صوم عاشوراء؛ فضائل و مسائل


عاشوراء عشر سے ماخوذ ہے “فاعولاء” بالمد کے وزن پر عاشر کے معنی میں ہے۔ موصوف محذوف کی صفت ہے یعنی اللیلة العاشوراء۔ اس سے مراد محرم کی دسویں تاریخ ہے۔ (فتح الباری 212/4۔۔ معارف السنن 109/6)۔
احناف کے نزدیک رمضان کا روزہ فرض ہونے سے قبل عاشوراء کا روزہ فرض تھا۔ (بخاری حدیث نمبر 1489۔ موطا محمد 372 ) ۔۔۔ صوم رمضان کی فرضیت کے بعد عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور استحباب باقی رہا۔ پھر استحباب کے بھی تین درجے ہیں۔
1۔۔   :یوم عاشوراء سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد روزہ رکھے یعنی نو، دس، گیارہ محرم، تین دن روزہ رکھے۔
2۔۔۔ :دوسرا درجہ یہ ہے کہ عاشوراء کے ساتھ یا تو نو کو یا گیارہ کو روزہ رکھا جائے ۔
3۔۔۔ :تیسرا درجہ یہ ہے کہ صرف عاشوراء کا روزہ رکھاجائے لیکن چونکہ اس دن یہود بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور یہودیوں کے ساتھ مخالفت کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اس لئے تنہا عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی ہے لیکن روزہ کا ثواب اس سے بھی مل جائے گا۔ (مظاہر حق جدید 771/2 )۔
لہذا مذکورہ دو طریقوں میں سے حسب سہولت کسی بھی طریقہ سے عاشوراء کے روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
عاشوراء کے روزہ کی بڑی فضیلت ہے
مسلم شریف وترمذی شریف کی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنے سے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 481۔ ترمذی حدیث نمبر 743)
امام ترمذی نے عاشوراء کے روزہ کی فضیلت وترغیب کے بارے میں آٹھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت حدیث کا حوالہ دیا ہے لیکن حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مذکورہ حدیث اصح مافی الباب ہے،
ایک سال کے گناہ معاف ہونے کا مضمون صرف حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے دوسری روایتوں میں یہ مضمون نہیں آیا یے۔
الغرض عاشوراء کے روزہ سے ایک سال پچھلے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اگر ساتھ میں سچی توبہ بھی کرلے تو ان شآء اللہ کبیرہ گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کا ہمیشہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
1۔۔صوم عاشوراء ۔
2۔۔ذی الحجہ کے نو روزے۔
3۔۔ہر ماہ کے تین روزے۔
4۔۔نماز فجر سے پہلے کی دو رکعات سنتیں۔ (مشکوة ۔صفحہ 178)
عاشوراء کے دن گھر والوں پر کشادگی کرنے سے پورے سال روزی میں کشادگی ہونے کی حدیث ابن مسعود، ابوھریرہ، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم سے رزین اور بیہقی نے روایت کی ہے لیکن فنی حیثیت سے ضعف ہے۔سیوطی نے دوسرے طرق شواھد بھی بتائے ہیں لیکن پھر بھی محدثین اسے ضعیف ہی مانتے ہیں۔ دیکھئے تلخیص کتاب الموضوعات لابن الجوزی للذھبی حدیث نمبر 594۔۔اللئالی المصنوعة 111/2۔۔المقاصد الحسنہ صفحہ 674۔۔تنزیہ الشریعہ 157/2۔۔الفوائد المجموعہ صفحہ 98۔تمام المنة  صفحہ 410۔۔۔
البتہ حافظ ابن عبد البراور دار قطنی نے حضرت عمر سے اس طرح کا خود ان کا قول نقل کیا ہے اور اس کی سند بھی قابل قبول ہے. (کتاب الفتاوی 485/1 )
اس لئے ثواب کی نیت سے تو نہیں لیکن حصول وسعت رزق کی نیت سے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وسعت رزق کے اور بھی کئی نافع ترین نسخے ہیں ان میں سب سے کامیاب ترین نسخہ ترک گناہ یعنی تقوی ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: کشادگی رزق والی حدیث اگرچہ مضبوط نہیں لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ……… لہذا اس دن اگر گھر والوں کھانے میں ضرور وسعت کرنی چاہئے۔ اس سے آگے لوگوں نے جو چیزیں اپنی طرف سے گھڑلی ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں۔ (اصلاحی خطبات 87/14)
عاشوراء کی اس قدر فضیلت تو ثابت ہے باقی اس سے آگے بڑھ کے یوں کہنا کہ عاشوراء کے روزہ سے ساٹھ سال کے روزے ایک ہزار حاجی دس ہزار شہید ساتوں زمین وآسمان کے بقدر ثواب کا ملنا تو یہ سب واہیات ہے۔ علامہ ذھبی نے سب کو موضوعات میں شمار کیا ہے.
دیکھئے تلخیص کتاب الموضوعات لابن الجوزی للذھبی حدیث نمبر 503۔۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد صابر نظامی القاسمی