگ سے بیٹا مانگو، اور اس بزرگ کے نام کی منّت مانو، یا اس قسم کے شرکیہ افعال کرو، ورنہ میں خودکشی کرلوں گی”، کیا عورت کی اس دھمکی پر شوہر کے لئے شرکیہ افعال کا ارتکاب جائز ہوگا؟ یقینا جناب مفتی صاحب میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ شوہر کے لئے بیگم صاحبہ کی دھمکی سے متأثر ہوکر ان کاموں کا کرنا حلال نہیں اور اگر کرے گا تو یہ شخص مجرم ہوگا۔

اس تنقیح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خود مفتی صاحب بھی ایسی خالی دھمکی کو جبر و اکراہ کی حالت تسلیم نہیں فرماتے، اور اس کی وجہ سے شوہر کو مسلوب الاختیار قرار نہیں دیتے، معلوم ہوا کہ ایسی دھمکی کو شرعاً “جبر و اکراہ” قرار دینا صحیح نہیں، اور جس طرح کہ آدمی ایسی دھمکی کی وجہ سے کلمہٴ کفر بکنے پر مجبور نہیں، اسی طرح بیوی کو طلاق دینے پر بھی مجبور نہیں۔

سوم:… جناب مفتی صاحب نے خود بھی تحریر فرمایا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک جبر و اکراہ سے دِلائی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، پس جبکہ میاں بیوی دونوں حنفی ہیں تو یہ تین طلاق حنفی عقیدے کے مطابق تو حرمتِ مغلظہ کے ساتھ واقع ہوگئیں اور بیوی حرام ہوگئی۔ طلاق کے بعد اگر وہ بالفرض لامذہب غیرمقلد بھی بن جائیں تو نکاح تو دوبارہ بحال نہیں ہوسکتا، کیونکہ “الساقط لا یعود” عقلاً و شرعاً مُسلَّم ہے، یعنی جو چیز ساقط اور باطل ہوجائے اس کو کسی تدبیر سے بھی دوبارہ نہیں لوٹایا جاسکتا۔

خلاصہ یہ کہ زید کے لئے حلال نہیں کہ تین طلاق کے بعد نرگس کو بیوی کی حیثیت سے رکھے، بلکہ دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدگی اختیار کرلیں۔ تین طلاق کے بعد اگر وہ اکٹھے رہیں گے تو زنا اور بدکاری کے مرتکب ہوں گے، جس کا وبال ان کو دُنیا اور آخرت میں بھگتنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے قہر اور غضب سے بچائے۔ ہم دونوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اہلِ حدیث کے غلط فتویٰ کی آڑ میں گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہ کریں، ورنہ ان دونوں کی دُنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی، اور اہلِ حدیث کا غلط فتویٰ ان کو دُنیا کی ذِلت و رُسوائی اور حق تعالیٰ شانہ کے قہر و عذاب سے نہیں بچاسکے گا۔ اگر انہوں نے اس غلط فتویٰ کی آڑ میں اجماعِ صحابہ اور اجماعِ اُمت کی پروا نہ کی اور خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہوئے تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہنے پر اصرار کیا تو اندیشہ ہے کہ مرتے وقت ایمان سلب ہوجائے اور وہ اسلام سے خارج ہوکر مریں۔

ہوٹلوں میں مرغی کا گوشت

س… عمرہ یا حج کے لئے سعودی عرب جانا ہوتا ہے تو وہاں قیام کے عرصے میں گوشت خصوصاً مرغی کے گوشت کا استعمال کیسا ہے؟ وہاں جو مرغی آتی ہے وہ دُوسرے ممالک سے آتی ہے، عام پبلک تو خیال نہیں کرتی اور وہ استعمال کرتی ہے، جبکہ دین دار طبقہ خصوصاً تبلیغی حضرات بالکل اس گوشت سے اجتناب کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں سالن اور روسٹ مرغی وہ استعمال ہوتی ہے جو باہر سے آئی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ سستی بھی ہوتی ہے اور بظاہر اچھی بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اس روسٹ مرغی یا سالن والی مرغی کو استعمال کریں یا نہیں؟ سعودی حکومت یہ کہتی ہے یا جو مرغی منگواتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ذبیحہ حلال ہے، دُوسری طرف دین دار طبقہ خصوصاً تبلیغی حضرات کو اس پر بالکل اعتبار نہیں، اب آپ سے اس بارے میں دریافت کرنا ہے کہ آپ کا کیا فتویٰ ہے؟

