چند سبق آموزحکایات


جمع و ترتیب:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
شاہ فہد کا جواب:…
سوئٹرز لینڈ میں قائم قادیانیوں کی تنظیم نے ایک خط کے ذریعے شاہ فہد سمیت سعودی عرب کے چند اعلیٰ حکام سے درخواست کی کہ ان کے مذہب کے رہنما کو سرکاری مہمان کی حیثیت سعودی عرب آنے کی دعوت دی جا ئے۔جب یہ خط شاہ فہد کے پاس گیا تو انہوں نے جواب دیا :…’’آپ مرزا قادیانی ملعون کا طوقِ غلامی اتار کر آئیں تو دل وجان سے مہمان نوازی کریں گے،اگر مرزا قادیانی کا طوق غلامی پہن کر آنا چاہتے ہو تو یاد رکھو! یہ سرزمین حجاز ہے ،ہمارے پیشرو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسیلمہ کذاب اوراس کی پارٹی کو جو حشر کیا تھا وہی تمہار اکریں گے ۔‘‘
ان کے اس کے جواب پرمرزائیوں کے اوسان خطا ہو گئے۔(جو اب تک خطا ہیں۔)
ہیرا اورپتھر:…
ایک قافلہ اندھیری سرنگ سے گزررہا تھا،لوگوں کے پیروں میں کنکریاں چھبیںتو کچھ نے اس خیال سے کہ یہ پیچھے آنے والوں کو تکلیف نہ دیں،نیکی کے خیال سے اٹھا کر اپنے سامان میں رکھ لیں۔کچھ نے زیادہ اٹھائیں،کچھ نے کم۔جب وہ اندھیری سرنگ سے باہر آئے تو دیکھا جنہیں وہ کنکریاں سمجھ رہے تھے وہ کنکریاں نے ہیر ے ہیں…اب جنہوں نے کم اٹھائی تھیں وہ پچھتائے اور جنہوں نے بالکل نہیں اٹھا ئی تھیں وہ اور بھی زیادہ پچھتائے۔پس دنیا کی مثال ایسی اندھیری سرنگ کی ہے جہاں نیکیوں کی صورت میںہیرے موتی بکھرے ہو ئے ہیں۔انسان اپنی زندگی میں جتنی نیکیاں کرے گا وہ آخرت میں ہیرے موتی جیسی قیمتی ثابت ہوں گی۔کم نیکیاں کرنے والا پچھتائے گا اس نے زیادہ نیکیوں سے اپنا دامن کیوں نہ بھر لیا۔سو نیکیاں کرتے رہو،بظاہر نہایت معمولی نظر آنے والی نیکی سے بھی منہ نہ موڑو کہ آخرت میں وہ نہایت بیش قیمت ہو گی۔
مجھ جیسا کو ئی پیر بھی نہیں ملے گا:…
حضرت مولا نا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ تعالیٰ سے ایک شخص نے بیعت کی جو حکومت کے کسی بڑے عہدے پر تعینات تھے ۔کچھ عرصہ کے بعد اس نے ایک لاکھ روپیہ ہدیہ منی آرڈر کے ذریعے بھیجا۔حضرت تھانوی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اس کا ہدیہ واپس بھیج دیا ۔ان صاحب کو ہرگز یہ توقع نہ تھی،انہوں نے خط میں لکھاکہ میں نے ایک لاکھ روپے بھیجے جو آپ نے واپس کردیے،آپ کو مجھ جیسا کو ئی مرید نہیں ملے گا۔حضرت نے جواب میں لکھا کہ میں نے روپے واپس بھیج دیے ہیں،آپ کو مجھ جیسا کو ئی پیر بھی نہیں ملے گاجو ایک لاکھ روپے کو ٹھوکر مار دے۔(از:… تحفہ اساتذۂ کرام)
پریشان کن ایصال ثواب:…
اس کے والد کا انتقال ہوا تو وہ پریشان ہو گیا ،والد کے انتقال کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے قل کی وجہ سے۔اس کی مالی حالت ان دنوں میں اچھی نہیں تھی۔ میں نے مشورہ دیا کہ قل فرض یا سنت توہے نہیں اگر جیب اجازت نہیں دیتی تو نہ کر ومگر وہ کہنے لگا:’’لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کے لیے قرآن خوانی اورا یصال ثواب بھی نہ کرایا اس لیے مدرسے کے دس بچے بلا کرقرآن خوانی لازمًا کراؤں گا ،رشتے داروں کو ضرور دعوت دوںگا،دو دیگ چاول کافی ہو ں گے،سب کو ایک ایک پلیٹ مل جا ئے گی۔‘‘قل والے دن میں نے اس کچھ زیادہ ہی پریشان دیکھا وجہ پوچھی تو بولا’’ابا جی کو پانچ قرآن کا ثواب ہو رہا ہے میں نے کہا یہ پریشانی کی بات نہیں،بلکہ خوشی کی بات ہے وہ روہانسا ہو کر بولا:خوشی تو ابا جی کو ہو گی میرے لیے تو پریشانی ہی کی بات ہے دس کی بجائے پچاس طالب علم قرآن خوانی کرنے پہنچ گئے ہیں۔
