نام ریاست مدینہ کا کام یہود وہنود کو خوش کرنے کا

نام ریاست مدینہ کا
کام یہود وہنود کو خوش کرنے کا
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
ایک طرف سرکاری زمین الاٹ کرکےاور سرکاری وسائل عطا کرکےشرک کا اڈا ،گڑھ یعنی مندر بنا یا جار ہاہےاور دوسری طرف مسجد توحید جسمیں پانچ وقت کی نمازیں آذانیںاور قرآن کریم کی تعلیم جاری تھی اسے گرا کر حکومت نے نہ جانے کس مدینہ کی ریاست پر عمل کیا ہے،ریاست مدینہ کے دعویداروں کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ ریاست مدینہ نے تو مساجد کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ لیکن ہمارے موجودہ حکمران مسجدیں گرانے پر تلے ہوئے ہیں، اگر یہ جگہ مسجد کے لئے مخصوص نہیں تھی اور دو تین دہائیاں قبل اس جگہ پر مسجد تعمیر کی گئی تو اس وقت متعلقہ ادارےسوئے ہوےتھے کیوں خاموش رہے اور اگر مسجد سرکاری یا کسی کی جگہ پر تعمیر ہورہی تھی تو انہوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیوں نہیں روکا۔ جس طرح اسکول، کالجز، پارک، اسپتال اور دیگر اسی طرح کے ادارے بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اسی طرح مساجد کیلئے بھی حکومت کو جگہ تعین کرنی چاہئے۔اور یہ تو سرکاری زمین پر بھی نہیںتھی 23 سالہ پرانی مسجد1997 میں اس مسجد کی تعمیر کی گئی ،اس کوصرف اور صرف اس شبہے میں گرایا جا رہا ہےکہ اس کے اندر تین فٹ جگہ نالے کی بھی شامل ہے ۔اسی حکومت نے 4 کنال جگہ ہندوؤں کو دیکر اس پر مندر کے لئے سرکاری بجٹ منظور کیا ۔کیا وجہ ہے کہ پانی کے نالے کے قریب کی فضول جگہ جس پر اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا گھر بنا کر اسکو قیمتی بنایا گیا چند مرلوں کے حصول کے لئے اس مسجد کو شہید کیا جا رہا ہے۔
مسجد تووہ مقام یا جگہ ہے جہاں مسلمان بغیر کسی رکاوٹ کے اللّٰہ سبحانہٌ وتعالیٰ کی عبادت اور بندگی کے لیے جاسکیں اور انفراداً یا اکٹھے ہوکر نماز ادا کرسکیں۔دنیا میں سب سے پہلی مسجد کعبہ شریف ہے جس کی بنیاد فرشتوں نے رکھی تھی۔ اس کے بعد حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی دیکھ بھال کی۔حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ فرماتے ہیں جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اُتارا تو فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی بھیج رہا ہوں جس کا طواف میرے عرش کی طرح ہوگا اور اسکے ارد گرد اسی طرح نماز پڑھی جائے گی جس طرح میرے عرش کے پاس پڑھی جاتی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام کی اوّلین مساجد قبا اورمسجد نبوی ہیں۔ ان دونوں کی بنیاد امام کائنات خاتم الانبیاء جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے رکھی، پھر مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔مسلمان دنیا میں جہاں بھی گئے، مساجد بناتے گئے۔ مسلمان حکمرانوں نے بھی بڑی عظیم مساجد تعمیر کروائی ہیں۔ ہر دور میں مساجد مسلمانوں کی ثقافت اور فنونِ لطیفہ کا بے مثال نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔ اب بھی دنیا کے ہر گوشہ میں خوبصورت اور وسیع و عریض مساجد موجود ہیں۔ دنیا کی چند مشہور مساجد یہ ہیں:1۔مسجد الحرام 2۔مسجد نبویﷺ 3۔جامع مسجد اُموی ،دمشق 4۔جامع مسجد قیروان 5۔جامع مسجد استنبول ،ترکی6۔شاہی مسجد، لاہور 7۔ فیصل مسجد ،اسلام آباد… اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بھی بڑی عالی شان مساجد ہیں۔
اسلام میں مسجد کو عبادت، تعلیم و تربیت، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے مرکزی مقام حاصل رہا ہے بلکہ مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و منبع مسجد ہی تھی۔ اسلام کی تعلیم کا آغاز مسجد سے ہوا۔ پیغمبر اسلام جناب خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ سے باہر مسجد کی بنیاد رکھی جو سب سے پہلی مسجد ہے اور پھر مدینہ منورہ میں دوسری مسجدنبوی ﷺ بنائی۔ اس میں دینی اور دنیاوی تعلیمات کی شروعات کیں۔ اسی مسجد نبوی سے علم و عرفان، تہذیب و تمدن، اتحاد ویگانگت، اجتماعیت، مساوات واخوّت کے جذبات پروان چڑھے اور معاشرہ روز بروز منور ہوتا چلا گیا۔ پھر ایک غیر فانی اسلامی تہذیب وجود میں آئی کہ اس کے نقوش رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔ موجود ہ دور میں مسلمان معاشروں میں معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی اور انتظامی بگاڑ عام ہوچکا ہے۔ اس کی ابتدا اُس وقت ہوگئی تھی جب مسلمان کا تعلق مسجد سے کمزور ہوا۔ آج اگر ہم آرزو مند ہیں کہ معاشرہ کی اصلاح ہو اور وہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے تو ہمیں مسجد کے اس بنیادی کردار کو فعّال کرنا ہوگا۔مسجد دعوت و تبلیغ کا مرکز اور اسلامی معاشرے کا محور رہی ہے۔ مسجد ہی مسلمانوں کی ظاہری، باطنی اور مادی آبیاری اصلاح کرتی رہی۔ نبی اکرمﷺ کے زمانے سے لے کر خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بعد کے دور میں بھی ایسا ہی کردار ادا کرتی رہی۔ دشمنوں نے اس کی اہمیت ، مرکزیت اور ہمہ گیریت کو سمجھ کر اس کے خلاف گہری اور پوشیدہ سازشیں شروع کردی تاکہ اس کے کردار کو ختم یا کم از کم کمزور ضرور کردیا جائے۔مسجد کے کردار کو مسخ کرنے والے عزائم دبیز اور رنگین پردوں میں چھپے ہوئے ہیں جن کا ادراک ضروری ہے۔ قادیانی مذہب کے پیروکاروں نے یہود و نصاریٰ کا آلہ کار بن کر مسلمانوں کے عقائد اور ایمان کو متزلزل کیا،ان کایہی ٹارگٹ ہماری موجودہ حکومت کے پاس ہے جس نے مساجد کو گرا کرمسلمانوں کی دل آزاری کا اپنا مشن بنایا ہوا ہےجو انتہائی قابل مذمت ہےاور مسلمانوںکے ملک میں شرمناک ہے۔بے شرموں کی حکومت ہے جو بات کرنے اور مناسب حل تلاش کرنے کی بجائےمسلمانوں کے دلوں پر آرے چلانا اور ان کی دل آزاری کرنا ہی اپنا فرض سمجھتی ہے۔