ج… باہر ملکوں سے جو مرغی آتی ہے اوّل تو اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ وہ صحیح طور پر ذبح بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ اس کے علاوہ مرغی کاٹنے والوں کا اُصول یہ ہے کہ جونہی مرغی کو ذبح کرتے ہیں وہ اس کو کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیتے ہیں تاکہ اس کے پَر وغیرہ صاف ہوسکیں اور تمام آلائش اس کے اندر ہوتی ہے، اس لئے وہ مرغی ناپاک ہوجاتی ہے اور اس کا کھانا حلال نہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے سعودی عرب میں خصوصاً حج وغیرہ کے موقعوں پر ہوٹلوں میں جو مرغیاں روسٹ کی جاتی ہیں وہ اسی قسم کی ناپاک مرغیاں ہوتی ہیں اس لئے ان کا کھانا حلال نہیں۔

تجارتی کمپنیوں میں پھنسی ہوئی رقوم پر زکوٰة کا حکم

س… علمائے کرام سے سنتے ہیں کہ قرضہ پر زکوٰة فرض ہے۔ گزارش یہ ہے کہ ایک مسلمان کا اگر کسی پر دس ہزار یا کم و بیش قرضہ ہو تو زکوٰة وصول ہونے پر ادا کرنے کا حکم ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان کی اگر ساری جمع پونجی قرضہ میں ہو اور اس کا ملنا بھی دُشوار ہو، جس کی کراچی میں کوآپریٹو اسکینڈل ․․․․․․․ زندہ مثال موجود ہے کہ نہ تو جن بھائیوں کی رقمیں پھنس گئی ہیں ان کے ملنے کی اُمید ہے اور نہ ہی وہ نااُمید ہوکر صبر کرسکتے ہیں، لہٰذا اب اگر ایک مسلمان کو اپنے قرضہ والی رقم چالیس سال تک نہیں ملتی تو ۴۰ سال اور بعد میں اس کا کیا حکم ہوگا؟ کیونکہ اس طرح اڑھائی فیصد کے حساب سے تو زکوٰة کی مد میں جتنی بھی رقم لوگوں پر قرض ہو وہ زکوٰة کی مد میں منہا ہوکر ختم ہوجائے گی۔ اب اگر چالیس سال بعد بھی رقم نہیں ملتی تو کیا ۴۰ سال میں مذکورہ رقم جو زکوٰة کی مد میں ختم ہوچکی ہے زکوٰة میں منہا سمجھی جائے گی اور ۴۰ سال کے بجائے اگر ۵۴ سال کے بعد یہ رقم مل جائے تو کیا کرنا ہوگا؟ ذرا تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔

ج… ان تجارتی کمپنیوں میں لوگوں کی جو رقمیں پھنسی ہوئی ہیں ان کی زکوٰة کا کیا حکم ہے؟ اس کو سمجھنے سے پہلے اس پر غور کرلینا مناسب ہوگا کہ شرعی نقطہٴ نظر سے ان رُقوم کی نوعیت کیا ہے؟

یہ بات تو ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ جن لوگوں نے ان کمپنیوں میں اپنی پونجی جمع کرائی تھی یہ رقمیں ان کمپنیوں کو بطور قرض کے نہیں دی تھیں بلکہ کاروبار میں شراکت اور منافع میں حصہ داری کے لئے دی تھیں۔ چنانچہ ان کمپنیوں نے ان رُقوم کو کاروبار میں لگایا اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع میں ان رقموں کے مالکان کو شریک کیا۔

ان میں سے بعض کمپنیوں کے بارے میں لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ شریعت کے اُصول مضاربت کے مطابق ان رُقوم سے کاروبار کرتی ہیں، اور شریعت کے مطابق کھاتہ داروں کو منافع کا حصہ تقسیم کرتی ہیں۔ انہوں نے بعض لائقِ اعتماد اہلِ علم سے شرعی اُصول مضاربت کے مطابق کام کرنے کا مکمل خاکہ تیار کرایا، اس کے اُصول و قواعد وضع کئے اور پھر اس مرتب نقشے کے مطابق کاروبار شروع کیا اور یہ حضرات شدّت کے ساتھ اس اَمر کا لحاظ رکھتے تھے کہ کاروبار میں بھی اور منافع کی تقسیم میں بھی کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔

الغرض! ایسی کمپنیاں جو کھاتہ داروں کے روپے سے شریعت کے اُصول مضاربت کے مطابق کام کرتی تھیں جو رقمیں ان کو دی گئیں وہ قرض نہیں بلکہ ان کے ہاتھ میں امانت تھیں، اور یہ لوگ کھاتہ داروں کی جانب سے کاروبار کرنے کے لئے وکیل تھے اور ان کے ساتھ نفع میں شریک تھے، چنانچہ حضراتِ فقہاء لکھتے ہیں:

“مضارب، کام شروع کرنے سے پہلے رأس المال کی رقم کا امین ہوتا ہے، کام شروع کرنے کے بعد وہ اس کی جانب سے وکیل بن جاتا ہے، اور نفع حاصل ہوجانے کے بعد وہ اس کے ساتھ منافع میں شریک ہوجاتا ہے۔”

یہ کمپنیاں اپنے مرتب کردہ نقشے کے مطابق کاروبار کر رہی تھیں اور کھاتہ داروں کو بالالتزام منافع تقسیم کر رہی تھیں کہ یکایک حکومت نے ان کی تمام املاک پر قبضہ کرکے ان کو کاروبار کرنے سے روک دیا، وہ دن اور آج کا دن کہ یہ تمام املاک اور اثاثے حکومت کے قبضہ و تحویل میں ہیں، ان کمپنیوں کے مالکان نے ہرچند حکومت سے اپیلیں کیں کہ حکومت ہمیں اپنی نگرانی میں کاروبار کی اجازت دیدے اور ہم سے ایک ایک پیسے کا حساب لے، یا کم از کم ہمیں اپنے املاک اور اثاثوں کو فروخت کرنے ہی کی اجازت دی جائے تاکہ ہم متأثرین کو ان کی رقمیں لوٹانے کے قابل ہوسکیں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ آیا کھاتہ داروں کی طرف سے حکومت کے سامنے ان کمپنیوں کی بدعنوانی کی کوئی شکایت آئی تھی؟ اور انہوں نے حکومت سے مداخلت کی کوئی درخواست کی تھی؟ یا حکومت نے اسکینڈل بناکر ان کمپنیوں پر جبری قبضہ کرلیا؟ جہاں تک کھاتہ داروں کا تعلق ہے ان کی طرف سے ایسی کوئی شکایت منظرِ عام پر نہیں آئی، اور نہ یہ کہ انہوں نے حکومت سے مداخلت کی کوئی درخواست کی ہو، بلکہ اس کے برعکس ان کمپنیوں پر عوام کا اعتماد روز بروز بڑھ رہا تھا اور لوگ سرکاری اداروں اور بینکوں سے رُقوم نکال کر ان نجی تجارتی اداروں میں اپنی رقمیں جمع کرا رہے تھے، بلکہ بعض نے اپنے زیورات اور مکانات تک فروخت کرکے ان اداروں میں رقمیں جمع کرانا شروع کردیں، ان اداروں کی یہ عوامی مقبولیت ہی ان اداروں کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی:

اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی

حکومت کے “ماہرینِ معاشیات” اور سرکاری و نیم سرکاری مالیاتی اداروں کے بزرچ مہروں کو بجا طور پر یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر ان نجی اداروں کی ساکھ بڑھتی رہی اور ان پر عوام کے اعتماد کا یہی عالم رہا تو حکومت کے مالیاتی ادارے اور سرکاری و نیم سرکاری بینک (جو ان کمپنیوں کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں) یکسر مفلوج ہوکر رہ جائیں گے اور حکومت کے سودی نظام سے عوام کا اعتماد بالکل ختم ہوجائے گا۔ سرکار کے مالیاتی اداروں کے اس درد کا مداوا حکومت نے یہ تجویز کیا کہ راتوں رات ان گستاخ نجی اداروں پر قبضہ کرلیا اور اس کو اسکینڈل بناکر ان اداروں کے چلانے والوں کو جرمِ بے گناہی کے الزام میں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ جس سے سرکارِ عالی کو دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک یہ کہ حکومت کے جو ادارے جان کنی کی حالت میں دَم توڑ رہے تھے، ان نجی اداروں کا گلا گھونٹ کر ان جاں بلب سرکاری اداروں کو آکسیجن مہیا کردی گئی اور انہیں اپنی موت مرنے سے بچالیا گیا۔ دوم یہ کہ ان نجی اداروں کو ان کی گستاخی کی ایسی سزا دی گئی کہ آئندہ دُوسروں کے لئے عبرت ہو۔ اور کوئی شخص حکومت کے سودی نظام کے جال سے نکل کر شریعتِ محمدیہ کے مطابق آزادانہ کاروبار کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ حکومت نے اپنے اس اقدام کے ذریعہ ان نجی کمپنیوں کا جو حشر کیا اس کو دیکھنے کے بعد انسان تو انسان، اگر بالفرض کوئی معصوم فرشتہ بھی آسمان سے نازل ہوجائے اور وہ عوام سے وعدہ کرے کہ وہ ان کی رقموں کو پوری دیانت و امانت کے ساتھ کاروبار میں لگائے گا، شریعتِ خداوندی کے عین مطابق کاروبار کرے گا، اور پوری دیانت داری کے ساتھ وہ حاصل شدہ منافع کو حصہ داروں پر تقسیم کرے گا، تب بھی عوام کو حوصلہ اور جرأت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے اثاثے اس معصوم فرشتے کے حوالے کردیں، کیونکہ حکومت کے جبری قبضے کی تلوار ان کے سر پر ہمیشہ لٹکتی رہے گی۔ اس کے مقابلے میں وہ حکومت کے سودی اداروں میں رقمیں جمع کرانے کو ترجیح دیں گے، اور ان سے سودی منافع لے کر اپنے دین و ایمان اور اپنے ضمیر کا قتل بہتر سمجھیں گے، شیخ سعدی کے ارشاد: “سگہا را کشادہ و سنگہا را بستہ” کی کیسی اچھی تعمیل ہے․․․؟

ان کمپنیوں پر قبضہ جمانے کے بعد کئی سال سے حکومت، عوام کو رقمیں لوٹانے کے سہانے خواب دِکھا رہی ہے، لیکن آج تک تو وہ شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوئے، ان غصب شدہ کمپنیوں میں جو نقد اثاثے موجود تھے شنید ہے سرکار دیار میں اثر و رسوخ رکھنے والے حضرات ان سے اپنا حصہ وصول کرچکے ہیں، باقی سامان گلتا رہے، سڑتا رہے، برباد ہوتا رہے، اور غریب بوڑھے پنشنرز، بیوائیں، یتیم بچے اور نادار لوگ چیختے رہیں، چلاتے رہیں، بلبلاتے رہیں، حکومت کے کارپردازوں کو اس کی کیا پروا․․․؟

بنی اسرائیل کے مظلوموں کی صدائیں فرعون کے بلند و بالا محلات تک کب پہنچتی ہیں؟

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

الغرض! عوام کی یہ رقمیں جو حکومت کے آہنی چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں وہ ان کمپنیوں کے پاس امانت تھیں اور حکومت نے ان کمپنیوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان عوامی امانتوں پر قبضہ جمالیا ہے اور ایسا مال جس کو حکومت نے زبردستی اپنی تحویل میں لے لیا ہو وہ حضراتِ فقہاء کی اصطلاح میں “مالِ ضمار” کہلاتا ہے، اور “مالِ ضمار” کی زکوٰة کا حکم یہ ہے کہ جب تک وہ مال دوبارہ وصول نہ ہوجائے اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰة واجب نہیں، اور جب وصول ہوجائے تو مالک اگر پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو جب اس کے نصاب پر سال پورا ہوا اس وقت اس رقم پر بھی صرف اسی سال کی زکوٰة واجب ہوگی، اور اگر اس وصول ہونے والی رقم کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں تھا تو جب اس رقم پر سال پورا ہوجائے گا تب اس پر اس سال کی زکوٰة واجب ہوگی۔

