سلام کا مسنون طریقہ؟

سوال: ہمارے مدرسے کے قاری صاحب جو عالم دین بھی ہیں اور مولانا خیر محمد جالندھری رحمۃ الله  علیه کے خلیفہ بھی ہیں بچوں میں سلام کا یہ طریقه رائج کر رکھا ھے کہ بچے صرف
“سلام”
بولتے ہیں اور استاذ صاحب جواب میں:
“والسلام”
بولتے ہیں کیا اس طرح سلام کرنا اور جواب دینا درست ھے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب ومنہ الصدق الصواب
حامداً ومصلیا امابعد —
1۔ صورت مسئولہ میں کسی بھی مسلمان کو سلام کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام مکمل الفاظ سے کیا جائے الفاظ یہ ہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اور جواب ان الفاظ سے ہو، وعلیکم السلام وحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اگر السلام علیکم اور جواب میں وعلیکم السلام، پر اکتفاء کیا جائے، تویہ بھی جائز ہے، اس کے علاوہ السلام وعلیکم مسنون طریقہ نہیں ،سلام وعلیکم، السام وعلیکم وغیرہ کے الفاظ بددعآء کے ہیں، سلام میں اس کے کہنے سے اجتناب کیا جائے ۔ السائیکم اورسلالیکم، سلام کے الفاظ نہیں اورمعنوی لحاظ سے بھی صحیح نہیں اس لیے ان الفاظ کے کہنے سے احتراز کیا جائے۔
2۔ مختصراً الفاظ سے سلام مثلاً AOA اورمختصر الفاظ سے جواب WAS نہ سلام ہے اور نہ ہی سلام کا جواب ہے، اس طرح سلام وجواب صحیح نہیں۔
فقط واللہ اعلم
#واللہ تعالی اعلم  وعلمہ اتم وحکمہ احکم
#✍نقلہ: احمد بن محمد ارشد خان
#رکن: المسائل الشرعیہ الحنفیہ