عورت کے لئے کس کس سے پردہ؟

عورت کے لئے کس کس سے پردہ؟

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ عورت کے لیے پردہ کس کس سے ضروری ہے؟

والد اور والدہ کے چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپی زاد بھائی، بہنوں سے اور اسی طرح ان کی بیویوں سے پردہ کا حکم کیا ہے؟ اسی طرح ان کی بیٹیوں سے اور بیٹوں کی بیویوں سے پردہ کا حکم کیا ہے؟پھوپھی کے شوہر، اسی طرح بہن کے شوہر اور شوہر کی بہن کے شوہر سے پردہ کا حکم کیا ہے؟ اسی طرح وہ چچا زاد بہن یا خالہ زاد، ماموں زاد پھوپھی زاد جو عمر میں بہت بڑی ہے؟ شوہر کے چچا ماموں پھوپھا وغیرہ سے پردہ کا حکم کیا ہے؟ شوہر کے چھوٹے بھائی اور بڑے بھائیوں سے پردہ کا حکم کیا ہے؟ کیا اپنے چچا اپنے ماموں اپنے پھوپھا سے پردہ کرنا چاہیے کہ نہیں؟ آیا صرف اپنی بہن ،ماں، بھانجی، بھتیجی، اپنی ماسیوں، اپنی چچیوں سے پردہ نہیں ہے، یااس کے علاوہ بھی کوئی ہے؟

جواب… واضح رہے کہ مرد یا عورت کے لیے رشتہ داروں سے پردے کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے (مرد یا عورت کا ) نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے، اُن سے پردہ نہیں، مثلاً: ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بھائی، بہن، چچا ، پھوپھی ، خالہ، بیٹا ،بیٹی، پوتا، پوتی وغیرہ۔

اور جن رشتہ داروں سے نکاح جائز ہے، ان سے پردہ کرنا واجب ہے، مثلاً : چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہن بھائی، پھوپھا، چچی، خالو، بہنوئی وغیرہ، اسی طرح عورت کے لیے اپنے شوہر کے ان رشتہ داروں سے پردہ نہیں ہے، جن رشتہ داروں کا عورت سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے، مثلاً:سسر، سوتیلا بٹیا وغیرہ، اور شوہر کے وہ رشتہ دار جن سے اس عورت کا نکاح جائز ہے، ان سے پردہ کرنا واجب ہے، جیسے: شوہر کا بھائی (دیور)، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا خالو، شوہر کے بھائی کی اولاد اور شوہر کی بہن کی اولاد وغیرہ۔

وہ چچازاد، خالہ زاد، ماموں زاد، بہن یا اس کے علاوہ اور کوئی عورت اگر عمر رسیدہ ہو، بڑھاپے کی عمر تک پہنچ گئی ہو، اس کے ساتھ سلام یا ضروری بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

مشترکہ فیملی میں پردہ کی صورت واہمیت
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع مبین مسائل مذکور ہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ اجنبی (غیر محرم) مرد، عورت سے بوقت ملاقات ہاتھ ملا کر مصافحہ کرتا ہے، اگر ہاتھ نہ ملائے تو ملامت کی جاتی ہے، ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے، چاہے بظاہر دین دار گھرانہ کیوں نہ ہو، غیر محرم سے بے حجاب سامنے بیٹھ کر بات چیت ، ہنسی مزاق عام معمولات زندگی بن گیا ہے، بڑا دین دار سمجھا جانے والا بھی ( اگرچہ عالم ہو) اپنے رشتہ داروں مثلاً: چچازاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد سے اپنی بیوی کو پردہ نہیں کراتا، مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر چند سوالات کا جواب مطلوب ہے:
1..دورِ پرفتن کے پیش نظر غیر محرم سے بے حجاب بات چیت، ہنسی مزاق، ہاتھ ملانا جائز ہے؟
2..اگر مختلف رشتہ دار (دو بھائی، چچا زاد، خالہ زاد وغیرہ) ایک ہی مکان میں رہ رہے ہوں تو ان کے لیے پردہ کی کیا حدود ہیں، نیز عملاً اس کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟

جواب…1.. نامحرم عورتوں کے ساتھ گپ شپ لگانا، بے حجاب اختلاط کرنا، ہنسی مزاح کرنا، ہاتھ ملانا جائز نہیں ہے، خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اہل علم حضرات کو تو اور زیادہ اس فتنہ سے بچنے کی اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
2..ایک مکان میں رہتے ہوئے نامحرم رشتہ داروں سے اہتمام کے ساتھ ”پردے“ کا ماحول بنانا لازم ہے، بلاضرورت ان کے سامنے آنے سے گریز کیا جائے، اور اگر اتفاقی طور پر نامحرم رشتہ دار سامنے آجائے تو عورت کو چاہیے کہ اپنا چہرہ چھپالے او رمرد اپنی نگاہ نیچی کر لے۔

قصر نماز کیا حکم ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں :
1..میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں وہاں انجینئرز کو ملک کے مختلف شہروں میں جاکر کام کرنا پڑتا ہے، لیکن کچھ افراد ایسے ہیں جنہیں کسی ایک شہر میں مستقل بھیج دیا گیا ہے جیسے کہ مجھے ”سکھر“ بھیجا گیا ہے ، میری فیملی کراچی میں رہتی ہے اور میں سکھر دس سے بارہ دن رہنے کے بعدد و ، چار دن کے لیے کراچی آجاتا ہوں اپنے گھرو الوں کے پاس، سکھر میں کمپنی کی طرف سے مجھے رہنے کے لیے کمرہ دیا گیا ہے جو فیکٹری کی حدود میں ہے، میرا آنے جانے کا یہ سلسلہ چھ ماہ سے جاری ہے اور غالباً اگلے اٹھارہ ماہ تک رہے گا، تو کیا سکھر میں میری نماز قصر ہو گی؟
2..میری طرح دوسرے شہروں سے بھی لوگ سکھر میں کام کرتے ہیں، لیکن ان کے لیے کمپنی کی طرف سے رہائش کا انتظام نہیں ہے، اس لیے تین، چار افراد نے مل کر کرائے کا مکان لیا ہوتا ہے، ان میں سے کچھ افراد ہر چھ روز کے بعد دو دن کے لیے اپنے گھر والوں کے پاس چلے جاتے ہیں، یاد رہے کہ کسی کے بھی گھر والے سکھر میں نہیں ہیں اور وہ لوگ کئی سالوں سے ایسے ہی رہ رہے ہیں، تو کیا انہیں بھی نماز قصر کرنی ہو گی یا نہیں؟

سوال نمبر1.. اور نمبر2.. دونوں میں اگر کبھی قیام قصداً پندرہ دن یا اس سے زائد کا ہو جائے تو کیا آئندہ ہمیشہ پوری نماز پڑھنی ہو گی یا پھر ہر بار قصر کے ایام شروع سے گنے جائیں گے؟

جواب..1 ، 2.. صورت مسئولہ میں چوں کہ آپ نے سکھر میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ دنوں کے لیے قیام نہیں کیا، بلکہ دس بارہ دن بعد کراچی واپس آگئے، اسی طرح باقی ملازمین بھی ہر چھ دن بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، اس لیے آپ حضرات سکھر میں مسافر شمار ہوں گے اور قصر نماز پڑھیں گے، لیکن جماعت کے ساتھ شریک ہو کر پوری نماز پڑھنے کی کوشش کریں تو زیادہ مناسب ہے۔
3..سکھر میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کرنے کے بعد آئندہ کے لیے آپ حضرات سکھر میں مقیم شمار ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے، جب تک ملازمت کے سلسلے میں وہاں رہیں گے۔

چندہ کی رقم سے طلبہ کو انعامات دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ آج کل جو مدارس میں سالانہ جلسہ ہوتا ہے او راس میں طلباء کو بطور انعام کتابیں دی جاتی ہیں، اسی طرح علماء کی آمد ورفت پر خرچ شدہ رقم وغیرہ یہ مدرسہ کے چندہ سے خرچ کرنا کیسا ہے؟

جواب…اگر چندہ دینے والوں نے چندہ دیتے وقت مصرف کی تعیین کر دی ہے ، تو اسی مصرف پر چندہ صرف کیا جائے گا اس کے خلاف نہیں، اور اگر مصرف کی تعیین نہیں کی بلکہ مہتمم کو مصالح مدرسہ میں صرف کرنے کا مکمل اختیار دیا ہے تو پھر یہ چندہ کی رقم مدرسہ کی ہر مصلحت میں خرچ کی جاسکتی ہے ، صورت مسئولہ میں چوں کہ انعامی جلسہ منعقد کرنا بھی مصالح مدرسہ میں داخل ہے، لہٰذا اس جلسے پر آنے والے اخراجات چندہ کی رقم سے پورے کیے جاسکتے ہیں ، البتہ غیر ضروری اخراجات (جو مصالح مدرسہ سے متعلق نہ ہوں ) چندہ سے پورے کرنا جائز نہیں، لہٰذا چندہ کی رقم سے جس طرح طلبہ کو وظیفہ دینا درست ہے اسی طرح طلبہ کو امتحان میں کامیابی کے موقع پر انعامات دینا بھی درست ہے، اور باہر کے علمائے کرام مہمانوں کی آمد کی وجہ سے جلسے میں لوگوں کی شرکت اور پھر مدرسے کے ساتھ مالی تعاون زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کی آمدورفت کے اخراجات بھی چندہ کی رقم سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔

کیا وکیل اپنے مؤکل کی اجازت کے بغیر کمیشن لے سکتا ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ زید کے بازار میں تعلقات ہیں، جس کی بناء پر اس کو سودا سلف بہت زیادہ سستے داموں مل جاتا ہے، اس بناء پر اکثر لوگ اسے سامان لانے کا کہتے رہتے ہیں، بار بار کے ان کاموں کی وجہ سے اس کے وقت کا کافی حرج ہو جاتا ہے، وہ تعلقات، رشتہ داری اور حیاء کی وجہ سے ان سے اجرت کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا ، اب ایسی کیا صورت ہو سکتی ہے کہ زید کو اس کی محنت یا وقت کا معقول بدل بھی مل جائے اور مؤکلین کو بھی معلوم نہ ہو سکے اوران کا مقصود یعنی اشیاء کا سستے داموں ملنا بھی پورا ہو سکے؟

خالد نے زید کو تین طریقے بتائے کہ ان میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کر لو تمہارے لیے نفع لینا جائز ہو جائے گا:

طریقہ نمبر1 زید کا کوئی دوست یا بھائی وہ چیز مکمل نفع پر خرید لے، مثلاً: ساٹھ روپے میں ، پھر زید اس سے نوّے روپے میں خریدلے اور اپنے مؤکل کو بھی نوّے روپے میں ہی دے دے، اب اگر اس کا مؤکل اپنے طور پر خریدتا تو اسے سو روپے میں ملتی، لیکن زید کے واسطے سے اسے نوّے روپے میں مل گئی، وہ اس پر بھی خوش ہے، دوسری طرف زید کا دوست اپنی مرضی سے کبھی دس روپے، کبھی بیس روپے او رکبھی تیس روپے دے دیتا ہے اور کبھی بالکل بھی نہیں دیتا۔

طریقہ نمبر2 زید نے دوکان دار سے بات کی کہ میں تمہارے لیے گاہک تلاش کرکے لاؤں گا، یا تم سے سامان خریدا کر وں گا، تم مجھے کمیشن دیا کرو، وہاں جو چیز پہلے تم مجھے ساٹھ روپے کی دیتے تھے اب وہ نوّے روپے میں دے دیا کرو۔ چنا ں چہ زید نوّے روپے میں وہ چیز خرید کر نوّے روپے میں ہی اپنے مؤکل کو دے دیتا ہے اور دوکان دار سے اپنا کمیشن لے لیتا ہے۔