تاہم اگر کسی کو ان رُقوم کی وصول کا ظنِ غالب ہو، ان کو گزشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنی چاہئے۔

اس ناکارہ نے یہ مسئلہ اپنے علم و فہم کے مطابق لکھا ہے، اگر اس میں اس کوتاہ فہم سے غلطی ہوئی ہو تو اہلِ علم سے استدعا ہے کہ اس کی تصحیح فرماکر ممنون فرمائیں۔

جائیداد میں حصہ

س… عرض ہے کہ ہمارے والد صاحب کے نام ایک مکان ہے، ہم دو بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، تین سال پہلے والد صاحب نے یہ مکان ہماری چھوٹی بہن کے نام کردیا۔ اب بڑی بہن اس مکان میں بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، جب مکان تیار ہو رہا تھا تو والد صاحب نے بڑی بہن سے ۳لاکھ روپے اُدھار لئے تھے، اس مکان کے آدھے حصے کا کرایہ آٹھ ہزار روپے بھی دو سال سے بہن لے رہی ہیں اور اسی مکان میں رہ رہی ہیں۔ اب وہ کہہ رہی ہیں کہ ۱/۲/۱۹۹۹ء کو میرا قرضہ پورا ہوجائے گا تو میں مکان سے چلی جاوٴں گی۔ تمام بہنیں یہ چاہتی ہیں کہ مجھے مکان میں حصہ نہ ملے، کیونکہ میں پچھلے ۵ سال سے کراچی میں الگ رہ رہا ہوں جبکہ ہمارا مکان حیدرآباد میں ہے، والد صاحب سب بہنوں ہی کی بات مانتے ہیں، ہماری نہیں سنتے۔ میں والد صاحب کا نافرمان نہیں ہوں، جبکہ مکان میری سربراہی میں تیار ہوا، اب خدا جانے کیا ہوا ہے۔

آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ میں ان کا بڑا بیٹا ہوں اگر وہ مجھے جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

ج… اگر انہوں نے یہ مکان اپنی چھوٹی بیٹی کے نام کرادیا، تو یہ ان کی چیز تھی، انہوں نے چھوٹی بیٹی کو دے دی۔ البتہ اگر بغیر ضرورت کے اور بغیر وجہ کے انہوں نے یہ عمل کیا ہے تو وہ گنہگار ہوں گے۔

پرائز بونڈ کی پرچیوں کی خرید و فروخت

س… کراچی سمیت ملک بھر میں “پرائز بونڈ” اور اب پرائز بونڈ کی پرچیوں کا کاروبار عام ہوگیا ہے، ہر شخص پرچیاں خرید کر راتوں رات امیر بن جانے کے چکر میں ہے، کیا ان پرچیوں کے انعام سے عمرہ یا کوئی بھی نیک کام یا غریبوں، بیواوٴں کی امداد کرسکتے ہیں یا نہیں؟

ج… یہ پرچیوں کا کاروبار جائز نہیں، اس سے نہ عمرہ جائز ہے اور نہ صدقہ خیرات صحیح ہے، یہ کاروبار بند کردینا چاہئے اور جو رقم اس سلسلے میں حاصل ہوئی ہو وہ غرباء و مساکین کو بغیر نیتِ ثواب کے دے دینی چاہئے۔

سر کا صدقہ

س… ایک عامل صاحب نے کہا ہے کہ: جو لوگ مصیبتوں میں مبتلا ہوں ان کو چاہئے کہ بجائے کسی نام کی طرف منسوب کرنے کے صرف اپنے سر کا صدقہ کریں، صدقہ ادا کرنے سے مصائب رفع ہوجاتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ: صدقہ صرف اپنے سر کا ہوتا ہے۔ مگر ہم نے اب تک جب بھی صدقہ دیا تو اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کرکے دیا کہ اے اللہ تعالیٰ یہ خیرات آپ کے نام کی ہے، آپ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔

حضرت! کیا عامل کا کہنا ٹھیک ہے یا غلط؟ صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور اگر غلط ہے جیسا کہ ہمارا گمان ہے تو اس کی وضاحت فرمادیں عین نوازش ہوگی۔

