ائمہ مساجد کے کرنے کے کام

ائمہ مساجد کے کرنے کے کام
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
ائمہ مساجدہمارے معاشرے کا اہم کردار ہیں اور وہ لوگ ہیں جن کو ہم اپنے معاشرے کا مقدس ترین ادارہ یعنی ’’مسجد‘‘ حوالہ کرتے ہیں اور مسجد کے حوالے سے ہم بخوبی جانتےہیں کے یہ دیگر عبادت خانوں کی طرح صرف مذہبی رسوم و عبادت ادا کرنے کی جگہ نہیں ہے؛ بلکہ مسجد کا ایک اسلامی معاشرے میں بہت وسیع کردار ہے جو صوم و صلاۃ سے بڑھ کر ہماری زندگی کے بہت سے زندہ مسائل سے تعلق رکھتاہے ۔یہی مساجد آج ہمارے آس پاس موجود ہیں،ایک ایسا میڈیا اور ذریعہ ابلاغ جو اس کے متعلقین تک دین کا پیغام پہنچا سکے قابل غور پہلو ہے کہ ہماری ہر گلی میں مسجد ہونے کے باوجود ہم اس مسجد کے آس پاس رہنے والوں تک دین کا پیغام نہیں پہنچا رہے اور مقتدی کے نظریات،تعلیم،اخلاق، گھر، معاشرت اور معاملات غرض زندگی کے ہر حصے میں میڈیا کی محنت کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہم سے اتنا قریب رہنے کے با وجود دور کیوں ہوتا جا رہا ہے اور غیروں سے اجنبیت کا تعلق ہونے کے با وجود ان کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتا جا رہا ہے ۔مسئلہ در اصل یہ ہے کہ ہم اپنے مقتدی کو کچھ دینا ہی نہیں چاہتے، حالانکہ اگر ہم خلوص دل اور محنت کے ساتھ دین کا پیغام اس تک پہنچانا چاہیں تو وہ شخص آسانی اور بہت خوبی کے ساتھ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے،چند وہ عوامل جن کے سبب ایک عام شخص میڈیا سے کئی گنا زیادہ مساجد سے مستفید ہو سکتا ہے۔ جب کہ روزانہ پانچ مرتبہ تقریباً ہر گلی سے کچھ نہ کچھ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں تو کیا اس سلسلے میں ہماری یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم ان تمام لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اپنی بساط کے مطابق مضبوط انتظام کریں تاکہ ان تمام نمازیوں کا مسجد آنا جانا ان کے اپنے لیے اور اس معاشرے کے لیے اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر خلوص اور بھرپور توجہ سے محنت کی جائے تو ان کی ایمانی،اخلاقی،معاشرتی اور تجارتی زندگی میں ایک دینی رنگ چھا سکتا ہے ۔
ائمہ مساجد اصلاح معاشرہ کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں چونکہ ائمہ مساجد کا اصل مقصد مسجد اور اس مسجد کے آس پاس کے ماحول کو صالح ماحول میں بدلنا ہوتا ہے۔امام مسجد کا کردار اس ماحول میں موجود تمام لوگوں کے لیے مثالی بن جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ:٭…جنازہ اور نکاح نہ پڑھانا ہو تب بھی شرکت کا اہتمام کیا جائے ۔٭… امام کا تعلق علاقہ کے لوگوں کے ساتھ صرف مصافحہ کی حد تک نہ ہو بلکہ ان کے احوال کی بھرپور فکرمندی جیسا رویہ ہو۔٭… اپنے مقتدیوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا اہتمام کیا جائے۔٭… مقتدیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی تعلق رکھا جائے اور مل جل کر بیٹھنے کا اہتمام کیا جائے اوراس میں امیر غریب ،صاحب استطاعت اور بے روزگار میں امتیاز نہ برتا جائے ۔٭… جتنا زیادہ ہو سکے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کو فروغ دیا جائے ورنہ فرقہ واریت کے خدشات بڑھ جائیں گے۔٭… نوجوانوں کے پوچھے گئے سوالات کو بالکل بھی نظر انداز نہ کیا جائے ؛بلکہ چھوٹے بڑے تمام سوالات کو اہمیت دی جائے، چاہے وہ سوالات کسی بھی حوالے سے ہوں جن میں خاص کر موجودہ میڈیائی فتنے شامل ہیں جن کو دیکھ کر ان نوجوانوں کے ذہنوں میں دین ،ایمان ،توحید ،رسالت اور آخرت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ ان سوالات کا اگر بر وقت تسلی بخش جواب نہ دیا گیاتو ان کا ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے ۔نو جوانوں کو ان کے مسائل میں ائمہ مساجد رہنمائی نہیں کریں گے تو وہ اپنے مسائل و اشکالات کو بھلا بیٹھنے والے نہیں، بلکہ وہ انہی مسائل کے ساتھ جب مختلف تجدد پسند یا گمراہ فکر کے حامل لوگوں تک پہنچتے ہیں تو وہ انھیں اپنے طور پران مسائل کا حل پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ علماء اور تمام تر روایتی فکر سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔٭… ائمہ مساجد اس بات کے حریص ہوں کہ ان کے وجود سے علاقہ کے لوگوں کو جتنا زیادہ دینی فائدہ ہو سکے ہوتا رہے۔٭… جو بھی بات کہی جائے وہ لوگوں کی ذہنی سطح،ماحول اور ضرورت کے اعتبارسے کہی جائے۔
اس وقت ائمہ کے پاس امت کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک بہترین میدان میسر ہے جس میں :٭… مسجد کی صورت میں ایک منظم ادارہ٭… نمازیوں کی صورت میں طلبہ٭… پنج وقتہ نمازوں کی صورت میں اوقاتِ تعلیم٭… قرآن و حدیث کی صورت میں ایک بہترین نصابِ تعلیم کی سہولیات موجود ہیں ۔ضرورت صر ف متحرک اور فکرمند ہونے کی ہے ۔ لہٰذا ائمہ کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ امت کی تربیت کریں،اس طرح وہ ایک صاحب ایمان کا کردار ادا کر سکیں گے اوراپنے قول و فعل میں صداقت و امانت کے ساتھ ایک مثالی گھرانہ ،مثالی معاشرہ اور ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کریں گے، جب تمام ائمہ مساجد اپنی اپنی مسجدوں میں یہ کام اس فکر کے ساتھ شروع کریں گےکہ میرے اس کام کا مقصد فرد ،معاشرہ اور ریاست کی اصلاح ہے۔ اسی طرح یہ کام ہرعلاقہ، شہراور ملک میں ہونے لگے توکچھ بعید نہیں کہ پندرہ وبیس سال کے اندر اندر امت مسلمہ کی تقدیر ہی بدل جائے، ان شاء اللہ۔