ایمان کی اہمیت


اہم مضامین
ایمان کی اہمیت*حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ
توحیدکی حقیقت*حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ
محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)*حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ
مذہب و عقلیات*حضرت مولانا عبدالباری ندویؒ
قوتِ ایمانیہ و ظہورِ غیب*حضرت ڈاکٹر میر ولی الدینؒ
دفاعِ صحابہؓ کیوں ضروری ہے*مولانا رب نواز طاہر
شیعہ کی چالیس کفریہ عبارات*مولانا عطاء الرحمٰن شہباز مدنی صاحبؒ
عقائدِ اہل السنۃ و الجماعۃ*مولانا محمد الیاس گھمّن صاحب
آئینۂ ایمان*مولانا مفتی سید مختار الدین صاحب
ضروریاتِ دین*مولانا سیدمحمد یوسف صاحب بنوریؒ
اہل سنت و الجماعت کی خصوصیات*شیخ ناصر بن عبد الکریم العقل

ایمان کی اہمیت
حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ

جماعتوں کی تنظیم کسی ذہنی اساسِ ملت اور بنیادِ عمل سے ہوتی ہے!
دنیا کی وہ تمام عظیم الشان قومیں جنہوں نے دنیا میں کوئی بڑا کام کیا ہے یا جو دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے پورے نظامِ ہستی کو کسی ایک قانون پر مبنی کریں اور اپنی تمام منتشر قوتوں کو کسی ایک اصول کے تحت مجتمع کریں، زندگی کے سینکڑوں شعبے اور بقائے ہستی اور ترقی کے ہزارہا شاخ در شاخ اعمال جو دیکھنے میں تمام تر منتشر، پراگندہ، متفرق اور ایک دوسرے سے الگ نظر آتے ہیں، ان سب کے درمیان ایک واحد نظام، ایک متحدہ اصول اور ایک مشترکہ جامعیت پیدا کریں، جن کا شیرازہ ان متفرق و پراگندہ اوراق کو ایک منظم کتاب بنادے۔
دنیا جب سے بنی ہے تب سے آج تک ہزارہا قومیں پیدا ہوئیں اور مریں؛ لیکن کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک کہ اس کے اندر اس کی زندگی کا کوئی واحد نظام نہیں پیدا ہوا، اور کسی واحد متخیلہ نے ان کے اندر یہ اہمیت نہیں پیدا کرلی ہے کہ وہ اس کے تمام افراد کی زندگی کی غرض و غایت اور اس کے تمام اعمال کا مرکز و مرجع اور جہت و قبلہ نہ بن گیا ہو، وہی واحد متخیلہ بڑھ کر واحد جماعت اور اس سے بھی زیادہ پھیل کر ایک واحد ملت کی تخلیق و تکوین کرتا ہے۔
ہم اس کو ایک مثال میں سمجھانا چاہتے ہیں، روم کی سلطنت کا آغاز گاؤں سے ہوا اور رفتہ رفتہ یہ نقطہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ صدیق میں ایک عظیم الشان سلطنت بن گئی، اس دائرہ کا نقطۂ خیال، مرکزِ اتحاد، جہتِ اشتراک، اساسِ جامعیت، رومیت قرار پائی، جس نے رومیت کے اصول کو تسلیم کیا اس کو شہرِ روم کے باشندوں کے حقوق عطا ہوئے اور جس نے قبول نہ کیا یا جس کو یہ شرف خود رومیوں نے عطا نہیں کیا وہ ان حقوق سے محروم رہا، صدیوں تک یہ رومیت رومی قوم کی زندگی کا شعلۂ حیات رہی اور اس کی روشنی سے پورا رومن امپائر اسپین سے لے کر شام تک جگمگاتا رہا، مگر جیسے جیسے یہ روشنی ماند پڑتی گئی اندھیرا چھاتا گیا اور جیسےسے رومی عمارت کی یہ مستحکم بنیاد کمزور پڑتی گئی ڈہتی گئی، یہاں تک کہ ایک دن یہ عمارت گر کر زمین کے برابر ہوگئی۔
الغرض قوموں کی موت و حیات کسی ایک ’’متخیلہ‘‘ کی موت و حیات پر موقوف ہے، جس کی زندگی سے زندگی اور جس کی موت سے موت ہے، گذشتہ جنگ میں اور اس جنگ میں بھی آپ سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ انگریز، جرمن یا جرمن انگریز سے لڑ رہے ہیں، نہیں!انگریزیت جرمنیت سے یا جرمنیت انگریزیت سے لڑ رہی تھی اور لڑ رہی ہے، قوم قوم سے نہیں لڑ رہی ہے بلکہ ایک یقینی تخیل دوسرے یقینی تخیل سے لڑتا ہے۔
قوم کی زندگی کا وہ یقینی تخیل اس کے تمام کاموں کی اساس و بنیاد بن جاتا ہے، پوری قوم اور قوم کے تمام افراد اس ایک نقطہ پر جمع ہوجاتے ہیں، وہ نقطۂ ماسکہ ان کی پوری زندگی کا محور بن جاتا ہے، اسی ایک تخیل کا رشتہ منتشر افراد کو بھائی بھائی بناکر ایک قوم کے مشترکہ افراد ترتیب دیتا ہے اور ایک واحد، متحد، منظم اور قوی قوم بناکر کھڑا کردیتا ہے۔
جب کبھی دو قوموں کا مقابلہ ہوگا تو ہمیشہ اس کو فتح ہوگی جس کا نقطۂ تخیل زبردست ہوگا اور جس کے افراد اس رشتۂ حیات میں سب سے زیادہ مستحکم بندھے ہوں گے اور جو اس مشترک اساس و بنیاد پر سب سے زیادہ متفق و متحد ہوں گے، عربوں نے اسی قوت سے قیصر و کسریٰ کو شکستِ فاش دی، عربوں کے پاس ایرانیوں کے خزانے اور نہ رومیوں کے اسلحہ تھے، مگر ان کے پاس وہ قوتِ ایمانی تھی جس سے ایرانی اور رومی محروم تھے۔
جب کوئی قوم تنزّل پذیر ہوتی ہے تو اس کی وہی قوتِ ایمانی کمزور ہوجاتی ہے، اس کی وہی مشترک اساس و بنیاد منہدم ہونے لگتی ہے اور قوم کی زندگی کا مقصد اس مشترکہ قومی غرض و غایت سے ہٹ کر اپنے اپنے نفس، اپنے اپنے خاندان، اپنی اپنی جماعت میں بٹ جاتا ہے، اس لئے اس میں قومی خائن پیدا ہوتے ہیں جن کے پیشِ نظر اس مشترکہ جامعیت کے فوائد و نقصانات کے بجائے خود اپنی ذات و خاندان کا فائدہ و نقصان ہوتا ہے۔
مٹھی بھر انگریزوں نے ہندوستان کے روپئے سے اور ہندوستان ہی کے سپاہیوں سے خود ہندوستان کو فتح کیا، حالانکہ اس وقت پورے ملک میں اودھ، روہیل کھنڈ، بنگال، مرہٹہ، میسور اور حیدرآباد کی ایسی عظیم الشان طاقتیں تھیں جن کے بس میں تھا کہ انگریزوں کو پوری طرح شکست دے دیں، مگر ایسا نہ ہوسکا، اس لئے کہ انگریزوں کے سامنے ایک متحدہ و مشترکہ تخیل تھا جس پر پوری قوم متفق تھی، جو انگریز جہاں بھی تھا چاہے وہ سپاہی ہو، یا گودام کا کلرک ہو، یا سوداگر ہو، یا ڈاکٹر ہو، یا جنرل ہو یا گورنر ہو ہر ایک کے سامنے ایک ہی بلند مقصد تھا اور وہ انگلستان کی سربلندی اور عظمت، لیکن ہندوستانیوں کے سامنے باوجود طاقت و قوت کے کوئی ایک متحدہ غرض، مشترکہ جامعیت، واحد اساسِ کار اور متفقہ بنیادِ عمل نہ تھی جس کا بچاؤ، جس کی حفاظت اور جس کا اِعلاء پوری قوم کی غرض و غایت اور بنیاد و اساس ہوتی، ہر نواب، ہر رئیس، ہر سپہ سالار، ہر سپاہی اور ہر نوکر کا مقصد اپنی فکر اور اپنی ترقی تھی، اس حالت میں نتیجہ معلوم۔
اب ایک اور حیثیت سے نظر ڈالئے، دنیا کی ہر متمدن قوم کے پورے نظامِ زندگی کا ایک اصل الاصول ہوتا ہے، فرض کرو کہ آج روسی بالشوسٹ کے سارے نظام کا ایک واحد نقطۂ خیال ہے، اور وہ سرمایہ داری کی مخالفت ہے جو اس نظام کی اصل اساس ہے، اب جس قدر اس نظام کی شاخیں، شعبے، صیغے اور کام ہیں سب ایک اصل الاصول یعنی ’’سرمایہ داری کی مخالفت‘‘ پر مبنی ہیں، اسی طرح ہر ترقی یافتہ قوم کے تمدن اور نظامِ ہستی کا ایک اصولی نقطہ ہوتا ہے جس کے تحت میں اس تمدّن اور نظامِ ہستی کے تمام شعبہ اور فروع ہوتے ہیں۔
اسی طرح آج انگریزی جد و جہد کی بنیاد، انگریزی سرمایہ داری، امریکن تمدّن کی بنیاد امریکن سرمایہ داری، نازی تمدّن کی بنیاد جرمن قوم کی سربلندی اور فسست کی بنیاد پرانی رومی قیصریت کی دوبارہ تعمیر پر ہے، اگر کسی تمدّن اور نظام کا یہ سرا نکال دیا جائے تو اس تمدن کے تمام اجزاء اور اس نظام کے تمام شعبے بے معنیٰ، بے سود اور بے اساس ہوکر رہ جائیں، اور چند ہی روز میں وہ تمام سر رشتے تارِ عنکبوت ہوکر نابود ہوجائیں، اسی لئے ہر قومی تمدّن اور نظامِ ملت کو سمجھنے کے لئے اس کے اس اساسِ کار، سر رشتۂ خیال اور اصل الاصول کو سمجھنا چاہئے، جب تک وہ سِرا ہاتھ نہ آئے گا اس نظامِ ملت کا الجھاؤ سلجھ نہیں سکتا۔
ملتوں کا اختلاف متخیلہ کے اختلاف سے ہے
اس نقطہ کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں گو ہزاروں ملتیں اور قومیتیں ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک ملت و قومیت کا اصل انفرادی تشخص اور امتیازی وجود اس کے گوشت پوست، ہڈی اور رنگ و روغن سے نہیں یہ اوپری سطح اور ظاہری قشر پر کے نشانات اور خطوط ہیں، ان کا اصل انفرادی اور مستقل تشخص اور امتیازی وجود ان ایمانیات اور یقینیات سے ہے جو ہر ایک کے دل میں بسے اور ہر ایک کے رگ و ریشہ میں رچے ہوئے ہیں۔
آج ہندوستان میں ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی، جین، سکھ اور ہزاروں قومیں آباد ہیں، شکل و صورت اور رنگ و روپ کے لحاظ سے ان میں کوئی تفاوت نہیں، اگر ہے تو ہر ایک کے اس متخیلہ میں ہے جس سے اس کی ملت کی تعمیر ہوئی ہے، اس لئے کسی ملت کے متخیلہ کو بدل دینے کے معنیٰ اس ملت کو مٹادینے کے مترادف ہے، دنیا میں جو کمزور قومیں فناء ہوئی ہیں ان کی صورت یہی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنا متخیلہ ایمانی چھوڑ کر کسی دوسری طاقتور قوم کے متخیلۂ ایمانی کو قبول کرلیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قوم مٹ گئی اور دوسری قوم میں ضم ہوکر وہ خود فناء ہوگئی، ہندوستان کے یونانی، سیتھین اور بودھ کیا ہوئے؟ ایرین ہندوؤں میں سما گئے، ایران کے مجوسی کدھر گئے؟ مسلمانوں میں مل گئے، مصر کے قبطی کہاں گئے؟ عربوں میں شامل ہوگئے، سسلی اور اسپین کے عرب کیا ہوئے؟ اٹلی اور اسپین والوں میں گھل گئے۔
تجدید کی سعی بھی اسی متخیلہ کی مدد سے ممکن ہے
کسی قوم و ملت کی اس تعمیری حقیقت سے باخبر رہنا صرف اس لئے ضروری نہیں کہ وہ ہے اور وہ اس سے بنی ہے، بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی تجدید و اصلاح کی جب کبھی ضرورت پیش آئے تو اس حقیقت کا واقف اسی کے ذریعہ سے اس کی تجدید و مرمّت کرے، اس کی وہ تعمیری حقیقت وہ ساز ہوتا ہے جس کے چھیڑنے سے اس قومیت و ملت کا ہر تار اپنی جگہ پر حرکت کرنے لگتا ہے، اہلِ توحید کے لئے توحید کی آواز اہلِ صلیب کے لئے صلیب کی پکار، گاؤ پرست کے لئے گاؤ کی آواز سحر و طلسم کا حکم رکھتی ہے، جس سے ایک ایک لمحہ میں قوم کی قوم میں جان پڑ جاتی ہے اور سست و ناکارہ قوم بھی کروٹیں بدلنے لگتی ہے، اور آواز کی طاقت کے مطابق سر گرمِ عمل ہوجاتی ہے۔
فرض کرو دنیا میں آج چالیس کروڑ کی تعداد میں ایک ملت آباد ہے جس کا نام مسلمان ہے، اس ملت کی حقیقت کیا ہے؟ توحیدِ الٰہی اور رسالتِ محمدیؐ پر ایمان، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، اگر کوئی اس ملت کی حقیقتِ تعمیری کو مٹا ڈالے تو یہ چالیس کروڑ ملت واحدہ چالیس کروڑ قومیتوں میں منقسم ہوکر دم کے دم میں فناء ہوجائے گی اور یہ چالیس کروڑ افراد کا کارواں جو ایک صدائے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے جرس پر حرکت کر رہا ہے، اب اس کی حرکت کے لئے مختلف آوازوں کے چالیس کروڑ جرسوں کی ضرورت پیش آئے گی جس سے دنیا کی قوموں کا تصادم بجائے کم ہونے کے حدّ قیاس سے زیادہ بڑھ جائے گا اور ان کے باہمی جنگ و جدول کو کوئی ایک متحدہ آواز روک نہیں سکتی۔
الغرض ملت کی یہ تعمیری حقیقت ہر ملت کی روح ہوتی ہے، اس کی بقاء سے اس کی زندگی اور اس کی موت سے اس کی فناء ہوتی ہے، یہی ملت کے جسم کا گرم خون ہے جس سے رگ رگ میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور سعی و عمل کی قوت بیدار ہوتی ہے۔
کسی قوم کی اس اساسِ ملت اور بنیادِ تعمیر سے ہٹ کر جب کبھی اس تجدید کا کام کیا جائے گا تو وہ ساری کوشش بیکار جائے گی، فرض کرو کہ ایک ہندو قوم ہے اس کی قومیت کی بنیاد وہ خاص تخیلات و جذبات ہیں جو ہزار سال سے اس میں پیدا ہوکر اس کی حقیقت کے اجزاء بن گئے ہیں، ذات پات، چھوت چھات، گائے اور گنگا وہ مسالے ہیں جن سے اس کی قومیت کی تعمیر ہوئی ہے، بودھ کے عہد سے آج تک مختلف وقتوں میں بیسیوں ریفارمر اس قوم میں پیدا ہوئے جنہوں نے اس قوم کی ماہیت کے ان اجزاء کو بدل دینا چاہا، مگر یہ کیا آج تک ممکن ہوا؟ اور جب کبھی اس آواز میں عارضی کامیابی ہوئی تو بودھ، جین، کبیر پنتھی اور سکھ قومیں الگ الگ بن گئیں، مگر ہندو قومیت اپنی جگہ پر قائم رہی۔
مسلمانوں میں اسلامی حکومت کے زوال کے بعد سے آج تک بیسیوں تحریکیں مسلمانوں کی تجدید اور نشأۃ ثانیہ کے نام سے اٹھیں اور پھیلیں، مگر جو کامیابی مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کو حاصل ہوئی اور اس نے مسلمانوں کی ذہنی و عملی قویٰ کو بیدار کرنے میں جو عظیم الشان کام کیا، اس کی صرف یہی وجہ تھی کہ وہ تجدید اسلام کے اصل و اساس، نظامِ حقیقی کو سامنے رکھ کر شروع کی گئی تھی اور اس کے بعد بھی موجودہ زمانہ تک اسی تحریک کو فروغ ہوسکا جو اسی اساسِ ملت کے نام سے پیش کی جاتی رہی، اس کامیابی کا عارضی اور ہنگامی ہونا در اصل خود کارکنوں اور تحریک کے علم برداروں کے عارضی یقین اور ہنگامی ایمان کا نتیجہ ہے۔
ایمان کے بغیر عمل ممکن نہیں!
اب اس تشریح کے بعد اس کے تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہ ہوگا کہ دنیا میں کوئی ترقی یافتہ قوم یا ترقی چاہنے والی قوم ممکن ہی نہیں جس کے پاس چند ایمانیات نہ ہوں یا یوں کہو کہ چند اصولِ کار، اصولِ حیات یا اصولِ نظام نہ ہوں، جن سے اس کی قومیت کی تخلیق ہوتی ہے اور جن سے اس کی ملت و تمدن و حیاتِ اجتماعی کی عمارت قائم ہوتی ہے اور جو اس کے منتشر افراد کے درمیان رشتۂ اشتراک کا کام دیتے ہیں، اور جن کے تحت میں اس قوم کے نظامِ حیات کے تمام شعبے مکمل ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کافر و مشرک قومیں بھی اس سے خالی نہیں، ان کے بھی تمام اعمال و افعال ان کے چند یقینی تخیلات اور عقائد کے تحت ہی میں آجاتے ہیں، اس حالت میں یہ کہنا کہ ایمانیات کے بغیر ترقی کے حسنِ عمل یا انسانیت کی نیکئ کردار کا وجود ہوتا ہے، حقائق سے نامحرمی کا ثبوت ہے، ایمان کے بغیر حسنِ عمل اور نیکئ کردار کیا بلکہ نفسِ عمل اور نفسِ کردار ہی کا وجود ممکن نہیں، اب اگر بحث ہوسکتی ہے تو اس میں نہیں کہ ایمانیات کے بغیر حسنِ عمل اور نیکی کردار کا وجود ہوسکتا ہے یا نہیں؟ بلکہ اس میں کہ ان ایمانیات کے تحت میں حسنِ عمل اور نیکی کردار کا وجود زیادہ بہتر ہوسکتا ہے، یا ان ایمانیاں کے تحت میں؟ لیکن یہ نہیں کوئی کہہ سکتا کہ کسی ’’ایمان‘‘ کے بغیر کوئی عمرل، کسی نظامِ حیات کے بغیر کوئی بلند کارنامۂ حیات اور کسی بنیاد کے بغیر کوئی مستحکم عمارت قائم ہوسکتی ہے، آپ اس کا نام انسانیت رکھیں، قومیت رکھیں، وطنیت رکھیں، بالشوزم رکھیں، بت پرستی رکھیں یا توحید یا خدا شناسی رکھیں، جو چاہے رکھیں اور جو چاہے قرار دیں، بہر حال یہ مقدمہ اپنی جگہ پر مسلَّم ہے کہ ’’ایمان کے بغیر عملِ صالح کا وجود ممکن ہی نہیں‘‘، اب سوال یہ ہے کہ ہمارا وہ اساسی خیال جس پر ہماری ملت کی بنیاد ہو اور جو ہمارے تمام اعمال کا سرچشمہ بنے کیا ہونا چاہئے؟
نسل و وطن کے عقیدہ کی ناکامی!
دنیا کی قوموں نے اساسِ ملت کی بنیاد جغرافیائی حدود اور نسلی خصوصیت کو قرار دیا، رومیوں کی ہزار سالہ حکومت رومی وطنیت کے سہارے پر قائم رہی، ہندوؤں، پارسیوں اور یہودیوں کی قومیت نسلی امتیاز پر مبنی ہے، یورپ کی موجودہ قومیتیں، نسل و وطن کی دوہری دیواروں پر کھڑی ہیں، لیکن خود غور کرو کہ جغرافیائی حدود اور نسلی و وطنی خصوصیات نے قوموں کو کتنا تنگ، محدود خیال اور متعصب بنادیا ہے، دنیا کی اکثر خونریزیاں، لڑائیاں اور قومی منافرتیں انہی جذبات نے پیدا کی ہیں، قدیم تاریخ میں ایران و روم کی صد سالہ جنگ اور خود یورپ کی گذشتہ عالمگیر جنگ جس میں انسانوں نے انسانوں کو درندوں کی طرح چیرا اور پھاڑا، اسی نسلی و وطنی جذبات کی شعلہ افروزی تھی اور آج کا خونی تماشا بھی اسی جذبہ کا نتیجہ ہے۔
یہ نسلی اور وطنی افتراق قوموں کے درمیان و ہ خلیج ہے جس کو انسانوں کے ہاتھ کبھی پاٹ نہیں سکتے، نہ تو فطرۃً کسی نسل و قومیت کا کوئی پیدا شدہ انسان دوسری نسل و قومیت میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ ایک مقام کا پیدا شدہ دوسرے مقام کا پیدا شدہ بن سکتا ہے، نہ کالا گورا بن سکتا ہے، نہ گورا کالا اور نہ فرنگی زنگی بن سکتا ہے، نہ زنگی فرنگی، نہ جرمن کو انگریز بنایا جاسکتا ہے اور نہ انگریز کو جرمن، نہ افغانی ہندوستانی بن سکتا ہے اور نہ ہندوستانی افغانی، آج پولینڈ کے کھنڈروں سے لے کر رومانیا کے روغنی چشموں تک جو زمین خون سے لالہ زار ہے اس کا سینہ کیا اسی نسلی و وطنی خونخواریوں سے داغ دار نہیں؟
غرض نسل و وطن کے دائرے اس مضبوطی سے فطرۃً محدود ہیں کہ ان کے اندر تمام دنیا تو کیا، چند قوموں کے سمانے کی بھی وسعت نہیں ہے، ان دونوں کے جذبات و احساسات صرف ایک مختصر و محدود قوم کی جامعیت کا کام دے سکتے ہیں، کسی عالمگیر امن و صلح اور انسانی اخوّت و برادری کی بنیاد اس پر رکھی ہی نہیں جاسکتی۔
پھر ان دونوں محدود تصورات کے ذریعہ سے اگر انسانوں میں کچھ شریفانہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں تو وہ انہی تنگ جغرافیائی اور نسلی دائروں تک محدود رہیں گے اور کبھی تمام دنیا کے اس کے اندر سماجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں ان اساسی تصورت کے ذریعہ جن بلند انسانی اخلاق اور کیرکٹر کا پیدا کرنا مقصود ہے، ان میں سے صرف نسل و وطن کی حفاظت کی خاطر شجاعت، ایثار و قربانی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں ،مگر عمومی نیکی، تواضع، خاکساری، رحم و شفقت، عفت و عصمت، صدق اور امانت و دیانت وغیرہ سینکڑوں ایجابی اور سلبی اخلاق ہیں جو ان کے ذریعہ نہ کبھی پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔
آج کل یورپ کی تمام جنگ و جدل اور باہمی ہنگامہ آرائی اور تقابل کا وہ پتھر جس سے ان کی دولت اور تہذیب و تمدن کا شیشہ چور چور ہو رہا ہے یہی تنگ و محدود وطنیت و قومیت کا عقیدہ ہے، یہ وہ دیوتا ہے جس پر یورپ کی تمام قومیں بھینٹ چڑھ رہی ہیں، ہر قوم کے تمام دولت مندوں کی دولتیں، تمام عالموں کا علم، تمام سائنس والوں کی سائنس، تمام صنّاعوں کی صنعتیں، تمام موجدوں کی ایجادیں، اپنی قوم کے سواء دنیا کی دوسری انسانی قوموں کی گرفتاری، محکومی، بربادی اور ہلاکت میں صرف ہورہی ہیں۔
آج نازازم اور فسزم کا دور ہے، جس نے ایک بدترین مذہب کی صورت اختیار کرلی ہے، جس میں ہر قسم کی حیوانی قوّت کی نمائش، ہر قسم کی ہلاکت اور انسانی بربادی کا مہیب ترین منظر اور قوت کے دیوتا کے سامنے ہر اخلاقی اور قانونی آئین کی قربانی کا تماشا سب کے سامنے ہے، یہ جو کچھ ہے یہ وہی قومیت اور وطنیت کی خونخوارانہ بُت پرستی کا عبرتناک نظارہ ہے، جس سے نوعِ انسانی کی کسی بھلائی کی توقع نہیں ہوسکتی۔
اقتصادی عقیدہ کا فریب:
سوشلزم اور بالشوزم اور دوسرے اقتصادی خیالات سے بھی بھلائی کی توقع نہیں کہ اس نے خود انسانوں کو سرمایہ دار و غیر سرمایہ دار دو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے وہ سب کچھ کیا ہے اور کرنا چاہتی ہے جو کبھی کسی مذہب اور مذہبی محکمۂ تفتیش نے انجام دیا ہے، قوموں کے ساتھ ان کی ناانصافی کا تماشا آج بھی دنیا ترکستان سے لے کر فین لینڈ تک دیکھ رہی ہے، اگر زبردستی کوئی بری چیز ہے تو مذہب سے زبردستی روکنا بھی اتنی ہی بری چیز ہے جتنا زبردستی سے کسی مذہب کو پھیلانا، اگر مسلمانوں کا گرجاؤں کا توڑنا اور عیسائیوں کا مسجدوں کا منہدم کرنا ناجائزہے تو ملحدوں کا ان دونوں کو مسمار کرنا بھی ناجائز ہے۔
پھر ان تخیلات میں جن کی بنیاد محض پیٹ اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہے، کسی اخلاقی نصب العین بننے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے، اسی لئے ان کا محدود اقتصادی نظریہ پورے نظامِ ہستی اور نظامِ زندگی کا معمہ حل نہیں کرسکتا۔
ان سب کے ماوراء یہ ہے کہ ضرورت تو یہ ہے کہ نسلیت و وطنیت کے تنگ دائروں سے نکل کر جس عمومی تصور کو اساسِ ملت بنایا جائے، ان میں بقاء اور دوام کی صلاحیت ہو، سوسائیٹیاں اور جماعتیں جن کی بنیاد کسی مادّی خود غرضی اور منفعت اندوزی پر رکھی جائے وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں، چنانچہ جب سے دنیا بنی ہے خدا جانے مادّی اغراض کی بناء پر کتنی جماعتی اور مجلسیں قائم ہوئیں اور مٹ گئیں، انجمنیں روز بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں، اور سوسائیٹیاں روز پیدا ہوتی ہیں اور مرتی ہیں، ایسی ناپائیدار اور سطحی چیزیں جامعیتِ ملت کی بنیاد اور اساس نہیں بن سکتیں اور نہ وہ ہمارے نظامِ حیات کا اصول اور معیار قرار پاسکتی ہیں۔
صحیح ایمان کی ضروری خصوصیات:
غرض عالمگیر اور دائمی اساسِ ملت اور صحیح بنیادِ عمل بننے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اساس و بنیاد قرار دی جائے اس میں حسبِ ذیل خصوصیتیں ہوں:
(۱) وہ کوئی مادّی غرض و غایت کی چیز نہ ہو جو ہمیشہ بدل جاتی رہے۔
(۲) وہ کوئی محدود وطنی، نسلی بُت نہ ہو جو اپنے نسل و وطن سے باہر جاکر زندہ نہ رہ سکے۔
(۳) وہ قومی، نسلی اور وطنی منافرتوں اور تفرقوں کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ کر عالمگیر اتحاد اور اخوت کی بنیاد ڈال سکے۔
(۴) وہ تخیل عقیدہ بنکر ہمارے نیک افعال کا محرّک اور بُرے افعال کا مانع بنے، وہ انسانوں کو نیکی کے لئے اُبھارے اور برائی سے روک سکے۔
(۵) وہ ایک ایسا دائمی صحیح اور سچا عقیدہ ہو جس کو مان کر اس برادری میں داخل ہونے میں کسی کو دقت نہ ہو۔
(۶) وہ ایک طرف اپنے بندوں اور اپنے خالق کے ساتھ گرویدگی اور بندگی کا تعلق پیدا کرے اور دوسری طرف اپنی ہم جنس مخلوقات کےساتھ محبت اور ادائے حقوق کا جذبہ پیدا کرے۔
اسلام میں عقائد کی حقیقت اور اہمیت:
ان چند عقلی مبادی کے ثبوت کے بعد اب آئیے اسلام کے اصول عقائد و مبادی کا جائزہ لیں، اسلام میں جس حقیقت کو عقائد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ در حقیقت یہی چند ذہنی اصول و مبادی ہیں جو جماعت کا کریڈ اور تمام انسانی افکار و خیالات کی بنیاد و اساس ہیں، ان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات اسی محور کے گرد چکر کھاتے ہیں، یہی وہ نقطہ ہے جس سے انسانی عمل کا ہرخط نکلتا ہے اور اس کے دائرۂ حیات کا ہر خط اسی پر جاکر ختم ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے تمام افعال اور حرکات ہمارے ارادہ کے تابع ہیں، ہمارے ارادہ کا محرک ہمارے خیلات اور جذبات ہیں، اور ہمارے خیالات اور جذبات پر ہمارے اندرونی عقائد حکومت کرتے ہیں، عام بول میں انہیں چیزوں کی تعبیر ہم ’’دل‘‘ کے لفظ سے کرےت ہیں، اسلام کے معلم نے بتایا کہ انسان کے تمام اعضاء میں اس کا دل ہی نیکی اور بدی کا گھر ہے، فرمایا:
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان)
انسان کے بدن میں گوشت کا ٹکڑا ہے جو اگر درست ہے تو تمام بدن درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو تمام بدن بگڑ گیا، ہاں وہ ٹکڑا دل ہے۔
قرآن پاک نے دل (قلب) کی تین کیفیتیں بیان کی ہیں، سب سے پہلے قلبِ سلیم (سلامت رَو دل) ہے، جو ہر گناہ سے پاک رہ کر بالطبع نجات اور سلامت روی کے راستہ پر چلتا ہے، دوسرا اس کے مقابل میں قلبِ اثیم (گنہگار دل) ہے، یہ وہ ہے جو ہمیشہ گناہوں کی راہ اختیار کرتا ہے، اور تیسرا قلبِ منیب (رجوع ہونے والا دل) ہے، یہ وہ ہے جو اگر کبھی بھٹکتا اور بے راہ بھی ہوتا ہے تو فوراً نیکی اور حق کی طرف رجوع ہوجاتا ہے۔
غرض یہ سب نیرنگیاں اسی ایک بے رنگ ہستی کی ہیں جس کا نام دل ہے، ہمارے اعمال کا ہر محرم ہمارے اسی دل کا ارادہ اور نیت ہے، اسی بھاپ کی طاقت سے اس مشین کا ہر پُرزہ چلتا اور حرکت کرتا ہے، اسی لئے آپؐ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔ (صحیح بخاری:آغازِ کتاب) تمام کاموں کا مدار نیت پر ہے۔

وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔(صحیح بخاری:آغازِ کتاب)
ہر شخص کے کام کا ثمرہ وہی ہے جس کی وہ نیت کرے، پس جس کی ہجرت کی غرض دنیا کا حصول یا کسی عورت سے نکاح کرنا ہے تو اس کی ہجرت اس کے لئے ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی (یعنی اس سے اس کو ثواب حاصل نہ ہوگا)۔
