بچے کےحفظ کرنے کے بعد والد ین کی ذمہ داری

بچے کےحفظ کرنے کے بعد والد ین کی ذمہ داری
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
آج سے چند سال قبل حفاظ کرام کی تعداد بہت کم تھی خال خال ہی کہیںحفاظ نظر آتے تھے بہت کم مساجد ایسی ہو تی تھیںجن میں رمضان میں پورا قرآن مجید تراویح میں سنا یا جا تا تھا لوگ دور دور سے تراویح پڑھنے ان مسا جد میں جا یا کرتے تھے جہاں کو ئی حافظ مکمل قرآن کریم سنا رہا ہوتا اور اکثرایسے حفاظ ہو تے تھے کہ ان کا ’’سامع‘‘(غلطی بتانے والا) نہیں ہو تا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے حفاظ کرام کی تعداد اس قدر بڑھتی گئی کہ اب مسا جد میں حفاظ کو نمبر لگا نا پڑتا ہے ۔مسا جد کے علاوہ مدرسوں ،گھروں، کا رخا نوں ،حتیّٰ کہ شادی حا لوں میں بھی بے شمار جگہ قرآن مجید تراویح میں سنا یا جا تا ہے بے شما ر مقامات پر چار چار ،پانچ پانچ حا فظ سننے اور سنانے کے فرائض سر انجام دے رہے ہو تے ہیں جہاں لو گوں میں اپنے بچوں کو ڈا کٹر،انجینئر،پا ئلٹ وغیرہ بنانے کا شوق ہے اب وہاں حا فظ ِ قرآن بنانے کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے ہمیں اس پر اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کا لا کھ لاکھ شکر ادا کر نا چاہئیے کہ اب ایک ایک گھر میں کئی کئی حا فظ قرآن موجود ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف پا کستان میں ایک کروڑ حفاظ کرام موجود ہیں گو یا پا کستان میں ہر سترہواں آدمی حافظ قرآن ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ آج کل بعض والدین بچے کو صرف حا فظ قرآن تو بنا دیتے ہیں والدین سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے بچے کو حا فظ قرآن بنا کر دینداری کا حق ادا کر دیا ہے یہ بچہ ہماری بخشش اور نجا ت کے لئے کا فی ہو گاقیامت کے روز یہ ہمیں ہا تھ پکڑ کرجنت میں لے جا ئے گا۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے گمان کو سچا کرے ان کی امیدوں کو پورا کر ے لیکن کچھ زمینی حقا ئق بھی ہیں جن سے چشم پو شی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے یعنی والدین کو حفظ کرادینے کے بعدمطمئن ہو کر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ جا ناچاہئیے،بلکہ اب انہیں بچے کی دیکھ بھا ل اور فکر اس زاوئیے سے کرنی چا ہئیے کہ کہیں بچہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے قرآن مجید سے دور تو نہیں ہو رہا،آیا یہ با قاعدگی سے تلاوت کرتا ہے کہ نہیں،کہیں یہ قرآ ن مجید بھول تو نہیں جا ئے گا ۔پابندی سے باجماعت نماز پڑھتا ہے کہ نہیں ،کہیں ویڈیو گیم ،کرکٹ یا کسی دوسرے کھیل یا موبائل کی مصروفیت میں اپنے اصل کا موں کو تو چھوڑ نہیں بیٹھا،کہیں غلط دوستوں میں تو نہیں گھرا ہوا۔ایسا نہ ہو کہ ہم جس بچے سے یہ امیدیں با ندھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہماری بخشش اور نجا ت کا ذریعہ بنے گا وہ خود ہی مدد اور تعاون کا محتاج ہو جائے۔
اس بات کا مشاہدہ ہے کہ کئی بچے حفظ کرنے کے بعد دنیاوی تعلیم کے حصول میں ایسے لگے کہ آج ان کے پا س کچھ نہ رہا وہ حافظ ہو کر بھی حا فظ نہیں رہے ،زندگی کے کئی قیمتی سال صرف کر کے اس نعمتِ عظمٰی کو حا صل کیا،جس نعمت کے حصول کے لئے دن رات ایک کر دئیے،جس کے لئے ماں باپ نے ہر کا م سے فارغ کر کے بس اسی کیلئے وقف کر دیا آج اسی نعمت سے محروم ہیں ۔یاد رہے اس میں بچے سے زیادہ والدین کا قصور ہے اس لئے کہ بچہ تو اپنا نفع و نقصان نہیں جا نتااور کچھ تھوڑا بہت جانتا بھی ہو توبچے میں لا پرواہی زیادہ ہو تی ہے بچے کا ہاتھ پکڑ کر اسے زبر دستی سیدھی راہ پر چلانا والدین کی ذمہ داری ہے ۔جیساکہ حدیث شریف کا مفہوم ہے تم میں سے ہر شخص اپنی رعا یا کا جواب دہ ہے موجودہ دور میں عصری تعلیم تو انتہائی ضروری ہے اگر بچے کو حفظ کرا نے کے بعد اسکول پڑھانا ہے تو ضرور پڑھائیںلیکن اسے غلط ما حول سے بچائیں،غلط دوستوں سے بچائیں،غلط صحبت سے بچائیں اب چا ہے وہ بچہ ڈا کٹر بنے ،پا ئلٹ بنے،انجینئر بنے،یا بزنس مین ہر کام میں وہ قرآن کی برکات کو اپنے سینے میں سمیٹے ہو ئے بھر پور ترقی کرے گا ۔لیکن اگر حصولِ تعلیم کے دوران خدا نخواستہ قرآن مجید سے دوری پید اہو گئی تو پھر ناکا می یقینی ہوجا ئے گی۔