عربوں کی ذہانت اور معاملہ فہمی

فخر کی عادت عربوں میں ہمیشہ سے تھی (اب بھی ہے). انہیں اپنے عربی ہونے پر اور باقی دنیا کے عجمی ہونے پر تعصب کی آخری حد تک فخر تھا. ان کے فخر کا باعث ان کی کئی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ذہانت بھی تھی. اور یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ہے کہ حافظے اور ذہانت میں عرب کا ہر باشندہ بے مثال تھا اور یہ سارے ذہین ترین عرب قبائل مکہ کے قبیلہ قریش کی سیادت کے قائل تھے. اور قبیلہ قریش کے سبھی خاندان عمر بن ہشام کی ذہانت کا لوہا مانتے تھے
عمر بن ہشام کو اس کی بے مثال ذہانت اور معاملہ فہمی کے اعتراف میں اب الحکم کہہ کر پکارا جاتا تھا. مکہ کی مقامی پالیمنٹ یا مجلس شوریٰ ابوالحکم کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی
مکہ کی مجلس شوریٰ یعنی دارالندوہ
اس مجلس شوریٰ میں شریک ہونے کی ایک شرط عمر میں بڑا ہونا اور جہاندیدگی بھی تھی
یہ انسانوں کا معیار تھا
پھر اسی مکہ میں ایک صادق اور امین کا ظہور ہوا
صرف مسلم مؤرخ ہی نہیں غیر مسلم مؤرخین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دارالندوہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی چند سال کے بچے نے دارالندوہ کے اجلاس میں شرکت کی ہو
یہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے
آپ اپنے داد حضرت عبدالمطلب کے ساتھ دارالندوہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے
دارالندوہ کا ہمیشہ سے چلا آرہا اصول ایک بچے کیلئے بدل گیا
کیوں؟؟
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا سے اتر کر آئے تو انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مجھ پر ظاہر ہوا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق خدا کی ہدایت کیلئے نبی بنایا گیا ہے
کچھ نے یہ سنا اور مان لیا
کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق ہیں. آپ جو فرما رہے ہیں وہی سچ ہے. چاہے ہم نے خدا کو نہیں دیکھا مگر چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ خدا ہے. تو ہم مانتے ہیں کہ خدا ہے.
ہمارے اجداد بتوں کئی سو سال سے بت پرست تھے. مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں…. پس ہم مانتے ہیں کہ ہر بت جھوٹا ہے …. سچا صرف وہ رب ہے جس کا کوئی شریک ہے نہ ہمسر ہے
اور وہ صدیق کہلائے
عمر بن ہشام کو یہ خبر ہوئی تو اس نے ماننے سے انکار کردیا. کیونکہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے اپنے عمر میں بڑا ہونے کا زعم تھا. اسے اپنی ذہانت کا زعم تھا. اسے اپنے اجداد کی بیان کی گئی تاریخ کا زعم تھا
پس اس نے انکار کردیا
اور وہ ابوالحکم قیامت تک کیلئے ابوجہل کے نام سے موسوم کردیا گیا
اللہ کے نزدیک اور اللہ کے اس سب سے عاجز بندے کے نزدیک حق اور سچ کا معیار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں . ان کے بعد ان کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور جو بھی اس راستے پر ہے
اس کے علاوہ جو اس راستے پر نہیں.پھر چاہے وہ کتنا ہی بڑا ڈاکٹر اور سکالر ہی کیوں نہ ہو اس کی ساری علمیت سارا تقابل ادیان ابوجہل کے برابر ہے
کہتے ہیں کسی جگہ ایک شخص رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے۔ اس شخص نے اپنے ان تینوں بیٹوں کے نام حجر رکھے ہوئے تھے۔ دن گزرتے رہے حتیٰ کہ اسے مرض الموت نے آن لیا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلا کر وصیت کی کہ حجر کو وراثت ملے گی، حجر کو وراثت نہیں ملے گی اور حجر کو وراثت ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی روح قبض ہوگئی۔ یہ خود تو فوت ہو گیا مگر اپنے بیٹوں کو حیرت میں ڈال گیا کہ کیسے فیصلہ کریں کن دو حجر کو وراثت ملے اور اور کس ایک کو نہیں ملے گی۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ شہر جاکر قاضی سے اپنا مسئلہ بیان کریں اور اس سے کوئی حل مانگیں۔
