ریاضی سے لطف اٹھائیے


ریاضی سے لطف اٹھائیے
ایس اے ساگر
منقول ہے کہ دو شخص باہم مل کر سفر کر رہے تھے۔راستہ میں کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ایک شخص نے پانچ روٹیاں اور دوسرے نے تین روٹیاں دسترخوان پر رکھیں۔ دریں اثنا ایک مسافروہاں آپہنچا۔ نووارد نے انھیں سلام کیا۔.ان دونوں نے اسے کھانا کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔وہ شخص بیٹھ گیا اور مل کر کھانا کھانے لگا۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوگیا تو اٹھا اور آٹھ درہم دسترخوان پر پھینکے اور کہا کہ یہ اس کھانے کا بدلہ ہے جو میں نے تم سے کھایا ہے۔ وہ مسافر تو چلا گیا مگر یہ دونوں ساتھی آپس میں جھگڑنے لگے۔ تین روٹیوں کا مالک کہتا تھاکہ درہم برابر تقسیم ہوں اور ہم میں سے ہر ایک کو چار چار درہم ملیں۔دوسرا ساتھ کہتا تھا کہ نہیں بھائی پانچ روٹیاں میری تھیں اور تین تیری تو پانچ درہم مجھے ملنے چاہئیں اور تین تجھے۔معاملہ ان سے طے نہ ہوسکا بالاخر یہ فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ: ”بہتر ہے تم دونوں صلح کرلو کیونکہ مہمان کے کھانے پر جھگڑا کرنا کوئی شرافت نہیں ہے، اور تمھارے لئے یہ مناسب بھی نہیں ہے۔ تین روٹیوں والا بولا: ”حضور ہم تب راضی ہوں گے جب ہمارے درمیان حق کا فیصلہ ہو جائے گا۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ” اگر تو حق چاہتا ہے تو تیرا حق صرف ایک درہم بنتا ہے اور باقی سات درہم تیرے ساتھی کا حق ہے ۔“
وہ کہنے لگا: ”سبحان اللہ، حضور مجھے سمجھائیں تو سہی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“
حساب کی عجیب باریکیاں:
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ”میں تجھے سمجھاتا ہوں۔ یہ بتاو کہ تمہاری روٹیاں تین اور تیرے ساتھی کی پانچ روٹیاں تھیں؟“
کہنے لگا: ”حضور اسی طرح تھیں ۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ: ” کھانے والے تین اور روٹیاں آٹھ، آٹھ کو تین سے ضرب دیں تو چوبیس حصے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کے حصے میں آٹھ آٹھ ٹکڑے آتے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں کہ کس نے تھوڑا کھایا اور کس نے زیادہ تو مجبورا ماننا پڑے گا کہ تم نے برابر کھانا کھایا ہے۔“
وہ کہنے لگا: ”حضور اسی طرح ہے ۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ: ” پھر تو نے اپنے تیسرے حصے کے آٹھ ٹکڑے کھائے ،اسی طرح تیرے ساتھی دوست نے ایک تہائی کے آٹھ ٹکڑے کھائے اور مہمان نے بھی ایک تہائی کے آٹھ ٹکڑے کھائے ۔اگر تین کو تین سے ضرب دیں تو نو بنتے ہیں ۔نو میں سے آٹھ تو خود کھا گیا ،باقی ایک بچتا ہے اور تیرے ساتھی کی پانچ روٹیوں کو تین سے ضرب دیں تو پندرہ ٹکڑے بنتے ہیں ،پندرہ میں سے آٹھ تیرے ساتھی نے کھائے ،اور باقی سات حصے مہمان نے کھائے ،مہمان نے تیرے حصے میں سے ایک ٹکڑا اور تیرے ساتھی کے حصے میں سے سات ٹکڑے کھائے ،وہ عقلمند مہمان آٹھ درہم دے گیا، لہذا حصہ کے مطابق سات درہم تیرے ساتھی کا حق بنتا ہے اور ایک درہم تیرا حق بناتا ہے۔“
