’’بسم اللہ‘‘ والا کرشماتی عمل

مولانا ابوجندل شفیق (شمارہ 534)
اللہ تعالیٰ کریم ذات ہے، جب رحمت کی بارش برساتے ہیں تو پہلے آثار نمودار ہوتے ہیں ، ہوائیں چلنا شروع ہوتیں ہیں ، بادلوں کی گھٹائیں اٹھتی ہیں ، ہواؤں کے جھونکے انہیں ادھر کو لے جاتے ہیں جہاں بارانِ رحمت برسانے کا ایزدی فیصلہ ہوتا ہے۔ ہرمشکل کے بعد آسانی ،تنگی کے بعد کشادگی، غموں کے بعد خوشیوں کی برسات۔ شاعر کہتا ہے:
اذا اشتدت بک البلوی
ففکر فی الم نشرح
فعسر بین یسرین
اذا فکرتہ فافرح
ترجمہ: جب آزمائشیں شدت اختیار کر جائیں تب سورہ الم نشرح میں غور کر (لفظاً بھی اور معناً بھی) عسر دو یسروں کے درمیان ہے یعنی تنگی ایک ہے آسانیاں دو ہیں جب اس میں غور کرے گا تو خوشی سے جھوم اٹھے گا۔ (کہ میرے رب نے ہر تنگی کے ساتھ دو آسانیاں رکھ چھوڑی ہیں)
آمدم برسر مطلب انڈیا کے پارلیمنٹ حملے کے بعد پاک و ہند افواج بارڈروں پر آپہنچی تھیں جنگ کے آثار ھویدا ہو چکے تھے لگتا تھا کہ آج گتھے کہ کل گتھے۔ اس کا نزلہ ہم بیچاروں پر آ گرا، تب ہم لوگ ضلع اودھم پور کی جیل میں تھے۔ پاکستانیوں کو اٹھایا اور دو ساتھیوں (بھائی جمال شہیدؒ اور بھائی عبد الحیّ جھنگوی) کے علاوہ باقی اسیران کو جودھ پور ( صوبہ راجھستان ) جا پھینکا۔ مذکورہ دو اسیران کو ضلع حضور باغ لے گئے۔تین چار سال بعد بھائی جمال شہیدؒ کو بھی جودھ پور جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس جودھ پور جیل میں آئے دن تنگیاں مشکلات ہر آنے والا افسر نیا حربہ آزماتا ۔جیل کیا تھی مشکلات کا پٹارہ تھا۔ جماعت کی طرف سے مداوے کی ہر ممکن کوشش ہوتی رہی۔ پر ہٹ دھرمی بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ پارسل آئے۔ جیل والوں نے وصول کر لیا پھر وہ چوہوں کی خوراک بنتے رہے۔ آخر ہر عروج کو زوال ہوتا ہے ظلم کے جبڑے ٹوٹے۔ جماعت کی کوششیں ،امیر محترم کی دعائیں رنگ لائیں، پارسل ملے چھوہوں کے کھائیںسامان۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ وقت گزرتا رہا حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ جیل میں تعلیم و تعلّم کا لگایا ہوا امیر جیش حفظہ اللہ کا پودا تناور درخت بن چکا تھا۔ جس کی شاخیں قریباً ہر اس جیل میں ہیںجس میں ہمارے ساتھی (جو جیل میں جیش سے منسلک ہو چکے تھے) منتقل ہو چکے تھے، پہنچ چکی تھیں۔ ان شاخوں میں سے ایک شاخ جودھ پور جیل میں بھی تھی،عجیب اتفاق آج کا یہ مضمون پیر کے دن لکھا جا رہا ہے ، ہاں وہ دن بھی پیر کا دن تھا۔ پیر کے دن جیل میں پریڈ ہوتی ہے۔یعنی ایس پی جیل کا دورہ قیدیوں کو بلاکوں میں لائن لگوا کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ کہاں جاتا ہے با ادب ، ہوشیار مگر کچھ سر پھرے بے ادب اور گستاخ ہوتے ہیں جن کا عمل بتاتا ہے ’’ظلم کے ضابطے، ہم نہیں مانتے‘‘ پر پتہ ہے اس کی قیمت کیا چکانا پڑتی ہے؟ آپ خود سمجھ دار ہیں میں کیا بتاؤں۔
