حضرت یوسف علیہ السلام کی مدت قید میں اضافہ کی وجہ

حضرت یوسف علیہ السلام کی مدت قید میں اضافہ کی وجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک صاحب کا کہنا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی جیل سے رہائی میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک نوجوان سے مدد چاہی اس لئے اللہ تعالیٰ نے مزید سات سال جیل میں ٹھرایا، کیا ایسا کہنا صحیح ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
جو شخصیات اللہ سے جتنی قریب ہوتی ہیں، مواخذہ اور پکڑ بھی ان کے لئے اتنی ہی سخت ہوتی ہے ۔۔۔ حسنات الابرار سیئات المقربین ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل کے ایک قیدی (ساقی فرعون) سے بطور سبب ظاہری رہائی کی سفارش کی تھی۔ کیونکہ وہ رہا ہوکے فرعون کے پاس جارہا تھا۔ تو آپ نے یاددہانی کے لئے وکیل بنایا۔ جو اگرچہ سبب ظاہری کے اعتبار سے بجا اور درست تھا۔ لیکن خدائے مسبب الاسباب کو انبیاء مقربین کی جانب سے اس ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا نہیں کہ ذات باری سے توجہ ہٹے۔چنانچہ قید زنداں کی مدت مزید سات سال بڑھ گئی۔ یہ واقعہ اگرچہ تفسیری روایتوں سے ثابت ہے۔ لیکن عمومی مجالس میں اس کو  سوال میں درج اسلوب (اللہ کو چھوڑکر غیر اللہ سے مدد مانگنا) میں بیان کرنا قطعی غلط اور شان انبیاء کے منافی ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا اللہ تبارک و تعالٰی کو چھوڑکر غیر اللہ سے مدد مانگنے کی بات غیر متصور ہے۔
تفسیر بغوی سورہ یوسف آیت نمبر 42 کے ذیل میں مذکور ہے:

(حضرت) ابن عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور اکثر فمسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے رب کی یاد بھلا دی جب انھوں نے آزادی کی کوشش کی کہ مخلوق سے مدد طلب کی یہ غفلت یوسف (علیہ السلام) کو شیطان کی طرف سے آئی۔

اکثر مفسرین رحمہم اللہ کے نزدیک اس آیت  (فلبث في السجن بضع سنين) میں بضع سے سات سال مراد ہیں، اس سے پہلے پانچ سال گزر چکے تھے تو کل بارہ سال ہوگئے۔ وھب (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) پر آزمائش سات سال رہی اور یوسف (علیہ السلام) قید میں سات سال رہے اور بخت نصر کو عذاب دیا گیا، درندوں میں سات سال پھرتا رہا۔
مالک بن دینار نے کہا جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ساقی سے فرمایا کہ اپنے آقا سے میرا تذکرہ کردینا تو کہا گیا یوسف مجھے چھوڑکر تو نے دوسرے کو اپنا وکیل بنایا۔ اب میں ضرور تیری قید طویل کردوں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) رونے لگے اور عرض کیا اے میرے رب مصائب کی کثرت نے میرے دل پر فراموشی طاری کردی اور میں نے ( بے سمجھے) ایک بات کہہ دی آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔
حسن (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ جبرئیل (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) کے پاس جیل میں آئے، جب یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا تو پہچان لیا اور کہا اے میرے بھائی! کیا ہوگیا کہ میں آپ کو ان گناہ گاروں میں دیکھ رہا ہوں؟ تو جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا اے پاکیزہ! لوگوں کے پاس تیرا رب تجھ پر سلام پڑھ رہا ہے اور آپ (علیہ السلام) کو کہا ہے کہ جب آدمیوں سے آپ (علیہ السلام) نے شفاعت طلب کی تو مجھ سے حیاء نہ آئی؟ پس میری عزت اور جلال کی قسم! میں آپ کو جیل میں چند سال ٹھہراؤں گا تو یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں تو یوسف (علیہ السلام) نے کہا پھر مجھے بھی کوئی پروا نہیں ہے۔
کعب کا بیان ہے کہ حضرت جبرائیل نے حضرت یوسف سے کہا: اللہ فرماتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا: اللہ نے۔ حضرت جبرائل نے کہا ( اللہ فرماتا ہے) تجھے باپ کا چہتا کس نے بنایا ؟ حضرت یوسف نے جواب دیا : اللہ نے۔ حضرت جبرائیل نے کہا ( اللہ فرماتا ہے) تجھے خواب کی تعبیر کس نے سکھلائی؟ حضرت یوسف نے جواب دیا: اللہ نے۔ حضرت جبرائیل نے کہا ( اللہ فرماتا ہے) چھوٹے بڑے گناہ کا رخ کس نے تیری طرف سے پھیر دیا؟ حضرت یوسف نے جواب دیا۔ اللہ نے۔ حضرت جبرائیل نے کہا ( اللہ فرماتا ہے) پھر تو نے اپنے جیسے آدمی سے کیسے سفارش کی درخواست کی؟
(تفسیر بغوی ملخصا ۔سورہ یوسف 42۔) واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی