تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقالیہ کب کہی جائیں اور کتنا کھینچا جائے؟

تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقالیہ کب کہی جائیں اور کتنا کھینچا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتیں ہیں ہمارے مفتیان عظام اس مسئلے پر کہ لفظ اللٰہ پر صرف مد اصلی کھڑا زبر ہے جس کے کھینچنے کی مقدار ایک الف کے برابر ہے اس سے زیادہ کھینچنے کی دوسری کوئی صورت نہیں ہے، اس کے باوجود مؤذن حضرات اور ائمہ صاحبان اللہ اکبر کے لام کے مد اصلی کو کتنے کتنے مقداروں کھینچتے ہیں کیا یہ صحیح ہے مدلل جواب تحریر فرمائیں عین نوازش ہوگی دوسرا سوال یہ ہے کہ مقتدی نماز کہ اندر جو تکبیر کہتے ہیں وہ کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں پر ختم کرے مثال کے طور پر تکبیر تحریمہ کے وقت جو ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہیں تو اللہ اکبر اسی وقت کہی جائے یا ہاتھ باںدھنے کے بعد اسی طرح اور ارکان میں بھی تکبیر کہاں سے شروع کریں  اور کہاں ختم کی جائے ذرا تفصیل سے جواب عنایت فرمادیں مہر بانی ہوگی چوںکہ اکثر ہمارے ائمہ مساجد سے یہ غلطی ہورہی ہے
آصف امام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے (نہ کہ تکبیرات انتقالیہ میں ) “اللہ” کے لام کو ڈیڑھ الف سے زیادہ کھینچنا درست نہیں ہے۔اگر امام نے اتنا زیادہ کھینچ دیا کہ مقتدی کی تحریمہ امام سے پہلے ختم ہوگئی تو مقتدی اس تحریمہ کے ساتھ  نماز میں شامل نہ ہوسکے گا۔اسے دوسری تحریمہ کہکر شریک نماز ہونا پڑے گا۔
أخرج عبد الرزاق عن الثوري قال: إذا کبر الرجل قبل الإمام فلیعد التکبیر، فإن لم یعد حتی یقضي الصلاۃ فلیعد الصلاۃ۔ (مصنف ابن عبد الرزاق، الصلاۃ / باب الرجل یکبر قبل الإمام ۲؍۷۴ رقم: ۲۵۴۸)
بہتر یہ ہے کہ پہلے تکبیر تحریمہ کہ لی جائے اس کے بعد ہاتھ ہاتھ اٹھایا جائے ۔ حدیث سے یہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے ۔ہر چند کہ ایک ساتھ اٹھانا بھی جائز ہے ۔اس سلسلے میں احناف کے یہاں تین اقوال ہیں ۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی تَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَيْهِ ثُمَّ يُکَبِّرُ قَالَ وَکَانَ يَفْعَلُ ذَلِکَ حِينَ يُکَبِّرُ لِلرُّکُوعِ وَيَفْعَلُ ذَلِکَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ وَيَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلَا يَفْعَلُ ذَلِکَ فِي السُّجُودِ
 رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا قام في الصلاةِ، رفَع يدَيهِ حتى تكونا حَذوَ مَنكِبَيهِ، وكان يفعَلُ ذلك حين يكبِّرُ للرُّكوعِ، ويفعَلُ ذلك إذا رفَع رأسَه من الرُّكوعِ، ويقولُ : سمِع اللهُ لمن حمِده . ولا يفعَلُ ذلك في السُّجودِ . .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري – المصدر: صحيح البخاري – الصفحة أو الرقم: 736
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، سالم، عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ جس وقت آپ ﷺ کھڑے ہوتے نماز کے واسطے تو آپ ﷺ دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے ہاتھ مونڈھوں کے برابر آجاتے پھر تکبیر کہتے اور جس وقت رکوع کے واسطے تکبیر کہتے تو جب بھی اسی طریقہ سے کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے مونڈھوں تک پھر جس وقت (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے تو اسی طریقہ سے کرتے (مطلب یہ ہے کہ مونڈھوں تک ہاتھ اٹھاتے) اور جس وقت سجدہ میں جاتے تو ہاتھ نہ اٹھاتے۔
