میڈیا کی حقیقت (۱)

 

 محمد فاروق صدیقی

ہر دور میں ٹرینڈ بدلتے جاتے ہیں، الیکٹرانک میڈیا کا شروع کا دور ایسا تھا کہ ہر ایک اِسے کوئی فرشتہ ہی سمجھ بیٹھا تھا جو دنیا بھر کی باتیں دن رات سناتا ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں یہ ٹرینڈ ایک بار پھر بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ دُنیا بھر کے لوگوں کا اعتماد میڈیا پر سے ختم ہوتا جا رہا ہے اور اگر ہم میڈیا پر لوگوں کے اعتماد کا تصور مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی حدود میں دیکھیں تو یہ اعتماد دن بہ دن منفی سمت میں سفر کر رہا ہے۔ پاکستان اور دیگر بعض ایشیائی ممالک میں یہ اعتماد صرف الیکٹرانک میڈیا کی حد تک ہی کم ہوا ہے جب کہ پرنٹ میڈیا پر ان ممالک کی عوام اب بھی بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔

 ڈیلی لاس اینجلس ٹائمز کے جولائی۹۹۹۱میں کروائے گئے سروے ہی کو دیکھ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکارہ ہوجاتی ہے کہ70  فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا دولت مندوں اور اہل ثروت کے اثر و نفوذ کی حمایت کرتا ہے اس میں خود امریکی حکومت بھی شامل ہے۔70  فیصد ہی امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا کی خبروں میں عدم توازن اور جانب داری پائی جاتی ہے۔60  فیصد امریکی فحاشی اور عریانی سے متعلق خبروں اور تصویروں اور کہانیوں کو پسند نہیں کرتے ۔54 فیصد امریکیوں کا کہنا کہ ہے ذرائع ابلاغ کی خبریں فرضی اور من گھڑت ہو تی ہیں۔

امریکہ میں میڈیا پر سے ختم ہونے والے اعتماد کے ساتھ ہی ایک رپورٹ “عالمی میڈیا پر کنٹرول کس  کا ” نے بھی خوب تہلکہ مچایا اور امریکی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اْن تک آنے والی تمام خبروں اور تجزیوں کے پیچھے ایک ہی طرح کی لابی موجود ہے۔ امریکہ ہی کیا اب تو یہ بات ساری دْنیا جانتی ہے کہ امریکی حکومت اور وائٹ ہاوس کی حیثیت کسی ڈمی سے کم نہیں جس کو اپنی انگلیوں پر نچانے والا ذہن خاص یہودی ہے جو نہ صرف امریکی حکومتوں کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ وہاں کے میڈیا اور شوبزبھی انہیں کے قبضہ میں ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ـ’’امریکہ میں آپ خدا پر نکتہ چینی تو کر سکتے ہیں مگر اسرائیل پر نہیں‘‘۔

کہنے کو مسلمانوںکا تو ورثہ ہی علم و ہنر پر مبنی ہے لیکن نااہل حکمرانوں اور اپنی غفلتوں کی وجہ سے آج دنیا کی ہر مشہور کمپنی، ہر مشہوربرانڈ پر یہود کی ملکیت ہے جبکہ مسلمان آپس کے جھگڑوں میں مصروف۔ دنیا کے مشہور برانڈز کے مالکان خاص یہود ہیں جو اپنی کمائی سے اسرائیل کو مظبوط کرنے اور آنے والے مسیح الدجال کے لئے راہ ہموار کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ چاہے پولو کا مالک رالف لورین، اسٹاربکس کا مالک ہوارڈ شولتز،گوگل کا مالک سرجی برین،ڈیل کمپنی کا مالک مایکل ڈیل ہو یا کوئی اور۔ یہی نہیں بلکہ عالمی سیاست پر اپنی گرفت مظبوط کرنے کے لئے بھی سابق امریکی وزیرخزانہ روبرٹ روبین، امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر ، رچارڈلیوین ، ایلان جرینزپان، سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرایٹ ، ڈیویڈ مارشل سنگاپور کا وزیراعظم ،پییفیگنی بریماکوف سابق روسی وزیراعظم،پییر مینڈس فرانس کا وزیراعظم، بیری گولڈ واٹرامریکی سیاستدان، جورج سمبایو پرتگال کا صدر ،ہرب گرے کینیڈین نائب صدر،آ یزک آیزک آسٹریلیا کا صدر، مائیکل ہوارد برطانوی وزیرمملکت،آسڑیلوی چانسلر برونوکریسکی سمیت متعدد یہودی سیاستدان عالمی سیاست پر قابض رہے ہیں۔

