علاج معالجہ کے شرعی احکام ومسائل

علاج معالجہ کے شرعی احکام ومسائل

طب کا علم، حیوانی جسم کی ترکیب اور اس کے اعضا کی کارکردگی کے متعلق دقیق بحث کرتا ہے۔ وہ اپنی تحقیق کی ابتدا حیوانی جسم کی ترکیب کے دقیق ترین اکائی (خلیہ) سے کرتا ہے اور پھر مشترک کارکردگی والے خلیوں کے مجموعے پر دادِ تحقیق دیتا ہے اور پھر دل ، دماغ، جگر، گردہ جیسے اعضاے رئیسہ کی کاکردگی پر حیرت انگیز انکشافات کرتا ہے، پھر وہ نظامِ انہضام میں مشترک کردار ادا کرنے والے اعضاے حیوانی پر ریسرچ کرتا ہے اور ہر ایک کا الگ الگ کردار بیان کرتا ہے ۔

یہ علم، انسان یا حیوان کی صحّت کی حالت میں اُس کے اعضاے جسمانی کے کردار کی اہمیت اور مرض کی حالت میں اُن کے خطرات بیان کرتا ہے اور اس کے علاج معالجے کے ذرائع بیان کرتا ہے۔ چنانچہ کتاب و سنت کی روشنی میں علاج معالجے کی ضرورت اور اہمیت پر مشتمل یہ مضمون پیش خدمت ہے۔ اس کے مطالعے سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارا دین اسلام اس قدر آسان اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے کہ دیگر سماوی مذاہب اس کی گردِ پا کو بھی پہنچ سکے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ ہمیں اپنا دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنےکی توفیق بخشے ۔

اللّٰہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو بنیادی طور پر اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے ،لیکن اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اس کا صحت مند ہونا ضروری ہے، لیکن بسا اوقات انسان کو اپنی ولادت سے قبل یا دوران ولادت یا ولادت کے بعد جسمانی یا نفسیاتی امراض لاحق ہوجاتے ہیں، جن کے علاج معالجے کا حکم قرآن و سنّت میں موجود ہے۔

علاج و معالجہ پسندیدہ عمل ہے!

صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا :

«لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بـإذن الله عزّوجلّ»1

”ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کو اس کی اصل دوامیسر ہوجائے تو انسان عزوجل کے حکم سےشفایاب ہوجاتا ہے۔”

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«ما أنزل الله دآء إلا أنزل له شفاء»2

”اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔”

جامع ترمذی کی ایک اور حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے علاج معالجے کے متعلق صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:

«نعم يا عباد الله تداووا. فان الله عَزّ وجل لم يضع داء إلا وضع له شفاء أو دواء إلا داء واحدا فقالوا:یا رسول الله وما هو؟ قال: الهرم»3

”ہاں، اے اللّٰہ کے بندو! علاج معالجہ کروا لیا کرو، اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں رکھی جس کی شفا نہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: و ہ کون سی بیماری ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ ہے بڑھاپا۔”

امام شاطبی  (م۷۹۰ھ) اپنی کتاب ‘الموافقات فی اُصول الشریعۃ’ میں فرماتے ہیں :

”بسا اوقات انسان پر وارد ہونے والی مشقّت بیرون سے ہوتی ہے، اس میں نہ تو انسان کا کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ وہ انسان کے کسی معاملے میں داخل ہونے کے سبب سے وارد ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں شارع کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان پر یہ مشقت طاری رہے اور وہ اس کی بنا پر رنج واَلم پر صبر کرتا رہے اور نہ ہی شارع کا یہ مقصد ہے کہ انسان کسی مشقت کو اپنی جان پر وارد کرنے کے لئے کوئی سبب اختیار کرے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آزمانے اور ان کے ایمان کو خالص کرنے کے لئے موذی اور مؤلِم چیزوں کو پیدا کیا ہے اور اُنہیں اپنے بندوں پر اپنی مشیّت کے موافق مسلط کیا ہے… الخ”4

اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے امراض اور ان کا سبب بننے والی مخلوق کو محض شر پہنچانے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ اُس نے جس چیز کوبھی پیدا کیا ہے، اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور وہ حکمت کے اعتبار سے خیر ہے ،مثلاً اللّٰہ نے بچھو جیسی زہریلی مخلوق کو پیدا کیا جو بظاہر مجسمہ شرّ ہے لیکن امام ابن جوزی ‘صید الخاطر’ میں لکھتے ہیں کہ

”اگر اسے مٹّی کے کوزے میں گلِ حکمت کرکے ہلکی آنچ میں جلا کر راکھ بنا لیا جائے اور وہ راکھ جَو برابر گردے کی پتھری والے مریض کو کھلا دیا جائے تو پتھری ریزہ ریزہ ہوکر خارج ہوجاتی ہے اور اگر یہ فالج زدہ مریض کو ڈس لے تو اللّٰہ کے اِذن سے مریض شفا یاب بھی ہوسکتا ہے۔”5

البتہ ایسی اشیا ءمیں بعض لوگوں کے لئے بسا اوقات شر ہوتا ہے ،لیکن وہ اضافی اور جزئی شر ہے، مطلق اور کلّی شر نہیں ہوتا۔ لہٰذا شریعت میں اَمراض اور امراض کا سبب بننے کے دفیعہ کی اجازت ہے تاکہ انسان اللّٰہ کے حکم سے شفایاب ہوکر اُس کی نعمتوں سے اس کے حکم کے مطابق لُطف اندوز ہوسکے۔

علاج معالجہ توکل علیٰ اللّٰہ کے منافی نہیں !

قدوۃ السالکین و رئیس المحققین امام ابن قیم دمشقی ‘ زاد المعاد’ میں فرماتے ہیں:

”صحیح احادیث میں علاج معالجے کا حکم موجود ہے اور جس طرح بھوک اور پیاس دور کرنے اور سردی و گرمی سے بچنے کے لئے دوڑ دھوپ کرنا توکل کے منافی نہیں ہے اس طرح بیماری کا علاج کرانا بھی توکل علیٰ اللّٰہ کے منافی نہیں ہے بلکہ اس وقت تک حقیقتِ توحید مکمل نہیں ہوتی جب تک انسان شرعاً و تقدیراً ان اسباب کو بروئے کار نہ لائے جنہیں اللّٰہ نے اُس کی ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے اور ان اسباب کو اختیار نہ کرنا، حقیقت توکّل سے پہلوتہی کرنا ہے اور یہ علاج معالجے کے حکم کو جھٹلانے اور اس کی حکمت کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔ علاج معالجہ کرانے کے حکم میں ان لوگوں کا ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ اگر مقدر میں شفا لکھی ہے تو علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر مقدر میں شفا نہیں تو بھی علاج کا کوئی فائدہ نہیں۔”6