آج کل علمِ نفسیات نے بھی اس مسئلہ کو بداہۃً ثابت کردیا ہے کہ انسان کی عملی اصلاح کے لئے اس کی قلبی اور دماغی اصلاح مقدم ہے اور انسان کے دل اور ارادہ پر اگر کوئی چیز حکمران ہے تو وہ اس کا عقیدہ ہے، صحیح اور صالح عمل کے لئے ضروری یہ ہے کہ چند صحیح اصول و مقدمات کا ہم اس طرح تصور کریں کہ وہ دل کا غیر مشکوک یقین اور غیر متزلزل عقیدہ بن جائیں اور اسی صحیح یقین اور مستحکم عقیدہ کے تحت میں ہم اپنے تمام کام انجام دیں۔
جس طرح اقلیدس کی کوئی شکل چند اصولِ موضوعہ اور اصول متعارفہ کے مانے بغیر نہ بن سکتی ہے اور نہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح انسان کا کوئی عمل صحیح اور درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے لئے بھی چند مبادی اور چند اصول موضوعہ ہم پہلے تسلیم نہ کرلیں جن کو ہم عقیدہ کہتے ہیں۔
بظاہر عقل ہمارے ہر کام کے لئے ہم کو رہنما نظر آتی ہے، لیکن غور سے دیکھئے کہ ہماری عقل ابھی آزاد نہیں، وہ ہمارے دلی یقین، ذہنی رجحانات اور اندرونی جذبات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اسی لئے اس پا بہ زنجیر عقل کے ذریعہ ہم اپنے دلی خیالات، ذہنی رجحانات اور اندرونی جذبات پر قابو نہیں پاسکتے، اگر پاسکتے ہیں تو اپنی صحیح دلی یقینیات اور چند مضبوط دماغی و ذہنی تصورات کے ذریعہ، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے ’’ایمان‘‘ کا ذکر ہمیشہ عملِ صالح کے ذکر سے پہلے لازمی طور پر کیا ہے، اور ایمان کے بغیر کسی عمل کو قبولیت کے قابل نہیں سمجھا ہے کہ ایمان کے عدم سے دل کے ارادہ اور خصوصاً اس مخلصانہ ارادہ کا بھی عدم ہوجاتا ہے جس پر حسنِ عمل کا دار و مدار ہے، عبد اللہ بن جدعان ایک قریشی تھا، اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ ’’یا رسول اللہؐ! عبداللہ بن جدعان نے جاہلیت میں جو نیکی کے کام کئے ان کا ثواب اس کو ملے گا؟ آپؐ نےفرمایا: نہیں اے عائشہ! کیونکہ کسی دن اس نے یہ نہیں کہا کہ بارِ الہا! میرے گناہوں کو قیامت میں بخش دے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، غزوات قلمی نسخہ دار المصنفین، ابن حنبل:۶،۱۴۹، مطبوعہ مصر)
بدر کی لڑائی کے موقع پر ایک مشرک نے جس کی بہادری کی بڑی دھوم تھی حاضر ہوکر کہا: اے محمدؐ! میں بھی تمہاری طرف سے لڑنے کے لئے چلنا چاہتا ہوں کہ مجھے بھی غنیمت کا کچھ مال ہاتھ آئے، آپؐ نےفرمایا: کیا تم اللہ عزّ و جل اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں! فرمایا: واپس چلے جاؤ! کہ میں اہلِ شرک سے مدد کا خواستگار نہیں‘‘ دوسری دفعہ وہ پھر آیا اور وہی پہلی درخواست پیش کی، مسلمانوں کو اس کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے اس کی اس درخواست پر خوشی ہوئی اور وہ دل سے چاہتے تھے کہ وہ ان کی فوج میں شریک ہوجائے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پھر وہی سوال کیا: ’’کیا تم کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ہے؟‘‘ اس نے پھر نفی میں جواب دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا: ’’میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا‘‘، غالباً مسلمانوں کی تعداد کی کمی اور اس کی بہادری کے باوجود اس سے آپؐ کی بے نیازی کی اس کیفیت نے اس کے دل پر اثر کیا، تیسری دفعہ جب اس نے اپنی درخواست پیش کی اور آپؐ نے فرمایا: ’’تم کو خدا اور رسولؐ پر ایمان ہے؟‘‘ تو اس نے اثبات میں جواب دیا، تو اسلامی فوج میں ایک مجاہد کی حیثیت سےاس کو داخل ہونے کی اجازت ملی، (صحیح مسلم:۲،۱۰۶، مطبوعہ مصر) اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ جماعت میں داخل ہونے کے لئے اس کے کریڈ اور عقیدہ کو تسلیم کرنا اس جماعت کی مضبوطی کی سب سے پہلی شناخت ہے۔
غرض اسلام کے نقطۂ نگاہ سے بھی ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے فقدان سے ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی، کیونکہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی اثر و فائدے سے خالی اور بے نتیجہ ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول ہمارے اعمال کی غرض و غایت ہے، یہ نہ ہو تو ہمارے تمام کام بے نظام اور بے مقصد ہوکر رہ جائیں، وہ ہمارے دل کا نور ہے، وہ نہ ہو تو پوری زندگی تیرہ و تاریک نظر آئے اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ریاء، نمائش، جاہ پسندی، خود غرضی اور شہرت طلبی وغیرہ کے دنی جذبات اور پست محرکات کے سواء کچھ اور نہ رہ جائے۔
ایمان کے اجزاء:
اسلام نے چونکہ علم و عمل، تصور اور فعل، عقلیت اور عملیت میں لزوم ثابت کیا ہے اور عقائد کے اتنے ہی حصہ کا یقین و اقرار ضروری قرار دیا جو عمل کی بنیا اور اخلاق و عبادات کی اساس قرار پاسکے اور دل کی اصلاح و تزکیہ میں کام آسکے، اور اسی لئے اس نے عقائد کے فلسفیانہ الجھاؤ اور تصوّرات و نظریات کی تشریح و تفصیل کرکے عملیت کو برباد نہیں کیا، چند سیدھے سادے اصول ہیں جو تمام ذہنی سچائیوں اور واقعی حقیقتوں کا جوہر اور خلاصہ ہیں اور انہی پر یقین کرنے کا نام ایمان ہے، اور صریح الفاظ میں اس ایمان کے صرف پانچ اصول تقلین کئے: (۱) خدا پر ایمان، (۲) خدا کے فرشتوں پر ایمان، (۳) خدا کے رسولوں پر ایمان، (۴) خدا کی کتابوں پر ایمان، اور (۵) اعمال کی جزاء اور سزاء کے دن پر ایمان۔
ان اجزائے ایمانی کی حکمت:
(۱) اللہ تعالیٰ پر ایمان کہ وہ اس دنیا کا تنہاء خالق اور مالک ہے اور ہر ظاہر و باطن سے آگاہ ہے تاکہ وہی ہمارے تمام کاموں کا قبلۂ مقصود قرار پاسکے اور اس کی رضا جوئی اور اس کی مرضی کی تعمیل ہمارے اعمال کی تنہاء غرض وغایت ہو، اور ہم جلوت کے سواء خلوت میں بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ سکیں، اور ہر نیکی کو اس لئے کریں ار وہر برائی سے اس لئے بچیں کہ یہی ہمارے خالق کا حکم ہے اور یہی اس کی مرضی ہے، اس طرح اعمال ناپاک اغراض اور ناجائز خواہشات سے مبرّا ہوکر خالص ہوسکیں، اور جس طرح ہمارے جسمانی اعضاء گناہوں سے پاک ہوں، ہمارا دل بھی ناپاک خیالات اور ہوا و ہوس کی آمیزش سے پاک ہو اور اس کے احکام اور اس کے پیغام کی سچائی پر دل سے ایسا یقین ہو کہ ہمارے ناپاک جذبات، ہمارے غلط استدلالات، ہماری گمراہ خواہشیں بھی اس یقین میں شک اور تذبذب پیدا نہ کرسکیں۔
(۲) خدا کے رسولوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ خدا کے ان احکام اور ہدایات اور اس کی مرضی کا علم انہی کے واسطے سے انسانوں کو پہنچا ہے، اگر ان کی صداقت، سچائی اور راستبازی کو کوئی تسلیم نہ کرے تو پیغامِ ربانی اور احکامِ الہٰی کی صداقت اور سچای بھی مشکوک و مشتبہ ہوجائے اور انسانوں کے سامنے نیکی، نزاہت اور معصومیت کا کوئی نمونہ موجود نہ رہے، جو انسان کے قوائے عملی کی تحریک کا باعث بن سکے، پھر اچھے اور بُرے، صحیح اور غلط کاموں کے درمیان ہماری عقل کے سواء ہمارے جو جذبات کی محکوم ہے کوئی اور چیز ہمارے سامنے ہماری رہنمائی کے لئے نہیں ہوگی۔
(۳) خدا کے فرشتوں پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں، مادیت اور روحانیت کے مابین واسطہ ہیں، مخلوقات کو قانونِ الٰہی کے مطابق چلاتے ہیں اور ہمارے اعمال و افعال کے ایک ایک حرف کو ہر دم اور ہر لحظہ ریکارڈ کرتے جاتے ہیں، تاکہ ہم کو ان کا اچھا یا بُرا معاوضہ مل سکے۔
(۴) خدا کے احکام و ہدایات جو رسولوں کے ذریعہ انسانوں کو پہنچائے گئے ہیں ان کو دور دراز ملکوں اور آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوا کہ وہ تحریری شکلوں میں یعنی کتابوں اور صحیفوں میں یا لفظ و آواز سے مرکب ہوکر ہماری سینوں میں محفوظ رہیں، اس لے خدا کی کتابوں اور صحیفوں کی صداقت اور جو کچھ ان میں ہے اس کی سچائی پر ایمان لانا ضروری ہے، ورنہ رسولوں کے بعد خدا کے احکام اور ہدایتوں کے جاننے کا ذریعہ مسدود ہوجائے اور ہمارے لئے نیکی اور بدی کی تمیز کا کوئی ایسا معیار باقی نہ رہے جس پر تمام ادنیٰ و اعلیٰ، جاہل و عالم اور بادشاہ و رعایا سب متفق ہوسکیں۔
(۵) اعمال کی باز پرس اور جواب دہ کا یقین اور اس کے مطابق جزاء اور سزاء کا خیال نہ ہو تو دنیاوی قوانین کے باوجود دنیائے انسانیت سراپا درندگی اور بہیمیت بن جائے، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسانوں کو جلوت و خلوت میں ان کی ذمہ داری محسوس کراتا ہے، ا سلئے روز جزاء اور یومِ آخرت پر ایمان رکھے بغیر انسانیت کی صلاح و فلاح ناممکن ہے اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے اس پر بے حد زور دیا ہے؛ بلکہ مکی وحی کا بیشتر حصہ اسی کی تلقین اور تبلیغ پر مشتمل ہے۔
یہی پانچ باتیں اسلام کے ایمانیات کے اصلی عناصر ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں پر اس کی کتابوں پر، اس کے فرشتوں پر اور روزِ جزاء پر ایمان لانا یہ عقائدِ خمسہ یکجا طور پر سورۂ بقرہ میں متعدد دفعہ کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئے ہیں۔
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ۔ (البقرۃ:۳)
جو لوگ غیب (خدا ؟ خدا کی صفات اور ملائکہ) پر ایمان رکھتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۔ (البقرۃ:۳)
اور جو کچھ تم پر (اے محمدؐ) نازل ہوا اور تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نامل ہوا اس پر یقین رکھتے (یعنی انبیاء اور ان کی کتابوں پر)۔
وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ۔ (البقرۃ:۳)
اور آخرت کے پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ تو سورہ کے آغاز کی آیتیں ہیں، سورۂ کے بیچ میں پھر ارشاد ہوا:
وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ۔ (البقرۃ:۱۷۷)
اور لیکن نیکی یہ ہے کہ جو شخص حدا پر، آخری دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔
سورۂ بقرہ کی آخر میں ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ۔ (البقرۃ:۲۸۵)
پیغمبر پر جو کچھ اتارا گیا اس پر وہ خود اور تمام مومن ایمان لائے، یہ سب لوگ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔
سورۂ نساء میں ان ہی عقائد کی تعلیم ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا۔ (النساء:۱۳۶)
اے وہ لوگو جو ایمان لاچکے ہو! ایمان لاؤ خدا پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے اتاری، اور جو شخص خدا کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے پیغمبروں کا اور روزِ قیامت کا انکار کرے گا وہ سخت گمراہ ہوا‘‘۔
ایمان و عمل کا تلازم:
سچا ایمان اور حسنِ عمل در حقیقت لام و ملزوم ہیں، اگر کوئی یہ کہے کہ ایک مومن بدکار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ تو یہ سوال حقیقت میں خود تضاد کو مستلزم ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ کوئی مومن ہو کر بدکاری اور چوری نہیں کرسکتا، اگر کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان مسلوب ہوجاتا ہے، اور یہ بالکل واضح ہے کہ جب کوئی مومن برائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے ایمان یعنی اصول اور جذباتِ فاسدہ کے درمیان کش مکش ہوتی ہے، تھوڑی دیر یہ لڑائی قائم رہتی ہے، اگر ایمان اور اصول نے فتح پائی تو وہ اپنے کو بچالیتا ہے اور اگر جذبات غالب آتے ہیں تو ایمان اور اصول کا تخیل اس وقت دب کر اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے اس پر بناء پر سچا مومن اور بدکردار ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے، اگر ہے تو حقیقت میں ایمان ہی کامل نہیں، یہاں بحث رسمی ایمان و مومن سے نہیں بلکہ اس ایمان سے ہے جس کے معنیٰ غیر متزلزل یقین اور ناقابلِ شک اعتقاد کے ہیں،جہاں کہیں رسمی و ظاہری ایمان کے ساتھ برائی اور بدکرداری کا وجود ہے، وہ در حقیقت ایمان کا نقص اور یقین کی کمی بھی ایمان ہی کی کمی کا نتیجہ ہے۔
ایمان کے بغیر کوئی عمل درست نہیں!
لیکن بہر حال عقلی فرض اور رسمی ایمان کے لئے لحاظ سے یہ سوال ہوسکتا ہے، اور یہ مانا جاسکتا ہے کہ ایک بدکردار مومن اور نیک اخلاق کافر و مشرک میں اگر پہلا نجات کا مستحق ہے اور دوسرا نہیں ہے تو ایسا کیوں؟ اس کا جواب شرعی اور عقلی دونوں حیثیتوں سے بالکل ظاہر ہے، اسلام نے نجات کا مدار ایمان اور عمل دنوں پر رکھا ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔ (العصر:۲،۳)
بے شک کُل انسان گھاٹے میں ہیں مگر وہ جو ایمان رکھتے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں۔
اس لئے کامل نجات کا مستحق وہی ہے جو مومن بھی ہے اور نیک کردار بھی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کفر و شرک کے گناہ کےسواء اپنے بندہ کا ہر گناہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے، البتہ شرک و کفر کو معاف نہ فرمائے گا اور اس کی سزا ضرور ہی وہ دے گا، چنانچہ ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا۔ (النساء:۴۸)
بے شک خدا اس کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سواء دوسرے گناہ جس کو چاہے معاف کردے گا۔
ایک اور آیت میں مشرکوں کے متعلق یہ قطعی طور پر فرمایا:
إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ۔ (المائدۃ:۷۲)
بیشک یہ بات ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ نے اس پر اپنی جنت حرام کی ہے۔
قرآن پاک نے ان لوگوں کے کاموں کی مثال جو ایمان سے محروم ہیں اس راکھ سے دی ہے جس کو ہوا کے جھونکے اڑا اُڑا کر فناء کردیتے ہیں اور ان کا کوئی وجود پھر باقی نہیں رہتا، اسی طرح وہ شخص جو ایمان سے محروم ہیں، ان کے کام بھی بے بنیاد اور بے اصل ہیں:
مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ۔ (ابراھیم:۱۸)
جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے کاموں کی مثال اس راکھ کی ہے جس پر آندھی والے دن زور سے ہوا چلی، وہ اپنے کاموں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے، یہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔
سورۂ نور میں ایمان کی دولت سے محروم لوگوں کے اعمال کی مثال سراب سے دی گئی ہے کہ اس کے وجود کی حقیقت فریبِ نظر سے زیادہ نہیں۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا۔ (النور:۳۹)
جنہوں نے خدا کا انکار کیا ان کے کام سراب کی طرح ہیں، جو میدان میں ہو جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچے تو وہاں کسی چیز کا وجود اس کو نظر نہ آئے۔
ان کی ایک اور مثال ایسی سخت تاریکی سے دی گئی ہے جس میں ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتتا اور جس میں ہوش و حواس اور اعضاء کی سلامتی کے باوجود ان سے فائدہ اٹھانا ناممکن ہے۔
أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ۔ (النور:۴۰)
یا ان کے کاموں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی گہرے سمندر میں سخت اندھیرا ہو، اس کے اوپر موج اور موج پر پھر موج اور اس کے اوپر بادل گھرا ہو، یہ اندھیرا ہے کہ اس میں ہاتھ نکالے تو وہ بھی سوجھائی نہ دے، جس کو خدا نے نور نہ دیا اس کے لئے کوئی نور نہیں۔
الغرض ایمان کے بغیر عمل کی بنیاد کسی بلند اور صحیح تخلیل پر قائم نہیں ہوسکتی، اس لئے ریاء، نمائش اور خود غرضی کے کاموں کو کوئی عزت نہیں دی جاتی، وہ کام جو گو بظاہر نیک ہوں لیکن کرنے والے کا ان سے اصلی مقصد نام و نمود پیدا کرنا ہوتا ہے، اخلاقی نقطۂ نظر سے تمام دنیا ان کو بے وقعت اور ہیچ سمجھتی ہے، اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کیا اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔ (البقرۃ:۲۶۴)
اے ایمان والو! اپنی خیراتوں کو احسان اور اُلاہنے دے کر اس طرح برباد کرتا ہے جو لوگوں کے لئے دکھانے کے لئے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور خدا پر جو نیکیوں کی جزا دیتا ہے) اور قیامت پر (جس میں نیکیوں کی جزاء ملے گی) یقین نہیں کرتا، اس کی خیرات کی مثال اس چٹان جیسی ہے جس پر کچھ مٹی پڑی ہو، ذرا اس پر پانی برسا تو مٹی دھل گئی اور پتھر رہ گیا، جس پر جو کچھ بویا جائے گا وہ اُگے گا نہیں۔
مومن و کافر کا فرق:
اس تفصیل سے معلوم ہوگا کہ ایک بدکردار رسمی مومن کے لئے نجات کی امید ممکن ہے، لیکن ایک حقیقی کافر و مشرک کے لئے نہیں، اور اس کی عقلی وجہ ظاہر ہے، لیکن ایک حقیقی کافر و مشرک کے درمیان وہی فرق ہے جو ایک چور اور ڈاکو کے درمیان ہے، ہر قانون دان جانتا ہے کہ ان دونوں میں قانون کی نظر میں کون مجرم زیادہ ہے، چور گو برائی کرتا ہے تاہم حکومت کا خوف اس کے دل میں ہے، مگر ڈاکو حکومت سے برسرِ پیکار ہوکر قتل و غارت کا مرتکب ہوتا ہے، اس لئے ڈاکو چور سے زیادہ سزاء کا مستحق ہے، بدکردار رسمی مومن گو گنہگار ہے مگر کبھی کبھی خوف الٰہی سے تھرّا جاتا ہے، کبھی کبھی خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا ہے اور کبھی اپنے گناہوں پر خدا کے حضور میں شرمندہ اور نادم بھی ہوتا ہے، مگر کافر و مشرک اگر کچھ اچھے کام بھی کریں، تاہم اپنی دوسری برائیوں کے استغفار کے لئے خدا کے سامنے سرنگِوں نہیں ہوتے۔
وہ خدا نام کسی کے قائل ہی نہیں جس کے خوف سے وہ تھرّائیں، جس کی بارگاہ میں وہ گڑ گڑائیں اور جس کی محبت سرشار ہوکر وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں، اس لئے اس مجرم کے لئے جس نے کسی مجبوری سے معذور ہوکر چھپ کر کسی قانونِ سلطنت کی نافرمانی کی رحم و بخشش کا موقع ہے، لیکن اس باغی کے لئے جو سرے سے سلطانِ وقت کو اور اس کے قانون ہی کو تسلیم نہیں کرتا رحم و بخشش کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن یہ محض ایک تمثیل تھی، ورنہ ظاہر ہے کہ خدا کو اس کی حاجت نہیں کہ اس کے بندے اس کی حکومت کو تسلیم کریں: فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ۔ ’’بے شک خدا دنیا سے بے نیاز ہے‘‘۔
بلکہ اصل یہ ہے کہ ایک کافر و مشرک اس اصولِ کار کو تسلیم نہیں کرتا جس پر مذہبی نیکیوں کی بنیاد ہے اور ایک رسمی مومن اس اصول کو تسلیم کرتا ہے، اس کی نسبت توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل عمل بھی کرے گا، لیکن جو ہنوز اصول کا مخالف ہے اس کے لوٹنے کے لئے ابھی بڑی دشوار منزل باقی ہے۔
ایمان یعنی اساسِ ملت اور بنیادِ عمل کی اہمیت:
اس خالص مذہبی نقطۂ نظر سے ہٹ کر بھی اگر مومن و کافر کے باہمی فرق و امتیاز پر غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ گو بہت سے بظاہر نیک لوگوں کو جو کافر ہیں اپنے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بہت سے بظاہر بُرے لوگوں کو جو مومن ہیں اپنے اندر داخل کرنا پڑتا ہے، تاہم اس موقع پر اس نکتہ کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ اس ’’اپنے‘‘ اور ’’غیر‘‘ کی وجہ تقسیم کیا ہے؟ جب اس وجہِ تقسیم کو ہم سامنے رکھیں گے تو ہم کو ناگزیر طور پر ایسا کرنا ہی پڑے گا، وجہ تقسیم خیرات کرنےوالا اور نہ خیرات کرنے والا یا جھوٹ بولنے والا اور نہ جھولنے والا نہیں ہے؛ بلکہ ایک خدا پر ایمان والا اور ایک دستور العمل (قرآن مجید) کو صحیح ماننے والا ہے، اس بناء پر اس وجہِ تقسیم کی رُو سے ایسا ہونا لازم ہے۔
یہ طریقۂ امتیاز کچھ اسلام یا مذہب ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر تحریک، ہر جماعت اور ہر اصولِ سیاست؛ بلکہ تمام انسانی تحریکات اور جماعتوں کا اصولِ تقسیم یہی ہے، ہر تحریک کا ایک صب العین اور ہر جماعت کا ایک عقیدہ (کریڈ) ہوتا ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کریڈ کے مطابق پورے جوش و خروش کے ساتھ عمل کرتے ہیں، یہ اس مذہب کے مومنین صالحین ہیں، دوسرے وہ ہیں جو اس کریڈ کے مطابق عمل نہیں رکھتے، یہ اس مذہب کے غیر صالح مومنین ہیں، لیکن ایک تیسری جماعت ہے جو سرے سے اس کریڈ ہی کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ اس کو بنیادِ عمل قرار دیتی ہے، گو اس تیسری جماعت کے بعض افراد بڑے فیاض و مخیّر ہوں یا بڑے عالم و فاضل ہوں، تاہم اس جماعت کے دائرہ کے اندر جس کا وہ کریڈ ہے ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، کیا یہی وجہ نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے کریڈ پر یقین رکھنے والا اس کے مطابق کرنے والا اور وہ بھی جو نفس کریڈ کو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے مطابق عمل پیرا نہیں، اس جماعت کے پنڈال میں جگہ پاسکتا ہے، مگر وہ جو اس کریڈ ہی کو صحیح باور نہیں کرتا اس کے احاطہ میں کوئی جگہ پانے کا مستحق نہیں ہے؟ اسی پر ہر جماعت کے اصول کو قیاس کیا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب تک کوئی جماعت اپنے اصولِ کار، اساس جماعت اور عقیدہ کو اتنی اہمیت نہ دے گی، اس کی اہمیت جو سب اہمیتوں کو بڑھ کر ہونی چاہئے قائم نہیں رہ سکتی، اور ملت کی وہ دیوار جس کو اس قدر سخت اور مستحکم ہونا چاہئے کہ باہر کے سیلاب کا ایک قطرہ بھی اس کے اندر نہ جاسکے، اگر اس میں اصول و عقیدہ پر ایمان کا مطالبہ کئے بغیر ہر کس و ناکس کو داخلہ کی اجازت دے دی جائےتو اس مستحکم دیوار میں یقیناً رخنے پر جائیں گے اور وہ ایک لمحہ کے لئے بھی کسی سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور وہ جماعت ایسے پراگندہ اصول و افراد کا مجموعہ ہوگی جس کو کسی اتحاد و اشتراک اور جامعیت کا رشتہ باہم متحد و مجموع نہیں کرتا۔
مستحکم جماعتیں وہ ہیں جو اپنے کریڈ پر شدت کے ساتھ جمی رہتی ہیں اور جو اس کریڈ کو تسلیم نہیں کرتا، رکنِ جماعت نہ ہونے کی حیثیت سے وہ ان کی جماعتی برادری میں کوئی اعزاز نہیں رکھتا، کیا ایک مسلمان جبکہ کسی سیاسی جماعت کا رکن ہو تو اس کے لئے تو اصولِ کار کی یہ سخت جائز بلکہ مستحسن ہو، مگر وہی اسلامی جماعت کےممبر کی حیثیت سے اپنے اخلاقی اصول کار، اساس ملت اور مذہبی بِنائے وحدت میں یہ شدت رَوا رکھے تو کس عقل سے وہ ملات کے قابل ٹھہرایا جائے، حالانکہ ہر دلی عقیدہ کا لازمی نتیجہ اسی قسم کی شدّت اور استحکام ہونا چاہئے، پھر اگر ایک جگہ وہ ہو اور دوسری جگہ نہ ہو تو اس کے صاف معنیٰ ہیں کہ ایک کو دل کے ساتھ جو تعلق ہے وہ دوسرے کو نہیں۔
نظامِ اسلام:
اب اگر اسلام اور اسلام کے قانون اور مذہب کو سمجھنا ہے تو اس کی اصل بنیاد پر نظر رکھنا چاہئے، جس پر اس کی پوری عمارت تعمیر ہوئی ہے، وہ بنیاد اقتصادیات کا کوئی نکتہ، دولت کا کوئی خزانہ، نسل و رنگ کا کوئی امتیاز اور ملک و وطن کی کوئی تجدید نہیں ہے بلکہ صرف ایک ہے اور وہ دنیا کی سب سے بڑی، لازوال اور وسیع و عالمگیر صداقت یعنی خدائے واحد پر ایمان ہے، یہ ہے اسلام کی ملت اور برادری کا اصل رشتہ اسی سے اس کی مذہب اور اس کے قانون کی تمام تقسیمیں اور امتیازات کی حدیث قائم ہوئی ہیں، اس کی حیثیت اسلام کی مملکت میں وہ ہے جو کل روم میں رومیت کی اور آج روس میں اصول بالشویت کی ہے۔
اس برادری کے دینی اور دنیاوی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس جماعت کے فارمولے پر دستخط کرے اور اس کے کریڈ کو دل وجان سے قبول کرے، آج تمام مہذّب دنیا کسی عالمگیر برادری کی بنیاد کو تلاش کرنے میں حیران و سرگرداں ہے، مگر نہیں ملتی، حالانکہ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی طرح آج بھی اسلام یہ آواز بلند کر رہا ہے کہ:
’’اے اہل کتاب آؤ! ہم اس ایک بات پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے نزدیک یکساں ہے کہ خدائے واحد کے سواء کسی اور کی پرستش نہ کریں اور خدا کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں‘‘۔
یہی توحیدِ اسلام کا وہ نظام نامہ ہے جس پر اس کے دین اور اس کی دنیا دونوں کی بنیاد ہے۔
توحید دنیا کی غیر متبدّل حقیقت ہے!
