رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے

اجتماع اور جماعت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 508)
اللہ تعالیٰ نے ’’جماعت‘‘ میں برکت رکھی ہے …اور جماعت وہی کامیاب چلتی ہے جس میں ’’اجتماعات‘‘ ہوتے ہیں…
اجتماع کا معنیٰ
چند افراد کے کسی ایک مقصد پر جمع ہونے کو ’’اجتماع‘‘ کہتے ہیں…افراد زیادہ ہوں یا تھوڑے ’’اجتماع‘‘ کا لفظ عام ہے…ہمارے ہاں یہ بات چل پڑی ہے کہ صرف بڑے مجمع کو ’’اجتماع‘‘ کہا جاتاہے…ایسا بعض جماعتوں نے اپنی ترتیبات کو منظم کرنے کے لئے کیا ہے… وہ چھوٹے مجمع کو ’’جوڑ‘‘ اور بڑے کو اجتماع کہتے ہیں…
بہرحال درست بات یہ کہ مجمع کم ہو یا زیادہ …جب کچھ افراد کسی ایک مقصد کے لئے جمع ہو جائیں تو وہ ’’اجتماع ‘‘ بن جاتا ہے…لوگوں کو جمع کرنے والی کئی چیزیں ہیں…مٹی،علاقہ، وطن، قبیلہ، قوم، زبان، خوشی کی تقریبات، گناہ کی کشش وغیرہ… مگر اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کے بندے دین پر جمع ہوں…ان کا اجتماع ’’اللہ تعالیٰ‘‘ پر ہو … اللہ تعالیٰ کے لئے ہو…ایسے اجتماع میں ایمان والوں کے لئے مضبوطی ہے، رحمت ہے، تازگی ہے، زندگی ہے اور برکت و کامیابی ہے … اسی لئے حضرات صحابہ کرام کے بارے میں کسی نے کہا ہے:
وکان الصحابۃ حریصین علی المجالس الایمانیۃ
یعنی حضرات صحابہ کرام…ایمانی مجالس و اجتماعات کا حرص رکھتے تھے…
اور آپ ﷺ نے اپنے شاعر، خطیب اور بہادر صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
یرحم اللّٰہ ابن رواحۃ انہ یحب المجالس التی تتباھی بھا الملائکۃ
یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ابن رواحہ پر… وہ ایسی مجالس کو پسند کرتے ہیں جن مجالس پر فرشتے بھی خوشی اور فخر فرماتے ہیں…دراصل حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ دوسرے صحابہ کرام سے ملتے تو فرماتے …آئیں تھوڑی دیر ہم ایمان لے آئیں… یعنی ایمان کا مذاکرہ کریں، ایمان کو تازہ کریں، ایمان کی تجدید کریں…وہ جانتے تھے کہ دو یا زیادہ مسلمان جب ایمان کی فکر لے کر اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو تازگی، قوت اور قبولیت عطاء فرماتے ہیں…
ابو داؤد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ…حضرات صحابہ کرام کو ایمان والی مجالس کا ایسا شوق اور حرص تھا کہ جب اس میں بیٹھتے تو آخر تک موجود رہتے…پھر یہ مجلس اور اجتماع جتنا بڑا ہو…یعنی اس میں جتنے زیادہ افراد ہوں… اسی قدر اس کی تاثیر اور خیر بڑھ جاتی ہے…
حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خیر المجالس اوسعھا ( ابو داؤد)
یعنی زیادہ اچھی مجلس وہ ہے جو زیادہ بڑی ہو…
اہل ایمان کے ’’اجتماع ‘‘ کی فضیلت کا اندازہ لگانا ہو تو …جماعت کی نماز کو دیکھ لیں…بالکل وہی نماز ہے نہ اس میں کوئی اضافہ نہ کمی… مگر اکیلا انسان ادا کرے تو ایک نماز اور اگر جماعت میں ادا کرے تو ستائیس نمازوں کے برابر… بعض اہل علم نے ضرب لگا کر جماعت کی نماز کو اکیلی نماز پر کروڑوں گنا زیادہ فضیلت والا قرار دیا ہے…مگر آپ صرف ستائیس کو ہی دیکھ لیں… کیا یہ معمولی اضافہ اور برکت ہے؟ … کسی رات عشاء کے چار فرض ستائیس بار ادا کرکے دیکھیں خود اندازہ ہو جائے گا…معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اجتماع پر اللہ تعالیٰ کی بہت رحمت اور بہت عنایت ہے… پس جو جماعت ’’دینی اجتماعات ‘‘ کا التزام کرتی ہے وہ عام جماعتوں سے کم از کم ستائیس گنا زیادہ تیز ترقی کرتی ہے…
فضائل ہی فضائل
اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونا… اللہ تعالیٰ کے دین کی نسبت سے جمع ہونا…اللہ تعالیٰ کے ذکر یعنی اس کی یاد کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت اور تدریس و تعلیم کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ سے پانے کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ سے وفاداری کے لئے جمع ہونا… یہ وہ اجتماعات ہیں جو ہر مسلمان کی لازمی ضرورت ہیں… ایسے اجتماعات میں شامل ہونے کا حکم قرآن مجید میں بھی بار بار ہے… اور احادیث مبارکہ میں ایسے اجتماعات کے اتنے فضائل ہیں کہ …اگر ان کو جمع کیا جائے تو مکمل ایک کتاب بن سکتی ہے… اللہ تعالیٰ نے خاص ایسے سیّار فرشتے پیدا فرمائے ہیں …جو ایسے اجتماعات کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں … اور جب وہ ایسا اجتماع پا لیتے ہیں تو فوراً اس میں شامل ہو جاتے ہیں… یعنی ان اجتماعات میں فرشتوں کی صحبت کا ملنا ایک یقینی نعمت ہے… یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کر گواہی دیتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے اجتماعات میں شریک مسلمانوں کے لئے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے…
اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اپنے فرشتوں کے درمیان فخر کے ساتھ تذکرہ فرماتے ہیں…دراصل ان اجتماعات سے دین کو قوت ملتی ہے…اسلام کی عظمت اور شوکت کا اظہار ہوتا ہے… قومیت، وطنیت، لسانیت اور علاقیت کے بتوں کی نفی ہوتی ہے…اور اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا اظہار ہوتا ہے … اسی لئے یہی اجتماعات دنیا میں جنت کے باغات ہیں…ان اجتماعات میں شریک ہونے والے اہل سعادت ہیں… اور ان اجتماعات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینہ نازل ہوتا ہے… آج ہمارے دل روشنی اور خشوع سے خالی ہیں پوری مسجد میں ایک نمازی بھی خشوع سے نماز پڑھنے والا نہیں ہوتا… حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مجالس الذکر محیاۃ للعلم وتحدث للقلوب خشوعا
اللہ تعالیٰ کے ذکر کی مجالس علم کو زندہ کرتی ہیں اور دلوں میں خشوع پیدا کرنے والی ہیں…’’ذکر اللہ ‘‘کی مجالس میں وہ بھی شامل ہیں جن میں چند افراد بیٹھ کر ’’ اللہ، اللہ ‘‘ کرتے ہیں… شرط یہ ہے کہ دل سے کریں اور جس کا نام لے رہے ہیں اسی کی یاد میں ڈوبے رہیں… اور وہ مجالس اور اجتماعات بھی ’’ذکر اللہ ‘‘ میں شامل ہیں جن میں… دین بیان ہوتا ہے…علم دین سیکھا اور سکھایا جاتا ہے… دینی فرائض، دینی احکامات کی دعوت دی جاتی ہے… اور ایمان اور ایمانیات کا مذاکرہ ہوتا ہے… یاد رکھیں شیطان ہمیشہ اکیلے فرد کو آسانی سے شکار کر لیتا ہے…اس لئے اپنے دینی کام اوراپنی دینی جماعت میں… ’’اجتماع‘‘ کا ماحول بنانا ضروری ہے تاکہ… ہم شیطان کا شکار نہ بنیں …
پانچ اجتماعات
جماعت کے ہر فرد کے لئے پانچ اجتماعات کی ترتیب ہے:
(۱) روزانہ کا اجتماع
(۲) ہفتہ واری اجتماع
(۳) ماہانہ اجتماع
(۴) شش ماہی اجتماع
(۵) سالانہ اجتماع
اس میں ایک وضاحت ضروری ہے کہ… بعض افراد ’’ہفتے‘‘ کی ترتیب کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیتے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ ہفتہ اور ’’ویک‘‘ کی ترتیب یہود و نصاریٰ کی ہے…وہ مختلف چیزوں کے ہفتے مناتے ہیں… مسلمانوں کو چاہیے کہ ’’عشرے‘‘ کی ترتیب بنایا کریں…
یہ بات درست نہیں… ہفتے کی ترتیب خود اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے کہ… دن کل سات ہی بنائے… اور مسلمانوں کا سب سے مبارک اجتماع… یعنی جمعہ کا اجتماع بھی ہفتہ واری ہے…
باقی جہاں تک تعلق ہے کوئی خاص ہفتہ ’’ منانے‘‘ کا تو… اسلام میں اپنی طرف سے نہ دن منانا درست ہے، نہ ہفتہ منانا اور نہ ہی عشرہ منانا … ہمارا دین کامل اور مکمل ہے… جو دن منانے ہیں وہ بتا دئیے گئے ہیں…باقی دینی کاموں کی ترتیب کے لئے… ایک ہفتہ کی مہم چلانا یا کم زیادہ دنوں کی…اس میں کوئی حرج نہیں … اس میں نہ ہفتہ ضروری، نہ عشرہ ضروری …بس جتنے دن ’’اہل انتظام ‘‘ طے کر لیں…
روزانہ کا اجتماع بہت ضروری ہے… یہ اپنے گھر کے افراد کے ساتھ ہو یا مسجد والے ساتھیوں کے ساتھ… اس کا عید کے دن بھی ناغہ نہیں کرنا چاہیے… چند افراد کچھ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں اکھٹے بیٹھیں…ذکر کریں، دین کی بات کریں … یہ ترتیب ہماری زندگی کو ایمانی ترقی کی طرف لے جاتی ہے… اور جو اس ترتیب کو اہمیت نہیں دیتا وہ بہت سی غلطیوں، گناہوں اور گمراہیوں میں جا گرتا ہے… یا اللہ! آپ کی پناہ…
ہفتہ واری اجتماع: یہ ایک ’’عصابہ‘‘ یا ایک محلہ یا ایک گاؤں یا شہر کے ساتھی باقاعدگی سے کریں … یہ اجتماع جس قدر پابندی سے ہو…جماعت اسی قدر تیزی سے کامیابی اور ترقی کی طرف بڑھتی ہے…
ماہانہ اجتماع: یہ ایک تحصیل یا ایک ضلع کے ساتھی مستقل نظام کے تحت کریں…یہ اجتماع جماعت کے لئے ہر طرح کی نصرت اور وسائل و اَفراد کی فراوانی کا ذریعہ بنتا ہے…
شش ماہی اجتماع: یہ ایک ڈویژن کی سطح پر ہو… اور بہت پابندی اور تیاری سے ہو… اس اجتماع سے جماعت کا داخلی نظم اور اس کی دعوت کو بے حد مضبوطی ملتی ہے…
سالانہ اجتماع: یہ مرکز کی سطح پر ہو… اس اجتماع سے جماعت کو سب سے بڑی نعمت… یعنی ’’اجتماعیت‘‘ ملتی ہے… اور وہ فرقوں اور تفرقوں سے بچی رہتی ہے…
یہ ’’پانچ اجتماعات‘‘ کا اشاریہ ہے… جماعت کے ’’اہل بیعت‘‘ ساتھی مل بیٹھیں،فکر کریں اور ان تمام اجتماعات کی تاریخیں، ترتیبیں اور ان کے لئے نگران مقرر کریں… اور فوری طور پر اسے نافذ کریں… سالانہ مرکزی اجتماع کی ترتیب…ان شاء اللہ شوریٰ کے مشورہ سے مستقل طے کر دی جائے گی…
باقی چار اجتماعات کی ترتیب آپ اپنے شعبوں کے تحت طے کر لیں… ان اجتماعات میں کیا ہو گا؟…بہت سی باتیں تو سامنے آ گئیں اور بعض اہم باتیں باقی ہیں جو جلد کسی اور مجلس میںعرض کر دی جائیں گی، ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
ایک مثبت اقدام
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 507)
اللہ تعالیٰ ہی ہمارے ’’ربّ‘‘ ہیں…اللہ تعالیٰ کے سوا ہم کسی کو ’’ربّ‘‘ نہیں مانتے…کوئی فرعون آئے یا دجّال…کوئی سائنسی طاقت آئے یا عسکری… اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں مانتے… نہ موت کے ڈر سے، نہ مال کی لالچ میں … ہم زندہ رہیں یا مر جائیں…مالدار ہوں یا بھوکے مریں… تخت پر بیٹھیں یا تختے پر لٹکیں… خوشحال ہوں یا تنگدست… لوگ ہماری عزت کریں یا ہمیں ستائیں… ہر حال میں ہمارا معبود،ہمارا مالک، ہمارا ’’ربّ‘‘ اللہ تعالیٰ ہے…
ہم اپنے اس عقیدے پر خوش ہیں، راضی ہیں، سعادتمند ہیں…اور بے حد،بے حد شکرگزار ہیں…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبّاً، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبّاً ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبّاً
اسلام ہمارا دین ہے… اور کسی دین کو ہم نہیں مانتے… خواہ وہ کتنی چمک دکھائے، کتنے شعبدے اٹھائے… لالچ اور حرص کے جتنے جال بچھائے…اسلام، اسلام اور صرف اسلام
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً
حضرت محمد ﷺ ہمارے نبی ہیں، رسول ہیں ، قائد ہیں، رہنما ہیں… کامیابی صرف ان کی اتباع میں ہے… اور ان کی تشریف آوری کے بعد… ان کے سوا کسی کے دامن سے وابستہ ہونے میں کامیابی نہیں… ہم ان کی رسالت،نبوت اور ختم نبوت پر ایمان لانا… اپنے لئے فرض، لازم اور بے حد لازم سمجھتے ہیں… اور اپنے اس عقیدے پر راضی ہیں…اور اس پر اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار ہیں…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا
یا اللہ! ہمیں اسی عقیدے پر زندہ رکھ… اسی پر موت دے… اسی پر ہمیں ایسا راضی فرما کہ اس رضا کے بدلے میں آپ کی رضا ملے…اور اس عقیدے پر ہر حال میں اور ہر لمحے ہمیں استقامت عطاء فرما…
یہ مبارک دعاء…جو ہمارے لازمی عقیدے پر مشتمل ہے… یہ جنت میں جانے کا ٹکٹ ہے …فرمایا: جو اس عقیدے پر دل سے راضی ہو گا… اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لازم فرمایا ہے کہ اسے قیامت کے دن راضی فرما دیں گے… اور جو صبح شام تین تین بار یقین سے یہ دعاء پڑھے گا… حضرت آقا مدنی ﷺ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جائیں گے…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا
ایک تابعی بزرگ کا فرمان ہے کہ… جو یہ دعاء پڑھے ظالم حکمران اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا وَّ بِالْقُرْآنِ حَکَماً وَّ اِمَاماً
آج بڑی سخت محنت جاری ہے…یہ جو ہر وقت گندے منہ اٹھا کر…اور ناپاک قلم چلا کر کافروں کی ترقی کے قصیدے پڑھتے ہیں … صرف اس لئے کہ …ہمارا دل اسلام پر راضی نہ رہے… ہم احساس کمتری کا شکار ہو جائیں… اور دنیا کی سب سے بڑی دولت پا کر بھی خود کو محروم، فرسودہ، غیر ترقی یافتہ، ذلیل اور رسوا سمجھیں… استغفر اللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ
ارے بھائیو! جس کو یہ مبارک عقیدہ نصیب ہو گیا… اور اس کا دل اس پر راضی ہو گیا تو دنیا کے تمام ارب پتی کافر اس کے جوتے پر لگی ہوئی گندگی کے برابر بھی نہیں…
باقی رہے دنیا کے دکھ، سکھ… یہاں کے مسائل اور پریشانیاں… یہاں کے غم اور محرومیاں تو یاد رکھیں اور یقین کریں کہ…ان سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے… دنیا میں سب سے زیادہ خود کشی دنیا کے سب سے مالدار ملک جاپان کے لوگ کرتے ہیں… یا اللہ! کس طرح آپ کا شکر ادا کریں کہ ایسی عظیم، ایسی شاندار اور ایسی قیمتی ترین نعمت عطاء فرمائی…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَبِیًّا
ایک معذرت
گذشتہ سے پیوستہ کالم میں عرض کیا تھا کہ … اگلے ’’رنگ و نور‘‘ میں جماعت کے لئے اجتماعات کی ایک جامع ترتیب پیش کی جائے گی…مگر سانحہ ہوگیا…وہ بھی معمولی نہیں…حضرت امیر المومنین قدس سرہ کا سانحہ… امید نہیں تھی کہ ہاتھ دوبارہ قلم اٹھانے کی طاقت پائیں گے…مگر اللہ تعالیٰ کے مبارک نام اور اس دعاء نے عجیب کام کیا…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا
الحمد للہ! ہوش واپس آیا…حضرت اقدس امیر المومنین قدس سرہ کے بارے میں کالم لکھنے کی توفیق ملی…خود کو اور رفقاء کو تسلی دینے کا بھی سامان ہوا… راضی ہونے کا معنی ہوتا ہے… ایسا کافی ہونا کہ کوئی کمی محسوس نہ ہو… راضی ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ… اس کے ہوتے ہوئے اور کچھ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَبِیًّا
تب ارادہ ہوا کہ…یہ دعاء تو الحمد للہ ہم پہلے بھی پابندی سے پڑھتے تھے… مگر ایسے مواقع پر اس کی اتنی زبردست تاثیر ہو گی… یہ اب انکشاف ہوا…تو آپ سب کو اس کی یاد دہانی کرا دی جائے … انسان کی زندگی میں…ہوش و حواس اڑانے والے، عزائم کی عمارت گرانے والے…مایوسیوں کے گڑھوں میں گرانے والے…اور ایمان کو کمزور کرنے والے حوادث، واقعات اور گناہ آتے رہتے ہیں… تب انسان اصل نعمت کی حفاظت میں لگ جائے تو وہ بچ جاتا ہے…
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَبِیًّا
اور اللّٰہ، اللّٰہ کا ورد… یا اللّٰہ ، یا اللّٰہ…
بے شک ذکر اللہ سے دلوں کو سکون ملتا ہے … مگر ذکر بہت کثیر ہو…بہت زیادہ … یہ جو ہمارے ہاں دورہ تربیہ میں…روزانہ پندرہ ہزار بار ’’ اللہ اللہ‘‘ کا ورد ہے… اس کی بہت عجیب تاثیر ہے… دل والے جانتے ہیں… ایمان والے سمجھتے ہیں کہ…اس میں روحانی عمل کا ایک خاص ’’چلہ‘‘ پورا ہو جاتا ہے … اس عمل کے دینی، روحانی اور اخروی فوائد اپنی جگہ… دنیا میں بھی بڑے بڑے فوائد ہیں… ان کے فوائد کا تذکرہ اور مذاکرہ اس لئے نہیں کیا جاتا کہ…نیت میں کمزوری نہ آئے… ورنہ جو شخص دورہ تربیہ میں …اہتمام سے پندرہ ہزار کا یہ ورد روزانہ پورا کرے…وہ اگر بعد میں روزانہ تین سو یا ایک سو بار ’’یا اللہ ‘‘ کا ورد کر لیا کرے تو اسے… پوری زندگی مال اور رزق کی تنگی نہیں آتی… اس کی دعاء قبول ہوتی ہے…وہ کسی کو دم کرے تواس میں تاثیر ہوتی ہے…
کیونکہ اللہ ہی آسمان و زمین کا نور ہے
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ
جب نور آ جائے تو پھر اندھیروں کا کیا کام؟ …روشنی کسے کہتے ہیں؟ اور اندھیرے کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ یہ جانتے ہوں تو … آپ وہ نکتہ سمجھ گئے ہوں گے جو ابھی عرض کیا ہے…آج بھی ارادہ تھا کہ ’’اجتماعات‘‘ کی ترتیب آ جائے… مگر ’’قربانی‘‘ کا ضروری معاملہ سامنے آ گیا ہے … اس لئے معذرت کے ساتھ آج وہ عرض کیا جاتا ہے…’’اجتماعات‘‘ ان شاء اللہ اگلے ہفتے…
ایک اہم نکتہ
بعض گناہ جو دیکھنے میں زیادہ بڑے نہیں لگتے مگر ان میں… ایسی نحوست ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ… ان گناہوں کی موجودگی میں انسان کے بڑ ے بڑے نیک اعمال قبول نہیں ہوتے… ایسے گناہ کئی ہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب سے بچائے… مثال کے طور پر صرف ایک گناہ دیکھ لیں …وہ ہے ’’خیانت‘‘ خصوصاً اجتماعی اموال میں ’’خیانت‘‘… یہ ایسا ظالم گناہ ہے جو انسان کے فرائض ،نیکیوں اور محنتوں کو…بری طرح سے کھا جاتا ہے… قرآن و حدیث میں اس پر محکم دلائل موجود ہیں…اسی طرح بعض نیکیاں ایسی ہیں …جو بظاہر زیادہ بڑی نہیں لگتیں مگر ان میں ایسی برکت اور تاثیر ہے کہ…وہ بڑے بڑے خطرناک گناہوں کو مٹا دیتی ہیں… ایسی نیکیاں کئی ہیں … اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب کی توفیق عطاء فرمائے… مثال کے طور پر ایک نیکی دیکھ لیں…وہ ہے ’’کھانا کھلانا‘‘… یہ ایسی بابرکت نیکی ہے…جو گناہوں کے زہر کو مٹاتی ہے…اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے… شرط یہ کہ کھانا حلال مال سے کھلایا جائے…پھر اس نیکی کے درجے ہیں… کس کو کھانا کھلانے کا اجروثواب کتنا ہے؟… بہت وسیع مطالعہ کے بعد ترتیب سے فہرست بنائی جا سکتی ہے…یاد رکھیں ’’کھانے‘‘ کے لفظ میں کھانا اور پینا دونوں شامل ہیں… گلی کے کتے سے لے کر… چرند، پرند حیوانات تک اس میں شامل ہیں… ایک پیاسے اور بے بس کتے کو پانی پلانے پر ایک فاحشہ عورت بخشی گئی…والدین کو کھانا کھلانا کبیرہ گناہوں کے برے اثرات کو بھی دھو دیتا ہے… حضرات مجاہدین کو اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو کھلانے کا اجر کیا ہو گا؟… بہت مفصل موضوع ہے…بس اشارہ عرض کر دیا…
واجب قربانی نہیں لیں گے
صاحب استطاعت مسلمانوں پر عید الاضحی کی قربانی واجب ہے…کئی سال سے یہ ترتیب تھی کہ ہم یہ قربانیاں جمع کرتے تھے…اور سخت محنت کر کے ان کو ادا کرتے اور بہت اچھی جگہوں پر تقسیم کرتے تھے…
اس مہم کے ان گنت فوائد تھے…حضرات شہداء کرام کے اہل خانہ سے لیکر محاذوں تک… مدارس سے لے کر مراکز تک… قربانی کا گوشت پہنچایا جاتا…مسلمانوں کو قربانی کے اجر کے ساتھ ساتھ دعوت مجاہدین اور دعوت صلحاء و ابرار کا بھی اجر ملتا… مگر اس سال استخارہ اور طویل مشاورت کے بعد یہ طے کیا ہے کہ… واجب قربانی جمع نہیں کی جائے گی…وجہ یہ ہے کہ…یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے…قربانی کا وقت محدود ہوتا ہے… پاکستان اور افغانستان میں چاند کا جھگڑا رہتا ہے …تمام ساتھی جماعت کی فرض محنت میں مشغول ہوتے ہیں…ان حالات میں ان تمام واجب قربانیوں کو ادا کرنا…ان کی ادائیگی کی نگرانی کرنا …اور ہر قربانی کو وقت کے اندر ذبح کرنا…بہت مشکل کام ہے… بالفرض ہم سات ہزار قربانیاں جمع کرتے ہیں…اور تمام قربانیاں بروقت ادا کرتے ہیں…مگر درمیان کے کسی فرد کی غفلت کی وجہ سے… کوئی دوچار قربانیاں رہ جاتی ہیں تو… اس کا وبال بڑا خطرناک ہے… ہم نے ایک مسلمان کے واجب کو ضائع کر دیا…چونکہ سب قربانیاں اپنے سامنے نہیں کی جا سکتیں… محاذوں وغیرہ کی طرف کچھ افراد کو وکیل بنا کر رقم دی جاتی ہے… ان افراد سے بھی کوتاہی کا امکان رہتا ہے …بہرحال ایسا کام جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر لازم نہ فرمایا ہو…اور اہم اسے تطوعاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خود کرتے ہوں…ایسے کام میں اگر گناہ کا خطرہ ہو تو اسے فورا چھوڑ دینا چاہیے… ان تمام وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے…اس سال جماعتی نظام کے تحت ایک بھی واجب قربانی جمع نہیں کی جائے گی…جماعت کے اہل شوریٰ نے اللہ تعالیٰ کی رضا… اور اللہ تعالیٰ کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
اگر انتظام ہو گیا
عید الاضحی کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ…یہ فیصلہ ایک سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے…
اگر کچا گوشت محفوظ کرنے کا پلانٹ اور… ایک بڑا مذبح خانہ مرکز کے قریب بن جائے…اور تمام قربانیاں حضرات علماء کرام کی نگرانی میں… ایک ہی جگہ ذبح ہوں…اور پھر گوشت کو محفوظ کر کے فوراً پورے ملک اور محاذوں تک پہنچانے کا انتظام …اللہ تعالیٰ کی طرف سے میسر آ گیا تو ان شاء اللہ…یہ بابرکت سلسلہ دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے…لیکن اگر ایسا انتظام نہ ہو سکا تو واجب قربانی جمع نہ کرنے کی ترتیب برقرار رہے گی ان شاء اللہ
نفل قربانی ، قرب کا ذریعہ
الحمد للہ بہت سے مسلمان عید کے موقع پر واجب قربانی کے علاوہ ’’ نفل قربانی‘‘ بھی کرتے ہیں… کراچی کے بعض اہل ثروت کو ہر سال پانچ سو سے ایک ہزار تک قربانی کی توفیق ملتی ہے … بعض غریب مسلمانوں کو بھی دیکھا کہ…قربانی کی بڑی فضیلت اور قربانی کے مبارک ایام میں نیکی کمانے کے شوق میں…پورا سال اپنا خرچہ بچا کر …عید کے دن کئی کئی قربانیاں کرتے ہیں… دراصل ذوالحجہ کے پہلے دس دن …اور عید کے ایام یہ دنیا کے سب سے افضل دن ہوتے ہیں… یعنی انسانی عمر کے سب سے قیمتی دن…اور ان دنوں کے نیک اعمال کی قیمت عام دنوں کے اعمال سے بہت زیادہ ہے، بہت ہی زیادہ… اور ان نیک اعمال میں بھی سب سے افضل عمل قربانی ذبح کرنا ہے… اب جن مسلمانوں کو اس نکتے کا ادراک ہو جاتا ہے تو وہ… خوب بڑھ بڑھ کر قربانی کرتے ہیں…اس لئے جماعت بھی اس سال مسلمانوں سے ’’نفل قربانی‘‘ جمع کرے گی… اعلان یہ ہو گا کہ واجب قربانی آپ خود کریں جبکہ نفل قربانی ہمیں دے دیں ہم ان شاء اللہ مکمل محنت اور دیانتداری سے آپ کی یہ دعوت… امت کے بڑے مسلمانوں تک پہنچائیں گے…حضرات شہداء و اسیران کے اہل خانہ…مجاہدین ، مہاجرین اور فی سبیل اللہ جہاد، علم اور دینی کاموں میں مشغول مسلمان…
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے اور امید بھی کہ… اس مہم میں برکت ہو گی… مسلمان ان شاء اللہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیں گے… نفل قربانی کی یہ مہم اگر جماعتی ضروریات کے لئے کافی ہو گئی تو بہت اچھا… اگر کافی نہ ہوئی تو جماعت اپنے بیت المال سے…اللہ تعالیٰ کی دعوت اپنے زیر کفالت خاندانوں اور افراد تک پہنچائے گی ان شاء اللہ … آپ سب سے دعاء اور تعاون کی درخواست ہے…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَبِیًّا
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 506)
اللہ تعالیٰ انہیں ’’مغفرت کاملہ‘‘ اور اپنے قرب خاص کا مقام عطاء فرمائے
آہ! حضرت امیر المومنین بھی چلے گئے
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
غم اور مشکل کا اندھیرا
حضرت امیر المومنین جیسے افراد جب دنیا سے اٹھتے ہیں تو آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی… اور ساری اچھی مخلوقات بھی… ہم تو انسان ہیں، بہت کمزور … پھر ان کے مامور ہیں… اور ایک اللہ کی خاطر ان سے محبت کرنے والے…
وہ ہمارے خواب بھی تھے اور خوابوں کی تعبیر بھی… وہ ہمارے رہنما بھی تھے اور محبوب بھی… آج کا مضمون میرے لئے بہت مشکل ہے… بہت ہی مشکل کیونکہ!!