مملکتِ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم جناب عبداللّٰہ بن عبدالعزیز بن باز سے پوچھا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اس حدیث نبوی سے ترکِ علاج ومعالجہ پر استدلال کرتا ہے کہ اللّٰہ کے پیارے رسولﷺ نے فرمایا:

« يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِى سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ». قَالُوا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ «هُمُ الَّذِينَ لاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَتَطَيَّرُونَ وَلاَ يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ»7

” امت محمد ﷺ سے ستر ۷۰ ہزار آدمی بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرواتے ہیں ، نہ علاج کی غرض سے اپنے جسم کو داغتے ہیں اور نہ فال نکالتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار پر ہی توکل کرتے ہیں۔”

تو انھوں نے جواب دیاکہ ان ستر ہزار مومنین نے صرف مندرجہ بالا چیزوں کو ترک کیا ہو گا ،یہ نہیں کہ انھوں نے اسبابِِ شفا ہی ترک دیے ہوں گے، کیوں کہ آپ نے ضرورت پڑنے پر بعض صحابہ کرام کو سینگی لگوائی۔ اس لیے کہ سینگی لگوانے میں کوئی کراہت نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک جائز طریق علاج ہے۔ اس طرح دیگر طرقِ علاج بذریعہ انجکشن، سیرپ، گولیاں وغیرہ جائز ہیں۔

شيخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں کہ جب انسان یہ اعتقاد رکھے کہ اسباب محض اسباب ہی ہیں اور اللّٰہ کی مرضی کے بغیر اُن میں تاثیر نہیں آسکتی تو اسباب کا بروئے کار لانا توکل کے منافی نہیں ہے۔ اس بنا پر انسان کا کوئی چیز پڑھ کر اپنے آپ کو یا اپنے کسی بھائی کو دم کرنا توکل کے برخلاف نہیں ہے کیونکہ حضرت رسولِ کریمﷺ معوّذات پڑھ کر اپنے آپ کو بھی دم کرتے تھے او راپنے صحابہ کو بھی ۔ واللّٰہ اعلم!

بیماری سے بچاؤکے لئے احتیاطی علاج و معالجہ

امام شاطبی مؤلمات اور موذیات کے بارے میں گفتگو کرتےہوئے فرماتے ہیں:

”شریعتِ اسلامیہ کے مجموعی مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ انسان کو لاحق ہونے والی مشقت کو ہٹانے اور شریعت میں جائز قرار دی جانے والی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کو محفوظ رکھنے کی غرض سے موذیات اور مؤلمات کا علاج مطلقاً جائز ہے بلکہ کسی موذی اور مؤلم و با سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کی بھی شرع میں اجازت ہے۔ اگرچہ وہ ابھی واقع نہ بھی ہوئی ہو، تاکہ انسان کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل ہو، اور اس کی طرف پُرخلوص توجہ کی تکمیل کی نگہداشت ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت عافیت کے شکریے کا فریضہ ادا ہو،مثلاً موسم سرما یا گرما کے آنے سے قبل اور بھوک یا پیاس لگنے سے پہلے اُن کے تکلیف دہ اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنا اور بیماریوں کے پھیلنے سے قبل حفاظتی اقدامات کرنا او رہر موذی چیز سے بچاؤ کا سامان کرنا اور اس دنیا میں سعادت مند زندگی بسر کرنے کی غرض سے متوقع نقصان دہ چیزوں سے بچنے اور متوقع نفع مند چیزوں کے حصول کے اقدامات کرنا۔”8

سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللّٰہ بن باز سے بیماری کے نازل ہونے سے پہلے حفاظتی قطرے یا حفاظتی اَدویات کے استعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا:

” وَبا یا دیگر اسباب کی وجہ سے بیماریاں در آنے کے خطرے کےپیش نظر علاج معالجہ کرانے یا دوا کھانے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ حضرت رسولِ کریمﷺ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

«من تصبّح بسبع تمرات من عجوة لم يضره سمّ ولا سحر»9

”جس شخص نے صبح سویرے سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے جادو اور زہر نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔”

یہ اقدام بیماری کے رونما ہونے سے قبل پرہیز و بچاؤ کے قبیل سے ہے۔ اسی طرح جب کسی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو اور کسی شہر یا ملک میں وبائی مرض پھیلا ہوا ہو تو اُس کے دفیعہ کی غرض سے اینٹی بائیوٹک کھانے میں کوئی ممانعت نہیں اور جس طرح مریض کو لاحق ہونے والی بیماری کا علاج جائز ہے، اسی طرح متوقع بیماری سے بچنے کے لئے علاج بھی جائز ہے۔ البتہ بیماری یا آسیب یا نظر بد سے بچنے کے لئے تمائم(تعویذ دھاگے) لٹکانا جائز نہیں، کیونکہ رسولِ کریمﷺ نے صراحت سے اس سے منع فرمایا ہےلہٰذا ان سے بچنا واجب ہے، کیونکہ یہ شرک اصغر ہے۔10

علاج معالجہ کے احکام

فقہاے کرام کے درمیان مباح چیزوں سے علاج کرانے میں شروع سے اختلاف منقول ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مباح چیز سے علاج کرانا تقریباً واجب ہے اور امام شافعی کے نزدیک مستحب ہے اور امام مالک بن انس کے نزدیک علاج کرانا، نہ کرانا برابر ہے اور امام احمد کے نزدیک علاج کرانا مباح ہے اور نہ کرانا افضل ہے۔ البتہ حرام چیزوں سے علاج کرانا جمہور ائمہ کے نزدیک حرام ہے ،کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ سے منقول ہے کہ «إن الله لم يجعل شفاء كم فيما حرّم عليكم»11

”اللّٰہ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جو تم پر حرام ہیں ۔”

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ

”اہل علم نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ علاج معالجہ مباح ہے؟ مستحب یا واجب؟ اور تحقیق یہ ہے کہ کچھ چیزوں سے علاج معالجہ حرام ہے اور کچھ سے مکروہ اور کچھ سے مستحب ہے اور پھر بعض صورتوں میں علاج معالجہ واجب ہے اور یہ اس صورت میں جب یقین ہوجائے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں مثلاً اضطراری حالت میں مُردار کا کھا لینا واجب ہے، کیونکہ ایسی صورتِ حال میں ائمہ اربعہ اور جمہور علما کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔”12

میڈیکل علاج کے بارے میں ‘اسلامی فقہی بورڈ’ نے اپنے اجلاس منعقدہ مؤرخہ 1412ھ بمقام جدّہ سعودی عرب میں قرارداد نمبر 5؍5؍68 پاس کی جس کا مفہوم یہ ہےکہ