ایسا ہی ہوا ۔ پریڈ میں ایس پی اپنے پروٹوکول کے ساتھ ہمارے بلاک نمبر دو جودھ پور جیل میں آیا۔ ہماری کلاس لگی ہوئی تھی،سنتری نے ایس پی کے داخلے سے پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ ساتھی لاین میں کھڑے تھے ایک ساتھی اپنی کتابیں سمیٹنے میں ذرا لیٹ ہو گیا ،اس کے کندھے پر رومال رہ گیا تھا۔ ایس پی ہر ایک سے سوال کر رہا تھا کہ کچھ کہنا ہے؟جواب میں سب یہی کہہ رہے تھے کہ’’ سب ٹھیک‘‘ اس خبیث سے کسی نئی چیز کا سوال کا مطلب تھا نئی تنگی۔ ہوتے ہوتے رومال والے ساتھی کے پاس آ پہنچا۔ اس نے جب لفٹ نہ کرائی تو خجالت میں آ گیا ۔رومال پر اعتراض اٹھا لیا ۔ یہ کیا ہے؟ جواب: رومال کندھے پر کیوں ہوتا ہے؟ اس پر آپ کو کیا اعتراض؟ اتارو اسے۔ اس ساتھی نے کہا یہ ہمارا مذہبی شعار ہے نماز میں کام آتا ہے۔ نہیں اتار سکتا، خیر ایس پی نے سنتریوں کو اشارہ کیا اور زبردستی اُتروا لیا گیا۔ بہر کیف گستاخی ہو چکی تھی۔ اچھی خاصی منہ ماری۔اسی دوران باقی حضرات اسیران نے بھی ایمانی غیرت کا ثبوت دیا۔معاملہ بڑھتا چلا گیا اس نے ’’ایک‘‘ سمجھ کر دبانے کی کوشش کی۔ پر کیا معلوم تھا اسے کہ آقا مدنی ﷺ کے یہ سچے عاشق آقا کے ہر فرمان پر لبیک کہہ اٹھتے ہیں۔ قربان جاؤں آقا ﷺ تیرے فرمان پر : ’’المومنون کجسد واحد ان اشتکی راسہ اشتکی کلہ ‘‘ ۔ مومن تو ایک جسم کی مانند ہیں درد سر میں ہو تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ معاملہ کفر اسلام کا تھا ایک مسلمان بھائی کا تھا۔ بول اٹھے: یہ سراسر زیادتی ہے برداشت نہیں کریں گے۔ کافر مشرک ہکا بکا رہ گیا۔اسے لگ رہا تھا کہ میں نے جیسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے کہ ہر کوئی کاٹنے کو آ رہا ہے۔ بیچ بچاؤ کے لئے ڈی ایس پی نے رول اداء کیا۔ ذرا سمجھ دارنکلا، معاملے کو ٹھنڈا کرنے میں لگ گیا۔ ایس پی ویسے بھی فشارِ دم کا مریض تھا۔ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ معاملہ صرف ساتھی کا نہ تھا استاذی شاگردی کا بھی تھا ایک لاغر نحیف ساتھی یہ تک کہا گیا کہ ہم نے بندوقیں گولیاں بھی دیکھیں ہوئی ہیں۔ مارنا ہے تو لے آؤ ہم نہیں ڈرتے۔ ہم ایسی زیادتی برداشت نہیں کرتے۔
معلوم ہوا جیلوں میں اگرچہ جسم کمزور ہو جاتے ہیں، پر ایمان چٹانوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ دنیا دار کہتا ہے :جان پہلے ۔پَر خدا پرست کہتے ہیں: ایمان پہلے!