یہ توحید یعنی عرصۂ ہستی کا صرف ایک فرمانروائے مطلق ماننا جس کے سامنے ہر جسمانی و روحانی طاقت ادب سے جھکی ہوئی ہے اور اس کی بندۂ فرمان ہے، اور ساری دنیا اسی ایک کی مخلوق و محکوم ہے اور دنیا کی ساری قومیں اس کے آگے بحیثیت مخلوق کے برابر حیثیت رکھتی ہیں، دنیا کی وہ عظیم الشان حقیقت ہے جو سر تا پا صداقت اور حق ہے، اور ایسی عالمگیر ہے جو عرصۂ وجود کے ایک ایک ذرّہ کو محیط ہے اور ایسی لا زوال ہے کہ جس کو کبھی فناء نہیں اور ایسی کھلی اور واضح کہ جس کے تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہیں، اور ایسی خیرِ مجسم ہے جو ہمارے اندر ہر قسم کی نیکیوں کی تحریک کرتی ہے اور جو ایسی تسکین اور تسلی ہو جو ہر مصیبت اور مشکل کے وقت ہمارے لئے صبر و استقلال کی چٹان بن جاتی ہے اور ایسا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ جو کسی وقت ٹوٹ نہیں سکتا اور اس قدر وسیع کہ جس کے احاطۂ عام کے لئے اندر مخلوقات کی ایک ایک فرد داخل ہوکر اخلاقی حقوق و واجبات کی برادری قائم کرسکتی ہے اور خالق و مخلوق دونوں کی وابستگی اور محبت کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
غرض یہ ایسی عالمگیر حقیقت ہے جو سر تا پا صداقت اور حق ہے، جو کبھی نہ بدل سکی اور نہ بدلے گی، زبانوں میں جو انقلاب ہو خیالات میں جو تغیر ہو تمدّنوں میں جو اُتار چڑھاؤ ہو، قوموں میں جو تفرقے پیدا ہوں، مجازی حقیقتوں، مادی فائدوں اور سیاسی غایتوں میں جو اختلاف بھی پیدا ہو، مگر وہ ایک حقیقت ہے جو اپنی جگہ مسلم رہے گی اور جس میں کوئی تغیر اور انقلاب پیدا نہ ہوگا، کیونکہ اس کی بنیاد ایک ایسی لازوال ہستی کے یقین پر ہے جو مادّیات کی دنیا کی طرح دم بدم مٹتی اور بنتی ہے، لحظ بہ لحظہ متغیر اور منقلب نہیں۔
وہ ایک ایسی عالمگیر اور محیط ہستی کا تخیل ہے جس کے احاطۂ عام کے اندر تمام قومیں اور تمام مملکتیں بلکہ تمام مخلوقات یکساں استحقاق کے ساتھ داخل ہیں، اس کی ملکیت میں سیاہ و سپید، زنگی و رومی، ہندی و فرنگی، عربی و عجمی، امیر و غریب، عورت ومرد، شاہ پسند و جمہوریت پسند، حاکم و محکوم، آقا و غلام اور عالم و جاہل سب برابری کے ساتھ یکساں شامل ہیں، اور اس سے ایسی برادری کا رشتہ قائم ہوتا ہے جو قوموں میں میل، مملتوں میں اتحاد اور مخلوقات میں فرائض و واجبات کا احساس پیدا کرتا ہے۔
وہ خود مجسم خیر اور سر تا پا نیکی ہے، اس کی عقیدت اور محبت ہماری اندر نیکیوں کی تحریک اور برائیوں کی نفرت پیدا کرتی ہے، تاریکی میں بھی اس کی دیکھنے والی آنکھوں اور خلوتوں میں بھی اس کی جھانکنے والی نگاہوں کا سچا عقیدہ نازک سے نازک موقع پر بھی ہم کو برائیوں سے بچاتا اور نیکیوں کے لئے اُبھارتا ہے۔
جب ہمارا سہارا ٹوٹ جاتا ہے، ہر اعتماد شکست کھاجاتا ہے اور ہر امید منقطع ہوجاتی ہے اور جب افراد و قوم کے صبر و استقلال کے پاؤں ڈگمگا جاتے ہییں اور ان کے وجود کی کشتی منجدھار میں پھنس جاتی ہے، اس وقت اسی ایک کی مدد کا سہارا کام آتا ہے اور اسی ایک کی نصرت کا وثوق فتح و ظفر سے ہمکنار کرتا ہے اور مایوسیوں اور ناامیدیوں کے ہر بادل کو چھانٹ کر رحمتِ الٰہی کے نور سے آنکھوں کو پُر نور اور دلوں کو مسرور کردیتا ہے۔
اب کوئی بتائے کہ کسی ایسی قوم کے لئے جو اپنے کو دائمی اور ہمیشہ کے لئے روئے زمین پر آئی ہو وار آخر الامم اور غیر منسوخ ملت ہونے کی مدعی ہو، اس کی اساسِ ملت بننے کے لئےہر روز بدل جانے والے اور ہر صدی میں منقلب ہوجانے والے تخیلات اور نظریات کبھی اساسِ ملت قرار پاسکتے ہیں، اور ایسی قوم کے لئے جوکسی نسل، کسی رنگت اور کسی قطعۂ زمین میں اپنے کو محدود نہ کرے، اس عالمگیر خدائی برادری سے بڑھ کر کوئی برادری نہیں مناسب ہوسکتی ہے۔
عقیدۂ توحید کی اخلاقی حیثیت:
پھر ایسا عقیدہ جو تنہاء ہماری ملت کا اساس ہی نہ ہو بلکہ ہمارے عمل کی بنیاد ہو اس خلّاقِ عالم اور علّام الغیوب کے ایمان کے سواء کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، یہ لازوال اور زندۂ جاوید ہستی ہماری ملت کی لازوال اور زندۂ جاوید بناتی ہے، یہ عالمگیر اور محیط ہستی ہمارے اندر عالمگیر اخوت اور عمومی برادری کا رشتہ قائم کرتی ہے، وہ خیرِ مجسم اور سرا پا نیک ہستی ہم کو خیر کی دعوت اور نیکی کی صدا دیتی ہے، اس کے کمالی اوصاف ہم کو اپنے اخلاقی کمال کا نصب العین عطا کرتے ہیں، اس کے اسماءِ حسنیٰ اور صفاتِ کاملہ کا عقیدہ ہم کو ہر حیثیت سے حسین اور کامل بننے کا درس دیتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوگا کہ خدا وار اس کی ذات و صفات پر اعتقاد محض نظریہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی حیثیت تمام تر عملی ہے، اس کی صفاتِ عالیہ ہمارے اوصافِ حسنہ کے لئے نمونہ ہیں، اور اس کے محامد کریمہ ہمارے اعمال و اخلاق کی تصحیح کے لئے تحریرِ اوراق کا مسطر ہیں۔
خیر و شر کی تمیز:
جس طرح دنیا کی دوسری چیزیں فی نفسہٖ نہ خیر ہیں اور نہ شر ہم ان کو خیر یا شر صرف ان کے موقعِ استعمال کے لحاظ سے کہتے ہیں، آگ فی نفسہٖ نہ خیر ہے نہ شر، لیکن جب کوئی ظالم اس آگ سے کسی غریب کا جھونپڑا جلاکر خاکِ سیاہ کردیتا ہے تو وہ شر ہوجاتی ہے،لیکن جب اسی آگ سے کوئی رحم دل انسان چولہا گرم کرکے کسی بھوکے لئے کھانا پکاتا ہے تو وہ خیر ہوجاتی ہے، اسی طرح نیک و بد اعمال بظاہر یکساں ہیں اور ان میں نیک و بد کی تمیز نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس غرض و غایت کا لحاظ نہ کیا جائے جس کے لئے وہ کام کیا جاتا ہے، ایک ڈاکو کا ایک مسافر کو قتل کردینا اور ایک حکومت کا کسی ڈاکو کو پھانس دینا یکساں اتلافِ جان کا فعل ہے؛ لیکن پھر دنیا کاگر ایک کو خیر اور ایک کو شر کہتی ہے تو وہ اس غرض و غایت کی بناء پر ہے جس کے لئے یہ دونوں قتل کئے گئے ہیں، ڈاکو جس قتل کا مرتکب ہوا ہے اس سے اس کا مقصود مسافر کے مال پر ظالمانہ قبضہ تھا اور اس راہ میں اس کے مالک کے ناحق قتل کا آخری نتیجہ راستہ کی بد امنی ور ملک کی ویرانی ہے، اور سزا دینے والی حکومت کی غرض لوگوں کی جان و مال کی حفاظت، راستہ کا امن اور ملک کو آباد کرنا ہے، اس لئے پہلا فعل شر اور دوسرا خیر ہے۔
خیر و شر کی فلسفیانہ تحقیق اور ان کی باہمی تمیز نہایت مشکل ہے، جس کو نہ ہر عامی وجاہل سمجھ سکتا ہے اور نہ اس سے متاثر ہوسکتا ہے، حالانکہ خیر و شر کے اکثر امور پر تمام دنیا متفق ہے، اس لئے مذہب نے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک کے لئے ایک آسان اصول یہ بنادیا ہے کہ وہ تمام باتیں جن کو خدائے تعالیٰ پسند کرتا ہے خیر ہے اور جن کو ناپسند کرتا ہے وہ شر ہے، اس کے اس اصول سے نہ خیر و شر کی حقیقت بدلتی ہے اور نہ ان کے نفع و ضرر کا پہلو بدلتا ہے، نہ دنیا کے فائدے اور نقصان میں کمی بیشی ہوتی ہے، ہاں یہ ہوتا ہے کہ اس اصول کی تاثیر دلوں میں ایسی راسخ ہوجاتی ہے کہ جنگلی اور صحرائی سے لے کر مہذب و تعلیم یافتہ تک اس اصول کے ماتحت خیر پر عمل کرنے اور شر سے بچنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، چنانچہ آج دنیا میں جس قدر بھی خیر کا وجود ہے اور شر سے احتراز ہے وہ اسی پیغمبرانہ تعلیم کا نتیجہ ہے فلسفیانہ نکتہ آفرینیوں کا نہیں، ارسطو اور اسپنسر کے اصولِ اخلاق کو پڑھ کر اور سمجھ کر کتنے نیک اور خوش اخلاق پیدا ہوئے اور حضرت مسیح و حضرت علیہما الصلوٰۃ و السلام کی تعلیم و تاثیر نے کتنوں کو خوش اخلاق اور نیک کردار بنایا، اور آج دنیا میں لندن و نیویارک کے بازاروں سےلے کر افریقہ کے صحراؤں اور جنگلوں اور ہندوستان کے دیہاتوں تک میں نیکی کی اشاعت اور برائی سے پرہیز کی تعلیم انبیاء کے پیروؤں کے ذریعہ ہو رہی ہے یا فلسفیوں کے بالشویکوں کے ذریعہ انجام پارہی ہے یا نازیوں کے؟ سوشلسٹوں کے ذریعہ یا فسسٹوں کے؟ دل کا چین اخلاق کی طاقت اور عالمگیر انسانی برادری کی دولت اگر ممکن ہے تو وہ صرف اس توحید کے ذریعہ جس کی دعوت اسلام دیتا ہے اور اس ایمان کی بدولت جس کو اسلام دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، جس کی وسعت میں ساری دنیا آرام کرسکتی ہے اور جس کے سایہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے سارے امتیازات مٹ جاتے ہیں اور جس کی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ آسمان و زمین کی بنیادیں اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو ہٹ جائیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکتی۔

توحیدکی حقیقت
حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ

آریوں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگا کر ’’وہ نیستی سے ہستی کے پیدا ہونے کے قائل ہیں‘‘ اپنا ایک خود تراشیدہ وہم یہ پیش کیا ہے کہ ’’عالم صرف خدا سے نہیں بلکہ مادّہ سے بھی ظاہر ہوا ہے‘‘، سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس فطری یقین کو محفوظ رکھنے کے لئے کہ ’’ہستی ہستی ہی سے پیدا ہوتی ہے‘‘ خدا کی ہستی کیوں کافی نہ تھی جو مادّہ کے وجود کا اضافہ کیا جاتا ہے، یہ سچ ہے کہ ہستی کو ہستی ہی سے پیدا ہونا چاہئے، یہی پیغمبروں کا مشاہدہ بھی ہے کہ موجودہ نظامِ ہستی اس ہستی سے ظاہر ہوا ہے جس کا نام خدا ہے، پھر خدا کے پہلوں میں کسی فالتو ہستی (مادّہ یا روح) کے اضافہ کی کیا ضرورت ہے؟ قرآن پاک میں توحید کے جہاں وار دلائل بیان کئے گئے ہیں ان میں زیادہ زور اسی دلیل پر ہے کہ ہستی کی پیدائش کے لئے خدا یعنی ایک خود بخود ہستی کے ماننے کے لئے تو آدمی یقیناً مجبور ہے لیکن اس ہستی کےسواء کسی اور خود بخود ہستی کی ضرورت کیوں بتائی جاتی ہے؟ قرآن کا ارشاد ہے کہ کسی کے پاس کوئ دلیل، کوئی شہادت ہو تو پیش کرے:
أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُلْ لَا أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ۔ (الانعام:۱۹)
(پوچھئے!) کیا تم (مشرکین) اس کی شہادت دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، اے پیغمبر کہئے کہ میرے پاس اس کی شہادت نہیں ہے اور کہئے کہ وہ تو یکتا واحد معبود ہے اور بلاشبہ ہم ان سے قطعاً جدا ہیں، جنہیں تم اللہ کا ساجھی ٹھہراتے ہو۔
ان لوگوں پر حیرت ہے جنہوں نے توحید جیسے آسان اور سہل مسئلہ کو طریقۂ بحث کی غلطی سے خواہ مخواہ ایک پیچیدہ مسئلہ بنادیا، ورنہ قرآن نے اس سلسلہ میں جو فطری راہ پیش کی تھی فیصلہ کے لئے وہی کافی تھی، مطلب یہ ہے کہ شرک وتوحید پر بحث کرنے سے پیشتر یہ طے کرلینا چاہئے کہ ان دونوں میں دعوؤں میں کسی دعویٰ کی حیثیت اثبات کی ہے اور کسی کی حیثیت انکار کی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک خدا کو مان کر مشرک ہی دوسرے خدا کا اضافہ کرنا چاہتا ہے ،پس مدعی تو مشرک ہی ہے، رہا موحد تو اس کا مقام صرف انکار کا مقام ہے، یعنی مشرک کے اضافہ کردہ خدا کا وہ صرف انکار کرنا چاہتا ہے، بحث و تحقیق کا عام قاعدہ ہے کہ صرف مدعی ہی پر بار ثبوت ہے، منکر کے لئے صرف انکار کافی ہے، افسوس ہے کہ قرآن نے توحید کے باب میں یہی فطری راہ پیش کی تھی، لیکن ہمارے متکلمین کا ایک گروہ بلاوجہ مدعی بن بیٹھا اور محض اس غلط طریقہ کار کی وجہ سے ان کو تمانع وغیرہ اقناعی دلائل پیش کرنے پڑے اور لطف یہ ہے کہ توڑ مروڑ کرک قرآنی آیتوں کو بھی ان خود ساختہ دلائل پر منطبق کرنا پڑا، جس دلیل کا نام متکلمین نے ’’برہانِ تمانع‘‘ (اثباتِ توحید کی دلیل میں متکلمین یہ کہتے ہیں کہ اگر واجب الوجود دو ہوں تو ان کے درمیان کبھی نہ کبھی اختلاف پیدا ہوسکتا ہے اور جب دو متضاد مقاصد بیک وقت پورے ہوں گے، نہیں تو لامحالہ ایک غالب آئے گا، جو غالب آئے گا وہی حقیقی معنیٰ میں واجب الوجود ہے، اس کو برہانِ تمانع کہتے ہیں۔مرتب) رکھا ہے اور قرآن کی جس آیت سے وہ اُسے نکالنا چاہتے ہیں آئندہ اوراق میں اس آیت کی ایک جدید توجیہ آپ کو نظر آئے گی، ضرورت ہے کہ اس پر خاص تو جہ کی جائے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى۔ (نجم:۲۳)
یہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے تراش لئے ہیں، اللہ نے اس کے متعلق کوئی دلیل نہیں اُتاری، یہ مشرکین صرف اٹکل پچو باتوں اور اپنی حواہش کے پیچھے چلے جارہے ہیں، حالانکہ ان کے پروردگار کی رہنمائی ان کے سامنے آچکی ہے۔
ایک اور جگہ مسلمانوں سے چیلنج دلایا گیا ہے کہ ان کے فالتو معبودوں کے متعلق ان مشرکین کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کریں:
هَؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ۔ (الکھف:۱۵)
یعنی ہماری قوم کے لوگوں نے اللہ کے سواء جو معبود بنالئے ہیں کیوں نہیں وہ کوئی کھلی دلیل اس پر لاتے ہیں۔
توحید کے سلسلہ میں قرآن کا لازوال اور لاجواب مطالبہ:
بہرحال اسی ملک کی طرف قرآن نے اعلان کیا ہے کہ:
وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ۔
اور اللہ کے سواء جو دوسرے معبود کو پکارتا ہے اس کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
توحید کے متعلق قرآن اس ٹھوس مطالبہ سے بھرا ہوا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اس مطالبہ کا کوئی جواب کسی نے اب تک دیا ہے اور نہ کبھی کوئی دے سکتا ہے، صرف خیر و شر کی تقسیم سے مغالطہ کھاکر قدیم ایرانی فلاسفروں کے ایک گروہ نے یزدان کے ساتھ اہرمن کے وجود کے اضافہ کو عقل کا تقاضا ٹہرانا چاہا ہے، اس مسئلہ پر ہم فلسفۂ غم کے تحت میں کافی بحث کریں گے، لیکن پارسیوں سے اتنا اس وقت بھی پوچھتے چلنا چاہئے کہ تمہاری مراد خیر و شر سے کیا ہے؟ اگر خیر سے نفع بخش اور شر سے ضرر رساں چیزیں مراد ہیں تو کیا اس قسم کے خیر کا وجود شر سے علاحدہ ہوکر پایا جاتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو شاید شر کے لئے علاحدہ خالق کی تلاش ممکن بھی تھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں جس آگ سے ہمارے گھر جلتے ہیں اسی سے کھانا بھی پکتا ہے، اور جس پانی سے اناج پیدا ہوتا ہے اسی سی طوفانی مصائب بھی ؤتے ہیں، اور علی ھٰذا القیاس جس آفتاب کے نور و حرارت سے روشنی ملتی ہے، توانائی پیدا ہوتی اور کھیتی پکتی ہے اسی کی حرارت سے کھیتیاں جھلس بھی جاتی ہیں۔
الحاصل ایک ہی چیز کے صحیح استعمال سے نفع بھی ہوتا ہے اور استعمال کی غلطی سے وہی چیز چر بھی بن جاتی ہے۔
اضداد کی باہمی آویزش توحید پر گواہ ہے:
بہر حال جب خیر کا وجود شر سے علاحدہ ہوکر نہیں پایا جاتا ہے بلکہ استعمالی غلطی سے خیر ہی شر بن جاتا ہے تو ایک کے لئے دو خالق کی تلاش نہ صرف فضول بلکہ قطعاً غلط ہے، لہٰذا پارسیوں کے دو خداؤں میں سے بھی ایک اُسی طرح فالتو ہوجاتا ہے جس طرح آریوں کا مادہ اور روح، ہاں اگر بجائے خیر و شر کے یہ جائے (اور غالباً ایرانی فلاسفہ کی یہی مراد بھی ہوگی) کہ نظامِ عالم کی بنیاد متضاد قوتوں پر مبنی نظر آتی ہے، نیستی کے ساتھ ہستی اور حیات کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے، حرارت کے ساتھ برودت اور رطوبت کے ساتھ یبوست، علیٰ ھٰذا سکون کے ساتھ حرکت اور ضعف کے ساتھ قوت کے مظاہرے یہاں ہر آن اور ہر لمحہ دیکھے جاتے ہیں تو ان تماشوں کا کون انکار کرسکتا ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ مظاہرِ فطرت میں شاید ہی کوئی ایسی صورت ہوگی جس کی ضد یہاں موجود نہ ہو، لیکن کیا اس سے بچجائے ایک کے دو کی ضرورت ثابت ہوتی ہے؟ تم اضداد کو دیکھتے ہو لیکن ان اضداد کی باہمی آویزشوں اور پیچیدہ پیوستگیوں سے آنکھیں کیوں بند کرلیتے ہو؟ غور تو کرو! بیچاری عقل جو دو ضدوں کے باہمی اجتماع کو سوچ بھی نہیں سکتی، اسی کی پیٹھ پر کائنات کے ان غیر محدود و لا متناہی اضداد کی کثرتوں کے اجتماع کے بجھ کو کیسے لادا جاسکتا ہے جب تک کہ کسی شیزازۂ وحدت کے ساتھ انہیں جکڑا نہ جائے؟ قرآن نے اسی حقیقت کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے:
وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ۔ (المؤمنون:۹۱)
اللہ کے سواء کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر الٰہ اپنی مخلوق کو (یا ہر الٰہ اپنے مظاہر و آثار کو) لے بھاگتا اور (بجائے آویزش و ترکیب کے) ایک دوسرے پر چڑھ جاتے۔
اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا تو ہستی کے جس نظام کی بنیاد انہیں اضداد پر قائم ہے کیا وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی قائم رہ سکتا تھا؟ رطوبت کے مظہر پانی کو یا حرارت کی مظہر آگ کو، الغرض اس قسم کے اضداد کے مظاہر میں سے کسی ایک چیز کو نکال لو! تو کیا پھر یہ دنیا یہی دنیا رہ سکتی ہے؟ قرآن میں وحی کا اگر یہ تجربہ پیش کیا ہے کہ:
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا۔ (الانبیاء:۲۲) یعنی اگر آسمان و زمین میں خدا کے سواء کوئی اور معبود ہوتا تو یہ دونوں برباد ہوجاتے۔
خود غور کرنا چاہئے کہ پیغمبروں کے اس مشاہدہ کے سواء کیا عقل کچھ اور بھی سوچ سکتی ہے یا مان سکتی ہے؟ بلاشبہ ہم سے وہی منوایا گیا جس کے سواء ہم کچھ مان ہی نہیں سکتے اور وہی سمجھایا گیا جس کے سواء ہم کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ اضداد کے جس ایرانی فلسفہ کو پیغمبروں کے تجربۂ توحید میں شک انداز کے لئے پیش کیا گیا تھا، کیسی عجیب بات ہے کہ یہی فلسفہ الٹ کر شرک کے گلے کا پھندا بن گیا اور لے دے کر توحید کےدشمنوں کے ہاتھ میں یہی ایک حربہ تھا، آخر اضداد کا یہ مجموعہ جو باہم اتنی سختیوں کے ساتھ جکرا ہوا ہے، موحِّد اگر اُسے جکڑا ہوا مانتا ہے تو کیا بکھرا ہوا مانے؟ سچ کو جھوٹ نہیں بنایا جاسکتا اور بلاشبہ وحی اور نبوت کے تجربات اور مشاہدات کا انکار بغیر اس کے ہو نہیں سکتا، قرآن مجید نے سچ فرمایا ہے:
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ۔ (البقرۃ:۱۳۰)
یعنی ابراہیمؑ کی ملت دینِ اسلام اور دینِ فطرت سے وہی کترا سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو احمق و سفیہ بنالیا ہو۔
پارسیوں کو اپنی کتاب کا صحیح علم نہیں ہے، ورنہ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ ان کو اپنی کتابوں میں بھی ملتا، زنداوستا میں زرتشترا کی طرف یہ عبارت منسوب کی گئی ہے:
’’نیک اندیشوں اور سچے خیال والوں کے نزدیک اہرمزدرا ربِّ دو جہاں ہے، جو لوگ بتوں کے خیال میں منہمک رہتے ہیں اور مشرک ہیں یا وہ جو شرارت یا بدنفسی میں مبتلا رہتے ہیں رذیل ہیں‘‘۔ (ژنداوستا، حصہ پاسا)
الحاصل حق سبحانہ تعالیٰ کا خود بخود موجود ہونا، ہمیشہ ہمیشہ سے ہونا، ایک ہونا، نبوت کے یہ ایسے روشن تجربات ہیں جن کے اقرار پر وہ بھی مجبور ہیں جو بے دیکھے بے جانے خدا کا بلاوجہ انکار کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے میں نے کہا تھا کہ ان حدود تک مذہب اور لامذہبیت میں کوئی اختلاف نہیں، پیغمبروں سے جو باغی ہیں ان کو بھی یہا ماننا پڑتا ہے اور ایمان لانے والوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔
مسئلۂ صفاتِ باری تعالیٰ:
یہی مسئلہ خدا پرستوں اور منکروں کے درمیان خطِ اختلاف ہے، بہر حال مادّہ اور خدا کے متعلق یہاں تک جتنے جھگڑے ہیں صرف لفظوں کی لڑائی ہے، البتہ اس کے بعد پیغمبرانہ تجربات نے حق تعالیٰ کے لامحدود کمالات اور صفاتِ اعلیٰ یا اسماءِ حسنیٰ کے متعلق جن واقعات کا مشاہدہ اور علم حاصل کیا ہے حقیقی اختلاف کی سرحد یہیں سے شروع ہوتی ہے اور در اصل پیغمبروں اور دہریوں کی بحت کا اصل خطِ جنگ یہی ہے، انبیاء علیہ السلام کا مشاہدہ ہے کہ جس خود بخود ہستی کی یہ عالم نمائش گاہ ہے وہ ان تمام کمالات سے موصوف ہے، جن کو ہم کائنات کے طویل و عریض سلسلہ میں مختلف نوعیتوں کے ساتھ مختلف پیمانوں پر مشاہدہ کر رہے ہیں، مثلاً یہاں زندگی، حیات، علم، بینائی، شنوائی، ارادہ، قدرت، اختیار، قوت اور اسی قسم کے جتنے کمالات اور فیوض ہیں جن کی غیر محدود موجیں مختلف صورتوں سے محسوسات کے مختلف مظاہر میں چاروں طرف سے اُبل رہی ہیں، پیغمبروں کا دعویٰ ہے کہ انہی کمالات کے ساتھ حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی شانِ اعلیٰ کے مطابق موصوف ہیں، لیکن مادہ پرست، منکرِ مذہب، اس کے برخلاف مدعی اور صرف مدعی ہے۔
کیونکہ بالتفصیل معلوم ہوچکا ہے کہ سرچشمۂ صفات تک عقل و حواس کے ذریعہ سے رسائی قطعاً ناممکن ہے، بہر حال مادہ پرستوں و منکرینِ خدا کا یہ گروہ بے دیکھے، بے جانے اور بے سمجھے اپنے اس وہم میں گرفتار ہے کہ وہ خود بخود ہستی جس پر نظامِ کائنات کی انتہاء ہوتی ہے ان کمالات سے مفلس و عاری ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنے آپ کو پیغمبروں سے جُدا کرنے کے لئے اس خود بخود ہستی کا نام بجائے خدا کے مادّہ رکھا لیا ہے، مادہ کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ خود بخود ہستی جس پر نظامِ عالم کی بنیاد قائم ہے اور ان تمام کمالات سے وہ معرّٰی ہے جو خدا کے لئے ثابت کئے جاتے ہیں، قرآن پاک کی جن دلیلوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اثباتِ خدا کے دلائل ہیں در اصل ان کا زیادہ تر تعلق صفات ہی کے اثبات سے ہے، میں چاہتا ہوں کہ قرآن روشنی میں نبوت کے اس مشاہدہ اور تجربہ کے متعلق یہ دکھاؤں کہ عقل و فطرت میں بھی ان دعوؤں میں سے کس دعوے کے ماننے کی گنجائش ہے اور کس کے انکار پر ہم مجبور ہیں۔
نابود کے نمود کا دعوئے غلط:
مسئلہ صفات کے متعلق مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمہ اللہ نے یہ عجیب و غریب سوال پیش کیا کہ: ؎ ’’نہ تھا تو ہوا کہاں سے؟‘‘
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم جن کمالات و اوصاف کو ہستی کے مختلف مظاہر میں محسوس کر رہے ہیں مثلاً ارادہ، اختیار، حیات، علم، بینائی، شنوائی اور قدرت وغیرہ کے متعلق مادہ پرستوں کا یہ وہم یعنی بغیر جانے ہوئے یہ ادعاء ہے کہ ابتداء میں ہستی ان کمالات سے بالکل مفلس تھی، اس میں نہ زندگی تھی نہ علم تھا، نہ ارادہ اور نہ شعور، غرض کچھ نہ تھا، پھر رفتہ رفتہ ارتقاء کے مختلف مدارج کو بخود طے کرتے ہوئے ان نابود اور معدوم صفات کا اس میں نمود اور بود شروع ہوا، جس کا حاصل یہی ہوا کہ ان لوگوں کے نزدیک جو نہ تھا وہ ہوا اور ہو رہا ہے، سوچنا چاہئے کہ وہی عقل جو نیست محض کے ہست ہونے کو سوچ نہیں سکتی تھی، جس کےنزدیک نیستی سےہستی کی پیدائش ایک ناقابلِ تصور خیال تھا، اُسی عقل اور اُسی فطرت میں کیا یہ عجیب و غریب دعویٰ سما سکتا ہے کہ جو نہ تھا اس کے ہونے کا یقین کرے، آخر جس میں زندگی نہ تھی اُس میں زندگی، جس میں علم نہ تھا اس میں علم، جس میں ارادہ نہ تھا اس سے ارادہ، جس میں اختیار نہ تھا اس سے اختیار، جس میں قدرت نہ تھی اس سے قدرت نکلنے کے کیا یہی معنیٰ ہوئے کہ جو نہ تھا وہ ہوا، جو نیستی تھی وہ ہستی بنی؟
پروفیسر اسٹارٹ ذہنی صفات کی نیرنگیوں کا اندازہ کرتے ہوئے اس بے ربطی کو جو مادہ اور ذہنی مظاہر میں ہے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ’’جہاں کہیں سے بھی ذہن شروع ہوتا ہوا سمجھا جائے وہ اس طرح ناگہانی طور پر نمودار ہوتا ہے، جس طرح طپنچہ سے گولی جو طپنچہ میں پہلے سے موجود نہ ہو، ذہن کا مادہ سے پیدا ہونا مادی دنیا میں فطرت کےسارے نظام کے منافی و مناقض ہے، یہ گویا عدم سے وجود کی تخلیق کے معجزہ کا قائل ہونا ہے۔ (مرتب۔ازکتاب: مائنڈ اینڈ مانیٹر:۱۱۰، ۱۱۹)
سچ یہ ہے کہ انسان جب تک اپنی موجودہ عقل اور فطرت کو برباد نہ کرے اس وہمی دعوے کے آگے سر جھکانے کے لئےکسی طرح آمادہ نہیں ہوسکتا، کسی نے کہا ہے کہ ’’لامذہبیت کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان میں لاعقلیت پیدا ہوجائے‘‘، اب آؤ اس کے مقابلہ میں ان تجربات اور مکاشفات کو سن جو دنیا کے ہر خطّہ اور ہر آبادی کے برگزیدہ اور راست باز انسان نے ان انسانوں نے پیش کئے ہیں جن پر فطرتِ انسانی نے سب سے زیادہ اعتماد کیا ہے، یعنی وحی اور نبوت والوں کا ارشاد سن، ابھی اس سے بحث نہیں کہ زندگی کیا چیز ہے؟ علم کیا حقیقت کیا ہے؟ ارادہ کی کیا تعریف ہے؟ لیکن اتنا تو سب کو معلوم ہے کہ ہستی کے یہ وہ اوصاف ہیں جنہیں وجود کا کمال اور اس کی خوبی سمجھی جاتی ہے، جس سے بینائی جاتی رہتی ہے ہم اس اندھے کو ناقص کہتےہیں، یہی حال تمام کمالات کا ہے۔
بود ہی کی نمود ہے!
بہر حال پیغمبروں کا یہ دعویٰ ہے کہ انسان جن چیموں کو کمال سمجھتا ہے یا کمال سمجھ سکتا ہے، کائنات کا بنیادی وجود ان تمام کمالات سے ازلاً اور ہمیشہ سے موصوف ہے مطلب کیا ہے؟ یہی کہ ہمارے سامنے ’’نابود‘‘ کی ’’نمود‘‘ نہیں بلکہ ’’بود‘‘ ہی کی ’’نمود‘‘ اور ’’بود‘‘ ہو رہی ہے، جو نہ تھا وہ نہیں ہوا بلکہ جو تھا وہی ہوا وار وہی ہو رہا ہے، اب غور کرنا چاہئے کہ ’’جو تھا وہی اور وہی ہو رہا ہے‘‘ عقل کے لئے اس کا ماننا آسان ہے یا ’’جو نہ تھا وہ ہوا اور ہو رہا ہے‘‘ اس دشوار اور جھوٹی حقیقت کو فطرت اپنے اندر اُتار سکتی ہے؟ اس مسخرے نے سچ تھا کہ میں بھینس سے انڈا اور انڈے سے روغنِ گل اور روغنِ گل کے ساتھ کل دوائیں بھینس کے انڈے سے کس طرح نکالوں؟ مگر مادہ پرست اسی کے ماننے پر آدمی کو مجبور کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہی عقل کی بات ہے، سوچو! کیا اس سے بڑے درجہ کی بھی کوئی سفاہت اور دیوانگی ہوسکتی ہے؟
تمام صفات کا ظہور ذاتِ واحد سے ہے!
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ قرآن مجید کی پہلی سورۃ سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت ہے، جس میں بجائے ذات کے (جو متفقہ مسئلہ ہے) خدا کی صفات کے اثبات سے مذہب کے درس کی ابتداء کی گئی ہے، کیونکہ مذہبیت و لامذہبیت کے اختلاف کا پہلا اصولی نقطہ جیسا کہ معلوم ہوچکا یہی ہے۔ (اسی مقام سے اس راز کا انکشاف ہوسکتا ہے کہ قرآن نے اپنے درس کی ابتداء الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے کیوں کی؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا: ذات کی حد تک تو خدا کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے، دونوں ہی عالم کےاس نظام کو ایک خود بخود ہستی کا نظام ماننے والا اسی خود بخود ہستی اس نظام کو ختم کرتے ہیں، پس مانی ہوئی چیزیں منوانے کی حاجت ہی کیا تھی؟ اختلاف کا نقطہ تو صفات سے شروع ہوتا ہے، اسی لے قرآن نے اسی سے اپنی بحث کا آغاز کیا۔مرتب)
آیت کا حاصل یہ ہے کہ جس کسی کی جہاں کہیں بھی کوئی تعریف و ستائش کی جائے وہ اسی اللہ کے لئے ہے جو عالمین (یعنی تمام وہ چیزیں جو ہمارے علم کی گرفت میں آرہی ہیں) کی تربیت کرنے والا ہے، یعنی بتدریج کسی کمالِ الٰہی کا اُسے مظہر بنا رہا ہے، مثلاً ایک نطفہ میں بتدریج ان کمالات کی نمائش کرتا ہے جسے ہم انسانی کمالات کہتے ہیں، لوگ جب ابتداء میں قرآن کے اس دعوے کو سنتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے، کیونکہ اس دنیا کا ہر ذرہ کوئی نہ کوئی کمال رکھتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے کمال کے مطابق سراہا جاتا ہے، تو پھر یہ کہنا کہ سارے کمالات اور ان کمالات کی ساری تعریفیں خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہیں ایک عجیب سی بات ہے، لیکن بات سمجھی نہیں گئی یہی تو قرآن پوچھنا چاہتا ہے، کہ ہستی کے ہر ذرہ میں جن کمالات اور خوبیوں کی نمائش ہورہی ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ نہ تھے اور ہوگئے ہیں؟ کیا تمہاری عقل اس بات کو سوچ سکتی ہے کہ نیسی سےہستی بنی؟ پس جب ایسا نہیں ہے تو یقین کرو کہ جہاں کہیں، جس کسی میں، جب کوئی ایسا کمال نظر آتا ہے جس کی تعریف کی جاتی ہے تو ان سب کا مرجع اور چشمہ وہی ازلی وجود ہے جو ان کمالا سے ازلاً و ابداً موصوف تھا اور ہے، اور جو ہمارے تمام محسوسات و معموملات (عاملین) کے آئینہ میں اپنے کمالات کو مختلف طریقوں سے چمکا رہا ہے اور وہ جو کائنات کے ہر ذرّہ کی ستائش و حمد کے گیت گاتے ہیں، لیکن اپنی بدعقلی سے جو ان کا بنیادی وجود اور حقیقی سرچشمہ ہے اس کا مادّہ نام رکھ کر ہر قسم کےکمالات سے اُسے بہ بہرہ سمجھتے ہیں یا سمجھنا چاہتے ہیں، صرف یہی نہیں کہ جو نہ تھا اس کے ہونے کا دعویٰ کرکے انسان کے اندرونی احساسات کو زیر و زبر کر رہے ہیں، بلکہ اگر غور کیا جائے تو فطرت پر ان کے جاہلانہ مظالم کا سلسلہ بہت وسیع نظر آئے گا۔
مثلاً:
اونٹ کے گذرنے کے لئے صرف یہ کہہ دینا کہ سوراخ موجود تھا اس لئے گذر گیا، کیا عقل کی تسلیم کے لئے اتنا کافی ہے؟ عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ سوئی کے ناکہ میں بھی چونکہ سوراْ موجود ہے اس لئے اونٹ کو اس سے گذر جانا چاہئے؟ اس کی تسلیم سے عقل کیوں سرتابی کرتی ہے؟ ظاہر ہے کہ سبب و مسبب اور اثر و مؤثر میں کوئی تناسب نہیں ہے، پھر سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گذرجانے پر اصرارِ عقل کے ساتھ اگر ظالمانہ چیرہ دستی ہے تو کیا یہی ظلم عقلِ انسانی پر وہ نہیں کر رہے ہیں جو ہر قسم کے کمالات سے مفلس مادّہ سے کائنات کے اس محیر العقول حیرتناک نظام کو نکالنا چاہتے ہیں؟ آسمان و زمین، ثوابت و سیارے، دریا، پہاڑ، حیوانات و انسان وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ یہ سب کہاں سے آئے؟ اب جو اس کے جواب میں مجبور و لاچار اور بے علم و بے جان مادّہ کا نام بغیر کسی مشاہدہ اور تجربہ کے لیتا ہے، بتاؤ اس نے اپنی عقل پر پتھر مارا یا جو اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر خدائے قادر و توانا کا نام جپتا، اس نے ہماری فہم کے فطری قوانین کے ساتھ انصاف کیا؟ قرآن اپنے مختلف صفاحات میں تناسب کے اس قانون پر غور کرنے کے لئے کہتاہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی اثر اور معلول کے لئے کسی مؤثر کسی علت کا صرف فرض کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ علت و معلوم اور اثر و مؤثر میں تناسب کا لحاظ بھی ضروری ہے، کسی مجذوب نے سچ کہا تھا کہ ’’تم انگور سے ہاتھی کب تک ٹپکاؤ گے‘‘۔
تخلیقی نظم خود وحدت پر گواہ ہے!
کیسی عجیب بات ہے کہ اس عالم میں دیکھتے ہیں کہ آنکھیں بن رہی ہیں، چند خاص پردوں کے ساتھ بن رہی ہیں، ہر پردہ خاص قوانین کے تحت بن رہا ہے، یہی آنکھیں حیوانات میں بھی بن رہی ہیں، انسانوں میں بھی بن رہی ہیں، امریکہ میں بن رہی ہیں، ایشیاء میں بھی بن رہی ہیں، ہر جگہ ہر پردہ اپنے اپنے قوانین کے تحت بن رہا ہے، الغرض جس چیز کو دیکھوگے اس میں ایک خاص قسم کی ترکیب، یکسانیت اور ہمواری نظرآئے گی، اور کیسی ترکیب، کیسی ہمواری؟ بقول بعض ’’فطرت کے قوانین کیا ہیں؟ ایک بلیغ نظم، ایک ایسا موزوں شعر کہ اگر اس کا ایک لفظ بھی اپنی جگہ سے نکال دیا جائے تو سارا نظمِ شعری بگڑ جاتا ہے‘‘، یہی حال اس علم کا ہے، کسی ایک چیز کو نکال کر دیکھو اور اندازہ کرو، بہر حال پوچھا جاتا ہے کہ یہ کس کی قدرت کے کرشمے ہیں؟ اب عقل کے ساتھ کیا یہ تمسخر نہیں ہے کہ اس کے جواب میں اس کا نام لیا جائے جس کو ہر قسم کی قدرت سے مفلس فرض کیا جاتا ہے۔
أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (ابراہیم:۱۰)
آفتاب نکلتا ہے یا زمین گھومتی ہے جو طریقۂ تعبیر بھی اختیار کیا جائے، بہر حال ٹھیک چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں یہ یومیہ دورہ حتم ہوجاتا ہے اور تین سو پینسٹھ (۳۶۵) دن اور کچھ منٹ وغیرہ میں یہ سالانہ گردش پوری ہوتی ہے، اور جس وقت تک کی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے معلوم ہے کہ اس وقت یہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہورہا ہے اور ایک آفتاب اور زمین ہی کیا، عالم کی ہر چیز چند ایسے اٹل قوانین کی گرفت میں جکری ہوئی ہے کہ آج انہی کے استحکام پر ہمارے تمام علوم و فنون کی بنیاد ہے، پوچھا جاتا ہے کہ ان دقیق، نازک، مضبوط و مستحکم اور ہمہ گیر قوانین کی بات کس کے ہاتھ میں ہے؟ قرآن پاک اس کے جواب میں کہتا ہے:
ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ۔(یٰسٓ:۳۸) یہ سب اس کے ناپنے اور جانچنے کا نتیجہ ہے جو ہر چیز پر غالب اور علم والا ہے۔
بتاؤ انسانی عقل کی تشنگی اس سے بجھتی ہے ؟یا اس جواب سے کہ کہا جائے:
ذٰلک اتفاق المجبور الجاھل۔ یہ ایک لاچار اور علم و قدرت سے یکسر عاری مادّہ کے اتفاقی اثرات کا نتیجہ ہے۔
اور سچ یہ ہے کہ اس قسم کے مضحکہ انگیز حماقتوں کا صدور انہی لوگوں سے ہوسکتا ہے جنہوں نے فطرت اور اس کے نازک استوار قوانین پر کبھی غور ہی نہیں کیا یا جن کی زندگی صرف فسق و فجور، مسخرے پن اور اوباشی میں گذری ہو، ورنہ سچے سوچنے والوں نے ہمیشہ یہی کہا جسے پیغمبروں نے دیکھا، عہدِ جدید کا سب سے بڑا مفکر نیوٹن جس نے اپنے ایک معلوم کردہ قانون کے ذریعہ سے انسانی سمجھ کا رخ پھیردیا تھا، قانون جذب و کشش کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے:
’’کائنات کے اجزاء میں باوجود ہزاروں انقلاباتِ زمان و مکان کے جو ترتیب اور تناسب ہے وہ ممکن نہیں کہ بغیر کسی ایسی ذات کے پایا جاسکے جو سب سے اوّل صاحبِ علم و ارادہ و با اختیار ہو‘‘۔
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (الانعام:۴۵)
الحاصل نظامِ ہستی کا ایک خود بخود ہستی پر ختم ہونا، اس کا ہمیشہ ہمیشہ سے ہونا، ایک ہونا، اس کا ہر قسم کے اعلیٰ کمالات اور برتر و گرامی صفات سے موصوف ہونا ثابت ہوچکا ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ کے متعلق پیغمبروں کے یہ ایسے ذاتی تجربے اور مشاہدے ہیں کہ عقلِ انسانی اس کے سواء کسی اور چیز کو مان بھی نہیں سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ چند ماؤف العقل پیشہ ور فلسفیوں کے سواء فطرت بشری قریب قریب ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں ایمان کے اس جزء کے ساتھ متفق رہی ہے، پروفیسر میکسمولر نے دنیا کے قدیم آثار و شواہد کے مطالعہ اور جستجو کے بعد اسی بنیاد پر اپنے اس تاریخی فیصلہ کا اعلان کیا ہے کہ:
’’ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے خدا کو اس وقت جانا جس وقت وہ اس کا شائد نام بھی نہیں رکھ سکتے تھے‘‘۔
خدا سے متعلق ایک اور سوال!
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اصلی بحث اسی نقطہ پر ختم ہوجاتی ہے، لیکن وسواسی انسان اسی پر بس کرنا نہیں چاہتا، وہ خدا کے متعلق کچھ اور سوالات بھی رکھتا ہے۔
دنیا کے عام مذاہب نے غالباً غیر ضروری سمجھ کر ان سوالات کو نہیں چھیڑا یا چھیڑا بھی تو اس کے مختلف پہلوؤں کو اتنا روشن نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مختلف زمانوں میں بجائے وحی و نبوت کے عقل و حواس ہی کی اس روشنی میں ان سوالات کو حل کرنا چاہا جو ہمیشہ ’’عالمِ غیب‘‘ میں جاکر گل ہوجاتی ہے، نظیروں اور مثالوں کی غلط رہنمائی نے مختلف غلطیوں کے خندقوں میں لوگوں کو گرادیا، مگر قرآن مجید جو غیبی حقائق کی تشریح کی آخری روشنی ہے، اس نے وضاحت کے ساتھ ان سوالات کو اُٹھایا اور وہ جوابات دئے ہیں جنہیں فطرت و عقل بے چینی کے ساتھ ڈھونڈھتی تھی، اس سلسلہ میں جو کچھ کہا جائے گا ممکن ہے کہ ڈھونڈھنے سے دوسرا مذاہب کی الہامی یاد داشتوں میں بھی اس کے تعلق کچھ تسلی مِل سکے، لیکن جہاں تک میری جستجو کا تعلق ہے قرآن کریم کا بیان اس باب میں جتنا روشن ہے یقیناً یہ روشنی کسی دوسری جگہ میسر نہیں آسکتی۔
پہلا سوال یہی ہے، مطلب یہ کہ وجود کے سرچشمہ سے ہر لحظہ اور ہر لمحہ جو گوناگوں موجیں علویات و سفلیا، جمادات و نباتات اور حیوانات و انسان وغیرہ کی شکل میں پیدا ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی آخر ان کی پیدائش کی نوعیت کیا ہے؟ اسی سوال کی اجمالی تعبیر یہ ہے ؎ خدا نے عالم کو کس طری پیدا کیا؟
تقریباً یہ سوال ہر اس دل میں پیدا ہوتا ہے جو اس عالم کی انتہاء خدائے قدوس پر ختم کرتا ہے، بلاشبہ یہ ایک فطری سوال تھا، لیکن اسی کے ساتھ کیا یہ بھی غیر فطری راہ نہیں تھی کہ بجائے وحی و نبوت کے اس سوال کا جواب عقل و حواس سے طلب کیا جائے، انسان نے ظلم کیا کہ اپنے محدود معلومات و مشاہدات کو سامنے رکھ کر اس کا جواب دینا، اس کے بعد غلط جوابوں کا جو طلسم قائم ہوا وہ عجیب و غریب تھا، اور یہی وہ طلسم ہے جس کی تعبیر مذہبی دنیا میں ’’مسئلۂ وحدۃ الوجود‘‘ سے کی جاتی ہے۔
(تعبیروں کی غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک قابلِ احترام سنجیدہ گروہ میں وحدۃ الوجود کا لفظ قریب قریب ہوّے کی شکل اختیار کرچکا ہے، ابن خلدون جیسے متبحر انصاف پسند عالم نے اپنے مشہور علمی مقدمہ میں ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی تشریح میں جو الفاظ نقل کئے ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ کائنات کی ان گوناگونیوں کو صوفیہ صرف نظر کا دھوکہ اور انسانی احساس کا ایک غیر واقعی تاثر قرار دیتے ہیں، اس نے لکھا ہے کہ دنیا سے اگر انسان اور اس کے احساسات غائب ہوجائیں تو وحدۃ الوجود والوں کے نزدیک عالم کا یہ نظام بھی باقی نہ رہے گا، لکھا ہے کہ خواب میں خواب دیکھنے والوں کے نزدیک یہی حال بیداری کا بھی ہے، اس کے الفاظ ہیں ’’یعتبروں ذٰلک بحال المنام فاذا انام و فقد الحسو و فقد کل محسوس‘‘ جب گھر والوں کی بدگمانیوں کا یہ حال ہو تو غیروں کا کیا گلہ کیجئے؟ آئندہ معلوم ہوگا کہ غلط فہمیوں کے سوا یہ اور کچھ نہیں۔ مرتب)
ربطِ خالق و خلق یا مسئلۂ وحدۃ الوجود:
وحدۃ الوجود کے ایک تو سیدھے سادے معنی ہیں کہ نظام ہستی کی بنیاد دو وجودوں مثلاً یزداں و اہرمن، یا خدا اور مادّہ پر نہیں؛ بلکہ صرف ایک خدا پر قائم ہے، سب چیزیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں، ظاہر ہے کہ وحدۃ الوجود کا اگر یہی مطلب ہے تو خدا کے ماننے والوں میں ایسا کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہے؟ (بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وحدۃ الوجود کے یہ وہ معنیٰ ہیں جس کے اقرار پر وہ بھی مجبور ہوئے ہیں جنہوں نے عالم کا سرچشمہ بجائے خدائے تعالیٰ حیّ و قیوم کے مادّہ کو ٹھہرایا ہے، آخر مادّہ پرستوں کا خیال اس کے سواء اور کیا ہے کہ عالم میں جو کچھ ہے صرف ایک ہی ہستی اور ایک ہی وجود یعنی مادّہ ہی کی یہ نیرنگیاں ہیں، بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی بدیہی مسئلہ الٰہیات کا ہوسکتا ہے جس کے ماننے پر مادّہ پرستوں کے دل و دماغ بھی مجبور ہیں۔مرتب)
لیکن واقعہ یہ نہیں ہے، لوگ جواب کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس جواب سے وہ کس سوال کو حل کرنا چاہتے ہیں، پس جیسا کہ میں نے عرض کیا مسئلہ وحدۃ الوجود اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ ’’عالم ایک وجود سے پیدا ہوا ہے یا دو سے؟‘‘ بلکہ یہ مسئلہ در اصل اسی سوال کا جواب ہے جسے میں نے عنوان میں درج کیا ہے کہ یعنی ’’خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟‘‘
قبل اس کے کہ اس بات میں قرآنی تشریح کو پیش کروں اُن غلط تاویلوں کا پیش کرنا مناسب ہے جن کی وجہ سے عموماً اس مسئلہ کی جانب سے لوگوں میں غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے، جسوال کے متعلق تو معلوم ہوچکا، وہ صرف اس قدر ہے کہ خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟ ظاہر ہے کہ انسان اور انسان کے علمی ذرائع، عقل و حواس نہ اس وقت موجود تھے جس وقت کائنات کی بنیاد پڑی اور نہ اس وقت عالم کے اس سرچشمہ تک ان کی رسائی ہے جہاں سے نت نئی ہستیاں مختلف صفات و کمالات کو لے لے کر برآمد ہو رہی ہیں، اب جو صرف عقل و حواس کے ذریعہ اس سوال کو حل کرنا چاہے گا تو اس کے لئے بجز اس کے اور کیا چارۂ کار ہے کہ اپنی محدود معلومات کو سامنے رکھ کر کچھ مثالوں اور تشبیہات سے اس کا جواب دے اور یہی کیا بھی گیا، مختلف نظیروں کو سامنے رکھ کر مختلف لوگوں نے جوابات دئے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
بعض غلط تشریحات اور تشبیہات:
بعضوں نے کہا کہ (معاذ اللہ) خدا کی مثال ایک انڈے کی سی تھی اور جس طرح انڈا پھٹ کر مرغی بن جاتا ہے اسی طرح خدا بھی پھٹ کر عالم بن گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کے فلسفۂ ویدانت کی تعبیر ہے، وید کی ایک مشہور عبارت سے اس کی تائید پیش کی جاتی ہے، ’’یُجروید‘‘ میں لکھا ہے:
’’اس پرماتما کی نابھی (ناف) سے درمیانی عالم ’سر سے بالائی عالم‘ پاؤں سے زمین اور کانوں سے سمت بن گئے، اسی طرح وہ سب لوگوں کو پیدا کرتا ہے‘‘۔ (یجروید، اُدھیائے نمبر:۲۱)
یہ اور اسی قسم کی اور بھی تشبیہیں ہیں جو عوام الناس میں مشہور ہیں، مثلاً خدا اور عالم کی باہمی نسبت کو کبھی دریاء اور موج اور کبھی عنکبوت اور اس کے رات اور کبھی سیاہی اور حروف وغیرہ سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جن سے بظاہر یہ خیال گذرتا ہے کہ ان تشبیہات والے فلسفۂ ویدانت کی اتباع میں گویا اس کے قائل ہوگئے ہیں کہ خدا یا اس کا کوئی حصہ عالم بن گیا ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ مکڑی جس طرح باہر سے نہیں بلکہ اندر سے رطوبت خارج کرتی ہے اور اسی سے اپنے ارد گرد جالا تنتی ہے، یونہی (معاذ اللہ) خدا نے بھی اپنے اندر سے بعض اجزاء خارج کئے ہیں، انہی سے عالم بنایا ہے، سیاہی اور حروف والے کہتے ہیں کہ مختلف حروف مثلاً الف، ب، ت ہے، اگر یہ اپنی اپنی صورتوں اور خصوصیتوں کے لحاظ سے باہم مختلف ہیں، لیکن سیاہی سب ہی میں مشترک ہے، یونہی جمادات و نباتات، حیوانات و انسان ویرہ گو اپنی اپنی صورتوں اور خصوصیتوں کے لحاظ سے مختلف ہیں، لیکن خدا یا وجود ان سب میں مشترک ہے، بعض یوں بھی کہتے ہیں کہ اعداد کے مراتب اگرچہ مختلف ہیں لیکن اکائی سب میں مشترک ہے، یہی حال خدا کا ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں خدا اور عالم کے صحیح تعلق کو واضح نہیں کریں، مگر مکڑی والی تشبیہ میں لازم آتا ہے کہ خدا کو مختلف اجزائے مرکب سے مانا جائے، دریا اور موجو والی مثال بھی اسی لئے سمجھ میں نہیں آتی کہ دریا طول و عرض اور عمق رکھتا ہے، اسی لئے تقسیم کو قبول کرتا ہے اور اسی لئے اس کے جزو میں ایک موج بنتی ہے وہ اس جزو سے مختلف ہوتا ہے جس پر دوسری موج کی ہیئت قائم ہوتی ہے، علیٰ ھٰذا القیاس سیاہی کو حروف میں مشترک قرار دینا بھی مغالطہ ہے، سیاہی کے مختلف اجزاء اور قطرات سے مختلف حروف بنتے ہیں، اسی لئے جس قطرہ سے مثلاً الف بنتا ہے وہ اس قطرہ سے مختلف ہوتا ہے جس سے ب اور ت وغیرہ حروف لکھے جاتے ہیں، یونہی اعداد اکائیوں کے مجموعہ کا نام ضرور ہے لیکن دو میں اگر دو اکائی ہوتی ہیں تو تین میں تین، پھر کیا عالم میں بھی ہر ہستی کے ساتھ خدا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے؟ در اصل یہ ناقص تشبیہات ہیں جن سے لوگ مغالطہ میں مبتلا ہوگئے۔مرتب)
حالانکہ عیاذًا باللہ اگر ایسا واقعہ ہے تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ خدائے کامل و قادر حیّ و قیّوم آخر کیا ہوا کہ وہ خود بیٹھے بٹھائے بغیر کسی مجبوری کے ناقص مجبور اور معذور بن گیا، دُکھ، درد، گندگی و ناپاکی اور ہر قسم کے عیوب میں لتھڑ گیا، جو کامل تھا ناقص ہوگیا، جو زندہ تھا مردہ بن گیا، پاک تھا ناپاک ہوگیا؟ کیونکہ عالم اور اس کے اجزاء کا تقریباً یہی حال ہے۔
معاذ اللہ خدا غائب!