٭ ان سے الحمدللہ سچی محبت تھی… اللہ تعالیٰ ہی اس محبت کا حال جانتا ہے… ایسے محبوب کے بارے میں بار بار ماضی کا صیغہ استعمال کرنا کہ وہ ایسے تھے، اس طرح تھے… یہ بڑا مشکل کام ہے…
٭ خود کو کبھی اس بارے میں ذہنی طور پر تیار ہی نہیں کیا کہ… وہ ہم سے پہلے چلے جائیں گے… حالانکہ وہ مستقل موت کے قریب تھے مگر دل کی خواہش تھی کہ… ہم ان سے پہلے ’’ان کی زندگی میں چلے جائیں‘‘ ان تک خبر پہنچے اور وہ ہماری مغفرت کے لئے دعاء فرما دیں… مگر وہ پہلے چلے گئے… دل پر جو گذر رہی ہے وہ بتانا آسان نہیں
٭ وہ ماشاء اللہ بہت اونچے اور باصفات انسان تھے… بلا مبالغہ ایک مثالی یعنی آئیڈیل شخصیت… اور ہم بے کار اور بے صفت انسان… ہم میں اور ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے… اب زمین کس طرح سے آسمان کی بلندی بیان کرے… واقعی مشکل کام ہے… اپنے زمانے کے بڑے انسانوں کو سمجھنا اور ان کے بارے میں دوسروں کو سمجھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے…
٭ ان کے بارے میں ہمیشہ یہ ذہن رہا کہ وہ حکم دیں اور ہم اطاعت کریں… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان کی اطاعت اور محبت میں نہ تو جان بوجھ کر کبھی کوتاہی کی… اور نہ اس بارے میں کبھی کسی کی پرواہ کی… یہ تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے یا لکھنے کا جوکھم بھی اٹھانا ہو گا… کسی وفادار مامور کا مبصر بن جانا آسان کام نہیں ہے…
بہرحال غم ہے، صدمہ ہے، ذمہ داری ہے… اور لکھنا بھی ضروری ہے… وہ اس کے محتاج نہیں مگر ہم تو محتاج ہیں… اب اس مشکل میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد کا سوال ہے…
٭ ان کے کارنامے بے شمار ہیں… ان کی کرامات ماشاء اللہ کثیر ہیں… ان کی حصولیابیاں اور کامیابیاں ایک شان رکھتی ہیں… ان کی صفات میں بہت روشنی ہے… ان سب باتوں کا خلاصہ بھی ایک کتاب کی جگہ مانگتا ہے… ایک چھوٹے سے مضمون میں کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑا جائے؟… یہ انتخاب بھی مشکل کام ہے…
یا اللہ ! صبر اور ہمت کا ایک جام پلا دیجئے… تاکہ یہ ساری مشکلات آسان ہو جائیں…
الا یا ایھا الساقی ادر کاسا ونا ولھا
کہ عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلھا
شب تاریک و بیم موج و گرداب چنیں ھائل
دل افگندیم بسم اللہ مجرھا ومرسھا
محبت اپنی جگہ مگر!!
ہماری محبت اپنی جگہ مگر … اللہ تعالیٰ کے وہ مخلص بندے جو اللہ تعالیٰ کے لئے سخت محنت اور مزدوری کرتے ہیں…آخر ان کا بھی حق ہے کہ… وہ اپنے محبوب رب سے اجر اور اجرت پانے جائیں… جی ہاں! ان کا حق ہے کہ ان کی مشکل زندگی… آرام دہ عیش وعشرت میں تبدیل ہو… جہاد والی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے… روپوشی بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے… اتنے مشکل حالات میں اتنے بڑے لشکر کی کمان اور قیادت کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے… جو شخص مسلسل تیرہ سال سے یہ ساری مشکلات جھیل رہا ہو… اس کا حق ہے کہ وہ راحت و آرام کے پر سکون جزیرے پر اکرام کے لئے بلایا جائے… حضرت شاہ عبد العزیزؒ لکھتے ہیں:
جب حضرات انبیاء علیہم السلام سے وہ کام لے لیا جاتا ہے… جو ان کے دنیا میں تشریف لانے پر موقوف ہوتا ہے تو انہیں اس فانی،دکھ درد بھری، ناقص دنیا سے اٹھا لیا جاتا ہے… کیونکہ یہ فانی دنیا ارواح مقدسہ کے رہنے کی جگہ نہیں ہے… یہ مقدس روحیں تو اس ناقص گھر میں بعض ضروری کاموں کی تدبیر کے لئے بھیجی جاتی ہیں… پس جیسے ہی وہ کام پورا ہوتا ہے ان ارواح کو بڑے آرام دہ گھر کی طرف بلا لیا جاتا ہے۔ (مفہوم تفسیر عزیزی)
یہی حال اللہ تعالیٰ کے اولیاء صدیقین اور مقربین کا ہے… حضرت امیر المومنین بھی جس کام کے لئے اس دنیا میں آئے تھے وہ جب پورا ہو چکا تو وہ چلے گئے…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
امید کی روشنی
حضرت الامیر کی جدائی کا غم بڑا ہے… بڑا درخت گرتا ہے تو زمین دور دور تک اکھڑ جاتی ہے، لرز جاتی ہے مگر اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور آخری دین ہے… اس دین کی گود کبھی بانجھ نہیں ہوتی… ایک مخلص فرزند جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے… جہاد عزت و عظمت کا کارخانہ ہے… یہ کارخانہ اپنے کاریگر اور کارکن بنانے میں خود کفیل ہے، اور ماشاء اللہ آج تو جہاد اس قدر پھیل چکا ہے کہ… اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہا… حضرت امیر المومنین کی محنت، تدبیر اور قربانی کی برکت سے… جہاد پورے عالم اسلام میں پہنچ چکا ہے… عالم کفر نے حضرت امیر المومنین کی وفات پر زیادہ خوشی نہیں منائی… اس کی دو بڑی وجوہات ہیں… پہلی تو یہ کہ عالم کفر اپنی ہوشربا عسکری طاقت اور سائنسی ٹیکنالوجی استعمال کر کے بھی حضرت امیر المومنین کو نہیں ڈھونڈ سکا… بڑے بڑے انعامات کے اعلان اور منافقوں کی بھرتی کے باوجود وہ حضرت امیر المومنین کی ہوا تک نہ پا سکا… یہ اس کے لئے ایک ایسی عبرتناک ذلت، رسوائی اور شرمندگی ہے جو ہمیشہ اس کے دل کا زخم بنی رہے گی… اور دوسری وجہ یہ کہ حضرت امیر المومنین آج سے دو سال دو ماہ قبل وفات پا گئے مگر پورے افغانستان میں جہاد مکمل آب و تاب سے جاری رہا… جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت امیر المومنین مستقبل پر نظر رکھنے والے ایک مدبر اور صاحب بصیرت قائد اور امیر تھے… انہوں نے جہاد کو اپنی ذات کے ساتھ ایسا نہیں باندھا کہ ان کے جانے سے جہاد بھی مٹی میں دفن ہو جائے… بلکہ انہوں نے خود کو کھپا کر، مٹا کر جہاد کی تحریک کو منظم اور خود کار بنایا… انہوں نے جہادی دستوں کی ایسی ترتیب بنائی کہ ان کی شہادت سے یہ کام رکنے کی بجائے اور زیادہ تیز ہو جائے… انہوں نے مجاہدین کے لئے مستحکم نظام وضع فرمایا… اصل توجہ محاذوں پر رکھی اور محاذوں کی آبادی اور آبیاری کے لئے تعلیمی، نشریاتی، تبلیغی، اعلامی، مالی، طبی اور سیاسی شعبوں کا جال بچھا دیا… انہوں نے جہاد اور مجاہدین کو مال کا محتاج بنانے کی بجائے… مال سے دوری اور مال میں احتیاط کا عادی بنایا… انہوں نے جماعت کو شوری اور احتساب کے نظام میں باندھ دیا… اور ہر شخص کو اس کی اہلیت کے کام پر لگا کر اسے کسی کی نگرانی میں دے دیا… یوں وہ اپنا سب کچھ کام میں لگا کر اپنی ذات کو ایک طرف کرتے چلے گئے… یہ سب کچھ صرف وہی انسان کر سکتا ہے جس کا ایمان بھی کامل ہو اور اخلاص بھی مکمل ہو… خلاصہ یہ کہ وہ اپنی زندگی میں ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ گئے ہیں کہ جس پر بہت وسیع اور عالی شان عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے… اللہ کرے ان کی جماعت ان کی ڈالی ہوئی بنیادپر قائم رہے اور ان کے طریقہ کار اور نظریات پر کاربند رہے… تب ان شاء اللہ کوئی خطرہ نہیں، کوئی اندیشہ نہیں…
ہاں کمی تو محسوس ہو گی کیونکہ ایسا بے غرض، بے لوث، مدبر اور مخلص رہبر چلا گیا…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
بڑی نسبتوں کے امین
اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر المومنین کو سابقین اولین کی کئی نسبتیں عطاء فرمائیں… اہل علم اگر انصاف سے غور کریں گے تو ضرور حضرت امیر المومنین کو پندرھویں صدی ہجری کا’’ مجدد‘‘ مانیں گے… شہید اسلام حضرت اقدس مولنا محمد یوسف لدھیانوی قدس سرہ نے جب افغانستان کا سفر فرمایا تو ان پر عجیب والہانہ کیفیات طاری رہیں… ایک بار فرمایا قندھار سے کابل تک ایک آدمی بھی بغیر داڑھی کے نظر نہیں آیا… کوئی ایک عورت بھی بے پردہ نہیں… یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟… ہم ساری زندگی محنت کر کے ایک گلی یا ایک محلے میں یہ ماحول قائم نہیں کر سکتے… جو یہاں ہزاروں میل تک قائم ہو چکا ہے… یہ سب باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک اور آنسو ایک ساتھ جمع ہو جاتے اور وہ بے خودی کے عالم میں حضرت امیر المومنین کی تعریف کرتے رہتے… حالانکہ سب جانتے ہیں کہ وہ کس قدر اونچے معیار کے عالم، بزرگ اور ولی تھے… اور مبالغہ آرائی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی تھی… حضرت اقدس مولنا محمد موسی روحانی قدس سرہ نے فرمایا کہ… امیر المومنین نے سو فیصد حضرات خلفاء راشدین کا دور زندہ فرما دیا ہے… بات نسبت کی چل رہی تھی … حضرت امیر المومنین کو اصل نسبت تو حضرت آقا مدنیﷺکی نصیب ہوئی… اس نسبت کی تفصیل جاننی ہو تو حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کی وہ تحریر پڑھ لیجئے جو انہوں نے حضرت سید احمد شہیدؒ کی نسبت کے بارے میں لکھی ہے… دنیا میں جب کچھ پتھروں کو جوڑ کر کوئی بت بنا لیا جاتا ہے تو یہ بت بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پتھر وغیرہ سے بنتا ہے… اس لئے وہ انتظار کرتا ہے کہ کوئی بت شکن آئے اور اسے توڑ ڈالے تاکہ… اللہ کے سوا اس کی پوجا نہ کی جا سکے… بامیان کے بتوں کو دو ہزار سالوں سے اپنے بت شکن کا انتظار تھا… اور ان بتوں کے محافظ اس زمانے میں بہت مالدار اور طاقتور تھے… حضرت امیر المومنین کو اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم سعادت عطاء فرمائی کہ… وہ بت شکن بنے جو کہ ان کی نسبت ابراہیمی کا ثبوت ہے… زمانے کا فرعون خود کو ناقابل تسخیر سمجھ کر سپر پاور ہونے کے دعوے کر رہا تھا… نیو ورلڈ آرڈر اس کا اعلان تھا… انا ربکم الاعلیٰ… ھل لکم من الہ غیری… حضرت امیر المومنین نے اس فرعون کو شکست دے کر بے آبروئی کے سمندر میں گرا دیا… جو آپ کی نسبت موسوی کی طرف واضح اشارہ ہے…
حضرت امیر المومنین کا وصال اپریل ۲۰۱۳؁ء میں ہوا… مگر وہ اس کے بعد بھی دو سال دو ماہ تک اپنے دشمنوں اور دوستوں کو زندہ نظر آتے رہے… دوستوں کا لشکر ان کے نام، تعلق اور محبت سے چلتا رہا… جبکہ ان کے دشمن ان کے رعب اور خوف کے ’’عذاب مھین‘‘ میں مبتلا رہے… یہ حضرت کی سلیمانی نسبت کا اثر تھا…
آپکی صدیقی نسبت بہت گہری تھی… صدیق کسے کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں… یہ ہم ان شاء اللہ تھوڑا آگے چل کر عرض کریں گے… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
اینقص الدین وانا حیی
میری زندگی میں دین کا حکم ختم ہو… یہ ممکن نہیں ہے… حضرت امیر المومنین نے بھی دین کے ہر حکم کے احیاء کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں… حضرت امیر المومنین کی خاص نسبت فاروقی تھی… نام سے لے کر کام تک… مزاج سے لے کر جلال تک آپ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شاندار نسبت سے مالا مال تھے…
یاد رکھیں… اس امت میں حضرات انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرام کی نسبتیں قیامت تک چلتی رہیں گی…وقلیل من الاخرین
آہ! اس زمانے میں اتنی بڑی نسبتوں کا امین شخص چلا گیا، چلا گیا
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
سیاسی بصیرت کا عروج
اخبارات میں ایک جملہ پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ… نعوذ باللہ حضرت امیر المومنین سیاسی بصیرت نہیں رکھتے تھے… ایک اور ظالمانہ جملہ بھی چل رہا ہے کہ نعوذ باللہ حضرت امیر المومنین پاکستان کے خفیہ اداروں کے مہرے تھے… اس ظالمانہ، فاسقانہ جملے کا جواب دینا بھی جائز نہیں… جو بھی ایسا کہہ رہے ہیں وہ بدترین غیبت اور بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں… مگر پہلے جملے کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے… کیونکہ وہ جملہ ایسے افراد لکھ رہے ہیں جو حضرت امیر المومنین کے اخلاص، شجاعت اور دیگر کئی صفات کے بظاہر معترف ہیں… وہ کہتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین کی دیگر تمام صفات بجا مگر ان میں سیاسی بصیرت نہیں تھی… اس لئے وہ بڑے اہم مواقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے… وہ اپنے فیصلوں کی وجہ سے خود بھی مشکلات کا شکار رہے… اور اپنے رفقاء کو بھی مسلسل مشکلات میں ڈالتے رہے… حضرت امیر المومنین کے بارے میں یہ تجزیہ انتہائی غلط… بلکہ ظالمانہ ہے… اندازہ لگائیں…
٭ بیس سال تک دنیا کی سب سے بڑی جہادی جماعت کی مدبرانہ قیادت… کبھی آپ کی امارت پر اختلاف نہ ہوا…
٭ چھ سال تک افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر ایک عادلانہ، منصفانہ حکومت چلانا… آج جو وزیر اعظم اپنے پانچ سال کسی طرح کاٹ لے اس کی سیاسی بصیرت کے گن گائے جاتے ہیں… اسلامی حکومت کو تو آج کل کا قابض استعمار چھ ہفتے بھی نہیں چلنے دیتا…
اپنے ایک حکم کے ذریعے افغانستان جیسے معاشرے میں امن قائم کرنا، پوست کی کاشت روکنا اور منصفانہ عدالتی نظام قائم کرنا سیاسی بصیرت نہیں تو اور کیا ہے؟… اعتراض کرنے والے اپنا گھر اور اپنے چار ملازمین کو اس طرح چلا کر دکھا دیں…
٭ دنیا کے سب سے بڑے، طاقتور اور متحدہ لشکر کا تیرہ سال تک مقابلہ کرنا اور بالاخر اس کو شکست سے دوچار کرنا… کیا یہ سیاسی بصیرت کے بغیر ممکن ہے؟…
٭ دنیا کا سب سے مطلوب شخص ہونے کے باوجود اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا اور دشمن سے پوشیدہ رہ کر اتنے طویل عرصے تک اپنے لشکروں کی کمان کرنا… اس سے بڑھ کر کسی بصیرت کا تصور بھی ممکن ہے؟…
٭ کسی بھی ملک اور ادارے کی امداد کے بغیر ایک بڑی جنگ لڑنا اور اس میں با آبرو رہنا… ایسا شاید دنیا بھر کے تمام دماغ مل کر بھی نہ کر سکیں…
ہم مانتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین انسان تھے، بشر تھے… وہ فرشتہ، پیغمبر، صحابی یا تابعی نہیں تھے… ان میں بھی کمزوری ہو گی مگر سیاسی بصیرت نہ ہونے کا دعویٰ بہت فضول اور بے کار ہے…
جس سیاسی بصیرت… اور مواقع سے فائدہ نہ اٹھانے کا رونا آپ رو رہے ہیں… یہ بصیرت قذافی نے اختیار کی اور اسی کے نتیجے میں ذلت کی موت مارا گیا… یہی بصیرت صدام حسین نے اپنائی تو پکڑا گیا او پھانسی پر شہید ہوا… عالمی سامراج کی سیاست یہی ہے کہ جو مسلمان حکمران ان کی غلامی میں نہیں چلتا اور اپنے موقف پر آگے بڑھتا ہے تو وہ اس کے گرد جعلی دوستوں اور خیر خواہی کا جال بچھاتے ہیں… یہ دوست اس حکمران کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر … اور اچھی طرح ڈرا کر ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتے ہیں… پھر جیسے ہی وہ قدم پیچھے ہٹاتا ہے تو اسے ذلت کی موت مار دیتے ہیں… قذافی بہت دھاڑتا تھا، اسے مقبولیت کے سبز باغ دکھا کر پیچھے ہٹایا گیا… پیچھے ہٹتے ہی وہ اپنے جذباتی حامیوں سے محروم ہوا تو اسے ذلت کی موت مار دیا گیا… یہی صدام کے ساتھ ہوا… ان دونوں نے بظاہر سیاسی بصیرت کے تحت عالم کفر کے بہت سے مطالبات مانے اگر خدانخواستہ حضرت امیر المومنین اپنی حکومت بچانے کے لئے ایسا کرتے… بامیان کے بت نہ گراتے، شیخ اسامہ کو پکڑ کر حوالے کر دیتے… انڈین طیارے کو نہ اترنے دیتے… این جی اوز کو بے لگام چھوڑ دیتے… تب بھی ان کو نہ چھوڑا جاتا… ڈو مور، ڈومور بھونکتے ہوئے وحشی کتے پھر کسی بہانے ان پر حملہ آور ہوتے کیونکہ ان کے لئے مسلمانوں کی خود مختار حکومت کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے… حضرت امیر المومنین بھی اگر ایک قدم پیچھے ہٹا لیتے تو ان کو ذلیل کر کے مارا جاتا… حضرت تو قابل رشک سیاسی بصیرت رکھتے تھے… وہ آگے بڑھتے رہے… تب قدرت نے ان کی جھولی عزت، اکرام اور فتوحات سے بھر دی… ان کی بصیرت اور استقامت کی برکت سے یہ تصور ختم ہوا کہ ہر مسلمان حکمران کو جھکایا اور دبایا جا سکتا ہے… الحمد للہ ان کے اس عمل کی برکت سے ساری دنیا میں اسلام کو عزت ملی اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے… اور دنیا کے کئی خطوں میں مجاہدین کے لشکر وجود میں آئے… اور یہ تاثر ختم ہوا کہ امریکہ اور یورپ کو شکست نہیں دی جا سکتی…
ہم کیوں اپنی طرز فکر چھوڑیںہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
ہاں! اگر سیاسی بصیرت کا مطلب پسپائی، غلامی، مفاد پرستی اور جھوٹ ہے تو واقعی حضرت امیر المومنین اس نام نہاد بصیرت سے پاک تھے…
سبحان اللہ! ہمارے حضرت الامیر! دنیا سے اس حال میں گئے کہ ان کے چہرے پر ذلت، ہزیمت، خود سپردگی، شکست، حسرت اور پشیمانی کا ایک داغ بھی نہیں تھا… ماشاء اللہ وہ کامل بصیرت رکھنے والے پورے اور سالم مسلمان تھے… اور وہ اپنا ایمان سالم لے کر اس دنیا سے چلے گئے…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
سالوں میں صدیوں کا سفر
کیا آپ کو معلوم ہے کہ… حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی عمر کتنی تھی؟… انہیں پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے… عالم اسلام کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ان کا نام پہلے دس افراد میں آتا ہے… اہل علم ہوں یا اہل جہاد… اہل تاریخ ہوں یا اہل تصوف سب ان کے آج تک قصیدے پڑھتے ہیں… ان کا انتقال چالیس سال کی عمر میں ہوا… کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر دیا گیا تھا… اکثرصدیقین کی شہادت اسی طرح ہوتی ہے… اور یہ شہادت عام شہادت سے زیادہ بلند ہوتی ہے… وہ ۶۱؁ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۰۱؁ھ میں وفات پا گئے… خلافت کا کل زمانہ دو سال پانچ ماہ چار دن بنتا ہے… مگر یہ دو سال … برکت، اجر اور عمل میں صدیوں پر بھاری ہیں…
محمد بن قاسم جو فاتح سندھ اور مغربی پنجاب تھے… انہوں نے تیئس (۲۳) سال کی عمر پائی… ۷۲؁ھ میں پیدا ہوئے اور ۹۵؁ھ میں وفات پا گئے… آج تک کسی مصنف یا خطیب کا جہادی بیان ان کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا… اسے کہتے ہیں صدیوں کی کمائی…
فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبیؒ … آج تک امت مسلمہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں… انہوں نے کل چون یا پچپن سال کی عمر پائی… مگر ان کا نام، کام، کارخانہ اور برکتیں آج تک جاری ہیں… اسے کہتے ہیں صدیوں کو فتح کرنا… ویسے پچاس سے پچپن سال کی عمر کے دوران وفات پانے والے اہل کمال بہت زیادہ ہیں…
حضرت امام شافعیؒ کو دیکھ لیجئے… پورے ایک مسلک اور اربوں مسلمانوں کے امام… ۱۵۰؁ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۰۴؁ھ وفات پا گئے… زمانے کے ذہین ترین بابے بھی ان کی تقلید پر فخر کرتے ہیں… حضرت امام غزالیؒ نے بھی تقریباً یہی عمر پائی مگر اور کاموں کے ساتھ اتنی کتابیں لکھ گئے کہ… اگر کوئی ان کو نقل کرنے بیٹھے تو اس کی عمر بیت جائے…
سالوں میں صدیوں کو فتح کرنے والے ان افراد میں ایک نیا نام شامل ہو گیا اور وہ ہیں… ہمارے حضرت امیر المومنین … سبحان اللہ ! اتنا کام، اتنے کارنامے، اتنا وسیع کارخانہ اور اتنی برکت… اور عمر ہجری حساب سے یہی چون پچپن سال… حضرت سید احمد شہیدؒ سے آٹھ نو سال بڑے اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ہم عمر… ملا محمد عمر مجاہد اخوند… چلے گئے
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
حضور اقدسﷺکا معجزہ
ایک بات ’’مکتوب خادم‘‘ میں لکھ دی تھی… ممکن ہے وہ کسی کو مبالغہ لگی ہو… اس لئے قدرے وضاحت کے ساتھ عرض ہے… حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ نے اپنے والد محترم مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ… وہ رسول کریمﷺکے معجزات میں سے ایک معجزہ تھے… بندہ نے عرض کیا تھا کہ ہمارے حضرت امیر المومنین بھی حضور اقدس ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھے … چاند زمین سے کافی فاصلے پرہے… حضرت آقا مدنیﷺکی انگلی مبارک کے اشارے نے اس پر اثرا ڈالا اور وہ دوٹکڑے ہو گیا… یہ معجزہ تھا… اور آپﷺکی دعوت اور رہنمائی آپﷺسے چودہ سو سال دور ایک انسان کے دل کو ایسا کر دے کہ… وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسا ہو جائے… یہ بھی معجزہ ہے… آج کئی لوگ کہتے ہیں کہ… ہم نے آپﷺکا زمانہ نہیں پایا… ہم آپﷺکے زمانہ مبارک سے چودہ سوسال دور ہیں اس لئے ہم دین میں اس قدر پختہ نہیں ہو سکتے… مگر ایک انسان کے دل میں آج بھی آپﷺکی دعوت اپنی مکمل رعنائی کے ساتھ اتر جاتی ہے اور اس کو مسلمانوں کا برحق امام اور قائد بنا دیتی ہے تو یہ یقیناً آپﷺکا معجزہ ہے…
ویسے بھی اس امت کے تمام ’’صدیقین‘‘ حضور اقدسﷺکا معجزہ ہیں …کہ آپﷺکی روحانی تربیت ان کو مقام’’ صدیق‘‘ تک پہنچاتی ہے… صدیقین کون ہوتے ہیں؟ تفصیل کا مقام نہیں بس ان کی چار علامات عرض ہیں:
(۱) صدیق وہ ہوتا ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو
(۲) صدیق وہ ہوتا ہے جو اپنے عزم اور ارادے میں ہرگز تردد نہیں کرتا، یعنی جس نیک کام کا عزم و ارادہ باندھ دے پھر اسے نہیں چھوڑتا
