سورج گرہن کی حقیقت

سورج گرہن کی حقیقت
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
دِین اِسلام نے ہمیں زندگی میں ہونے والے ہر کام کے متعلق ایسی تعلیمات مہیا کر دی ہیں جو ہمارے لیے دِین، دُنیا اور آخرت کی خیر کا سبب ہیں، حتیٰ کہ ایسے کام بھی جو بظاہر ہماری زندگیوں کے معاملات سے بہت دور دِکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ہی کاموں میں سے دو کام، سُورج گرہن اور چاند گرہن بھی ہیں۔ اِن دونوں کاموں کے بارے میں، ہمارے محبوب رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قولی اور عملی طور پر ہمیں یہ سِکھایا کہ اِس کا سبب کیا ہے؟ اور اگر ہماری زندگیوں میں یہ کام ظاہر ہوں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟فرمایایہ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، یہ ظاہر کرنے کے لیے جو قادرِ مطلق اللہ تعالی سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی دیتا ہے ، وہی اللہ تعالی ان کو ماند کردینے پر بھی قادر ہے ۔ دنیا میں ایسا عظیم الشان نظام ہے کہ وقت پر سورج کا طلوع ہونا، غروب ہونا، چاند اور کروڑوں ستاروں کا خلا میں موجود ہونا، ہواؤں کا چلنا، سورج اور چاند سے روشنی کا ملنا، زمین کے اندر بے شمار خزانے اور زمین میں بڑے بڑے پہاڑوں کا موجود ہونا، بادلوں سے بارش کا ہونا ۔ سورج وچاند کا کیسا عجیب وغریب نظام ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں آیا۔ جس طرح وقتی طور پر اللہ کے حکم سے سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے، ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ یہ سورج اللہ کے حکم سے مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ آج کے سائنس دانوں نے بھی اس کے امکان کو تسلیم کرلیا ہے، حالانکہ شریعت اسلامیہ نے 1400 سال قبل ہی اس کو بتا دیا تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر دنیا کے وجود سے لے کر تمام انسانوں کو ان کے کئے ہوئے اعمال پر جزا یا سزا دی جائے گی۔گرہن کا معنی ہیں (گ کی زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں: داغ لگنا، سیاہ ہو جانا، چنانچہ جب سورج یا چاند گرہن لگتا ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔ غرضیکہ سورج یا چاند کے گرہن لگنے میں کسی مخلوق کا نہ دخل ہے اور نہ ہی پوری کائنات مل کر سورج یا چاند کے گرہن کو روک سکتی ہیں۔ اس لیے سورج یا چاند کے گرہن کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ مانگی جائے، اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے در پر جاکر پیشانی ٹیکی جائے کیونکہ وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک ورازق بھی۔ نبی اکرم ﷺ سورج گرہن لگنے پر مسجد میں داخل ہوکر نماز میں مصروف ہوجاتے تھے، اس لیے اگرایسے موقع پر باہر نکلنے سے بچا جائے اور براہ راست سورج کو نہ دیکھا جائے تو یہ عمل احتیاط پر مبنی ہوگا ،کیونکہ سائنسی اعتبار سے بھی اس نوعیت کی احتیاط مطلوب ہے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا تو ایمان ہے کہ جو تکلیف یا آسانی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گی، اگرچہ تکلیف سے بچنے اور آسانی کے حصول کے لیے تدابیر واسباب ضرور اختیار کرنے چاہئیں۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔ “بخاری شریف ” میں ہے:” حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آ گئی ہو، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔لہذا چاند گرہن اور سورج گرہن کے وقت ہمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کے مطابق اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے۔صحيح البخاري (2/ 39)نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر لمبی نماز پڑھی۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کے مطابق آج تک پوری امت مسلمہ کا یہی معمول ہے کہ اس موقع پر نماز پڑھی جائے، اللہ کا ذکر کیا جائے اور دعاکی جائے۔حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا۔ آپ ﷺ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے (تیزی سے) مسجد پہنچے۔ صحابۂ کرام آپ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ ﷺ نے انھیں دو رکعت نماز پڑھائی اور گرہن بھی ختم ہوگیا۔
سورج گرہن کی نماز کو “کسوف” کہتے ہیں ،اورچاند گرہن کی نماز کوخسوف۔ سورج گرہن کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے، ہاں اگر تنہا پڑھ رہا ہو تو دو سے زیادہ بھی (چار، چھ )جتنی چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔اس کی نماز کا بھی وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے، اگر حاضرین میں جامع مسجد کا امام موجود ہو تو “کسوف” یعنی سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے، اور اس نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے، اگر لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے جمع کرنا مقصود ہو تو اعلان کردیا جائے، نیز اس نماز میں سورۂ بقرہ یا اس جیسی بڑی سورتیں پڑھنا یعنی طویل قراءت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے کرنا مسنون ہے، اور اس نماز میں قراءت آہستہ آواز سے کی جائے گی، نماز کے بعد امام دعا میں مصروف ہوجائے اور سب مقتدی مناسب آوازمیں آمین کہیں، یہاں تک سورج گرہن ختم ہوجائے۔مسنون یہ ہے کہ نماز کسوف باجماعت ادا کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔اگرچہ یہ نماز بھی (دیگر نوافل کی طرح) فرداً فرداً جائز ہے لیکن باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔نمازکسوف ادا کرلینے کے بعد امام کوچاہیے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرے۔ان کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔دعاواستغفار کا حکم دے۔اسی طرح مکروہ اوقات میں سورج گرہن ہوجائے تو یہ نماز نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ صرف دعا کرلی جائے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے اور غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں سے درگزر فرمائے۔ آمین