بلکہ اگر زیادہ غور کیا جائے تو گویا اس صورت میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ جب تک عالم نہ تھا اس وقت تک تو خدا موجود تھا؛ لیکن جب عالم پیدا ہوگیا تو خدا عائب ہوگیا، آخر مرغی یا درخت کے پیدا ہونے کے بعد کیا انڈا یا تخم باقی رہتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس مذہب کا خدا ہی معدوم ہوگیا وہ مذہب مذہب اور دھرم کہلانے کا مستحق کس طرح ہوسکتا ہے؟ نہ معلوم ایسے مذاہب میں کسی کی پوجا کی جاتی ہے اور کس کے احکام و قوانین کی پابندی کو فرض ٹھہرایا جاتا ہے۔
خدا کے ایک امر انتزاعی یعنی صرف مخلوق ذہنی ہونے کا نظریہ:
اسی سلسلہ میں بعض کا بیان ہے کہ خدا ایک وجودِ کلی ہے اور عالم اس کی جزئیات اور تفصیلات کا نام ہے، اس کو یوں سمجھا جاتا ہے مثلاً انسان ایک کلّی یا حقیقت مطلقہ ہے، جس طرح اس کا تحقیق یعنی پایا جانا زید و عمر وغیرہ کی شکل میں ہوتا ہے، اسی طرح خدا بھی عالم کے مختلف افراد کی شکل میں رونما ہوتا ہے،لیکن اگر غور کیا جائے تو اس تشبیہ کے لحاظ سے خدا کوئی واقعی ہستی باقی نہیں رہتا بلکہ جس طرح مختلف افراد مثلاً زید و عمر کے اشتراکی اوصاف کو پیش نظر رکھ کر ایک مفہوم مشترک ان سب سے پیدا کرلیا جاتا ہے، جس کا وجود بجز ذہن کے اور کہیں نہیں ہوتا، گویا خدا بھی اسی طرح ہمارے دہن کا ایک خود تراشیدہ مفہوم ہے، ظاہر ہے کہ اس بنیاد پر خالق نہیں بلکہ ہمارے ذہن کی ایک خود تراشیدہ مخلوق بن جاتا ہے۔
معمار و کمہار وغیرہ کی تمثیل یا آریائی نظریہ اور اس کی لغویت:
اس سوال کے حل کی ایک راہ وہ ہے جو گذشتہ مثالوں میں دکھائی گئی، اس کے مقابلہ میں ایک دوسری جماعت ہے جو اسی مسئلہ کا جواب اس مثال سے دینا چاہتی ہے کہ جس طرح صانع مصنوعات بناتا ہے، مثلاً معمار مکان یا کمہار برتن بناتا ہے، گویا اسی طرح خدا نے عالم کو بنایا ہے، عوام کے ذہن میں عالم اور خدا کی باہمی نسبت کے متعلق کچھ اسی قسم کا خیال ہے، اس پر کھلا ہوا سوال ہوتا ہے کہ صانع مصنوع کو بغیر مادّہ کے پیدا نہیں کرسکتا، کمہار بغیر مٹی کے اور نجّار بغیر لکڑی کے کیا اپنی صنعتی قوت کا اظہار کرسکتا ہے؟ اور جب خدا اسی طرح کا صانع ہے تو اس نے بغیر مادّہ کے کسی طرح عالم کو بنایا؟ ہندو فلاسفروں کی ایک جماعت نے اسی بنیاد پر یہ مان لیا کہ ابتداء میں صرف خدا نہ تھا بلکہ خدا کی طرح مادّہ بھی خود بخود موجود تھا، اسی مادّہ سے خدا نے عالم کو پیدا کیا، آریہ کے نام سے اس زمانہ میں ہندوؤں میں جو ایک نیا فرقہ پیدا ہوا ہے اس نے قدیم ہندی فلسفہ کے اسی مکتب خیال کو اپنا مذہبی عقیدہ قرار دیا ہے۔
لیکن یہ خیال اتنا مہمل ہے کہ فلسفہ اور مذہب کی کسی جماعت میں بھی اس خیال نے اعتماد پیدا نہیں کیا، فلسفہ والے تو یہ کہتے ہیں کہ جب ابتداء میں مادّہ کو مان لیا گیا تو اب عالم کی پیدائش کے لئے خدا کا وجود فالتو ہوجاتا، اسی لئے یورپ کے مادّیّین صرف اس کے قائل ہوگئے اور مذاہب چونکہ توحید کے حامی ہیں سا لئےان کے لئے مشکل ہے کہ مادّہ کو خدا کی مخلوقیت سے نکالیں، کیونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب مادّہ ہی خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے تو مادہ کی مختلف صورتیں جس کا نام عالم ہے اس کو خدائی مخلوق کہنے کے کیا معنیٰ ہوسکتے ہیں؟ پھر قطع نظر اس کے اگر عالم اور خدا میں نسبت مان لی جائے جو صانع اور مصنوع میں ہے تو ایک مشاہدہ ہے کہ صانع یعنی معمار کے مرجانے بعد مصنوع یعنی مکان معدوم نہیں ہوتا، یعنی مصنوعات کے موجود اور پیدا ہوجانے کے بعد صانع کا وجود بے ضرورتہوجاتا ہے، پس اس نظریہ کی بنیاد پر کہ عالم کو خدا نے اس طرح پیدا کیا جیسے معمار مکان بناتا ہے، یہ لازم آتا ہے کہ پیدائش عالم کے لئے ممکن ہے کہ ابتداء میں دنیا کو خدا کی ضرورت ہو لیکن اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، حالانکہ تمام مذاہب عالم کو بہر نوع خدا کا محتاج ہر حال اور زمانہ میں قرار دیتے ہیں۔
جوابی تمثیلات سے گمراہی آئی!
وہی سوال کہ خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟ اس کے وہ جوابات تو تم سن چکے جو غیر اسلامی دائروں سے دئے گئے، اب آؤ اور دیکھو کہ قرآن اس کا کیا جواب دیتا ہے؟ قبل اس کے کہ قرآنی تصریحات کو پیش کروں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسئلہ کے اندر پیچیدگی کیوں پیدا ہوگئی؟ بات یہ ہے کہ انسان میں جہاں اور بہت سی فطری خصوصیات ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بغیر نظیر اور مثال کے کسی چیز کے ماننے میں اُسے سخت دشواری پیش آتی ہے، یوں ماننے کے لئے کہا جائے تو جبراً قہراً آدمی سب ہی کچھ مان سکتا ہے اور مان لیتا ہے، لیکن اطمینان و تشفّی کے لئے وہ نمونہ اور مثال و نظیر کا بالکلی محتاج ہے، اسی مسئلہ میں دیکھئے، واقعہ تو یہی ہے کہ مسلمان ہو یا ہندو، عیسائی ہو یا یہودی الغرض کسی مذہب کا آدمی ہو نہ تو کوئی پیدائشِ عالم کے بعد خدا کو معدوم سمجھتا ہے اور نہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ گندگیوں، نجاستوں اور عیوب و نقائص میں مبتلا ہوگیا ہے، حتی کہ آریوں کے سواء کوئی سچا ہندو بھی یہ نہیں مانتا ہے کہ مادۂ عالم کا خالق خدا نہیں ہے؛ بلکہ سب کے سب کائنات کی تمام کثرتوں کو ایک ہستئ واحد پر ختم کرتے ہیں، دنیا کے تمام مذاہب کا اس پر اتفاق ہے، لیکن اس کے باوجود جب آفرینش عالم کی کیفیت کے متعلق سوال اُٹھا تو انہوں نے غلط مثالوں اور نظیروں کے ذریعہ اس کو حال کرنا چاہا، جن سے ان پر ایسے الزامات قائم ہوگئے جن کے خود وہ قائم نہیں ہیں، ابھی ’’یجروید‘‘ کی عبارت گذری جس میں بظاہر خدا کو تخم فرض کرکے عالم کے درخت کو اس سے اُگایا گیا ہے، اس کے بعد لازم آتا تھا کہ پیدائشِ عالم کے بعد خدا غائب ہوگیا، لیکن یجروید کے اسی فقرہ کے آخر میں ’’اسی طرح وہ سب کو پیدا کرتا رہتا ہے‘‘ کا اضافہ کرکے ظاہر کردیا گیا کہ خدا عالم کو پیدا کرنے کے بعد بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح اس سے پہلے تھا۔
قرآن مجید کا خاص طریقۂ تفہیم:
لیکن قرآن نے اس قسم کے مسائل میں رہنمائی بخشنے کے لئے ایک کلیّہ ہمارے لئے پیش کردیا ہے، مشہور صوفی شاعر مغربیؔ نے اس کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے: ؎
چو نیست چشمِ دولت تا جمالاو بینی
نگرِ خوبصورت خود تا مثال او بینی
ان کا اشارہ قرآن کی اس حقیقت کی طرف ہے کہ ’’خدا نے انسان کو اپنا خلیفہ اور نمائندہ قرار دیا ہے‘‘، میرے نزدیک حدیث شریف میں اسی کی یہ تفسیر کی گئی ہے کہ خلق اللہ آدم علی صورتہ۔ (پیدا کیا اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر‘‘ واضح رہے کہ یہاں صورت سے مراد وہی ہے جو میں نے متن میں عرض کیا ہے کہ انسان اس عالم میں خدا کے افعال و صفات کا ایک نمونہ ہے نہ کہ معاذ اللہ جسمانی اور مادّی صورت کہ وہ اس سے وراء الوراء ہے، نیز حدیثوں کے سواء یہ فقرہ بائبل میں بھی پایا جاتا ہے۔ مرتب)
مطلب یہ ہے کہ خدا کے افعال و صفات کی مثال اگر مل سکتی ہے تو باہر نہیں بلکہ آدمی کے اندر کچ مل سکتی ہے، مرزا بیدلؔ نے سچ کہا ہے: ؎
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیرِ سرو و سمن در آ
تو زغنچہ کم ندمیدۂ در دلکشا بچمن در آ
خارجی مثالوں کے بجائے اپنے ذہنی تخلیقی کرشمہ میں غور و فکر کرو!
یہ اہم سوال کہ خدا نے عالم کو کس طری پیدا کیا؟ اس کے جواب کے لئے بھی بجائے بیرونی مثالوں اور خارجی نظیروں کے یہ مناسب ہوگا کہ ہم اپنے ’’تخلیقی افعال و اعمال‘‘ پر غور کریں، عام مسلمانوں نے ایک حد تک یہی کیا بھی ہے، لیکن انہوں نے خلق (پیدا کرنا) اور صنعت (بنانا) میں فرق نہیں کیا، خدا کس طرح خلق کرتا یا پیدا کرتا ہے؟ اس سوال کو انہوں نے اس مثال سے حل کرنا چاہا کہ انسان کس طرح بناتا ہے؟ اور گو خود اس کے قائل نہیں ہیں کہ عالم اور خدا میں وہ نسبت ہے جومعمار اور مکان میں ہے، (ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے اور اس کو رکھنا چاہئے کہ جس طرح عالم اپنی پیدائش میں خدا کا محتاج ہے، اسی طرح اپنی بقاء میں بھی ہر وقت ہر لحظہ وہ خدا کا دست نگر ہے) لیکن انہوں نے مثال دی ہے اس سے لازم آجاتا ہے کہ عالم صرف اپنے بننے میں خدا کا محتاج ہو، بننے کے بعد اب اُسے خدا کی اسی طرح ضرورت نہ رہی جس طرح مکان کو معمار کی نہیں رہتی ہے۔
پس اصل یہ ہے کہ اگر کوئی اس سوال کو حل کرنا چاہتا ہے تو اس پر غور کرنا چاہئے کہ انسان اپنی ’’مخلوقات‘‘ کو کس طرح پیدا کرتا ہے؟ شائد لوگوں کو تعجب ہو کہ کیا انسان بھی کوئی چیز پیدا کرتا ہے یا کرسکتا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا ان دروس کے ابتداء میں میں نے ہی آپ کو بتایا تھا کہ انسان صرف جان سکتا ہے، کسی چیز کے پیدا کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے، مگر سچ یہ ہے کہ انسان کے تمام اندرونی اور بیرونی افعال پر ابھی غور نہیں کیا گیا، یہ درست ہے کہ باہر کی چیزوں کے حساب سے انسان اُن پر صرف صنعتی عمل ہی کرسکتا ہے، قوانین فطرت کو جان کر ان کی صلاحیتوں کو کھول سکتا ہے، مثلاً وہ پتھر پیدا تو نہیں کرسکتا لیکن پتھر میں مورت یا صورت بننے کی وجہ صلاحیت ہے اُسے پتھر اور لوہے کے قوانین جاننے کے بعد ظاہر کرسکتا ہے۔
یہ تو باہر کا حال ہے (اور اسی لحاظ سے میں نے پہلے وہ بات کہی تھی) مگر اب اس کے اندرونی افعال پر غور کرو، انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اس وقت سوچو کہ وہ کیا کرتا ہے؟ دیکھو! نہ اینٹ ہوتی ہے نہ چونا نہ پتھر ہوتے ہیں اور نہ اور کچھ لیکن آدمی چاہتا ہے کہ مثلاً چار مینار (یہ حیدرآباد کی ایک مشہور تاریخی عمارت کا نام ہے، اس کی تاریخیت ہی کا یہ اثر ہے کہ سلطنتِ آصفیہ کے طلائی و نقروی سکّوں پر اسی عمارت کی تصویر طبع ہوتی ہے، طلبۂ جامعہ عثمانیہ قدرۃً اس عمارت سے مانوس ہیں، اسی لئے درس میں تفہیم کے لئے اسی عمارت کا انتخاب کیا گیا، عام ناظرین بجائے چارمینار کے کسی اور عمارت یا چیز کو فرض کرسکتے ہیں، لا مشاحۃ فی الامثال) کو (ذہن کی دنیا میں) پیدا کروں، ارادہ کرتا ہے اور چارمینار کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے اور اسی طرح اپنے علم میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر قسم کی چیزوں کو وہ پیدا کرتا ہے۔
احمقوں کا ایک گروہ ہے جو خیال کرتا ہے کہ دیکھنے کے بعد مثلاً چار کا عکس ہمارے دماغ میں چَھپ جاتا ہے اور جب ہم التفات کرتے ہیں تو وہی عکس ہمارے سامنے آجاتا ہے، لیکن کاش وہ سوچتا کہ اگر چارمینار کا عکس ہمارے دماغ میں اُترتا ہے تو انسانی بھیجے کی تشریح و تحلیل سے یہ عکس اس سے کیوں برآمد نہیں ہوتا؟ اگر واقعی دماغ میں تصویروں کے چھپنے کا سلسلہ جاری ہے تو ایک کھوپڑی کے توڑنے کے بعد یہ چاہئے کہ تصویروں کا ایک انبار ہمارے دماغوں سے اُبل پڑے، حالانکہ یہ مشاہدہ کے خلاف ہے اور یہی نہیں، انطباع کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ ایک پلیٹ یا ایک چیز پر جب کسی چیز کی تصویر چَھپ چکتی ہے تو پھر اسی پلیٹ پر اگر دوسری تصویر چھپے گی تو دونوں تصویروں کے باہمی اختلاط سے دونوں ہی کی اصل حقیقت بگڑ جائےگی، حالانکہ عالمِ خیال (یا علمی عالم) میں ہر ایک چیز دوسری سے ممتاز اور اپنی اصلی حالت میں محسوس کی جاتی ہے، یہ عجیب لوگ ہیں، اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ ہم قوتِ تخیل سے جب چارمینار کو اپنے ذہن میں پیدا کرلیتے ہیں، تو وہ اپنی وسعت کے لحاظ سے سینکروں گز لمبی چوڑی عمارت ہوتی ہے، پھر کیا چند انچ کے دماغ میں اتنی لمبی چوڑی وسعی و کشادہ عمارت سما سکتی ہے۔
پس واقعہ یہ ہے کہ چیزوں کے چھپنے اور انطباع کا قانون قطعاً ایک بازاری اور عامیانہ خیال ہے، بلکہ صحیح بات وہی ہے جیسا کہ فلاسفۂ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہوجاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شئے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے اور یہی انسان کا ’’تخلیقی عمل‘‘ ہے، تفہیم کے لئے ہم اپنی اصطلاح میں اس تخلیقی قوت کا نام ’’کُن فیکونی قوت‘‘ رکھتے ہیں، ولامشاحۃ فی الاصطلاح۔
(شیخ اکبر اپنی کتاب فصوص الحکم میں فرماتے ہیں ’’بالوھم یخلق کل انسان فی قوۃ خیالہ ما لا وجود لہ الا فیھا و ھذا ھو الامر المغام‘‘ فتوحات مکینہ اسفار اربعہ میں وغیرہ میں اس مسئلہ کی تفصیلات پڑھئے۔)
قرآن کا بیان ہے کہ اس کن فیکونی قوت سے خدا بھی اپنی مخلوقات کو پیدا کرتا ہے، ارشاد ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔ (یٰسٓ:۸۲)
اس کا کام یہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق ارادہ کیا تو اس سے کہتا ہے ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خیالی اور علمی یا ’’کن فیکونی مخلوقات‘‘ سے جس قسم کے تعلقات انسان کے ہوتے ہیں، قرآنِ پاک نے ان روابط کو خدا اور عالم کے درمیان ثابت کیا ہے، میں ان تعلقات اور نسبتوں میں سے بعض کو یہاں درج کرتا ہے۔
(۱) پہلا تعلق قرآن کا دعویٰ ہے کہ حق تعالیٰ نے عالم کو بغیر مادّہ کے پیدا کیا ہے، جیسا کہ بدیع السمٰوات و الارض کے قرآنی الفاظ کا اقتضاء یہ ہے، اسی کی تفسیر حدیث میں ہے کہ کان اللہ و لم یکن معہ شئی جس کی معنیٰ یہی ہیں کہ آسمان و زمین کچھ نہ تھے اور پھر پیدا ہوگئے۔
حاصل یہ ہے کہ ابتداء میں خدا کے سواء کچھ نہ تھا، یعنی مادہ وغیرہ کچھ نہیں تھا اور پھر خدا نے قوۃ کن سے اس عالم کو پیدا کیا، ٹھیک جس طرح ہمارے خیال (یا علم) میں کچھ نہیں ہوتا ہے، پھر محض اپنے ارادۂ کن سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطا کرتے ہیں، پس اگر خدا نے بھی ایسا ہی کیا تو اس کے سواء اور کیا کہا جاسکتا ہے؟
(۲) اسی طرح قرآن کا بیان ہے:
وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ۔ (النحل:۷۷)
یعنی موجودہ نظام عالم کی بربادی کے لئے (یا قیامِ قیامت کے لئے) پلک جھپکانے بلکہ اس سے بھی کم زمانہ کی ضرورت ہے۔
ہم بھی جب اپنے خیالی اور علمی مخلوق مثلاً اسی چارمینار کو جسے خیال میں پیدا کرتے ہیں اگر برباد کرنا چاہیں تو اس کے لئے لمح بصر (پلک چھپکانے) سے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں، صرف توجہ کا ہٹالینا کافی ہے، توجہ ہٹالینے کے ساتھ ہی ہمارے خیالی مخلوقات معدوم ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی مادّہ چھوڑنے کے بعد معدوم ہوجاتے ہیں۔
(۳) ہماری خیالی اور علمی مخلوق مثلاً چارمینار جس طرح پیدا ہونے میں ہمارے ارادہ اور توجہ کی محتاج ہے، ٹھیک اسی طرح ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقاء میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی دست نگر ہے، یہی قرآن کا بھی بیان ہے کہ خدائے تعالیٰ عالم کا صرف خالق ہی نہیں ہے بلکہ قیّوم بھی ہے، یعنی وہی اُسے تھامے ہوئے ہے (یعنی عالم اسی سے قائم ہے)۔
اگر ادنیٰ التفات اس کی طرف سے ہٹالے تو نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے گا، جیسا کہ ارشاد ہے:
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ۔ (البقرۃ:۲۵۵)
اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے(یعنی وہ مردہ مادّہ نہیں ہے)۔
قیّوم ہے، (یعنی عالم کو تھامے ہوئے ہے، ایسا خالق نہیں ہے کہ معمار مکان کا یا صانع مصنوع کا، بلکہ وہ خالقِ قیوم ہے) اُسے نہ غنودگی پکڑتی ہے اور نہ نیند چھوتی ہے، (کیونکہ اگر ایسا ہو تو نظامِ عالم قائم نہیں رہ سکتا)۔
خیال میں کسی مخلوق کو پیدا کرکے اگر کوئی انگھ جائے یا سوجائے تو اس کی یہ پیدا کی ہوئی مخلوق کیا باقی رہ سکتی ہے؟
(۴) اب اس پر غور کیجئے کہ مثلاً زید اپنی ’’کن فیکونی قوت‘‘ سے عالمِ خیال میں جس وقت چارمینار پیدا کرتا ہے کیا زید چارمینار ہوجاتا ہے، چارمینار زید بن جاتا ہے؟ ہم بالبداہۃ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، (آخر خود غور رکنا چاہئے کہ اپنے ذہن میں جو کوئی مثلاً گدھے کا تصور کرتا ہے کیا اس وقت وہ گدھا بن جاتا ہے یا گدھا وہ ہوجاتا ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، پس خالق قیوم کے متعلق بھی یہ باور کرنا کہ قیومی نسبت کی وجہ سے وہی عالم ہے اور عالم وہی ہے اپنی ہی حماقت ہے، تعالیٰ اللہ عن ذٰلک علواً کبیراً۔) لیکن اسی کے ساتھ اس کو چوئے کہ اس خیالی اور علمی چارمینار کا وجود زید کے وجود اور ارادہ سے کیا جدا ہے؟ اس کے ہونے کے معنیٰ بجز اس کے اور کیا ہیں کہ اس کا ارادہ اور اس کی توجہ اس کی طرف ہے، یہ نہ ہو تو چارمینار کی نہ دیواریں ہوں، نہ محراب اور نہ مینار ….. تو اسی طرح سمجھئے کہ نہ عالم خدا بن گیا ہے نہ خدا عالم بن گیا ہے، لیکن عالم کا وجود بجز اللہ کے وجود و ارادہ کے کچھ نہیں ہے۔
(۵) اس پر بھی غور کیجئے کہ آپ جس وقت اپنی خیالی مخلوق کو ذہن میں پیدا کرتے ہیں، کیا اپنے آپ کو اس خیالی مخلوق کے کسی فوقانی، تحتانی اور ظاہری و باطنی حصہ سے غائب پاتے ہیں؟ غور کیجئے کہ آپ جس طرح اپنے کو اس کی دیواروں کی جڑ کے پاس پاتے ہیں، اسی طرح اس کے میناروں پر بھی یقیناً پائیں گےآپ کو جو نسبت اس کے ظاہر سے ہے اس کے باطن سے بھی وہی نسبت آپ کو ہوگی، قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ خالقِ قیوم، عالم کے اوّل میں بھی ہے اور آخر میں بھی، ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، ارشاد ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۔ (الحدید:۳)
کہیں فرمایا جاتا ہے کہ خدا عرش پر ہے، کہیں ارشاد وہتا ہے کہ وہ انسان کی رگِ گردن کے پاس بھی ہے، خود ہی غور کیجئے ایک خالق اور اس کی مخلوق میں اس کے سواء اور نسبت ہی کیا ہوسکتی ہے؟ آخر آپ بھی تو اپنے آپ کو اپنے خیالی چارمینار کے کنگروں پر بھی پاتے ہیں اور اس کی دیوار کی جڑوں کے پاس بھی، پھر اگر اس عالم کا خالق اگر عرش پر بھی ہو اور آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو تو اس کے سواء اور عقل سوچ ہی کیا سکتی ہے۔
(۶) اب دیکھئے چارمینار ایک طویل و عریض عمارت ہے، آپ اپنے ذہن میں جس وقت اُسے پیدا کرتے ہیں اس کے طول و عرض کے ساتھ پیدا کرتے ہیں، اس لمبائی اور چوڑائی کے باوجود آپ اپنے کو کیا اس کے ذرّہ ذرّہ پر محیط نہیں پاتے، لیکن کیا اگر اس ذہنی چارمینار کو آپ دو حصّوں میں تقسیم کردیں گے تو اس کی تقسیم کی وجہ سے آپ کے بھی دو حصّے ہوجاتے ہیں؟ قرآن بھی یہی کہتا ہے:
أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ۔ (فصلت:۵۴) ’’اللہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
لیکن اس احاطہ کی وجہ سے خدا کی ذات میں کوئی تقسیم اور تجزّی ہرگز نہیں ہوتی۔
(۷) اسی طرح آپ اپنی ذہنی و علمی چارمینار کے کسی مینار کو توڑ دیجئے یا اس کے کسی حصہ میں کوئی گندگی اور نجاست وغیرہ مثلاً فرض کیجئے، پھر کیا اس شکست و ریخت اور اس گندگی و نجاست کا اثر آپ پر بھی مرتب ہوتا ہے؟ یقیناً نہیں! پھر اگر قرآن خدا کو عالم کی ہر چیز کے ساتھ ہر جگہ مانتا ہے، لیکن باوجود اس کے عالم کے کسی تغیّر، کسی عیب و نقص کا اثر خدا کی ذات پر نہیں پڑتا تو کیا ’’کُن فیکونی‘‘ مخلوقات کے ساتھ خالق کے تعلقات کی یہی نوعیت نہیں ہوتی؟
(۸) آپ جس وقت اپنے ذہن میں کسی پہاڑ یا کسی شہر کو پیدا کرتے ہیں، کیا اُس ذہنی خیالی یا علمی مخلوق میں کسی دوسرے کے ارادہ سے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے، غور کیجئے اس کا ہر ذرّہ آپ ہی کی مرضی اور آپ ہی کے ارادہ کا پابند ہے، دوسرے کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ۔ (یونس:۱۰۷)
اگر چھوئے اللہ تمہیں کسی ضرر کے ساتھ پھر اسے کوئی کھولنے والا نہیں، لیکن وہی اور وہ اگر ارادہ کرے تمہارے ساتھ بھلائی کا کوئی اس کی مہربانی کا پلٹانے والا نہیں۔
یعنی اس عالم کے کسی حصہ میں کوئی واقعہ بھی ہو بغیر ارادہ و اِذنِ حق کے نہیں ہوسکتا اور کسی دوسرے کا تصور یا ارادہ یا فعل اس میں قطعاً مؤثر نہیں ہوسکتا، تو کیا عقل اس کے سواء کچھ اور بھی سوچ سکتی ہے؟
(۹) آپ جب خیالی چارمینار کو پیدا کرتے ہیں تو جہاں آپ ہوتے ہیں کیا چارمینار بھی وہیں نہیں ہوتا، جب ایسا ہے تو خدا نے جب عالم کو پیدا کیا اور خدا کا اس کا خالق اور وہ اس کا مخلوق ہے تو اُس کے بعد یہ سوال کتنا بے معنیٰ ہوجاتا ہے کہ عالم کہاں ہے اور خدا کہاں ہے؟
یہ سچ ہے کہ ایک ہی نوعیت یا ایک ہی ظرف کے دو وجود یعنی دو مخلوق یا اگر دو خالق فرض کئے جاسکتے ہوں تو ایسے دو ہم ظرف و ہم مثل وجودوں کی ایک ہی فضاء یا ایک ہی مکان میں گنجائش ناقابلِ تصوّر ہے، لیکن دو ہستیوں میں ایک خالق اور دوسری مخلوق ہو تو ایسی حالت میں مخلوق کے پائے جانے کے لئے خالق کا علم و ارادہ اور اس کی توجہ ہی کافی ہوتی ہے، جب قرآن میں فرمایا گیا کہ: وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تو لوگوں کو تعجب ہوا کہ جہاں ہم ہوتے ہیں وہیں خدا کسی طرح ہوسکتا ہے؟ لیکن لوگ اپنے مخلوقات کے متعلق نہیں سوچتے کہ جہاں وہ ہوتے ہیں وہاں ان کے مخلوقات اُن سے باہر ہوتے ہیں، اسی کے ساتھ اگر آدمی اپنے ذہنی مخلوقات کے متعلق غور کرے تو کیا اپنے آپ کو ان کے نیچے یا اوپر کسی اور سمت میں پاتا ہے؟ یقینا خالق و مخلوق میں کوئی ایسی سمتی نسبت نہیں پیدا ہوتی پھر کیا ہوا اگر قرآن میں اعلان کیا گیا کہ: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ۔ یعنی ’’جدھر تم رخ کروگے وہیں خدا ہے‘‘ سوچنا چاہئے کہ آخر اس کے سواء اور کیا کہا جاتا؟
(عموماً موجودات کی تقسیم یوں کی جاتی ہے کہ ان کا وجود انسانی ارادہ اور خیال کا اگر تابع ہے، مثلاً ذہنی اور خیالی مخلوقات کا جو حال ہے انہی کا نام موجودات ذہنیہ رکھا جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے کہ ان کے وجود کا ظرف انسان کا ذہن ہے لیکن انسانی ارادہ اور خیال تابع اگر ان کا وجود نہ ہو، بلکہ حق تعالیٰ کے تخلیقی ارادہ اور ایجادی قیّومیت کے ساتھ ان کا وجود وابستہ ہو تو انہی کو خارجی موجودات کے نام سے موسوم کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کے تحقق اور یافت کا مقام و ظرف خارجی ہے، یعنی انسانی ذہن و خیال سے ان کا وجود خارج ہے، ان ذہنی اور خارجی موجودات کے سواء ایک وجود حق تعالیٰ کا ہے جو ظاہر ہے کہ خود بخود ہے اور حق تعالیٰ کے تخلیقی ارادہ کا تابع نہیں ہے، لیکن عام اربابِ فکر اس تیسری قسم سے غافل ہوکر وجود کو صرف دو ہی قسموں خارجی و ذہنی میں منحصر سمجھتے ہیں، اسی لئے خالق اور مخلوق کے وجود میں نوعیت اور ظرف و مقام کے لحاظ سے ان کو کوئی فرق نظر نہیں آتا، گویا دو مخلوق وجودوں میں جو تعلق ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ یہی تعلق خالق و مخلوق کے وجود میں بھی ہے، یہی بے تمیزی لغزش اور مغالطہ کا مقام ہے۔مرتب)
الحاصل:
خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟ وہ عالم کو کس طرح محیط ہے؟ وہ ہر چیز کے ساتھ کس طرح ہے؟ عالم کے ہر ذرّہ کی حرکت و سکون حق کے ارادہ کے ساتھ کس طرح وابستہ ہے؟ وہ اپنی مخلوقات کے ظاہر و باطن میں کس طرح پایا جاتا ہے؟ ان سارے سوالات کا حل بجائے باہر کے اگر آدمی سوچے تو خود اپنی اندر پاسکتا ہے، اور یہ مطلب ہے اس فقرہ کا کہ ’’عالم کا وجود بجز وجودِ حق کے اور کچھ نہیں‘‘، صحیح حدیث میں الا کل شیئ ماخلا اللہ باطل (ہاں! ہر چیز اللہ کے سواء ہیچ ہے) کے مصرعہ کی توثیق فرمائی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود نہ خدا عالم بنا ہے اور نہ عالم خدا بن گیا ہے، اور آپ نے دیکھا کہ خالق و مخلوق کی باہمی نسبتوں پر غور کرنے کے بعد فطرتِ انسانی اس اسلامی اور قرآنی بیان کے سواء کسی اور راہ سے کیا تسلّی پاسکتی ہے؟ اسی مسئلہ کو ’’مسئلۂ قومیت‘‘ کہتے ہیں، عارف جب اثر و مؤثر اور خالق و مخلوق میں ان نسبتوں کا مشاہدہ کرتا ہے تو چیخ اٹھتا ہے: ؎
ندیم و مطرب و ساقی ہمہ اوست
خیالِ آب و گل در رہ بہانہ (العارف الشیرازی)
یعنی آب و گل خدا کا خیالی یا تخلیقی عمل ہے، مغربی نے اور واضح لفظوں میں تشریح کی ہے، ان کی اسی غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے جس کے مطلع کا ذکر پہلے آچکا ہے، فرماتے ہیں: ؎
خیال بازئ او بیں کہ پردۂ او خیال
فگندہ بر رُخ خود تا خیال او بینی
ربوبیت:
ایسا خالق قیوم اگر اپنی مخلوقات کو دفعۃً نہیں بلکہ آہستہ آہستہ پیدا کرتا ہو، مثلاً دفعۃً درخت کو نہ پیدا کرے بلکہ تجریدی طور پر مثلاً تخم سے درخت بنائے اور درختوں میں پھل لگائے تو اب وہ علاوہ قیوم کے رب بھی ہے، ایسی صورت میں مخلوقات صرف باقی رہنے ہی میں خالق کی محتاج نہیں رہتی ہیں؛ بلکہ اپنے کمال تک پہنچنے میں بھی ہر آن و ہر لحظہ مسلسل ارادۂ کن اور فیض تخلیقی کی انہیں ضرورت ہوتی ہے اور اسی تدریجی تخلیق کی وجہ سے اُس شئے کا تخیل یا توہم ہوتا ہے، جسے ہم ’’زمانہ‘‘ کہتے ہیں جس کے متعلق فلسفیوں کو اب تک نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کیا ہے اور کس حاسّہ کے معلومات سے اس کا تعلق ہے؟ مسئلۂ ربوبیت پر غور کرنے کے اس کا سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔
(زبان کا مسئلہ فلسفہ کے مہمات شمار کیا جاتا ہے، قدیم و جدید دونوں فلسفوں میں زمانہ اور ٹائم کا مسئلہ (جذرِ اصم) بنا ہوا ہے، ارسطو کا مشہور قول ہے کہ زمانہ کا شمار ان چیزوں میں ہے جو بدیہی الانیۃ اور غریق فی النظریۃ ہیں، سب ہی جمعہ جمعرات، دن رات، صبح شام اور ماہ و سال کو جانتے ہیں لیکن جس چیز کی تعبیر ان الفاظ سے کی جاتی ہے، اس کا علم آدمی کو کس حاسّہ سے ہو رہا ہے؟ عجب سوال ہے، ظاہر ہے کہ جمعہ کو نہ آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے نہ کانوں سے سنا جاتا ہے، نہ ناک سے سونگھا جاتا ہے اور نہ ہاتھ سے چُھوا جاتا ہے، مگر باوجود اس کے سب جانتے ہیں کہ جمعہ کو ہم جان رہے ہیں۔)
راست قیّومی تخلیق معجزہ اور بواسطۂ ربوبیت کو ’’قانونِ فطرت‘‘ کہتے ہیں:
اور یہی قیّومی تخلیق جب ربوبیت کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے، تو اس کا نام ’’قانونِ فطرت‘‘ رکھ دیا جاتا ہے، پھر چونکہ اس عالم میں عموماً تخلیق کا عام طریقۂ قانون ربوبیت کے زیر اثر انجام پارہا ہے، اس لئے صرف ’’قیومی تخلیق‘‘ کے سمجھنے سے لوگ گھبراتے ہیں، مثلاً اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ لکڑی کیمیائی عمل کے بعد مٹی ہوگئی اور مٹی گیہوں اور گیہوں روٹی، پھر روٹی مرغی کا بچہ بن کر سانپ کی غذاء بنی اور اس میں سانپ کا نطفہ بن کر بالآخر وہی لکڑی سانپ کی صورت میں لہرانے لگی، تو عوام الناس کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی، لیکن اسی سلسلہ کو ربوبیت کی تدریجی منزلوں سے ہٹا کر اگر یوں کہہ دیا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ہاتھ کی لکڑی سانپ بن گئی تو بازاریوں کھلبلی مچ جاتی ہے اور ’’ناممکن‘‘، ’’ہو نہیں سکتا‘‘ کا شور افلاک تک پہنچ جاتا ہے، حالانکہ ان دونوں شکلوں میں بجز ربوبیت اور قیومیت کے اور کوئی فرق نہیں؛ بلکہ انسان اپنی تخلیقی کارناموں پر اگر غور کرے تو اُسے نطر آئے گا کہ قیومی تخلیق ربوبی تخلیق سے بدرجہا آسان اور سہل ہے، قیومی تخلیق خالق کی صرف معمولی توجہ اور التفات کی دست نگر ہے، بخلاف ربوبی تخلیق کے کہ اس میں کامل توجہ مسلسل اور غیر منقطع التفاتِ تام کی حاجت ہے، حیرت ہے کہ ربوبی تخلیق پر ہم جس ذات کو بدرجۂ اتم قادر اور مقتدر دیکھ رہے ہیں جب اُسی کی طرف کبھی کبھی قیومی تخلیق کی نسبت کی جاتی ہے تو نافہم اس کو ناممکن سمجھتے ہیں، بہر حال یہ ایک ذیلی بات تھی لیکن ضروری تھی اس لئے ضمناً یہاں اس ذکر کردیا گیا۔
چند اور ذیلی سوالات کے جوابات:
پہلا سوال:
(۱) ہمارے ذہنی مخلوقات کا وجود تو فقط ذہنی ہوتا ہے، ان کا اثر نہ ہمارے حواس پر پڑتا ہے اور نہ دوسرے اس کو محسوس کرسکتے ہیں، برخلاف خدائی مخلوقات کے کہ ان کا مشاہدہ ہر شخص کر رہا ہے؟
جواب:
مگر ظاہر ہے کہ ہماری تخلیقی قوت اتنی زوردار نہیں ہوسکتی یا نہیں ہے، جتنی خالق عالم کی ہے، اسی لئے اگر ہمارے ذہنی مخلوقات بیرونی وجود نہ حاصل کرسکیں تو یہ ہماری تخلیقی قوت کے ضعف کا نتیجہ ہے، اور یہ ضعف اس سے بھی ظاہر ہے کہ ہم عام طور پر کسی خیالی مخلوق پر چند سیکنڈ سے زیادہ اپنی توجہ کو قائم نہیں رکھ سکتے، لیکن وہ جو دیر تک کسی ایک نقطہ پر توجہ کو مرتکز کرنے کی مشق بہم پہنچالیتے ہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ بتدریج ان کے ذہنی مخلوقات بھی خارجی وجود کا بھیس بدلنے لگتے ہیں، حتی کہ دوسروں کو بھی اس کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے، مثلاً عموماً مسمریزم کی جو لوگ مشق کرتے ہیں وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے خیالی تصورات کا عکس دوسروں کے حواس پر بھی ڈال دیتے ہیں اور جو ان سے بھی قوی تر ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے لئے نہیں بلکہ اس سے زیادہ مستقل ٹھوس اور نمایاں قسم کے کام انجام دینے لگتے ہیں۔
(شیخ اکبر نصوص الحکم میں لکھتے ہیں: العارف یخلق بہمتہ مایکون لہ وجود من خارج محل الہمۃ و لکن لا تزال الہمۃ تحفظ و لایؤٗدہٗ حفظہ ای حفظ خلقتہ و متی لھو علی المعارف غفلۃ عن حفظ ما خلق عدم ذٰلک المخلوق۔ یعنی عارف اپنی ہمت سے ایسی چیز بنادیتاہے جس کا وجود خارج میں ہوتا ہے، یعنی خارجی آثار اس پر مرتب ہوتے ہیں،پھر عارف کی ہمت اور ارادہ اس مخلوق کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور اس نگرانی سے تھکتا نہیں، مگر عارف کو اگر اس کی جانب سے غفلت ہوجائے تو اس کی وہ مخلوق معدوم ہوجائے گی۔)
اس سلسلہ میں اس بیماری کا ذکر اس مسئلہ کے سمجھنے میں آسانی پیدا کرسکتا ہے جسے اطباء کا بوس کہتے ہیں، اور عموماً عنفوانِ شباب میں بعض آدمی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس بیماری میں اضطراری طور پر انسان کی تخلیقی قوت اور اس کی توجہ ایک نقطہ پر نیند میں ٹھہر جاتی ہے، جس کے بعد آدمی بے چین ہوکر بیدار ہوجاتا ہے، لیکن توجہ میں پھر بھی انتشار نہیں پیدا ہوتا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی خیالی مخلوق جسے سونے والے کے ’’کن فیکونی ارادہ‘‘ نے نیند میں پیدا کیا تھا اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے، اگرچہ دوسرے لوگ جو اس بیمار کے پاس ہوں وہ کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں دیکھتے لیکن خود یہ بیمار نہایت صفائی کے ساتھ اپنی اس ’’خیالی مخلوق‘‘ کے رنگ اور مقدار کو دیکھتا ہے، وزن کو محسوس کرتا ہے اور چلّا اٹھتا ہے کہ کوئی بھوت پریت اس کے سامنے ہے؛ حالانکہ وہ خود اس کی خیالی مخلوق ہے، اس قسم کے لوگوں کو بعض دفعہ ویرانوں اور جنگلوں میں بحالتِ بیداری بھی اسی طرح کا دورہ پڑجاتا ہے اور یہ اپنے پیدا کئے ہوئے اس بھوت سے خود ہی بھاگتے ہیں۔
دوسرا سوال:
اس سلسلہ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے خدا کو عالم کا علم کس طرح ہوا؟ حتی کہ کن فیکونی قوت سے اس کی تخلیق پر وہ قادر ہوا؟ کیونکہ جو چیز موجود نہ ہو اس کے معلوم ہونے کی کوئی نظیر ہماری سامنے نہیں ہے؟
جواب:
ظاہر ہے کہ اس سوال کی بنیاد حق تعالیٰ کے علمِ ازلی کے انکار پر مبنی ہے جس میں قادرِ ذو الجلال کو کمزور انسان پر قیاس کیا گیا ہے، گویا جس طرح انسان کسی چیز کو اس کے موجود ہونے سے پیشتر نہیں جان سکتا، سمجھا گیا ہے کہ یہی حال خدا کا بھی ہے، حالانکہ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ چیونٹی جس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتی اس پر قیاس کرکے ہاتھی کے لئے بھی اس بوجھ کا اٹھانا ناممکن بتلایا جائے، نیز یہ کلیہ بھی صحیح نہیں کہ کسی چیز کا معلوم ہونا اس کے موجود ہونے پر موقوف ہے، ہم بہت سی ایسی چیزیں سوچتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں جن کو کبھی نہیں دیکھا، مثلاً جزو کو دیکھ کر کل کے متعلق سوچتے ہیں، موجودہ عالم کو معدوم فرض کرسکتے ہیں، حالانکہ عالم کو جب ہم نے دیکھا موجود ہی دیکھا، پس ج سطرح ہم موجود کو معدوم خیال کرسکتے ہیں کیا ہوا اگر خدا نے معدوم بھی معدوم عالم کو موجود فرض کرلیا۔
اور تو یہ اجمالی جواب تھا، مسئلہ کی صحیح تحقیق کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہئے کہ جس چیز کو ہم عالم یا کائنات کہتے ہیں خود اس کی حقیقت کیا ہے؟ سنا ہوگا کہ قدیم سطحی فلسفیوں نے تمام چیزوں کی آخری حقیقت خاک و باد، آب و آتش قرار دی تھی، پھر اس خیال میں ترمیم ہوئی اور اَسّی (۸۰) یا تراسّی (۸۳) کیمیائی بسائط کا نظریہ قائم کیا گیا اور اب کہا جاتا ہے کہ تمام کائنات کی آخری تحلیل برق پاروں پر ختم ہوتی ہے، اور بعضووں نے تو اب اس کا بھی اعلان کیا ہے کہ یہاں جو کچھ ہے صرف انرجی اور توانائی کی مختلف شکلیں ہیں …… بہر حال حقیقتِ عالم کے متعلق یہاں تک سائنس والوں کی پرواز ہے۔
نیز آپ کو یاد ہوگا کہ ابتدائے درس میں میں نے فلسفیوں کے اس گروہ کا ذکر کیا تھا جو سارے عالم کو چند گنے گنائے اوصاف پر ختم کردیتے ہیں، ان کی نارنگی میں زردی، ترشی، طول و عرض وغیرہ چند صفات کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا، وہ شجر و حجر، ثوابت و سیارات اور شمس و قمر سب کو صرف رنگ و روشنی کے مختلف مظاہر سمجھتے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ان دو صفتوں یعنی رنگ و روشنی کو عالم سے سلب کرلو تو پھر آنکھ کے لئے یہاں کچھ بھی نہیں رہتا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ رنگ بھی بالآخر روشنی ہی کے چند بھیسوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
الغرض کثرت کی ان گوناگوں اور لامحدود موجوں کو جن کا دوسرا نام کائنات یا عالم ہے وحدت کے سمندر میں گُم ہوتے ہوئے وہ بھی پاتے ہیں جنہوں نے واقعتاً اب تک کچھ نہیں پایا ہے، لیکن جس شخص کی پہلی یافت الحمد للہ رب العالمین کی ہو اور جو اس حقیقت کو سمجھ چکا ہو کہ اس عالم میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اصلاً نہ تھی بلکہ یہاں ساری ’’نمود‘‘ ’’بود‘‘ ہی کی ہے اور اس عالم میں جہاں کہیں جو کمال اور جو صفت ج سشکل میں بھی نظر آتی ہے وہ اس کا ذاتی کمال یا صفت نہیں بلکہ سب رب العالمین کے شئون، صفات و کمالات اور حسنات کی مختلف شانیں ہیں جو مختلف مدارج کے لحاظ سے مختلف پیمانوں پر نمایاں ہورہی ہیں، پس جس نے اس حقیقت کو پالیا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ عالم کی پیدائش کے لئے عالم کے جاننے کی ضرورت نہیں بلکہ حق تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات کا جاننا اور ان کا علم بس یہی کافی ہے کہ یہی کمالات و شئون اور صفات در اصل عالم کی حقیقتیں ہیں۔
الغرض ظاہر ہے کہ ازل میں خدا تھا اور خدا کے ساتھ اس کے لامحدود کمالات و صفات تھے، وہ ان تمام چیزوں أذات و صفات) کا عالم تھا، پس اس نے اپنی جن صفات کو جس پیمانے پر جن دوسرے صفات کے ساتھ جس ترتیب کے ساتھ تصور کیا (اسماء و صفات کی باہمی ترکیبوں سے لاتعداد و لا تحصٰی جو صورتیں علم الٰہی میں پیدا ہوئیں انہی کا نام اعیانِ ثابتہ اور اسمائے کونیہ وغیرہ ہے، کن فیکونی قوت کے زیرِ اثر آنے سے پہلے اجمال و تفصیل کے حساب سے علمِ الٰہی کی ان صورتوں کے جومراتب فرض کئے جاسکتے ہیں انہی کی تعبیرِ علمی تصوف میں احدیت، وحدیت اور واحدیت وغریہ اصطلاحی الفاظ سے کی جاتی ہے، لیکن ان اصطلاحات سے واعات کے سلجھانے میں بظاہر کوئی مدد نہیں ملتی، اس لئے میں نے ان غیر ضروری تفصیلات کا ذکر بھی غیر ضروری خیال کیا) اور جب اور جس وقت چاہا اس تصور کو کن فیکونی قوت سے خلق و آفرینش کا رنگ دے کر ظاہر فرمایا تو اس کے لئے خدا کا خود اپنی ذات و صفات کا علم یقیناً کافی ہے، گویا بقول عراقیؒ باہر سے نہیں بلکہ پیدائشِ عالم کے لئے: ؎
نخستیں بادہ کا ندر جام کردند
ز چشمِ مست ساقی وام کردند
یعنی خود ساقی کی چشمِ مست سے وام و قرض لیا گیا۔
قرآن نے اسی مسئلہ کی طرف اپنی مشہور آیت اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ میں اشارہ کیا ہے، نیز مشہور حدیث ہے:
كنتُ كنزاً مخفياً فأحببتُ أنْ أعرفَ فخلقتُ الخلقَ لأعرفَ ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ جانا جاؤں، تو پیدا کیا میں مخلوقات کو، ضرور میں پہچانا گیا۔
مطلب یہ ہے کہ اسماءِ حسنیٰ جس قدوس و سبوح کے ساتھ مخصوص ہیں اور جس کے کمالات یا کلمات کے لکھنے کے لے نہ سمندر کا پانی اور نہ دنیا کے درخت کافی ہوسکتے ہیں اور جس کے متعلق خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہوا: لا احصی ثناً لک انت کما اثنیت علی نفسک۔ یعنی تیری خوبیوں کو میں تو گن نہیں سکتا، بس تو ایسا ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے متعلق فرمایا ہے۔
پس اسی حیّ و قیّوم نے اپنے غیر محدود اسماء اور بے شمار صفات کو جب اپنا غیر فرض کیا تو اسی کا نام عالم ہوگیا، اگر چہ حق تعالیٰ مثل سے پاک ہے لیکن صرف سمجھنے سمجھانے کے لئے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح کبھی کبھی شاعر اپنی بینائی کو نرگس میں، گویائی کو سوسن میں، شنوائی کو غنچہ میں، حسرت و درد کو لالہ میں، اپنے استقلال کو ساحل میں اور بے چینی کو دریا میں فرض کرتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ کبھی کبھی تنہائی میں خود اپنی ذات کو اپنا غیر اعتبار کے گھنٹوں اس سے سوال و جواب بھی کیا کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ اپنی ذات و صفات کے متعلق اس عمل کرنے سے ہماری ذات یا صفت میں کوئی عیب یا نقص نہیں پیدا ہوجاتا، مثلاً اگر ہم کسی میں اپنی صفت بینائی فرض کریں تو اس فرض کی وجہ سے میری بینائی میں تو کوئی کمی پیدا نہیں ہوجاتی، پھر اگر غیر محدود اسماء و شیون، صفات و کمالات والے نے مختلف مدارج کے لحاظ سے ان کو اپنا غیر فرض کیا تو اس سے ذاتِ حق کی طرف کیا نقص عائد ہوتا ہے؟ کیا اس میں کوئی کمی پیدا ہوتی ہے؟ البتہ اتنافرق ضرور ہے کہ ہماری ارادہ قوت اور کن فیکونی طاقت چونکہ کمزور ہوتی ہے اس لئے ہمارے مفروضات صرف مفروضات بن کر رہ جاتے ہیں اور ان سے واقعی آثار کا ظہور نہیں ہوتا، مثلاً ہم آگ کو اپنے ذہن میں پیدا کرلیتے ہیں لیکن اس سے سوزش اور روشنی کے آثار ظاہر نہیں ہوتے، برخلاف حق تعالیٰ کے کہ اپنی جس صفت جس کمال کے جس درجہ کو جس جگہ جس مقدار میں فرض فرماتے ہیں، اسی حد تک ان کا یہ فرض خلق اور آفرینش بن جاتا ہے، مثلاً جس میں اپنی صفتِ حیات جس مقدار میں فرض کرتے ہیں وہ اسی حد تک زندہ ہوجاتی ہے اور جس میں علم فرض کرتے ہیں اس میں علم پیدا ہوجاتا ہے، ….. الیٰ غیر ذٰلک، بہر حال ان کے مفروضات مخلوقات بن جاتے ہیں اور ان سے واقعی آثار کا ظہور ہونے لگتا ہے۔
الحاصل ’’عالم کو خدا نے کس طرح پیدا کیا؟‘‘ اس کا جواب تو مسئلہ قیّومیت تھا۔
تیسرا سوال:
خدا نے عالم کو کس چیز سے پیدا کیا؟
جواب:
اب ایک اور دوسرا مستقل سوال ہے کہ خدا نے عالم کو کس چیز سے پیدا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کثرت کی بنیاد ان غیر متناہی اسماءِ حسنیٰ اور بے شمار کلمات پر قائم ہے جو ہر لحظہ و ہر آن کل یومٍ ھو فی شأن کے سرچشمۂ جلال سی اُبل رہے ہیں، بقول جامیؔ ؎
زاں سایہ کہ افگندی بر خاک گہ جلوہ
دارند ہمہ خوباں سرمایۂ زیبائی
اسی کی طرف مغربی نے بھی اشارہ کیا ہے ؎
ز دریا موج گوناگوں بر آمد
ز بے چونی برنگ چوں بر آمد
گہے در کسوتِ لیلی فرو شد
گہے در صورتِ مجنون بر آمد
رہ گئی یہ بات کہ عالمِ کثرت کی کونسی چیز حق تعالیٰ کی کس صفت اور کس اسم کی آئینہ بردار ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا بتانا آسان نہیں ہے، کامل طور پر اس کا علم اسی کو ہوسکتا ہے جو اسماءِ حسنیٰ میں سے ہر اسم کے ہر درجہ کا علم رکھتا ہو اور اسی طرح عالم کی بھی ہر چیز کی آخری حقیقت کی معرفت بھی اُسے حاصل ہوئی ہو ………. میں بتا چکا ہوں کہ علم و معرفت کا یہ وہ مقام ہے کہ جہاں انسانیت کی آخری رسائی (یعنی ذاتِ اقدس رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی ما عرفناک حقَّ معرفتک کا اقرار کیا ہے۔ ؎ ’’تا بہ دیگراں چہ رسد‘‘
ایک عامی انسان کی لذت پذیری کے لئے معرفت کی یہ اجمالی روشنی بھی ؎
دیدہ آئینہ دارِ طلعتِ اوست
دل سرا پردۂ محبت اوست
کا حال پیدا کرنے کے لئے کافی ہے، تفصیلی طور پر سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن حواس ظاہر یا باطنی سب پر ’’ہر جا کہ نظر کردم سیمائے قومی بینم‘‘ کی خنگ اور شیریں موجیں ٹکراتی رہتی ہیں۔ (حقیقت تو یہ ہے کہ جب تحلیل و تجزیہ کے بعد عالم کی تعمیر کا آخری سرمایہ صرف صفات و اسمائے حق ٹھہر تے ہیں، پھر انہی کی باہمی ترکیب سے جو مختلف صورتیں عالم الٰہی میں مرتب ہوئیں حق تعالیٰ اپنے انہی معلومات کی شکل میں متجلّی ہوا ہے، مظاہر تو حقائق عالم ہیں لیکن ظاہر اس میں خود ذاتِ حق ہے، علی الخصوص جب خالق کسی شعوری مخلوق کی شکل میں ظاہر ہو اور اسے اپنی کن فیکونی مخلوق بنائے تو ایسی مخلوق کے شعور سے عالم کا علم جدا نہیں ہوسکتا، اسی لئے صوفیہ کے نزدیک حق کی یافت کی قریب ترین شکل یہ ہے کہ اپنے ’’انا‘‘ میں ان کےشعور کو بیدار رکھا جائے، اجمالاً اس کا شعور اگرچہ ہر عامی کو ہوتا ہے اسی لئے حق تعالیٰ کو مخاطب کرنے کے لئے اپنی شعوری توجہ کو ہر شخص کافی سمجھتا ہے، لیکن صوفیہ اسی اجمال کی تفصیل کی مشق کرا کے دوامِ حضور کے مقام پر مرید کو پہنچادیتے ہیں۔ حدیث انت الاولیٰ فلیس قبلک شیئ و انت الآخر فلیس بعدک شیئ انت الظاہر فلیس نوتک شیئ و انت الباطن فلیس دونک شیئ یعنی تو ہی پہلے ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ہے، تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں ہے، تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کچھ نہیں ہے اور تو ہی باطن ہے تیرے آگے کچھ نہیں ہے، یا حدیث احفظ اللہ تجدہ تجاھک یعنی خدا کو یاد رکھو اُسے اپنے سامنے پاؤگے، وغیرہ میں انہی اعتبارات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)
اور قرآن کی تعلیم کا سب سے پہلا ابتدائی سرا ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ جو بہتوں کے لئے تقلیدی معرفت کی حیثیت رکھتا ہے، مگر جاننے والوں کے لئے حقیقت کے آغاز کا ابتدائی نقطہ یہی ہے، جس نے یہ پالیا وہ انشاء اللہ آخر تک پاتا چلا جائے گا، لیکن جسے الفاظ کے علاوہ قرآن کی اس اساسی و افتتاحی تعلیم میں معنیٰ کا کوئی حصہ نہ ملا مشکل سے آئندہ بھی اُسے کوئی ایسی چیز مل سکے گی جس کا ملنا دراصل ملنا ہے، بہر حال بجائے تفصیل کے اس مسئلہ میں ہمارے لئے اجمال بھی بہت کچھ ہے، تاہم اس اجمال کے باوجود صفاتِ الٰہی کے ظہور کی دو کلی شکلوں کی طرف قرآن میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، صوفیہ اسلام کی اصطلاح میں اسی کی تعبیر آفاق و انفس سے کی جاتی ہے۔
آفاق و انفس:
درحقیقت ان دونوں اصطلاحوں کا مأخذ بھی قرآن ہی کی وہ مشہور آیت ہے جس میں حق تعالیٰ نے اپنی نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ۔ أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ۔ (فصّلت:۵۳،۵۴)
میں اپنے اپنے لوگوں کو آفاق اور انفس میں دکھاؤں گا، یہاں تک کہ کھل جائے گا ان پر کہ وہی خدا حق اور ثابت ہے، کیا تمہارے رب کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے، خبردار! یہ لوگ اپنے مالک کی ملاقات میں شک کے اندر ہیں، خبردار! وہ ہر چیز کو محیط ہے۔
اربابِ معرفت نے گذشتہ بالا آیات میں آفاق سے مراد کائنات کا وہ عریض و طویل سلسلہ لیا ہے جو انسان کے باہر ثوابت و سیّارات، نباتات و جمادات، حیوانات و ملائکہ اور جن و شیاطین وغیرہ کی شکل میں پھیلا ہوا ہے، اور انفس سے مراد خود انسان کی حقیقت اور اس کی ذات ہے، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات اللہ کی تجلی ان دونوں چیزوں میں دو جداگانہ حیثیتوں سے ہوئی ہے۔
(یہاں تصوف کی ایک اصطلاح لفظ تجلی کو سمجھ لینا چاہئے، عالمکا اپنے معلومات کی شکل میں ظاہر ہونا، مثلاً حضرت جبرئیل علیہ السلام کبھی حض دحیہ کلبیؓ صحابی یا مسافر یا رجل سولی کی شکل میں جو ظاہر ہوتے تھے اس کی حقیقت یہی تھی کہ اپنے معلومات کی شکل میں وہ ظاہر ہوتے تھے، آدمی بھی جب اپنے ذہن میں اپنے کسی معلوم کو خیالِ عالم میں پیدا کرتا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ معلوم کی شکل میں وہ متجلّٰی ہوا، ظاہر ہے کہ عالمِ خیال میں گدھے کا تصور مثلاً قائم کرتا ہے اس وقت وہ گدھا نہیں ہوجاتا بلکہ صرف اسی کا ظہور اپنے ایک معلوم کی شکل میں ہوتا ہے، عالم کی مختلف چیزوں کی شکل میں حق کے ظہور اور تجلی کو بھی کچھ اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔)
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اسماءِ حسنیٰ کی ایک تفصیلی جلوہ گاہ وہ ہستئ اعظم ہے جسے اصطلاح میں شخصِ کبیر کہتے ہیں، جس میں حق تعالیٰ اپنے تمام اسماء و صفات کے مختلف مدارج کے لحاظ سے جلوہ فرما ہوئے ہیں، اسی کا نام عالم اور آفاق ہے، اور اسی شخصِ کبیر نے چھوٹے پیمانے پر بطورِ خلاصہ کے دوبارہ جب اختیار فرمایا گیا اور اسی کو مجمل و مختصر کرکے ایک اور ہستی نکالی گئی تو اسی کا نام انسان اور انفس ہوگیا، اس چھوٹی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو اس سے باہر ایک ایک چیز میں جدا جدا پایا جاتا ہے، اسی بنیاد پر جدید زمانہ ہو یا قدیم ہمیشہ انسان ’’خلاصۂ کائنات‘‘ یا باصطلاحِ حال ’’ارتقاء کی آخری منزل‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
تصوف کی کتابوں میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے کہ کس طرح اس چھوٹے پیمانے میں وہ سب چیزیں اُتر آئی ہیں جو وسیع سے وسیع تر پیمانوں پر عالمِ کبیر میں پائی جاتی ہیں، کم از کم اتنا تو ہر عامی بھی جانتا ہے کہ انسانی وجود ان تمام خواص و آثار کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جن کے مظاہر عام طور پر جمادات و نباتات اور حیوانات وغیرہ مرکبات ہیں، اسی طرح کون نہیں جانتا کہ انسان سے باہر اگر مٹی ہے، پانی ہے، ہوا ہے اور حرات ہے تو تاریخ کے نامعلوم زمانہ سے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری جسدی ترکیب میں بھی یہ سباری چیزیں شریک ہیں، اور جب یہ ہیں تو جن کیمیائی بسائط سے ان عناصر کی ترکیب ہوئی ہے کیا کوئی اس کا انکار کرسکتا ہے کہ وہ بھی انسانی بدن کے اجزاء نہیں ہیں، بلکہ عہدِ جدید کے کیمیائیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جتنے کیمیائی بسائط انسان سے باہر پائے جاتے ہیں ان کا ایک بڑا حصہ ہماری جسدی تعمیر میں خرچ ہوا ہے، البتہ بعض بسائط کا اب تک ان کو پتہ نہیں چلا ہے، لیکن جو معلوم نہیں ہیں کیا ضروری ہے کہ وہ موجود نہ ہوں، بہر حال کم از کم ہر شخص اتنا تو ضرور جانتا ہے کہ انسانی وجود ان تمام خواص و آثار کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو عام طور پر حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔
الحاصل جمادات ہو یا معدنیات، نباتات ہو یا حیوانات بلکہ وہ ساری چیزیں جو جو اس کی گرفت میں آسکتی ہوں کون نہیں جانتا کہ انسانی ہستی (وجود) ان تمام طبقاتِ محسوس کے آثار و خواص کی ’’کتابِ مجمل‘‘ اور ’’نسخۂ جامع‘‘ ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ علاج و معالجہ اور طبی دواؤں کی بنیاد عالمِ صغیر و کبیر کی اسی باہمی مناسبت پر قائم ہے، حتٰی کہ وہ نورانی اجرام جو ایتھر کے لامحدود سمندر میں تیر رہے ہیں یا جو ان کے پیچھے ہیں گو عوام الناس کو اس کا علم نہ ہو لیکن جن لوگوں نے انسان کے باطنی قویٰ کو کریدا ہے انہیں اس چھوٹے قالب میں عالمِ انوار کے وہ سارے نظامات منکشف ہوئے ہیں جو اس سے باہر پائے جاتے ہیں۔
الحاصل صفاتی لحاظ سے جن جن چیزوں کا مظاہرہ آفاق میں ہوا ہے انفس میں کسی نہ کسی طرح وہ سب چیزیں کسی نہ کسی پیمانے میں ضروری پائی جاتی ہیں، صفیہ کے نزدیک بھی یہی مطلب ہے، قرآن کی اس آیت کا جس میں حضرت آدم علیہ السلام کےمتعلق ارشاد ہوا کہ لما خلقت بیدی یعنی میں نے آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔
بالفاظِ دیگر اپنے تمام صفاتِ جلالی و جمالی اور سلبی و ایجابی کا اُسے مظہر بنایا ہے، لیکن یہ صرف صفات کی حد تک بات تھی، الحاصل آفاق میں بھی انہی صفات کو فرض کرکے کُن فیکونی عمل کے زیرِ اثر ایجاد کا رنگ بخشا گیا اور پھر چھوٹی تقطیع پر اس عمل کا ظہور انفس میں بھی ہوا۔
خلافت:
اب صرف ایک بات رہ گئی کہ اب تک خدا نے اپنے اسماء و صفات کو اپنے سے باہر فرض کیا یا پیدا کیا لیکن خود اپنی ذات کو اپنی غیر فرض کرکے کوئی مخلوق نہیں بنائی، یہی وہ ارادہ تھا جس کااعلان ملائکہ کے سامنے ازل میں إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً سے کیا گیا اور یہی ہوا کہ صفات کےاس نسخہ جامعہ میں یا عالمِ صغیر میں خود اپنے آپ کو اپنا غیر فرض کرکے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي کا اعلان کیا گیا اور جمادات سے لے کر ملائکہ تک کو اس کے آگے جھکنے کا حکم ہوا، اور اب جاکر پیکرِ آدم احسن تقویم کے سانچے میں ڈھل کر خدا کا خلیفہ بن کر آیا، یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس کا پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے، یعنی خلق اللہ اٰدم علی صورتہ (پید کیا آدمؑ کو اللہ نے اپنی صورت پر)۔
پس شخصِ کبیر یا آفاق کے لئے جس طرح ایک روح نقطۂ مرکزی یا انا (خدا) تھا اور ہے اسی طرح اس شخص صغیر میں بھی ایک ایسا شعوری نقطہ پیدا ہوگیا جس کو ہر شخص ہم میں سے اَنا یا میں وغیرہ، الفاظ سے تعبیر کرتا ہے، جس میں وہ سارے شیون و اوصاف ہیں جن پر شعوری یا غیر شعوری طور پر الوہیت کا دھوکہ ہوتا ہے اور خدا جانے کتنوں کو ہوا ہے۔
انسانیت کا یہی بلند مقام ہے جس کی بلندی کا اظہار روم کے عارف نے ان لفظوں میں فرمایا:
منِگر بہ ہر گدائے کہ تو خاص ازانِ پاکی
مَفروش خویش ارزاں کہ تو بس گراں بہائی
بعصا شکاف دریا کہ تو موسئِ زمانی
! بدر آں قبائے مہ را کہ تو نورِ مصطفائی
بخراش دستِ خوباں کہ تو یوسفِ جمالی
چو مسیح دم فرو دم کہ تو نیز ازاں ہوائی
بصف اندر آئی تنہا کہ سفندیار وقتی
درِ خیبر است برکن تو علِّ مرتضائی
چو خلیل رَو در آتش کہ تو خالصیّ و دل کش
چو خضر بہ آب حیواں کہ تو جوہرِ بقائی
بگسل ز بے اصولائی مشنو فریبِ غولاں
کہ تو آں شریفِ اصلی کہ تو از بلند جائی
تو ز نور لایزالی ز د رُو نہ خوش جمالی
تو ز فیضِ ذو الجلالی کہ تو پرتوِ خدائی
تو ہنوز ناپدیدی کہ جمال خود نہ دیدی
سحرے چو آفتابی ز درونِ خود برائی
تو ز خاک سر بر آور کہ درخت بس بلندی
تو بپر بکوہِ وحدت کہ شریف تر ہمائی
توئی آں دُرے کہ فانی دوہزار بحر در تست
توئی بجز بیکرا نہ ز صفاتِ کبریائی
(منقول از دیوان مولانا رومیؒ کہ مشہور بہ دیوان شمس تبریز است)

حقیقتِ محمدیہ:
یہی خلافتِ الٰہیہ ہے جس کا انسان مظہر ہے، لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ شیونِ الٰہی اپنے مدارج کے لحاظ سے غیر محدود ہیں، اسی طرح خلافت عامہ تو ہر انسان کو حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ مدارج کے اختلاف نے اس کو بے شمار افراد میں بانٹ دیا ہے، تاہم عقل یہ تجویز کرتی ہے کہ خلاف کے درجات کو مکمل ہوتے ہوئے بالآخر ایک ایسی ہستی پر ختم ہونا چاہئے جو تمام اسماء و صفات اور ذات کا مظہرِ اتم ہو، اور وہی ’’دُرِّ فرید‘‘ نوع انسانی کا کامل ترید فرد ہو بلکہ تکوین و تخلیق کا آخری نتیجہ قرار پاسکتا ہے، کائنات کے ارتقائی درجات و طبقات کی رفتار کو دیکھ کر نہ صرف وجدان و بصیرت والے بلکہ عقلی روشنی کے سہارے چلنے والوں نے بھی کبھی کبھی اس فردِ کامل کو انسانیت کی طویل الذیل تاریخ میں تلاش کیا ہے، حتی کہ متأخرینِ فلاسفہ میں جرمنی کے مشہور مفکر نیٹشے نے تو اپنے سارے فلسفہ کی بنیاد ہی ارتقاء کی اسی آخری تقویم یا قالب کی تلاش پر رکھ کر مافوق البشر کا نظریہ قائم کیا، لیکن جس مسئلہ میں عقل سے زیادہ نورِ ایمان کی روشنی درکار ہے وہاں صرف عقلی احتمالات سے کسی یقینی نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہے۔
کاش اُسے معلوم ہوتا کہ اس سے بہت پہلے آسمانی آواز نے خُلق عظیم والے کو عالمین (سارے جہاں) کے لئے رحمت بناکر دنیا میں یہ کہتے ہوئے متعین کردی ہے کہ وہی کمالات انسانی جو رفتہ رفتہ ارتقاء پاکر نبوت و رسالت تک پہنچتے ہیں اب نبیوں کے انہی کمالات کا خاتمِ نسل آدم میں آکر سارے اسماء و صفات کے تخلیقی دائرہ کا انتہائی اور آخری نقطہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ظاہر ہوگیا اور یوں عالمین کے رب کی ساری حمد، ساری ستائش اور سارے کمالات مخلوق بن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر میں مکمل ہوگئے ……. اسی لئے کہا جاتا ہے کہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف نام ہی نہیں بلکہ قدرت کا آخری کام بھی ہے۔
ایمان کی اہمیت*حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ ›فہرست‹ محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)*حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ
محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)
حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ

ذاتِ نبویؐ کے امتیازی شرف سے جدید تعلیم یافتوں کے بے اعتنائی:
جو طباع زمانہ کے جدید رنگ کے رنگے ہوئے ہیں ان میں یہ کوتاہی مشاہد ہے کہ وہ جناب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اسی قدر دلچسپی رکھتے ہی کہ دوسری اقوام یا مذاہب سے مقابلہ کے موقع پر آپؐ کی سوانح عمری یا آپؐ کے بعض اقوال و افعال کی حکمتوں میں صرف وہ حصہ جس کو تمدّن سے تعلق ہے محض اسی غرض سے بیان کرتے ہیں آپؐ عظمت اور آپ کے قانون کی عزت (برتری) ظاہر ہو، اور اس کو اسلام کی خدمت اور آپ کے ادائے حقوق کے لئے کافی سمجھتے ہیں، باقی نہ اتباع کو ضروری سمجھتے ہیں، نہ محبت کا کوئی اثر پایا جاتا ہے، بلکہ اتباع کو تعصب اور محبت کو وحشت سمجھتے ہیں، اور سبب خفی اس کا یہ ہے کہ زمانہ میں سب سے بڑا مقصد جاہ و عزت کو قرار دیا گیا ہے جس کے مطلوب ہونے کا ہم کو بھی انکار نہیں، مگر کلام اس میں ہے کہ آیا وہ مطلوب بالعرض ہے یا خود مطلوب بالذات؟ بہر حال چونکہ اس کو مطلوب بالذات سمجھا جاتا ہے اس لئے نبی اقدس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لاتعدد و لاتحصیٰ (اَن گنت) کمالات حقیقیہ عظمۃ الشان میں سے ان کی نظر اسی کا انتخاب کرتی ہے اور دوسرے کمالات مثل محبت الٰہی، خشیت، زہد، صبر، تربیتِ روحانی اور مجاہدہ و شغل بحق اور دیگر فضائلِ علمیہ و عملیہ کا کبھی ان کی زبان پر نام بھی نہیں آتا، جس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ گویا آپ اسی غرض کے لئےمبعوث کئے گئے تھے کہ ایک جماعت کو قوم بناکر اس کو دینی ترقی کے وسائل کی تعلیم فرمائیں، تاکہ وہ دوسری قوموں پر سابق و فائق (یعنی سبقت لیجانے والی اور غالب رہنے والی) رہ کر دنیا میں شوکت کےساتھ زندگی بسر کرسکے،کیا قرؤن مجید اور حدیث میں گہری نظر رکھنے والا آپؐ کی تعلیم کا یہ خلاصہ نکال سکتا ہے؟
ان لوگوں میں متابعت و محبت کا وجود نہ ہوتا تو ظاہر ہی ہے، نظرِ عمیق سے دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی عظمت جو آپؐ کے حاملِ وحی ہونے کی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے، (جس کو قرآن نے یُوْحٰی اِلَیَّ کا ایسا امتیاز قرار دیا جس میں قیامت تک غیر نبی شریک نہیں ہوسکتا اور جس امتیازِ خاص ہی کی وجہ سے انسانیت اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور ابدی، غیبی حقائی سے واقف ہوسکی، ورنہ انسان ایک متمدّن حیوان کی سطح سے ایک انچ آگے نہ برھ سکتا۔ مرتب) اس کا احتمال بھی ان کے ہاں نہیں پایا جاتا، ان لوگوں کی تقریر و تحریر میں نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قلوب میں آپؐ کی جو عظمت ہے وہ اس حیثیت سے (ہے ہی) نہیں بلکہ ایک حکیمِ تمدّن ہونے کی حیثیت سے ہے اور صرف حکیمِ تمدّن ہونے کے اعتبار سے جو اعتقاد و عظمت ہوتی ہے وہ اتنی ہی ہے جتنی کہ کسی ذی رائے انسان کی رائے سن کر ہوتا ہے۔
(اس کا ضرر یہ ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات (حکمِ شریعت) کے قبول کرنے میں یا اس کو وقعت کی نظر سے دیکھنے میں جب تک اس کی مصلحت (اپنی عقل نارسا کو) معلوم نہ ہو سخت تردد اور خلجان رہتا ہے اور اس پر عمل کرنے میں ایک قسم کی تنگی، جبر اور تحکم کا سا اثر رہتا ہے، اور دوسروں کے سامنے اس کا دعویٰ کرنے میں ایک گونہ خجلت اور بے وقعتی کی سی کیفیت رہتی ہے؛ بلکہ کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح اس کا شرعی ہونا ہی ثابت نہ ہو، یا کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وقتی ضرورت و مصلحت کا دعویٰ کردیتے ہیں، غرض ہزار حیلے نکالے جاتے ہیں اور اگر ماننا ہی پڑگیا تو اعتقاد اور خوشدلی سے نہی بلکہ بدنامی سے بچنے یا قومی ضرورت کے ماتحت یا مذہبی مجبوری سمجھ کر مانتے ہیں اور یہ وہ مراتب (انکار و قبولیت کے) ہیں جو کم و بیش کفر سے ملے ہوئے ہیں۔حضرت تھانویؒ)
بیان بطرزِ اہلِ اَسرار:
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا راز حضراتِ صوافیہ و اہلِ اسرار رحمہم اللہ کے طرز پر بیان کروں گا، کیونکہ حقیقت کو انہیں حضرات نے خوب سمجھا ہے اور لوگ تو الفاظ ہی میں ہیں اور یہ لوگ اسرار سمجھتے ہیں، مگر اس سے یہ نہ سمجھیں کہ وہ مضمون اہل اسرار کا مخترع (خود ساختہ) ہوگا اور کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوگا، یاد رکھو! کہ یہ حضرات جو کچھ سمجھتے ہیں کتاب و سنت ہی سے سمجھتے ہیں، اگر کتاب و سنت سے خارج کوئی شئے ہوگی تو وہ خود مردود ہے۔
نورِ محمدیؐ کے دو گونہ برکات:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےنورِ مبارک کے برکات دوم قسم پر ہیں، ایک صوری، جو کہ اشیاء کے وجود و ظہور سے تعلق رکھتی ہیں، دوسرے معنوی، جو ان اشیاء میں خاص اہلِ ایمان کے صدور (سینوں) کے متعلق ہیں۔
ظہور کے متعلق تو آپؐ کے نورِ مبارک کی برکت یہ ہے کہ تمام عالم کا وجود آپ کے نور سے ہوا اور لوگ آج کل اسی کو زیادہ بیان کرتے ہیں، صدور (سینوں) کے متعلق آپؐ کے برکات یہ ہیں: ایمان و معرفتِ الٰہی سب کو آپؐ ہی کے واسطہ سے حاصل ہوئی، ان برکات کو آج کل لوگ کم کیا بیان ہی نہیں کرتے، بلکہ چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ زیادہ ضروری اسی کے بیان کرنے کی ہے، کیونکہ جو اثر آپؐ کے نور کا ظہور کے متعلق ہے اس کے آثار تو محسوس ہیں اور جو اثر صدور کے متعلق ہے اس کے آثار یعنی خاص ثمراتِ مقصودہ وہ قیامت اورجنت میں معلوم ہوں گے، یہاں ان سے ذہول ہے، نیم وہ رتبہ میں بھی اعظم ہیں، اس لئے زیادہ ضرورت اسی کے بیان کرنے کی ہے، کیونکہ ظہور پر تو صرف اسی قدر اثر ہوا کہ ہم موجود ہوگئے مگر صرف موجود ہوجانے سے کچھ زیادہ فضیلت نہیں حاصل ہوسکتی، پوری فضیلت تو ایمان و معرفتِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انسان کو حیوانات پر شرف ہے، تیسرے یہ جو اثرات نورِ مبارک کے ظہور پر ہوئے وہ متناہی اور محدود ہیں، کیونکہ موجودات اپنی ذات کے اعتبار سے متناہی ہیں اور صدور (سینوں) پر جو اثر ہوا وہ غیر متناہی ہے، کیونکہ معرفتِ الٰہی کے مراتب اور ان کے ثمرات غیر متناہی ہیں، پس آپ کے نورِ مبارک کے یہ برکات زیادہ بیان کرنے کے قابل ہیں۔
حیاتِ نبویؐ کی عظمت:
لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ۔ (الحجر:۷۲) یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی حیات اور جان کی قسم ہے، وہ قوم لوط اپنی مستی اور نشہ میں بھٹک رہے تھے، ….. مضمون تو صرف اتا ہے، اب میں اس سے اپنا مقصود عرض کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس قسم سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی حیاتِ شریف کی عظمتِ شان بیان فرمادی ہے، سبحان اللہ! بیان بھی فرمائی تو ایسے طرز سے کہ سننے والوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قومِ لوط کی حالت کو بیان کرنا ہے، مگر اس کے ضمن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت کو عجیب انداز سے بیان فرماگئے ؎
خوشتر باشد کہ سرِّ دلبراں
گفتہ اید در حدیثِ دیگراں
طالب کے لئے تو اندازِ بیاں کافی ہے اور آپؐ کی محبوبیت اس پر عیاں ہوگئی اور جو ناقدر اور غیر طالب ہے اس کو التفات بھی نہ ہوگا کہ کیا بات کہہ دی اور کتنی دور کی اور کس قدر گہری فرمادی۔
رہا یہ کہ اس سے محبوبیت کیسے سمجھی گئی اور وجہِ استدلال کیا ہے؟ تو وہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شئے کی قسم کھائیں تو وہ بہت بڑی شئے ہوگی، ایسی قسم جب ہی کھائی جاتی ہے کہ قسم کھانے والے کو مقسم بہٖ (جس کی قسم کھائی جائے) سے غایتِ تعلق ہو۔
شبہ کا جواب:
یہاں پڑھے لکھے حضرات کو شبہ ہوسکتا ہے کہ قسم کھانا تو دلیل عظمت کی نہیں ہے، اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کی قسم کھائی ہے، انجیر کی قسم، فجر، چاشت اور رات کی قسمیں قرآن مجید میں موجود ہیں، اگر یہی دلیل عظمت کی ہے تو یہ سب چیزیں بھی عظیم الشان ہوں گی۔
اس شبہ کے جواب کے لئے اوّل ایک مقدمۂ عقلی سمجھ لیجئے، وہ یہ کہ ہر شئے کا شرف اس کی نوع کے اعتبار سے ہوتا ہے، تو مقسم بہٖ ہونا بے شک دلیل ہے شرف کی، لیکن مطلقاً نہیں بلکہ اس کی نوع کے اعتبار سے یعنی یہ سمجھا جائے گا کہ یہ شئے اپنی نوع میں سب افراد سے افضل ہے، حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ کھانا افضل ہے یا پانی؟ تو وہ مجنون ہے، ….. ہاں اگر انواع ہی میں گفتگو ہو تو وہ دوسری بات ہے، لیکن اگر افراد میں ہو تو اس میں یہ رعایت ضرور ہوگی کہ ایک نوع کے تحت داخل ہوں، مثلاً یوں نہ کہیں گے کہ مسجد افضل ہے یا فلاں کتاب؟ ہاں یوں کہیں گے کہ یہ مسجد افضل ہے یا فلاں مسجد یا فلاں گھر،…… تو اب سمجھ لیجئے کہ مقسم بہٖ ہونا بے شک دلیل اس کے شرف کی ہے، مگر یہ نہیں کہ وہ سب اشیاء سے افضل ہو؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی نوع میں افضل ہے، پس انجیر بے شک افضل ہے لیکن ثمرات میں، اور فجر بلاشبہ افضل ہے مگر اوقات میں، پس اس بناء پر آپؐ کی حیات کے مقسم بہٖ ہونے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو فضیلت و عظمت ثابت ہوگی وہ اپنے اخوان یعنی انبیاء علیہم السلام میں ثابت ہوئی اور اس سے تمام انبیاء میں افضل ہونا ثابت ہوا، اب چونکہ انبیاء علیہم السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں، لہٰذا آپؐ کا ’’سَیِّدُ وُلدِ آدم‘‘ (اولادِ آدم کے سردار) ہونا معلوم رہا، اب رہی یہ بات کہ فضیلتِ مطلقہ کیسے ثابت ہوئی؟ تو وہ اس طرح کہ باتفاقِ عقلاء انسان اشرف المخلوقات ہے، نیز حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (الاسراء:۷۰) ’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی‘‘، پس جبکہ نوعِ انسانی تمام انواع سے افضل ہے اور انواعِ انسان میں انبیاء علیہم السلام افضل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افضل المرسلین اور سید الانبیاء ہیں، تو آپؐ افضل الخلق ہوئے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی دو قسمیں بنائیں: عرب و عجم، ان میں عرب کو فضیلت عطا فرمائی، پھر عرب میں قریش کو افضل بنایا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب فرمایا، پھر ان میں مجھ کو پیدا کیا، پس میں افضل الناس ہوں نسباً بھی، پس اب شبہ رفع ہوگیا اور لَعَمْرُکَ (آپ کی عمر کی قسم!) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور محبوبیت ثابت ہوگئی۔
حیاتِ محمدیؐ کی چار حالتیں:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی چار حالتیں ہوں گی:
(۱) نور کےپیدا ہونے سے ولادت شریف تک۔
(۲) ولادتِ شریف سے وفات تک۔
(۳) وفات سے حشر و نشر تک۔
(۴) حشر و نشر سے خلودِ جنت تک جو غیرمتناہی ہے۔
لَعَمْرُکَ میں مقسم بہٖ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہے، اس لئے کہ عمر بفتح و ضم نام ہے حیات و بقاء کا، اور حیات کہتے ہیں ذی حیات کی اس حالت کو جو تولد سے لے کر وفات تک ہے، تو آپؐ کی نوریت کی جو حالت عالمِ ارواح سے بھی پہلے تھی اس کو بھی حیات کہہ سکتے ہیں، جس کی نسبت ارشاد ہے: کنتُ نبیًّا و اٰدمُ بینَ الرُّوحِ و الجسد۔ (میں اس وقت نبی بنایا جاچکا تھا جبکہ آدمؑ کا خمری ابھی تیار ہورہا تھا۔ ترمذی) ….. اور اس وقت آپ کا بدنِ مبارک تو بنا نہ تھا، پھر نبوت کی صفت (ظاہر ہے کہ) آپؐ کی روح کو عطا ہوئی تھی اور نورِ محمدیؐ اسی روح محمدیؐ کا نام ہے، اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ آپ کا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا تو اس سے آپؐ کے وجود کا تقدم حضرت آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ مراد ہوتی تو اس سے آپؐ کی تخصیص کیا تھی، تقدیر تمام اشیائے مخلوقہ کی ان کے وجود سے متقدم ہے، لہٰذا یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے، اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہٗ کے ثبوت کی، پس اس سے آپؐ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا، اور چونکہ مرتبۂ بدن متحقق نہ تھا اس لئے نور اور روح کا مرتبہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنیٰ؟ کیونکہ نبوت آپؐ کو چالیس (۴۰) سال میں عمر میں عطاء ہوئی اور چونکہ مرتبۂ بدن متحقق نہ تھا اس لئے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہوگیا، اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنیٰ؟ کیونکہ نبوت آپ کو چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپؐ سب انبیاء کے بعد میں مبعود ہوئے اس لئے ختم نبوت کا حکم کیا گیا، سو یہ وصف تو خود تاخر کو مقتضی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ تاخر مرتبۂ ظہور میں ہے، مرتبہ ثبوت میں نہیں، جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ آج مل جائے اور تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے، مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھیجے جانے کے بعد، (علاوہ ازیں) عالم ارواح میں جب ’’الست‘‘ کا عہد لیا گیا اور پوچھا گیا الستُ بربکم؟ تو سب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا کہ دیکھیں آپ کیا جواب دیتے ہیں؟ تو سب سے اول آپؐ نے جواب دیا: بلیٰ انت ربُّنا، اس کے بعد اوروں نے بلیٰ کہا، لہٰذا اوروں کے علم و معرفت کے مربی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور تربیت فی العلوم حیات پر موقوف ہے، پس نب سے نور مخلوق ہوا ہے اس وقت سے حیات لی جاسکتی ہے۔
یہ تو حیاتِ محمدی (علی صاحبہا الصلوٰۃ و التحیات) کی آغاز کا ذکر ہوا، جس کے بعد آپؐ کی حیاتِ ناسوتی ہے جو اس دنیا میں آپ کی ولادت شریف سے لے کر آپؐ کی وفات مبارک پو ختم ہوتی ہے، اگر نظر کو اور وسیع کیا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بعدِ وفات بھی حیاتِ برزخی ثابت ہے اور وہ حیاتِ شہداء کی حیات برزخی سے بھی بڑھ کر ہے اور اتنی قوی ہے کہ حیاتِ ناسوتی کے قری قریب ہے، چنانچہ بہت سے احکام ناسوت کے اس پر متفرع بھی ہیں، دیکھئے زندہ مرد کی بیوی سے نکاح جائز نہیں، آپؐ کی امواجِ مطہرات سے بھی نکاح جائز نہیں اور زندہ کی میراث کی تقسیم نہیں ہوتی، آپؐ کی میراث کی بھی تقسیم نہیں ہوئی، اور حدیثوں میں صلوٰۃ و سلام کا سماع بھی وارد ہے، یہ تحقیقات ہیں اہلِ اسرار کی، اس سے اصلی راز ان احکام یعنی لاتنکحوا ازواجہٗ من بعدی اور لا نورثُ ما ترکناہُ صدقۃ کا معلوم ہوگیا۔
پھر حیاتِ برزخی کے بعد حیاِ تِ اخروی ہے اور وہ تو سب ہی کے لئے ہے، تو انبیاء کو تو بطریقِ اولی حاصل ہوگی، پس آپ کی حیات مصداق کا تخلیقِ نور سے خلودِ جنت تک ہے!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ ناسوتی کی عظمت اور اس کے چار حصّے:
اہلِ عرف اسی (حیات ناسوتی) کو حیات کہتے ہیں، یعنی ولادت شریف سے لے کر وفات تک، پس اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ آپ کی اس حصۂ عمر کی قسم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا یہ حصۂ عمر اتنا رفیع الشان ہے کہ اللہ تعالیٰ مقسم بہٖ بنا اور اس حصۂ عمر و حیات کا ایک جزو ولادت شریف ہے، تو اس کا بھی عظیم القدر اور رفیع الشان ہونا ثابت ہوا، اسی طرح اس کا حصہ قوتِ استعداد اور حصولِ کمالات کا ہے، تیسار حصہ تبلیغ و دعوت کا ہے، چوتھا حصہ تکمیلِ امت کا ہے اور یہ تیسرا اور چوتھا حصہ بعض احوال میں بھی ہے، ….. پھر تکمیل کی دو حیثیتیں ہیں، ایک تکمیل حاضر کی خود اس کی اصلاح کے لئے، دوسرے تکمیل حاضر کی اصلاحِ غایت کے لئے، پس ان سب حصوں کی رفعت و عظمت ثابت ہوئی اور کسی شئی کی عظمت و رفعت جس طرح باعتبار اس کی ذات کے ہوتی ہے، اسی طرح باعتبار اس کی غایت کے بھی ہونا چاہئے بلکہ اس کی غایت ہی کی وجہ سے اس شئے کی مقصودیت زیادہ ہوتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی غایت:
پس عالمِ ناسوت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری (مذکورہ سارے حصوں کے ساتھ) کی بھی کوئی غایت ضرور ہوگی اور وہ غایت ایسی ہے کہ اس کو سن کر مدعیانِ محبت کی بھی اصلاح ہوگی، اس لئے انہوں نے مزیدار مضمون تو دیا کرلئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں پیدا ہوئی اور (آپؐ سے) ایسے معجزات ظاہر ہوئے، لیکن اس تشریف آوری کی غایت کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں، اس لئے کہ اس کے سمجھنے میں نفس کو تعب ہوتا ہے اور جان نکلتی ہے، ….. وہ غایت وہ شئے ہے جس کا عنوان صوفیہ کی اصطلاح میں فناء اور بقاء ہے، (قرآن کی اصطلاح میں اس کی تزکیہ و تعلیم کتاب کہتے ہیں، اور حدیث میں اس کے لئے ’’مکارمِ اخلاق‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کا تم پر اتمام کروں۔م) پس آپؐ کی تشریف آوری اس وجہ سے ہوئی کہ آپؐ سے فیض فناء اور بقاء کا ہو، مولانا رومیؒ نے کہا ؎
پس محمدؐ صد قیامت بود نقد
زانکہ حل شد در فنایش حل و عقد
زادۂ ثانی است احمد در جہاں صد قیامت بود اندر او عیاں
(زادۂ ثانی یعنی دوسری ولادت، یہ صوفیاء کی اصطلاح ہے، مراد اس سے طبعی اور نفسانی احکام سے نکل کر مرضیاتِ حق پر آجانا اسی کو دوسرے لفظوں میں بقاء بعد الفناء بھی کہتے ہیں، ان اشعار سے مقصود یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس صفت میں کامل و اکمل تھے اور اس دنیا میں تشریف بھی اسی لئے لائے تھے کہ انسانوں کو اس صفت سے متصف فرمائیں۔ م)
اوّل یہ سمجھ لیجئے کہ فناء اور بقاء ہے کیا چیز؟
یہاں فناء و بقاء لغوی نہیں ہے بلکہ یہ تصوف کی اصطلاح ہے، فناء و بقاء سے مراد سالک کی ذات کا فناء و بقاء نہیں ہے، بلکہ اس کا مضاف الیہ ایک خاص شئے ہے، یعنی ’’علم و اخلاق‘‘، سو فنائے اخلاق کی حقیقت تو یہ ہے کہ اخلاقِ رذیلہ کو دور کرے، مثلاً ریاء، کبر، حسد، غضب، حبِ مال اور حبِ جاہ کو دور کرے، اور فنائے علوم یہ ہے کہ یہ جو ہمارے قلب میں غیر اللہ جمع ہورہے ہیں کہیں جائیداد، کہیں دُکان، کسی کو تجارت کے دھندے، کسی کو زراعت کے افکار، کسی کو نوکری کے خرخشے، کسی کو مقدمات کی پریشانیاں اور ان کے متعلق خیالات، یہ سب افکار ہمارے وقت کو تباہ کر رہے ہیں، ان کا قلع قمع کردے، لیکن میرا مطلب یہ نہیں کہ تجارت اور نوکری اور زراعت کو چھوڑدے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان سے متعلق جو خیالات خدا کی یاد سے روکنے والے ہیں ان کو نکال دو، اسی طرح بیٹے اور بیوی کی محبت سے مراد بھی اس درجہ کی محبت ہے جو خدا کی یاد سے غافل کردے، چنانچہ ارشاد ہے:
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ۔ (التوبۃ:۲۴)
(اے محمدؐ) کہدیجئے! اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور کنبہ اور وہ اموال جن کو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس کی نکاسی نہ ہونے سے ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہیں، تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لائے۔
پس اس آیت کو دیکھ لیجئے کہ وعید احبیت پر ہے نفسِ حب پر نہیں، اس لئے کہ وہ تو خلقی اور طبعی ہے، اس کو آدمی کیسے زائل کرسکتا ہے؟ پس فنائے علم سے مراد یہ نہیں کہ بالکل ان کا خیال ہی نہ رہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ قلب میں خدائے تعالیٰ سے زیادہ کسی کی محبت نہ ہو، پس حکم یہ ہے کہ احبیت کے درجہ کو درو کرے۔
پس فنائے اخلاق و علوم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی اطاعت میں اتنا سرگرم ہو کہ غیر اللہ کی محبت اور غیر اللہ کا ذکر مغلوب اور اخلاقِ ذمیمہ زائل ہوجائیں گی، لہٰذا جو چیزیں زائل کرنے کی ہیں ان کےزائل کرنے اور جو مغلوب کرنے کی ہیں ان کو مغلوب کرنے کو ’’فناء‘‘ کہتے ہیں۔
رہا ’’بقاء‘‘ تو زائل شدہ اشیاء کی اضداد کے پیدا کرنے اور مغلوب ضد کو غالب کرنے کو ’’بقاء‘‘ کہتے ہیں، مثلاً ریاء کو زائل کرے، اس کےمقابل میں اخلاص پیدا کرے، یا کبر کو فناء کرے اور اس کی جگہ تواضع پیدا کرے، حب غیر کو مغلوب کرے اور حبُّ اللہ کو غالب کرے، غیر کے ذکر کو مغلوب کرے اور ذکر اللہ کو غالب کرے، یہ ہے بقاء، اور ……..
