میرا جسم میری مرضی یاجنسی آزادی

میرا جسم میری مرضی یاجنسی آزادی
از قلم:قاری محمد اکرام
ایک عرصہ سے مغربی ذرائع ابلاغ اور مغرب زدہ افراد اور تنظیموں کی طرف سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام نے عورت کو کچھ نہیں دیا اور اسے اس کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔حالانکہ یہ محض ایک جھوٹ ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے وہ اسے کسی دوسرے مذہب سے نہیں ملا۔ پہلے عورت کتنی حقیر سمجھی جاتی تھی اور اسلام نے اسے کتنا بڑا مقام عطاکیا۔
فرمان الٰہی ہے : ’’ اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے، یا اسے زندہ در گور کر دے، آہ ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔ ‘‘ [ النحل : 58،59 ]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی حالت کو بیان فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی کو جب اس کے گھر میں بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ کالاسیاہ ہو جاتا اور مارے شرم کے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا۔اور غم میں نڈھال ہو کر سوچتا رہتا کہ اب اس لڑکی کے وجود کو ذلت ورسوائی کے ساتھ برداشت کر لے یا اسے زندہ در گور کر دے ۔
یہ تو تھا زمانۂ جاہلیت میں کسی عورت کا مقام کہ اس کا وجود ہی عار تصور کیا جاتا اور اسے زندہ در گور کر دیا جاتا۔جبکہ اسلام نے گھر میں بیٹی کی پیدائش کو باعث برکت قرار دیا اور اسے زندہ درگور کرنا حرام کر دیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام کر دیا ہے۔ ‘‘ ( بخاری)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں، تو وہ اور میں قیامت کے دن ایسے ہو نگے جیسے میری یہ انگلیاں ہیں۔‘‘(بخاری)
عورت اگر ماں ہو تو اسلام نے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد سب سے پہلے ماں باپ کا حق بیان کیا ہے پھر دوسروں کے حقوق کا تذکرہ کیا ہے ۔اور بار بار ان سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی ہے اور انھیں جھڑکنے حتیٰ کہ اف تک کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایک شخص نے سوال کیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ کون اچھے سلوک کا مستحق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔اس نے کہا : پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمھاری ماں! اس نے کہا : پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں! اس نے کہا : پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارا باپ۔اس کے علاوہ اور کئی احادیث کتبِ حدیث میں موجود ہیں جن میں خصوصاً ماں کا حق نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے : ’’ اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دو۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدانِ عرفات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :
’’ تم عورتوں کے متعلق اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امان کے ساتھ لیا ہے اور انھیں اللہ کے کلمہ کے ساتھ اپنے لئے حلال کیا ہے۔اور تمھارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جنھیں تم نا پسند کرتے ہو ۔اور ان کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انھیں معروف طریقے کے مطابق کھانا اور لباس مہیا کرو۔ ‘‘(مسلم :الحج باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸، ابن حبان : 1457 ])
اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بہتر ہواور میں تم سب کی نسبت اپنے اہل کے لئے زیادہ بہتر ہوں۔ ‘‘ ( ترمذی )
اسلام کے نزدیک قانون دینے کا حق صرف اللہ کو ہے اور انسان اسی قانون کا پابند ہے۔ ہاں اس کے عطا کردہ قانون کی روشنی میں وہ حالات کے لحاظ سے اجتہاد کرسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کسی فرد یا جماعت کو مطلق فرماں روائی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اللہ کے قانون کے حاکم اور محکوم دونوں ہی پابند ہوں گے۔
عورتوں کے ایک مخصوص دن پر اسلام آباد میں کوئی ایسا عورت مارچ کیا جس کی گونج ابھی تک فضائوں میں ہے۔ تفصیلات کو چھوڑیں صرف اس مارچ کے مرکزی خیال پر غور فرمائیں۔ ’’میراجسم میری مرضی‘۔ اگر جسم تمہارا ہے تو مرضی بھی یقیناً تمہاری چلے گی اور چلنی چاہیے، لیکن کیا واقعی یہ جسم تمہارا ہے؟ یا خالق و مالک و رازق کی امانت ہے جو چند سانسوں، چند سالوں کے لئے امانت کے طور پر تمہیں سونپا گیا تو خود ہی سوچ لو دیانت کا تقاضا کیا ہے۔ اگرجسم ہمارا تمہارا ہوتا تو خود کشی حرام نہ ہوتی۔ یہاں کچھ بھی تو ہمارا تمہارا نہیں، کیا ہم اپنی مرضی سے پیدا ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں ماں باپ کے انتخاب کا اختیار ہے؟ کیا ہم بہن بھائی خود منتخب کرتے ہیں؟ یہاں کچھ بھی ہمارا نہیں کہ ہم تو اپنے بلڈ گروپ کے سامنے بھی بے بس ہیں، نہ جسم میرا، نہ مرضی میری نہ آغاز مرے بس میں، نہ انجام مرے بس میں۔سنیے یہ مفروضہ جو آپ نے گھڑ لیا ہے اور جو آپ کو بغاوت پر اکسا رہا ہے، کلیتا ہی غلط ہے.