(۳) دین کے کاموں میں خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کوشش کرتا ہے… اپنی خواہشات نفس کو بالکل دخل نہیں دیتا
(۴) اپنی عمر کے ابتداء سے جھوٹ … اور دو رنگی بات کہنے سے دور رہتا ہے۔ (مفہوم تفسیر عزیزی)
آپ حضرت امیر المومنینؒ کے حالات کا بغور مشاہدہ کریں … ماشاء اللہ ان میں یہ سب علامات موجود تھیں…
ہماری خوش نصیبی ہے کہ آقا مدنیﷺکا یہ معجزہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا… اس سے فیض پایا… اس کی قیادت میں کام کیا… حضرت امیر المومنین کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اخلاص اور عشق نصیب تھا… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ نعمت نصیب فرمائے…جگر مرحوم کے دو شعر جو حضرت امیر المومنین کے عشق کی تصویر کھینچتے ہیں… قدرے ترمیم کے ساتھ پیش ہیں:
جنہیں کہیے عشق کی وسعتیں، جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر
میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہیے کیا ’’عمر‘‘
غم یار ہے میرا شیفتہ، میں فریفتہ غم یار پر
آہ زمانے کا وہ صدیق چلا گیا
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
ہر سعادت پر قبضہ
اکثر لوگ اپنی آئندہ کل کے مفادات سوچ سوچ کر… اپنے آج کو ویران کرتے رہتے ہیں… مصلحت، مصلحت، مصلحت کی رٹ لگا کر ہر سعادت سے محروم رہتے ہیں… مگر عقلمند لوگ اپنے ’’آج ‘‘ کو قیمتی بناتے ہیں… اور جو سعادت اور نیکی سامنے آئے اس کو فوراً حاصل کر لیتے ہیں… اور کل کے خوف، خطرے اور اندیشے میں اپنے آج کا نقصان نہیں کرتے…
امیر المومنین کے دور حکومت میں جب نائن الیون کا واقعہ ہو چکا تھا… اور افغانستان پر غیر ملکی حملہ قریب تھا… پاکستان کے ایک قومی سیاستدان سے ملاقات ہوئی… انہوں نے بطور شکوہ بتایا کہ میں نے طالبان کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کافی محنت کی… مگر انہوں نے چیچنیا کی حکومت کو تسلیم کر کے اور کابل کا روسی سفارتخانہ چیچن مجاہدین کو دے کر… اور سنکیانک کے کچھ مسلمانوں کو پناہ دیکر سب کو ناراض کر دیا ہے… اور میری ساری محنت رائیگاں گئی ہے… ان کی یہ تنقید سن کر مجھے حضرت امیر المومنین کے ایمان پر رشک آیا کہ واقعی وہ ایسے سچے مسلمان ہیں… جنکی زندگی کا ایجنڈا کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے باہر نہیں جاتا…
وہ اسلام اور مسلمانوں کی خاطر اپنا ہر ذاتی نقصان خوشی سے قبول کرتے ہیں… اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے لئے جیتے ہیں… آسمان، زمین اور تمام مسلمان صدیوں سے ایسے مسلمان حکمران کے لئے ترس رہے تھے… جو اسلام اور مسلمانوں کا خادم ہو… اور انہیں سب سے زیادہ فوقیت دیتا ہو… امیر المومنین کا زمانہ حکومت اتنا ہی تھا جتنا ان کو نصیب ہوا… اور ان کی زندگی اتنی ہی تھی جتنی انہوں نے گذار لی… وہ اگر چیچن مسلمانوں کو ذبح کر کے، اور سنکیانک کے مظلوموں کو حوالے کر کے روس اور چین کو اپنا دوست بنا بھی لیتے تو ان کی… حکومت اور عمر کے دنوں میں اضافہ نہ ہوتا… روس نے صدام کو کونسا بچا لیا؟… چین نے قذافی کی کیا مدد کی؟… اگر امیر المومنین ان کی دوستی کی خاطر مسلمانوں کے مفادات ذبح کرتے تو ان کی حکومت اسلام کے کیا کام آتی؟… تاریخ میں کیا تبدیلی ہوتی ؟ زمین پر کون سے بیج بوتی؟ ایسے مسلمان حکمران تو ہزاروں آئے اور مر گئے… مگر عمر تو عمر تھے… انہوں نے اپنی ہر چیز اسلام اور مسلمانوں کے لئے قربان کی… وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت بنے… تب روس بھی ان کے قدموں پر جھکا… چین نے بھی بارہا ان کو امداد کی خفیہ پیشکشیں کیں… اور وہ بڑی امتیازی شان کے ساتھ جئے اور بڑی امتیازی شان کے ساتھ چلے گئے…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
ایک خاص طبقہ
انسان عمومی طور پر کمزور پیدا ہوا ہے… جو خود کو مضبوط سمجھتے ہیں ان کی مضبوطی بھی… کئی مقامات اور کئی حالات میں بالآخر کمزور پڑ جاتی ہے… خوف، بیماری، اولاد، موت، آنسو، معاشی مجبوری… اور بہت کچھ مضبوط انسانوں کے عزم کو کمزور کرنے والی چیزیں ہیں… مگر کچھ لوگ واقعی بے حد مضبوط ہوتے ہیں… ان پر جیسے بھی حالات آ جائیں وہ اپنے عزم اور ہٹ سے پیچھے نہیں ہٹتے… کبھی بھی نہیں، کسی بھی حال میں نہیں… ایسے لوگ کروڑوں اربوں میں ایک آدھ ہوتے ہیں…
مثال لیجئے… مکہ مکرمہ میں اس خاص مزاج کے دو افراد تھے… حضور اقدسﷺنے پہچان لیا… جمعہ کی رات، اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ ان دو میں سے ایک مجھے عنایت ہو… تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے عزت کا ذریعہ ہو…
دعاء حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول ہوئی… وہ اسلام اور مسلمانوں کی عزت کا ناقابل شکست ستون بن گئے… جبکہ دوسرا ضدی محروم رہا موت کے وقت تک اور موت کے دوران بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا… وہ تھا عمرو بن ہشام یعنی ابو جہل… بعد کے زمانے میں بھی ایسے افراد آتے رہے… اچھے بھی اور ُبرے بھی… تفصیل لکھوں تو آپ حیران رہ جائیں گے… مضمون کی جگہ کم ہے… ہمارے حضرت امیر المومنینؒ اسی خاص مزاج کے انسان تھے… سردی ہو یا گرمی، غربت ہو یا امیری، زندگی ملے یا موت، تخت ہو یا تختہ، کوئی راضی ہو یا ناراض، فائدہ نظر آئے یا نقصان، بس جس حق نظریہ پر ڈٹ گئے… اس سے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… ایسے افراد فطرت کے مخدوم ہوتے ہیں… فرشتوں سے لے کر ہواؤں اور پہاڑوں تک سب ان کی خدمت میں لگے رہتے ہیں… ایسے افراد اپنے نظریے اور اپنی قوم کے لئے عزت کا سامان ہوتے ہیں… ہمارے امیر المومنین بھی اس زمانے میں اسلام، جہاد اور دینی غیرت کی عزت و آبرو بنے رہے اور اسی عزت و آبرو کی سلامتی کے ساتھ چلے گئے…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
ایک ملاقات کا حال
گرفتاری کا پہلا سانس ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ میں لیا تھا… اللہ تعالیٰ کشمیر کو آزادی عطاء فرمائے… مگر اس طویل گرفتاری کے بعد آزادی کا پہلا سانس… حضرت امیر المومنین کے سایہ شفقت ’’قندھار‘‘ میں لیا… ہم بالکل ان کے پڑوس میں، ان کی میزبانی اور شفقت کے مزے لوٹ رہے تھے… مگر زیارت سے محروم، شوق سے تڑپتے ہوئے…
اللہ رے تیغ عشق کی برھم نوازیاں
میرے ہی خون شوق نے نہلا دیا مجھے
ان کے عالی مقام اور حالات کی نزاکت کے باعث عزم تھا کہ… محبت کو ضبط کریں گے…ملاقات کا اصرار نہ کریں گے… مگر ان کی دلنوازیاں… اللہ، اللہ… ایک بار پہننے کے لئے غریب مسافروں کو کپڑے بھیج دئیے… کبھی ان کا چھوٹا بھائی آنکھوں میں پیغام محبت بھرے سامنے آ بیٹھتا اور ہم اس کے چہرے میں… اپنے محبوب کے نقوش تلاش کرتے… ایک بار تو حد ہو گئی… پیغام آیا کہ یہاں رہنا چاہو تو میرا ملک، میرا شہر حاضر ہے… جانا چاہو تو دعاؤں کے ساتھ اجازت ہے…
دعوی کیا تھا ضبط محبت کا اے جگر
ظالم نے بات بات پر تڑپا دیا مجھے
بالآخر اسی تڑپ کو دل میں دبائے، پاکستان آ گئے… مگر دل وہیں چھوڑ آئے تھے… اس نے خوب سفارتکاری کی یہانتک کہ ملاقات کا بلاوا آ گیا…
کام آخر جذبہ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہمارا قافلہ ایک بار پھر قندھار روانہ ہو گیا…
اول اول ہر قدم پر تھیں ہزاروں منزلیں
آخر آخر اک مقام بے مقام آ ہی گیا
التفات چشم ساقی کی سبک تابی نہ پوچھ
میں یہ سمجھا جیسے مجھ تک دور جام آ ہی گیا
عشق کو تھا کب سے اپنی خشک دامانی کا رنج
ناگہاں آنکھوں سے اشکوں کا سلام آ ہی گیا
جگر مرحوم سے معذرت کے ساتھ:
بے ’’عمر‘‘ سونا پڑا تھا مدتوں سے مے کدہ
پھر وہ دریا نوش، رندتشنہ کام آ ہی گیا
ملاقات کا منظر عجیب تھا… رعب اور اپنائیت، خوف اور محبت… احتیاط اور شوق… کیا کہیں گے؟… کیا کہہ سکیں گے؟… نہیں نہیں صرف سنیں گے… ہاں مگر آنکھوں سے جام بھریں گے… مگر دیکھیں گے کیسے؟… نظریں کہاں ملا سکیں گے؟… چلو قدم مبارک پر نظر جما لیں گے… مگر ملاقات ہوتے ہی سب دوریاں، قربتوں میں بدل گئیں
نظر سے ان کی پہلی نظر یوں مل گئی اپنی
حقیقت میں تھی جیسے مدتوں سے دوستی اپنی
اور
حسن کی سحرکاریاں عشق کے دل سے پوچھیے
وصل کبھی ہے ہجر سا، ہجر کبھی وصال سا
گم شدگان عشق کی شان بھی کیا عجیب ہے
آنکھ میں اک سرور سا چہرے پہ ایک جلال سا
مصافحہ، معانقہ، بہت مختصر حال احوال اور پھر خاموشی:
دل بن گیا نگاہ، نگہ بن گئی زباں
آج اک سکوتِ شوق قیامت ہی ڈھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا
ویسے جگر کی اس غزل کا ایک شعر تو حضرت امیر المومنین پر خوب جچتا ہے:
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
ان دنوں ہم جہاں جاتے… بہت طویل باتیں سنتے… مشورے، احکامات، امیدیں،تنبیہات… یہاں سراپا گوش بنے بیٹھے تھے… مگر دلنواز خاموشی… نہ کوئی حکم نہ کوئی مشورہ… نہ احسانات کی فہرست نہ کوئی مطالبہ… ہاں! وہ بہت کم بولتے تھے، مگر جب بولتے تو موتی جھڑتے… تب مجبوراً ادب کے ساتھ زبان کھولی… کچھ حال سنایا، اپنے عہد و پیمان کو جو جیل میں باندھا تھا تازہ کیا… کچھ رہنمائی لی… تب جچے تلے جوابات ملنا شروع ہوئے… اور ایک حسین خواب کی طرح پہلی ملاقات ختم ہو گئی… کچھ عرصے بعد دوسری ملاقات ہوئی… اس دن ایک حسّاس موضوع تھا تو خوب بولے… دل میں آرزو تھی کہ یہ لمحات زندگی میں بار بار آئیں… ان کی روپوشی کے دوران کئی بار سوچا کہ اگر حالات ٹھیک ہو گئے تو انہی کے قدموں میں جا بسوں گا…
ان سے ان کے دفتر میں جھاڑو کی خدمت مانگوں گا… نہ عہدہ، نہ منصب… نہ تقریریں نہ تحریریں…محبوب رب کی بارگاہ میں مقبول ایک انسان کی نوکری، چاکری… اور اس کی زیارت… اپنے دل سے کئی بار سچ سچ پوچھا… اسے یہ نوکری اور چاکری دنیا بھر کی بادشاہت سے زیادہ عزیز تھی… انہیں خیالوں اور خوابوں میں چل رہے تھے کہ پتا چلا کہ… وہ تو چلے گئے
رفت ساقی بسوئے ساقی دست تہی میخانہ شد
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
حافظ شیراز ؒ کی باتیں
حافظ شیرازؒ سے پرانی یاری ہے… وہ اپنے دیوان میں تشریف فرما آتے ہیں… کبھی رُلاتے ہیں، کبھی رقصاتے ہیں اور کبھی زخموں پر مرہم رکھتے ہیں… اس عظیم صدمے کے موقع پر بھی آ گئے… شاید دل غمزدہ کو پرسا دینے، تعزیت فرمانے…
کپکپاتے ہاتھوں سے دیوان کھولی تو حافظ کہنے لگے:
حال ماو فرقت جاناں وابرام رقیب
جملہ میداند خدائے حال گرداں غم مخور
ہمارا حال اور محبوب کی جدائی اور دشمنوں کا ستانا… یہ سب کچھ اس اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے جو حال کا بدلنے والا ہے، اس لئے غم مت کھاؤ…
گرچہ منزل بس خطرناک ست و مقصد ناپدید
ہیچ راہے نیست کو را نیست پایاں غم مخور
اگرچہ منزل بہت خطرناک ہے اور مقصود بھی حاصل نہیں۔ مگر کوئی راستہ ایسا نہیں جو ختم نہ ہونے والا ہو اس لئے غم مت کھاؤ
دور گردوں گردو روزے بر مراد مانگشت
دائما یکساں نماند کار دوراں غم مخور
آسمان کی گردش اگر ایک روز ہماری مراد کے موافق نہیں ہوئی… مگر زمانے کا کام کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، غم مت کھاؤ
حافظا در کنج فقرو خلوت شبہائے تار
تابود وِردت دعا ودرسِ قرآں غم مخور
حافظؒ سے عرض کیا کہ… حضرت امیر المومنین ؒ کے حسب حال کچھ ارشاد ہو… فرمایا: ان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ عشق، وفاداری… اور ان کی وسیع روحانی سلطنت پر عرض ہے:
عشقت نہ سرسری ست کہ از سر بدرشود
مہرت نہ عارضی ست کہ جائے دگرشود
تیرا عشق ایسا سرسری نہیں کہ میرے سر سے نکل جائے… تیری محبت عارضی نہیں کہ کسی اور کے ساتھ جڑ جائے…
عشق تو در وجودم و مہر تو دردلم
باشیردر دروں شد وباجاں بدرشود
تیرا عشق میرے وجود میں اور تیری محبت میرے دل میں اتر چکی ہے۔ یہ ماں کے دودھ کے ساتھ اندر گئی ہے اور جان کے ساتھ نکلے گی…
دردیست درد عشق کہ اندر علاج او
ہر چند سعی بیش نمائی بتر شود
عشق کا درد ایسا درد ہے کہ اس کے علاج میں۔جس قدر کوشش کرو گے یہ بڑھتا ہی جائے گا…
اول منم یکے کہ دریں شہر ہر شبے
فریاد من بگنبد افلاک بر شود
اس شہر میں جس کی فریاد ہر رات سب سے پہلے آسمانوں کے اوپر جاتی ہے وہ میں ہی ہوں…
اگلا شعر بہت ہی عجیب ہے… توجہ سے ملاحظہ فرمائیں:
ور زانکہ من سرشک فشانم بزندہ رود
کِشت عراق جملہ بیکبار ترشود
اس وجہ سے کہ جب میں ’’زندہ رود‘‘ پر آنسو گراتا ہوں تو عراق کے کھیت سب ایکبارگی تروتازہ ہو جاتے ہیں۔
’’زندہ رود‘‘ اصفہاں کا دریا ہے یعنی جب میں اپنے شہر میں آنسو گراتا ہوں تو ان آنسوؤں سے دریاؤں میں ایسا زوردار سیلاب آتا ہے کہ… دور دور تک کے خشک کھیت سیراب ہو جاتے ہیں… خاص طور سے عراق کے کھیت… حضرت امیر المومنین کی آہوں اور آنسوؤں سے جہاد کا ایسا سیلابی ریلا اٹھا کہ… عراق میں بھی تحریک کھڑی ہوئی… اور دجلہ اور فرات کے دریا… دشمنان اسلام کی لاشوں سے بھر گئے… اور ایمان و جہاد کے خشک کھیت سرسبز ہو کر لہلہانے لگے… آج جو عراق و شام کے اتنے بڑے لشکر نظر آتے ہیں … ان سب کے پیچھے ملا محمد عمر مجاہدؒ کی آہیں، آنسو، محنت، استقامت اور فکر ہے… آہ! وہ فاتح عالم چلا گیا…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
مسک الختام
ہمارے لئے سعادت کی بات ہے کہ ہم اپنی آج کی مجلس کا اختتام اپنے ’’میر مجلس‘‘ حضرت امیر المومنین کے ایک فرمان پر کر رہے ہیں… یہ فرمان آپ نے افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کے حملے کے فوری بعد جاری فرمایا… اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی بات کو سچا فرما دیا… ہم اس بیان کی روشنی میں حضرت امیر المومنین کی شخصیت کے کئی پہلو سمجھ سکتے ہیں… حضرت امیر المومنین نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ کے لئے امریکا اور چیونٹی دونوں ایک برابر ہیں… امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ’’امارت اسلامیہ‘‘ ایسا نظام نہیں کہ اس کا امیر ’’ظاہر شاہ‘‘ کی طرح روم چلا جائے گا اور فوج تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دے گی… بلکہ یہ جہاد کا منظم محاذ ہے۔ اگر تم شہروں اور دارالحکومت پر قابض ہو بھی جاؤ، اسلامی حکومت گرا بھی دو، تو ہمارے مجاہدین دیہاتوں اور پہاڑوں میں چلے جائیں گے تب پھر تم کیا کرو گے؟… تم پھر کیمیونسٹوں کی طرح ہر جگہ مارے جاؤ گے… تم جان لو کہ بد انتظامی اور جنگ بھڑکانا آسان ہے، مگر اس بد انتظامی اور جنگ کا خاتمہ کرنا اور ایک نظام قائم کرنامشکل ہے، موت برحق ہے، اور سب کو آئے گی… امریکا کی حمایت میں بے ایمانی اور بے غیرتی کی حالت میں موت آئے یہ اچھا ہو گا؟ یا اسلام میں،ایمان کے ساتھ اور غیرت کی حالت میں موت کا آنا زیادہ بہتر ہو گا۔ (خادم الاسلام ملا محمد عمر مجاہد)
آہ! وہ اللہ کی تلوار، اسلام کا شیر اور دینی غیرت کا ستون چلا گیا…
انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 505)
اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں…اللہ اکبر کبیرا…زمین سے بڑا آسمان ہے…اور سات آسمانوں میں ہر دوسرا آسمان پہلے آسمان سے بڑا ہے…پھر ’’کرسی‘‘ ان سات آسمانوں سے بڑی ہے…
وَسِعَ کُرْسِیِّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض
اور پھر اللہ تعالیٰ کا عرش…کرسی سے بھی بڑا ہے…اس کی صفت ’’عظیم ‘‘ ہے…العرش العظیم اور اللہ تعالیٰ عرش سے بھی بڑا ہے،سب سے عظیم ،اعظم ،الکبیر،العلی،العظیم …اور عظمت سے بھی بڑا مقام ’’جلال ‘‘ کا ہے…اور اللہ تعالیٰ جلال والا ہے ذوالجلال والاکرام…
آئیے ہم پکارتے ہیں…
یَا عَلِیُّ،یَا عَظِیْمُ ، یَا کَبِیْرُ، یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامْ…اِغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا
انسان بہت چھوٹا ہے…بہت کمزور،بہت ضعیف،بہت عاجز
خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفا
انسان جہالت کے اندھیرے اور ظلم کی تاریکی میں پڑا ہے…اور ظلم بھی سب سے زیادہ اپنی جان پر کرتا ہے…
اِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا
انسان گناہوں میں لتھڑا ہوا…غلاظت سے بھرا ہوا…اور فناء سے لرزتا ہوا اپنی زندگی گزارتا ہے
مگر تعجب ہے ،پھر بھی فخر کرتا ہے،اکڑتا ہے ، اتراتا ہے اور میں میں کرتا ہے
ضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّنَسِیَ خَلْقَہ
کاغذ صاف اور خالی ہو تو اس پر ’’قرآن مجید‘‘ بھی لکھا جا سکتا ہے…برتن جتنا سستا کیوں نہ ہو لیکن خالی ہو اور پاک ہو تو اس میں زمزم بھی بھرا جا سکتا ہے…اور شہد بھی…
پس جو انسان خود کو کمزور سمجھے،عاجز سمجھے،بے کمال سمجھے،فانی سمجھے،جاہل سمجھے…وہی اللہ تعالیٰ سے سب کچھ پاتا ہے…اسی کو روشنی ملتی ہے،قوت ملتی ہے،کمال ملتا ہے،بقاء ملتی ہے،علم ملتا ہے … کیونکہ اس نے اپنے نفس اور دل کو…اپنے مالک کے لئے خالی کیا…مالک نے سب کچھ بھر دیا ، سب کچھ عطاء فرما دیا…مگر جو ہر وقت اپنی خوبیاں سوچے،اپنے آپ کو باکمال سمجھے ،اپنی طاقت پر نظر کرے…اپنے حسن اور عقل پر نظر کرے…اپنی صلاحیتوں پرفخر کرے کہ میں ایسا ہوں…میں ویسا ہوں…میں فلاں سے اچھا ہوں… میں عقل والا سمجھدار ہوں …میں بہت مقبول ہوں…میں بہت ذہین اور باصلاحیت ہوں…میں نیک ہوں ، متقی ہوں… تو ایسے آدمی کو…کچھ بھی نہیں ملتا …کچھ بھی نہیں… اس نے اپنے دل میں اپنی ذات کو بھر رکھا ہے…اس نے اپنے نفس میں …اپنی بڑائی کو بھر رکھا ہے… ایسے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں آتی… اللہ تعالیٰ ایک ہے … وہ شرک اور شرکت کو گوارہ نہیں فرماتا…اس لئے ایسے افراد کو نہ روشنی ملتی ہے،نہ نور ملتا ہے،نہ نفع والا علم ملتا ہے… اور نہ وہ عزت…جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ہے… اس لئے بہت عجیب بات فرمائی…
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا…اس نے اپنے رب کو پہچان لیا…
یہ جملہ ’’حدیث ‘‘ ہے یا نہیں؟…علماء نے بڑی بحث فرمائی ہے… اکثر اہل علم کے نزدیک اس کا حدیث ہونا ثابت نہیں…
مگر سب کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ…یہ حدیث ہے یا اسلاف میں سے کسی کا قول…مگر یہ ہے بڑے پتے کی بات،بڑے راز کی بات…اور بہت حکمت والی بات…
جس نے خود کو پہچان لیا کہ…میں کچھ بھی نہیں…وہی اپنے رب کو پہچانے گا کہ وہ سب کچھ ہے…انسان سجدے میں جا کر بھی…یہ سوچے کہ میں ایسا ہوں،میرے اندر یہ کمال ہے…میرا یہ مقام ہے…تو ایسے سجدے سے اس نے کیا پایا؟…
ایک طرف حضرات صحابہ کرام تھے… جہاد جیسے عظیم عمل میں مصروف…ایک سخت جنگ میں مشغول…اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی قیادت سے محظوظ… اتنے سارے فضائل جمع ہوں تو کچھ نہ کچھ نظر اپنی ذات پر چلی جاتی ہے… مگر وہ حضرات صحابہ کرام تھے…خندق کھودتے وقت اشعار پڑھ رہے تھے کہ…یا اللہ! اگر آپ کا فضل نہ ہوتا تو نہ ہم ہدایت پاتے…نہ نماز پڑھتے نہ سجدے کر سکتے… آپ کا ہی خالص احسان ہے کہ … ہمیں ہدایت دی…ہمیں نماز کی توفیق دی … ہمیں جہاد میں لگایا… ہمیں سجدے کا شرف بخشا… ہمیں حضرت آقا مدنی ﷺ عطاء فرمائے … یعنی ہمارا کوئی کمال نہیں… ہم میں جو خوبی بھی ہے یہ سب آپ نے عطاء فرمائی ہے… دیکھئے! یہ ہے اپنے نفس کی پہچان اور اس کے ذریعہ اپنے رب کی پہچان…حضرت ہجویریؒ نے سمجھایا کہ… اپنے نفس کو کالا اندھیرا سمجھو…اور اس میں جو خیر ہے اسے اپنے رب کا نور سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کالی سلیٹ پر…اپنے نور اور روشنی سے فلاں فلاں خیر لکھ دی ہے…جو اپنے نفس کو پہچان لے کہ میں بہت کمزور ہوں…صرف پیشاب رک جائے تو میری ساری فوں فاں اور شان ختم ہو کر …نیم ذبح شدہ جانور کی طرح تڑپنے لگتی ہے… وہی آدمی پہچان سکتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ کتنا طاقت والا ہے … ہم تو تیز ہوا میں اپنے سر کی ٹوپی نہیں تھام سکتے …جبکہ اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے تھام رکھا ہے… پس جو اپنے آپ کو ناقص سمجھے، کمزور سمجھے،عاجز سمجھے،خالی سمجھے… وہی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچان سکتا ہے…شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ…ہم اپنی ذات کو نہ پہچانیں…یعنی مٹی، گارے اور حقیر نطفے سے بنا ہوا انسان…تکبر میں مبتلا ہو جائے…کسی انسان کا تکبر میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ…اس بے وقوف انسان نے خود کو نہیں پہچانا…کیونکہ تکبر کا معنی ہے بڑائی … اور انسان میں ’’بڑائی‘‘ والی کوئی چیز ہے ہی نہیں…کس قدر دھوکے میں ہے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے … چند افراد کو کھانا کھلا کر خود کو نعوذ باللہ رازق اور سخی سمجھنے لگے …جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے چند الفاظ سیکھ کر خود کو عالم و علامہ سمجھنے لگے…جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تھوڑی سی شان کو دیکھ کر…خود کو عزت اور عبادت کے لائق سمجھنے لگے…اسی لئے فرمایا…
