نئی نسل کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت

نئی نسل کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
الله تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو تعلیمات ہم تک پہنچائی گئی، ہم ان تعلیمات پر جتنا عمل کرتے رہیں گے او ران تعلیمات کی جتنی حفاظت کریں گے، اسی لحاظ سے ہمارے ایمان کی حفاظت ہو گی۔ یہ امت انسانی لحاظ سے تو دنیا کی دوسری امتوں ہی کی طرح ہے، لیکن اس امت کا جو تشخص او رامتیاز ہے وہ آسمانی تعلیمات کی وجہ سے ہے اور وہ تعلیمات بڑی حد تک عملی ہیں، وہ جب عمل میں آتی ہیں تب اپنا اصل کام اور اثر دکھاتی ہیں، اگر وہ کتابوں میں ہی رہیں تو ان کا زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ تعلیمات اسی وقت محفوظ رہتی ہیں،جب ان کو محفوظ رکھنے کی صحیح کوشش کی جاتی ہے۔
ہم اپنے سامنے عام مسلمانوں میں اسلام او راسلام کی تعلیمات کا جو اثر دیکھ رہے ہیں، یہ نتیجہ ہمارے بڑوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے باپ اور دادااور بزرگوں نے ہماری جو فکر کی، ہم کو دین دار رکھنے کی جو کوشش کی اورا س بات کی کوشش کی کہ ہم مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزاریں، اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم مسلمان کی حیثیت سے اس وقت سامنے نظر آرہے ہیں، لیکن آئندہ آنے والی نسل اسی وقت مسلمان رہ سکتی ہے، جب ہم اس کو مسلمان رکھنے کی کوشش اورفکر کر یںگے۔نئی نسل کوہم کس طرح مسلمان رکھ سکتے ہیں؟ اسکولوں او رکالجوں میں تعلیم حاصل کرکے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتی، ہمیں اس کی بنیاد ڈالنا پڑے گی، اس کی بنیاد میںاسلامی تعلیمات کو ، اسلامی عقیدے کو داخل کرنا پڑے گا او راسلامی طریقہ زندگی سے اس کو واقف کرانا ہو گا۔
ایک بچہ کس طرح اپنے بچپن کی سنی ہوئی اور سیکھی ہوئی باتیں اخذ کرتا ہے، اگر گھر کے اندر ہم بچے کو قرآن مجید نہیں پڑھاتے اور عقائد کی بات اس کو نہیں بتاتے حضور نبی کریم اور صحابہ علیہم الرضوان کی محبت اور پیروی کرنا نہیں سکھاتےتو وہ کیسے مسلمان رہ سکتا ہے؟ اس لیے کہ اس کو اسکول وکالج میں جاکر وہ تعلیم نہیں ملے گی جس سے وہ مسلمان رہے۔ترکی میں انقلاب کے بعد اسلام کو اور اسلامی تعلیم کو بالکل ختم کر دیا گیا تھا، اس کے نتیجے میں وہاں کے لوگ اسلام سے بالکل ناواقف ہو گئے تھے، ابھی دس ، پندرہ سال پہلے وہاں کے دین پسند افراد نے حکومت سے اس بات کی اجازت لے لی کہ ابتدائی تعلیم کے سلسلہ میں قرآن مجید کے مکاتب قائم کرسکیں، ان مکاتب میں لاکھوں طلبہ نے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد وہ دنیاوی تعلیم میں چلے گئے، دنیاوی تعلیم میں کوئی انجینئر بنا، کوئی ڈاکٹر بنا، کوئی سو ل سروس میں چلا گیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پندرہ بیس سال کے اندر دفاتر میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں وہ لوگ پہنچ گئے جو دیکھنے میں تو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ بڑے دین دار او رمسلمان لوگ ہیں، لیکن ان کے دل مسلمان تھے، ان کا عقیدہ مسلمان تھا اور وہ اسلام کے لیے مرمٹنے کو تیار تھے، تو ہم بچوں کو بچپن میں جو تعلیم دیں گے او رجو ان کے دماغ میں بٹھا دیں گے، وہ چیز زندگی بھر ا ن کے ساتھ رہے گی، ان کا راستہ متعین ہو جائے گا اور ان کا عقیدہ صحیح ہو جائے گا۔جوشخص الله تعالیٰ اس کو مقدم رکھتا ہےاور جو سرکش شیطان کا انکار کرے گا او راس کو ٹھکرا دے گا، ریجیکٹ کر دے گا اور الله پر ایمان لائے گا ۔ ”لا الہ الا الله“ میں نفی پہلے ہے، اثبات بعد میں ہے نہیں ہے کوئی معبود نہیں ہے جو پورے طور پر محبوب بنایا جائے، مقصود بنایا جائے، مطلوب بنایا جائے، معبود بنایا جائے” الا الله“ (سوائے الله کے) پہلے نفی ہے، پھر اثبات ہے، ایسے ہی نفی واثبات پر ہم کو بھی قائم رہنا چاہیے۔
اپنے بچوں کے دین وایمان کی معرفت او رپھر اس کی حفاظت او رپھر اس پر غیرت او رپھر اس پر زندگی گزارنے اور اس پر دنیا سے رخصت ہونے کے کام کو سب سے زیادہ اہمیت دیں،یہی ہر مسلمان کی شان ہونی چاہیے، اپنے متعلق بھی ہمیشہ ڈرتا رہے، اپنے ایمان کی خیر مناتا رہے، اسی لیے دعا کرتا رہے کہ ہمارا ایمان سلامت رہے، ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو اور اپنی اولاد کے متعلق بھی اطمینان حاصل کر لے کہ یہ ہماری زندگی میں بھی اور ہمارے بعد بھی الله کو چھوڑ کر غیر الله کے آستانہ پر سر نہیں جھکائے گی، یہ اطمینان ، یہ گارنٹی آدمی کو حاصل کر لینی چاہیے، ایمان کے ساتھ کفر او رکفر کی چیزوں سے نفرت بھی ضرور ی ہے۔ہمیں نئی نسل کی حفاظت کے لیے یہ سب انتظامات کرنے پڑیں گے، ہم جیسے ہیں، ہوچکے او رہمارا دور بھی اب ختم ہو جائے گا، کچھ دنوں بعد جو دور آئے گا، وہ نئی نسل کا آئے گا، اس کے دین وعقیدہ کی حفاظت کی پوری ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اگر وہ گم راہ ہوتی ہے اور دین سے اس کا تعلق قائم نہیں ہوتا ہے تو وہ قیامت کے روز ہماری گرفت کرسکتی ہے او رالله تعالیٰ کے سامنے کہہ سکتی ہے کہ انہوں نے ہمیں دین نہیں سکھایا، ہم کہاں سے دین حاصل کرتے؟اس لیے ضرورت ہے کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہوں ، ہمارے بس میں جو کچھ ہو اس میں ہم کو بالکل کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ کوشش کے بعد بہرحال آدمی کو کام یابی حاصل ہوتی ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ کا یہی نظام ہے کہ کوشش کرنے والے کی کوشش کام یابی سے ہم کنار ہوتی ہے، ہم جب کوشش کریں گے تو ان شاء الله تعالیٰ ہم کو پوری کام یابی حاصل ہوگی۔