میں نے اسلام کیوں قبول کیا (امیرہ ،امریکہ)

میں نے اسلام کیوں قبول کیا

(امیرہ ،امریکہ)

میں نے ارکنساس (امریکہ) میں ایسے والدین کے گھر جنم لیا، جو ارکنساس ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ماضی میں جہاں تک میں جھانک سکتی ہوں، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ میری فیملی کے بزرگ جنوبی ریاستوں سے یہاں آ کر آباد ہوئے۔ میری ساری پرورش ایک فارم پر ہوئی، جہاں صبح سویرے اٹھ کر بڑی تعداد میں گایوں کا دودھ دوہنا ہوتا ہے۔ مرغیوں کو خوراک دینی ہوتی ہے اور روز مرہ کے دیگر کام کرنے ہوتے ہیں۔ میرا باپ ایک بیپٹسٹ منسٹر (چرچ کا پادری) تھا۔ بیپٹسٹ (Baptist) عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے، جیسے کیتھولک اور میتھو ڈسٹ وغیرہ۔ یہ تمام عیسائی مذاہب ہیں، مگر مختلف نظریات و مسالک کے حامل ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہیں، جیسے مسلمانوں میں شیعہ اور سنی۔ اس سلسلے میں مجھے آپ سنی کہہ سکتے ہیں۔

جس قصبے میں میری رہائش تھی، وہاں سب گوری نسل کے لوگ آباد تھے اور سارے کے سارے عیسائی تھے،اس لیے میں کسی دوسرے مذہب اور کلچر سے متعارف نہ ہو سکی، لیکن مجھے ہمیشہ یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ نے ہم سب انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ رنگ، نسل، کلچر اور مذہب کی بنیاد پر کسی کو کمتر نہیں سمجھا جا سکتا۔ بعد میں مجھ پر منکشف ہوا کہ ایسی تبلیغ کرنا اور تعلیم دینا، اس وقت تک ان کے لیے آسان ہے، جب تک وہ الگ تھلگ رہیں اور دنیا کے دوسرے مذاہب ان کی دنیا میں داخل نہ ہوں۔

پہلی بار میں نے کسی مسلمان کو اس وقت دیکھا، جب یونیورسٹی آف ارکنساس کے کالج میں داخل ہوئی۔ مسلمان لڑکیاں مختلف قسم کے عجیب و غریب لباس پہنے ہوئے تھیں، جبکہ لڑکے سروں پر تولیے (عمامے) لپیٹے ہوئے اور رات کا لباس (Night Gowns ) پہنے ہوئے تھے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں بڑی دیر تک ان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ پہلی بار جب مجھے ایک مسلمان لڑکی سے ملاقات کرنے کا موقع ملا تو اس سے سوال پوچھتے ہوئے میں نے اطمینان محسوس کیا۔ اس کی باتوں نے میرے قلب و دماغ میں ایک پیاس لگا دی۔ الحمد للہ یہ پیاس کبھی نہ بجھی۔

میں اس لڑکی کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ اس کا تعلق فلسطین سے تھا۔ میں اس کے پاس گھنٹوں بیٹھی اس کے ملک اور کلچر کی کہانیاں سنتی رہتی۔ اس کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مسحور کیا، وہ اس کا مذہب ”اسلام” تھا۔ یہ لڑکی اندر سے انتہائی مطمئن تھی۔ میں نے ایسی مطمئن ، پرسکون اور پراعتماد خاتون اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ مجھے آج بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیا علیہم السلام کے بارے میں اس کی بتائی ہوئی ہر بات یاد ہے۔ اگرچہ اس کا آج تک میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا۔ میرے ذہن میں اکثر ”تثلیث” کے بارے میں سوال پیدا ہوتے تھے کہ ہم عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرتے ہیں، براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کیوں نہیں کرتے؟ عیسیٰ علیہ السلام کی ذات ہی پر زور کیوں دیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے؟

اسلام سے متعلق میری دوست نے وہ سب کچھ کیا، جو وہ کر سکتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسلام کوئی عام مذہب نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ میری دوست نے چھ ماہ بعد اپنی گریجویشن مکمل کر لی اور واپس فلسطین چلی گئی۔ فلسطین پہنچنے کے دو ہفتے بعد ہی اسے اس کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔ اس کی موت کی خبر سے مجھے شدید صدمہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا، جیسے میرے بدن کا ایک حصہ مر گیا ہو۔ جب وہ اپنے گھر واپس جا رہی تھی تو ہم جانتے تھے کہ اس دنیا میں شاید ہی ہم ایک دوسرے سے دوبارہ مل سکیں۔ جاتے وقت اس نے ایک انتہائی اہم بات بڑے یقین سے کہی تھی کہ وہ اگلے جہاں جنت میں مجھ سے ملے گی۔

اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے کئی افراد سے میری ملاقات اور دوستی ہوئی۔ میری سہیلی کی موت سے مجھے جو صدمہ پہنچا تھا، اس صدمے کو برداشت کرنے کے لیے انھوں نے میری بڑی مدد کی۔ اس سانحے کے بعد عربی زبان سے بھی مجھے محبت ہو گئی۔ یہ بہت ہی خوب صورت زبان ہے۔

میں گھنٹوں قرآن کے ٹیپس (Tapes) سنتی، اگرچہ میں کبھی بھی نہ سمجھ پائی کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ آج بھی یہ صورت ہے کہ میں بڑی چاہت سے قرآن کو سنتی ہوں، اگرچہ کچھ سمجھ نہیں پاتی، لیکن قرآن کی تلاوت میرے قلب اور روح کو اپنے اثر میں لے لیتی ہے۔ کالج میں عربی زبان سیکھنے کے لیے میرے پاس بالکل وقت نہیں تھا۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد جب میں اپنی کمیونٹی میں واپس آ گئی تو مسلمانوں سے میرا مزید رابطہ نہ رہا، لیکن میری روح میں اسلام کی جو طلب اور عربی زبان سے جو محبت پیدا ہو چکی تھی، اس نے مجھے کبھی نہ چھوڑا۔ اس کے باعث میرے والدین اور کئی دوستوں کا غصہ بھی بڑھا۔ والدین اور دوستوں کے رویے نے مجھے کنفیوژ کر دیا، کیونکہ مجھے تو ہمیشہ یہ تعلیم دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہم سب برابر ہیں۔ میں سوچنے لگی کہ اس تصور مساوات میں میرے دوستوں اور فیملی کے لیے شاید کچھ استثنا ہو۔

یہ ١٩٩٥ء کا موسم بہار تھا، جب اللہ تعالیٰ نے میری زندگی میں ایک فرد کو داخل کیا۔ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے، یہ فرد اس کا ایک خوبصورت نمونہ تھا۔ اس فرد کے باعث ایک بار پھر اسلام میرے ذہن پر چھا گیا۔ میں نے اس سے سوال پوچھنے شروع کر دیے۔ پھر ایک دن پہلی بار مجھے مسجد بھی لے جایا گیا۔ یہ ایسی یادیں ہیں، جو میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئیں۔ اس نے اسلام سے متعلق مجھے جو بھی دیا، میں نے پڑھ ڈالا، ٹیپس مسلسل سنے۔ یہ سلسلہ ٨ ماہ تک جاری رہا۔ پھر وہ لمحہ آ گیا یعنی باطل کو چھوڑنے اور حق کو قبول کر لینے کا لمحہ۔ ١٥ فروری ١٩٩٦ کو میں نے اسلام قبول کر لیا۔ (الحمد للہ)

اسلام قبول کر لینے کے بعد آزمایشوں کا دور شروع ہو گیا۔ سب سے پہلی آزمائش میری منگنی کا ٹوٹنا تھا۔ میرے (مسلمان فلسطینی) منگیتر کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ اس کی شادی کسی امریکی لڑکی سے ہو، اگرچہ ہمارے درمیان منگنی کا تعلق و رشتہ ختم ہو گیا، پھر بھی اس کا احترام و قدر کرتی ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ثابت قدم رکھا اور میں ان شاء اللہ اسلام کے راستے کو کبھی نہ چھوڑوں گی۔

جب میں نے ایک عرب یعنی غیر ملکی سے منگنی کی تو میرے والدین کو شدید جھٹکا لگا۔ انھوں نے میرے ساتھ بات چیت بند کر دی۔ میری بیش تر امریکی سہیلیاں بھی مجھے چھوڑ گئیں۔ جب میں نے اسلام قبول کیا تو میری فیملی نے مجھے ذہنی امراض کے ہسپتال لے جانا چاہا۔ جب وہ اس میں ناکام ہو گئے تو انھوں نے مجھ سے اظہار لا تعلقی کر دیا۔ وہ مجھے فون کرواتے کہ انھیں یقین ہے کہ میں دوزخ میں جلوں گی۔ میری اکثر سہیلیاں بھی اپنے فون میں اسی خواہش کا اظہار کرتیں، اگرچہ اس سے مجھے شدید دکھ پہنا۔ میرے اور میرے گھر والوں میں کئی اختلاف پیدا ہو گئے، تاہم میں پھر بھی ان سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی ہوں، اللہ کا شکر ہے جس نے میرے ایمان کو قوت بخشی اور مضبوط بنایا۔