جہنم کی آگ کو سب سے پہلے…ریاکار عالم ،ریاکار شہید اور ریاکار سخی کے ذریعے بھڑکایا جائے گا…ان لوگوں نے اپنے نفس کو نہ پہچانا اور اپنی خوبیوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر…اس کے بدلے لوگوں سے اکرام چاہا تو…باوجود اتنے بڑے اعمال کے برباد ہو گئے…اور فرمایا کہ
جو چاہے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں تو وہ ابھی سے جہنم میں اپنا ٹھکانا پکڑ لے…
ہاں بے شک… جو شخص اپنی ذات کو پہچانتا ہو…وہ کبھی بھی خود کو اس لائق نہیں سمجھے گا کہ لوگ اس کی تعظیم میں کھڑے ہوں…بلکہ وہ چاہے گا کہ وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہوں…کیونکہ وہی تعظیم اور بندگی کا حقدار ہے…ہم میں جو کچھ اچھا نظر آ رہا ہے سب اسی کا عطاء فرمودہ ہے… وہ جب چاہے چھین لے اور جب چاہے اس اچھائی کو بڑھا دے…
آپ نے کبھی غور کیا کہ… انسان میں نا شکری کیوں پیدا ہوتی ہے؟ وجہ بالکل سیدھی ہے کہ وہ جب خود کو نہیں پہچانتا کہ… میں تو بندہ ہوں ، غلام ہوں، فانی ہوں… تو وہ خود کو…طرح طرح کی چیزوں کا حقدار سمجھنے لگتا ہے کہ… مجھے یہ بھی ملے اور وہ بھی ملے …پھر جب اس کے نفس کی یہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ…شکوے کرتا ہے،ناشکری کرتا ہے،ناقدری کرتا ہے…اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے جھگڑے کرتا ہے…
یہ اگر خود کو پہچان لے کہ…میں کچھ بھی نہیں ، کسی چیز کا مستحق نہیں تو یہ فوراً اللہ تعالیٰ کو پہچان لے گا کہ… وہی حاجت روا ہے،فضل والا ہے،کرم والا ہے کہ اب تک مجھے اتنا کچھ دیا… میرے اتنے گناہوں کے باوجود مجھے کھلایا، پلایا اور چھپایا… تب اسے شکر نصیب ہو گا…اور شکر نعمتوں کی چابی اور نعمتوں کا محافظ ہے…آپ نے کبھی غور کیا کہ …انسان میں حرص کیوں پیدا ہوتی ہے؟ …وجہ صاف ہے کہ انسان اپنی ذات کو نہیں پہچانتا کہ میں ایک فانی زندگی کے چند سانسوں کے لئے دنیا میں آیا ہوں…اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں جو نعمتیں عطاء فرمائی ہیں وہ آخرت کی تیاری کے لئے ہیں… اس کی بجائے وہ یہ سوچتا ہے کہ …میرے اندر بڑے کمالات ہیں،بڑی عقل ہے… میری زندگی بہت لمبی ہے… میری بڑی اونچی قسمت ہے کہ میرے پاس یہ یہ چیز آ گئی ہے…اب مجھے اور آگے بڑھنا ہے…اور زیادہ سے زیادہ ان چیزوں کو حاصل کرنا ہے… تب وہ مزید کی حرص میں مبتلا ہو کر ایسا جہنمی مزاج انسان بن جاتا ہے کہ…مزید کی خواہش اس میں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے… آپ آج دنیا کے کسی ارب پتی کے پاس جا بیٹھیں …وہ کوئی نئی چیز بنانے یا خریدنے کی فکر میں اتنا پریشان ہو گا …جتنا کوئی غریب آدمی اپنی اکلوتی جھونپڑی کے لئے بھی نہیں ہوتا… کیونکہ حرص جب آ جائے تو پھر قبر کی مٹی ہی اسے ختم کر سکتی ہے …حکایت لکھی ہے کہ…ایک آدمی کے کھیت میں ایک جنگلی مرغی اڑ کر آ گئی…اس نے پکڑ لی اور گھر لے آیا… وہ مرغی روزانہ سونے کا ایک انڈہ دیتی تھی… وہ اگر اپنے آپ کو پہچانتا تو اسی انڈے کو…اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ کر شکر کرتا…مگر اس میں حرص جاگ اٹھی … مجھے اور زیادہ مالدار ہونا چاہیے… اب روزانہ ایک انڈے پر صبر اس پر بھاری پڑا… اور اس نے زیادہ انڈوں کی لالچ میں مرغی ذبح کر دی…تب اس کے پیٹ سے ایک انڈہ بھی نہ نکلا…اور اس طرح وہ روزانہ کے رزق سے بھی محروم ہو گیا…مشہور مسلمان بادشاہ …اور عالم اسلام کے قابل فخر ماہر فلکیات ’’الغ بیگ‘‘ نے اپنے بیٹے کو بڑا مال اور اختیارات دے رکھے تھے …بیٹا نالائق نکلا… اپنی ذات کو نہ پہچاننے والا …اس میں ’’مزید‘‘ کی حرص پیدا ہو گئی…اور باپ کا وجود اسے بھاری لگنے لگا…حالانکہ اس کے پاس جو کچھ تھا اس کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کے باپ کو بنایا تھا…ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ’’ذرائع‘‘ اور راستوں کی قدر کرتے ہیں… جس طرح ہمیں پانی اگرچہ زمین سے آتاہے… مگر پائپ ،ٹوٹیاں وغیرہ اس پانی کو ہم تک پہچانے کا ذریعہ ہیں تو ہم …ان کی قدر اور حفاظت کرتے ہیں…اور یہ کہہ کر انہیں نہیں پھینک اور توڑ دیتے کہ…تم کونسا ہمیں پانی دیتی ہو؟… پانی تو ہمیں زمین سے آتا ہے… شیطان کی ایک بڑی صفت جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے …وہ اپنے ماننے والوں میں ہر وقت خوف پھیلاتا ہے…اللہ تعالیٰ کا نہیں مخلوق کا خوف …اور پھر اس خوف کے ذریعہ وہ ان سے بڑے بڑے گناہ کرواتا ہے… وہ حریص آدمی میں یہ خوف ڈالتا ہے کہ …دیکھو! جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں وہ تم سے چھن نہ جائیں… اور فلاں فلاں آدمی تم سے تمہاری نعمتیں چھین سکتا ہے… پس ان افراد کو ختم کر دو، ہٹا دو، ٹھکانے لگا دو تاکہ تمہاری نعمتیں سدا بہار ہو جائیں… حضرت آقا مدنی ﷺ نے سمجھایا کہ حرص سے بچو، اسی کی وجہ سے پہلے لوگوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور حرمتوں کو پامال کیا …الغ بیگ کے بیٹے کے دل میں یہ خوف آیا کہ …آج تو ٹھیک ہے لیکن اگر کل میرے باپ نے مجھے معزول کر دیا …تو میرا کیا بنے گا… اسی خوف میں اس نے اپنے محسن باپ کو قتل کر دیا… امت مسلمہ کو ایک قابل فخر رہنما سے محروم کر دیا…اور خود حکمران بن بیٹھا… مگر چھ ماہ میں مارا گیا…دنیا بھی گئی اور آخرت بھی برباد…
اس نے خود کو نہ پہچانا…اپنے رب کو نہ پہچانا …اپنی عقل کو اپنا رہنما بنایا اور اپنا اور مسلمانوں کا اتنا بڑا خسارہ کر بیٹھا… اگر وہ معزولی کے خوف کی بجائے دل میں یہ خوف لاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت دے سکتے ہیں تو کبھی بھی یہ گناہ نہ کرتا…
اس لئے ضروری ہے کہ …ہم اپنے نفس کی کمزوری ،عاجزی،تاریکی، فنا اور بے سمجھی پر…غور کریں…ہم اپنی خوبیوں کو…اپنی محنت اور اپنی کمائی نہ سمجھیں… ہم اس بات کا یقین دل میں بٹھائیں کہ…ہم نے جلد مر جانا ہے… ہم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں غور کریں کہ…کیسی کامل مکمل اور عظیم ذات ہے…پھر اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں غور کریں اور اپنے اندر کی ایک ایک تاریکی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھیک مانگیں…
دل کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُوراً
بدن کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی بَدَنِی نُوْراً
آنکھوں کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی بَصَرِی نُوْراً
اسی طرح مانگتے جائیں… اور پاتے جائیں … اور جب بھی شیطان بھٹکانے لگے… اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی اور کلمہ طیبہ کے قلعہ میں آ جایا کریں کہ…ظالم تو جو کچھ مجھے سمجھا رہا ہے وہ غلط ہے…سچ یہ ہے کہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ ہے…میں کچھ بھی نہیں… اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے… اور کوئی نہیں … اللہ تعالیٰ ہی قادر اور باقی ہے… باقی سب کچھ فانی ہے…
الحمد للہ…رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بہت کرم فرمایا… اتنے گرم اور مشکل حالات میں ایسی دستگیری فرمائی کہ…تمام ساتھی دل و جان سے مہم میں لگے رہے…اس سے امید ہوئی کہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رحمت ’’جماعت‘‘ کو نصیب ہے…اب ہم نے اس نعمت کی کس طرح قدر اور حفاظت کرنی ہے… اس کے لئے ’’رنگ و نور‘‘ میں چند اسباق کا یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے…آج کا پہلا سبق ’’معرفت نفس‘‘ آپ نے پڑھ لیا…اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے… اگلا سبق اس بارے میں ہے کہ …کام کی مضبوطی اور ترقی کے لئے اب انفرادی ملاقاتوں …اور اجتماعات کی ضرورت ہے… ہماری دعوتی ملاقات کیسی ہو؟ … ہمارے دعوتی اجتماعات کیسے ہوں؟…اس کا بیان اگلے ہفتے ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
ایمانی جھونکے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 504)
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
رمضان المبارک جا رہا ہے…بس چار پانچ دن رہ گئے…اور عید کا دن آ رہا ہے تاکہ…اہل ایمان خوشیاں منائیں…اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اسلام اور ہدایت کی نعمت عطاء فرمائی … اُن کو ایمان اور جنت کے لئے چن لیا…اور اُن کو اپنے فضل سے کامیابی عطا ء فرمائی…
لِتُکَبِّرُوْاللّٰہَ عَلیٰ مَا ھَدٰکُمْ
تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت بیان کرو …اس نعمت کے شکرانے میں کہ اُس نے تمہیں ہدایت عطاء فرمائی…

اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
دو باتیں دل میں بٹھانی ہیں…پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے…اور دوسری یہ کہ ہدایت کی نعمت…یعنی اسلام کی توفیق ملنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے…
جس کے دل میںیہ دونوں باتیں بیٹھ چکی ہیں …وہ شکر ادا کرے…لمبے لمبے سجدے کرے…
اورجس کے دل میں ابھی کچھ کھوٹ ہے…وہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا کہتا تو ہے مگر دل میں اور بہت سے افراد کی…اور بہت سی چیزوں کی بڑائی بٹھا رکھی ہے…اور جو اسلام کو سب سے بڑی نعمت کہتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں…تھوڑی سی مالی تنگی، تھوڑی سی جسمانی آزمائش اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر گھبرا کر…اسلام کی نعمت کو بھول جاتا ہے… اس نعمت پر شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے…وہ توبہ کرے،استغفار کرے،آنسو بہائے اور اپنے دل کا علاج کرے…ارے دنیا بھر کی ساری نعمتیں اسلام کے مقابلے میں خاک کے ایک ذرے برابر بھی نہیں…اور دنیا بھر کی ساری طاقتیں اللہ تعالیٰ کے سامنے مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں…
دل سے پڑھیں:
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
شیطان نے دنیا کی چیزوں کو…لوگوں کی نظر میں مزین، معزز اور خوشنما کر دیا ہے…طرح طرح کے گھر اور بنگلے…طرح طرح کی گاڑیاں اور سواریاں…طرح طرح کے لباس اور ملبوسات …طرح طرح کے رنگ برنگے لائف اسٹائل… لوگ انہی پر مر رہے ہیں…انہی پر جی رہے ہیں … اور پھر موت کا جھٹکا آتا ہے تو…اندھیرا ہی اندھیرا چھا جاتا ہے…وہ جن کے پاس ’’اسلام‘‘ کی روشنی نہیں ہے…وہ مرتے ہی خوفناک اندھیروں میںڈوب جاتے ہیں…فرشتے اُن کی ارواح کو لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے …اُن کی ارواح کو وہاں سے دھکا دے کر گرا دیتے ہیں…اللہ، اللہ…اتنی اونچائی سے گرنے والوں کا حال کیا ہو گا؟… وہ گرتے گرتے زمین پر آتے ہیں تو زمین بھی ان کو نیچے دھکا دے دیتی ہے…کیونکہ زمین ان کے وجود سے تنگ ہوتی ہے…وہ بڑے حکمران ہوں یا بڑے بڑے سائنسدان… وہ اربوں پتی سرمایہ دار ہوں یا سونے چاندی میں کھیلنے والے سیٹھ… وہ بڑے نامور فنکار ہوں یا مشہور کھلاڑی یا اداکار… اسلام کی نعمت سے محروم مرے تو اب عذاب ہی عذاب ہے…
اور ایک ہی آواز ہے:
فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَاباً
یہ عذاب بھگتو اور یاد رکھو! اب ہم تمہارا عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے…اب اس عذاب سے خلاصی کی کوئی صورت نہیں … گاڑیاں، بنگلے ، نوکر،ملازم اور سیلوٹ کرنے والے اب تمہارے کسی کام کے نہیں…اور جو چیز کام کی تھی وہ تمہارے پاس موجود نہیں…پھر اُن کی ارواح کو مقام ’’سِجِّیْن‘‘ پر لے جا کر قید کر دیا جائے گا…یہ ایک بڑا پتھر ہے…جس سے ہر وقت دھواں نکلتا رہتا ہے…اور اس کے اردگرد گرمی ہے،آگ ہے اور عذاب ہے… یا اللہ! آپ کی پناہ…یا اللہ! اسلام کی نعمت پر اربوں بار شکر…دل کی گہرائی سے شکر…بے شمار شکر…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
اللہ تعالیٰ نے زمین پر رزق اُتارا ہے… کسی کو زیادہ دیا اور کسی کو تھوڑا… جن کو اسلام اور ایمان کی نعمت ملی…ان کو اگر رزق کم بھی ملا تو انہوں نے فکر نہیں کی…لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے …اور کافروں کے سفارتخانوں پر لائن لگانے کی بجائے… انہوں نے اپنے ضروریات کو محدود کر لیا … وہ اپنے اسلام پر راضی رہے… تب ان کے فقر و فاقے میں ایسا سکون رکھ دیا گیا جو بادشاہوں کو …خوابوں میں بھی نہیں ملتا…
آپ ﷺ نے ایک انصاری صحابی کو دیکھا کہ … فقرو فاقے اور بیماری کی وجہ سے بہت سخت حالت میں ہیں…نہ مال تھا نہ صحت… آپﷺ نے ان کی ایسی خستہ حالت دیکھی تو ایک وظیفہ ارشاد فرمایا کہ… یہ پڑھو گے تو حالت سدھر جائے گی… اُن انصاری کا ایمان بہت بلند تھا … فرمانے لگے میں ان دو چیزوں یعنی فقروفاقے اور بیماری کے بدلے بڑی سے بڑی نعمت لینے کوبھی تیار نہیں…حضرت آقا مدنی ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی کہ…جو اپنی ایسی حالت پر اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اس کا مقام بڑے بڑے اعمال کرنے والوں سے بھی بہت اونچا ہے…
آج جس کے پاس عید کا نیا جوڑا نہ ہو وہ آہیں بھرتا ہے…جس کے پاس عید کا نیا جوتا نہ ہو وہ آنسو بہاتا ہے…جس کے بچوں کو عید پر زیادہ عیش نہ ملے وہ شکوے برساتا ہے…یہ نہیں سوچتا کہ… اصل نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہر غریب اور ہر امیر کو وافر عطاء فرمائی ہیں…اسلام کی نعمت، ایمان کی نعمت، قرآن کی نعمت،رمضان کی نعمت… روزوں اور تراویح کی نعمت… جہاد کی نعمت… ان نعمتوں کو ہر غریب سے غریب آدمی بھی حاصل کر کے… آخرت کا بادشاہ بن سکتا ہے…
پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
بھائیو! اور بہنو! عید کا دن آ رہا ہے…خوشی اور مسکراہٹ کا دن…
اس دن ایمان والوں کو دیکھ کر زمین بھی مسکراتی ہے…آسمان بھی مسکراتا ہے…فضائیں اور ہوائیں بھی مسکراتی ہیں… ارے زمین سے لے کر عرش تک جشن کا سماں ہوتا ہے کہ…ایمان والوں کو پورے ایک مہینہ کے روزے نصیب ہوئے …ایک مہینہ کی تراویح نصیب ہوئی…ایک مہینہ کی مقبول عبادت نصیب ہوئی… اور آج ان سب کو ’’انعام‘‘ ملنے والا ہے… سبحان اللہ! سب سے بڑا انعام…جی ہاں! مغفرت کا انعام…اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو گی… تقریب انعامات کا دن…اس سے بڑا جشن کیا ہو گا… اپنے محبوب رب کی رضا کا دن…اس سے بڑی فرحت اور کیا ہو گی کہ اپنے رب کی تکبیر اٹھانے اور اپنے رب کا شکر ادا کرنے کا دن…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
عید کے دن پہلا کام یہ کہ… دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور زبان پر اس کی ’’تکبیر ‘‘ ہو…دنیا کی ہر طاقت کا رعب دل سے نکال دینا ہے… ارے سائنس نے ایسی کوئی ترقی نہیں کر لی کہ ہم نعوذباللہ اسے سجدے کرتے رہیں…جب بجلی نہیں تھی تو لوگوں کے پاس روشنی کا انتظام آج کے زمانہ سے زیادہ اچھا تھا…کوئی اندھیرے میں نہیں مرتا تھا…لوگ سفر کرتے تھے…اور بہت صحت مند تھے… وہ آج کے لوگوں کی طرح پلاسٹک کی بوتلیں اور گیس کے سلنڈر نہیں تھے… منوں وزنی تلواریں ہاتھ کے پنکھے کی طرح گھماتے تھے…اور بھاری کمانوں سے تیروں کی بوچھاڑ کرتے تھے… سائنس ہر زمانے میں موجود رہی ہے…کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کا زمین پر خلیفہ ہے… اور اپنی ضرورت کے مطابق سمندروں، پہاڑوں،ہواؤں اور عناصر کو اپنے کام میں لاتا رہتا ہے…آج کی سائنس تو دہشت گردی ہے اور غلاظت …پورے خطہ زمین کو زہریلی گیسوں سے بھر دیا …اور انسان کو ایک بے وزن کھلونا بنا دیا … افسوس کہ مسلمانوں نے عمومی طور پر جہاد کو چھوڑ رکھا ہے… اگر زمین پر جہاد ہوتا تو زمین کی حکومت عقلمند انسانوں کے ہاتھ ہوتی جو…سائنس کو انسان کا غلام بناتے نہ کہ…انسان کو سائنس کا غلام…
اور اب تو نعوذباللہ کئی بد عقل لوگ… دین اور قرآن کو بھی سائنس کا غلام بنانے پر تلے ہیں …اپنے دل سے ان سب بے حیا اور بد کار کافروں کی عظمت نکالنی ہے…امریکہ اور یورپ کی عظمت دل سے ختم کرنی ہے…یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے اڑتا ہوا غبار بھی نہیں… اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور اللہ ایک ہے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
عید کا دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ… اپنے دل کو … حقیقی نعمت یعنی اسلام کی یاد دلا کر خوش کرنا ہے … عید کا دن رونے پیٹنے اور دنیا کے غموں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا دن نہیں… یہ شکر اور خوشی کا دن ہے… اور شکر اور خوشی ان نعمتوں پر جو اصل اور قیمتی نعمتیں ہیں… الحمد للہ ہمارے پاس کلمہ طیبہ ہے …الحمد للہ ہمیں رمضان المبارک ملا…الحمد للہ ہمیں روزوں کی توفیق ملی… الحمد للہ ہمیں رمضان المبارک میں جہاد میں نکلنے یا جہاد کی خدمت کی توفیق ملی… ہمیں زیادہ تلاوت،زیادہ صدقے اور زیادہ عبادت کی توفیق ملی… ہمیں حضرت آقا مدنیﷺ جیسے نبی ،قائد اور رہبر ملے…اللہ اکبر یہ کتنی بڑی نعمت ہے؟… دنیا بھر کے کافر ہزار دولت کے باوجود …حضرت آقا مدنی ﷺ سے محروم ہیں… آپ بتائیے اس سے بڑی محرومی اور کیا ہو سکتی ہے؟…حضرات صحابہ کرام کو جب حضور پاک ﷺ مل گئے تو انہوں نے کیسی عظیم قربانیاں دے کر…اس نعمت کی قدر کی…
آج کوئی نظم پڑھ رہا تھا کہ …سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ کو کفن مبارک میں دیکھا ہو گا تو…ان پر کیا گزری ہو گی؟… یہ الفاظ سن کر دل تڑپنے لگا اور آنکھیں رونے لگیں… بلال نے تو بڑی قربانیاں اٹھا کر حضرت آقا مدنیﷺ کو پایا تھا… ہم نے کیا قربانی دی؟ … حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ بھی نہ رہ سکے… محاذوں پر چلے گئے کہ کب شہادت ملے اور حضرت آقا مدنی ﷺ سے ملاقات ہو… اور جدائی کا یہ بھاری زمانہ ختم ہو … ہم جب چاہیں آپ ﷺ پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں …اور وہاں سے جواب بھی آتا ہے…یہ کتنی بڑی نعمت ہے…
عید کے دن ان بڑی بڑی عظیم نعمتوں کو یاد کر کے… اپنے دل کو خوشی پر اور اپنے ہونٹوں کو مسکراہٹ پر لانا ہے…ہم لاکھ گناہگار سہی…مگر الحمد للہ مسلمان تو ہیں…حضرت آقا مدنی ﷺ کے امتی تو ہیں…یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
رمضان المبارک آیا…اور اب جا رہا ہے … مگر رمضان المبارک کا اختتام عید کی خوشی پر ہو گا…بس اسی سے یہ سبق سیکھیں کہ…ہم بھی دنیا میں آئے اور ایک دن ضرور یہاں سے چلے جائیں گے… کیا ہمارا اختتام بھی عید جیسی خوشی پر ہو گا؟ … جی ہاں! اگر ہم اپنی پوری زندگی رمضان المبارک کی ترتیب پر گزاریں… خوشی خوشی شریعت کی پابندی برداشت کریں…اور ان پابندیوں کو اپنے لئے نعمت سمجھیں… کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا… کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا… ہر وقت نفس کی خواہشات پوری نہیں کرنی… ہروقت لذتوں کی فکر میں نہیں رہنا… پس جو اس طرح پابندی والی زندگی گزارے گا…اس کی موت کا دن،رمضان المبارک کے بعد والے دن کی طرح ہو گا… یعنی عید کا دن… خوشی کا دن… پابندیاں اٹھ جانے اور عیش و عشرت ملنے کا دن… تب اس کی روح اس دن خوشیاں مناتی ہوئی… تکبیر پڑھتی ہوئی مقام ’’عِلِّیِّیْن‘‘ کی طرف لے جائی جائے گی…یہ مقام آسمانوں کے اوپر ہے …وہاں ایک کتاب رکھی ہوئی ہے…ہر مومن کی روح کو وہاں لے جا کر…اس کتاب میں اس کا نام لکھ دیا جائے گا… اور پھر قیامت تک اس کے درجے کے مطابق…کسی اچھی جگہ قیام کی ترتیب بن جائے گی…یا اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما لیجئے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
رمضان المبارک کی رات ہے…اس لئے اپنی آج کی مجلس بھی مختصر کرتے ہیں… بس آج کی آخری بات یہ ہے کہ…تھوڑا سا سوچیں! رمضان المبارک تو سب پر آیا… کافروں پر بھی آیا اور مسلمانوں پر بھی… اہل تقویٰ پر بھی آیا اور فاسقوں فاجروں پر بھی…مگر یہ رمضان المبارک کس کے لئے…رحمت اور خوشی کا ذریعہ بنا؟… یقیناً مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں میں سے بھی ان کے لئے جنہوں نے …رمضان المبارک کی قدر کی…اور اس میں قربانی دی…روزہ کی حالت میں بھوک پیاس کی قربانی…راتوں کو جاگ کر نیند کی قربانی… عبادت میں لگ کر راحت کی قربانی… صدقہ خیرات دے کر مال کی قربانی… جہاد میں نکل کراور جہادی محنت میں لگ کر…جان و دل کی قربانی… جنہوں نے قربانی دی رمضان ان کا ہو گیا…اور ان کے نامہ اعمال کی روشنی بن گیا… اور ان کے لئے آخرت میںمحفوظ ہو گیا …مگر جنہوں نے نہ رمضان المبارک کو مانا…نہ اُس میں روزہ اور عبادت کی قربانی دی… ان کے لئے رمضان جیسی نعمت بھی…کسی کام نہ آئی… بس اسی طرح ہم میں سے ہر ایک کے پاس زندگی کی نعمت موجود ہے…جو اس میں قربانی دے گا وہ اس زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پا لے گا… اور جو اس زندگی کی نعمت کو…فضول خواہشات میں ضائع کر دے گا…وہ مرتے ہی زندگی سے اور ہر طرح کے آرام سے محروم ہو جائے گا…