عَنْ وَائِل بْنِ حُجْرٍ أنَّہٗ أَبْصَرَ النَّبِیَّ ﷺ حِیْنَ قَامَ إِِلَی الصَّلَاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی کَانَتَا بِحِیَالِ أُذُنَیْہِ وَحَاذٰی بِإِبْھَامَیْہِ أُذُنَیْہِ ثُمَّ کَبَّرَ (ابوداؤد) وَفِی روایۃ حَتّٰی تَکَادَ إِبْھَامَاہُ تُحَاذِیْ شحْمَۃَ أُذُنَیْہِ (نسائی)
حضرت وائل بن حجر رض سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ وہ آپ کے دونوں کانوں کے اوپری حصے کے برابر ہوگئے اور آپ نے اپنے انگوٹھوں کو اپنے کانوں کے مقابل کیا پھر تکبیر کہی اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ کے انگوٹھے آپ کے کانوں کی لو کے تقریباً برابر ہوگئے۔
عن وائل بن حجر قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم حین افتتح الصلاۃ رفع یدیہ حیال أذنیہ۔ (سنن أبي داؤد، الصلاۃ، باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۰۵، دارالسلام، رقم: ۴۰۱، سنن نسائي، الصلاۃ، باب رفع الیدین حیال الأذنین، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۰۱، دارالسلام، رقم: ۸۸۰)
إذا أراد الدخول في الصلوۃ کبر، ورفع یدیہ حذاء أذنیہ، حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ، وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ۔ (ہندیۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ، زکریا قدیم ۱/ ۷۳، جدید ۱/ ۱۳۰، بدائع، کتاب الصلاۃ، فصل في سنن الصلاۃ، زکریا ۱/ ۴۶۶)
پہر احناف کے یہاں فتوی اس پر ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد ہاتھ چھوڑے بغیر (ارسال  کے بغیر ) ناف کے نیچے باندھ لیا جائے ۔ارسال کرنے پہ فتوی نہیں ہے :
في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘: ووضع یمینہ علی یسارہ تحت سر تہ آخذاً رسغھا بخنصرہ وإبھامہ کما فرغ من التکبیر بلا إرسال في الأصح۔ ’’تنویر‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن عابدین : قولہ : بلا إرسال ھو ظاہر الروایۃ ۔ (۲/۱۶۶)
في ’’السعایۃ علی کشف ما في شرح الوقایۃ‘‘: قال الشیخ عبد الحي اللکنوي رحمہ اللہ تحت قولہ : تحت سرتہ : عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف یضع کما فرغ من التکبیر ولا یرسلہ وبہ جزم قاضیخان في فتاواہ ولم یذکر خلافاً۔ (۲ /۱۵۷، باب صفۃ الصلاۃ)
في ’’نور الإیضاح مع حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح‘‘: ثم وضع یمینہ علی یسارہ تحت سرتہ عقیب التحریمۃ بلا مھلۃ ۔
(ص۲۸۰ ، باب ترکیبب الصلاۃ ، فتح القدیر :۱/۲۹۲ ، باب صفۃ الصلاۃ)
في ’’الفتاویٰ الولوالجیۃ‘‘: المصلي إذا تحرم في الصلاۃ ورفع یدیہ لا یرسلہما ثم یضع ، بل یقع لأن ہذا قیام فیہ ذکر مسنون۔
(۱/۹۰، کتاب الطہارۃ، الفصل التاسع، مکتبۃ دارالإیمان سہارنفور)
مقتدی کو امام کی متابعت ہر ہر رکن میں کرنا ضروری ہے۔امام سے آگے بڑھنے پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔اس لئے تکبیرات سمیت کسی بھی رکن میں مقتدی کا امام سے پیش قدمی کرنا جائز نہیں ہے۔
بَاب إِثْمِ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ
659 حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ
صحيح البخاري
(یعنی جو مقتدی امام سے پہلے سر اٹھالے ۔اللہ اس کے سر کو یا اس کی شکل کو گدھے جیسی شکل بنادے  )
[ص: 169] باب التَّشْدِيدِ فِيمَنْ يَرْفَعُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَوْ يَضَعُ قَبْلَهُ