اسی اثنا میں دہشت گردوں نے ہمارے شہر میں بم دھماکے کر دیے۔بم دھماکوں کے چار دن بعد کی بات ہے کہ ایک دوپہر کو جب میں اپنے گھر واپس لوٹی، تو میں نے دیکھا کہ کھڑکیوں پر کسی نے فائرنگ کی ہوئی ہے اور میری ایک گاڑی پر ”دہشت گردوں سے محبت کرنے والی” (Terrorist Lover) پینٹ کیا ہوا ہے۔ میں نے پولیس فون کیا مگر پولیس میری کسی قسم کی مدد کرنے کو تیار نہ تھی۔ اسی رات جب میں انٹرنیٹ کے ”مسلم چیٹ” پر گپ شپ لگا رہی تھی، میں نے فائرنگ کی آواز سنی۔ پہلے حملے میں جو کھڑکیاں بچ گئی تھیں، اب دوسرے حملے میں انھوں نے سب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ باہر جو میرے پیارے جانور تھے، ان سب کو بھی انھوں نے مار دیا۔

پولیس آئی اور مجھے کہا کہ ”جب تک حملہ آوروں کی شناخت نہ ہو اور ان گاڑیوں کے بارے میں معلومات نہیں دی جاتی ہیں، جن پر وہ آئے تھے، حملہ آوروں کا سراغ لگانا ناممکن ہے”۔ میں نے ان سے التجا کی کہ وہ میری گاڑیوں کو چیک ہی کر دیں کہ سفر کے لیے ان میں کوئی خطرہ تو نہیں پیدا کر دیا گیا۔ میں ہوٹل جانا چاہتی ہوں اور اس کے لیے محفوظ سفر کی خواہاں ہوں۔ انھوں نے مجھے صاف جواب دے دیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ تمھارے دہشت گرد دوستوں نے ہمیں ٹریپ کرنے کے لیے اندر بم نہ رکھ دیے ہوں۔ میں اللہ کے حضور جھک گئی اور رو کر اس سے رحم اور راہنمائی کی دعا کرنے لگی۔

ایک رات پارکنگ لاٹ میں ایک نامعلوم شخص نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ اس نے مجھے پیٹنے ، زخمی کرنے، میری کلائی اور پسلیاں توڑنے کی کوشش کی۔ اس آدمی کو پکڑ لیا گیا۔ ایک روز جب میں ڈارئی کلینر کے پاس اپنے کپڑے لینے گئی تو مجھے بتایا گیا کہ وہ گم ہو گئے ہیں۔ ان کپڑوں میں میرے تمام اسکارف ، جلباب وغیرہ شامل تھے۔ ان کے لیے یہ اشیا گم کرنا کتنا آسان تھا!

یہ قصبہ بہت چھوٹا ہے اور قرب و جوار میں کوئی مسلمان بھی نہیں ہے۔ قریب ترین مسجد ١٢٠ میل دور ہے۔ اگرچہ یہاں تنہا ہوں اور کوئی دوسر امسلمان نہیں، جس کے پاس ملنے کے لیے جا سکوں اور اس سے کچھ سیکھ سکوں، لیکن الحمد للہ، اللہ ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے۔ میرے پاس اسلام کا جو بھی تھوڑا بہت علم ہے، یہ انٹرنیٹ پر اسلام کے بارے میں دستیاب معلومات پڑھ کر اپنے سچے دوستوں کے ذریعے اور انٹرنیٹ فیملی کے ذریعے سے حاصل ہوا ہے۔ میں اپنے فلسطینی بھائی کی محبت، مدد، دوستی اور اس کی دعاؤں کے لیے اس کی خصوصی شکر گزار ہوں۔انٹرنیٹ کے میرے دوسرے مسلمان بھائیو اور بہنو! میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہوں اور آپ کی شکر گزار ہوں۔

میں نے یہ داستان کسی قسم کی ہمدردی حاصل کرنے کی امید پر نہیں لکھی ہے، لیکن میں سب سے یہ ضرور کہوں گی کہ میرے لیے مسلسل دعا کرتے رہیں۔ امریکا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں اور ان کے ساتھ جس تعصب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، ان شاء اللہ یہ جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔ میں جانتی ہوں کہ ناانصافیوں اور تعصب کے خلاف جنگ میں میں تنہا نہیں ہوں، یہی وقت ہے کہ میڈیا لوگوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر لائے۔

آخری بات اپنی پیاری سہیلی سے جس نے سب سے پہلے اپنے اسلامی علم میں مجھے شریک کیا۔ میں جانتی ہوں کہ ١٥ فروری ١٩٩٦ء کو جب میں نے کلمہ شہادت پڑھا تھا تو تم جنت میں خوشی سے مسکرا اٹھی تھی۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ان شاء اللہ ہم ایک بار پھر ملیں گے۔

٭٭٭