الحمد للہ ہماری جماعت کے پاس…زندگی کو زندگی بنانے کا بہترین نصاب موجود ہے…
کلمہ طیبہ…اقامت صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کی محنت…
یہ ایک جامع نصاب ہے… یہ کامیابی والا عقیدہ،کامیابی والا ماحول…اور کامیابی والا راستہ دیتا ہے…آئیے! اس عظیم محنت میں شامل ہو جائیے…تاکہ…زندگی کی انمول نعمت… ہمارے لئے واقعی ہمیشہ کی نعمت بن جائے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
لاالہ الااللّٰہ ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
آسان طریقہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 503)
اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعاء وہی مسلمان کرتے ہیں…جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں…
یا اللہ ! ہمیں مقبول ایمان بالغیب عطاء فرما
دور والی بہت قریب
جنت ویسے تو ہم سے بہت دور ہے… کیونکہ جنت سات آسمانوں کے اوپر ہے… مگر بعض حالات ایسے آ جاتے ہیں کہ… جنت کسی انسان کے بالکل قریب ہو جاتی ہے…
مثلاً ایک غریب آدمی ہے…مہینہ میں مشکل سے پانچ دس ہزار روپے کماتا ہے… تو شہر کی مہنگی کوٹھیاں اس کی پہنچ سے کتنی دور ہیں؟… وہ اگر دس کروڑ کی ایک کوٹھی خریدنا چاہے تو اس کے لئے اس کی سو سال کی تنخواہ بھی کافی نہیں… اسی طرح شہر کے شورومز میں موجود مہنگی گاڑیاں اس سے کتنی دور ہیں؟… یقیناً بہت دور… وہ اگر دس سال بھی بچت کر کے پیسہ جمع کرے تو اچھی گاڑی نہیں خرید سکتا… مگر ایک دن اچانک اسے بہت سی رقم مل گئی…نوٹوں سے بھرا ایک بڑا صندوق… کم از کم پچاس ساٹھ کروڑ کی نقد رقم… اب اس لمحے وہ بہت سی چیزیں جو اس سے سالہا سال دور تھیں ایک دم قریب آ گئیں… اب وہ ایک گھنٹے میں ایک نئی گاڑی خرید سکتا ہے…
جنت واقعی بہت دور ہے… لیکن جب ’’بندہ مومن‘‘ ایمان اور اخلاص کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں نکلتا ہے تو…یہ کروڑوں اربوں سال کی دوری والی جنت…بالکل اُس کے قریب، اُس کے سر پر آ جاتی ہے… اور اس میں اور جنت میں بس اتنا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ…وہ مجاہد شہید ہواور فوراً جنت میں داخل ہو جائے… یعنی دو قدم کی مسافت… پہلا قدم شہادت اور دوسرا قدم جنت… یہ بات اپنی طرف سے نہیں لکھی… اس پر بڑے مضبوط دلائل موجود ہیں…بس یہاں صرف’’شہید بدر‘‘ حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کے مبارک الفاظ کافی ہیں:
’’ بخ بخ فما بینی وبین ان ادخل الجنۃ الا ان یقتلنی ھٰولاء‘‘
ترجمہ: واہ، واہ میرے اور جنت کے درمیان فاصلہ ہی کیا رہ گیا ہے،بس صرف اتنا کہ یہ مشرکین مجھے قتل کر ڈالیں…
وہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے، یہ الفاظ فرما کر کھجوریں پھینک دیں اور تلوار لے کر لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہو گئے…
یہ اسلام کا پہلا بڑا معرکہ ’’غزوہ بدر‘‘ تھا… غزوہ بدر کے ہر منظر سے جہاد کی دلکش دعوت ملتی ہے …اور جہاد کے فضائل،معارف،حکمتیں اور قوانین معلوم ہوتے ہیں… اسی لئے غزوہ بدر کو یاد رکھنا چاہیے… اس کو بار بار پڑھنا چاہیے… اور اسے آپس میں سنتے سناتے رہنا چاہیے… کیونکہ یہ جہاد اور ’’علم جہاد‘‘ کا ایسا انمول خزانہ ہے…جو ہر ملاقات اور ہر مطالعہ پر نئے راز ،نئے اسباق اور نئی حکمتیں سکھاتا ہے…
پس وہ مسلمان جو جنت کے بہت زیادہ قریب ہونا چاہتا ہے…وہ جہاد میں نکلے… جہاد میں نکلتے ہی جنت اس کے قریب آ جائے گی… پھر وہ جس طرح بھی مرے…اس کی موت کا کوئی نتیجہ ظاہر ہو یا نہ ہو…ہر حال میں اس کے لئے جنت لازم ہے… علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ… اللہ تعالیٰ بعض ’’جہاد‘‘اس لئے قائم فرماتا ہے تاکہ… اپنے بندوں میں سے کچھ کو شہادت عطاء فرمائے…یعنی اس جہاد کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا… اور نہ اس کا کوئی اور اثر زمین پر ظاہر ہوتا ہے… وہ جہاد بس اس لئے ہوتا ہے کہ… بعض خوش نصیب مسلمان ’’شہادت ‘‘ کا بلند مقام …شہادت کی مزیدار اور پائیدار زندگی… اور شہادت کا دائمی انعام پا لیں… اور یہ کوئی چھوٹا انعام یا مقصد نہیں ہے…ایک مسلمان کو مرتے ہی شاندار زندگی… ہمیشہ ہمیشہ کا عیش و آرام …اور ہمیشہ کی کامیابی مل جائے تو اسے اور کیا چاہیے…یہ تو ایسی نعمت ہے کہ… اگر اس کی خاطر سب کچھ ابھی قربان کرنا پڑے تو سودا بہت سستا اور بہت نفع والا ہے…
طاقتور بہت کمزور
مکہ کے مشرکین کس قدر طاقتور تھے؟…وہ تلواروں کے سائے میں پلتے تھے، گھوڑوں کی پیٹھ پر جوان ہوتے تھے اور بہادری اور شجاعت میں ساری دنیا پر فائق تھے…ان کی جنگ بازی،خونریزی اور بہادری کے واقعات جب ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے…
غزوہ بدر کے دن پورے قریش کی طاقت کا ’’مکھن‘‘ …میدان بدر میں موجود تھا…صرف ابو جہل کی جنگی اور طبعی طاقت کا حال لکھا جائے تو آج کا کالم اسی میں لگ جائے… فرعون سے بڑھ کر ضدی ابو جہل کی طاقت کا یہ حال تھا کہ…اس نے کئی مرتبہ عذاب کے فرشتے اور عذاب کی جھلکیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں… مگر یہ نہ تو بے ہوش ہوا اور نہ قائل ہوا… آج دنیا کے بڑے سے بڑے بہادر کو کسی پر حملہ کرتے وقت …اگر وہ مناظر نظر آ جائیں …جو ابو جہل نے حضور نبی کریم ﷺ پر حملہ کرتے وقت دیکھے تھے تو…وہ فوراً خوف سے مر جائے…
ابو جہل ظالم کہتا تھا کہ…جب حضور نبی کریم ﷺ سجدہ میں ہوں تو مجھے بتانا میں ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر …(نعوذ باللہ) گردن توڑ دوں گا…
ایک بار اسی ناپاک سے ارادے سے آگے بڑھا…مگر پھر اپنے دونوں ہاتھ منہ ہر رکھ کر ایک دم پیچھے ہٹا… اسی طرح دو تین بار آگے بڑھا اور پھر پیچھے ہٹا… لوگوں نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو کہنے لگا آگے ایک خندق آگ کی بھری ہوئی سامنے آ گئی اور ایک بڑا اژدھا میری طرف لپکا…اگر میں پیچھے نہ ہٹتا تو یا آگ میں جل مرتا یا وہ اژدھا مجھے نگل لیتا…
اندازہ لگائیں…ایسا منظر دیکھنے کے باوجود وہ نہ دہشت سے مرا…نہ بے ہوش ہو کر گرا… نہ وہاں سے بھاگا… بلکہ بار بار آگے بڑھ کر اپنے ناپاک ارادے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہا… غزوہ بدر کے میدان میں ابو جہل موجود تھا اور اسی جیسے اور چوبیس نامور سردار موجود تھے…ان میں ہر ایک کی مستقل جنگی اور عسکری داستان تھی…دوسری طرف مقابلے میں بے سروسامان مسلمان تھے…تعداد بھی کم اور سامان حرب بھی قلیل …مگر یہ جہاد کا میدان تھا…اور جہاد کے میدان کے لیئے اللہ تعالیٰ کے قوانین نرالے ہیں…یہاں دور کی چیزیں قریب اور قریب کی چیزیں دور ہو جاتی ہیں…یہاں بہت سے بارعب…اپنا رعب کھو دیتے ہیں…اور بہت سے مسکین بہت بارعب ہو جاتے ہیں…یہاں بہت سے طاقتور شہباز ’’چڑیا‘‘ بن جاتے ہیں…اور بہت سی ’’ابابیلیں‘‘ ہاتھیوں سے طاقتور…غزوہ بدر میں مقابلہ ہوا…کمزور اور قلیل مسلمان غالب آئے… ابو جہل اور اس کے ہم پلہ چوبیس سردار بالوں سے گھسیٹ کر ایک ناپاک کنویں میں ڈال دئیے گئے… یہ سارا قصہ اکثر مسلمانوں کو معلوم ہے… آج جو بات عرض کرنی ہے …وہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر غزوہ بدر فتح کر کے…مدینہ واپس آ رہا تھا… راستہ میں ’’مقام روحاء‘‘ پر کچھ مسلمانوں نے لشکر کا استقبال کیا اور آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو فتح مبین کی مبارک باد دی… اس پر حضرت سلمہ بن سلامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کس بات کی مبارک باد دیتے ہو…اللہ تعالیٰ کی قسم بوڑھی عورتوں سے پالا پڑا اور ہم نے ان کو رسی میں بندھے ہوئے اونٹوں کی طرح ذبح کر کے پھینک دیا…
غور فرمائیں…ابو جہل، عتبہ، شیبہ جیسے جنگ آزما ،سورما… جن کے خوف اور دہشت سے وادیاں کانپتی تھیں… ان کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ…بوڑھی عورتیں تھیں…اور رسیوں میں بندھے ہوئے جانور…
دراصل جہاد میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ…وہ کافروں اور ان کی طاقت کو ’’بہت چھوٹا‘‘ کر دیتا ہے… آج بھی ہمارے صاحب اقتدار مسلمان… کافروں سے بہت ڈرتے ہیں…اور ان کے رعب سے کانپتے ہیں… اور ان کے خوف اور دباؤ میں آ کر غلط کام کرتے ہیں… لیکن جہاد میں مشغول مسلمان… اپنے دل میں کافروں کے لئے کوئی خوف،کوئی رعب… یا کوئی بڑائی نہیں پاتے… ان کے نزدیک… سارے اوبامے، مودی اور یہودی… بوڑھی عورتیں اور رسی میں بندھے جانور ہیں…یاد رکھیں! ہر انسان نے اپنے وقت پر مرنا ہے…جو لوگ کافروں کے رعب میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر مرتے ہیں…اور جو کافروں کے رعب سے آزاد ہیں وہ بھی… اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتے… ہاں! یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ…کسی مسلمان کے دل میں کافروں کا رعب اور بڑائی نہ ہو…اور یہ نعمت جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے نصیب ہوتی ہے…
آسان طریقہ
اگر ہم چاہتے ہیں کہ… وہ جنت جو ہم سے بہت دور ہے…وہ ہمارے بہت قریب آ جائے …اگر ہم چاہتے ہیں کہ… دنیا بھر کے اسلام دشمن کافر ہماری نظروں میں چھوٹے اور حقیر ہو جائیں…اور ہمیں ان کی ذہنی غلامی سے نجات ملے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ کو اختیار کر لیں… جہاد میں کامیابی ہی کامیابی…اور رحمت ہی رحمت ہے…
الرحمت ٹرسٹ کے جانباز داعی… آج کل مسجد،مسجد اور گلی گلی جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت دیتے پھرتے ہیں…یہ دیوانے اس امت کے محسن ہیں …ان کا ساتھ دیں…ان کی مہم کو کامیاب بنائیں…اور آپ بھی ان کے ساتھ ’’قافلہ جہاد‘‘ میں شامل ہو جائیں…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اہم محنت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 502)
اللہ تعالیٰ ’’بخل‘‘ اور ’’لالچ‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ
بخل یعنی کنجوسی کی بیماری تین وجوہات سے پیدا ہوتی ہے:
(۱) مال کی محبت
(۲) زیادہ زندہ رہنے کا شوق ،لمبی تمنائیں
(۳) بے وقوفی…کم عقلی

ایک دلچسپ قصہ
ہمارے ہی زمانے کا یہ قصہ کسی نے نقل کیا ہے … ایک صاحب کو انگور بہت پسند تھے… صبح اپنی فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے…انہوں نے گاڑی روکی اور دوکلو انگور خرید کر نوکر کے ہاتھ گھر بھجوا دئیے اور خود اپنی تجارت پر چلے گئے… دوپہر کو کھانے کے لئے واپس گھر آئے…دستر خوان پر سب کچھ موجود تھا مگر انگور غائب… انہوں نے انگوروں کا پوچھا… گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو بچوں نے کھا لئے…کچھ ہم نے چکھ لئے…معمولی واقعہ تھا مگر بعض معمولی جھٹکے انسان کو بہت اونچا کر دیتے ہیں… اور اس کے دل کے تالے کھول دیتے ہیں… وہ صاحب فوراً دستر خوان سے اٹھے… اپنی تجوری کھولی، نوٹوں کی بہت سی گڈیاں نکال کر بیگ میں ڈالیں اور گھر سے نکل گئے… انہوںنے اپنے کچھ ملازم بھی بلوا لئے …پہلے وہ ایک پراپرٹی والے کے پاس گئے … کئی پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ منتخب کیا…فوراً اس کی قیمت ادا کی…پھر ٹھیکیدار اور انجینئر کو بلایا … جگہ کا عارضی نقشہ بنوا کر ٹھیکیدار کو مسجد کی تعمیر کے لئے… کافی رقم دے دی… اور کہا دو گھنٹے میں کھدائی شروع ہونی چاہیے…وہ یہ سب کام اس طرح تیزی سے کر رہے تھے…جیسے آج مغرب کی اذان تک ان کی زندگی باقی ہو…ان کاموں میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں… مگر جب دل میں اخلاص کی قوت ہو… ہاتھ بخل اور کنجوسی سے آزاد ہو تو… مہینوں کے کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں…ایک صاحب ’’نو مسلم‘‘ تھے… ان کو نماز کی تکبیر اولیٰ پانے کا عشق تھا… ایک بار وضو میں کچھ تاخیر ہو گئی… نماز کے لئے اقامت شروع ہوئی تو وہ وضو خانے سے دیوانہ وار شوق میں مسجد کے صحن کی طرف بڑھے…جلدی میں وہ وضو خانے کی ایک دیوار کے سامنے آ گئے تو ان کا ہاتھ لگتے ہی وہ دیوار اچانک بیٹھنے اور گرنے لگی… وہ تیزی سے ایک طرف ہو کر گزر گئے…نماز کے بعد سب لوگ حیران تھے کہ اس دیوار کو کیا ہوا…وہ نو مسلم صاحب فرماتے ہیں کہ جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے جا کر دیوار پر زور لگانا شروع کیا کہ …کسی طرح سیدھی ہو جائے… مجھے خیال تھا کہ چونکہ میرے ہاتھوں سے یہ ٹیڑھی ہوئی ہے تو میں ہی اس کو سیدھا کر سکتا ہوں…مگر بار بار زور لگانے کے باوجود دیوار سیدھی نہ ہوئی…
تب سمجھ آیا کہ…نماز کو جاتے وقت میرے اندر اخلاص اور شوق کی جو طاقت تھی…اس نے اتنی مضبوط دیوار کو ہلا دیا تھا…اور اب وہ طاقت موجود نہیں ہے… یہی صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی… اخلاص اور شوق کی طاقت نے …چند گھنٹوں میں سارے کام کرا دئیے… بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا… اچھا انجینئر اور اچھا ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا… اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا …شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟… کہنے لگے… اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائشی گاہ کا انتظام کرنے…اور وہاں کھانے پینے کا نظام بنانے گیا تھا…الحمد للہ سارا انتظام ہو گیا … اب سکون سے مر سکتا ہوں… آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی… انگور کے چار دانے میرے لئے چھوڑنا گوارہ نہ کئے… اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا … میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا؟ … اس لئے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے آگے بھیج دیا ہے…اس پر میرا دل بہت سکون محسوس کر رہا ہے…
صدقہ ،خیرات کے فوائد
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں …صدقہ ،خیرات اور دین پر مال لگانے کے فضائل اس قدر زیادہ ہیں کہ… انہیں پڑھ کر پتھر دل انسان بھی ’’بخل‘‘ سے توبہ کر لیتا ہے…مگر شیطان پڑھنے نہیں دیتا… شیطان ہمارا دشمن ہے،اس نے ہمیں ذلیل کرنے کی قسم کھائی ہے…اور وہ ہمیں مال کے ذریعے زیادہ ذلیل کرتا ہے… مال کے نوکر بنے رہو…مال کے غلام بنے رہو… مال گن گن کر چھپا چھپا کر رکھتے رہو…دن رات مال جمع کرتے رہو…مال کی خاطر چوری کرو، خیانت کرو… حرمتیں پامال کرو… مال کی حفاظت کے لئے مرتے رہو…مال کے نقصان پر روتے رہو…
شیطان نے مال کے بارے میں جو’’ پیکج‘‘ بنایا ہے…اس کا خلاصہ ہے
’’سانپ سے سانپ تک‘‘
یعنی دنیا میں تم کالے سانپ کی طرح… مال کے اوپر چوکیدار بن کر بیٹھے رہو…اس مال سے کسی کو فائدہ نہ اٹھانے دو…اور جب یہ سارا مال چھوڑ کر مرجاؤ تو اس مال کو سانپ بنا کر تمہاری گردن میں لٹکا دیا جائے…اور وہ تمہارے چہرے پر کاٹتا رہے…
آج کے کروڑ پتی…ارب پتی اور سرمایہ دار کیا کر رہے ہیں؟… یہی سانپ والا کردار… غور کریں تو آپ کو ان کی شکلیں بھی سانپ جیسی نظر آئیں گی…
صدقہ،خیرات سے انسان کا نفس پاک ہو جاتا ہے… اس کا مال بھی پاک ہو جاتا ہے … آپ تجربہ کر لیں…سخت پریشانی اور سخت بیماری کے وقت اگر اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے مال خرچ کر دیا جائے تو… پریشانی دور اور بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے… دراصل مال کا وہ نوٹ یا حصہ… خود ایک بیماری اور پریشانی تھی…وہ جب تک ہمارے پاس موجود رہتا ہمیں اسی طرح تکلیف میں رکھتا مگر جب وہ چلا گیا… تو وہ خود بھی ہمارے لئے رحمت بن گیا …اور اپنے پیچھے بھی ہمارے لئے … رحمت چھوڑ گیا…
جہنم کی آگ کتنی سخت ہے… مگر صدقہ خیرات سے یہ آگ بجھ جاتی ہے…
قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہو گا…جس کا صدقہ زیادہ اس کا سایہ بھی زیادہ…گناہوں کی آگ کو بھی صدقہ اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو…دراصل انسان جو گناہ بھی کرتا ہے اس گناہ کے برے اثرات اس کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں …مگر صدقہ کی برکت سے وہ گرم اثرات ختم ہو جاتے ہیں … صدقہ میزان حسنات کو بھاری کر دیتا ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صدقہ کرنے والے کی… اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر ومنزلت بہت بڑھ جاتی ہے … صدقہ انسان کو دنیا میں مالدار اور آخرت میں کامیاب بناتا ہے… اور صدقہ ہی اصل میں انسان کے دل کی خوشی ہے…
اہم مگر مشکل محنت
اسلام میں نیکیوں پر مال خرچ کرنے کی… بہت ترغیب ہے…
مسجد پر خرچ کرو…والدین پر خرچ کرو … اہل و اولاد پر خرچ کرو… دینی تعلیم پر خرچ کرو … غرباء مساکین پر خرچ کرو…کھانا کھلانے اور افطار کرانے پر خرچ کرو… مصیبت زدہ لوگوں پر خرچ کرو… پانی کے انتظام پر خرچ کرو… والدین کے ایصال ثواب پر خرچ کرو… وغیرہ
مگر سب سے زیادہ فضائل …جہاد پر خرچ کرنے کے ہیں…سب سے زیادہ اجر جہاد پر خرچ کرنے کا ہے… اور سب سے بڑا مقام جہاد میں مال لگانے کا ہے…
حتی کہ کعبہ شریف پر …اور حجاج کرام کی خدمت پر خرچ کرنے سے بھی زیادہ اجر جہاد پر خرچ کرنے کا ہے…جہاد چونکہ فرض ہے…اس لئے مال سے جہاد کرنا بھی فرض کے درجے میں آتا ہے…
ہمارے ساتھی اور رفقاء جو انفاق فی سبیل اللہ کی مہم میں شریک ہیں…وہ بہت اہم خدمت سر انجام دے رہے ہیں… آج ایک طرف یہ فتنہ سرگرم ہے کہ مجاہدین کو لوگوں سے بھیک نہیں مانگنی چاہیے…انہیں چاہیے کہ بینک لوٹیں،بھتہ لیں… لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کریں … کئی افراد اس طرح کے نعروں میں گمراہ ہو گئے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو گئے… حالانکہ اسلام میں مسلمانوں کے مال کو اغواء وغیرہ کے ذریعے حاصل کرنے کو…شرمناک قسم کا حرام قرار دیا گیا ہے…
دوسرا فتنہ حکمرانوں کی طرف سے ہے کہ… وہ شرعی جہاد پر مال دینے سے لوگوں کو روکتے ہیں …مجاہدین کو چندہ کرنے پر پکڑتے ہیں…اور طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں ڈالتے ہیں … قرآن مجید کی ’’سورۃ المنافقون ‘‘ نے …یہ مسئلہ سمجھایا ہے کہ…کافروں اور منافقوں کے نزدیک مال بڑی چیز ہوتا ہے… وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مجاہدین کے مالی راستے بند کر دئیے جائیں تو ان کا جہاد اور ان کا دین ختم ہو جائے گا…حالانکہ ان کی یہ سوچ غلط ہے…اور زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے…
تیسرا فتنہ…کمزور دل مسلمانوں کی طرف سے ہے کہ… وہ اپنی مساجد اور اپنے منبروں پر …کفار اور منافقین کے ڈر سے… جہاد فی سبیل اللہ کو بیان نہیں کرتے… اسی لئے مسلمانوں کو جہاد کے وہ مسائل بھی معلوم نہیں ہیں…جو قرآن مجید میں نص قطعی کے طور پر صراحت سے مذکور ہیں… مثلاً کئی مسلمان پوچھتے ہیں کہ کیا مجاہدین کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟… یہ مسئلہ قرآن مجید نے صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے کہ… مجاہدین زکوٰۃ کا مصرف ہیں… آج بدعات پر خرچ کرنے کی ترغیب دینے والے بہت ہیں… کروڑوں اربوں روپے بدعات و خرافات پر دین کے نام سے خرچ کئے جاتے ہیں… آج نفل کاموں پر خرچ کرنے کی ترغیب دینے والے بہت ہیں… کروڑوں اربوں روپے نفل عمروں، وہاں کی مہنگی رہائشوں اور مدارس میں انگریزی تعلیم پر خرچ کئے جاتے ہیں… مگر جہاد پر خرچ کی ترغیب سنانے کا کوئی سلسلہ مساجد اور منابر پر موجود نہیںہے…
اب ان تین فتنوں کی موجودگی میں …جہاد کے لئے چندہ کس قدر مشکل ہو جاتا ہے؟… مگر اخلاص اور شوق ہر مشکل کا علاج ہے…
اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا جوش… ناموافق حالات میں مزید بڑھ جاتا ہے…اے دین کے دیوانو! اللہ تعالیٰ آپ کو بہت جزائے خیر عطاء فرمائے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مرغوب اور مہنگی نعمت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 501)
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو جو بہت قیمتی نعمتیں عطاء فرمائی ہیں…ان میں سے ایک انمول نعمت ’’گرمی کے روزے‘‘ ہیں…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمْ
اللہ تعالیٰ کے ہاں جن عبادات کی قدر اور قیمت بہت زیادہ ہے…ان عبادات میں گرمی کے روزے بھی شامل ہیں…
سخت گرمی کے روزے!
