ماہِ شوال کے6 روزے:از:محمد نجیب سنبھلی قاسمی

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
شوال کے ۶ روزے واجب یا سنت؟
قرآن وسنت میں شوال کے ۶ روزوں کے واجب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شوال کے یہ چھ روزے فرض یا واجب نہیں ہیں بلکہ سنت ہیں۔ شوال کے ان ۶ روزوں کے سنت ہونے پر جمہور علماء کا اتفاق ہے، صرف امام مالک ؒ نے اپنی کتاب مؤطا امام مالکؒ میں(رمضان کے فوراً بعد یعنی عیدالفطر کے دوسرے دن سے) ان ۶ روزوں کے اہتمام کو مکروہ تحریر کیا ہے۔ بعض حضرات نے عیدالفطر کے فوراً بعد ان چھ روزوں کو رکھکر ساتویں شوال کی شام کو ایک تقریب کی صورت بنانی شروع کردی تھی، ممکن ہے کہ اسی وجہ سے امام مالکؒ نے عیدالفطر کے دوسرے دن سے اہتمام کے ساتھ ان ۶ روزے رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہوتاکہ رمضان اور غیر رمضان کے روزوں میں فرق کیا جاسکے، جیساکہ امام قرطبیؒ نے تحریر کیا ہے کہ خراسان کے بعض حضرات نے رمضان کی طرح عیدالفطر کے ان ۶ روزوں کا اہتمام کیا۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ شوال کے ۶ روزے سنت ہیں اور عید الفطر کے دوسرے دن سے ان روزوں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
شوال کے ۶ روزے رکھنے کی فضیلت:
حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) اس مذکورہ حدیث میں دہر کا لفظ آیا ہے جس کے اصل معنی زمانے کے ہیں لیکن دیگر احادیث کی روشنی میں یہاں سال مراد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورۂ الانعام ۱۶۰) تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو ۶۰ دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔
مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں، شوال کے ان چھ روزوں سے اللہ تعالیٰ اس کوتاہی اور کمی کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرمادیتا ہے جیساکہ واضح طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
شوال کے ۶ روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہیں:
احادیث میں چھ روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ہے، لہذا یہ چھ روزے ماہِ شوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی۔علماء احناف اور سعودی عرب کے کبار علماء کی کونسل نے یہی فتوی دیا ہے کہ رمضان کے فوراً بعد یا لگاتار رکھنا کوئی شرط نہیں ہے، ماہ شوال میں کبھی بھی مسلسل یا بیچ میں ناغہ کرکے ۶ روزے رکھنے سے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ (اللجنہ العلمیہ للبحوث العلمیہ والافتاء ۱۰/۳۹۱)
شوال کے ۶ روزے کی فضیلت کے ایک جزئیہ پر معمولی اختلاف:
رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے سے پورے سال فرض روزے یا نفل روزے رکھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، اس میں علماء کی رائے مختلف ہیں۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی رائے ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے سے پورے سال فرض روزے رکھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، البتہ امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا کہ پورے سال نفل روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ دونوں رائے میں سے کوئی بھی رائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام کے واضح اقوال سے مدلل نہیں ہے، بس احادیث کے مفاہیم سے اپنے اپنے اقوال کو مزین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رمضان کے بعد شوال کے ۶ روزے رکھنے سے پورے سال روزے رکھنے کی فضیلت کا حاصل ہونا تو یقینی ہے مگر سال بھر کے فرض یا نفل روزے ، اس میں اختلاف ہے۔
رمضان کے فوت شدہ روزوں اور شوال کے ۶ روزوں میں سے کون سے پہلے رکھے جائیں:
اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ گئے تو تحقیقی بات یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے اگر کوئی شخص ان چھ روزوں کو رکھنا چاہے تو جائز ہے کیونکہ رمضان کے روزوں کی قضا فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں حتی کہ ازواج مطہرات اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا عموماً ۱۱ ماہ بعد ماہ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیساکہ احادیث میں مذکور ہے۔ اگرچہ امام احمد بن حنبل ؒ نے رمضان کے روزوں کی قضا سے قبل چھ روزوں کی ادائیگی کو ناجائز قرار دیا ہے۔
اب ایک اور اختلافی مسئلہ ہے کہ رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا سے قبل شوال کے ۶ روزے رکھنے سے پورے سال روزہ رکھنے کی فضیلت حاصل ہوجائے گی یا نہیں۔ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات عالی سے یہی امید ہے کہ رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا سے قبل بھی شوال کے ۶ روزے رکھنے کی فضیلت حاصل ہوجائے گی، انشاء اللہ۔
نوٹ: اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر کسی سال نہ رکھ سکے تو وہ گناہگار نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے۔