”علاج معالجہ اصلاً مشروع ہے ،کیونکہ اس کے متعلق قرآنِ کریم اور سنّتِ قولیہ وفعلیہ سے دلائل موجود ہیں اور یہ اس وجہ سے بھی مشروع ہے کہ اس عمل سے انسانی جان کی نگہبانی ہوتی ہے جو شریعتِ مطہرہ کے مقاصدِ کلیہ میں سے ایک نمایاں مقصد ہے۔ اور اشخاص واحوال کے اختلاف کے مطابق علاج معالجے کے احکام بدلتے رہتے ہیں چنانچہ جس مرض سے جان کی ہلاکت یا اس کے کسی عضو کی خرابی یا اس کے مفلوج ہونے کا اندیشہ ہو یا متعدی امراض کی طرح اس مرض کا اثر دیگر لوگوں تک منتقل ہونے کا خطرہ ہو تو اس کا علاج کرنا کرانا واجب ہے۔ اور جس مرض کے علاج نہ کرانے سے بدن کے کمزورہونے کا اندیشہ ہو اور مذکورہ بالا خطرات نہ ہوں تو اس کا علاج کرنا کرانا مستحب ہے اور جب مذکورہ بالا دونوں صورتیں (جان کی ہلاکت یا بدن کی کمزوری) نہ ہوں تو علاج کرنا کرانا جائز ہے۔”

اور جب کسی مرض کے علاج کی وجہ سے اس سے بدتر مرض کے در آنے کا خطرہ ہو تو اس کا علاج کرنا کرانا مکروہ ہے۔ امام ابن عثیمین  فرماتے ہیں کہ

1. جس مرض کے علاج سے شفا کا ظن غالب ہو اور علاج نہ کرانے سے ہلاکت کا احتمال ہو تو اس کا علاج کرانا واجب ہے۔

2. جس مرض کے علاج سے ظن غالب کےمطابق نفع ہو اور علاج نہ کرانے سے ہلاکت یقینی نہ ہو تو اس مرض کا علاج کرانا افضل ہے۔

3. جس مرض کے علاج سے شفا او رہلاکت کے خدشات برابر ہیں تو اس کا علاج نہ کرانا افضل ہے تاکہ انسان لاشعوری طور پر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال بیٹھے۔13

غیرمسلموں سے علاج معالجہ کرانا

امام ابن عثیمین مزید فرماتے ہیں کہ ”مسلمان مرد یا عورت کا بغیر کسی مجبوری کے یہودی یا عیسائی ڈاکٹر سے علاج کرانامکروہ ہے ،کیونکہ وہ ناقابل اعتبار ہے اور اللّٰہ نے اُن کو خائن بتایا ہے تو ہم کیوں اُنہیں امین سمجھیں۔ چنانچہ دو شرطوں کے بغیر غیر مسلموں سے علاج کرانا ناجائز ہے۔ ایک تو یہ کہ کوئی واضح مجبوری ہو ، دوسرا یہ کہ ان کی فریب کاری کا اندیشہ نہ ہو۔”14

مرد طبیب سے عورت کا علاج کرانا

برونائی دارالسلام میں منعقدہ آٹھویں اسلامی فقہی کانفرنس کے متفقہ فیصلے کے مطابق اگر مریضہ کے طبّی چیک اَپ کے لیے سپیشلسٹ لیڈی ڈاکٹر موجود ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ بذاتِ خود چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے اور اگر مسلمان لیڈی ڈاکٹر میسّر نہ ہو تو غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر بھی اُسے چیک کرسکتی ہے اور اگر غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہوتو مسلمان ڈاکٹر یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اور اگر مسلمان ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم ڈاکٹر چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مرض کی تشخیص اور علاج کی غرض سے عورت کے بدن کے متاثرہ حصے کو ہی دیکھے اور حتی المقدورغض بصر سے کام لے اور پھر عورت کے علاج معالجے کا معاملہ،خلوتِ محرّمہ کے ارتکاب سے بچنے کے لئے خاوند یا محرم یا قابل اعتماد عورت کی موجودگی میں ہو ۔

مزید برآں فقہی کانفرنس محکمہ صحّت کے ذمہ داران کو تلقین کرتی ہے کہ وہ طبّی علوم کے شعبوں میں عورتوں کی اسپیشلائزیشن کی حوصلہ افزائی کریں خصوصاً تولیدووضع حمل جیسے نسوانی معاملات کےشعبے میں، اس بات کے پیش نظر کہ ان کے آپریشن کے لیے عورتیں بہت کم ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ استثنائی قاعدے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

اور بسااوقات بعض مریض خواتین ڈاکٹر کے کہنے سے پہلے ہی بغیر کسی مصلحت اور ضرورت کے اپنے بدن کا کوئی حصہ کھول دینے میں حرج محسوس نہیں کرتیں حالانکہ اُنہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

شیخ ابن عثیمین سے مرد ڈاکٹر سے عورت کے علاج کے بارےمیں پوچھا گیا تو فرمایا:

”لیڈی ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مرد ڈاکٹر سے عورت کے علاج میں کوئی حرج نہیں اور اہل علم نے جائزقرار دیا ہے کہ ایسی صورت میں مرد طبیب سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں اور عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ ڈاکٹر کے سامنے اپنے بدن کا وہ حصہ کھول دے جس کے کھولے بغیر تشخیص اور علاج ممکن نہ ہو، البتہ اس صورت میں اس کےساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ،کیونکہ غیر محرم طبیب کے ساتھ عورت کا علیحدگی میں ہونا حرام ہے۔ ”15

لیڈی ڈاکٹر سے مرد کا علاج کرانا

ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والی بعض لیڈی ڈاکٹرز اور نرسیں، بغیر کسی خاص مجبوری کے مرد مریض کے علاج معالجے میں اندیشہ محسوس نہیں کرتیں اور بسا اوقات لیڈی ڈاکٹر براہِ راست مریض آدمی کے ستر والے حصے کو دیکھتی اور بار بار اسے چھونے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں اور بسااوقات سرجری کے شعبہ میں زیر تربیت طالبات اور لیڈی ڈاکٹرز کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کھڑے یا لیٹے ہوئے مردمریض کے شرم والے عضو کا چیک اَپ کریں، گویا کہ میڈیکل کے شعبے میں اس کے بغیر سپیشلائزیشن ہو ہی نہیں سکتی اور بہت سی نرسیں اور لیڈی ڈاکٹرز ایسا کرنا بھی نہیں چاہتیں ،لیکن وہ اس خوف سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ مبادا اُنہیں پریکٹیکل کی سند نہ ملے حالانکہ ہمارے علم کے مطابق میڈیکل کے تعلیمی نصاب اور تقاضوں میں ایسی کوئی سختی نہیں کہ طالبات کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے، خصوصاً ایسی صورت میں کہ وہ دین، اخلاق اور حیا کی وجہ سے ایسا کرنے میں حرج محسوس کرتی ہوں۔ اس بنا پر عین ممکن ہے کہ طالبات طب کے دیگر شعبہ جات میں داخلہ لے لیں جہاں ایسی صورتِ حال نہ ہو۔