وہ شخص بولا: ”حضرت اب میں آپ کے فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں۔“
ریاضی کے بغیر چارہ نہیں:
یہ محض ایک روزہ مرہ کا مسئلہ ہے۔زندگی میں علم ریاضی کے بے شمار مسائل پیش آتے ہیں۔ کاروباری لین دین، مسافر کی نمازوں میں شرعی فاصلہ، مرد کے ہاتھ میں پہننے والی چاندی کی انگوٹھی کے وزن کی مقدار، نکاح میں مہر فاطمی، شرعی اوزان کی باریکیاں اور مرنے بعد ترکہ کی تقسیم تک بیشمار گتھیوں کو سلجھانے کے لئے علم ریاضی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ گویا کہ ہم چا ہیں یا نہ چاہیں، مضمون ریاضی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ وہ علم ہے جو زندگی کے تمام پہلوو ں پر اثر انداز ہوتاہے کسان ہو یاانفارمیشن ٹکنالوجی کا ماہر، ہرشخص کا ریاضی سے اٹوٹ رشتہ اور مطلوبہ مہارت کسی بھی متوازن سماج کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔ یہ علم ریاضی ہی ہے جس کی بدولت اعداد کے استعمال، مقداروں کے خواص اور ان کے درمیان تعلقات کی تحقیق اور مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ساختوں، اشکال اور تبدلات سے متعلق بحث بھی کی جاتی ہے۔ اس علم کے بارے میں گمان غالب ہے کہ اس کی ابتدا یا ارتقا دراصل گننے، شمار کرنے، پیمائش کرنے اور اشیاکے اشکال و حرکات کا مطالعہ کرنے جیسے بنیادی عوامل کی تجرید اور منطقی استدلال (logical reasoning) کے ذریعہ ہوتاہے۔ ریاضی کے بغیرمذکورہ بالا تصورات و تفکرات کی چھان بین کیسے کی جاسکتی ہے۔ ان کا مقصد نئے گمان کردہ خیالات (conjectures) کے لئے صیغے (formulae) اخذ کرنا اور پھر احتیاط سے چنے گئے مسلمات (axioms)، تعریفوں اور قواعد کی مدد سے ریاضی کے اخذ کردہ صیغوں کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ اگر کوئی طالب علم اسکول اور کالج میں سکھا ئے گئے ریاضی کے نکات بھول بھی جائے تب بھی طالب علم میں شفا ف اور منطقی سوچ آجاتی ہے جو درحقیقت ریاضی میں استعمال کئے جانے والے استدلال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ گویا ریاضی نہ صرف روزمرہ زندگی میں ہماری مدد کرتا ہے بلکہ معیار زندگی کی بڑھوتری میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ مذکورہ بالا مفروضے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
کہاں سے آیا ریاضی فوبیا؟
ریاضی سے دوری کے سبب ہی ’ریاضی فوبیا ‘ کی اصطلاح وجود میں آئی ہے۔یوں تو دیگر عوامل سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم اسی ریاضی فوبیاکے سبب طلبا کو اسکول ڈراپ آوٹ جیسے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے…ایک عام احساس ہے کہ اسکول میں بچے ریاضی سے ڈرتے ہیں حتی کہ بعض لوگوں کیساتھ یہ سلسلہ عمر بھر چلتا رہتا ہے۔ ریاضی کی تعلیم کے تئیں بہت سی اصلاحات کی کو ششیں اور پیسہ خرچ ہواہے ۔بد قسمتی سے ان اصلاحات کے محرکات بجائے اس کے کہ مسائل کے حل کا مداوا بنیں خود مسائل کے موجب بن رہے ہیں۔ترقی یافتہ قومیں چا ہتی ہیں کہ علم و تحقیق میں بالا دستی کے ذریعہ اپنا دبدبہ باقی رکھا جائے اور ترقی پذیر قومیں چونکہ اس خواب میں مبتلا ہوتی ہیں کہ ایک علمی و تحقیقی سماج کا قیام عمل میں لا یا جائے۔ نتیجہ کے طور پر ایسے سماج میں ان شخا ص کی بڑی قدر کی جاتی ہے جو ریاضی میں اچھی استعداد کے حامل ہوتے ہیں۔ان دونوں محرکات کی بنیاد پر ہونےوالے اصلاحات کے کوئی خا طر خواہ نتائج نہیں دیکھنے میں آئے ہیں۔
