اچھے اخلاق کی حیثیت

از قلم… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میں اچھے اخلاق کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔(احمد، رقم ٨٩٥٢)
مطلب یہ کہ ہر مسلمان سے دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیہ اخلاق ہے۔ آخرت کی کامیابی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان خالق اور مخلوق دونوں کے ساتھ اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے۔ پاکیزہ عمل ہی کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔تمام شریعت اسی کی فرع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کر دیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ فرمایا کرتے تھے: تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں۔ (صحيح بخاری، رقم ٣٥٥٩)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے،(انك لعلی خلق عظيم)بے شک آپ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہیں ۔
مندرجہ بالااحادیث آپ کے انھی اخلاق عالیہ کے اس پہلو کو بیان کرتی ہیں کہ آپ تلخ و شیریں ، غصہ و محبت، اچھے اور برے کسی حال میں بھی بد گوئی اور بد زبانی کرنے والے نہ تھے۔ آپ خود بھی اعلی اخلاق کے حامل تھے اور آپ کے نزدیک وہی لوگ زیادہ پسندیدہ تھے جو اخلاق میں دوسروں سے بہتر ہوتے تھے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میزان میں کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھی جائے گی جو حسن خلق سے بھی زیادہ وزنی ہو۔ انسان اپنے اچھے اخلاق سے دن بھر روزے رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔(ترمذی، رقم٢٠٠٣)
اللہ کی رضا کے لیے دن بھر روزے رکھنا اور رات بھر نماز پڑھنا یقینا یہ دونوں بہت بڑے اعمال ہیں اور انسان ان سے بہت بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ آپ نے اخلاق عالیہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی درجہ انسان اچھے اخلاق سے بھی حاصل کر سکتا ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مؤمن کی میزان میں کوئی چیز بھی اُس کے اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی اور بے شک اللہ تعالیٰ بے حیا بد گو شخص کو دشمن رکھتا ہے۔(ترمذی، رقم ٢٠٠٢)
مطلب یہ ہے کہ وہ بہترین عمل جس کا انسان تصور کر سکتا ہے، وہ اس کا اچھا اخلاق ہی ہے، چنانچہ یہی عمل اس کی میزان میں سب سے زیادہ وزنی ہو گا۔ بے حیائی اور بد گوئی، ان دونوں صفات کو وہی شخص اپنا سکتا ہے جو اخلاق سے اصلاًعاری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ہے۔
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹک پیدا کر دے اور تم یہ پسند نہ کرو کہ دوسرے لوگ اُسے جانیں ۔۔ (مسلم، رقم ٦٥١٦)
دوسروں کے ساتھ نیکی اور اچھے برتاؤ ہی کا نام حسن اخلاق ہے۔ انسان نیکی اور بدی کو فطری طور پر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کی جانب سے اپنے لیے حسن اخلاق کا طالب ہوتا اور بدی یعنی برے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے اور اگر وہ خود کسی برائی میں مبتلا ہو تو دوسروں کے سامنے اس کا افشا پسند نہیں کرتا۔