ج… اپنے سر کے صدقہ کا مطلب اللہ تعالیٰ کے نام پر ہوتا ہے، اس لئے صحیح ہے، اپنی طرف سے صدقہ کرنا یہ صدقہ بھی فی سبیل اللہ ہوتا ہے، عامل کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ صدقہ سے مصیبت ٹلتی ہے۔

مشروبات پر دَم کرنا

س… عرض ہے کہ چند مسائل کے حل قرآن و سنت کی روشنی میں مطلوب ہیں۔

ایک کتاب نظر سے گزری جس میں یہ حدیثِ مبارکہ تھی۔ ترجمہ: “ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پینے کی چیز میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔”(ترمذی)۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ پانی پر کوئی آیت پڑھ کر دَم کرنے کے لئے پھونک ماری جاتی ہے، اس طرح سے پانی میں پھونک مارنا اور وہ پانی پینا جائز ہے یا نہیں؟

ج… پانی پر دَم کرنے کی ممانعت نہیں، سانس لینے کی ممانعت ہے، والله اعلم!

“ماشاء اللہ” انگریزی میں لکھنا

س… “ماشاء اللہ” انگریزی حروف میں لکھنا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ رکشوں اور گاڑیوں پر “ماشاء اللہ” انگریزی حروف میں لکھا ہوتا ہے، اگر ایسا جائز ہے تو اسپیلنگ بھی دُرست ہونی چاہئے کیونکہ انگریزی میں “زیر، زبر، پیش، ء” کے لئے حرف کا سہارا لیا جاتا ہے، میرا مطلب ہے کہ اللہ پاک کا نام صحیح اور دُرست لکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔ اگر “ماشاء اللہ” انگریزی حروف میں لکھا جاسکتا ہے تو آپ برائے مہربانی اسپیلنگ وغیرہ بھی اخبار میں لکھ دیں تاکہ لوگوں کے لئے آسانی ہو اور دُرست اسپیلنگ لکھ سکیں اور لوگ گناہ اور خطا سے بچ سکیں۔

ج… میں خود تو انگریزی جانتا نہیں، اس لئے بہتر یہ ہے کہ “ماشاء اللہ” وغیرہ الفاظ کو خود عربی ہی میں لکھا جائے، لیکن اگر کسی کو انگریزی لکھنے کا شوق ہے تو کسی انگریزی دان سے اس کا صحیح تلفظ معلوم کرلے، واللہ اعلم!

جوتا نہ پہننے کی منّت ماننا دُرست نہیں

س… مسئلہ یہ ہے کہ میرے دوست نے منّت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ میرا فلاں کام کرادے تو میں ساری زندگی جب تک میں زندہ رہا تب تک ۹/ اور ۱۰/ محرّم الحرام کو جوتے نہیں پہنوں گا اور یہ دو دن ننگے پیر رہوں گا۔ آیا اس کی یہ منّت دُرست ہے یا نہیں؟

ج… یہ منّت دُرست نہیں اور اس کا پورا کرنا بھی ضروری نہیں۔

س… مذکورہ بالا سوال کی روشنی میں ایک حل طلب سوال یہ ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے میں نے بھی منّت مانی کہ اگر اللہ میرے فلاں فلاں کام کرادے یا فلاں فلاں چیزیں مجھے مل جائیں تو میں ان شاء اللہ اس سال محرّم الحرام کی ۹/ اور ۱۰/ تاریخ کو بغیر چپل رہوں گا، اور اللہ تعالیٰ نے میری دُعا سن لی، میں نے محرّم الحرام کی ۹/ اور ۱۰/ تاریخ کو بغیر چپل پہنے دن گزارے اور اس سال میں نے منّت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ میرا یہ کام کرادے تو میں ساری زندگی جب تک زندہ رہوں گا تب تک محرّم الحرام کی ۹/ اور ۱۰/ تاریخ کو بغیر چپل پہنے ہوئے دن گزاروں گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے بہت سے لوگوں نے اس طرف توجہ دِلائی کہ یہ منّت ماننا جائز نہیں۔ اب آپ بتائیں کہ میرے لئے کیا حکم ہے؟ اور کیا اس منّت کا پورا کرنا ضروری ہے؟