عالمی میڈیا پر نظر دوڑائیں تو سی این این میں وولف بلیٹزر، واشنگٹن پوسٹ میں یوجین مئیر،نیویارک ٹائمز میں جوزف لیلیفیڈ،اے بی سی نیوزکے بربارا والٹرز،واشنگٹن پوسٹ کی کیتھرین گراہم ،نیو یارک ٹائمز کی میکس فرینکل سمیت متعدد بڑے نام یہودی ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کس طرح 1898 ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر بال میں 300 یہودی دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں نے ہر ٹزل کی قیادت میں جمع ہو کر پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ منصوبہ 19پروٹوکولز  (The Zionist Protocols)  کے نام سے تیار کیا گیا جو کہ اب مختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ موجود ہے۔اس دستاویز میں جہاں اور بہت سی باتوں پر زور دیا گیا وہیں ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ کا منصوبہ بھی پیش پیش تھا۔ اس منصوبے کی بارہویں دستاویز میں درج باتوں میں سے چند پر نظر ڈالتے ہیں:

’’اگر ہم( یہودی) پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائز پر قبضے کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے۔ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ وہ پیشگی اجازت لئے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے۔ اس طرح ہم اپنے خلاف کسی بھی سازش یا معاندانہ پروپیگنڈے سے باخبر ہو جائیں گے ،ہم ایسے اخبارات کی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی اور جنسی و اخلاقی انار کی پھیلائیں گے اور استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت اور حمایت کریں گے۔ ہمارے اخبارات و رسائل بندوں کے معبود و شنو کی طرح ہو ں گے، جس کے سینکڑوں ہاتھ ہو تے ہیں، ہمارے پریس کا یہ بنیادی کام ہو گا کہ و ہ مختلف موضوعات اور کالموں کے ذریعے رائے عامہ کی نبض پر ہاتھ رکھیں گے۔ ہم یہودی ایسے نیٹ ورک مالکان کی ہمت افزائی کریں گے جو بدکردار ہوں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ہو۔ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاست دانوں، لیڈروں او
ر مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ ہو گا،جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے، ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بناکر پیش کریں گے۔ ہم( یہودی) ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے زیر کنٹرول رکھ کر دنیا کو جو کچھ دکھا نا چاہتے ہیں ،وہی دنیا کو دیکھناہوگا۔ ‘‘

یہاں ذکر کی گئی بات :ہماری اجازت کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں گے۔ اس کی روشنی میں یہودیوں نے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا اور خبر رساں ایجنسیاں قائم کیں، جن میں سے ہم صرف دو کا یہاں ذکر کریں گے:

رائٹر:

رائٹر ایک عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے جس کی خبروں پر دْنیا کے تمام ٹی وی اور اخبارات مکمل بھروسا رکھتے ہیں۔ BBC ،وائس آف امریکہ، ریڈیو مونٹ کارلوبھی اس سے 90فیصد خبریں حاصل کرتے ہیں۔ اس خبر رساں ایجنسی کا بانی موسس جولیس ایک یہودی ہے۔ 1857 میں رائٹر ایجنسی کے مالک کو برطانوی شہریت دے دی گئی اور ایک بڑے خطاب سے ملکہ برطانیہ نے اس کو سرفراز کیا۔ اس کے نصف سے زائد لوگ دنیا کے مختلف ممالک میں کام کرتے ہیں اور ایک سو پچاس ملکوں کو پندرہ لاکھ الفاظ پر مشتمل خبریں اور مضامین بھیجتے ہیں۔

(جاری ہے)

 

٭…٭…٭