تینوں اپنے زاد راہ کے ساتھ شہر کیلئے عازم سفر ہوئے۔ راستے میں انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کرتا پھرتا تھا۔ ان بھائیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی اونٹنی گم ہوگئی ہے جسے وہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔
ایک حجر نے پوچھا کیا تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی تھی۔
اس آدمی نے کہا: ہاں ہاں، ایسا ہی تھا۔
دوسرے حجر نے پوچھا: کیا تیری اونٹنی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی
تو اس آدمی نے جلدی سے کہا: بالکل صحیح، میری اونٹنی واقعی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی۔
تیسرے حجر نے اونٹنی کے مالک سے پوچھا: کیا تیری اونٹنی کی دم کٹی ہوئی تھی
تو اس نے خوشی سے کہا: بالکل ٹھیک، میری اونٹنی کی دُم بھی کٹی ہوئی تھی۔ بس اب جلدی سے بتا دو میری اونٹنی کہاں ہے؟
تینوں حجر نے مل کر جواب دیا: بخدا ہمیں آپ کی اونٹنی کے بارے میں کوئی علم نہیں، ہم نے اسے ہرگز نہیں دیکھا۔
اونٹنی کا مالک ان کی یہ بات سن کر غصے سے پاگل ہو گیا، اس نے فیصلہ کیا کہ اس تینوں کو کھینچ کر قاضی کے پاس لے جائیگا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس کی اونٹنی کو یہ تینوں ذبح کر کے کھا چکے ہیں اور اب اپنے جرم کو چھپانے کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ اونٹنی والے نے جب تینوں کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم خود بھی قاضی کے پاس ہی جا رہے ہیں
جب یہ چاروں قاضی کے پاس پہنچے تو اونٹنی والے نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا۔ قاضی نے ان تینوں سے کہا جس طرح تم تینوں نے اونٹنی کی نشانیاں بتائی ہیں اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اونٹنی تم تینوں کے پاس ہے، بہتر ہے کہ تم اپنے جرم کا اعتراف کر لو۔
پہلے نے کہا؛ جناب عالی، ہم نے اونٹنی تو نہیں دیکھی تھی، ہاں البتہ اونٹنی کے آثار ضرور دیکھے تھے۔ جب میں نے اسے کہا تھا کہ تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی ہے تو میں نے دیکھا تھا کہ راستے کے ایک طرف کا گھاس تو خوب چرا ہوا تھا مگر دوسری طرف کا ویسے ہی بآمان موجود تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس شخص کی اونٹنی ایک آنکھ سے کانی رہی ہوگی۔
دوسرے حجر نے کہا؛ میں نے دیکھا تھا کہ راستے میں تین قدم تو گہرے لگے ہوئے ہیں جبکہ چوتھا قدم زمین پر معمولی پڑا ہوا تھا جس کا مطلب بس اتنا ہی بنتا تھا کہ یہ جانور لنگڑا بھی تھا۔
تیسرے حجر نے کہا؛ اونٹ جب راہ چلتے ہوئے اپنا گوبر گراتے ہیں تو دم سے ادھر اُدھر بکھیرتے ہیں۔ جبکہ ہم جس راہ سے آئے تھے وہاں پر گوبر ایک ہی لائن میں سیدھا گرا ہوا تھا جس کا ایک مطلب ہو سکتا تھا کہ اونٹنی کی دُم کٹی ہوئی ہے جو اپنا گوبر دائیں بائیں نہیں پھیلا پائی۔
قاضی نے بغیر کسی دیر کے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہا، تم جا سکتے ہو۔ تمہاری اونٹنی ان لوگوں کے پاس نہیں ہے اور ناں ہی انہوں نے اُسے دیکھا ہے۔
اونٹنی والے شخص کے جانے کے ان تینوں بھائیوں نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا جسے سُن کر قاضی بہت حیران ہوا۔ ان تینوں سے کہا تم آج کی رات مہمان خانے میں ٹھہرو، میں کل تمہیں سوچ کر کوئی حل بتاؤنگا۔