623 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا يَخْشَى أَوْ أَلَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ وَالْإِمَامُ سَاجِدٌ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ
سنن أبي داؤد
بَاب النَّهْيِ عَنْ مُبَادَرَةِ الْإِمَامِ بِالتَّكْبِيرِ وَغَيْرِهِ
415 حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَابْنُ خَشْرَمٍ قَالَا أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا يَقُولُ لَا تُبَادِرُوا الْإِمَامَ إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ ( وَلَا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ إِلَّا قَوْلَهُ ( وَلَا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَزَادَ وَلَا تَرْفَعُوا قَبْلَهُ
صحيح مسلم
تکبیرات انتقالیہ میں اللہ کے لام میں مد اصلی والا ضابطہ نہیں ہے۔بلکہ یہاں افضل اور بہتر یہ ہے کہ امام اللہ کے لام کو زیادہ سے زیادہ پانچ الف تک کھینچ سکتا ہے۔کیونکہ تکیبیرات انتقالیہ میں مسنون یہ ہے کہ ایک رکن سے منتقل ہوتے ہوئے تکبیر شروع کرے اور دوسرے رکن میں پہونچتے ہی اسے ختم کرے۔انتقال سے پہلے تکبیر شروع کرنا اور دوسرے رکن میں منتقل ہونے سے قبل ہی اسے ختم کردینا  یا رکن میں منتقل ہوجانے کے بعد کہنا طریقہ مسنونہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔مثلا  رکوع کی تکبیر رکوع میں جاتے ہی شرع کرے اور رکوع میں پہونچ کر اسے ختم کرے۔اسی طرح سمع اللہ لمن حمدہ رکوع سے اٹھتے ہی شروع کرے اور سیدھا کھڑا ہوکے اسے ختم کرے۔اسی طرح اس کے بعد اللہ کے لام کو کھینچے اور سجدہ میں پیشانی رکھ کر “اکبر” کی “راء ” ختم کرے۔ سجدہ میں پیشانی رکھنے سے قبل ہی “اکبر ” کہکر ختم کردینا  مکروہ ہے ۔
اسی طرح مقتدی کا امام کے “السلام ” (نہ کہ علیکم ) سے پہلے قصدا السلام کہدینا بھی صحت نماز کے لئے مانع ہے ۔اگر مقتدی نے امام کے “السلام ” کہنے سے پہلے السلام کہدیا تو اس کی نماز نہ ہوگی ۔اعادہ ضروری ہے۔اس لئے امام کو “السلام ” کے لام کو بھی زیادہ نہ کھینچنا چاہئے ۔
إنما یصیر شارعاً بالکل أي بمجموع اللّّٰہ أکبر لا بقولہ اللّٰہ فقط، فیقع الکل فرضاً، وإذا کان کذٰلک یکون قد أوقع فرض التکبیر قبل الإمام، وکل فرض أوقعہ قبل الإمام فہو غیر معتبر ولا معتد بہ، فکان کأنہ لم یکبر فلا یصحشروعہ۔ (حلبي کبیر ۲۶۰، شامي ۲؍۱۷۸ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۵۳ رقم: ۱۷۱۰ زکریا)
ولو أتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز، أي صحت صلا تہ لحصولہ بعد تمام الأرکان، وإنما یکرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعۃ الإمام بلا عذر، فلو بہ فلا کراہۃ۔ (شامي ۱؍۵۲۵ کراچی، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۷۱، حاشیۃ الطحطاوي ۳۱۱)
وتقضي قدوۃ بالأول قبل علیکم علی المشہور عندنا وعند الشافعیۃ۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۱۶۲ زکریا)
امام دوسرے سلام کو پہلے کی بنسبت  تھوڑا مختصر اور پست آواز میں پڑھے
والسنۃ للإمام في السلام، أن تکون التسلیمۃ الثانیۃ أخفض أي أسفل من التسلیمۃ الأولی من حیث الصوت، لأن ظاہرہ أنہ یجہر بہا جہرًا دون الجہر بالأولی…ومن المشائخ من قال یخفض الأولی من الثانیۃ أي یخفض الأولی أزید من الثانیۃ وہذا غیر صحیح…والصحیح القول الأول، أنہ یجہر بالثانیۃ دون الجہر بالاولی۔ (کبیري، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، اشرفیہ دیوبند و لاہور ۳۳۹)
