رمضا ن کے بعد زندگی کیسے گذاریں

رمضا ن کے بعد زندگی کیسے گذاریں(1)
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
رمضان المبارک بڑی تیزی سے ہمارے درمیان سے رخصت بھی ہو گیا۔ یہ مہینہ ایک مسلمان کو ایمانی اور عملی طور پر عروج اور بلندی عطا کرتا ہے ۔ان میں وہ یقین اور ایمان پیدا کرتا ہے جومسلمانوں کا عظیم سرمایہ ہے اور جو اسلام میں مطلوب اور مقصود ہے ۔عملی طور پر بھی ان میں وہ اسپرٹ پیدا کی جاتی ہے کہ اگر رمضان کے بعد بھی اسی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو آخرت کی منزل آسان ہو جائیگی اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں وہ راحت نصیب ہوگی جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتالیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ رمضان المبارک میں جو عمل کیا جاتا ہے اس کی رفتار بعد میں سست پڑ جاتی ہے ۔حالانکہ یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا فضل اور رحمت ہے ، ہمیں اللہ رب العزت کا شکر ادا کر نا چا ہیے کہ رمضا ن المبارک جیسا با بر کت مہینہ عطاکیا اور اس کے بعد کی زندگی سے مالا مال کیا، ورنہ کتنے ہی لوگ رمضا ن میں اللہ تعالیٰ کو پیا رے ہو گئے ، کتنے ہی ایسے ہیں جو رمضا ن کے بعد چل دیے ، مگر ہم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی استحقا ق کے زندگی عطاکی ۔یہ زندگی عیش وعشرت او ر وقت گز ا ری کے لیے نہیں ہے ، بلکہ یہ زندگی مو ت کے بعد کی زندگی کی تیا ری کے لیے ہے ۔اب ہمیں غو ر کرنا چا ہیے کہ ہم نے اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے کیا تیار ی کی ہے ؟کیا صر ف رمضا ن المبار ک میں قر آ ن کی کثر ت تلا و ت اور نما ز کا اہتمام ہما ری نجا ت کے لیے کا فی ہے ؟یا اس طویل زندگی کے لیے طویل جدو جہد لازم ہے ؟اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کادستو ر یہ رہا ہے کہ انسا ن جتنی محنت کرے گا اسی کے بقدر اجر حاصل کر ے گا ، مگر افسو س ہم مسلما نوں پر!…دشمنا ن اسلام اوراعدائے دین کے جالوں میں ہم ایسے پھنس گئے کہ الا ما ن و الحفیظ!! دنیا داری اور آخر ت فرامو شی ہما ر ے معاشر ے میں عا م ہے ۔ غر ض کہ ہمارا معاشرہ سا ل کا اکثر حصہ عبا دا ت اور سنتو ں سے اعراض کے سا تھ گز ارتا ہے ، نہ نما ز ، نہ سنن موٴکدہ کا اہتما م، نہ دیگر شر عی احکاما ت پر عمل در آ مد ۔ البتہ رمضا ن المبارک میں ایک طبقہ قدرے غیررمضا ن کے مقا بلے میں اسلا می احکا ما ت کی طر ف متو جہ ہو تا ہے ، مگر رمضا ن المبارک کے بعد پھر وہی روش، جیسے ہی عید کا چا ند نظر آ تا ہے فوراً شریعت کی مخالفت شرو ع ہو جا تی ہے ، بہت سے وہ لوگ جو رمضا ن میں نما ز کے پا بند تھے عشا کی نما ز ہی سے تر ک صلوٰۃ کا آغا ز کر دیتے ہیں او ر بس پھر پو چھنا ہی کیا عید کے لیے فضول خرچی اور زیب وزینت کی لیے شرعی احکا ما ت کی پا ما لی تو گویا ہما رے معاشر ہ کا معمو ل بن چکا ہے ۔
جوشخص مو ت کے بعد کی زند گی پر یقین رکھتا ہو اور اس کا ایما ن ہو کہ یہ دنیا دائمی نہیں، بلکہ عا رضی ہے اور آخرت کی تیا ری کے لیے ہے ، یہا ں جیسا بو یا جائے گا ویسا کل قیا مت کے دن کا ٹا جائے گا تو وہ اس کی تیا ری میں مشغول ہو جا تا ہے اور وہ ہمیشہ کی زندگی ہے، لہٰذا اس کی تیار ی بھی ویسی ہی کرنا ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ کے ساتھ متصف ہونا بیان کیا ہے یعنی انسان کا دل‘سوچ ‘سمجھ‘انداز اور اخلاق وکردار سب کچھ اس طرح بدل جائیں کہ رمضان کے بعد ایک نئی اور صالح زندگی کا حامل بن جائے اور زندگی میں ایک طرح کا انقلاب برپا ہوجائے کہ اگر وہ رمضان سے قبل سودی معاملات کا کاروبار کرتا تھا تو اب وہ توبہ کرلے اور اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔خدا نخواستہ اگر وہ شراب نوشی میں ملوث تھا تو اب اس سے نفرت پیدا ہو جائے۔