ج… اُوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ منّت دُرست نہیں اور اس کا پورا کرنا بھی ضروری نہیں۔

یتیم بچوں کی پروَرِش کا حق

س… میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، اور میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، پچھلے مہینے میرا چھوٹا بیٹا عمان میں طویل بیماری کے بعد انتقال کرگیا، اس نے اپنے پیچھے دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔ اس کی بیوی اپنے بچوں کو لے کر سیالکوٹ چلی گئی ہے، میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ عمان میں رہتی ہوں اور اس کو میں نے اور میرے بڑے بیٹے نے بہت روکا مگر وہ اپنے تینوں بچوں کو اور اپنا سب سامان وغیرہ لے کر چلی گئی ہے۔ میرے مرحوم بیٹے نے اپنی بیوی کے نام سیالکوٹ میں ایک گھر بنایا تھا اور اس کی بیوی یہاں اسکول میں پڑھاتی ہے۔ میری بیوہ بہو کا کیا یہ حق بنتا ہے کہ وہ الگ ہوکر رہے جبکہ میرا بیٹا کہتا ہے کہ وہ اس کو اور اس کے بچوں کو اپنے گھر میں رکھ سکتا ہے اور ان کا تمام خرچہ برداشت کرسکتا ہے اور اچھی طرح دیکھ بھال کرسکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ میرے بڑے بیٹے کے چھ بچے ہیں۔

ج… عدّت کے بعد شرعاً اس کو جانے کا حق تھا، اور بچے اگر چھوٹے تھے تو ان کو اپنی ماں کے پاس رہنا چاہئے۔

س… میری بیوہ بہو کا مکان پر کیا حق ہے؟

ج… اگر آپ کے مرحوم بیٹے نے وہ مکان اپنی بیوی کے نام کردیا تھا تو مکان اسی کا ہے، اس میں دُوسرے کسی کا کوئی حق نہیں۔

س… میرے مرحوم بیٹے کو یہاں سرکار سے کافی روپیہ ملا ہے، اس روپے پر میرا، میری تین بیٹیوں کا اور میرے بڑے بیٹے کا کتنا حق بنتا ہے؟

ج… اس روپے میں (اور مرحوم کے تمام ترکہ میں) آپ کا (یعنی مرحوم کی والدہ کا) چھٹا حصہ ہے، بیوہ کا آٹھواں حصہ اور باقی تمام مرحوم کے بچوں کا ہے، بچوں کے ہوتے ہوئے مرحوم کے بھائی اور بہنوں کا کوئی حق نہیں۔

س… اگر عدّت کے بعد میرے مرحوم بیٹے کی بیوی شادی کرلیتی ہے تو میرے بیٹے کے بچوں کو کون پالے گا؟ میں تو بہت ضعیف ہوں اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔

ج… اگر بیوہ ایسی جگہ شادی کرلیتی ہے جو بچوں کے لئے نامحرَم ہے تو اس کو بچوں کی پروَرِش کا حق نہیں ہوگا، بلکہ نانی کو، خالہ کو، دادی کو، پھوپھی کو علی الترتیب پروَرِش کا حق ہوگا۔

س… کیا میرا بڑا بیٹا ان بچوں کو اس کی ماں سے لے سکتا ہے؟

ج… لڑکیوں کو جوان ہونے کے بعد اور لڑکوں کو سات سال کی عمر پوری ہونے پر لے سکتے ہیں۔

س… میرے مرحوم بیٹے کے بچوں اور اپنا تمام خرچہ بیوہ خود اُٹھارہی ہے، وہ کہتی ہے کہ میرے مرحوم شوہر کے بھائی اور بہنوں کا کوئی حق نہیں ہے۔

ج… میں اُوپر لکھ چکا ہوں کہ مرحوم کے بھائی اور بہنوں کا اس کے چھوڑے ہوئے مال میں کوئی حق نہیں ہے، ماں کا چھٹا حصہ ہے اور بیوہ کا آٹھواں حصہ، باقی سارا مال یتیموں کا ہے، جو اس کو کھائے گا وہ آگ کے انگارے کھائے گا۔

نوٹ:…یتیموں کے مال کی نگہداشت ان کے تایا کے ذمہ ہے، مگر خود نہ کھائے بلکہ بچوں پر خرچ کرے۔