عن أبي ہریررۃ رضي الله عنہ، عن النبي صلی الله علیہ وسلم، أنہ قال: إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فلا تختلفوا علیہ فإذا رکع فارکعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمدہ، فقولوا ربنالک الحمد، وإذاسجد فاسجدوا۔ الحدیث (صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ، ۱/۱۰۰، رقم:۷۱۳،ف:۷۲۲)
ثم کما فرغ یکبر مع الإنحطاط للرکوع وفي الشامیۃ: أفاد أن السنۃ کون ابتداء التکبیر عن الخرور وانتہاء ہ عند استواء الظہر۔ (در مختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن، کراچي ۱/۴۹۳، زکریا ۲/۱۹۶)
ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعا وفي الشامیۃ: قائلا سمع الله لمن حمدہ، وأفاد أنہ لایکبر حالۃ الرفع۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، کراچي ۱/۴۹۶، زکریا ۲/۲۰۰)
عن الزہري قال: أخبرني أبو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام، وأبو سلمۃ بن عبدالرحمن، أن أبا ہریرۃ کان یکبر في کل صلاۃ من المکتوبۃ وغیرہا في رمضان وغیرہ، فیکبر حین یقوم، ثم یکبر حین یرکع، ثم یقول: سمع اللہ لمن حمدہ، ثم یقول: ربنا ولک الحمد قبل أن یسجد، ثم یقول: اللہ أکبر حین یہوي ساجدا، ثم یکبر حین یرفع رأسہ من السجود، ثم یکبر حین یسجد، ثم یکبر حین یرفع رأسہ من السجود، ثم یکبر حین یقوم من الجلوس في الإثنین، ویفعل ذلک في کل رکعۃ، حتی یفرغ من الصلاۃ۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، باب یہوي بالتکبیر حین یسجد ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۱۰، رقم: ۷۹۵، ف: ۸۰۳، صحیح مسلم، الصلاۃ، باب إثبات التکبیر في کل خفض، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۶۹، بیت الأفکار، رقم: ۳۹۳)
أفاد أن السنۃ کون ابتداء التکبیر عن الخرور، وانتہائہ عند استواء الظہر، وقیل: إنہ یکبر قائما، والأول ہو الصحیح۔ (شامي، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ، زکریا ۲/ ۱۹۶، کراچی ۱/ ۴۹۳)
یسن التکبیر عند الخرور وابتداء ہ عند أول الخرور، وفراغہ عند الاستواء۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، زکریا ۱/ ۵۵۰، کوئٹہ ۱/ ۳۱۵، ہندیۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ، زکریا قدیم ۱/ ۷۵، جدید ۱/ ۱۳۱، الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث کیفیۃ الصلاۃ ۲/ ۱۶۸، رقم: ۲۰۳۷)
امام نووی رحمہ اللہ تکبیرات انتقالیہ کے لمبا کھینچنے کو بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
ویبدأ بالتکبیر حین یشرع في الہوی إلی السجود ویمدہ حتی یضع جبہتہ علی الأرض۔ (نووی علی مسلم مکمل ۳۴۴، عمدۃ القاري ۸۰۶۶)
خلاصہ یہ کہ تکبیر تحریمہ میں اللہ کے لام کو ایک سے ڈیڑھ الف تک کھینچا جاسکتا ہے ۔زیادہ نہیں۔لیکن تکبیرات انتقالیہ میں حسب ضرورت وحاجت اس لام کو پانچ الف تک کھینچ سکتے ہیں ۔اس میں مد اصلی والی پابندی نہیں ۔مفتاح الکمال مولفہ قاری محمد فتح صاحب پانی پتی اور کمال الفرقان حاشیہ جمال القرآن میں مد معنوی کی بحث میں اللہ کے لام کو پانچ الف تک کھینچنے کی اجازت دی ہے۔نیز ملفوظات فقیہ الامہ جلد 6 صفحہ 22 کے ایک ملفوظ سے بھی اس کا جواز مفہوم ہوتا ہے  (کتاب النوازل سے مستفاد )
الاذکار میں علامہ نووی نے بھی تکبیرات انتقالیہ میں لمبا کھینچنے کو مستحب کہا ہے۔ہاں  بلا ضرورت طول مفرط تو برا ضرور ہے !
وأما باقي التکبیرات فالمذہب الصحیح المختار استحباب مدہا إلی أن یصل إلی الرکن الذي بعدہا، وقیل: لا تمد فلو مد ما لم یمد، أو ترک مد ما لم یمد، لم تبطل صلا تہ لکن فاتتہ الفضیلۃ۔ (الأذکار للنووي ۱؍۵۰)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
16 جمادی الاولی 1439 ہجری ۔3 فروری 2018 ۔روز ہفتہ