اور بعض مرد لیڈی ڈاکٹر سے علاج کروانے سے روک بھی دیتے ہیں اور بعض نہیں روکتے کیونکہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یا وہ سمجھتے ہیں کہ جب لیڈی ڈاکٹر موجود ہے تو اس سے چیک اَپ کروانا جائز ہے اگرچہ ایمرجنسی کی صورت نہ بھی ہو۔ بعض ضعیف الایمان اور بے مروّت مریض بذاتِ خود نرس یا لیڈی ڈاکٹر سے چیک اَپ کروانےمیں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اگر بالغ مریض مرد وں کے لئے نرس یا لیڈی ڈاکٹر سے چیک اَپ کروانا ممنوع قرار دے دیا جائے تو اُن کے لئے اور اُن کے بعد والے مرد مریضوں کے لیے معاملہ آسان ہوجائے گا اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کو ہر رورل ہیلتھ سنٹر اور شہری ہسپتالوں میں کھپایا جاسکے گا۔

لیکن یہاں تو معاملہ اور صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ نسوانی امراض کے علاج کے لئے بھی مرد ڈاکٹر ہسپتالوں میں گھومتے پھرتے اور زچگی جیسے معاملات میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ کیا یہ کوئی عقل اور حکمت اور تہذیب و اخلاق کی بات ہے کہ مسلمان عورتوں کی زچگی مردوں کے ہاتھ ہو اوروہ بھی یہودی اور مجوسی مردوں کے ہاتھوں،افسوس کہ بعض اوقات صرف مردوں کے نرغے میں ایک مریض عورت گھری ہوتی ہے۔

قرآن کے ذریعے شفااور دم کے اَحکام

اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ القُر‌ءانِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ۙ وَلا يَزيدُ الظّـٰلِمينَ إِلّا خَسارً‌ا ﴿٨٢﴾… سورة الاسراء

”او رہم قرآن سے وہ کچھ نازل فرماتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ،وہ کافروں کو سوائے خسارے اور کچھ نہیں بڑھاتا۔”

امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہاں مِنبیانِ جنس کے لئے ہے لہٰذا تمام قرآن شفا ہے اور اس شفا کے بارے میں تین اقوال ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اپنے اندر ہدایت کی وجہ سے گمراہی سے شفا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ اپنے اندر برکت کی وجہ سے بیماریوں سے شفا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ فرائض و احکام کے بارے میں شفا ہے۔16

امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ اللّٰہ نے آسمان سے کوئی ایسی شفا نازل نہیں کی جو بیماری کو دور کرنے میں قرآنِ كریم سے زیادہ نفع مند اور عظیم تر اور کامیاب ہو۔17

صحیح بخاری میں ہے کہ ایک صحابی نے کسی عرب قبیلے کے شیخ کو بچھو کے کاٹنے پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ شفا یاب ہوگیا اور اُٹھ کر چلنےلگا۔ 18یہ تو تاثیر ہوئی جسمانی امراض کے معاملے میں جبکہ عقلی اور نفسیاتی شفا کے معاملے میں حضرت امام ابو داؤد روایت کرتے ہیں :

فَرَقَاهُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، كُلَّمَا خَتَمَهَا جَمَعَ بُزَاقَهُ ثُمَّ تَفَلَ فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ19

”ایک صحابی کسی قوم کے پاس سے گذرا جن کا کوئی آدمی زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا جو اس نے تین دن صبح و شام اس کو سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ شفا یاب ہوگیا۔”

کیا دم کسی شخص یا خاندان كے لئے خاص ہے یا کوئی شخص بھی دم کرسکتا ہے؟

بعض بلکہ اکثر لوگوں کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ دم جھاڑ اس صورت میں مفید ہوتا ہے جب کسی خاص خاندان یا خاص شخص سے کروایا جائے، کیونکہ گناہ گار مریض جب اپنے آپ کو دم کرے تو اسے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ دم کرنے کا معاملہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ ہر نتھو خیرا دم کرتا پھرے،بلکہ اس کے لیے بڑے تجربے اور مجاہدے کی ضرورت ہے۔ اس لیےبہت سے لوگ دور دراز سے سفر کرکے دیگر شہروں اور دیہاتوں میں عاملوں کے پاس دم کروانے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قوت اورتاثیر کےلحاظ سے ان لوگوں کا دم عام لوگوں کے دم سے کہیں زیادہ ہے۔جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ دم جھاڑ کے لیےکسی خاص خاندان یا شخص کی ضرورت نہیں ،بلکہ جو کوئی شخص اپنے آپ کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے تہہ دل سے اللّٰہ سے دعا کرے یا اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو دم کرے تو اللّٰہ اس کی دعا قبول کرلیتا ہے اور مریض کو شفا بخش دیتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ‌ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ…٦٢﴾.. سورة النمل

”بھلا کون ہے وہ ذات جو لاچار اور بے کس جان کی پکار پر اُس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے۔”

البتہ اس میں شرط یہ ہےکہ اللّٰہ کے سامنے تہہ دل سے گڑگڑا اور آنسو بہاکر اپنے لیے یا اپنے کسی مسلمان بھائی بہن کو دم یا اُس کے لئے دعا کی جائے ،کیونکہ اللّٰہ کی ذات لاپرواہی سےکیے جانے والے دم اور دعا کو قبول نہیں کرتی۔

یہاں یہ بات خوب یاد رہے کہ کوئی مسلمان بھائی اپنےمسلمان بھائی کو نفع پہنچانے کے لئے دم کرے تو کیا یہ جائز ہے؟خصوصاً اس صورت میں کہ دم کرنے والا بھائی اللّٰہ کے مقرب بندوں میں سے ہو ،کیونکہ ایسی صورت میں دعا یادم جھاڑ کروانے سےنفع کی اُمید زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی افضل اور اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ انسان براہِ راست اپنے آپ کو دم کرے او راللّٰہ سے شفا طلب کرے،کیونکہ یہ صورت قبولیتِ دعا اور دم جھاڑ کی اثر پذیری میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے اور علماے سلف و خلف کا اسی پر عمل تھا اور وہ اسی طرح کرنے کا حکم دیتے تھے اور ایسا کرنے کے بعد بھی خدانخواستہ شفا حاصل نہ ہو تو اس کااجر اِن شاء اللّٰہ ضرور مل جائے گا۔

یہاں ایک تنبیہ کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ بسا اوقات کسی شخص سے مسنون اور شرعی دم کروانے سے آدمی کو فائدہ ہوجاتا ہے تو اس کےدل میں یہ اعتقاد داخل ہوجاتا ہے کہ اس دم جھاڑ کرنے والے کا اللّٰہ کے ہاں بڑا مرتبہ ہے اور اللّٰہ نے اس کے دم میں شفارکھی ہے ۔ ایسا اعتقاد رکھنے والے کو علم ہونا چاہیے کہ دعا اور دوا تو ایسے اسباب ہیں جنہیں اختیار کرنے کا حکم اللّٰہ نے دیا ہے جبکہ مسبّب الاسباب اللّٰہ ہے اور درحقیقت وہی شفا بخشنے والا ہے، ورنہ کتنے سارے نیک اشخاص کو ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ جب دوسروں کودم کرتے تھے تو ان کو فائدہ ہوجاتا تھا ،لیکن جب وہ خود بیمار ہوئے تو نہ اُنہیں کسی کے دم سے فائدہ ہوا اور نہ کسی کی دوا سے … اور وہ عالم آخرت کو سدھار گئے۔