موت کی سکرات کو ٹھنڈا کرتے ہیں … موت کے وقت کی گرمی سے اللہ تعالیٰ بچائے وہ دل اور جسم کو پگھلا دیتی ہے…
سخت گرمی کے روزے!
قیامت کے دن کی شدید پیاس اور شدید گرمی کے وقت کا ٹھنڈا شربت ہیں…اُس دن سورج سر پر ہو گا… بالکل قریب، نہ کوئی پردہ… نہ کوئی چھت، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبتے ہوں گے… کھولتا ہوا گرم پسینہ…تب ان لوگوں کو ٹھنڈے جام پلائے جائیں گے…جو گرمیوں کے سخت روزے خوشی خوشی برداشت کرتے تھے…
سخت گرمی کے روزے!
ایمان کی خصلت اور علامت ہیں…یہ ایمان کی چوٹی تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں…یہ ایمان کی حقیقت کا حصہ ہیں…یعنی جو سچا مومن ہے وہ گرمی کے روزوں سے پیار رکھتا ہے…وہ گرم ترین دن ڈھونڈتا ہے تاکہ اس میں روزہ رکھے … وہ گرمی کے دن روزہ رکھ کر دوپہر کا انتظار کرتا ہے تاکہ…گرمی بڑھے تو پیاس زیادہ ہو…اور پھر وہ اس پیاس میں اپنے رب کے پیار کو تلاش کرتا ہے…
سخت گرمی کے روزے!
مومن کو اس مقام پر لے جاتے ہیں … جہاں اللہ تعالیٰ اس پر فخر فرماتے ہیں اور فرشتوں سے کہتے ہیں کہ… میرے بندے کو دیکھو! …اور اسی دن اللہ تعالیٰ جنت کی حور سے اس مومن کا نکاح کرا دیتے ہیں…
سخت گرمی کے روزے!
ان نعمتوں میں سے ہیں کہ… جن کی خاطر اللہ تعالیٰ کے خاص بندے دنیا میں زندہ رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ…اگر یہ نعمتیں نہ ہوں تو ہم ایک منٹ زندہ رہنا گوارہ نہ کریں… جہاد میں لڑنا …رات کو تہجد ادا کرنا…نماز کے لئے چل کر مسجد جانا… اور سخت گرم دن کا روزہ رکھنا…
سخت گرمی کے روزے!
ایک مومن کو ’’صبر‘‘ کا اونچا مقام دلاتے ہیں…اس کے عزم اور ہمت کو مضبوط کرتے ہیں اور اسے ایک کارآمد انسان بناتے ہیں…
اللہ کرے! ہمیں بھی گرمی کے روزوں سے عشق نصیب ہو جائے…تاکہ ہم موت اور آخرت کی گرمی سے بچنے کا انتظام کر سکیں…آئیے چند روایات اور چند حکایات پڑھتے ہیں…کیا عجب! ہم بھی اہل محبت کی یہ نشانی پا لیں…
سچے مومن کی چھ صفات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے… ( یعنی حضرت آقا مدنی ﷺ کا فرمان ہے)
چھ صفات جس شخص میں ہوں وہ حقیقی مومن ہے:
(۱) وضو پورا کرنا (۲) بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا (۳) سخت گرمی میں زیادہ روزے رکھنا (۴) دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا (۵) مصیبت پر صبر کرنا (۶) بحث نہ کرنا اگرچہ تو حق پر ہو ( الدیلمی فی الفردوس)
دوسری روایت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے:
چھ خصلتیں خیر والی ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنا
(۲) گرم دن کا روزہ رکھنا
(۳) مصیبت کے وقت اچھا صبر کرنا
(۴) بحث نہ کرنا اگرچہ تم حق پر ہو
(۵) بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا
(۶) سردی کے دن اچھا ( یعنی پورا) وضو کرنا ( البیہقی)
ایک اور روایت میں ان صفات کو ایمان کی حقیقت قرار دیا گیا ہے کہ جس شخص کو یہ چھ صفات نصیب ہو جائیں تو وہ ایمان کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے ( رواہ المروزی)
ایک عجیب قصہ
یہ واقعہ حدیث شریف کی کئی کتابوں میں کچھ فرق کے ساتھ مذکور ہے… خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو …سمندری جہاد کے سفر پر بھیجا، آپ اپنے رفقاء کے ساتھ کشتی پر جا رہے تھے کہ …سمندر سے ایک غیبی آواز آئی… کیا میں تمہیں وہ فیصلہ نہ سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے اوپر فرمایا ہے؟ …حضرت ابو موسیٰؓ نے کہا…ضرور سناؤ…آواز دینے والے نے کہا…اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جو شخص خود کو کسی گرم دن…اللہ تعالیٰ کے لئے پیاسا رکھے گا ( یعنی روزہ رکھے گا) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم فرمایا ہے کہ …اس کو قیامت کے دن ضرور سیراب فرمائیں گے… حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے بعد گرم دنوں کی تلاش میں رہتے تھے…ایسے گرم دن کہ جن میں لوگ مرنے کے قریب ہوں… آپ ایسے دنوں میں روزہ رکھتے تھے… ( رواہ ابن المبارک وابن ابی شیبہ وعبد الرزاق وفی سندہ کلام)
حضرت آقا مدنی ﷺ کا عمل
بخاری اور مسلم کی ایک روایت کا خلاصہ ہے کہ:
حضور اقدس ﷺ ایک گرم دن میں سفر پر تشریف لے گئے ( رمضان المبارک کا مہینہ اور جہاد کا سفر تھا) گرمی اتنی شدید تھی کہ حضرات صحابہ کرام اپنے ہاتھ اپنے سروں پر رکھتے تھے…مگر اس حالت میں بھی حضور اقدس ﷺ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں تھے … اور بھی کئی روایات میں سخت گرمی کے سفر کے دوران آپ ﷺ کا روزہ رکھنا ثابت ہے…اتنی گرمی کہ بعض اوقات آپ ﷺ نے اپنے اوپر پانی بھی ڈالا…تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہو…
حضرت ابو بکرؓ و عمرؓکا عمل
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تو مستقل یہ معمول تھا کہ:
’’گرمی کے موسم میں روزے رکھتے تھے اور سردیوں میں افطار فرماتے‘‘
یعنی نفل روزوں کے لئے گرمی کے موسم کو منتخب فرما رکھا تھا…حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بھی سخت گرمیوں میں روزے رکھنے کا معمول تھا…حتی کہ سفر میں جب گرم لو کے تھپیڑے آپ کو ایذاء پہنچا رہے ہوتے تھے تو آپ روزہ کی حالت میں ہوتی تھیں…
جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے قریب اپنے بیٹے ’’عبد اللہ‘‘ کو وصیت فرمائی کہ اے پیارے بیٹے… ایمان والی صفات کو لازم پکڑنا…انہوں نے عرض کیا…اے پیارے ابا جی! وہ کونسی صفات ہیں…ارشاد فرمایا
(۱) سخت گرمی میں روزہ رکھنا
(۲) دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا ( یعنی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو)
(۳) مصیبت پر صبر کرنا
(۴) سرد دنوں میں پورا وضو کرنا
(۵) بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا
(۶) شراب نہ پینا
( ابن سعد فی الطبقات)
مجھے گرمی لوٹا دو
حضرت عامر بن عبد قیس رضی اللہ عنہ … حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر بصرہ سے شام منتقل ہو گئے… وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بار بار پوچھتے کہ کوئی حاجت، خدمت ہو تو بتائیں…مگر حضرت عامر کچھ نہ مانگتے …جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصرار بڑھا تو حضرت عامرؓ نے فرمایا: مجھے بصرہ کی گرمی لوٹا دیجئے تاکہ مجھے سخت روزے نصیب ہوں… یہاں آپ کے ہاں روزہ بہت آسان گذر جاتا ہے… حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ …سخت گرمیوں میں نفل روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات بے ہوشی اور غشی طاری ہو جاتی …مگر روزہ نہ توڑتے … اور جب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو فرمایا:اپنے پیچھے ایسی کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جا رہا کہ …جس کے چھوڑنے کا افسوس ہو…سوائے دو چیزوں کے …ایک گرمی کے روزہ میں دوپہر کی پیاس… اور دوسرا نماز کے لئے چلنا… ( بس ان دو چیزوں کے چھوٹنے کا افسوس ہے) ( ابن ابی شیبہ)
اسی طرح کی روایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی ہے کہ وہ اپنی وفات کے وقت اس بات پر افسوس فرما رہے تھے کہ… اب گرمی کے روزے کی پیاس نصیب نہیں ہو گی…
میں کب آپ کی دلہن بنی؟
امام ابن رجب حنبلیؒ لکھتے ہیں…
جنت کی حور اپنے اللہ کے ولی خاوند سے پوچھے گی …کیا آپ کو معلوم ہے کہ کس دن مجھے آپ کے نکاح میں دیا گیا؟…یہ سوال و جواب اس وقت ہو گا جب وہ دونوں جنت میں …شراب کی نہر کے کنارے شان سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے…اور حور جام بھر بھر کر اپنے خاوند کو پلا رہی ہو گی…حور اپنے سوال کا جواب خود ہی دے گی … وہ ایک گرم دن تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو روزہ کی سخت پیاس میں دیکھا تو فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر فرمایا…میرے بندے کو دیکھو! اس نے میری خاطر اور میرے پاس موجود نعمتوں کی رغبت میں …اپنی بیوی، لذت،کھانا اور پینا سب کچھ چھوڑا ہوا ہے…تم گواہ رہو کہ میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے…پس اس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت فرمائی …اور مجھے آپ کے نکاح میں دے دیا…
آخری بات
یہ موضوع بہت میٹھا اور مفصل ہے…ابھی مزید کچھ قصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر رمضان کے مبارک اوقات میں اختصار ہی بہتر ہے…آج کل ہم سب کو گرمی کے روزے نصیب ہیں…یہ بڑی مہنگی نعمت ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی… اس نعمت کی قدر کریں…خوشی اور شکر سے روزے رکھیں… جو تھوڑی بہت تکلیف آئے وہ خندہ پیشانی سے برداشت کریں…شیطان کے اس جال میں کوئی نہ پھنسے کہ…یہ روزے میرے بس میں نہیں ہیں…کئی مرجی قسم کے مفکر بھی یہی فتوی دیتے ہیں… یہ سب ہمیں اس انمول نعمت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں…اگر گرمی کے روزے ہمارے بس میں نہ ہوتے …تو ہمارا رحیم و مہربان رب کبھی ہم پر یہ روزے فرض نہ فرماتا… جب اللہ تعالیٰ نے یہ روزے فرض فرمائے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ روزے ممکن ہیں… اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے سخت گرمی میں روزے بھی رکھتے ہیں اور مزدوری بھی کرتے ہیں… اور ساتھ خوشی اور شکر بھی ادا کرتے ہیں…دین کے دیوانے گرمی کے روزوں کے ساتھ ’’ مہم ‘‘ کی محنت اور حکمرانوں کے ’’جبر‘‘ کو بھی جھیل رہے ہیں…اللہ تعالیٰ ہمت، قبولیت، استقامت اور بہت جزائے خیر عطا فرمائے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مبارک مہینے کا نصاب
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 500)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کو سمجھنے ، پانے ،منانے…اور کمانے کی توفیق عطاء فرمائے…
جھوٹ کے سمندر
ہم آج کل جس ماحول میں ہیں…وہ گویا کہ جھوٹ کا ایک ناپاک سمندر ہے…
سیاست جھوٹ، تجارت جھوٹ، تفریح جھوٹ … بس ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ…

جھوٹ کوئی چھوٹا گناہ تو ہے نہیں…یہ تو لعنت ہے لعنت… محرومی ہے محرومی اور اندھیرا ہے اندھیرا…فرمایا: مومن سے ہر گناہ ہو سکتا ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا… مگر اب تو ہر ہاتھ میں کئی کئی موبائل… اور ہر موبائل جھوٹ کا پہاڑ … ابھی چند دن پہلے عراق کے ایک شہری نے…جو برطانیہ میں مقیم ہے…فیس بک پر ایک جھوٹ چھوڑ دیا…’’شجوہ‘‘ نامی قبضے سے دولت اسلامیہ پسپا … قصبے پر عراقی حکومت کا قبضہ مستحکم… علاقہ چھوڑ کرجانے والے افراد واپس شجوہ کی طرف رواں دواں…دولت اسلامیہ کو ذلت آمیز شکست… اس نے اس جھوٹی خبر کے ساتھ چند نقشے اور تصویریں بھی لگا دیں… بس پھر کیا تھا…لاکھوں افراد اس خبر کو نشر کرنے لگے…کئی افراد نے تو اس جھوٹی دیگ میں مزید چاول بھی ڈال دئیے کہ… شجوہ کی لڑائی میں اتنے مجاہدین مارے گئے … عراقی اور ایرانی شیعوں کی ویب سائٹوں پر فوراً … فتح مبارک کے ہیش ٹیگ لگ گئے… کئی افراد نے اس جنگ میں شرکت کرنے اور بہادری دکھانے کے دعوے بھی نشر کر دئیے… تین چار دن یہ طوفان برپا رہا…تب اس عراقی شہری نے لکھا کہ…میں آپ سب سے معذرت چاہتا ہوں… عراق میں شجوہ نام کا کوئی شہر،قصبہ یا علاقہ ہے ہی نہیں… عراقی زبان میں شجوہ ’’پنیر‘‘ کو کہتے ہیں جو بہت شوق سے کھایا جاتا ہے… میں نے مذاق میں یہ خبر گھڑی تھی… اب میں شرمندہ ہوں…ازراہ کرام! یہ سلسلہ بند کیا جائے…
انداہ لگائیں کہ …جھوٹ کہاں تک ترقی کر گیا… ابھی ایک کمپنی پکڑی گئی ہے…جو بڑی بڑی تعلیمی سندیں اور ڈگریاں جاری کرتی تھی … معلوم ہوا کہ اس نے جو یونیورسٹیاں بنا رکھی تھیں … ان کا روئے زمین پر وجود ہی نہیں ہے…وہ سب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر قائم تھیں…اور سالہا سال سے تعلیمی اسناد جاری کر رہی تھیں… جی ہاں! وہی ڈگریاں جن کے فخر میں قرآن و سنت کی تعلیم کا (نعوذباللہ) مذاق اڑایا جاتا ہے…
آج کل کئی دن سے بی بی سی پر ایک خبر لگی ہوئی ہے…اور ایسی مضبوط لگی ہے کہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتی… حالانکہ جب کابل کے گیسٹ ہاؤس کو مجاہدین نے نشانہ بنایا تو وہ خبر صرف چند گھنٹے رہی … پھر اُڑا دی گئی… اسی طرح مجاہدین کی دیگر کارروائیوں والی خبریں…یا تو لگتی ہی نہیں … اور اگر کسی مجبوری سے لگانی پڑیں تو…دوچار گھنٹوں میں انہیں ہٹا دیا جاتا ہے…مگر یہ خبر کئی دن سے لگی ہوئی ہے کہ…ایران،طالبان کی مدد کر رہا ہے…یہ خبر یہودی اخبار ’’وال سٹریٹ جنرل‘‘ نے گھڑی ہے… ایران، افغانستان کے طالبان کو اسلحہ بھی دے رہا ہے اور پیسے بھی… اندازہ لگائیں …کیسی جھوٹی اور فتنہ انگیز خبر ہے… ایران امارت اسلامی افغانستان کا ہمیشہ سے عملی دشمن رہا ہے… اور اب بھی اس کی یہ دشمنی ٹھنڈی نہیں پڑی… مگر امارت اسلامیہ افغانستان کو بدنام کرنے…اور افغانستان میں ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے جنگجو کھڑے کرنے کے لئے …یہ خبر بنائی گئی ہے…تاکہ مجاہدین کو آپس میں لڑایا جا سکے… اور لوگوں میں یہ بات عام ہو کہ امارت اسلامی افغانستان… ایران کی حامی ہے اس لئے اس کے خلاف بھی (نعوذباللہ) جہاد کیا جائے…
الغرض …ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے … ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ… سچائیوں ،رحمتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینہ رمضان المبارک تشریف لا رہا ہے…تاکہ ہم جھوٹ کے سمندر سے بچ کر… سچ اور رحمت کے جزیرے پر آئیں…اور اپنے محبوب رب سے ’’مغفرت‘‘ کا انعام پائیں… اس لئے جھوٹ کے تمام آلات بند کر دیں…جھوٹ پڑھنا، جھوٹ دیکھنا، جھوٹ سننا اور جھوٹ بولنا سب کچھ بند کر دیں … اپنے ٹچ موبائل بند کر کے تالوں میں ڈال دیں … اخباروں ، کالموں ، ڈراموں اور ویڈیو… سب سے تعلق توڑ لیں… اور مغفرت کے موسم سے…خوب خوب فیض یاب ہوں…
کیا معلوم اگلا رمضان ملے گا یا نہیں…
رمضان اور جہاد فی سبیل اللہ
رمضان المبارک اور جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق اور رشتہ بہت گہرا ہے… غزوہ بدر جیسا عظیم معرکہ جو قرآن پاک کا خاص موضوع ہے… رمضان المبارک میں برپا ہوا… حج عمرے کی سعادتیں ساری امت کو’’فتح مکہ‘‘ کی برکت سے ملیں… اور فتح مکہ کا غزوہ رمضان المبارک میں ہوا… وہ بڑے بڑے بت جن سے …ایک دنیا گمراہ تھی …رمضان المبارک میں گرائے گئے… اکثر مورخین کے نزدیک جہاد کا مبارک آغاز بھی رمضان المبارک میں ہوا… جب آپ ﷺ نے …اپنے چچا جان محترم حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی کمان میں …اسلام کا پہلا سریہ روانہ فرمایا… عصماء یہودیہ کے قتل کا واقعہ بھی… رمضان المبارک کا مبارک کارنامہ ہے…یہ دشمن دین خاکہ پرست گمراہ عورت تھی…اسلامی غیرت کا شاہکار سریہ …’’ام قرفہ‘‘ بھی رمضان المبارک میں پیش آیا اور سریہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ…جویمن کی طرف بھیجا گیا تھا…وہ بھی رمضان المبارک میں لڑا گیا… اس سریہ کی خاص بات یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو ’’امیر لشکر‘‘ مقرر فرمایا اور پھر اپنے دست مبارک سے ان کے سر پر عمامہ باندھا…
رمضان اور جہاد کی ایک اور بڑی مناسبت …جو قرآن مجید کے الفاظ سے سمجھ آتی ہے…وہ یہ کہ… دونوں کی فرضیت کے لئے ایک جیسے الفاظ استعمال فرمائے گئے …
فرمایا: کتب علیکم الصیام…تم پر روزہ فرض کر دیا گیا… بالکل اسی طرح فرمایا …کتب علیکم القتال… کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا… اہل تفسیر نے اس میں بہت عجیب نکتے لکھے ہیں … اگر ہم وہ لکھنے میں مشغول ہوئے تو آج کا اصل موضوع رہ جائے گا… بس اتنا یاد رکھیں کہ… قرآن مجید کی ایک ہی سورت…یعنی سورہ بقرہ میں جہاد کی فرضیت بھی موجود ہے… اور رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت بھی… پس دونوں اسلام کے قطعی فریضے ہیں…اور کتب علیکم کے لفظ سے بہت تاکیدی فرضیت معلوم ہوتی ہے … کتب علیکم الصیام کہ تم پر روزہ پورا کا پورا ڈال دیا گیا ہے کہ…یہ روزہ دل سے بھی رکھو، زبان سے بھی…کانوں سے بھی…آنکھوں سے بھی…جسم سے بھی اور روح سے بھی…
بہت آسان نصاب
ہم رمضان المبارک کو کیسے پا سکتے ہیں؟… بڑے لوگوں نے تو بہت محنتیں فرمائیں… ہم اپنے اسلاف اور بزرگوں کے رمضان کا حال پڑھتے ہیں تو شرم اور ندامت سے پانی پانی ہو جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اپنے نفس کو فائدہ پہنچائیں اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کا رسالہ… فضائل رمضان ایک بار ضرور مطالعہ کر لیں… اور کچھ نہیں تو کم از کم رمضان المبارک کا احساس اور شعور ضرور پیدا ہو جائے گا … اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو موبائل اورنیٹ کی لعنت سے بچائے…اور صرف اس کے ضروری اور مفید استعمال کی توفیق عطاء فرمائے… اس ظالم نے علم اور مطالعہ کے اوقات کو برباد کر دیا ہے… رمضان المبارک کے بارے میں قرآنی آیات … اور احادیث مبارکہ پڑھ کر بندہ نے ایک مختصر دس نکاتی نصاب نکالاہے… آپ ایک کاغذ پر یہ نصاب لکھ لیں…اور روزانہ رات کو اپنا محاسبہ کریں کہ…ہم نے اس پر کتنا عمل کیا…بے حد آسان اور ممکن نصاب ہے… پھر اللہ تعالیٰ جس کو توفیق عطاء فرمائے وہ مزید جو کچھ کر سکتا ہو…کرتا چلا جائے…
ہم نے رمضان المبارک میں ان شاء اللہ یہ دس کام روزانہ کرنے ہیں…
(۱)روزہ… یہ فرض ہے اور یہی رمضان المبارک کی اصل عبادت ہے…ساری زندگی کے نفل روزے رمضان المبارک کے ایک فرض روزے کے برابر نہیں ہو سکتے…
(۲) پانچ نمازوں کا باجماعت تکبیر اولیٰ سے اہتمام… ویسے تو یہ ہمیشہ کرنا چاہیے مگر رمضان المبارک میں اسے ایک لازمی سعادت کے طور پر دیکھا جائے کہ جو ہر حال میں حاصل کرنی ہے ان شاء اللہ… یہ عمل ہمارے لئے پورے رمضان کو پانے اور کمانے کا ذریعہ بن جائے گا…
(۳) تراویح… عشاء کی نماز کے بعد باجماعت بیس رکعات… یہ رمضان المبارک کا خاص تحفہ اور انعام ہے… اور اس میں ایک قرآن پاک پڑھنا یا سننا ایک مستقل سنت ہے…
(۴) قرآن پاک کی تلاوت اور قرآن پاک سے خاص تعلق …یہ بڑا مبارک عمل ہے…آگے چل کر ہم اسے کچھ تفصیل سے عرض کریں گے… اگر ہم اپنے ساتھ قبر اور آخرت میں پورا قرآن یا کچھ قرآن لے جانا چاہتے ہیں تو رمضان المبارک میں یہ نعمت پانا آسان ہے…
(۵) سحری کھانے کا اہتمام… سحری کے بہت فضائل اور برکات ہیں یہ ہرگز نہیں چھوڑنی چاہیے…مگر سحری رات کے آخری حصے میں کریں اور زیادہ دبا کر نہ کھائیں کہ سارا دن ڈکار بجاتے رہیں…
(۶) افطار کرانے کا اہتمام… یہ رمضان المبارک میں مغفرت کا خاص تحفہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو افطار کرائیں …خواتین کے تو مزے ہیں ان کو اپنے گھر والوں اور بچوں کو افطار کرانے کا اجر ملتا ہے… کیونکہ وہ اس قدر محنت سے افطار تیار کرتی ہیں…کسی روزے دار کو افطار کرانے کی فضیلت بہت زیادہ ہے… جب دل میں یہ فضیلت حاصل کرنے کا جذبہ ہو…اور یہ شعور ہو کہ اس عمل کی برکت سے مجھے مغفرت مل سکتی ہے تو … انسان خود ہی اپنی استطاعت کے مطابق بہت سے طریقے نکال سکتا ہے… بعض لوگوں کو دیکھا کہ عین افطار کے وقت کسی ویران جگہ جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں …چند کھجوریں،ٹھنڈا پانی یا شربت لے کر…اور پھر اس وقت جو وہاں سے گزرتا ہے اسے افطار کراتے ہیں… آپ افطار کے موقع پر …بعض لوگوں کی جو پُر تکلف دعوتیں کرتے ہیں … اگر اسی رقم سے عمومی افطاری تیار کریں تو… درجنوں افراد کو افطار کرا سکتے ہیں… کئی لوگوں کو دیکھا کہ اس حرص میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ کے پیارے مجاہدین کو …محاذ اور تربیت گاہوں تک افطار پہنچائیں …ہمارے کچھ دوست …جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ کے معتکفین کے افطار اور سحر کا انتظام کرتے ہیں تو سچی بات ہے ان پر رشک آتا ہے…
بہرحال یہ ایک ایسا عمل ہے کہ… جو صرف رمضان المبارک میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے… عام دنوں میں آپ کھانے کا پورا ٹرک تقسیم کر دیں تو رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کو کھلائی گئی ایک روٹی کے برابر نہیں ہو سکتا…عام دنوں میں بھی روزہ رکھنے والوں کو…اگر آپ افطار کرائیں تو وہ بھی اجر کا کام ہے… مگر رمضان المبارک کی افطاری… بہت بڑی چیز ہے… بہت مبارک، بہت خاص…یا اللہ! وسعت اور توفیق عطاء فرما…
(۷) چار چیزوں کی کثرت پہلی چیز …لا الہ الا اللہ کا ورد… دوسری چیز!استغفار تیسری چیز اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال… چوتھی چیز جہنم سے پناہ مانگنا…
(۸) جہاد میں وقت لگانا…یہ اوپر رمضان المبارک اور جہاد کے تعلق میں اشارتاً آ چکا ہے… جہادی محنت میں وقت لگانا… جہاد میں مال لگانا … صدقہ خیرات اور مسلمانوں کے ساتھ غمخواری کرنا، ان کی حتی الوسع مدد کرنا…