کمزور ریاضی استعداد اور ریاضی فوبیا کو حل کرنے کیلئے ہمیں پہلے کچھ بنیادی سوالات پر سر دھننے کی ضرورت ہے۔ ماہرین نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات پیش کئے ہیں۔
1۔ ریاضی کی فطرت کیا ہے اور ریاضی کو لیکر ہمارے مخصوص تعصبات اور تحفظات نصاب کی تیاری میں کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟
2۔ طلبا اور اساتذہ ریاضی سے اپنی نسبت اور کیا رشتہ جوڑتے ہیں ؟
3۔ ریاضی کے تئیں طلبااو ر اساتذہ کن دیو مالائی مفروضات کی جکڑبندی میں پڑے ہیں؟
4۔اہم ترین یہ کہ کسی بھی انسان کو اکتساب او رسیکھنے کی جانب کیا کیا عوامل ابھا رتے ہیں ؟
اندھے لوگ اور ہاتھی:
مشہور حکایت ہے کہ چند نابینا حضرات سے یہ مشق کروائی گئی کہ ان میں سے ہر ایک ہاتھی کے الگ الگ حصہ کو چھوکر بتائے کہ یہ آخرکیا چیزہے۔حیرت انگیز نتیجہ سا منے آیا جب کچھ نے کہا، یہ دیوار ہے اور کچھ نے کہا ،یہ رسّی ہے۔بعینہ ریاضی کاحشر ہوا۔ ریاضی کی پراسراریت ، گہرائی اور گیرائی ہی کا مظہر ہے کہ اسے مختلف زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔عام طور لوگوں کو علم بھی نہیں کہ ریاضی کا لفظ ریاضت سے بنا ہے جس کا مطلب ہی سیکھنا، مشق کرنا یا پڑھنا ہوتا ہے، جبکہ انگریزی میں بھی mathematics کا لفظ یونانی کے mathema سے ماخوذ ہے جس کا مطلب سیکھنا یا پڑھنا ہے۔بنیادی قسم کی ریاضی کی معلومات کا استعمال زمانہ قدیم ہی سے رائج ہے اور قدیم مصر، بین النہرین اور قدیم ہندوستان کی تہذیبوں میں اس کے آثار ملتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج دنیا بھر میں علم ریاضی کو سائنس، ہندسیات (engineering)، طب اور معاشیات سمیت تمام شعبہ ہائے علم میں استعمال کیا جارہا ہے اور ان اہم شعبوں میں استعمال ہونے والی ریاضی کو عموما عملی ریاضی (applied mathematics ) کہا جاتا ہے، ان شعبہ جات پر ریاضی کا نفاذ کرکے اور ریاضی کی مدد لے کر نہ صرف نئے ریاضیاتی پہلوو ں کی دریافتوں کا راستہ کھل جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ریاضی اور دیگر شعبوں کے ملاپ سے ایک بالکل نیا فنی شعبہ وجود میں آجانے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
ریاضی بشکل اکاﺅنٹس اور حساب و کتاب:
بعض لوگ اکاﺅ نٹس کو ہی ریاضی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔یوں تو اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ انسانیت کا ایک بڑا حصہ قیمتوں کے تقابل ، لین دین میں دھوکہ دہی سے بچنے، سود کا حساب کتاب کرنے، ڈسکاﺅنٹ و چھوٹ اور رقبہ و حجم معلوم کرنے کیلئے ریاضی کا استعمال کرتے ہیں ۔نمبر و اعداد کی دریافتیں دراصل زمین و تجارت کی دستاویزات اور حساب و کتاب کی ضروریات کی وجہ سے پیش آئیں جیسے علم مثلث اور مساحت دریائے نیل کے زمینی راستوں کے حساب کتاب کے دوران پیش آئے۔ ہند-عرب اعدادی نظام درحقیقت فلکیات کے حسا ب کتاب اور دستاویزات کے نظم کی ضروریات کا ہی پیش خیمہ ہوا ہوگا ۔ انسانیت کے اب تک کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک اعدادی نظام کی دریافت ہے اور یہ بھی کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ کچھ لوگوں کیلئے حساب اور اعداد و شمار ہی گویا حساب ہے۔بہرکیف اگر کوئی ریاضی کے اسی رخ سے واقف ہو اور نصاب کی تیاری اورتدریس کرے کہ ریاضی کوئی الگورتھمس پر مبنی سائنس ہے تو نصاب اس شکل میں ترتیب پائے گا کہ گویا ریاضی حساب کتاب والا علم ہے اور اسی ہنگامہ میںبعض طلباریاضی سے اپنا رشتہ توڑ بیٹھتے ہیں۔مشہور ریاضی داں صوفیا کو السکائیا کہتی ہیں کہ: ”اکثر لوگ جو ریاضی سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے اور جنہیں اس بات کا موقع نہ ملا ہو کہ ریاضی کی اصل دریافت کریں اسے خشک مضمون سمجھتے ہیں جبکہ اس مضمون میں اعلی قسم کے تصورات و خیالات کا عمل دخل ہوتا ہے۔
ذہنی ورزش میں ریاضی کا استعمال:
ریاضی کے بہت سے استعمال میں سے ایک مسائل کا حل بھی ہے اور وہ حضرات جو ابتدائی عمر میں ہی مسائل کے حل کی جانب متوجہ رہتے ہیں بعد ازاں ریاضی داں بنتے ہیں لیکن اگر یہی مسائل کے حل والے نقطہ نظرکو مکمل ریاضی پر انطباق کردیا جائیے اوراسے ہی ریاضی سمجھ لیا جائے نہ کہ ریاضی کا ایک استعمال۔تب ریاضی کے تئیں خوف اور نفرت کا ماحول پیدا ہوجاتاہے ۔ چونکہ مسائل کے حل کی صلاحیت ابتدائی عمر سے ہی پیداہوجاتی ہے۔ طلباءکو صرف اس ایک صلاحیت کی بناءپر ’ذہین’ یا’کند ذہن‘ کے القاب سے نوازتے ہوئے دو زمروں میں منقسم کیا جاتا ہے ! اگر کسی تعلیمی نظام میں بچہ کی قابلیت کو حسابی مسائل کے حل کی بنیاد پر ہی جانچا جائے تو یہ دونوں قسم کے بچوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اس صلاحیت کی عدم موجودگی کے باعث’کندذہن‘ قرار دیے جاتے ہیں یا اپنے آپ کو ’کند ذہن ‘سمجھ لیتے ہیں، دراصل ریاضی سے ہی جنگ ہار بیٹھتے ہیں اور یہ بھی بعید از امکان نہیں ہے کہ آدمی اسے اپنی عزت نفس اور وقارکا مسئلہ بنالے اور عدم تحفظ اور شرمسا ر بھی ہو جا ئے ۔ رہے وہ لوگ کی جو حسابی مسائل کے جو حسابی مسائل کے حل کی صلاحیت رکھتے ہیں چونکہ ذہین سمجھے جاتے ہیں، یک رخی شخصیت بن سکتے ہیں اور کمزور سماجی صلاحیتوں کے شکا ر ہو سکتے ہیں ۔جبکہ بعض ریاضی دانوں کی مثالیں ایسی بھی ہیں جن کی سماجی زندگی بہت اجیرن گزری ہے۔
غیر منظم اور بے سمت معا شرہ:
اس بات سے کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ریاضیاتی نظریات کا ایک بڑا حصہ انہی مشکل مسائل کے حل میں گزرتا ہے۔ بہر کیف تمام ریاضیاتی مسائل ایک ہی درجہ پر نہیں ہوتے کچھ بہت ہی گنجلک ہوتے ہیں جیسے برف کے عمیق تودے کا اوپری حصہ …جو درحقیقت ریاضی کی گہرائی و گیرائی کا ثبوت ہوتے ہیں۔بہت سے مسائل ذہنی ورزش یا ذہنی جمناسٹک چاہتے ہیں اور اکثر عجیب و غریب تکنیک کے ذریعہ حل کئے جاتے ہیں۔