دم جھاڑ کرنے کے لئے مراکز قائم کرنا

عالم اسلام کےمفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ سے شرعی دم جھاڑ کے لئے مراکز قائم کرنے کے جواز کافتویٰ طلب کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا:

”اس سلسلے میں اولیٰ اور افضل بات تو یہ ہے کہ ہرنیک تجربہ کار شخص سے دم کروا لیاجائے اور روحانی ہیڈکوارٹر یا ہسپتال نہ بنایا جائے ،کیونکہ ایسا کرنا مبالغہ ہوگا جواسے مشروعیت سے نکال دے گا۔20

ٹیلی فونک دم کرنا یا لاؤڈسپیکر پر مجمع عام کو دَم کرنا

بعض ایسے ممالک جن میں اکثر لوگ دم جھاڑ پر اعتماد کرتے ہیں، وہ مشہور عاملین کے ہاں جوق درجوق جاتے ہیں اور وہ اُنہیں فرداً فرداً دم کرنے کی بجائے لاؤڈسپیکر پرمخصوص وِرد کے ساتھ دم کرتے ہیں۔ایسے عاملوں کے بارے میں سعودی عرب کی ‘مستقل کونسل برائے فتویٰ’ کی خدمت میں سوال بھیجا گیا تو اُس نے جواب دیا کہ دم کے لئے ضروری ہے کہ مریض سامنے ہو، لاؤڈسپیکر یا فون کےذریعےدم جھاڑ کرنا صحیح نہیں اور یہ فعل حضرت رسول اللّٰہ ﷺ اور اُن کے صحابہ کےعمل کے برخلاف ہے اور آپﷺ نے فرمایا:

«مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ»21

”جس کسی نے ہمارے دین میں نئی بات رائج کی وہ مردود ہے ۔ ”

امام عبدالعزیز بن باز سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: اس عمل کی کوئی دلیل اور بنیاد نہیں ہے،اصل اور ثابت شدہ بات تو یہ ہے کہ شرعی اور مسنون دم جھاڑ کے وقت مریض کے ہاتھوں یا سینے یا چہرے یا اس کے سر پر پھونکا جائے اور دور بیٹھے ہوئے لوگوں پر فضا میں پھونکا نہ جائے بلکہ ہر مریض کو اس کی طلب کےموافق پانی پر دم کردیا جائے تاکہ وہ اسے پی سکے یا اُس سے غسل کرسکے جب کہ بعض لوگوں کا (مجمع عام کو) لاؤڈسپیکر پر دم کرکے پھونکنا اس کا کوئی ثبوت نہیں اور ہمارے علم کی حد تک ایسا کرنا نہ شرع سے ثابت اور نہ ہی مسلمان ایسا کرتے تھے ،لہٰذا ایسا کرنے سے بچنا ضروری ہے،بلکہ مریض کو آیت الکرسی اور مسنون دعائیں پڑھنی چاہئیں۔ لہٰذا لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنا اور سپیکر پر اُنہیں دم کرنا بدعت ہے جسے دور حاضرکے لوگوں نے ایجاد کیا ہے ۔لاحول ولا قوة إلا بالله22

دم جھاڑ کے لیے آڈیو کیسٹیں تیار کرکے تقسیم کرنا

‘سعودی عرب کی کونسل برائے علمی تحقیقات اور فتویٰ’ کے سامنے جنوں کوبھگانے یا نظر ِبد کو ٹالنے یا جادو کو دور کرنے کے لئے مخصوص قرآنی آیات پر مشتمل آڈیو کیسٹیں تیار کرنے کے بارے میں سوال ہوا تو کونسل نے جواب دیا کہ قرآنی آڈیو کیسٹیں دم کامتبادل نہیں ہوسکتیں کیونکہ دم جھاڑ اعتقاد اور نیت کا متقاضی ہے جب کہ یہ عمل آڈیو سے حاصل نہیں ہوسکتا۔23

دم جھاڑ کرنے والے کا عورت کےبدن کو چھونا

سعودی عرب کی مذکورہ بالا کونسل کے سامنے جن کو قابو کرنے کے لئے عورت کے بدن کو چھونے کے بارے میں سوال پیش کیا گیا تو اُس نے جواب دیا کہ دم جھاڑ کرنے والے کے لئے جائز نہیں کہ وہ ڈاکٹر کی طرح عورت کے بدن کو چھوئے کیونکہ ڈاکٹر بسا اوقات ایسا کیے بغیر مرض کا پتہ نہیں لگا سکتا جبکہ عامل نے تو محض دم ہی کرنا ہے اور کچھ پڑھ کر پھونکنا ہے ،اسی کے لئے عورت کےبدن کو چھونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔24

دم کے ذریعے مرض کی تشخیص کرنا

اللّٰہ تعالیٰ نے مشروع دم کو شفا کا ذریعہ بنایا ہے،تشخیص کاذریعہ نہیں بنایا کہ اس کے ذریعے مرض کاپتہ چلایا جاسکے: آیا مریض کو جادو ہے یا نظربد لگی ہے یا اس پر جن کا اثر ہے؟ کیونکہ دم درحقیقت اللّٰہ کے سامنے مسنون دعاؤں کے ذریعے گڑگڑا کر شفا طلب کرنےکانام ہے خواہ بیماری کوئی بھی ہو کیوں کہ شفا تو بہرحال اللّٰہ نےعطا فرمانی ہے۔اللّٰہ کے سامنے موذی سے موذی تر بیماری سے شفا دینا، چیونٹی کے کاٹے سے شفا دینے سےبھی آسان ہے کیونکہ اس نے تو کُن کہنا ہے ،اس کے کُن کہنے سے کینسر جیسے مرض سے بھی ایسے ہی شفا مل جاتی ہے جیسے سوئی کے سرے کی چبھن سے شفا مل جاتی ہے لہٰذا اس کا تکلف کرنا سعی لا حاصل ہے کہ فلاں فلاں آیات پڑھنے پر مریض پر کوئی اثر ہو تو وہ جادو ہوگا اور فلاں آیت پڑھنے پر مریض پر ایسا ویسا اثر ہو تو وہ نظربد کا اثر ہوگا اور فلاں فلاں آیت پڑھنے سے مریض پر ایسا ویسا اثر ہو تو اس پر جن کا اثر ہوگا۔

وسوسے، مرگی اور نظربد جیسے اَمراض کے مسائل

نظربد، وسوسے، مرگی جیسے امراض کے علاج معالجے کے شرعی طریقہ کے بارے میں سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا:

«العين حق »25

” نظر بد کا اثر برحق ہے ۔”

