شیطان کو راندۂ درگاہ کردیا گیا تھا تو پھر بھی وہ کیونکر جنت میں پہنچ گیا؟


سوال
مفتی صاحب
جب شیطان کو راندۂ درگاہ کردیا گیا تھا تو پھر بھی وہ کیونکر جنت میں پہنچ گیا آدم علیہ السلام کو بہکانے؟
اس کا کیا جواب ہے؟
اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہوچکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھانہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔
………..
ابن کثیر
قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿33﴾
(تب) خدا نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ۔ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جاتنا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴿34﴾
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا
حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات
حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا (آخر تک) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت (وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ) 55۔ الرحمن:15) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو “جن” کہا جاتا تھا۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبرو غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لاتا مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے آیت (وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا) 17۔ الاسرآء:11) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت (الحمد للہ رب العلمین) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا(یرحمک اللہ) پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا پھر حضرت آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بےخبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباس تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرائیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا واللہ اعلم۔
تعارف ابلیس
حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت (کان من الجن) کی تفسیر میں آئے گی۔ ابن عباس کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے۔ سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا۔ اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔ امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا۔ حضرت آدم بطور قبلہ (یعنی سمت) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ) 17۔ الاسرآء:78) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سجدہ حضرت آدم کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی۔ امام رازی نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو حضرت آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا۔ یہاں “کان صار” کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت (فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ) 11۔ہود:43) اور آیت (فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ) 7۔ الاعراف:19) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا۔ قرطبی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ہم اس بات کا کسی کے لئے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت (فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ) 44۔ الدخان:10) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دخ۔ بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرنے اسے مارا۔ دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ۔ حضرت لیث بن سعد اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت (فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ 30؀ۙ اِلَّآ اِبْلِيْسَ) 15۔ الحجر:31-30) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر “کلھم” سے تاکید کرنا پھر “اجمعون” کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا واللہ اعلم۔
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿35﴾
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے
اعزاز آدم علیہ السلام
حضرت آدم علیہ السلام کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حضرت آدم نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں! نبی بھی، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ سورۃ اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں۔ حضرت ابن عباس ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جاگے، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے؟ حضرت آدم نے کہا “حوا” انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی۔ کوئی کہتا ہے۔ گیہوں کا درخت تھا۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے۔ کسی نے کھجور، کسی نے انجیر کہا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں۔ کسی نے کہا ہے، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ۔ ایک قرأت فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بےتعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔
سفر ارضی کا آغاز
لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت (یوفک عنہ) میں۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے، تاہم ہم انہیں سورۃ اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقینا میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر “دھنا” میں اترے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں، دیکھئے! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھانہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔
فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿36﴾
پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش ونشاط) میں تھے، اس سے ان کو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿37﴾
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن
جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے۔ آیت (قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 7۔ الاعراف:23) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہو جائیں گے۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔ ابن عباس سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے۔ ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت آدم نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں۔ لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا(اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم) قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا۔ اور جگہ ہے آیت (وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا) 25۔ الفرقان:71) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا۔
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿38﴾
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
جنت کے حصول کی شرائط
جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت حضرت آدم حضرت حوا اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے، معجزات ظاہر کئے جائیں گے، دلائل بیان فرمائے جائیں گے، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی، آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں گے، آپ پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا۔ سورۃ طہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے، نہ بدبخت و بےنصیب۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی، ہاں جن موحد، متبع، سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لئے جائیں گے۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿39﴾
اور جنہوں نے (اس کو) قبول نہ کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، وہ دوزخ میں جانے والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ﴿40﴾
اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہوبنی اسرائیل سے خطاب
ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ السلام کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو۔ تمہیں چاہیے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے۔ آیت (ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا) 17۔ الاسرآء:3) یعنی ہمارے شکر گزار بندے حضرت نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل حضرت یعقوب کا نام تھا کا وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ۔ اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا۔ من و سلوی اتارنا۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا۔ انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ کی ذات پر ایمان لانا۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت (ۭوَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا) 5۔ المائدہ:12) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے زکوٰۃ رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہو گی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا۔ حضرت امام رازی نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام سے آپ کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا ۔ اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آ جائیں۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کر دیا گیا ہے۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی گئی۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں، جو بشیر ہیں، جو نذیر ہیں، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لئے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو بعض کہتے ہیں “بہ” کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے بما انزلت اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کر چکے تھے۔ لہذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لئے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوئی ہے اس لئے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کر سکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کر لی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا حدیث (ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ) یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث (زوجتکھا بما معک من القران) میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مر یاد کرا دے ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابی بن کعب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے۔ ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔ صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے۔ غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں۔
http://googleweblight.com/i?u=http://myonlinequran.com/surah-2/surah2-page-5-ipp-84.html&hl=en-IN