یہ تینوں مہمان خانے میں جا کر ٹھہرے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے لئے کھانا لایا گیا جو گوشت کے پکے ہوئے سالن اور روٹیوں پر مشتمل تھا۔
پہلے نے کھانے کو دیکھتے ہی کہا یہ سالن کتے کے گوشت کا بنا ہوا ہے۔
دوسرے نے کہا روٹیاں جس عورت نے پکائی ہیں وہ حمل کے ساتھ اور پورے دنوں سے ہے۔
تیسرے نے کہا یہ قاضی حرام کی اولاد ہے۔
بات قاضی تک پہنچ گئی، اُس نے تینوں کو دوسرے دن اپنی عدالت میں طلب کر لیا اور تینوں سے مخاطب ہو کر کہا؛ تم میں سے کس نے کہا تھا یہ کتے کا گوشت پکا ہوا ہے؟ پہلا بولا میں نے کہا تھا۔
قاضی نے باورچی کو بلوا کر پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ پکانے کیلئے کچھ نہیں تھا تو اس کو شرارت سوجھی اور اس نے کتا مار کر اس کا گوشت پکایا اور ان کو کھانے کیلئے بھجوا دیا۔
قاضی نے پہلے سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا یہ گوشت کتے کا ہے تو اس نے بتایا گائے، بکری یا اونٹ کے گوشت کے نیچے چربی لگی ہوتی ہے جبکہ یہ سارا چربی نما تھا جس کے نیچے کہیں کہیں گوشت لگا ہوا تھا۔ قاضی نے کہا تم وہ حجر ہو جس کو اپنے باپ کے مال سے وراثت ملے گی۔
قاضی نے دوبارہ ان سے مخاطب ہو کر پوچھا کس نے کہا یہ روٹیاں ایسی عورت نے بنائی ہیں جو نو ماہ کے حمل کے ساتھ اور اپنے پورے دنوں سے ہے؟ جواب میں دوسرے نے کہا میں ہوں جس نے یہ کہا تھا۔ قاضی نے پوچھا تمہیں کیونکر یہ لگا تو اس نے کہا میں نے دیکھا روٹیاں ایک طرف سے پھولی ہوئی اور خوب پکی ہوئی ہیں تو دوسری سے کچی اور موٹی رہ گئی ہیں۔ میں نے اس سے یہی اخذ کیا روٹیاں بنانے والی ایسی خاتون ہے جس سے تکلیف کے مارے زیادہ جھکا نہیں جا رہا اور وہ سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ پا رہی جس کا مطلب یہی بنتا تھا کہ عورت حاملہ ہے اور روٹیاں بنانے میں تکلیف محسوس کرتی رہی ہے۔ قاضی نے اس دوسرے سے بھی کہا کہ تم وہ حجر ہو جسے اس کے باپ کے ترکہ سے وراثت میں حصہ ملے گا۔
پھر قاضی نے تینوں سے مخاطب ہو کر پوچھا یہ کس نے کہا تھا میں ولد الحرام ہوں؟ تیسرے نے جواب دیا کہ یہ میں نے کہا تھا۔ قاضی اُٹھ کر اندر گیا اور اپنی ماں سے پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ وہ حرامی ہے تو اُس کی ماں نے کہا یہ سچ ہے کہ تم حرام کے ہو۔
قاضی نے واپس آکر اس تیسرے حجر سے پوچھا تمہیں کیونکر معلوم ہوا میں حرامی ہوں تو اُس نے جواب دیا؛ اگر تم حلالی ہوتے تو مہمان خانے میں ہم پر نگران نا مقرر کرتے، نا ہی کتے کا گوشت پکوا کر ہمیں کھانے کیلئے بھجواتے اور نا ہی کچی روٹیاں کسی مظلوم عورت سے بنوا کر ہمیں کھلواتے۔
قاضی نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم وہ حجر ہو جسے اُس کے باپ کے مال سے ورثہ نہیں ملے گا۔
تیسرے نے حیرت کے ساتھ قاضی کو دیکھا اور پوچھا مگر ایسا کیوں ہے؟
قاضی نے کہا؛ کیونکہ ایک حرامی ہی دوسرے ولد الحرام کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکتا ہے اور تم بھی میری طرح حرام کی اولاد ہو۔
وراثت پانے والے دونوں حجر اپنی ماں کی طرف لوٹے اور دریافت کیا کہ ہمارے تیسرے بھائی کا کیا ماجرا ہے تو اُن کی ماں نے کہا تمہارا باپ ایک بار صبح کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اسے دراوزے پر رکھا ہوا پایا تھا، اسے گھر لایا، اس کا نام بھی تم دونوں جیسا حجر رکھا اور اس کی پرورش کی۔
جی، تو ایسی ہوتی ہیں عربوں کی حکایتیں جن میں حکمت کے درس بھی ہوتے ہیں۔ مضمون عربی سے لیکر آپ کیلئے ترجمہ کیا گیا ہے۔