دھوکہ دہی ‘کذب بیانی ‘ظلم وزیادتی ‘حسد ‘غیبت اور دوسرے منکرات سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے آپ کو پاک و صاف کرلے اور دوبارہ ایسی معصیت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے فرائض و نوافل کا ایسا خوگربن جائے کہ ان کے بغیر رات میں نیند آئے اور نہ دن میں چین و سکون کا احساس ہو ۔اگر یہ کیفیات دل میں پیدا ہو گئیں اور زندگی میں ایسا تغیر رونما ہو گیا تو سمجھنا چاہئے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو پالیا ورنہ بظاہر رمضان کا مہینہ ہم نے پایا اور کچھ اس سے حاصل کئے بغیر وہ ہم سے رخصت ہوگیا جو اہل ایمان کے لئے سب سے بڑی مایوسی کا ذریعہ اور محرومی کا سبب ہے ۔ایک مسلمان کو حرام اور ممنوع عمل کرتے ہوے فوراً اس بات کی طرف ذہن کو لے جانا چاہئے کہ رمضان میں جس طرح ممنوعات سے رکے رہے اسی طرح غیر رمضان میں بھی مجھے تمام نا جائزکاموں سے رکنا چاہئے ایسا تو نہیں ہوسکتاکہ رمضان میں ہی رکنا میرے لئے ضروری تھا اور بعد میں نہیں۔جب بھی مقصد اپنے رب کو راضی کرنا تھا اور اب بھی وہی مقصدہے ،پھر حرام اور ممنوع چیزیں غیر رمضان میں کیسے جائز ہوسکتی ہیں؟حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘ مؤمن کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ خوب محنت مجاہدہ سے نیکی کرتا ہے مگر اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ وہ برائی کرکے بھی مطمئن رہتا ہے اور ڈرتا بھی نہیں ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے ہائے کاش! مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک میں عبادتیں قبول ہو‘ئیں تو میں انہیں مبارک باد دیتا اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے جس کی عبادتیں قبول نہ ہوئیں اور وہ محروم رہا تو ہم اس کی تعزیت کرتے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ اختتام رمضان پر فرماتے: اے وہ شخص جس کی عبادتیں قبول ہوئیں‘ تجھے مبارک ہو اور وہ شخص جس کی عبادتیں مردہ یعنی قبول نہ ہو‘ اللہ تیرے نقصان کی تلافی کرے۔حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا‘ رجب افضل یا شعبان؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بندہ خدا شعبانی اور رجبی بن کر کیا فائدہ ربانی بن جا۔۔۔ یعنی صرف رجب و شعبان کی فضیلت معلوم کرکے اسی میں عبادت مت کر بلکہ ربانی بن جا۔۔۔ یعنی سرتاپا ازشعور تا موت اللہ کا ہوکر اسی کا بن جا۔۔تاکہ کامیاب و بامراد ہوجائے۔

رمضا ن کے بعد زندگی کیسے گذاریں(2)
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم علامت عمل صالح کے بعد دیگر اعمال صالحہ کی توفیق اور دوسری علامت اطاعت کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہ کرنا۔ نیز ایک اہم علامت نیک عمل پر قائم رہنا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت یعنی پابندی ہو خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایام کو کسی خاص عمل کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل میں مداومت (پابندی) فرماتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا : اے عبداللہ! فلان شخص کی طرح مت بنوجو راتوں کو قیام کرتا تھا لیکن اب چھوڑدیا۔ (بخاری ومسلم)ہماری یہ زندگی مو ت کے بعد کی زندگی کی تیا ری کے لیے ہے ۔اب ہمیں غو ر کرنا چا ہیے کہ ہم نے اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے کیا تیار ی کی ہے ؟کیا صر ف رمضا ن المبار ک کےاعمال ہی ہمارے لئے کا فی ہیں ؟
