علامہ فضل حق خیرآبادی


علامہ فضل حق خیرآبادی
ایس اے ساگر

آزادی کی بنیاد ڈالنے والا سب سے بڑا مجاہد جس کو تاریخ دانوں نے بُھلا دیا، مؤرّخین نے جس کے ساتھ انصاف نہیں کیا، لکھنے والوں نے جس کے ساتھ عدل نہیں کیا۔ وہ آپ جانتے ہیں کون ہے جس نے آزادی کا سب سے پہلا پتھر رکھا؟ جس نے آزادی کا سب سے پہلے سنگ بنیاد رکھا؟ وہ مرد مجاہد حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔
علامہ فضل حق خیرآبادی کی ولادت ۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷ کے دوران ہوئی اور ان کے والدِ ماجد مولانا فضل امام خیرآبادی علیہم الرحمہ جن کی وفات ۱۲۴۴ھ/۱۸۲۹ کے دوران ہوئی. دونوں حضرات اپنے عہد کے جید عالم اور مشاہیر میں شمار کئے جاتے تھے اور مرجع العلماء والادباء تھے۔ دونوں کی شخصیت حکمت و دانش کے اعتبار سے یگانۂ روزگار تھی. ان حضرات کو معقولات میں جو تبحّر حاصل تھا؛ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ وہ یونانی اور اسلامی دورِ عروج کے مفکرین اور حکما کی صف میں شامل کئے جانے کے بلاشبہ قابل ہیں۔ سر سید احمد خان علامہ فضل حق خیرآبادی سے سیاسی و دینی لحاظ سے مختلف الخیال اور جدا جدا عقیدہ رکھتے تھے بل کہ بعض معاملات میں شدید مخالفت بھی کی؛ لیکن خاطر نشین فرمائیے کہ سر سید کے ذہن و قلب پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی حکمت و دانش کے اثرات کتنے گہرے تھے، سر سید لکھتے ہیں:
’’جمیع علوم و فنون میں یکتاے روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انھیں کی فکرِ عالی نے بِنا ڈالی ہے ، بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانۂ فن سمجھتے تھے، جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا، دعوی کمال کو فراموش کرکے نسبتِ شاگردی کو اپنا فخر سمجھا، بہ ایں کمالات علم و ادب میں ایسا عَلمِ سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی شستۂ محضر عروجِ معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبعِ رسا دست آویز بلندیِ معارج ہے۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایۂ خوش بیانی اورامراء القیس کو ان کے افکارِ بلند سے دست گاہِ عروج و معانی، الفاظِ پاکیزہ ان کے رشکِ گوہرِخوش آب اور معانیِ رنگین ان کے غیرتِ لعلِ ناب، سرو ان کی سطورِ عبارت کے آگے پابہ گِل، اور گُل ان کی عبارتِ رنگیں کے سامنے خجل، نرگس ان کے سواد سے نگاہ ملا دیتی، مصحفِ گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی، اور سوسن اگر ان کی عبارتِ فصیح سے زبان کو آشنا کرتی، صفتِ گویائی سے عاری نہ ہوتی۔‘‘ (سر سید: آثارالصنادید،ص ۲۸۱)
اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سرزمین ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہ فضل حق خیرآبادی کو ہی حاصل ہے، علامہ کی تصنیف ’’الثورۃ الہندیہ اور’’ قصائد فتنۃ الہند‘‘ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے نہایت قابلِ قدر مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چوں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے مسئلۂ امتناع النظیر وغیرہ میں اُن کے معاصر سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے نظریات سے اتفاق نہیں کیا، بہ ایں سبب آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں؛ چناں چہ تاریخی حقائق و شواہد پر پردہ ڈالنے اور جنگِ آزادی کے مسلمہ رہنماوں کے خلاف فضا پیدا کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ علامہ فضل حق خیرآبادی نے نہیں دیا۔ اس ضمن میں مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ رام پوری اور مالک رام کواوّلیت حاصل ہے، جنھوں نے اپنا سارا ’’زورِ تحقیق‘‘ نا معلوم کن ’’جذبات‘‘ سے سرشار ہوکر اس بات پر صرف کرنے کی ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ کوشش کی کہ انگریزوں کے خلاف فتویٰ پر علامہ خیرآبادی کے دستخط نہیں تھے۔ ان صاحبان کے مضامین ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں اگست ۱۹۵۷ء اور جون ۱۹۶۰ء میں علی الترتیب شائع ہوئے۔ عرشیؔ صاحب کے بارے میں تو معلوم ہے کہ وہ سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے افکار و نظریات کے پیرو تھے، بہ ایں سبب جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد کے سلسلے میں آپ نے ’’محققانہ فیصلہ‘‘ صادر کرنے میں جانب داری کا ’’بہترین مظاہرہ‘‘ کیا، مالک رام کے بارے میں پتہ نہیں کہ وہ کن جذبات سے مغلوب ہوکر تاریخی حقائق کو جھٹلا رہے تھے؟ علاوہ ازیں پروفیسر محمد ایوب قادری (پاکستان) نے بھی اپنا ’’اشہبِ تحقیق‘‘ ان ہی دونوں شخصیات کے تتبع میں اسی میدان میں دوڑایا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کا جنگِ آزادی میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ ویسے کہیں کہیں ان کے قلم سے بے ساختہ سچائی بھی ٹپک پڑی ہے۔
سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے محض اِن چند ہم نوا مورخین کو چھوڑ کر اُنہی کے ماننے والے بیش تر حضرات نے اس حقیقت کا کسی نہ کسی طور پر اعتراف کیا ہے کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے فتویٰ جہاد نے ہی روح پھونکی اور تحریک ِآزادی نے زور پکڑا۔ ان میں جناب حسین احمدمدنی ٹانڈوی ، غلام رسول مہرؔ، شکور احسنؔ، مفتی انتظام اللہ شہابیؔ، محمد اسماعیل پانی پتی، خلیل احمد نظامی وغیرہم نمایاں ہیں۔
علامہ فضل حق خیرآبادی سے مذہبی طور پر مخالفانہ رویہ رکھنے والے چند مورخین کو چھوڑ کر ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ مولانا ہی کی ذات وہ پہلی متحرک شخصیت ہے جس نے انگریزوں کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنے کا فتویٰ عام فرمایا اور جس کے نتیجے میں سرزمینِ ہند کے مختلف بلاد و امصار میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت و شورش برپا ہوئی جسے ہم ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے نام سے جانتے ہیں۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کو اس زمانے میں گرفتار کرکے ان پر انگریزی حکومت سے بغاوت کرنے کی پاداش میں جزائرِ انڈومان سزائے کالا پانی کے طور پر بھیج دیا گیا۔ جہاں عالمِ اسیری میں ۱۲؍ صفر المظفر ۱۲۷۸ھ/ ۱۸۶۱ء کو آپ نے دارِ بقا کی طرف رحلت فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالٰی آپ کی قربانیوں کو قبول فرمائے!