اعتماد اور اعتبار


حضرات :۔
آج کی تقریر کا موضوع ہے، اعتماد ہی اعتماد
میر ادعوی ہے کہ دنیا میں کوئی عقل مند انسان اپنی پیاری چیز کو اس وقت تک کسی کے سپرد نہیں کرتا جب تک اس پر مکمل اعتماد اور اعتبار نہ ہو۔کائنات کے اندر پیاری چیزیں تین ہیں ۔
َََ(۱)۔۔۔جان(۲)۔۔۔ مال(۳)۔۔۔اولاد
اگر گاڑی کے ڈرائیور کی قابلیت پر یقین نہ ہوتو بس پر سوار ہوسکتا نہیں ،مزارع یا مالی کی قابلیت پر اعتماد نہ ہوتو باغ یا زمین سپرد کرسکتا نہیں۔ استاد کی علمی قابلیت پر اگر پختہ یقین نہ ہو تو بچے کو اسکو ل بھیج سکتا نہیں۔
الغرض دنیا کے تمام تجارتی کاروبار کا تعلق اعتماد اور اعتبار سے ہے ہزاروں روپے کی قیمت کی لاریاں ،بسوں کے مالک ڈرائیور وں کے سپر د کیوں کررہے ہیں؟
کروڑوں روپے کی قیمت کے ہوائی جہاز ہوا باز اور پائلٹ کے تفویض کیوں کردئے جاتے ہیں؟
ایک انسان اپنی گوشہ جگر اور نور بصر صاحب زادی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داماد کے حوالے کیوں کردیتا ہے ؟
باعزت لوگ اپنے قیمتی ووٹ کے لئے ایک ممتاز ممبر کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ دریاؤں میں تلاطم کے باوجود لوگ ایک ملاح کے کہنے پر کشتیوں پر سوار کیوں ہوتے ہیں؟
کسی کمپنی کے پروپیگنڈے پر اس کی سر بمہر دوائی کو لوگ کیوں لے لیتے ہیں؟ اہل ثروت کروڑوں روپے ہر ر وز بینکوں میں بلاجھجک کیوں داخل کرتے ہیں؟ تمام سوالات کا جواب ایک اور صرف ایک ہے ۔یعنی ۔۔۔۔۔۔اعتماد
اس بنا پر سمجھ لیجئے کہ ہمیں دنیا میں جان ومال اور اولاد محبوب ہے تو خدا تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کوہم سے کہیں زیادہ قرآن اور مذہب محبوب ہے۔
ملائکہ پراعتماد :۔
خدا تعالیٰ کو جس طرح ملائکہ پر اعتماد ہے اسی طرح حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ ثپر اعتماد ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کو ملائکہ پر اعتماد نہ ہوتا تو اپنے پاک کلام کو جبرائیل امینں کے حوالے نہ کرتے۔ پس جس طرح کلام الہٰی کوخدا تعالیٰ سے جبریل علیہ السلام نے لے کر انبیاء علیہم السلام تک پہنچایا بعینہ اسی طرح پوری دیانت سے صحابہ کرام ثکی جماعت نے قرآن مجید بلکہ پورا مذہب سرورکائنات ؐسے لے کر لوگوں تک پہنچایا۔
صدیق اکبر صپر اعتماد :۔
شب ہجر ت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو پروردگا رعالم کی طرف سے بذریعہ جبریلں یہ پیغام موصول ہوا کہ آج کی رات مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بناچکے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی امانت ادا کرنے کے لیے حضرت علیص کو اپنے بستر پر سلا دیجیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صکے دروازے پر تشریف لے جایئے انہیں اپنی رفاقت کے شرف سے مشرف فرماکر مدینہ منورہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفرازی بخشئے
اسرار ومعارف :۔
بلاشبہ حضور علیہ السلام نے اسی طرح عمل کیا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے قدوس کی طرف سے حکم ملا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بسترپر حضرت علیؓ کو سلادیا اور خود حضرت ابوبکرؓکے دروازے پر تشریف لائے اور ان کا جگا کر ساتھ لے گئے
پہلاراز :۔
حضور علیہ السلام کی ذات والا صفات کے ساتھ پرور دگا رعالم کاجو محبت کا تعلق ہے وہ اہل ایمان کے نزدیک مسلم ہے اور حضرت علیؓ کا نسبی قرب جس قدر سرورکائنات سے ہے وہ بھی کسی کے سامنے مخفی نہیں
ہجرت کی رات :۔
حجرہ مطہرہ سے باہر دشمن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ننگی تلواریں لئے ہوئے منتظر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائیں اور ہم وار کریں ۔اس نازک وقت میں رفاقت اور جاں نثاری کے لئے علام الغیوب نے اگر انتخاب فرمایا تو صدیق اکبرؓکا اس بناء پرہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کو صدیقؓ کی صداقت ،وفا ،ایمان ،دیانت ،متانت ،اور شجاعت پر اعتماد نہ ہوتا تو خدائے برتر وعلام الغیوب اندھیری رات میں دشمنوں کے مقابلے میں صدیق اکبرؓکاانتخاب نہ فرماتے۔
دوسرا راز:۔
اس نازک موقع پر حضور علیہ السلام کو ایک ایسے رفیق کی ضرور ت تھی جو دشمنوں کے مقابلے میں وفادار ثابت ہو اور وقت آجائے تو جان کی بازی لگادے اور سر قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔
ظاہر ہے کہ حضرت کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدیق اکبرؓکی اس قربانی پر اعتماد نہ ہوتا تو اندھیری رات میں ان کے دروازے پر جگانے کے لئے نہ جاتے اور اپنے راز سے آگاہ نہ فرماتے
تیسرا راز :۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً شباب پر تھی ،اور ویسے سیدہ فاطمہصسے نکاح کرنے اور چچازاد بھائی ہونے کے لحاظ سے بھی قربانی دینے کے زیادہ لائق تھے ان کو اگر صدیق اکبرصکے متعلق ذرہ بھر بھی شک ہوتا کہ یہ ان لوگوں کی طرح دشمن ہے جس طرح ابوجہل اور ابولہب ہے اور اس کا ایمان محض جھوٹ کا پلند ہ ہے موقع ملنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پاک کو دشمنوں کے حوالے کردے گا تو آپ یعنی حضرت علی صدربار نبوت میں فوراً عرض دیتے کہ یا حضرت مجھے ابوبکر صکی دیانت پر قطعاً اعتبار نہیں آپ براہ کرم ان کی رفاقت ترک فرمائیے اور مجھے رفاقت کا شرف بخشیئے
مگر تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ حضرت علی صنے اس قسم کا کوئی شبہ ظاہر نہ فرمایا۔ جس سے ثابت ہوگیاکہ صدیق اکبر صپر خدا تعالیٰ کو بھی اعتماد ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اعتماد ہے اور حیدر کرار ص کوبھی ۔پس جس انسان کو خدا، رسول خدا ااور علی المرتضیٰ صکے اعتماد پراعتماد ہوا اسے چاہیئے کہ وہ صدیق اکبرصپراعتماد نہ کرکے اپنے ایمان کو برباد نہ کرے۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر اعتماد :۔
فاروق اعظمصکے ایمان لانے کا واقعہ تاریخ کی ہرکتاب میں موجود ہے مختصراًیہ کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ دربار نبوت ا میں حاضر ہوکر شرف ایمان سے مشرف ہوئے تو حضور علیہ السلام نے تھوڑی دیر کے بعد نماز کی تیاری فرمائی حضرت عمرصنے دریافت فرمایا۔
یا حضرت نماز کہاں ادا کریں گے ؟حبیب کبریاصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی حجرے میں ۔
حضرت عمر ص نے عرض کیا یا حضرت خدا کی نماز خدا کے گھر میں کیوں نہ ادا کریں؟ آپ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا تیری قوم ہمیں اللہ کی عبادت اللہ کے گھر میں اد ا نہیں کرنے دیتی۔ حضرت عمر نے عرض کیا ۔یاحضرت اگر میرے ایمان لانے کے بعد بھی کعبۃاللہ میں نمازیں نہ پڑھیں گئیں تو میرے آنے کا کیا فائدہ ہوا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور حضرت عمرصکی معیت میں کعبۃ اللہ میں جاکر نماز ادا کی۔
ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو حضرت عمر ص کی وفا پر اعتماد نہ ہوتا تو حضور ا کو ان کے ساتھ نہ جانے دیتے اور حضور علیہ السلام کو اگر اعتماد نہ ہوتا تو تشریف نہ لے جاتے ۔اسی طرح اگر حیدر کرار ص کو اعتماد نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فوراً روک دیتے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتماد :۔
مدینہ منورہ میں رہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ یہ شوق رہتا کہ کبھی قریش مکہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کی اجازت دیں ،اور ہم وہاں جاکر اللہ تعالیٰ کے گھر کا طواف کریں ،چنانچہ اجازت طلب کرنے کے لئے حضرت عثمان صکا انتخاب کیا گیا ۔
پس اگر خدا تعالیٰ کو حضرت عثمان صکی دیانت پر اعتماد نہ ہوتا تو لامحالہ خدا تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بھیجنے سے روک دیتے اور اگر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتماد نہ ہوتا تو حضوراان کو ہرگز نہ بھیجتے ۔اسی طرح حضرت علی صکو اگر اعتماد نہ ہوتا تو فور اً منع کردیتے ۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر اعتماد :۔
خیبر کے فتح ہونے میں دیر ہوگئی تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا ،کل ایسے جوان کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا جو محب خدا اورمحب رسول ہوگا ۔نیز خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ پر خیبر فتح کردے گا۔
ظاہر ہے یہ الفاظ حضور علیہ السلام باطلاع خدا فرمارہے تھے آپ ا نے جھنڈا حضرت علیص کے ہاتھ میں دیا اور خیبر فتح ہوا
