زندگی کی قدر کرو:از:قاری محمد اکرام

ایمان والوں کو خطاب کر کے فرمایا تم غور کر لو۔ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کے لئے کیا بھیجا ؟ جو شخص جو بھی کوئی عمل کرلے گا اس کا بدلہ پالے گا اگر نیکیاں بھیجی ہیں اور کم بھیجی ہیں تو اصول کے مطابق ان کا ثواب مل جائے گا اور اگر نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے تو ان کا ثواب بھی خوب زیادہ ملے گا، جو گناہ بھیجے ہیں وہ وبال ہوں گے۔ عذاب بھگتنے کا ذریعہ بنیں گے۔ انسان اس دنیا میں آیا کھایا پیا اور یہیں چھوڑا ، یہ کوئی کامیاب زندگی نہ ہوئی۔ اعمالِ صالحہ جتنے بھی ہو جائیں اور اموال طیبہ جتنے بھی اﷲ کے لئے خرچ ہو جائیں اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ فرائض اور واجبات کی ادائیگی کے بعد ذکرِ تلاوت ، عبادت، سخاوت جتنی بھی ہو سکے کرتا رہے اپنی زندگی کو گناہوں میں لا یعنی کاموں میں برباد نہ کرے ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں یوں کہوں سُبْحَانَ اﷲِ والْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲوَ اﷲُ اَکْبَرْتو مجھے یہ ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی زندگی کے ہر منٹ اور ہر سیکنڈ کو یادِ خدا میں لگائے رکھے اور زندگی کے ان سانسوں کی قدر کر ے اور ان کو اپنی آخرت کی زندگی سُدھارنے کے لئے صَرف کرے، جو لوگ اپنی مجلسوں کو بیکار باتوں اور اشتہاری خرافات اور اخباری کذبات میں صَرف کر دیتے ہیں اور اﷲ یاد سے غافل رہتے ہیں یہ مجلسیں ان کیلئے سراسر خسران اور گھاٹے کے اسباب ہیں۔
عمر انسان کے پاس ایک پونجی ہے جس کو لے کر دنیا کے بازار میں تجارت کرنے کے لئے آتا ہے جہاں دوزخ یا جنت کے ٹکٹ خریدے جاتے ہیں اور ہر دن اور رات اور گھنٹہ اور منٹ اسی عمر کی پونجی کے اجزاء اور ٹکڑے ہیں جو ہر گھڑی انسا ن کے پاس سے جدا ہوتے جا رہے ہیں کوئی اس کے بدلہ جنت کا پروانہ (عملِ صالح)خریدتا ہے ، اور کوئی دوزخ کا پروانہ (بُرا عمل)خرید لیتا ہے ، افسوس ہے اس شخص پر جس کی پونجی اس کی ہلاکت کا سبب بنے ، وہاں جب نیکیوں کا اجرو ثواب ملنا شروع ہو گا تو آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی اور افسوس ہو گا کہ ہائے ہائے ہم نے یہ عمل نہ کیا اور وہ عمل نہ کیا، حسد اور افسوس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا لہٰذا جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر لیں اور یہیں کر لیں ۔
ارشادِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ جس رات مجھ کو سیر کرائی گئی(یعنی معراج کی رات )میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ اے محمد!(صلی اﷲ علیہ وسلم)اپنی امت کو میرا سلام کہہ دیجیؤ اور ان کو بتلا دیجیؤکہ جنت کی اچھی مٹی ہے اور میٹھا پانی ہے اور وہ چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے یہ ہیں ۔
سُبْحَانَ اﷲِ والْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲوَ اﷲُ اَکْبَرْ(مشکوٰۃ)
عمرو بن میمون اودی سے مروی ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔پانچ حالتوں کو دوسر ی پانچ حالتو ں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے وہ اٹھا لو، غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے ، اور غنیمت جانوتندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے ، اور غنیمت جانو خوش حالی اور فراغ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے ، اور غنیمت جانو فرصت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور غنیمت جانو زندگی کو موت سے پہلے (جامع ترمذی)
مطلب یہ ہے کہ انسان کے حالات ہمشہ یکساں نہیں رہتے ، اس لئے اس کو چاہیے ، کہ جب اﷲ تعالیٰ اسے کچھ عمل کرنے کے قابل اچھی اور اطمینا ن کی حالت نصیب فرمائے، تو اس کو غنیمت اور پروردگار کی طرف سے ملی ہوئی نعمت سمجھے ، اور اﷲ کی رضا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جو کچھ کر سکتا ہو کر لے،کیا خبر ہے کہ آئندہ کر سکنے کے قابل رہے گا، یا نہیں ۔اگر جوانی کی قوت ملی ہوئی ہے تو بڑھاپے کی کمزوریوں اور معذوریوں کے آنے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھا لے ، اگر تندرست و توانا ہے تو بیماری کی مجبوریوں سے پہلے اس سے کام لے لے، اگر خوش حالی اور مالی وسعت اﷲ نے نصیب فرمائی ہے تو افلاس اور محتاجی آنے سے پہلے اس سے فائدہ حاصل کر لے، اور اگر کوئی فرصت ملی ہوئی ہے تو مشغولیت اور پریشان حالی کے دن آنے سے پہلے اس کی قدر کر لے اور کام لے لے، اور زندگی کے بعد بہرحال موت ہے جو ہر قسم کے اعمال کا خاتمہ کر دینے والی ہے اور اس کے ساتھ توبہ و استغفار کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے ، اس لئے زندگی کے ہر لمحہ کو غنیمت اور خداداد فرصت سمجھے ، اور اس سے فائدہ اٹھانے میں غفلت نہ کرے ۔