طریقہ نمبر3 جب کوئی شخص زید کو کہتا ہے کہ مجھے فلاں چیز لے دو، تو زید کہتا ہے کہ اس وقت تو میں مصروف ہوں، فارغ نہیں ہوں اور دوکان دار بھی نہیں ہو گا، ایسا کرو کہ میں فارغ ہوتے ہی پہلی فرصت میں وہ چیز خرید لوں گا، یا لے لوں گا، آپ مجھ سے لے لینا، پھر زید وہ چیز اپنے لیے ساٹھ روپے میں لے لیتا ہے اور نوّے میں اس کہنے والے پر بیچ دیتا ہے، واضح رہے کہ مؤکل زید کے ان الفاظ کے ہیر پھیر سے بالکل ناواقف ہے، وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ زید مجھے دوکان دار سے لے کر دے گا اور جتنے میں مجھے دے رہا ہے اتنے میں ہی اس نے خریدی ہے، یعنی: اس کے گمان میں زید اپنے لیے نفع نہیں رکھ رہا، اگر چہ زید اپنے گمان میں اپنے الفاظ کے استعمال سے وکالت کے بجائے بیع وشراء کر رہا ہے۔

اب آپ حضرات بتائیں کہ:
مذکورہ تینوں طریقے درست ہیں؟ یا کوئی ایک؟ یا کوئی بھی نہیں؟ بالخصوص تیسری صورت کے بارے میں وضاحت فرما دیں، بہرصورت اگر شرعاً کوئی گنجائش ملتی ہو تو مطلع فرمائیں۔

جواب… صورتِ مسئولہ میں تینوں صورتیں جائز نہیں، کیوں کہ پہلی اور تیسری صورت میں زید کا اپنے موکل کے ساتھ خیانت کرنا اور اس کو دھوکہ دینا پایا جاتا ہے اور دوسری صورت میں اصل عاقد ( مشتری) خود زید ہی ہے اس لیے اس کے لیے بائع سے کمیشن لینے کی شرط لگانا شرطِ فاسد ہے جو جائز نہیں ہے، البتہ جواز کی صورت یہ ہے کہ زید اپنے مؤکلین سے اجرت طے کر لے۔

ناخن ، بال کٹوانے ، تیل وخوشبو لگانے کا مسنون طریقہ
سوال… ناخن کٹوانے، سر کے بال کٹوانے اور تیل وخوشبو لگانے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ باحوالہ جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب…1..ناخن کاٹتے وقت انگلیوں کی ترتیب کسی حدیث سے صراحتاً ثابت نہیں، البتہ فقہاء نے بہتر طریقہ یہ لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے شروع کرے اور ترتیب وار چھوٹی انگلی تک کاٹے ، پھر بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے لے کر انگوٹھے تک بالترتیب کاٹے، آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹے اور پیروں کے ناخن کاٹنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے ابتدا کرے اور بالترتیب بائیں پیر کی چھوٹی انگلی تک کاٹے۔

2..سر کے بال کٹوانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سر کے دائیں جانب سے ابتدا کی جائے اور پورے سر کے بالوں کو منڈوایا جائے یا کتروایا جائے ، سر کے بعض حصہ کے بالوں کو کتروانا اور بعض کو چھوڑنا، اسی طرح کچھ بال کم او رکچھ زیادہ کتروانا درست نہیں ہے۔

3..تیل لگانے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں ڈال کر بھنؤوں سے ابتدا کرے، پھر آنکھوں ( کے پپوٹوں)پر اور پھر سر پر لگائیں۔

4..خوشبو لگانے کا کوئی خاص طریقہ تو روایات میں نہ مل سکا، البتہ سر مبارک، چہرہ مبارک ، داڑھی مبارک اور ہاتھوں پر خوشبو لگانا روایات سے ثابت ہے، بہرحال جسم پر کہیں بھی لگانے سے سنت پر عمل ہو جائے گا۔