مدارس امتِ مسلمہ کاسرمایہ اور اثاثہ ہیں

مدارس امتِ مسلمہ کاسرمایہ اور اثاثہ ہیں
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
اعلامیہ اجلاس اکابرین مدارس اسلام آباد/ راولپنڈی( 5شوال المکرم 28مئی 2020ءجمعرات )زیرسرپرستی مولاناپیرمحمدعزیزالرحمان ہزاروی ،زیرصدارت مولاناقاضی عبد الرشید صاحب ،جامعہ اسلامیہ صدرمیںمنعقد ہواجس میں علمائے کرام نے مدارس کی موجودہ صورتِ حال اورمدارس کے کھولنے کے سلسلے میںتفصیلی غور کیا گیا اورتفصیلی غوروفکر کے بعد20 شوال سےمدارس کھولنے کا اعلان کیااورکہا گیاکہ ہم مدارس کومزید نہیں بند کرسکتے طلباء کا مستقبل خطرے میں پڑا ہوا ہے،طلباء کے آنے اور قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنےکی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بھی آئیں گی اور وطن عزیز کرونا سے بھی نجات پائے گا انشاء اللہ تعالیٰ اورکہا گیا کہ کرونا وبا کی وجہ سے اہل اسلام اور دینی مراکز سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس کے باوجودعلمائے کرام نے حکومت کا بھر پور ساتھ دیا تاہم بدقسمتی سے جس طبقے نے زیادہ تعاون کیا اسے ہی زیادہ بدنام کرنے کی ناکام اور مذموم کوششیں کی گئیں۔اگر دینی مدارس اورعلماء کاتعاون شامل حال نہ رہتا تو یہ احتیاط حکومت کے بس کی بات نہیں تھی ۔ حکومت کا علماء کے ساتھ رویہ مخاصمانہ رہا۔مگر علماء اشتعال میں نہیں آئے اور سنجیدگی اور تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن اب حکومتی دوہرے معیار کی وجہ سے دینی حلقوں کا اضطراب بڑھتا جارہا ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیاکہ جب بازار کھل سکتے ہیں، جلوس نکل سکتے ہیں، ٹرانسپورٹ سے پابندی ہٹائی جاسکتی ہے تومدارس کیوں نہیں کھولے جاسکتے ؟ ہم مدارس کی رونقیں واپس بہت جلد بحال کرنے کے لیے بھر پور کوششیں کریں گے۔ علماء نے ایس او پیز خود تیار کی ہیں جس طرح اس سے پہلے مساجد کے معاملے میں جملہ احتیاطی تدابیر پر عمل کیا گیا بالکل اسی طرح مدارس کے معاملے میں بھی تمام احتیاطی تدابیر اپنا کر مدارس میں تعلیم کا سلسلہ شروع کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مدارس کا کھولنا بہت ضروری ہے لہذا رحمت خداوندی کے حصول کے لیے مدارس کو فی الفور تعلیم شروع کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اجلاس کے آخر میں مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا٭.. کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال کی وجہ سے مدارس ومساجد میں حکومتی ایس اوپیز پر مکمل عمل کیا جائے گا۔٭..بازار، ٹرانسپورٹ اور دیگر محکموں کی طرح مدارس کو بھی فی الفور کھولنے کی اجازت دی جائے٭..وبائی صورت حال میں حکومتی اداروں سے تصادم کی بجائے مذاکرات کاراستہ اپنایا جائے۔٭..وفاق المدارس العربیہ کا مدارس کھولنے کے حوالے سے مشترکہ کوششوں پر بھر پور اور مکمل اعتماد ہے اس سلسلے میں مزید بھی اکابرین کے تمام فیصلوں کی مکمل پاسداری کی جائے گی ۔٭.. اجلاس کے اختتام پر ملکی سالمیت، وبائی صورت حال سے بچاؤ اور مدارس ومساجد کے استحکام کے لیے مولاناپیرمحمدعزیزالرحمان ہزاروی صاحب مدظلہم نے خصوصی دعا فرمائی۔
وطن عزیز پاکستان جو کہ اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرہ پر لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کی قربانیاں دے کر معرض وجود میں آیا تھا جہاں دینی تعلیم کا انتظام ریاست کی ذمہ داری تھی وہاں اس کا انتظام کرنے والی دینی مدارس کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ اور ان دینی مدارس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دینی مدارس اور علماء ملک کی نظریانی سرحدوں کے محافظ ہیں، دینی مدارس ہدایت کے سرچشمے ، امن کے گہوارے اور اشاعت دین کا ذریعہ ہیں ان کا دہشتگردی ، تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے مغرب کا پروپپیگنڈہ ان کے بارے میں بے بنیاد ہے ان دینی مدارس اور علماء کی وجہ سے آج نسل نو کا ایمان محفوظ ہے، دینی مدارس کے طلبہ وحدت کی نشانی اور اتحاد و یکجہتی کا عملی ثبوت ہیں یہ مختلف قومیتوں، صوبوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجوددینی مدرسہ کی ایک ہی چھت کے نیچے نورانی اور پاکیزہ ماحول میں اکھٹے رہتے ، ایک ہی برتن میں کھاتے اور پڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ دینی مدارس نے کبھی بھی آئین و قانون کی مخالفت اور مدارس کو رجسٹر ڈ و آڈٹ کروانے سے انکار نہیں کیادینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے بنک اکاؤنٹ کھلوانے میں خود حکومت رکاوٹ ہے ، دینی مدارس ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں اور ایک ایک پیسہ کا حساب موجود ہے ۔