قرآن کریم کی طاقت:…
ایک عرب مسلمان لڑکی لندن میں زیر تعلیم تھی ایک مرتبہ وہ اپنی سہیلی کے ہاںایک تقریب میں گئی کوشش کے باوجود وہ وہاں سے جلدی نہ نکل سکی ۔جب وہ اس فنکشن سے فارغ ہو کر نکلی تو رات آدھی سے زیا دہ ہو چکی تھی۔اس کا گھر کافی دور تھا۔سب سے جلدی گھر پہنچنے کا ذریعہ زیر زمین چلنے والی ٹرین تھی،لیکن برطانیہ میں دشواری یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد ٹرینوں میں اور اسٹیشنوں پر بہت سے جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں ،آئے روز ٹی وی چینل اور اخبارات میں یہاں ہونے والی وارداتوں کا تذکرہ موجود ہو تا ہے،بہت ہی زیادہ دیر ہو چکی تھی،بس کافی وقت لے سکتی تھی ۔لڑکی نے بہت سے خدشات وخطرات کے باوجودٹرین میں جانے کا فیصلہ کر لیا،یہ بات پیش نظر رہے کہ لڑکی دین دار نہیں بلکہ بہت آزاد خیال اور لبرل تھی،جب وہ اسٹیشن پر پہنچی تو یہ دیکھ کر اس کے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی کہ اسٹیشن بالکل سنسان ہے صرف ایک شخص کھڑا ہے جو اپنے حلیے ہی سے جرائم پیشہ لگتا تھا وہ انتہائی خوفزدہ ہو گئی،پھر اس نے ہمت کی ،خود کو سنبھالا،قرآن مجید پڑھنا شروع کردیا اور اسے جو کچھ زبانی یاد تھا جسے وہ ایک عرصے سے بھولی ہو ئی تھی سب کچھ پڑھ ڈالا اتنے میں ٹرین آئی اور وہ اس میں سوار ہو کر بخیریت اپنے گھر پہنچ گئی۔
اگلے دن کا اخبار دیکھ کر وہ چونک اٹھی اسی اسٹیشن پر اس کے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کا قتل ہوا اور قاتل گرفتار بھی ہو گیا ،وہ پولیس اسٹیشن گئی،پولیس والوں کو بتا یاکہ قتل سے کچھ دیر پہلے میں اس اسٹیشن پر موجود تھی اور قاتل کو پہنچانتی ہوں اس سے کچھ سوال وجواب کرنا چاہتی ہو ں ۔جب وہ مجرم کے سیل کے سامنے پہنچی اس سے پوچھا کہ تم مجھے پہچانتے ہو؟اس نے جواب دیا ہا ں پہنچانتا ہوں،رات کو تم بھی اس اسٹیشن پر آئی تھیں،لڑکی نے پوچھا پھر تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟وہ کہنے لگا میں تمہیں کیسے نقصان پہنچاتا؟تمہارے پیچھے تو انتہائی صحت مند اور مضبوط باڈی گارڈ کھڑے تھے،یہ سن کر لڑکی واپس آگئی۔
واپسی پر لڑکی تشکر اور احسان مندی کے جذبا ت سے مغلوب تھی اور اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ کی مدد اور نصرت پر اس کا بھروسا مزید بڑھ گیا تھا۔اگر ہم اپنے دل اتھا ہ گہرائیوں سے اﷲ تعالیٰ کو پکاریں اور اﷲ سبحانہ ‘ وتعالیٰ کی تا ئید ونصرت پر بھروسا رکھیں تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی محروم نہیں رہیں گے۔
برگزیدہ خاتون
عطا بن مبارک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ بصرہ میں ایک عبادت گزار بزرگ خاتون تھیں حضرت بردہ، وہ شب بھر قیام کرتیں جب تمام حرکات ٹھہر جاتیں دنیا کی آنکھوں کو سکون آجاتا رات پوری طرح چھا جاتی تو وہ غم و اندوہ میں ڈوبی آواز میں پکارتیں!آنکھیں سو گئیں ستارے ڈوب چکے ہیں، ہر محبوب اپنے محبوب کی آغوش میں پہنچ چکا ، میرے محبوب (اﷲ)میں تیری خدمت میں حاضر ہوں بھلا تو مجھے عذاب دے گا جب کہ میرا دل تیری محبت سے لبریز ہے میرے محبوب ایسا نہ کیجیے۔ حضرت سفیان رحمہ اﷲ نے ایک روز بردہ کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ان پر رحمت کرے یہاں کہ عورتوں میں ان سے بڑھ کر مجاہدہ کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی وہ اﷲ کے خوف سے اس قدر روئیں کہ بینائی بھی جاتی رہی۔