(۹) اپنے ملازموں ،ماتحتوں ،گھر والوں پر کام کے معاملے میں نرمی، آسانی اور تخفیف کرنا … کسی مسلمان پر بوجھ زیادہ ہو تو اس کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد کرنا…
(۱۰) شراب خوری، والدین کی نافرمانی،رشتہ داروں سے قطع رحمی…مسلمانوں سے بغض رکھنا …جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا…ان چھ گناہوں سے خاص طور پر بچنا چاہیے کیونکہ یہ رمضان المبارک میں روزہ کی خرابی اور مغفرت سے محرومی کا ذریعہ بن جاتے ہیں…
یہ ہے وہ بہت آسان سا نصاب جو ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ممکن ہے…خواتین نمازوں کو اہتمام سے اول وقت ادا کریں تو ان کا اجر باجماعت ادا کرنے والے مردوں کی طرح ہے … باقی جو اہل ہمت ہیں…ان کے لئے رمضان المبارک کمانے کا سیزن ہے…اعتکاف،قیام اللیل،نوافل،صدقات ، مجاہدے ، ریاضتیں اور بہت کچھ…
تین اوقات باندھ لیں
زندگی کے لمحات چونکہ گنے چنے ہیں…اس لئے ان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے…بلکہ ترتیب سے گزارنا چاہیے…اس رمضان المبارک میں تین اوقات باندھ لیں…یعنی اپنے پر یہ عہد لازم کر لیں کہ فلاں تین اوقات میں بس یہ تین کام کرنے ہیں…ان شاء اللہ
(۱) تلاوت کا وقت… اس میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھیں…جن کی تجوید کمزور اور غلط ہو وہ زیادہ تلاوت کی جگہ اس سال اپنا تلفظ درست کریں …اور اسی وقت میں قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد بھی کر لیں…یہ وقت ایک گھنٹہ ہو یا کم ،زیادہ
(۲) قرآن سمجھنے کا وقت…اس میں قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں…اچھا ہے کہ کسی عالم سے…اگر اس کی ترتیب نہ بنے تو کسی مستند اردو تفسیر سے…اس عمل کی برکت سے آپ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے دل پر آتا محسوس کریں گے…
(۳) چار کاموں کی کثرت کا وقت… اس میں کلمہ طیبہ ،استغفار،جنت کی دعاء اور جہنم سے پناہ … یہ چاروں کام کم از کم تین سو بار سے تین ہزار بار تک…
اس رمضان المبارک میں…بندہ فقیر و محتاج کو بھی اپنی دعاء میں کبھی کبھار یاد کر لیا کریں… آپ کا احسان ہو گا…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول للّٰہ
٭…٭…٭

الحمدللّٰہ،استغفراللّٰہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 499)
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے… ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب شائع ہوگئی اور بہت سے مسلمانوں تک پہنچ گئی
الحمد للہ، الحمد للہ
اس کتاب میں مزید بھی بہت کچھ لکھنے کا ارادہ تھا…مگر کوتاہی ہوئی اور وہ سب کچھ نہ لکھا جا سکا جس کا نقشہ دل و دماغ میں موجود تھا…اللہ تعالیٰ معاف فرمائے
استغفر اللہ، استغفر اللہ

ایک دعاء اپنا لیں
گذشتہ کالم میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ رکھنے کی اہمیت کا بیان تھا …انسان جس نعمت کو پانا چاہے … اس کے لئے پہلا کام یہ کرے کہ اللہ تعالیٰ سے اس نعمت کو مانگے…دعاء بہت بڑی چیز ہے…یہ اگر دل سے ہو تو بڑے بڑے دروازے کھلوا دیتی ہے …مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر شہیدؒ سے ایک دعاء منقول ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ
یا اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے آپ پر سچا توکل اور آپ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ نصیب ہو جائے…
بڑی اہم ،ضروری اور مؤثر دعاء ہے … تجربہ میں آیا ہے کہ جب دل پر غم، مایوسی اور بے بسی کے احساس کا حملہ ہو تو یہ دعاء مانگی جائے…بہت فائدہ ہوتا ہے…
حسن ظن کے مقامات
حضرت ابو العباس القرطبی ؒ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب اور اس کے مواقع کو ایک جملے میں سمیٹنے کی کوشش فرمائی ہے…
اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ
٭ دعاء کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعاء سنتے ہیں اور قبول فرماتے ہیں…
٭ توبہ کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں…
٭ استغفار کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مغفرت عطا فرماتے ہیں…
٭ نیک اعمال کو شریعت کے مطابق کرتے وقت یہ یقین ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو رہے ہیں…
یہ سارے یقین اس وجہ سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور اس کا فضل بے شمار ہے…یعنی جب انہوں نے خود فرما دیا کہ ہم توبہ قبول فرماتے ہیں…بلکہ چاہتے ہیں کہ تمہاری توبہ قبول فرمائیں…ہم استغفار کرنے والوں کو مغفرت عطا فرماتے ہیں…ہم دعاء سنتے ہیں اور پوری فرماتے ہیں…ہم اپنے بندوں کے اعمال کی قدر کرتے ہیں…اور ہمارا فضل بہت عظیم اور بہت بڑا ہے تو پھر بندے کو شک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو شک کرے گا اپنا ہی نقصان کرے گا…فرما دیا کہ … ہمارا بندہ ہم سے جو گمان رکھے گا، ہم اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرمائیں گے …
آئیے! پھر دعاء مانگ لیں:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ
’’الیٰ مغفرۃ‘‘
آج جس کتاب کی بات چل رہی ہے…اس کا نام ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ ہے…سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا:
سَارِعُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ
دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف
اور سورۃ الحدید میں فرمایا گیا:
سَابِقُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ
سبقت کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف…
اس میں چند باتیں سمجھنے کی ہیں…
پہلی بات تو یہ کہ ان آیات سے ثابت ہوا کہ…ہم آج کل جہاں ہیں یہ ہماری جگہ نہیں…یہ ہمارے رہنے کا مقام نہیں…یہ ہماری کامیابی کا میدان نہیں…ہمیں یہاں سے دوڑ کر کسی اور طرف جانا ہے…جہاں ہمارے لئے راحت ہے اور بڑی کامیابی…
پس ثابت ہوا کہ …سب سے پہلے ہمیں اس دنیا میں رہنے، یہاں فٹ اور سیٹ ہونے اور یہاں سب کچھ بنانے کا خیال اپنے دل سے نکالنا ہو گا…
اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں کہ…اس میں یہاں رہنے اور بسنے کی فکر زیادہ ہے یا یہاں سے بھاگ کر کامیابی والے گھر کو بسانے کی فکر زیادہ ہے؟…
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ…انسان کو بہت جلدی جلدی اور بہت تیز تیز وہ اعمال کرنے چاہئیں جن سے مغفرت اور جنت ملتی ہو…بالغ ہونے کے بعد سستی عذاب ہے…وقت گزر رہا ہے…انسان کو چاہیے کہ آرام اور طعام میں زیادہ وقت برباد نہ کرے… اپنے ذہن پر ایک طرح کی جلدی سوار کرے…یہ جلدی نیک اعمال میں ہو کیونکہ ہمارے رب نے حکم فرما دیا کہ… آہستہ نہیں …بلکہ ’’سَارِعُوا‘‘ بہت تیز دوڑو…’’سَابِقُوا ‘‘ سبقت کرو… جنہوںنے اس حکم کو مانا وہ تھوڑی سی عمر میں بڑے بڑے کام کر گئے …اور جنہوں نے اس حکم کو نظر انداز کیا …وہ لمبی عمر پا کر بھی کچھ نہ کر سکے… حضرت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے جب بیت المقدس کو آزاد کرانے کا عزم کیا تو …اپنے اوپر بہت سے جائز اور حلال کام بھی ممنوع کر لئے…تاکہ مغفرت اور جنت والے کام میں تاخیر نہ ہو جائے…
تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ… دنیا مقابلے کی جگہ ہے…کھیلوں کے مقابلے، شکل و صورت کے مقابلے…مال و دولت کے مقابلے… حسب و نسب کے مقابلے…دنیا کے اکثر لوگ ان مقابلوں میں لگ کر برباد ہوتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ’’مقابلہ بازی‘‘ کا شوق رکھا ہے…تو ان آیات میں سمجھا دیا کہ مقابلہ ضرور کرو مگر کھیل کود اور مال و دولت میں نہیں…بلکہ مغفرت پانے میں…جنت پانے میں… دین کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھو!…اور مقابلہ کر کے ،دوڑ لگا کر ان سے آگے بڑھنے کی فکر کرو … اور دنیا کے معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے کمزور افراد کو دیکھو… اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اسی کو کافی سمجھو…
حضرات مفسرین نے …ان دونوں آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ …مغفرت کی طرف دوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ …اُن اسباب کی طرف دوڑو جن سے مغفرت ملتی ہے… ایمان، اخلاص،جہاد میں ثابت قدمی، سود سے توبہ کرنا…کثرت سے استغفار کرنا …وغیرہ… مغفرت کے اسباب کون کون سے ہیں؟
آپ جب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کے سامنے ’’ اسباب مغفرت‘‘ کی پوری فہرست آ جائے گی…اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کی نحوست سے انسان مغفرت سے محروم ہو جاتا ہے… ان کی تفصیل بھی اس کتاب میں موجود ہے…اس کتاب کا ایک بڑا مقصد یہی ہے کہ…مسلمانوں کو ’’مغفرت‘‘ کا مقام اور اس کی ضرورت معلوم ہو …اُن میں مغفرت پانے کا جنون پیدا ہو …ان کو مغفرت مانگنے کی عادت نصیب ہو… اور وہ مغفرت کی طرف بھاگ بھاگ کر لپکنے والے بن جائیں …یاد رکھیں …ایک مسلمان کو ’’مغفرت‘‘ مل جائے تو اسے سب کچھ مل گیا… اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو گیا…
استغفر اللہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ
یا اللہ! آپ سے مغفرت کا سوال ہے… مغفرت کا سوال ہے … مغفرت کا سوال ہے…
رکاوٹوں بھرا سفر
’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب لکھتے وقت خود اپنی ذات کو بڑا فائدہ ہوا
الحمد للہ، الحمد للہ
پھر جن ساتھیوںنے اس کتاب میں معاونت کی… انہوں نے بتایا کہ کتاب کی تصحیح اور ترتیب کے دوران ان اوراق کو پڑھنے سے بہت فائدہ ہوا…یہ بات کئی افراد نے بتائی…
الحمد للہ، الحمد للہ
مگر اس کے باوجود کتاب میں تاخیر ہوتی چلی گئی … یقیناً یہ میری سستی اور کم ہمتی تھی …
استغفر اللہ، استغفر اللہ
دراصل کتاب شروع کرنے کے بعد سے لے کر…اس کی اشاعت تک بہت حوصلہ شکن رکاوٹیں آتی چلی گئیں… دل بے چین تھا کہ یہ کتاب جلدی آ جائے مگر ہر قدم پر کوئی رکاوٹ سامنے آ جاتی… اسی میں کئی سال بیت گئے… اسی دوران کئی افراد نے کتاب کا مسودہ پڑھ لیا اور کتاب جلد تیار کرنے کی فرمائش کی…اللہ تعالیٰ ان تمام افراد کو اپنی مغفرت اور جزائے خیر عطا فرمائے…جنہوں نے مختلف طریقوں سے اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں معاونت کی…بندہ ان سب کا دل سے شکر گزار ہے… مگر آخری سیڑھی بہت اہم ہوتی ہے… یہ سیڑھی انسان عبور کر لے تو پچھلا سارا سفر کا میاب ہو جاتا ہے… لیکن اگر اسی سیڑھی پر اٹک جائے تو پچھلا سفر بھی ندامت اور حسرت بن جاتا ہے… اس لئے آخری سیڑھی پر سہارا بننے والے کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے…برادر عزیز مولانا طلحہ السیف کی قسمت میں یہ نیکی آئی اور انہوں نے آخری سیڑھی کے مرحلے پر …اللہ تعالیٰ کی توفیق سے محنت،جانفشانی اور معاونت کا حق ادا کیا … کتاب کے بکھرے مواد کو مرتب کیا، بار بار پڑھ کر تصحیح اور کتابت کے مراحل سے گذارا…اور ان کی اس محنت کو دیکھ کر مجھے ہمت ملی کہ کتاب کے حصہ اول کو لکھنے بیٹھ گیا…اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت اور بہترین بدلہ عطا فرمائیں…بندہ کے مکتب اور معاون نے بھی بہت محنت کی…اور آخر میں شعبہ نشریات کے ذمہ داروں نے دل وجان لگا کر…کتاب کو تیار کیا…
بندہ ان سب کے لئے …اور وہ معاونین جن کا تذکرہ نہیں آ سکا … سب کے لئے دل کی گہرائی سے دعاء گو اور شکر گزار ہے…
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُمْ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُم،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُم
وہ جو رہ گیا
ارادہ تھا کہ کتاب میں یہ چند چیزیں بھی شامل کی جائیں
(۱) قرآن مجید میں آنے والے وہ اسماء الحسنی جن کا تعلق ، مغفرت، توبہ اور معافی سے ہے… ان اسماء الحسنی کے تفصیلی معانی اور معارف لکھنے کا ارادہ تھا مثلاً
الغفور،الغفار،التواب،العفو،واسع المغفرۃ،اہل المغفرۃ،خیر الغافرین
(۲) حضرات انبیاء علیہم السلام کے استغفار کو قرآن مجید نے بہت اہتمام سے بیان فرمایا ہے…ان کی الگ فہرستیں بنا کر…ان کے معارف لکھنے کا ارادہ تھا… مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لئے بار بار استغفار فرمایا…پھر اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا تو اس سے رک گئے…مگر اس کے باوجود قرآن مجید بار بار ان کے اس استغفار کو بیان فرماتا ہے… اس میں بڑے اہم نکتے ہیں…اگر ہر مسلمان بیٹا اپنے والد کا ایسا خیر خواہ بن جائے تو وہ کتنے اونچے مقامات پا سکتا ہے… کاش مسلمان بیٹے اور بیٹیاں اپنے مسلمان والدین کے لئے اسی اہتمام سے استغفار کرنے والے بن جائیں…
(۳) توبہ اور استغفار کے بارے میں آیات تو بہت ہیں…آپ ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کا مطالعہ کریں گے تو تقریباً سب آیات سامنے آ جائیں گی … مگر ان میں سے بعض آیات …توبہ اور استغفار پر بہت سے الٰہی قوانین اور نکات پر مشتمل ہیں…ارادہ تھا کہ ایسی دس آیات کی تفسیر مفصل لکھ دی جائے
(۴) توبہ اور استغفار دونوں کا معنی ایک ہے…یا دونوں میں فرق ہے؟ یہ بات ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ میں واضح کر دی گئی ہے… مگر اس میں اور بہت سی تفاصیل تھیں جو تیاری کے باوجود نہ آ سکیں…
دراصل رکاوٹیں زیادہ تھیں…اور کتاب میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی …اس لئے جو کچھ تیار تھا اسی کو پیش کر دیا گیا …
الحمد للہ، استغفر اللہ،الحمد للہ، استغفر اللہ
اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ … اس کتاب سے مجاہدین کو جہاد میں ترقی اور استقامت کا راستہ ملے گا… سلوک و احسان کا ذوق رکھنے والوں کو معرفت کا آئینہ نصیب ہو گا…مایوسی کے گڑھوں میں سسکنے والوں کو امید کی سیڑھی ہاتھ آئے گی… گناہوں میں پھنسے اور الجھے ہوئے مسلمانوں کو دلدل سے باہر نکلنے کی راہ نظر آئے گی… مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا مسلمانوں کو… روشنی اور راحت کا جزیرہ دکھائی دے گا… ان شاء اللہ…
اور اہل دل کو دل کی غذا ملے گی… کیونکہ یہ قرآن مجید کی دعوت ہے…یہ احادیث مبارکہ کی روشنی ہے… اور یہ مسلمانوں کی ایک اہم ترین ضرورت ہے…یا اللہ! قبول فرما …یا اللہ! مغفرت نصیب فرما…
آمین یاخیرالغافرین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 505)
اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں…اللہ اکبر کبیرا…زمین سے بڑا آسمان ہے…اور سات آسمانوں میں ہر دوسرا آسمان پہلے آسمان سے بڑا ہے…پھر ’’کرسی‘‘ ان سات آسمانوں سے بڑی ہے…
وَسِعَ کُرْسِیِّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض
اور پھر اللہ تعالیٰ کا عرش…کرسی سے بھی بڑا ہے…اس کی صفت ’’عظیم ‘‘ ہے…العرش العظیم اور اللہ تعالیٰ عرش سے بھی بڑا ہے،سب سے عظیم ،اعظم ،الکبیر،العلی،العظیم …اور عظمت سے بھی بڑا مقام ’’جلال ‘‘ کا ہے…اور اللہ تعالیٰ جلال والا ہے ذوالجلال والاکرام…
آئیے ہم پکارتے ہیں…
یَا عَلِیُّ،یَا عَظِیْمُ ، یَا کَبِیْرُ، یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامْ…اِغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا
انسان بہت چھوٹا ہے…بہت کمزور،بہت ضعیف،بہت عاجز
خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفا
انسان جہالت کے اندھیرے اور ظلم کی تاریکی میں پڑا ہے…اور ظلم بھی سب سے زیادہ اپنی جان پر کرتا ہے…
اِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا
انسان گناہوں میں لتھڑا ہوا…غلاظت سے بھرا ہوا…اور فناء سے لرزتا ہوا اپنی زندگی گزارتا ہے
مگر تعجب ہے ،پھر بھی فخر کرتا ہے،اکڑتا ہے ، اتراتا ہے اور میں میں کرتا ہے
ضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّنَسِیَ خَلْقَہ
کاغذ صاف اور خالی ہو تو اس پر ’’قرآن مجید‘‘ بھی لکھا جا سکتا ہے…برتن جتنا سستا کیوں نہ ہو لیکن خالی ہو اور پاک ہو تو اس میں زمزم بھی بھرا جا سکتا ہے…اور شہد بھی…
پس جو انسان خود کو کمزور سمجھے،عاجز سمجھے،بے کمال سمجھے،فانی سمجھے،جاہل سمجھے…وہی اللہ تعالیٰ سے سب کچھ پاتا ہے…اسی کو روشنی ملتی ہے،قوت ملتی ہے،کمال ملتا ہے،بقاء ملتی ہے،علم ملتا ہے … کیونکہ اس نے اپنے نفس اور دل کو…اپنے مالک کے لئے خالی کیا…مالک نے سب کچھ بھر دیا ، سب کچھ عطاء فرما دیا…مگر جو ہر وقت اپنی خوبیاں سوچے،اپنے آپ کو باکمال سمجھے ،اپنی طاقت پر نظر کرے…اپنے حسن اور عقل پر نظر کرے…اپنی صلاحیتوں پرفخر کرے کہ میں ایسا ہوں…میں ویسا ہوں…میں فلاں سے اچھا ہوں… میں عقل والا سمجھدار ہوں …میں بہت مقبول ہوں…میں بہت ذہین اور باصلاحیت ہوں…میں نیک ہوں ، متقی ہوں… تو ایسے آدمی کو…کچھ بھی نہیں ملتا …کچھ بھی نہیں… اس نے اپنے دل میں اپنی ذات کو بھر رکھا ہے…اس نے اپنے نفس میں …اپنی بڑائی کو بھر رکھا ہے… ایسے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں آتی… اللہ تعالیٰ ایک ہے … وہ شرک اور شرکت کو گوارہ نہیں فرماتا…اس لئے ایسے افراد کو نہ روشنی ملتی ہے،نہ نور ملتا ہے،نہ نفع والا علم ملتا ہے… اور نہ وہ عزت…جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ہے… اس لئے بہت عجیب بات فرمائی…
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا…اس نے اپنے رب کو پہچان لیا…
یہ جملہ ’’حدیث ‘‘ ہے یا نہیں؟…علماء نے بڑی بحث فرمائی ہے… اکثر اہل علم کے نزدیک اس کا حدیث ہونا ثابت نہیں…
مگر سب کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ…یہ حدیث ہے یا اسلاف میں سے کسی کا قول…مگر یہ ہے بڑے پتے کی بات،بڑے راز کی بات…اور بہت حکمت والی بات…
جس نے خود کو پہچان لیا کہ…میں کچھ بھی نہیں…وہی اپنے رب کو پہچانے گا کہ وہ سب کچھ ہے…انسان سجدے میں جا کر بھی…یہ سوچے کہ میں ایسا ہوں،میرے اندر یہ کمال ہے…میرا یہ مقام ہے…تو ایسے سجدے سے اس نے کیا پایا؟…
ایک طرف حضرات صحابہ کرام تھے… جہاد جیسے عظیم عمل میں مصروف…ایک سخت جنگ میں مشغول…اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی قیادت سے محظوظ… اتنے سارے فضائل جمع ہوں تو کچھ نہ کچھ نظر اپنی ذات پر چلی جاتی ہے… مگر وہ حضرات صحابہ کرام تھے…خندق کھودتے وقت اشعار پڑھ رہے تھے کہ…یا اللہ! اگر آپ کا فضل نہ ہوتا تو نہ ہم ہدایت پاتے…نہ نماز پڑھتے نہ سجدے کر سکتے… آپ کا ہی خالص احسان ہے کہ … ہمیں ہدایت دی…ہمیں نماز کی توفیق دی … ہمیں جہاد میں لگایا… ہمیں سجدے کا شرف بخشا… ہمیں حضرت آقا مدنی ﷺ عطاء فرمائے … یعنی ہمارا کوئی کمال نہیں… ہم میں جو خوبی بھی ہے یہ سب آپ نے عطاء فرمائی ہے… دیکھئے! یہ ہے اپنے نفس کی پہچان اور اس کے ذریعہ اپنے رب کی پہچان…حضرت ہجویریؒ نے سمجھایا کہ… اپنے نفس کو کالا اندھیرا سمجھو…اور اس میں جو خیر ہے اسے اپنے رب کا نور سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کالی سلیٹ پر…اپنے نور اور روشنی سے فلاں فلاں خیر لکھ دی ہے…جو اپنے نفس کو پہچان لے کہ میں بہت کمزور ہوں…صرف پیشاب رک جائے تو میری ساری فوں فاں اور شان ختم ہو کر …نیم ذبح شدہ جانور کی طرح تڑپنے لگتی ہے… وہی آدمی پہچان سکتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ کتنا طاقت والا ہے … ہم تو تیز ہوا میں اپنے سر کی ٹوپی نہیں تھام سکتے …جبکہ اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے تھام رکھا ہے… پس جو اپنے آپ کو ناقص سمجھے، کمزور سمجھے،عاجز سمجھے،خالی سمجھے… وہی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچان سکتا ہے…شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ…ہم اپنی ذات کو نہ پہچانیں…یعنی مٹی، گارے اور حقیر نطفے سے بنا ہوا انسان…تکبر میں مبتلا ہو جائے…کسی انسان کا تکبر میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ…اس بے وقوف انسان نے خود کو نہیں پہچانا…کیونکہ تکبر کا معنی ہے بڑائی … اور انسان میں ’’بڑائی‘‘ والی کوئی چیز ہے ہی نہیں…کس قدر دھوکے میں ہے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے … چند افراد کو کھانا کھلا کر خود کو نعوذ باللہ رازق اور سخی سمجھنے لگے …جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے چند الفاظ سیکھ کر خود کو عالم و علامہ سمجھنے لگے…جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تھوڑی سی شان کو دیکھ کر…خود کو عزت اور عبادت کے لائق سمجھنے لگے…اسی لئے فرمایا…
جہنم کی آگ کو سب سے پہلے…ریاکار عالم ،ریاکار شہید اور ریاکار سخی کے ذریعے بھڑکایا جائے گا…ان لوگوں نے اپنے نفس کو نہ پہچانا اور اپنی خوبیوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر…اس کے بدلے لوگوں سے اکرام چاہا تو…باوجود اتنے بڑے اعمال کے برباد ہو گئے…اور فرمایا کہ
جو چاہے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں تو وہ ابھی سے جہنم میں اپنا ٹھکانا پکڑ لے…