اسی قسم کے مسائل دراصل ’مسابقتی امتحانات‘ میں پوچھے جاتے ہیں گویا درخواست گزاروں کوچھلنی کرنے کیلئے استعایل ہوتے ہیں۔ایسا نظام جولوگوں کی اچھے سے اچھے’ذہنی جمناسٹک‘کرنے کی خوبی کو پیمانہ بناکر نوکری و تعلیمی وسائل کا سزاوار بنائے کچھ نہیں بلکہ ایک غیر منظم اور بے سمت معا شرے کی داغ بیل ڈالے گا۔ایسے طلباجنہیں چندسطحی دماغی ورزشوں کی عادت ہوجائے کچھ نیا سیکھنے کے معاملہ میں کو ئی جذبہ نہیں رکھتے۔اور ایسے طلبا ریاضی کا ایک محدود تصور رکھنے کا جو کھم اٹھا تے ہیں نتیجہ کے طور پر وہ ریاضی کو نہ ہی تحقیق کا میدان انتخاب کرتے ہیں اور نہ ہی تعلیمی میدان میں ریاضی کی خدمت کیلئے ہی آمادہ ہوتے ہیں۔کئی اعلی و ارفع تعلیمی اداروں کے اساتذہ و منتظمین اس بات پر نالاں ہیں کہ ان اداروں میں ریاضی پڑھانے کیلئے قابل اساتذہ دستیاب نہیں ہیں ۔ذراان بے شمار گنت طلباکی حالت زار کا تصور کریں جو محنت شاقہ کے باوجود اس نام نہاد اعلی و ارفع تعلیمی اداروں میں داخلہ سے محروم رہے ہوں ،آخران کا اعتماد پھر کیسے بحال ہوگا؟علاوہ اس کے اب جبکہ ہمارے معا شر ے نے ذہانت کا پیمانہ بالکل غلط طریقہ سے ریاضیاتی صلاحیتوں پر بنا لیا ہے ،ان طلباپر بہت برا اثر ڈالاہے جو سماجی سائنس میں کیریئر بنا نے کا ارادہ کرچکے ہوں اس پر طرہ یہ کہ سماجی و تکنیکی تعلیمی میدانوں میں غیر متناسب فنڈز کی اجرائی ہو تی ہے۔نتیجہ کے طور پر طلبا اپنی دلچسپی اور صلاحیت کے برعکس شتر بے مہار کی طرح سائنس کا انتخاب کررہے ہیں۔انھیں کون سمجھائے کہ اقلیدس وہ یونانی ریاضی دان ہے جو جو مصری شہر اسکندریہ میں تیسری صدی قبل مسیح میں رہا۔ یوں تو اس کی زندگی کے بارے میں خاطر خواہ تفصیلات میسر نہیں ہیںتاہم اس کی کتاب ایلیمنٹس (elements) ریاضی کی تاریخ کی مشہور ترین اور سب سے زیادہ دیر تک پڑھائی جانے والی نصابی کتاب ہے جو انیسویں اور بیسویں صدی تک پڑھائی جاتی رہی ہے۔اس کے علاوہ اس کے پانچ اور کام آج کے دور تک محفوظ رہے ہیں جو ایلیمنٹس (Elements) کے طرح سے ہی لکھے گئے ہیں۔
ریاضی بحیثیت ’کائناتی زبان’ اور جدید دور کا ایک اہم ہتھیار:
مشہور ماہر فلکیات و ریاضی داںگیلیلیو کی بدولت ریاضی کائناتی زبان کی صورت اختیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ لوگ جو اس کائنات کے از بستہ راز تہ کرنے کا قصد کرتے ہوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ریاضی اس چھٹی حس کا نام ہے جو کائنات کو سمجھنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔عجیب بات ہے کہ مشہور ماہر طبیعات نے 1959کے دوران اپنے لکچر بعنوان ’قدرتی سائنس میں ریاضی کا ہمہ گیر (غیر منطقی ) اثر‘ کے آخر میں کہہ دیا تھا کہ:
”یہ بات گویا کسی ’معجزہ‘ سے کم نہیں ہے کہ طبیعاتی اصولوں کو بنیاد میں لانے کیلئے ریاضیاتی الفاظ و اصطلاحات کتنے موزوں ترین ثابت ہوئے ہیں اور یہ حقیقت کا ادرک نہ تو ہم نے کیا اور نہ ہی اس ادرک کے سزاوار ہیں۔ ہمیں شکر گزار رہنا چاہئے اور کوشش بھی کرنا چاہئے کہ آئندہ بھی ریاضی کا یہ کردار باقی رہے اور اکتسابی عمل کے افق پر چھایا رہے۔“
تجربات کے اظہار کو آسان بنا دیتی
