تم وہ مسلم ہو جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود


نسل، وطن، رنگ اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی تفریق وتقسیم کی ذہنیت ہی اسلام اور مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا “موذی “ہے۔۔۔۔پیغمبر اسلام نے جاہلیت کے اس عفریت کی شہ رگ پہ کاری ضرب لگائی تھی، اور اس کی بنیاد پر تیشہ چلایا تھا۔مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کی تشکیل فرمائی تو سب سے پہلے اس کی سیاست کی پہلی بنیاد یہ رکھی کہ مہاجرین وانصار کے درمیان رشتہ مواخات قائم فرمایا۔ یہ اسلامی سیاست کی پہلی اینٹ تھی۔ اس سے صدیوں پرانے اختلافات ونزاعات سر ہوئے۔ الفت ومحبت کی لاثانی فضاء قائم ہوئی۔
اسلامی ریاست کی دوسری بنیاد یہ رکھی گئی کہ  مدینہ کے قرب وجوار کے یہودیوں سے معاہدہ ہوا جس کا سب سے اہم منشور یہ تھا کہ باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ کا فیصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا نیز یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کو ظاہرا یا باطنا کوئی امداد فراہم نہیں کریں گے۔
پھر مسلمانوں کے مابین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دستور نافذ فرمادیا کہ عدل وانصاف اور نیکی وتقوی کسی کی مدد کرنے یا کسی سے مدد حاصل کرنے کا معیار ہونا چاہئے۔جو شخص عدل وانصاف اور نیکی پر ہو  اس کی مدد کرو ۔خواہ رنگ ونسل، خاندان وزبان ووطن کے لحاظ سے تم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو ! اور ظالم وگنہگار کی مدد نہ کرو اگرچہ وہ تمھارا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو!
اسلامی سیاست کی یہ دو ایسی فولادی وآہنی بنیادیں تھیں جن کے ہوتے ہوئے قیصر وکسری کی عالمی طاقتیں بھی اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کا بال بیکا نہ کرسکیں۔
شروع ہی سے اسلام دشمن اس مشترک اسلامی برادری کو منتشر کرنے کے لئے  سرگرداں تھے۔ برادری اور قومیت ووطنیت کے حربہ کے ذریعہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوششں کرتے  رہےہیں۔ وحدت اسلامی کو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے لئے موجودہ دور کے صیہونیوں نے وطنیت وقومیت کا پھر  منظم شیطانی جال بچھایا ہے۔ اس جال میں پھنس کر عام دنیا کے مسلمان باہمی جنگ وجدال کے شکار ہیں۔ عرب میں مصری، شامی، حجازی، یمنی، عراقی کو ایک دوسرے سے برسر پیکار کردیا گیا۔ عجمیوں میں ہندوستانی، پاکستانی، بلوچ سندھی، پنجابی، کشمیری باہم آویزش کے شکار ہیں۔اور دشمنان اسلام ہماری اس آویزش کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی لئے وہ ہر میدان میں ہم پر غالب ہیں اور ہم غلامانہ ذہنیت کے ساتھ کبھی “بش”، کبھی “کلنٹن”، کبھی “اوبامہ” اور اب “ٹرمپ” کی طرف نظریں اٹھاکے نجات دہندہ کے بطور دیکھ رہے ہیں۔
“ان هذه امتكم أمة واحدة ”
پر ایمان رکھنے والے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ کشمیر کا ظلم وستم  انڈیا پاکستان کا معاملہ، فلسطین وشام میں قتل خونریزی کو مشرق وسطی کا معاملہ قرار دے کر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کی موجودہ نسل کشی پہ شاہان عرب کی مجرمانہ خاموشی ناقابل معافی جرم ہے ۔۔چالیس ملکوں کے فوجی اتحاد بھی دجل وفریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسلامی اتحاد کا لیبل سراسر دھوکہ ہے۔یہ سب اپنے سرحدوں کی حفاظت کے لئے کھیلا گیا کھیل اور ڈرامہ ہے۔
فلاح انسانیت کے نام پہ بننے والے ملک، مملکت خداداد “پاکستان” کے حکمراں بھی برابر کے مجرم ہیں۔ اسلام کے نام پہ بننے والے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر آج تک اسلام لینڈ نہ کرسکا۔ ایٹمی طاقت اور دنیا کی چھٹی بہترین بری فوج رکھنے کے باوجود چوڑیاں پہنے ہیں، اپنے آقاء “امریکہ” کے حکم کے محتاج ہیں!
انسانیت سسک رہی ہے۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی اجتماعی عصمت دری کرکے اعضاء نسوانی کاٹے جارہے ہیں۔
پھول جیسے معصوم بچوں کو دہکتی ہوئی آگ میں کباب کی طرح بھونا جارہا ہے جبکہ ایٹمی طاقت اور جوانمرد ناقابل تسخیر افواج کے جرنیل دم دبائے بیٹھے ہوئے ہیں۔
فرقے اور مسلک کے نام پہ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں بم بلاسٹ کرنے والے فولادی جوانمردوں کی مردانگی کہاں گم ہوگئی؟  ۔۔۔۔ اگر اب بھی تیری رگ حمیت بیدار نہ ہوئی تو یہ تیری ایٹمی طاقت اور جوانمرد افواج کس کام کی ۔۔۔۔ تیرے پٹرول کی اتاہ دولت کا خزانہ کا کیا مصرف ۔۔۔۔۔صد ہزار بار نفریں ہو تیرے اسلامی فوجی اتحاد پہ!
نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم نے جس عصبیت جاہلہ سے پوری شدت کے ساتھ شکست دی تھی،  آج یہ عفریت انہی مسلمانوں کے گھروں میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہی اس کے پاسباں بنے بیٹھے ہیں۔
زیادہ تفصیل میں جائے بغیر صرف اسلامی سیاست کی مذکورہ دوبنیادوں کو ہر اسلامی ملک میں ترجیحی بنیادوں پر نافذ کردیا جائے تو پھر عالمی منظر قابل دید ہوگا۔
اس موقع سے مسدس حالی کے دو بند پیش کرنے کو جی چاہتا ہے
خصومت سے ہیں اپنی گو خواریاں سب
نزاعوں سے باہم کی، ہیں ناتواں سب
خود آپس کی چوٹوں سے ہیں خستہ جاں سب
یہ ہیں متفق اس پر ،پیر وجواں سب
کہ نا اتفاقی نے کھویا ہے ہم کو
اسی جزر ومد نے ڈبویا ہے ہم کو
یہ مانا کہ کم ہم میں ہیں ایسے دانا
جنہوں نے حقیقت کو ہے اپنی چھانا
تنزل کو ہے ٹھیک ٹھیک اپنے جانا
کہ ہم ہیں کہاں اور کہاں ہے زمانا
یہ اتنا زبانوں پہ ہے سب کے جاری
کہ حالت  بری آج  کل ہے    ہماری
ضرورت ہے کہ خارجی بھروسوں اور اعانتوں پہ توکل کرنے کی بجائے مسلمانوں بالخصوص مسلم حکمرانوں کی اندر کی صلاحیت اور بنیادوں کو ابھارا جائے، اس سے جو قوت پیدا ہوگی وہ ملت کی اپنی حقیقی قوت ہوگی۔ مسلم حکمراں ہوش کے ناخن لیں، صرف کلمہ کی بنیاد پہ مظلوم، بے بس ولاچار روہنگی مسلمانوں کی مدد کے لئے پورے عزم وجزم کے ساتھ میدان عمل میں کود پڑیں۔۔۔۔
والسلام علیکم
شکیل منصور القاسمی
muftishakeelahmad@gmail.com