ہاں بے شک… جو شخص اپنی ذات کو پہچانتا ہو…وہ کبھی بھی خود کو اس لائق نہیں سمجھے گا کہ لوگ اس کی تعظیم میں کھڑے ہوں…بلکہ وہ چاہے گا کہ وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہوں…کیونکہ وہی تعظیم اور بندگی کا حقدار ہے…ہم میں جو کچھ اچھا نظر آ رہا ہے سب اسی کا عطاء فرمودہ ہے… وہ جب چاہے چھین لے اور جب چاہے اس اچھائی کو بڑھا دے…
آپ نے کبھی غور کیا کہ… انسان میں نا شکری کیوں پیدا ہوتی ہے؟ وجہ بالکل سیدھی ہے کہ وہ جب خود کو نہیں پہچانتا کہ… میں تو بندہ ہوں ، غلام ہوں، فانی ہوں… تو وہ خود کو…طرح طرح کی چیزوں کا حقدار سمجھنے لگتا ہے کہ… مجھے یہ بھی ملے اور وہ بھی ملے …پھر جب اس کے نفس کی یہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ…شکوے کرتا ہے،ناشکری کرتا ہے،ناقدری کرتا ہے…اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے جھگڑے کرتا ہے…
یہ اگر خود کو پہچان لے کہ…میں کچھ بھی نہیں ، کسی چیز کا مستحق نہیں تو یہ فوراً اللہ تعالیٰ کو پہچان لے گا کہ… وہی حاجت روا ہے،فضل والا ہے،کرم والا ہے کہ اب تک مجھے اتنا کچھ دیا… میرے اتنے گناہوں کے باوجود مجھے کھلایا، پلایا اور چھپایا… تب اسے شکر نصیب ہو گا…اور شکر نعمتوں کی چابی اور نعمتوں کا محافظ ہے…آپ نے کبھی غور کیا کہ …انسان میں حرص کیوں پیدا ہوتی ہے؟ …وجہ صاف ہے کہ انسان اپنی ذات کو نہیں پہچانتا کہ میں ایک فانی زندگی کے چند سانسوں کے لئے دنیا میں آیا ہوں…اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں جو نعمتیں عطاء فرمائی ہیں وہ آخرت کی تیاری کے لئے ہیں… اس کی بجائے وہ یہ سوچتا ہے کہ …میرے اندر بڑے کمالات ہیں،بڑی عقل ہے… میری زندگی بہت لمبی ہے… میری بڑی اونچی قسمت ہے کہ میرے پاس یہ یہ چیز آ گئی ہے…اب مجھے اور آگے بڑھنا ہے…اور زیادہ سے زیادہ ان چیزوں کو حاصل کرنا ہے… تب وہ مزید کی حرص میں مبتلا ہو کر ایسا جہنمی مزاج انسان بن جاتا ہے کہ…مزید کی خواہش اس میں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے… آپ آج دنیا کے کسی ارب پتی کے پاس جا بیٹھیں …وہ کوئی نئی چیز بنانے یا خریدنے کی فکر میں اتنا پریشان ہو گا …جتنا کوئی غریب آدمی اپنی اکلوتی جھونپڑی کے لئے بھی نہیں ہوتا… کیونکہ حرص جب آ جائے تو پھر قبر کی مٹی ہی اسے ختم کر سکتی ہے …حکایت لکھی ہے کہ…ایک آدمی کے کھیت میں ایک جنگلی مرغی اڑ کر آ گئی…اس نے پکڑ لی اور گھر لے آیا… وہ مرغی روزانہ سونے کا ایک انڈہ دیتی تھی… وہ اگر اپنے آپ کو پہچانتا تو اسی انڈے کو…اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ کر شکر کرتا…مگر اس میں حرص جاگ اٹھی … مجھے اور زیادہ مالدار ہونا چاہیے… اب روزانہ ایک انڈے پر صبر اس پر بھاری پڑا… اور اس نے زیادہ انڈوں کی لالچ میں مرغی ذبح کر دی…تب اس کے پیٹ سے ایک انڈہ بھی نہ نکلا…اور اس طرح وہ روزانہ کے رزق سے بھی محروم ہو گیا…مشہور مسلمان بادشاہ …اور عالم اسلام کے قابل فخر ماہر فلکیات ’’الغ بیگ‘‘ نے اپنے بیٹے کو بڑا مال اور اختیارات دے رکھے تھے …بیٹا نالائق نکلا… اپنی ذات کو نہ پہچاننے والا …اس میں ’’مزید‘‘ کی حرص پیدا ہو گئی…اور باپ کا وجود اسے بھاری لگنے لگا…حالانکہ اس کے پاس جو کچھ تھا اس کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کے باپ کو بنایا تھا…ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ’’ذرائع‘‘ اور راستوں کی قدر کرتے ہیں… جس طرح ہمیں پانی اگرچہ زمین سے آتاہے… مگر پائپ ،ٹوٹیاں وغیرہ اس پانی کو ہم تک پہچانے کا ذریعہ ہیں تو ہم …ان کی قدر اور حفاظت کرتے ہیں…اور یہ کہہ کر انہیں نہیں پھینک اور توڑ دیتے کہ…تم کونسا ہمیں پانی دیتی ہو؟… پانی تو ہمیں زمین سے آتا ہے… شیطان کی ایک بڑی صفت جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے …وہ اپنے ماننے والوں میں ہر وقت خوف پھیلاتا ہے…اللہ تعالیٰ کا نہیں مخلوق کا خوف …اور پھر اس خوف کے ذریعہ وہ ان سے بڑے بڑے گناہ کرواتا ہے… وہ حریص آدمی میں یہ خوف ڈالتا ہے کہ …دیکھو! جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں وہ تم سے چھن نہ جائیں… اور فلاں فلاں آدمی تم سے تمہاری نعمتیں چھین سکتا ہے… پس ان افراد کو ختم کر دو، ہٹا دو، ٹھکانے لگا دو تاکہ تمہاری نعمتیں سدا بہار ہو جائیں… حضرت آقا مدنی ﷺ نے سمجھایا کہ حرص سے بچو، اسی کی وجہ سے پہلے لوگوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور حرمتوں کو پامال کیا …الغ بیگ کے بیٹے کے دل میں یہ خوف آیا کہ …آج تو ٹھیک ہے لیکن اگر کل میرے باپ نے مجھے معزول کر دیا …تو میرا کیا بنے گا… اسی خوف میں اس نے اپنے محسن باپ کو قتل کر دیا… امت مسلمہ کو ایک قابل فخر رہنما سے محروم کر دیا…اور خود حکمران بن بیٹھا… مگر چھ ماہ میں مارا گیا…دنیا بھی گئی اور آخرت بھی برباد…
اس نے خود کو نہ پہچانا…اپنے رب کو نہ پہچانا …اپنی عقل کو اپنا رہنما بنایا اور اپنا اور مسلمانوں کا اتنا بڑا خسارہ کر بیٹھا… اگر وہ معزولی کے خوف کی بجائے دل میں یہ خوف لاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت دے سکتے ہیں تو کبھی بھی یہ گناہ نہ کرتا…
اس لئے ضروری ہے کہ …ہم اپنے نفس کی کمزوری ،عاجزی،تاریکی، فنا اور بے سمجھی پر…غور کریں…ہم اپنی خوبیوں کو…اپنی محنت اور اپنی کمائی نہ سمجھیں… ہم اس بات کا یقین دل میں بٹھائیں کہ…ہم نے جلد مر جانا ہے… ہم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں غور کریں کہ…کیسی کامل مکمل اور عظیم ذات ہے…پھر اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں غور کریں اور اپنے اندر کی ایک ایک تاریکی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھیک مانگیں…
دل کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُوراً
بدن کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی بَدَنِی نُوْراً
آنکھوں کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی بَصَرِی نُوْراً
اسی طرح مانگتے جائیں… اور پاتے جائیں … اور جب بھی شیطان بھٹکانے لگے… اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی اور کلمہ طیبہ کے قلعہ میں آ جایا کریں کہ…ظالم تو جو کچھ مجھے سمجھا رہا ہے وہ غلط ہے…سچ یہ ہے کہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ ہے…میں کچھ بھی نہیں… اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے… اور کوئی نہیں … اللہ تعالیٰ ہی قادر اور باقی ہے… باقی سب کچھ فانی ہے…
الحمد للہ…رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بہت کرم فرمایا… اتنے گرم اور مشکل حالات میں ایسی دستگیری فرمائی کہ…تمام ساتھی دل و جان سے مہم میں لگے رہے…اس سے امید ہوئی کہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رحمت ’’جماعت‘‘ کو نصیب ہے…اب ہم نے اس نعمت کی کس طرح قدر اور حفاظت کرنی ہے… اس کے لئے ’’رنگ و نور‘‘ میں چند اسباق کا یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے…آج کا پہلا سبق ’’معرفت نفس‘‘ آپ نے پڑھ لیا…اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے… اگلا سبق اس بارے میں ہے کہ …کام کی مضبوطی اور ترقی کے لئے اب انفرادی ملاقاتوں …اور اجتماعات کی ضرورت ہے… ہماری دعوتی ملاقات کیسی ہو؟ … ہمارے دعوتی اجتماعات کیسے ہوں؟…اس کا بیان اگلے ہفتے ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
ایمانی جھونکے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 504)
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
رمضان المبارک جا رہا ہے…بس چار پانچ دن رہ گئے…اور عید کا دن آ رہا ہے تاکہ…اہل ایمان خوشیاں منائیں…اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اسلام اور ہدایت کی نعمت عطاء فرمائی … اُن کو ایمان اور جنت کے لئے چن لیا…اور اُن کو اپنے فضل سے کامیابی عطا ء فرمائی…
لِتُکَبِّرُوْاللّٰہَ عَلیٰ مَا ھَدٰکُمْ
تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت بیان کرو …اس نعمت کے شکرانے میں کہ اُس نے تمہیں ہدایت عطاء فرمائی…

اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
دو باتیں دل میں بٹھانی ہیں…پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے…اور دوسری یہ کہ ہدایت کی نعمت…یعنی اسلام کی توفیق ملنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے…
جس کے دل میںیہ دونوں باتیں بیٹھ چکی ہیں …وہ شکر ادا کرے…لمبے لمبے سجدے کرے…
اورجس کے دل میں ابھی کچھ کھوٹ ہے…وہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا کہتا تو ہے مگر دل میں اور بہت سے افراد کی…اور بہت سی چیزوں کی بڑائی بٹھا رکھی ہے…اور جو اسلام کو سب سے بڑی نعمت کہتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں…تھوڑی سی مالی تنگی، تھوڑی سی جسمانی آزمائش اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر گھبرا کر…اسلام کی نعمت کو بھول جاتا ہے… اس نعمت پر شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے…وہ توبہ کرے،استغفار کرے،آنسو بہائے اور اپنے دل کا علاج کرے…ارے دنیا بھر کی ساری نعمتیں اسلام کے مقابلے میں خاک کے ایک ذرے برابر بھی نہیں…اور دنیا بھر کی ساری طاقتیں اللہ تعالیٰ کے سامنے مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں…
دل سے پڑھیں:
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
شیطان نے دنیا کی چیزوں کو…لوگوں کی نظر میں مزین، معزز اور خوشنما کر دیا ہے…طرح طرح کے گھر اور بنگلے…طرح طرح کی گاڑیاں اور سواریاں…طرح طرح کے لباس اور ملبوسات …طرح طرح کے رنگ برنگے لائف اسٹائل… لوگ انہی پر مر رہے ہیں…انہی پر جی رہے ہیں … اور پھر موت کا جھٹکا آتا ہے تو…اندھیرا ہی اندھیرا چھا جاتا ہے…وہ جن کے پاس ’’اسلام‘‘ کی روشنی نہیں ہے…وہ مرتے ہی خوفناک اندھیروں میںڈوب جاتے ہیں…فرشتے اُن کی ارواح کو لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے …اُن کی ارواح کو وہاں سے دھکا دے کر گرا دیتے ہیں…اللہ، اللہ…اتنی اونچائی سے گرنے والوں کا حال کیا ہو گا؟… وہ گرتے گرتے زمین پر آتے ہیں تو زمین بھی ان کو نیچے دھکا دے دیتی ہے…کیونکہ زمین ان کے وجود سے تنگ ہوتی ہے…وہ بڑے حکمران ہوں یا بڑے بڑے سائنسدان… وہ اربوں پتی سرمایہ دار ہوں یا سونے چاندی میں کھیلنے والے سیٹھ… وہ بڑے نامور فنکار ہوں یا مشہور کھلاڑی یا اداکار… اسلام کی نعمت سے محروم مرے تو اب عذاب ہی عذاب ہے…
اور ایک ہی آواز ہے:
فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَاباً
یہ عذاب بھگتو اور یاد رکھو! اب ہم تمہارا عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے…اب اس عذاب سے خلاصی کی کوئی صورت نہیں … گاڑیاں، بنگلے ، نوکر،ملازم اور سیلوٹ کرنے والے اب تمہارے کسی کام کے نہیں…اور جو چیز کام کی تھی وہ تمہارے پاس موجود نہیں…پھر اُن کی ارواح کو مقام ’’سِجِّیْن‘‘ پر لے جا کر قید کر دیا جائے گا…یہ ایک بڑا پتھر ہے…جس سے ہر وقت دھواں نکلتا رہتا ہے…اور اس کے اردگرد گرمی ہے،آگ ہے اور عذاب ہے… یا اللہ! آپ کی پناہ…یا اللہ! اسلام کی نعمت پر اربوں بار شکر…دل کی گہرائی سے شکر…بے شمار شکر…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
اللہ تعالیٰ نے زمین پر رزق اُتارا ہے… کسی کو زیادہ دیا اور کسی کو تھوڑا… جن کو اسلام اور ایمان کی نعمت ملی…ان کو اگر رزق کم بھی ملا تو انہوں نے فکر نہیں کی…لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے …اور کافروں کے سفارتخانوں پر لائن لگانے کی بجائے… انہوں نے اپنے ضروریات کو محدود کر لیا … وہ اپنے اسلام پر راضی رہے… تب ان کے فقر و فاقے میں ایسا سکون رکھ دیا گیا جو بادشاہوں کو …خوابوں میں بھی نہیں ملتا…
آپ ﷺ نے ایک انصاری صحابی کو دیکھا کہ … فقرو فاقے اور بیماری کی وجہ سے بہت سخت حالت میں ہیں…نہ مال تھا نہ صحت… آپﷺ نے ان کی ایسی خستہ حالت دیکھی تو ایک وظیفہ ارشاد فرمایا کہ… یہ پڑھو گے تو حالت سدھر جائے گی… اُن انصاری کا ایمان بہت بلند تھا … فرمانے لگے میں ان دو چیزوں یعنی فقروفاقے اور بیماری کے بدلے بڑی سے بڑی نعمت لینے کوبھی تیار نہیں…حضرت آقا مدنی ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی کہ…جو اپنی ایسی حالت پر اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اس کا مقام بڑے بڑے اعمال کرنے والوں سے بھی بہت اونچا ہے…
آج جس کے پاس عید کا نیا جوڑا نہ ہو وہ آہیں بھرتا ہے…جس کے پاس عید کا نیا جوتا نہ ہو وہ آنسو بہاتا ہے…جس کے بچوں کو عید پر زیادہ عیش نہ ملے وہ شکوے برساتا ہے…یہ نہیں سوچتا کہ… اصل نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہر غریب اور ہر امیر کو وافر عطاء فرمائی ہیں…اسلام کی نعمت، ایمان کی نعمت، قرآن کی نعمت،رمضان کی نعمت… روزوں اور تراویح کی نعمت… جہاد کی نعمت… ان نعمتوں کو ہر غریب سے غریب آدمی بھی حاصل کر کے… آخرت کا بادشاہ بن سکتا ہے…
پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
بھائیو! اور بہنو! عید کا دن آ رہا ہے…خوشی اور مسکراہٹ کا دن…
اس دن ایمان والوں کو دیکھ کر زمین بھی مسکراتی ہے…آسمان بھی مسکراتا ہے…فضائیں اور ہوائیں بھی مسکراتی ہیں… ارے زمین سے لے کر عرش تک جشن کا سماں ہوتا ہے کہ…ایمان والوں کو پورے ایک مہینہ کے روزے نصیب ہوئے …ایک مہینہ کی تراویح نصیب ہوئی…ایک مہینہ کی مقبول عبادت نصیب ہوئی… اور آج ان سب کو ’’انعام‘‘ ملنے والا ہے… سبحان اللہ! سب سے بڑا انعام…جی ہاں! مغفرت کا انعام…اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو گی… تقریب انعامات کا دن…اس سے بڑا جشن کیا ہو گا… اپنے محبوب رب کی رضا کا دن…اس سے بڑی فرحت اور کیا ہو گی کہ اپنے رب کی تکبیر اٹھانے اور اپنے رب کا شکر ادا کرنے کا دن…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
عید کے دن پہلا کام یہ کہ… دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور زبان پر اس کی ’’تکبیر ‘‘ ہو…دنیا کی ہر طاقت کا رعب دل سے نکال دینا ہے… ارے سائنس نے ایسی کوئی ترقی نہیں کر لی کہ ہم نعوذباللہ اسے سجدے کرتے رہیں…جب بجلی نہیں تھی تو لوگوں کے پاس روشنی کا انتظام آج کے زمانہ سے زیادہ اچھا تھا…کوئی اندھیرے میں نہیں مرتا تھا…لوگ سفر کرتے تھے…اور بہت صحت مند تھے… وہ آج کے لوگوں کی طرح پلاسٹک کی بوتلیں اور گیس کے سلنڈر نہیں تھے… منوں وزنی تلواریں ہاتھ کے پنکھے کی طرح گھماتے تھے…اور بھاری کمانوں سے تیروں کی بوچھاڑ کرتے تھے… سائنس ہر زمانے میں موجود رہی ہے…کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کا زمین پر خلیفہ ہے… اور اپنی ضرورت کے مطابق سمندروں، پہاڑوں،ہواؤں اور عناصر کو اپنے کام میں لاتا رہتا ہے…آج کی سائنس تو دہشت گردی ہے اور غلاظت …پورے خطہ زمین کو زہریلی گیسوں سے بھر دیا …اور انسان کو ایک بے وزن کھلونا بنا دیا … افسوس کہ مسلمانوں نے عمومی طور پر جہاد کو چھوڑ رکھا ہے… اگر زمین پر جہاد ہوتا تو زمین کی حکومت عقلمند انسانوں کے ہاتھ ہوتی جو…سائنس کو انسان کا غلام بناتے نہ کہ…انسان کو سائنس کا غلام…
اور اب تو نعوذباللہ کئی بد عقل لوگ… دین اور قرآن کو بھی سائنس کا غلام بنانے پر تلے ہیں …اپنے دل سے ان سب بے حیا اور بد کار کافروں کی عظمت نکالنی ہے…امریکہ اور یورپ کی عظمت دل سے ختم کرنی ہے…یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے اڑتا ہوا غبار بھی نہیں… اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور اللہ ایک ہے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
عید کا دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ… اپنے دل کو … حقیقی نعمت یعنی اسلام کی یاد دلا کر خوش کرنا ہے … عید کا دن رونے پیٹنے اور دنیا کے غموں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا دن نہیں… یہ شکر اور خوشی کا دن ہے… اور شکر اور خوشی ان نعمتوں پر جو اصل اور قیمتی نعمتیں ہیں… الحمد للہ ہمارے پاس کلمہ طیبہ ہے …الحمد للہ ہمیں رمضان المبارک ملا…الحمد للہ ہمیں روزوں کی توفیق ملی… الحمد للہ ہمیں رمضان المبارک میں جہاد میں نکلنے یا جہاد کی خدمت کی توفیق ملی… ہمیں زیادہ تلاوت،زیادہ صدقے اور زیادہ عبادت کی توفیق ملی… ہمیں حضرت آقا مدنیﷺ جیسے نبی ،قائد اور رہبر ملے…اللہ اکبر یہ کتنی بڑی نعمت ہے؟… دنیا بھر کے کافر ہزار دولت کے باوجود …حضرت آقا مدنی ﷺ سے محروم ہیں… آپ بتائیے اس سے بڑی محرومی اور کیا ہو سکتی ہے؟…حضرات صحابہ کرام کو جب حضور پاک ﷺ مل گئے تو انہوں نے کیسی عظیم قربانیاں دے کر…اس نعمت کی قدر کی…
آج کوئی نظم پڑھ رہا تھا کہ …سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ کو کفن مبارک میں دیکھا ہو گا تو…ان پر کیا گزری ہو گی؟… یہ الفاظ سن کر دل تڑپنے لگا اور آنکھیں رونے لگیں… بلال نے تو بڑی قربانیاں اٹھا کر حضرت آقا مدنیﷺ کو پایا تھا… ہم نے کیا قربانی دی؟ … حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ بھی نہ رہ سکے… محاذوں پر چلے گئے کہ کب شہادت ملے اور حضرت آقا مدنی ﷺ سے ملاقات ہو… اور جدائی کا یہ بھاری زمانہ ختم ہو … ہم جب چاہیں آپ ﷺ پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں …اور وہاں سے جواب بھی آتا ہے…یہ کتنی بڑی نعمت ہے…
عید کے دن ان بڑی بڑی عظیم نعمتوں کو یاد کر کے… اپنے دل کو خوشی پر اور اپنے ہونٹوں کو مسکراہٹ پر لانا ہے…ہم لاکھ گناہگار سہی…مگر الحمد للہ مسلمان تو ہیں…حضرت آقا مدنی ﷺ کے امتی تو ہیں…یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
رمضان المبارک آیا…اور اب جا رہا ہے … مگر رمضان المبارک کا اختتام عید کی خوشی پر ہو گا…بس اسی سے یہ سبق سیکھیں کہ…ہم بھی دنیا میں آئے اور ایک دن ضرور یہاں سے چلے جائیں گے… کیا ہمارا اختتام بھی عید جیسی خوشی پر ہو گا؟ … جی ہاں! اگر ہم اپنی پوری زندگی رمضان المبارک کی ترتیب پر گزاریں… خوشی خوشی شریعت کی پابندی برداشت کریں…اور ان پابندیوں کو اپنے لئے نعمت سمجھیں… کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا… کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا… ہر وقت نفس کی خواہشات پوری نہیں کرنی… ہروقت لذتوں کی فکر میں نہیں رہنا… پس جو اس طرح پابندی والی زندگی گزارے گا…اس کی موت کا دن،رمضان المبارک کے بعد والے دن کی طرح ہو گا… یعنی عید کا دن… خوشی کا دن… پابندیاں اٹھ جانے اور عیش و عشرت ملنے کا دن… تب اس کی روح اس دن خوشیاں مناتی ہوئی… تکبیر پڑھتی ہوئی مقام ’’عِلِّیِّیْن‘‘ کی طرف لے جائی جائے گی…یہ مقام آسمانوں کے اوپر ہے …وہاں ایک کتاب رکھی ہوئی ہے…ہر مومن کی روح کو وہاں لے جا کر…اس کتاب میں اس کا نام لکھ دیا جائے گا… اور پھر قیامت تک اس کے درجے کے مطابق…کسی اچھی جگہ قیام کی ترتیب بن جائے گی…یا اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما لیجئے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
رمضان المبارک کی رات ہے…اس لئے اپنی آج کی مجلس بھی مختصر کرتے ہیں… بس آج کی آخری بات یہ ہے کہ…تھوڑا سا سوچیں! رمضان المبارک تو سب پر آیا… کافروں پر بھی آیا اور مسلمانوں پر بھی… اہل تقویٰ پر بھی آیا اور فاسقوں فاجروں پر بھی…مگر یہ رمضان المبارک کس کے لئے…رحمت اور خوشی کا ذریعہ بنا؟… یقیناً مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں میں سے بھی ان کے لئے جنہوں نے …رمضان المبارک کی قدر کی…اور اس میں قربانی دی…روزہ کی حالت میں بھوک پیاس کی قربانی…راتوں کو جاگ کر نیند کی قربانی… عبادت میں لگ کر راحت کی قربانی… صدقہ خیرات دے کر مال کی قربانی… جہاد میں نکل کراور جہادی محنت میں لگ کر…جان و دل کی قربانی… جنہوں نے قربانی دی رمضان ان کا ہو گیا…اور ان کے نامہ اعمال کی روشنی بن گیا… اور ان کے لئے آخرت میںمحفوظ ہو گیا …مگر جنہوں نے نہ رمضان المبارک کو مانا…نہ اُس میں روزہ اور عبادت کی قربانی دی… ان کے لئے رمضان جیسی نعمت بھی…کسی کام نہ آئی… بس اسی طرح ہم میں سے ہر ایک کے پاس زندگی کی نعمت موجود ہے…جو اس میں قربانی دے گا وہ اس زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پا لے گا… اور جو اس زندگی کی نعمت کو…فضول خواہشات میں ضائع کر دے گا…وہ مرتے ہی زندگی سے اور ہر طرح کے آرام سے محروم ہو جائے گا…
الحمد للہ ہماری جماعت کے پاس…زندگی کو زندگی بنانے کا بہترین نصاب موجود ہے…
کلمہ طیبہ…اقامت صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کی محنت…
یہ ایک جامع نصاب ہے… یہ کامیابی والا عقیدہ،کامیابی والا ماحول…اور کامیابی والا راستہ دیتا ہے…آئیے! اس عظیم محنت میں شامل ہو جائیے…تاکہ…زندگی کی انمول نعمت… ہمارے لئے واقعی ہمیشہ کی نعمت بن جائے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
لاالہ الااللّٰہ ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