پس اگر خدا تعالیٰ کو حضرت علی صکی شجاعت پر اعتماد نہ ہوتا تو اس قسم کے الفاظ نہ فرماتے ۔اور اگر حضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتماد نہ ہوتا ان کو اس امر کے لئے ہر گز نہ بھیجتے۔اور صحابہ کرام کو اگر حضرت علی ص پر اعتماد نہ ہوتا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں ان کے خلا ف رائے پیش کرتے ۔
پس معلوم ہوا کہ یہ سب حضرات ایک دوسرے کے نزدیک معتمد علیہ تھے ۔ قرآن کریم میں ان لوگوں کو اولٰئک ہم الصادقون کہا گیا ہے او ران کے ساتھ مذہباً ،عقیدتاً،عملاً رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگی گزاریں۔
اگر خدا نخواستہ خلفاء راشدین نیز جملہ صحابہ کرام ثسے اعتماد اٹھ جائے تو نہ دین پر اعتماد باقی رہتا ہے اور نہ قرآن مجید پر ۔اس لیے کہ یہ لوگ دین میں ایسے فنا ہوگئے تھے کہ دین کو قرآن وحدیث میں ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے ،یعنی دین وہی معتبر ہوگا جو دین صحابہ کرام ث والاہے ۔پس اس لحاظ سے صحابہ کرام ثکا دین وایمان کائنات کے مسلمانوں کے ایمان ودین کی قبولیت کے لئے معیار ٹھہرا
پہلا ثبوت:۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِاھْتَدَوْاج وَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَاہُمْ فِیْ شِقَاقٍz (پارہ اآمآ)
پس اگر یہ منافق صحابہ کرامؓ کے ایمان کی طرح ایمان لائیں تو ہدایت پاجائیں گے اگر پھر جائیں تو بدبختی میں جاگریں گے،
دوسرا ثبوت :۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (پارہ لاَیُحِبُّ اللّٰہُ)
آج کے دن اے صحابہ کرامؓ تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنی نعمت پوری کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کا دین پسند کرلیا ہے۔
تیسرا ثبوت :۔
وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ (پارہ قَدْ اَفْلَحَ)
اور ضرور متمکن کردے گا اللہ صحابہ کرام ثکے لئے صحابہ کے دین کو جوکہ ان کے لئے چن لیا ہے ۔
چوتھا ثبوت :۔
جب جبریل امین ں بشکل انسان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور ایمان ،اسلام ،احسان کے متعلق سوالات کیئے اور حضور علیہ السلام نے جوابات دیئے، ان کے بعد قیامت کے متعلق سوال کیا تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امارات ،علامات کے بتانے پر اکتفا فرمایا اور علم قیامت کے متعلق فرمایا کہ یہ ان پانچ چیزوں میں داخل ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی کو نہیں تھوڑی دیر کے بعد وہ سائل چلا گیا تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرصسے پوچھااے عمرصتو جانتا ہے یہ کون تھا ؟
انہوں نے جواباً عرض کیا کہ یاحضرت اللہ اور اس کے رسول کو خبر ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ جبرائیلں تھا تمہارے پاس اس لئے آیاتھا کہ تمھیں تمہار ا دین سکھائے اگر اس مقصد کو یوں تعبیر کیا جائے تو بعید از قیاس نہ ہوگا کہ مولائے کریم نے جس جبرایئل کو قرآن مجید نازل کرنے کے لئے مقرر فرمایا اسی جبرائیل کو خدا تعالیٰ نے صحابہ کرام ث کے لئے تعلیم دین کے لئے بھیجا تھا ۔
ان تمام دلائل میں دین کی نسبت صحابہ کرام ثکی طرف کی گئی۔
ایک عجیب استدلال:۔
حضور علیہ السلام کو بعد از ہجرت کافی مدت کے بعد بیت اللہ شریف کے طواف کا موقع ملا ،صحابہ کرام ث میں سے متعدد افراد بخار کی وجہ سے دبلے پتلے ہو گئے تھے ۔حضور علیہ السلام کا قلب اطہر برداشت نہ کرتا تھا کہ کفار صحابہ کرامث کو اس حالت میں دیکھیں اس کے ازالہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صحابہ کرامثبوقت طواف کعبہ کندھے ہلا کر چلیں تاکہ کفار پر رعب پڑے ۔
اس میں چارمطلب مخفی ہیں ۔
ایک تو یہ کہ قلب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام ث کا مقام کیا تھا گویاحضور علیہ السلام ہر حالت میں صحابہ کرامث کو بہادر ،طاقتور وتوانا دیکھنا چاہتے تھے۔
دوسرے یہ کہ ایسی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے کہ صحابہ کرامثکے ایمان وعمل تو ایمان وعمل رہے ان کے جسم کی طاقت پر بھی کوئی اعتراض نہ کرنے پائے ۔
تیسرے یہ کہ کندھے ہلانا اگرچہ تکبر میں داخل تھا مگر صحابہ کرام ثکے لئے شارع علیہ السلام نے وقتی طور پر جائز قرار دے دیا۔
چوتھے یہ کہ سرورکائنات اور مولائے کائنات کو صحابہ کرام ثکا یہ عمل اور طرز عمل ایسا پسند آیا کہ قیامت تک حاجی کرتے رہیں گے اور بفرمان رسول اکندھے ہلا کر صحابہ کرام ثکے اس عمل کی یاد تازہ کرتے رہیں گے۔