ہاں جس نے بھی کہا ٹھیک ہی کہا:
اِدھر آ ستم گر، ہنر آزمائیں
تو تیر آزما،ہم جگر آزمائیں

وہ جو ’’بسم اللہ‘‘ کا عمل مل گیا۔ ہاں راز تھا ایک پوشیدہ جو حضرت کی وساطت سے اللہ تعالیٰ نے اسیران کو عطاء فرما دیا۔
’’بسم اللہ‘‘ والا کرشماتی عمل(۲)
مولانا ابوجندل شفیق (شمارہ 535)
نارِ نمروذ میں حضرات ابراہیم علیہ السلام کے لئے جنت کے مزے پیدا کردینا قدرت خداوندی س
ے کیا بعید؟ اور کیا مشکل؟ وہ تو سزا دینا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے آگ میں مزے کرا دئیے۔
ایس پی اپنا غصہ وہاں تو اس وقت نہ نکال سکا، البتہ تین ساتھیوں کو وہاں سے نکلوا کر بلاک نمبر ۲ کے سیلوں میں بطور سزا بند کروا دیا۔ دیگراِن میں سے کچھ حضرات کو یہ کہنے پر کہ اگر ان ساتھیوں کو سیلوں میں بند کرنا ہے تو ہم بھی ساتھ جائیں گے۔ ایس پی نے انہیں اس بلاک نمبر ۲ سے نکال کر ۲/۱ بلاک کی بیرک میں بند کر دیا۔ ان تین ساتھیوں کو سیلوں میں بند کر کے جیل حکام کو چین نہیں آ رہا تھا۔ کبھی کوئی افسر سیلوں کا چکر لگانے آتا تو کبھی کوئی، بعض تو ہمدردانہ مشورہ دیتے: صاحب سے معافی مانگ لو یہاں سے نکلوا دیں گے مگر یہ جواب سن کر مایوس ہو مڑے کہ ہم یہاں ٹھیک ہیں بس ہمارا سامان کتابیں یہاں منگوا دو۔چند دن بند رکھا گیا۔ وہاں کچھ دیر کھولا جاتا۔ گرمی مچھروں کی بھرمار وغیرہ سب برداشت مگر (منتِ طوفاں نہ کریں گے)
اللہ تعالیٰ کی میزبانی ایک خاص مہربانی۔ ہفتہ عشرہ گذرا۔ ڈی ایس پی آیا ان تینوں کو ایک سیل میں اکٹھا کر دیا۔ کچھ دیر کے لئے بلاک میں چکر لگانے کی اجازت بھی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے جیل کی جیل میں سلویٰ (جنگلی کبوتر) سے میزبانی کا انتظام کر دیا، جیل میں صبح کا ناشتہ بھنے کالے چنے قیدیوں کو دئیے جاتے۔ اکثر کیڑوں والے ہوتے اس میں سے جو ٹھیک ہوتے کھا لئے جاتے باقی کبوتروں کی دعوت، اس لالچ میں کبوتر قریب آنے لگے، اس بلاک میں فقط ان تین ساتھیوں کو بطور سزا رکھا گیا تھا ان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ سنتری کا دل بھی خالی بلاک میں لگنے کا نہ تھا۔ وہ ان ساتھیوں کو کھول کر ساتھ والے بلاک جس میں ہندو قیدی تھے اور دیگر سنتریوں سے گپ لگانے، وقت بتانے چلا جاتا۔ تب ان تین ساتھیوں کا کھیل شروع ہو جاتا۔ ایک گیٹ پر پہرا دیتا دوسرا کھڈے میں گھستے شکار کا پتہ دور کھڑے ہو کر دیتا اور تیسرا تھا شکاری۔ سالوں سے گوشت کا منہ نہ دیکھا تھا اور اب کبھی روزانہ تو کبھی وقفے سے گوشت کھایا جا رہا تھا۔ دوسرے ساتھی پریشان کہ ساتھیوں کو نہ جانے کس حال میں رکھا گیا ہے۔ ہمارا دشمن خوش کہ تنگی میں رکھا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے نار نمروذ کو گلزار بنا دیا تھا۔ وہ چیز کھلا رہا تھا جسے شکار کرنا انڈیا کے قانون میں کم سے کم چھہ ماہ کی سزا تھی۔ سوالات کی یقیناً بھرمار ہو گی کہ کیسے پکڑتے؟ پھر ذبح ؟ پھر جہاں ماچس رکھنا جرم تھا آگ؟ چولہا؟ کبوتروں کے کھم پر کہاں؟ پکتے وقت میں سنتری آ جاتا ، دیکھ نہ بھی سکے تو پکنے کی خوشبو تو بلاک میں داخل ہوتے آ جاتی ہے اسکا کیا ہوتا؟
وہاں رہتے پندرہ سولہ کبوتروں پر تو تقدیر پر وارد ہوئی تو کبھی پکڑے بھی گئے؟ ان سب کے جواب میں یہ جملہ کافی ہو گا کہ کھلانے والی ذات کون تھی؟ جب عقیدہ پختہ تو پھر انتظامات کی قدرت بھی اسی کے پاس، سو وہ بھی ہوتے رہے۔ ایک واقعہ تفسیر معارف القرآن ( مفتی محمد شفیع) میں پڑھاتھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور کی طرف آگ معلوم کر نے گئے، وہ کہاں آگ تھی وہ تو نور کی تجلی تھی لینے آگ گئے مل نبوت گئی کہ فرعون کے پاس جائیے دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دیجئے اور جانا بھی یہیں سے سیدھے۔ فرمانے لگے اے میرے اللہ! جنگل اور رات کا اندھیرا، رات بھی ٹھٹھرتی ہوئی اور میرے بچے تنہا؟ مطلب یہ تھا کہ کوئی خبر گیری اور کوئی سنبھالنے والا نہیں وہاں ، فرمایا (وہاں موجود ایک پتھر تھا) اس پتھر پر اپنی لاٹھی مارو۔ وہ مار دی، دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس میں سے ایک اور پتھر نکلا فرمایا پھر لاٹھی مارو، پھر ماری تو ایک اور پتھر اس میں نکلا تیسرے پتھر کو بھی لاٹھی مارنے کا حکم ہوا تو لاٹھی یا سرائیکی زبان میں کاٹھی پھر ماری وہ پتھر بھی پھٹا۔اس میں سے ایک کیڑا منہ میں سبز پتہ لیے ہوئے رب کی نعمتوں کے مزے اڑا رہا تھا۔ بس اطمینان ہو گیا کہ میرے بچوں کا انتظام بھی وہ ذات خود کرے گے جو تین پتھروں میں اس کیڑے کو غذا پہنچا رہی ہے، حضرت موسی علیہ السلام رب کے دئیے ہوئے مشن دعوت الی اللہ کی طرف وہیں سے چل دئیے۔
اٹھ باندھ کفن کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جی ہاں! جیل پتھروں سے زیادہ اندھیری تو نہ تھی۔ ہو بھی تو وہ قدرت مہربان تو پھر کیا مشکل کیا خلجان۔ لو بسم اللہ والا عمل اور اس کی برکات و کرشمات پھر رہ گئے۔ انتظار فرمائیں ابھی بہت کچھ باقی۔
کئی بار کوشش ارادے کے باوجود لکھ نہ پا رہا تھا بعض احباب ناراض بھی ہوئے۔ 26-02-16 کے دورہ تربیہ میں نہ جانے کس اللہ والے کی دعاء لگ گئی۔ بندہ اس وقت بتوفیق اللہ تربیہ میں شریک ہوا ۔ آرام کے وقفے میں کچھ باتیں لکھنے کی سعادت مل گئی۔ اللہ تعالیٰ اس سعادت کو دوام عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
٭…٭…٭