اور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا :

«العين حقّ ولو كان شيء سابق القدر لسبقتْه العينُ وإذا استُغْسِلتم فاغسلوا»26

”نظر بد کا اثر برحق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی ہوتی تو وہ نظر بد ہی ہوتی، اگر تم سے (تمہاری نظر بد کا اثر زائل کرنے کے لئے تمہارے غسل میں استعمال شدہ پانی) طلب کیا جائے تو تم اپنے غسل میں استعمال شدہ پانی دے دیا کرو۔”

حافظ ابن حجر  فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ نظر بد کا اثر برحق ہے، اس سے یہ مراد ہے کہ (حسدبھری) نظر کا اثرِ بد ثابت شدہ حقیقت ہے یا یہ کہ وہ بھی ان تمام مؤثرات میں شامل ہے جن کا وجودثابت شده ہے۔27

امام مازری فرماتے ہیں کہ جمہور علما اور اُمّتِ مسلمہ نے اس حدیث کو ظاہری الفاظ کے مطابق تسلیم کیا ہے کہ نظربد کا اثر برحق ہے اور مبتدعین کے مختلف گروہوں نےاس کا انکار کیا ہے اور اُن کے قول کے غلط ہونے کی دلیل یہ ہےکہ نظربد دراصل ایک معنوی وجود رکھنے والی چیز ہے جو ظاہری چیزوں کے اثرات سے متصادم نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کسی چیز کی حقیقت کو مٹا یا فاسد کرسکتی ہے ،وہ عقول انسانی کے ہاں ان چیزوں میں شامل ہوتی جنہیں وہ جائز اور مؤثر مانتی ہیں۔ جب شارع ان کےاثر انداز ہونے کی خبر دے تو اس پر اعتقاد رکھنا واجب ہے او راس کی تکذیب جائز نہیں ہے ،ورنہ اس طرح تو اُمورِ آخرت کی تکذیب بھی جائز ہوگی جو کہ صریح کفر ہے،لہٰذا اس کی تکذیب اور اُمورِ آخرت کی تکذیب کفر میں برابر ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ، امام مازری کےحوالے سے بیان کرتے ہیں کہ بہت سے علماے طبیعیات بیان کرتے ہیں کہ نظر بد سے دیکھنے والے حاسد انسان کی آنکھوں سے زہریلی شعائیں پھوٹتی ہیں جو محسود انسان پر اثر انداز ہوکر اسے ہلاک کردیتی ہیں یا اسے کسی خرابی میں مبتلا کردیتی ہیں او ران کااثر ان زہریلے سانپوں کی نظر کی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جو اپنی زہریلی نظر سے اچھی بھلی شخصیت کو لرزا بلکہ تڑپا کر بیمار کردیتے ہیں ،البتہ علماے طبیعیات اسے چند اشیا تک ہی مؤثر مانتے ہیں جبکہ اہل السنّۃ کا اعتقاد یہ ہے کہ نظر بد حاسد انسان کے دیکھنے پر اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے جس طرح دیگر اشیا اللّٰہ کے دستور کےموافق اثر انداز ہوتی ہیں۔

جہاں تک حاسد انسان کے بنظر حسد دیکھنے سے تکلیف ہونے کا تعلق ہے اور کیا ایسی پوشیدہ لہریں اور شعائیں ہیں جو اس طرح کا اثر دکھا جاتی ہیں؟ تو یہ ایک احتمالی نظریہ ہے جس کا نہ تو قطعاً اعتبار کیا جاسکتا ہے نہ انکار!!

یہ تو خیر اس دور کی بات ہے، لیکن آج کل اس طرح کی لہروں اور شعاعوں کا نظریہ ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکا ہے اور میڈیکل سائنس کے ڈاکٹروں کےمشاہدے میں بھی آچکا ہے۔ مجھے میرے دوست ڈاکٹر رحمت عمران (ایم بی بی ایس، ای ڈی او محکمہ صحت پنجاب) نے خود بتایا کہ میں اپنے کلینک میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص میرے کلینک میں داخل ہوا اور میری کرسی کے اوپر شیشے کے فریم میں مہینوں سے لٹکی ہوئی میری تصویر کے اوپر نظر جما کر بولا: واہ کیا خوبصورت اور خوش نما تصو یر ہے۔ اس کے یہ کہتے ہی لکڑی کے فریم میں تصویر کے اوپر لگا ہوا شیشہ کڑک کر ایک خاص شکل میں ٹوٹ نیچے آگرا اور اس کے بعد میرا یقین پختہ ہوگیا کہ حدیث ِنبوی میں بیان شدہ نظربد کا اثر برحق ہے ،ورنہ پہلے میں اسے محض مولویوں کی ہفوات ہی سمجھا کرتا تھا۔

بہر حال نظر بد کی تاثیر سے انسان کا جانی اور مالی نقصان ہوسکتا ہے او ریہ اللّٰہ کی تقدیر کے تحت ہے ، ادلّہ شرعیہ میں کوئی ایسی دلیل نہیں کہ اس کے اثرات محدود چیزوں پر ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے دور کے بعض عاملین حضرات اس سلسلے میں بہت سے نفسیاتی اور جسمانی امراض کو نظر بد کا اثر ثابت کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور یہ مبالغہ تشخیص کےسلسلے میں بھی ہے اور علاج کے سلسلے میں بھی ، مثلاً دم کے وقت مریض کا رونا یا بے چینی اور پریشانی کا اظہار کرنا یا بعض اعضا کا گرم یا ٹھنڈا ہونا وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ ایسے نفسیاتی اور جسمانی تغیّرات انسان کو دم کرنے سے پہلے ہی لاحق ہوسکتے ہیں حالانکہ وہ ابھی عامل کے کمرے میں داخل نہیں ہوا ہوتا۔ اور دم جوقرآنِ کریم کی آیات اور رسولِ کریم ﷺ کے بتائے ہوئے کلماتِ طیبات پر مشتمل ہو، وہ اللّٰہ کی قدرتِ کاملہ او رحکمتِ بالغہ کے تحت یقین او ر ایمان کے مطابق اثر رکھتا ہے اور اس کے اثر سے جذبات حرکت میں آجاتے ہیں او روہ دل کی گہرائیوں تک اثر کرتا ہے اور غمگین اور پریشان مریض اس کے اثر سے رو بھی پڑتا ہے اور پریشان بھی ہوجاتا ہے،پھر اسے سکون اوراطمینان بلکہ آرام و سکون بھی حاصل ہوجاتا ہے،تو یہ ضروری نہیں کہ وہ نظر بد سے بیمار ہوا تھا ،بلکہ کسی اور سبب سےبھی ہوسکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے :

﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ‌ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَ‌بَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ‌ اللَّهِ…٢٣﴾… سورة الزمر

”اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے افضل بات نازل فرمائی ہے یعنی ایسا قرآن جس کی آیات (اختلاف الفاظ کے باوجود مضامین کے مفاہیم بیان میں) یکساں ہیں، اس کو سن کر ان لوگوں کی کھالوں پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کےکھال اور دل اللّٰہ کی یاد کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔”

اس آیتِ کریمہ سے یہ حقیقت آفتابِِ نیم روز کی طرح آشکارا ہوئی کہ یقین اور ایمان کی طاقت کے مطابق کلامِ الٰہی کے اثرات انسان کے بدن اور روح پر پڑتے ہیں اور اس سے سانپوں کے ڈَسے ہوئے اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے مسلوب العقل شفا پاتے ہیں او ریہ بات احادیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے اور ہزاروں کی تعداد میں صالحین کے تجربات سے بھی ثابت ہے ،بلکہ میرا اپنا بھی تجربہ ہے کہ میں نے کئی ایسے مریضوں کو دم کیا تو جن کو اللّٰہ نے شفا بخشنا چاہی، اُنہیں فوراً شفا حاصل ہوئی۔

چند ایسے امراض جنہیں بعض لوگ ‘نظر بد’ کا نتیجہ سمجھتے ہیں

1. نفسیاتی مرض : بعض لوگ حقیقت میں نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ،لیکن وہ اپنے نفسیاتی مریض ہونے کا اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اس لئے وہ نفسیاتی ہسپتالوں میں جانے اور وہاں علاج کرانے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں ۔اگر کوئی انہیں کہہ دے کہ تجھے کسی کی نظر بد لگ گئی ہے تو اس بے سروپا بات پر یقین کرکے وہ اپنے رشتہ داروں ، ہم جماعتوں اور ہم پیشہ لوگوں سے لڑائی جھگڑا شروع کردیتے ہیں ،بلکہ میں نے ایک ریٹائرڈ ہیڈماسٹر کو خود دیکھا کہ وہ لوگوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کرتا ،اگر کوئی اس سے زبردستی مصافحہ کرلیتا تو وہ اپنے ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھوتا حتیٰ کہ مجھے اس کے گھر والوں نے بتایا کہ اس کی بیٹیاں اس کےکپڑے دھو کر اور پھر اُنہیں استری کرکے کھونٹے پر لٹکا دیتیں اور پھر وہ انہیں ہاتھ لگا بیٹھتیں تو وہ ناراض ہوکر اُنہیں دوبارہ دھلواتا اور انہیں ہدایت کرتا کہ میرے استری کئے کپڑوں کو ہاتھ مت لگانا ، ایسے لوگ درحقیقت سامری (قوم موسیٰ کا سنار جس نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کے گرد قوّالی کروائی تھی) کی ‘لامساسیّت’کے شکار ہوتے ہیں ،لیکن اس مرض کا اعتراف نہیں کرتے۔

2. اپنی برتری کے خاتمہ کو نظر بد کا نتیجہ قرار دینا : لوگوں میں یہ بات متعارف اور مشہور ہے کہ نظر بد اُسےلگتی ہے جو صاحبِ علم، صاحبِ مال، صاحبِ منصب (صدارت، وزارت ) اور ذہین و فطین ہو اور کسی ایسے شخص کو اس کے غرور، تکبّر، ظلم و ستم کے سبب زوال آتا ہے تو وہ اس وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ مجھے فلاں کی نظر بد کی وجہ سے زوال آیا ہے۔

3. اتفاقی ناکامی یا کاروباری نقصان یا شادی میں رکاوٹ کو نظر بد کا نتیجہ قرار دینا۔

4. بعض عورتوں کا اپنے شوہروں کی علمی، ادبی اور کاروباری مصروفیات کو عدم توجہی کا نام دے کرنظر بد کا نتیجہ قرار دینا ،چنانچہ اُن پر وہم اُنہیں بدکار اور فاسق و فاجر عاملوں کے پاس لے جاتا ہے اور وہ ان خوبصورت عورتوں کو خلوت میں لے جاتے ہیں اور ان سے بے حیائی کرکے اُنہیں اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اور اُنہیں یہ پٹی پڑھا دیتے ہیں کہ اپنے شوہروں سےکہہ دینا کہ عامل کہتا ہے کہ اس نظر بد کےدم درود اور علاج کے لئے کئی ہفتے آنا پڑے گا او روہ اُنہیں اس کی اجازت دے کر ہمیشہ کےلئے بیوی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اخبارات میں اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں،لیکن ضعیف الاعتقاد لوگوں کی بے غیرتی پر ماتم کیجئے کہ وہ آنکھوں دیکھتے ہوئے بھی بےحیائی کی مکھیاں نگل رہے ہیں۔

جن اور مرگی کے اثرات اور مریض کو زَدوکوب کرنا

امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّ‌بو‌ٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ…٢٧٥ ﴾28میں اُن لوگوں کی ہفوات کا ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ انسان کے خبطی اور دیوانہ ہونے میں جن کا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ ایسا اس کی کسی طبعی بیماری کے سبب سے ہوتا ہے۔ امام ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں کہ سود خور قیامت کے دن اپنی قبروں سے اس طرح اُٹھیں گے جس طرح شیطان کے اثر سے مخبوط الحواس انسان لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوتا ہے۔29

اس آیت نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ شیطان انسان کو جسمانی نقصان پہنچاتا ہے اور اسے مخبوط الحواس بنا دیتا ہے اور انسان دیوانوں کی طرح بے تُکی باتیں اور حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خبط اور مرگی صرف شیطان کے چھونے سے ہی ہوتی ہے۔ امام بخاری اپنی صحیح میں یہ عنوان (اس شخص کی فضیلت جو رِیح کی وجہ سے لڑکھڑاتا ہوا گرجاتا اور بے ہوش ہوجاتا ہے) قائم کرکے اس سیاہ فام عورت کا قصّہ بیان کرتے ہیں

جو حضرت نبی کریمﷺکےپاس آئی اور درخواست کرنےلگی کہ اے اللّٰہ کے پیارے رسولﷺ!میں بے ہوش ہوکر گرپڑتی ہوں او ربے پردہ ہوجاتی ہوں ، لہٰذا میرے لئے اللّٰہ سے دعا کیجئے ،آپﷺ نے فرمایا: اگر تو صبر کرے تو تیرے لیے جنت ہے اگر تو چاہے میں دعا کردیتا ہوں۔ اس نےکہا: میں صبر کرتی ہوں، البتہ یہ دعا ضرور کریں کہ میں بے پردہ نہ ہوں، تو آپﷺ نے دعا فرما دی۔30

امام ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ بسا اوقات ہوا کا بدن کے کسی حصے میں رُک جانا بھی مرگی کا سبب بن جاتا ہے۔ اور وہ اعضاے رئیسہ کو اپنے افعال مکمل طور پر سرانجام دینے سے روک دیتا ہے اور بسا اوقات اس سے اعضاے انسانی میں تشنج ہوجاتا ہے اور انسان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا بلکہ وہ گر پڑتا ہے اور گاڑھی رطوبات کی وجہ سے اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگتا ہے ۔31