وہ لوگ جو سائنس کے نظریاتی نقطہ نظر پر ملکہ رکھتے ہیں ریاضی کے اس معجزاتی رخ کے سب سے زیادہ دلدادہ ہوتے ہیں، انھیں ریاضی کی اس خصوصیت کا علم ہونا چاہئے کہ وہ تجربات کے اظہار کو آسان بنا دیتی ہے جس کی بناپر اس کا اثر زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلا بائیلوجی سے لیکر معاشیات تک ہمہ گیر ہوجاتاہے اور اسی خصوصیت کا نتیجہ ہے کہ تاجر ہویا انجینئر ریاضی دونوں کے روزمرہ کاموں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔دور جدید میںکمپیوٹر کاروزانہ استعمال بڑھتا جارہا ہے جو ریاضی کا ہی مرہون منت ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تو زندگی کے ہرشعبہ میں ریاضی کی بالا دستی محسوس ہوگی۔نسان کا وہ رجحان جو یہ کہے کہ میں تبھی کو ئی چیز سیکھوں گا جب اس کی اہمیت مجھے معلوم ہو، درحقیقت سیکھنے کے عمل میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔اسی طرح یہ خیال کہ ریاضی کے غیر عقلی و میکانیکی حسابات کواس لئے سیکھا جائے تاکہ مستقبل میں اس کے فوائد سمیٹے جائیں ، کسی صورت طلباکے جذبہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا ۔ اسی دوران ریاضی بوریت کا دوسرا نام بن جاتی ہے جس کا راست اثر اس کے دلچسپ اور مزیدار رخ پر پڑتاہے…جیسا کہ جولین ولیمس نے کہا ہے کہ:
”ایک اوسط طالب علم نہ صرف ابتدائی عمر بلکہ بڑا ہونے تک جذباتی اور عقلی اطمینان چاہتا ہے۔“
ریاضی سچائی اور خوبصورتی کی تصویر:
ریاضی کی اصلیت اور پراسراریت ملاحظہ فرمائیے کہ بہت سے حقیقی ریاضی داں یہ اقرار کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ انہوں نے اس مضمون کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے انتخاب کیا اور اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہ وہ درحقیقت ریاضیاتی سچائی کی تلَاش میں سرگرداں ہیں یعنی کسی چیز کی دریافت میں محو ہیں نہ کہ ایجاد میں !ایسی صورت میںپروفیسر جی ایچ ہارڈی سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اس حقیقت پر روشنی ڈالے…
”ایک ریاضی داں گویا مصور یا شاعرکی مانند ہوتا ہے جو مختلف خاکوں کو تشکِیل دیتا ہے جواگر ان حضرات کے بنائے گئے خاکوں سے زیادہ وقت تک قائم دائم رہیں تو یہ دراصل اس کے پیچھے کام کرنے والے خیال کی وجہ سے….ایک ریاضی داں کا خاکہ خوبصورت ہواور اسکے خیالات ،رنگ اور الفاظ کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہوں بد صورت ریاضی کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ۔“
میری دانست میں سب سے مضبوط محرک جو ریاضی سیکھنے کی طرف آمادہ کرتا ہے وہ ہ جذباتی سطح پر وجود میں آتا ہے۔ مختلف النوع ریاضی داں اس پر اتفاق کرینگےکہ ریاضی کی تشیکِل کے دوران اندرون ذہن وہ ایک الہامی کیفیت سےگزرتےہیں۔ ایلین کونس، فیلڈس میڈل یافتہ (ریاضی کا اعلی ترین ایوارڈ) اس کا منظر کچھ یوں کھینچتے ہیں:
”جب ذہن پر تجلی کی کیفیت طاری ہوتو ناممکن ہوجاتاہےکہ انسان خاموش رہےیا دوسروں سے الگ نہ رہےایسے اوقات جب میں خود اس کیفیت سے گزرا ہوں توزار و قطار آنسو نکل پڑتے ہیں۔“
تمام سائنسی علوم کی ماں:
اسکول میں ریاضی جیسے خوبصورت مضمون کو جس طرح پڑھایا جاتا ہے- اس سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ریاضی کے ساتھ انتہائی بدترین نا انصافی کی جا رہی ہو۔ ریاضی جو تمام سائنسی علوم کی ماں ہے جب تک ہمارے طالب علم اسے علم کو ہی نا سیکھ پائیں گے تو وہ باقی سائنسی علوم میں مہارت کیسے حاصل کر سکیں گے؟ابتدائی لیول کے طالب علموں کے ساتھ سب بڑا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ انہیں ریاضی پڑھانے اور سمجھانے کا مقصد ہی نہیں بتایا جاتا۔انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ الجبرا کیوں پڑھ رہے ہیں؟ وہ کیلکولس، جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کیوں پڑھ رہے اور ان سب کے پڑھانے اور سمجھانے کا مقصد کیا ہے؟جب انہیں ان سب کا مقصد نہیں بتایا جاتا تو ریاضی ان کے لئے ایک علم کی بجائے ایک وبال جان بن جاتی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نظام نے سوالوں میں “کیوں” کے تخلیقی لفظ کو مٹادیا ہے۔ کیوں کا لفظ ایک مقصد تعین کرتا ہے اور “کیوں” کو مٹانا اصل میں ایک مقصد سے دستبردار ہوجانا ہے۔ ریاضی کامقصد صرف مساواتوں کو حل کرنا ہی نہیں بلکہ ان مساواتوں کے پیچھے چھپے فلسفے کو جاننا ہے۔ریاضی ایک بہت متنوع اور پھیلی ہوئی زبان ہے۔
ریاضی کا نقشہ، حساب کتاب یعنی کاؤنٹنگ سے شروع ہوتا ہے۔ کاؤنٹنگ کی صلاحیت صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ انسان نے پری ہسٹری یعنی آج سے پچاس ہزار سال قبل مسیح کاؤنٹننگ کرنا سیکھ لیا تھا۔ پری ہسٹری سے مراد وہ تاریخ ہے جو اس تاریخ سے پہلے شروع ہوتی ہے جب انسان نے پہلی بار لکھنا سیکھا تھا۔ انسان کے لکھنے کی شروعات سے ہی آج تک کی معلوم تاریخ کی بنیاد پڑی تھی۔ مصریوں نے تین ہزار سال قبل مسیح سادہ مساواتوں کی کی بنیاد ڈالی جو صرف ایک ویری ایبل پر مشتمل تھیں۔
قدیم یونان میں پہلی بار جیومیٹری کی بنیاد پڑی جس کا سہرا یونانی ریاضی دان فیثا غورث کے سر جاتا ہے۔اگر کوئی جیومیٹری سیکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کو وہ سب سے پہلے فیثا غورث کو پڑھے۔ نیگیٹو نمبرز چائنہ میں ایجاد ہوئے۔زیرو یعنی “صفر” سب سے پہلے انڈیا میں منظر عام پر آیا۔ پھر گولڈن ایج آف اسلام میں ایرانی ریاضی دان محمد بن موسی خوارزمی نے الجبرا پر پہلی مفصل اور جامع کتاب “الکتاب المختصر فی الحساب الجبر و مقابلہ” لکھی۔ ریاضی کی اس ساری تاریخ نے جدید ریاضی کو جنم دیا جسے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
خالص ریاضی Pure Mathematics
خالص ریاضی وہ ریاضی ہے جس میں تجریدی تصورات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔خالص ریاضی کا مطالعہ یہ جانے بغیر کیا جاتا ہے کہ ان کی اصل زندگی میں کیا اہمیت ہے۔خالص ریاضی کو قدرتی اور سماجی مظاہر کی تجریدی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔خالص ریاضی کو بہت سارے سیکشنز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
Study of Numbers:
Infinity can be bigger then other infinity.
نمبرز کا مطالعہ نیچرل نمبرز سے شروع ہوتا ہے جن کے ساتھ ارتھمیٹک آپریشنز جیسے جمع ،تقسیم ،ضرب اور تفریق وغیرہ کیے جاتے ہیں۔اس کے بعد انٹیجرز کی باری آتی ہے جو منفی نمبروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ریشنل نمبرز جو اعشاری اعداد پر مشتمل ہوتے ہیں۔رئیل یا حقیقی نمبرز جیسے “پائی” وغیرہ جو انفنٹ ڈیسی مل پوائنٹس پر مشتمل ہے اورکامپلیکس نمبرز۔کچھ نمبرز سسٹم کی خصوصیات کافی دلچسپ ہیں جیسے پرائم نمبرز اور فیبوناچی سیریز وغیرہ ۔ایک اور مثال کہ ہمیں معلوم ہے کہ رئیل نمبرز اور انٹیجرز لا محدودہیں۔لیکن لا محدود رئیل نمبرز لا محدود انٹیجرز سے بھی بڑے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ایک انفینیٹی دوسری انفینیٹی سے بڑی بھی ہو سکتی ہے۔کیونکہ رئیل نمبرز کی تعداد انٹیجرز سے زیادہ ہے۔
Study of structures:
سٹرکچرز یا ساختوں کا مطالعہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم مختلف نمبروں کو لے کر مختلف مساواتوں میں ویری ایبلز کی فارم میں ڈالتے ہیں ۔الجبرا وہ قوانین مہیا کرتا ہے جو ان مساواتوں کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔اس کے بعد ویکٹرز اور میٹریسز ہیں جو ملٹی ڈائمینشنل نمبرز پر مشتمل ہوتے ہیں اور لینئیر الجبرا ان نمبرز کو حل کرنے کے لیے قوانین مہیا کرتا ہے۔
combinatorics:
کامبینٹورکس یا تالیفیات  میں مختلف  مگر محدود ساختوں کی خصوصیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے جیسے درخت گراف اور وہ تمام چیزیں جو ڈسکریٹ سیکشنز پر مبنی ہوں۔
Geometry & Trigonometry:
جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کا مطالعہ بھی خالص ریاضی میں شامل ہے۔ڈفرینشئیل جیومیٹری خم دار سطحوں پر مختلف شکلوں کی خصوصیات کا مطالعہ کرتی ہے۔مثال کے طور پر مختلف خم دار سطحوں پر ٹرائی اینگلز جو مختلف اینگلز پر مشتمل ہوتے ہیں ان کا مطالعہ کرتی ہے۔
Study of changes:
خالص ریاضی میں دوسرا بڑا سیکش چینجز یعنی حرکات کا ہے جسے کیلکولس کہتے ہیں۔کیلکولس کو بھی آگے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
انٹگرل کیلکولس Integral Calculus
جس میں مختلف ساختوں کا ایریا معلوم کیا جاتا ہے۔
ڈفرینشیل کیلکولس Differential Calculus
جس میں کسی بھی جسم کی وقت کے ایک خاص لمحے میں حرکات اور ان میں تبدیلی کی شرح کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
Dynamical systems:
ڈائنامیکل سسٹمز کا مطالعہ جن میں سسٹمز ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتے ہیں جیسے ایکو سسٹمز اور فلوئڈ فلوز وغیرہ۔
Complex Analysis:
کامپلیکس اینالسز میں ان فنکشنز کی پراپرٹیزکا مطالعہ کیا جاتا ہےجو کامپلیکس نمبرز پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اطلاقی ریاضی Applied mathematics
اطلاقی ریاضی میں ریاضیاتی فزکس اور تھیوریٹکل فزکس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اطلاقی ریاضی کو دوسری نیچرل سائنسز میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے ریاضیاتی کیمسٹری جس میں مالیکیولز کی ماڈلنگ اور بائیو میتھمٹکس جس میں ایولیوشنری بائیولوجی کا مطالعہ شامل ہے۔اطلاقی ریاضی کو سب سے زیادہ انجینرہنگ میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں کمپیوٹر سائنس ،سافٹ وئیر انجینرینگ ،الیکٹریکل انجینرینگ اور سول انجینرہنگ وغیرہ شامل ہیں۔
Probability:
پراببیلیٹی یا امکانیات  میں رینڈم ایونٹس کے احتمال  یا امکان کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ کونسے ایونٹ کے وقوع پزیر ہونے کا کتنا امکان ہے۔
Mathematical finance:
میتھمیٹکل فائنانس میں فائنینشل سسٹمز کو ماڈل کیا جاتا ہے جس میں کسی بھی آرگنائزیشن یا بزنس کی مجموعی مالی صورتحال سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
Artificial Intelligence:
مشین لرننگ یعنی آرٹیفیشل اینٹیلیجنس جس میں زہین کمپیوٹرز کو تخلیق کیا جاتا ہے،ریاضی کے بہت سے ایریاز کو استعمال کرتی ہے جس میں  لینئیر الجبرا،آپٹمائزیشن، ڈائنامیکل سسٹمز اور پراببلیٹیز وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایریاز ہیں جیسے آپٹمائزیشن ،سٹیکٹکٹس،کرپٹو گرافی وغیرہ جن میں اطلاقی ریاضی کا استعمال کر کے حقیقی دنیا کے مسائل کے ممکنہ حل تلاش کئے جاتے ہیں۔