حضرت ابو ذر غفا ری رضی اللہ عنہ ایک دن آپ کعبہ کے سہا رے کھڑے تھے، لوگو ں نے آ پ کو دیکھ لیا تو آ پ کے ارد گر د جمع ہوگئے ، آپ ان کی طر ف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے اے لوگو ! قر یب ہو جاؤ ایک ایسے مشفق بھا ئی کی طرف ،جو نصیحت کرناچا ہتا ہے۔ تو لوگ آپ کے ارد گر د جمع ہو گئے ، آپ نے ارشا د فرمایا کہ لوگو!کیا تم میں کوئی سفر کا اراداہ کرتا ہے ، تو اپنے سا تھ سفر کے بقدر توشہ کا انتظام نہیں کر تا ؟ اب ذرا غو ر کرو ! ذرا آ خر ت کے سفر پر کہ وہ کتنا طویل ہے؟ لہٰذادنیو ی سفر کی طر ح آخرت کے طویل سفر کی تیار ی بھی ویسی ہی ہو نی چا ہیے ۔ اہل کوفہ میں سے ایک شخص کھڑ ا ہو ا اور در یا فت کیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جلیل القدر صحا بی! ہمیں سفر آ خر ت کی تیا ری کیسے کرنی چاہیے ؟ تو گویا ہو ئے :”بڑ ی بڑی نیکی کا عز م کر و ، کیوں کہ مر نے کے بعد جو امو ر پیش آنے والے ہیں وہ بھی انتہا ئی عظیم و خطیر ہیں ، یو م الحسا ب بہت طویل ہو گا، لہٰذا اس کے لیے شدید گر میو ں کے طویل ایا م میں رو زے رکھو ، را ت کی تاریکی میں کم از کم رو زا نہ دو رکعت ہی پڑھ لیا کرو ،تا کہ قبر کی ظلمت اور تا ریکی سے نجا ت پا سکو ،بھلی با ت کہو اور بری با ت سے اجتنا ب کرو اور مسکین کو صد قہ دو، تاکہ قیامت کی سختی سے خلا صی حاصل کر سکو، دنیا میں صر ف دو کا مو ں میں اپنا وقت صرف کرو، رزق حلا ل کے حصو ل میں او ر آخرت کے لیے نیکی کرنے میں ، اس کے علاو ہ جو وقت بھی فضو ل یا گنا ہ میں خر چ کر و گے اس سے نقصا ن ہی اٹھاؤگے اور ثواب سے محرو م رہوگے ، جو کچھ دنیا میں کماؤ اسے یا تو اپنی اور اپنے اہل وعیا ل کی ضر ورتوں میں خر چ کرو یا صد قہ خیرا ت میں۔ اس کے علاوہ میں خرچ کرو گے تو نقصا ن اٹھا ؤ گے اور نفع سے محر و م رہو گے، اس کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لمبی سا نس لی اور در د بھر ی آ و از نکالی تو لو گو ں نے پو چھا یہ کیا ہو گیا؟! تو جواب دیا ہمیں لمبی لمبی آ رزؤو ں نے غار ت کر دیا، دنیا میں انسا ن کے لیے دو ہی زما نے ہیں، زما نہ ٴ ماضی اورزمانہٴ مستقبل ، ماضی تو وہ جو ہاتھ سے نکل گیااور با قی تو وہ تیرے ہاتھ میں ہے، اس میں بھی دھو کہ دہی کے امکا نا ت زیا دہ ہیں ، اگرتو نے اپنے مستقبل کو نیکی میں مشغو ل کیا تو ، توکام یا ب اور بامراد ہوگیا اور اگر تو اس کو برا ئی میں مشغول ہو کر گزا رے گا تو میں نہیں سمجھتا ہو ں کہ تجھ سے زیا دہ محرو م القسمت اور کوئی ہو ، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتو ں سے مالامال کر ے اور نیکی اور کامیا بی ہمارے لیے مقد ر بنا دے ۔ “
یہ تھی حضرت ابو ذر غفا ر ی رضی اللہ عنہ کی اثر انگیز نصیحت، ایک بار نہیں، بار بار اسے پڑ ھیے اور اپنے حال پر رحم کیجیے اور رمضا ن کے بعد بھی نیکی کے سلسلے کو بدستو ر جا ری رکھیے ۔صرف رمضان نہیں، ہماری پوری زندگی رمضان کی طرح گذرنی چاہیے۔ذکرو فکر ، دعاو مناجات ،نماز کی پابندی ، فرائض و واجبات کے اہتمام، قرآن کی تلاوت اور اس پر غور وفکر اور عمل کے ساتھ ہر گھڑی گذرنی چاہیے ۔اسلاف نے اپنے تجربات اورقرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات کہی ہے کہ ایک عمل صالح کے بعد دوسرے عمل صالح کی توفیق پہلے عمل صالح کی مقبولیت کی علامت ہے۔ تو گویا جو لوگ رمضان کے بعد بھی نماز ، تلاوت، ذکرواذکار اوراستغفار کرتے رہتے ہیں، ان کی رمضان کی عبادت عنداللہ مقبول ہو چکی ہیںاور جوسب کچھ ترک کر دے گویا اس کی مقبولیت مشکوک ہے۔ کسی نیک کام پر مداومت کے لئے دعا کا التزام، خاص طور پر یہ دعا”اللہم اعنِّی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک “ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو بھی ہمیشہ اس دعا کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی وصیت کی ہے خدا را!اپنے اوپر رحم کرو اور معصیت سے اجتناب کرکے رمضان میں جیسی زندگی گذاری ویسی ہی زندگی گذارنے کی مکمل کوشش کرو ۔اللہ ہماری حفاظت فرمائے او راپنی پناہ میں لے لے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو صرف رمضان میں اللہ کی عبادت اور گیارہ ماہ اللہ کی نا فرمانی میں گذارتے ہیں۔یہ چند وہ اہم چیزیں ہیں جن کا رمضان کے بعد بھی اہتمام کرنا چاہئے درحقیقت یہی رمضان المبارک کی قدردانی اور اس کا پیغام ہے ۔