’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والے عورتوں کے حقوق کے نام پر عورت کو بےراہ روی کے رستے پر ڈالنا چاہتے ہیں، خاندانی نظام اور شادی کے بندھن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جو ان شاء اللہ پاکستان جیسے معاشرے میں ممکن نہیں،یاد رہے! یہاں میڈیا کو استعمال کرکے کئی سال تک کوشش ہوتی رہی کہ ویلنٹائنز ڈے کو عام کیا جائے، بےشرمی پھیلائی جائے لیکن پاکستانی عوام نے اُس کوشش کو ردّ کر دیا بلکہ الٹا یہاں خواتین میں پردے کا رواج بڑھ گیا، لیکن ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں باقی معاملات کی طرح عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام اُنہیں دیتا ہے، بہت بڑی تعداد میں اُن کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے، اُنہیں ظلم کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگر ایک طرف ہمیں اس معاشرے میں فحاشی و عریانیت اور بےراہ روی کو روکنا ہے تو ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہم عورت کو وہ تمام حقوق دیں جو اسلام متعین کرتا ہے، اُن کا احترام کیا جائے۔ اس کے لیے حکومت، معاشرہ، میڈیا بلکہ ریاست کے ہر فرد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے پڑے گا۔ اگر ایک طرف حکومت کو قانون کے تحت یہ لازم کرنا چاہیے کہ عورت کو وراثت میں حق ملے، کوئی خاتون کسی کام سے گھر سے نکلتی ہے یا اُسے نوکری کرنا پڑتی ہے تو اُسے ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ کوئی مرد اُسے پریشان نہ کر سکے تو دوسری طرف معاشرے کی تعلیم و تربیت کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے پاکستان میں رہنے والوں کی کردار سازی ہو اور ہم ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جہاں عورتوں، بچوں، بزرگوں، اقلیتوں سمیت ہر طبقے کو اُس کے حقوق میسر ہوں اور عملی طور پر ہم اپنے اخلاق اور معاملات کے ذریعے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کر سکیں۔ مغرب کی نقالی اور این جی اوز کے پریشر میں ہمیں حقوقِ نسواں کے نام پر اُس ایجنڈے سے دور رہنا چاہیے جو اسلامی تعلیمات اور ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔
گذشتہ سال بھی مٹھی بھر کچھ عورتوں نے آٹھ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن پر عورت مارچ کیا۔ انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، ان پر درج نعرے کسی بھی طور عورتوں کے بنیادی حقوق اور معاشرے میںا ن کے تحفظ کے حوالے سے نہ تھے۔ یہ عورتیں وہ تھیں جن کا مسئلہ صرف اور صرف آزادی تھا۔ یاد رہے کہ آزادی کی تعریف بھی ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہے جس میں سرفہرست جنسی آزادی ہے۔ میرا جسم میری مرضی۔ شادی نہیں آزادی جیسے نعروں کے ساتھ یہ مٹھی بھر عورتیں بدقسمتی سے پاکستان کی ان لاکھوں کروڑوں عورتوں کی نمائندگی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں جو مذہب کی طے کردہ حدود کے اندر رہ کر باوقار انداز میں زندگی بسر کرنے کو اپنا فخر سمجھتی ہیں۔