ارضِ مقدس کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی مذموم کوششیں

ارضِ مقدس کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی مذموم کوششیں
اورامت مسلمہ کی خاموشی!
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
تازہ خبر ہے کہ سرچ انجن گوگل نے فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیاہے، گوگل اور ایپل کی اوچھی حرکت پر مسلم ممالک میں شدید غصے کی لہرفلسطینی عوام پر اسرائیل کی جانب سے انتہا درجے کے مظالم ڈھانے جانے کے بعد اب ایک اور انتہائی اقدام سامنے آ گیا ہے جس کے تحت گوگل میپ اور ایپل نے اپنے نقشوں سے فلسطین کا وجود ہی مٹا دیا ہے، دونوں کمپنیز نے اس سارے خطے کو اسرائیل قرار دے دیا ہے۔دنیا میں اب فلسطین نام کا کوئ ملک اپنا وجود نہیں رکھتا ہے۔سوال یہ ہے کہ قومیں کیا نقشوں پر بنتی اور مٹتی ہیں ؟فلسطین انبیاء کی سرزمین فلسطین ایک نہ مٹنے والی تاریخ دنیا کے ٹھیکے داروں کو انکے نقشے مبارک۔روح مسلم کسی نقشے کی پابند نہیں۔لیکن ہاں ہاں یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ضرور ہے کہ ہم اتنے کمزور ،بزدل اوربے حس بلکہ اتنے بے غیرت ہو گئے ہیں کہ ہم اپنا قبلہ اول کا دفاع نہیں کر سکے۔وہ ملک جہاں ہمارےنبی ﷺ کے یارانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی قبریں ہیں۔جہاں ہماری نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج پر گئے۔اور وہ فلسطین جواسلام کا دروازہ ہے اور ہم اپنے دروازے کے ہی حفاظت نہیں کر سکتے ۔
ارض فلسطین مقدس و محترم ہے اور اسے ہر اعتبار سے برتریت حاصل ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی کثیر تعداد یہاں مبعوث ہوئی اور مسجد اقصیٰ مسلمانانِ عالم کی 3 عبادتگاہوں میں سے ایک ہے جس کی جانب سفر جائز ہے۔مسجد اقصیٰ دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد تعمیر ہوئی۔ارض مقدس فلسطین پر ہمیشہ سے یہودیوں نے غاصبانہ تسلط جما رکھا ہے۔ یہی وہ زمین ہے جس کے باعث ابتداء سے لیکر آج تک بے شمار معصوموں کو موت کی گہری نیند سلا دیا گیا۔ زندہ بچوں کو درگورکیا گیا،بم وبارود اور جدید قسم کے آلاتِ حرب سے شہر مقدس کو تباہ و برباد کیا گیا۔ اس پاک زمین پر جہاں انبیائے کرام کی بعثت ہوئی، نبی نے یہاں سے معراج کیلئے رخت سفر باندھا،اسکو حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں عیسائیوں نے آپ کے حوالے کر دیالیکن حالات بدستور قائم نہ رہے جس کی بنیاد پر دوبارہ یہودیوں کے استعماری چنگل میں چلا گیا۔ یہودیوں نے اس پر1097ء میں اپنا قبضہ جمایا پھر اسلام کے مردمجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1352ء میں یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔بیت المقدس بے شمار فضیلتوں کا حامل ہے۔ اس ارض مقدس کے محترم ہونے کیلئے بس قرآن کریم کی یہ آیت ہی کافی ہے جس میں نبی اکرم و مکرم کو راتوں رات معراج کرانے کی خوشخبری ہے۔قرآن مقدس کی یہ مذکورہ آیت کریمہ مسجد اقصیٰ کی اہمیت کو اجاگر کررہی ہے جس میں بتایا گیا کہ یہی وہ رات ہے جس میں آپ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی جانب جبریل امین ؑکے ساتھ براق نامی خچر پر سوار ہو کر پہنچے اور وہیں تمام نبیوں کی امامت فرماکر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کیلئے رخت سفر باندھا۔ اسی معراج میں نماز فرض ہوئی ، یہی وہ مسجد ہے جس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی،یہی وہ ارض مقدس ہے جس کی جانب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم والوں کومصر سے ہجرت کرکے جانے کو کہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے اسی سرزمین مقدس و محترم کی جانب ہجرت کی تھی جس میں دنیا والوں کے لئے برکت ہے۔یہ ارض اتنی متبرک ہے کہ اسکے گود میں نبیوں کی ایک لمبی فہرست آرام فرماہے۔ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم ، حضرت ہود ، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قبریں یہیں موجود ہیں ۔
فلسطین کی کل آبادی ساڑھےچھبیس لاکھ بتائی جاتی ہے جس کا پچھتر فی صد سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ باقی پچیس فی صد کرسچن اور یہودی اور دیگر آبادی شامل ہے۔ اس طرح فلسطین پر حکومت کا حق قانونی، اخلاقی، تاریخی اور مذہبی اعتبار سے مسلمانوں ہی کا بنتا ہے۔ سن دو ھجری تک مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے ہیں۔لیکن ہماری بےحسی اور بے غیرتی کی کوئی حدہی نہیںہم ایسے گھٹیا ہو چکے کہ اب کوئ مرتا مر جائے ہمیں پروا نہیں ہوتی ،اپنی میراث، اپنا ایمان ، اپنے دین سے بھی دور ہو گئے،ہم کس کے منتظر ہیں ؟ ہم کب جاگیں گے ؟ کل خدا کو کیا جواب دیں گے؟ ہماری مائیں بہنیں ہماری طرف امید بھری نظر کیے ہوئےہیں بیدار ہونے کا وقت ہے اے قوم ! ضمیر کو جگاو اپنے !کفار تم پر حاوی ہو چکے ہیں ! تمہاری ماوں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں تمہارے بھائی سرعام قتل کیے جا رہے ہیں،یہ ذلت یہ غلامی اب اور نہیں تم کھو گئے ہو اس عارضی دنیا میںپڑ کر محبتوں میں ،شرک کرنے لگے ہو !کیا تم یہ بھول گئے کہ موت اور تم میں ایک سانس کا فاصلہ ہے !آج قبلہ اوّل بیت المقدس کے سرخ مینار اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی روہانسی آواز 59 اسلامی ممالک اور 2 ارب مسلمانوں کو پکار رہی ہے ۔ اے مسلمانو! جاگو! فلسطین جارہا ہے۔