دماغ اور اعصاب کی بیماریوں پر جدید طبّی تحقیقات نے مرگی کے بہت سے اسباب بھی دریافت کرلیے ہیں۔ان میں سے ایک سبب دماغ کی برقی رو کا درہم برہم ہونا بھی ہے اور دماغی نظام کی خرابی، اعضاے بدن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے،چنانچہ اب اس مرض کا تدارک کرنے کے لئے ایسی اَدویات بھی تیار ہوچکی ہیں جو باذن اللّٰہ شفا کا مؤثر ذریعہ ہیں۔

امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ مرگی کی دو قسمیں ہیں:

ایک تو خبیث زمینی اَرواح (شیاطین )کے اثر سےہوتی ہے۔اور دوسری خراب خلطوں (مثلاً صفرا، بلغم، خون ، سوداء) کی وجہ سے ہوتی ہے ،طبیب حضرات اس دوسری قسم کی تشخیص کرکے اس کا علاج کرتے ہیں اور خبیث اَرواح کے سپیشلسٹ اور عقلا ان کے اثرات کو مانتے ہیں او راس کا دفاع نہیں کرتے۔32

دیارِ سعودیہ کےمفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز سے پوچھا گیا کہ بعض عاملین اپنے گمان میں خبطی شخص سے جن کو بھگانے کے لئے اُسے باندھ کر اس کا گلا دبا کر زدوکوب کرتے ہیں… کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اُنہوں نےجواب دیا کہ بعض عامل ایسا کرتے ہیں ،لیکن درحقیقت ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے بسا اوقات مریض پر ظلم ہوتا اور اسے بلا وجہ تکلیف پہنچتی ہے۔ اور امام ابن تیمیہ جیسےبعض ائمہ سے ایسے مخبوط الحواس کو مارنا محل نظر ہے ،کیونکہ ایسا کرنے سے مصروع مریض مر بھی سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مشروع اور معروف طریقہ یہی ہے کہ آیات اور ادعیہ مسنونہ پڑھ کر دم کردیا جائے۔ رسولِ کریمﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام فقط اتنا ہی کرتے تھےاور اُن کےپہاڑوں جیسے وزنی یقین او رایمان کی بدولت مصروع (مرگی کا مریض) مریض شفا یاب ہوجاتے تھے۔33

یہاں ایک لطیفہ درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بصیرپور ضلع اوکاڑا کے علاقہ میں ایک عورت کو ایک عامل کے پاس اُس سے جن کو بھگانے کے لئے لایا گیا تو اس عامل نے چھری سے زمین پر چاروں طرف دائرہ لگا کر چھری زمین میں گھونپ دی او راپنے عملیات پڑھتے ہی بھولی بھالی عورت کےمنہ پر زور دار تھپڑ رسید کرکے پوچھا: بتا تو کون ہے او رکہاں سے آیا ہے؟ اس پر وہ عورت رو رو کر اپنی مادری پنجابی زبان میں بولی کہ جی میں پھلّاں تولی دی پاولیانی آں (میں قریبی گاؤں پھلاں تولی کی جولاہی ہوں) یہ سن کر وہ عامل شرمندہ ہوا اور کہا کہ اسے کسی ڈاکٹر کےپاس لے جاؤ۔ یہ تو بے چاری کسی بیماری کی وجہ سے مخبوط الحواس ہوجاتی ہے۔

غرض مصروع کو مار کر یا اس کوتڑی لگا کر اس کا علاج کرنا درست نہیں خصوصاً ان عورتوں کو جو ہسٹریا(اختناق الرحم)کےمرض کی وجہ سے اعصابی اور نفسیاتی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں اور وہ اس حالت میں احساس کی تمام انواع مثلاً سردی ، گرمی ، زدوکوب کی چوٹوں کا درد محسوس نہیں کرتیں اور بعض مریض خواتین تو اپنے کپڑے پھاڑ اور اپنابدن نوچ کر زخمی کرلیتی ہیں اور عامل یہ سمجھتا ہے کہ اسے جن کا سایہ ہے۔ حالانکہ ایسی مریضہ ایک سکون آور انجکشن سے چند منٹوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے اور ایسا میرے سامنے ہوا کہ میں نے ایک ایسی مریضہ کو دم کیا ،اسے افاقہ نہ ہوا تو دوسرے بدعتی عامل نے اسےمارنا شروع کردیا ،وہ مارنے سےبھی ٹھیک نہ ہوئی تو ہمارے دوست ڈاکٹر سلیم صاحب نے اسے انجکشن لگایا تو وہ تندرست ہوگئی۔
حوالہ جات

1.صحیح مسلم:۵۷۴۱؛ سنن النسائی الکبریٰ:۷۵۵۶

2.صحیح بخاری:۵۶۷۸؛مسند احمد:۳۵۷۸

3.سنن ترمذی:۲۰۳۸؛سنن ابوداود:۳۸۵۷

4.ا لموافقات ،کتاب الاحکام و العلۃ:١؍١٥۰،دار المعرفۃ، بیروت

5.صید الخاطر،فصل میزان الرجولۃ:ص۳۲۳

6.زاد المعاد:۴؍١٥’فصل الأحادیث التی تحث على التداوی،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت

7.صحیح بخاری:۶۵۴۱ ؛صحیح مسلم:۵۴۷

8.الموافقات:۲؍٥٤٩

9.صحيح بخاری :۵۷۶۹؛ صحيح مسلم:۵۳۳۹

10.مسند احمد:۱۷۴۵۸

11.السلسلۃ الصحیحۃ:١٦٣٣

12.فتاویٰ ابن تیمیہ:18؍12

13.الشرح الممتع از شیخ محمد بن صالح العثیمین: 5؍201

14.الشرح الممتع : 5؍302

15.جریدہ ‘الریاض’: شمارہ 9566

16.زاد المسیر از ابن جوزی: ۵؍ ٧٩

17.الجواب الکافی از ابن قیم:۱؍ ٣

18.صحیح بخاری:۶۸۷

19.سنن ابو داود:۳۴۲۰

20.جرید ۃ الریاض: مؤرخہ 10؍شوال المعظم1421ھ

21.صحیح بخاری:۲۶۹۷

22.جریدۃالریاض: 2؍شعبان 1417ھ

23.مجلّۃ الدعوۃ: 16؍ذو القعدۃ1419ھ

24.فتاویٰ اللجنة الدائمة : رقم 20361

25.صحیح بخاری:۵۷۴۰

26.سنن ترمذی: ۲۰۶۱،۲۰۶۲

27.فتح الباری:۱؍203

28.تفسير قرطبی،سورۃالبقرۃ :275

29.تفسير ابن كثير،سورۃالبقرۃ :275

30.صحیح بخاری:۵۶۵۲

31.فتح الباری:1؍114

32.زاد المعاد:4؍66،مکتبۃ المنار،کویت