انہی دینی مدرسوں کے بارے میں شا عر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا : “ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو ، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو ، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا ؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگرمسلمان ان مدرسوں سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے با وجو د آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈ رات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستا ن میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانو ں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
ان مدارس کو چلانے والے مخلصین اور بہی خواہان دین وملت تنکے تنکے جمع کرکے اس ماحول میں جہاں تعلیم مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہے، طلبا کے لیے نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم کا انتظام کرتے ہیں ، بلکہ نادار طلبا کے کھانے کا بھی انتظام کرتے ہیں اور خاص حالات میں ان کی دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں، کتابیں تک مفت مہیا کی جاتی ہیں ، پھر انہی طلبا میں سے اچھی خاص تعداد ایسی نکلتی ہے، جو دعوت واصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں ،ایک معتدبہ تعداد مدارس میں تعلیم وتربیت کا کام انجام دیتی ہے ، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے علاقہ کی بنجر زمین میں عقیدہٴ توحید اور دین وایمان کابیج بوتے ہیں ، ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دوسرے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پہنچ کر اسلامی شناحت کو باقی رکھنے میں بڑا کر دار ادا کرتے ہیں، اگر ان کی ظاہری وضع قطع میں اہل دین کی نظروں میں کچھ کمی محسو س ہوتی ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دلوں میں دینی جذبات واحساسات موجزن رہتے ہیں، ان میں وہ جواں مرد بھی ہوتے ہیں جو دوسرے ملکوں میں دین وایمان کی قندیل روشن کرتے ہیں، اسلام کا تعارف کراتے ہیں۔کم سے کم درجہ ہوتا ہے کہ مدار س میں آنے والے کا ایمان وعقیدہ محفوظ ہو جاتا ہے جو عمر کے کسی دور میں شعلہ جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے۔ایک اور پہلو سے غور فرمایا جائے کہ اسلام صرف مسجد اورادذکار تک محدود نہیں ہے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں، پیدائش سے لے کر موت کے مسائل میں، راہ نمائی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ حقوق الله کے ساتھ حقوق العباد، خرید وفروخت، گھریلو مسائل ، اولاد کی تعلیم وتربیت ، ملنے جلنے اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے، نمازیوں کی امامت اور ان کو روزہ مرہ کے مسائل سے کون واقف کراتا ہے؟ اگر یہ نہ ہوتو کیا قومی نام کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی اسلامی بات پائی جاسکتی ہے؟ جو اصل مقصد زندگی ہے۔
مدارس امتِ مسلمہ کاسرمایہ اور اثاثہ ہیں موجودہ ایک سال میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحق مدارس وجامعات میں قرآنِ کریم کے جو حافظ تیار ہوئے ان کی تعداد اٹہتر(78)لاکھ ہے جن میں چودہ(14) ہزارطالبات ہیںجنہیں حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہوئی ،اور انتیس(29) ہزارعالم تیار ہوئے جن میں اٹھارہ(18) ہزار چارسو پچانوے طالبات ہیں جو عالمہ ،بنی ہیں ۔الغرض دینی مدارس، سراپا امن وسلامتی ہیں اس کا کردار ماضی میں بھی صاف ستھرا اور روشن تھا آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا درحقیقت دینی مدارس، ایک ایسا مشعل ہیں جس کی روشنی میں امن کا شہر قائم کیاجاسکتا ہے اورپرامن معاشرہ کی تکمیل ہوسکتی ہے آج اس کی ضرورت ہے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس ضرورت کو ضروری اور لازم سمجھاجائے۔”مادیت کے اس امڈتے ہوئے سیلاب میں آج اگر ’’قال اللہ و قال الرسول‘‘ کی صدائیں بلند ہو رہی اور بڑھتی جارہی ہیں تو یہ ان دینی مدارس اور اس میں پڑھنے ، پڑھانے والوں کا ہی ’’فیضان‘‘ ہے، یہ دینی مدارس اسلام کی پناگاہیں اور ہدایت کے سرچشمے ہیں اور یہ دین کی ایسی روشن مشعلیں ہیں کہ جن کی کرنیں ایک عالم کو منّور کر رہی ہیں اور قیامت تک کرتی رہیں گی۔ انشاء اللہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری مساجد،مدارس اور حرمین شریفین کی ان رونقوں کو بحال فرمائیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں اور دل روحانی مسرتوں سے لبریز ہو جاتے تھے اور اللہ تعالی اس آزمائش میں ہم سب کو توبہ و اِنابت کی توفیق عطا فرمائیں۔(آمین)