یہی غایت ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی کہ اپنے فیضانِ علمی و عملی و حالی سے اس امت کی تکمیل فرمادیں، پس حاصلِ غایت تشریف آوری کا یہ ہوا کہ امت آپؐ کی کامل اتباع اختیار کرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام نعمتوں کا سرچشمہ اور تمام عالموں کے لئے رحمت ہیں!
اس میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں کہ حق تعالیٰ کی ہر نعمت قابلِ شکر ہے، خاص کو جو بری نعمت ہو، پھر خصوصاً دینی نعمت اور دینی نعمتوں میں سے بھی خاص جو بڑی بڑی نعمتیں ہوں، پھر ان میں بھی خصوصاً وہ نعمت جو اصل ہے تمام دینی و دنیوی نعمتوں کی اور وہ نعمت کیا ہے؟ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کہ آپ سے دنیوی نعمتوں کے فیوض تو دنیا میں فائض ہوئے ہی ہیں، دینی نعمتوں کا سرچشمہ بھی آپ ہی ہیں ،اور صرف مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام عالم کے لئے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ (الانبیاء:۱۰۷)
نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کی رحمت کے واسطے۔
دیکھئے عالمین میں کوئی تخصیص انسان یا غیر انسان، مسلمان یا غیر مسلمان کی نہیں ہے، پس معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجُودہر شئے کے لئے باعثِ رحمت ہے، خواہ وہ جنسِ بشر سے ہو یا غیر جنسِ بشر سے، اور خواہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانہ متأخر ہو یا متقدم، متأخرین کے لئے رحمت ہونا تو بعید نہیں لیکن پہلوں پر رحمت ہونے کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وجود سب سے پہلے پیدا فرمایا، اور وہ وجود نور کا ہے کہ آپؐ اپنے وجودِ نوری سے سب سے پہلے مخلوق ہوئے اور عالمِ ارواح میں اس نور کی تکمیل و تربیت ہوتی رہی، آخر زمانہ میں اس امت کی خوش قسمتی سے اس نے جسدِ عنصری میں جلوہ گر و تاباں ہوکر تمام عالم کو منوّر فرمایا، پس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اولاً و آخراً تمام عالم کے لئے باعثِ رحمت ہیں، پس آپؐ کا وجود تمام نعمتوں کی اصل ہونا عقلاً و نقلاً ثابت ہوا۔
اصل خوشی اور فرحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِباجُود ہی پر ہونا چاہئے!
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ۔ (یونس:۵۸)
اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے، لیکن اگر عام معنیٰ مراد لئے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور وہ یوں کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدومِ مبارک (تشریف آوری) لیا جائے، اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا دینی، اور اس میں قرآن مجید بھی ہے سب اس میں داخل ہوجائیں گی، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادّہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا، پس یہ تفسیر اجمع التفاسیر ہوجائے گی اور آیت حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ نبیؐ کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری اس پر خوش ہونا چاہئے، اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے تمام نعمتوں کا واسطہ ہیں، حتی کہ ہم کو جو روٹیاں دو وقتہ مل رہی ہیں اور تندرستی اور ہمارے علوم یہ سب آپؐ ہی کی بدولت ہیں اور یہ نعمتیں تو وہ ہیں جو عام ہیں اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے، جس کا آپؐ سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے، غرض اصل الاصل تمام مواد فضل و رحمت کی آپؐ کی ذاتِ بابرکات ہوئی، پس ایسی ذاتِ بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرحت ہو کم ہے۔
فنّی تشریح:
بہر حال اس آیت سے عموماً یا خصوصاً یہ ثابت ہوا کہ اس نعمتِ عظیمہ پر خوش ہونا چاہئے اور ثابت بھی ہوا نہایت ابلغ طرز سے، اس لئے اول تو جار مجرور بفضل اللہ کو مقدم لائے کہ جو مفید حصر کو ہے، اس کے بعد رحمۃ پر پھر جار کا اعادہ فرمایا کہ جس سے اس میں استقلال کا حکم پیدا ہوگیا، پھر اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کو مزید تاکید کے لئے فبذٰلک سے مکرر ذکر فرمایا اور ذٰلک پر جار اور فاءِ عاطفہ لائے تاکہ اس میں اور زیادہ اہتمام ہوجائے، پھر نہایت اہتمام در اہتمام کی غرض سے فلیفرحوا پر فاء لائے کہ جو مشیر ہے ایک شرط مقدر کی طرف اور وہ ان فرحوا بشیئ ہے، حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شئے کے ساتھ خوش ہوں تو اللہ ہی کے فضل و رحمت کے ساتھ، یعنی اگر دنیا میں کوئی شئے خوشی کی ہے تو یہی نعمت ہے، اور اس کے سواء کوئی شئے قابلِ خوشی نہیں ہے، اور اس سے بدلالۃ النص یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے بہتر ہے، لیکن چونکہ ہم لوگوں کی نظروں میں دنیا اور دنیا ہی کی نعمتیں ہیں اور اسی میں ہم کو انہماک ہے اس لئے اس پر بس نہیں فرمایا، آگے اور نعمتوں پر اس کی تفصیل کے لئے صراحتاً ارشاد ہوا ھو خیر مما یجمعون یعنی یہ نعمت ان تمام چیزوں سے بہر ہے جن کو لوگ جمع کرتے ہیں، یعنی دنیا بھر کی نعمتوں سے یہ نعمت افضل و بہتر ہے، پس جس نعمت پر حق تعالیٰ اس شد و مد کے ساتھ خوش ہونے کا حکم فرمادیں وہ کس طرح خوش ہونے کے قابل نہ ہوگی؟! یہ حاصل ہوا اس آیت کا جو مبنی ہے اس پر کہ فضل اور رحمت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مراد لئے جائیں۔
مگر اس فرح کی بناء‘ حیثیت اور جہت کیا ہے؟
دوسرے مقام پر اس سے بھی صاف ارشاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی خوشی کی شئے دنیا میں اگر ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور اس میں بات الفرح یعنی آپؐ کے وجود باجود پر جو خوشی کا امر ہے وہ کسی بناء پر ہے اور حیثیت و جہتِ فرح کیا ہے؟ وہ آیت یہ ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ۔ (اٰل عمران:۱۶۴)
یعنی حق تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں ایک رسول ان ہی کے جنس سے بھیجا کہ وہ ان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں، ان کو (ظاہری و باطنی) نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت سکھلاتے ہیں اور بے شک وہ (مومنین) اس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت میں يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ الخ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ اصلی خوشی کی اور الفرح و المنت کی بناء یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے سرمایۂ ہدایت ہیں، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خوش ہونے کی بہت سی چیزیں ہیں، مثلاً آپؐ کی ولادت، آپؐ بعثت اور آپؐ کے دیگر تمام حالات، مثلاً معراج وغیرہ، یہ سب حالات واقعی خوش ہونے کے ہیں، لیکن اس حیثیت سے کہ ہمارے لئے یہ مقدمات ہیں ہدایت و سعادتِ ابدی کے، چنانچہ اس سے صاف ظاہر ہے اس لئے کہ بعثت کے ساتھ یہ صفات بھی بڑھائی کہ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ الخ پس بقاعدۂ بلاغت ثابت ہوا کہ اصل مابہ المنت یہ صفات ہیں، باقی ولادتِ شریفہ فی نفسہا یا معراج وغیرہ باعثِ خوشی زیادہ اسی لئے ہیں کہ مقدمہ ہیں اس دولتِ عظیمہ کے، اس لئے کہ اگر ولادتِ شریفہ نہ ہو ہوتی تو ہم کو یہ نعمت کیسے ملتی وار اسی فرق کی وجہ سے اس یت میں تو اس مقصود کا ذکر تصریحاً اور قصداً فرمایا اور دوسری آیت (جس کی صراحت مضمون کی ابتداء میں آچکی) میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ باجود کا ذکر اشارۃً و ضمناً فرمایا، چنانچہ ارشاد ہے: لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ۔ (الحجر:۷۲) اس میں آپؐ کی بقاء اور وجود کو مقسم بہٖ بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ قسم میں جوابِ قسم مقصود ہوتا ہے اور مقسم بہٖ کو تبعاً ذکر کیا جاتا ہے، اور ایک مقام پر آپؐ کی ولادتِ شریفہ کو بھی اسی طرح ذکر کیا گیا ہے، فرماتے ہیں: لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ۔ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ۔ وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ۔ (البلد:۱ تا ۳) چنانچہ وَمَا وَلَدَ کی تفسیر میں بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی مصداق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات ہے، مگر اس اہتمام سے نہیں فرمایا جیسا کہ لقد منَّ اللہ الخ میں نبوت اور بعثت اور ہدایت اور تزکیہ کو بیان فرمایا ہے، اور اسی فرق کی وجہ سے فرحت میں بھی تفاوت ہوگا کہ جس قدرت ولادتِ شریفہ پر فرحت ہونی چاہئے اس سے زائد نبوتِ مبارکہ پر ہونی چاہئے، اگر ذکرِ ولادت شریفہ کے لئے مجلس منعقد کی جائے تو ذکرِ نبوت مبارکہ کے لئے بطریق اولیٰ کی جائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اَن گنت حقوق و آداب!
ہر امتی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے چند تعلقات ہیں: (۱) ایک تعلق یہ ہے کہ آپؐ نبی ہم امتی، (۲) دوسرے یہ کہ آپ حاکم ہم محکوم، (۳) تیسرا تعلق یہ کہ آپ دارین میں محسن، ہم زیر بارِ احسان، (۴) چوتھا تعلق یہ کہ آپؐ محبوب اور ہم محب، اور ان میں سے ہر تعلق جب کسی کے ساتھ ہوتا ہے تو اس پر خاص خاص حقوق و آداب کا مرتب ہونا معلوم، مسلَّم اور معمول ہے، پس جب آپؐ کی ذاتِ بابرکات میں سب تعلقات مجتمع ہوں اور پھر سب اعلیٰ و اکمل درجہ کے، تو آپؐ کے حقوق بھی ظاہر ہے کہ کس قدر اور کس درجہ کے ہوں گے، ان سب کے ادا کرنے دل سے اور التزام سے ایسا اہتمام ہونا چاہئے کہ وہ کثرت عادت استحضارِ الفت سے شدہ شدہ طبعی ہوجائیں اور پھر بھی آپ کے مقابلہ میں اپنی اس خدمت کو کہ درحقیقت اس کا نفع اپنی ہی طرف عائد ہے نا تمام سمجھے!
بقعۂ نبویؐ عرش سے بھی افضل ہے!
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر موافقین و مخالفین سب کے نزدیک بالاتفاق محفوظ ہے اور مع روح ہے، اور علماء نے بھی تصریح کی ہے کہ وہ بقعۂ جس سے جسم مبارک خصوص مع الروح مَس کئے ہوئے ہے وہ عرش سے بھی افضل ہے، کیونکہ عرش پر معاذ اللہ حق تعالیٰ شانہ بیٹھے ہوئے تو نہیں ہیں، اگر بیٹھے ہوتے تو بلاشبہ وہ جگہ سب سے افضل ہوتی، مگر خدائے تعالیٰ مکان سے پاک ہے، استویٰ علی العرش کے معنیٰ استقرار کے نہیں ہوسکتے، اس میں سلف کا مسلک تو سکوت کا ہے اور واقعی اسی میں سلامتی ہے، مگر متأخرین نے مصلحتِ وقت کے تحت مناسب تاویل کی اجازت دی ہے، اور ایک تاویل میرے ذہن میں اس آیت کی آئی ہے جو دوسری تاویلات کی بہ نسبت اقراب اور بہت صاف ہے، …. اگرچہ کہ میرا مذاق اس معاملہ میں سلف ہی کے موافق ہے ….. وہ تاویل یہ ہے کہ ان آیات میں استویٰ علی العرش کے بعد …. یدبِّرُ الامر بھی آیا ہے، جس کو استویٰ علی العرش کا بیان قرار دیا جائے تو یہ محاورہ ایسا ہوجائے گا جیسے ہماری زبان میں بولا جاتا ہے کہ ولیعہد تخت نشین ہوگیا، عرف میں اس کے معنیٰ حکمران ہونے کے ہیں، خاص تخت پر بیٹھنے کے نہیں، اسی طرح استویٰ علی العرش کے معنیٰ تدبیر و حکمرانی فرمانے کے ہیں، یعنی زمین و آسمان پیدا کرکے حق تعالیٰ شانہ ان میں حکمرانی، تدبیر اور تصرف فرمانے لگے، بس یہ کنایہ ہوگا، تو عرش کے محل استقرار حق کی وجہ سے فضیلت نہیں ہے کہ وہ بقعۂ شریف سے افضل ہوجاتا ہے، اس کو صرف اسی وجہ سے اور اماکن پر فضیلت ہے کہ وہ ایک تجلی گاہِ الہٰی ہے، اور ظاہر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تجلی گاہ کون ہوگا، پس اس حیثیت کے اثر سے بھی بقعۂ شریف خالی نہ رہا، اس لئے ہر طرح وہ جگہ جہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں سب سے زیادہ اشرف ہوئی، کیونکہ تجلیاتِ حق بواسطۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تمام اماکن سے زیادہ فائض ہوتے ہیں، پس بقعۂ شریف و قبر شریف تمام اماکن سے افضل ہے۔
اللھم انی اسئلک ان تصلی علی نورک الاتم و حبیبک الافخم الذی اشرق بہ الاکوان و افتخر بہ الانسان، وسلیۃ السالکین و سکینۃ الطالبین سیدنا و مولانا محمدٍ و اٰلہ و صحبہ اجمعین و علینا معھم و فیھم برحمتک یا ارحم الراحمین۔ (جامع)

مذہب و عقلیات
حضرت مولانا عبدالباری ندویؒ
مذہب سے مراد فوق الفطرۃ (سپر نیچرل) ہستی یا چیزوں کا اعتقاد ہے جو کسی نہ کسی صورت کے ساتھ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے، عقلیات سے مقصود اس کی دو مختلف شاخیں (۱) حکمت (سائنس) اور (۲) فلسفہ ہے۔
مذہب و سائنس کی جنگ بے معنیٰ ہے:
مذہب و عقل کی معرکہ آرائیوں کی داستان توں تو ہمیشہ کہی اور سنی گئی ہے، لیکن پچھلی صدی میں عقلیات نے جو ترقی حاصل کی ہے اس کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ مذہب آخری شکست کھا کر اکھاڑہ سے نکل چکا ہے، ہم (اہلِ سائنس) نے خدا کی عارضی خدمات کا شکریہ ادا کرکے اس کو سرحد پر پہنچا دیا ہے۔ (کیروؔ کا مقولہ ہے، دیباچہ مترجم ’’معمۂ کائنات‘‘:۱۲) عجائب سائنس سے ہیبت زدہ اور تقلیدی پرستارانِ یورپ کے حلقوں میں پہنچ کر یہ آوازیں اور زیادہ پُر شور بن جاتی ہیں۔
آغازِ جنگ میں جرمنی کی عجائب کاریوں اور حربی اختراعات نے اس درجہ مبالغہ آمیز شہرت حاصل کی تھی کہ طلسمِ ہوش رُبا کے افسانے واقعات و مشاہدات معلوم ہونے لگے تھے، ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے بزرگ نے نہایت یقین و سنجیدگی سے بیان کیا کہ ’’جرمنی کی فوج کے تمام سپاہی لوہے اور کاٹھ کی پتلیاں ہوتے ہیں‘‘، عوام کی نفسی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جرمنی کی نسبت بے سوچے سمجھے ہر بے سر و پا بات کے مان لینے پر آمادہ تھے۔
میں اُس زمانہ میں سلطان پور میں تھا، ایک دوست نے آکر چشم دید واقعہ بیان کیا کہ ایک اسٹیشن پر مسافر اتر کر جب باہر نکلے تو کسی ظریف نے نہایت خوفزدہ آواز میں چیخ کر کہا کہ ’’جرمن آگئے‘‘ اور بھاگا، اتنا سننا تھا کہ بیسیوں آدمی بدحواس ہوگئے اور اسباب چھوڑ چھوڑ کر جدھر سر سمایا بھاگ کھڑے ہوئے، ان احمقوں نے اتنا نہ سوچا کہ جرمن یہاں کیوں آنے لگے؟ یکایک کیسے اور کدھر سے پہنچ گئے؟ ذرا مڑ کر دیکھ تو لیں، لیکن مرعوبیت اور بدحواسی اس کی مہلت کہاں دیتی ہے۔
مذہب و سائنس کی شکست و فتح تو الگ رہی، ہمارے نزدیک ان کی باہمی جنگ ہی اس سے زیادہ اصلیت نہیں رکھتی جتنا جرمنوں کا اس اسٹیشن پر بے سان و گمان آ پڑنا، ہندوستان میں انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ یورپ کے سائنٹیفک ایجادات بھی آئیں جن میں سے ایک ریل، تار اور الکٹریسٹی وغیرہ اچھے اچھوں کی عقل کو حیران بنادینے کے لئے کافی تھی، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سائنس نے زمین کو تول کر وزن معلوم کرلیا، روشنی کی شرح رفتار بتادی، مریخ میں دریاء، پہاڑ اور آبادی کا سراغ لگالیا، اب جو اسکول اور کالجوں میں ہمارے فرزندانِ تعلیمِ جدید نے کہیں یہ سن پایا کہ سائنس نے ’’خدا کو سرحد باہر کردیا‘‘ تو بے چارے سمجھے کہ جو چیز ایسے حیرت انگیز اور سمجھ میں نہ آنے والے معجزے دکھا سکتی ہے، جب اسی نے خدا اور مذہب کو باطل ٹھہرادیا تو پھر اب کیا رہا، اس مرعوبیت کا آج تک یہ عالم ہے کہ نفس یورپ یا سائنس کا نام لے لینا کسی بات کے منوانے کے لئے مؤثر استدلال ثابت ہوتا ہے۔
غلط فہمی کے اسباب:
غرض برادرانِ اسکول و کالج کو سنجیدگی کے ساتھ ’’مذہب و عقلیات‘ کے مطالعہ اور ان کے باہمی تعلق پر کبھی غور و فکر کی فرصت تو میسر نہ ہوئی اور نہ یہ سوچا کہ دونوں ایک میدان میں اُتر سکتے ہیں یا نہیں؟ لیکن عقل و سائنس کی فتح کے نقّارچی بن گئے، اگرچہ مصر اور ہندوستان وغیرہ میں یہ وباء زیادہ تر اسی طرح پھیلی، تاہم اس کی ذمہ دار ہمارے نئے تعلیم یافتہ احباب کی تنہاء مرعوبیت اور و نادانی نہیں ہے، اس کے اور اسباب بھی ہیں جنہوں نے اس خیال کو عالمگیر بنادیا۔
(۱) اولاً بعض ذمہ دار اورسائنس کے اکابرِ رجال، مثلاً لا پلاس، ٹنڈل، ہکسلے وغیرہ کی زبان و قلم سے ایسے الفاظ نکلے کہ عوام کا تو کیا ذکر خواص تک اس دھوکہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ مذہب و سوائنس کی دشمن کا خیال کوئی بازاری گپ نہیں ہے، لاپلاس نے جب اپنی کتاب “Mecanique cdeste” نپولین کو پیش کی تو اس نے کہا ’’لوگ کہتے ہیں کہ تم نے یہ کتاب نظامِ عالم پر لکھی ہے اور پھر بھی اس کے خالق کا نام نہیں لیا ہے؟‘‘ اس پر لاپلاسؔ نے خشونت کے ساتھ جواب دیا کہ ’’جنابِ والا! مجھ کو اس قسم کے کسی فرض کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘‘۔ (فطرت ولا اوریت، از:وارڈ، ۴،۱)
ہکسلےؔ نے یہ کہہ دیا کہ ’’مادّہ اور قوانینِ مادّہ نے عقیدہ خلق (جینیسس) اور روح کے وجود کو باطل کردیا ہے‘‘، اس طرح کی باتوں نے سائنس کی حقیقت سے ناواقفوں کے دل میں اور بھی مذہب کی نسبت وسوسے پیدا کردئے اور ان کی مرعوبیت کو گویا ایک سن ہاتھ آگئی۔
(۲) لیکن حقیقت میں غلط فہمی کا سب سے بڑا منشاء اہل سائنس اور علماءِ مذہب کی عداوت کا مغالطہ ہے، جس کا بہت کچھ ذمہ دار یورپ کا محکمۂ احتساب (انکوینریشن) ہے، جس کی قربان گاہ پر قرونِ وسطیٰ میں پاپاؤں کے ہاتھ بیسیوں محققینِ سائنس انکشافاتِ علمی کے گناہ میں نذر چڑھ گئے، پادری سمجھتے تھے کہ زمین کا گول کہنا بھی مذہب کی تردید ہے، کوپرنیکسؔ نے حرکتِ ارض و مرکزیتِ شمس کے اثبات یا نظامِ فیساغورسؔ کی تائید میں کتاب لکھی تو اس کا پڑھنا کفر قرار پایا، گلیلیوؔ نے دور بین کی ایجاد سے کوپرنیکسؔ کے اکتشافات کی تائید کی، تو اس کو قید کی سزاء ملی اور قید ہی میں مرگیا، برونوؔ اس جرم میں جلادیا گیا کہ وہ ’’تعددِ عوالم‘‘ کا قائل تھا۔
غرض اس محکمہ نے سینکڑوں آدمیوں کو مذہب کے نام سے ستایا اور برباد کیا، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ لوگ علم و مذہب کو حریف سمجھنے لگے، اس مغالطہ نے اتنا تسلط حاصل کیا کہ ڈریپرؔ نے ایک کتاب ہی ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ کے نام سے لکھ ڈالی، حالانکہ اس کا ماحصل تمام تر وہی اہلِ سائنس اور علماءِ مذہب کا معرکہ ہے۔
(۳) تیسرا بڑا سبب خود مذہب کے نادان دوست ہمارے متکلمین ہیں، انہوں نے اس پر تو غور نہ کیا کہ مذہب و عقلیات میں اصولاً کوئی تصادم ہے یا نہیں؟ اور ان دونوں کی تطبیق و مصالحت کی الجھن میں پڑگئے، یا پھر حکمت و فلسفہ کی زبان سے جو بات بھی نکلی اس کی تردید اپنا فرضِ مذہبی قرار دے لیا۔
مسلمانوں میں جس شئ نے عقل و مذہب کی باہمی منافرت کے خیال کو سب سے زیادہ پھیلایا اور راسخ کیا وہ یہی علمِ کلام کی زیاں کار ایجاد ہے، جس نے ایک طرف مذہب کو شدید صدمہ پہنچایا اور دوسری طرف ذہنی قوتوں کو باد پیمائی اور سطحِ آب پر نقش آرائیوں میں رائیگاں کیا۔
غرض علم و مذہب کے باہمی عناد و تصادم کا افسانہ جس قدر دراز اور عالمگیر ہے اس سے بدرجہا زیادہ بے بنیاد اور غلط ہے، اس صحبت میں اسی نکتہ کو آپ حضرات کے سامنے واضح کرنا مقصود ہے، نہ کہ دونوں میں تطبیق، جیسا کہ بعض احباب کو مقرر کی مولویت سے بدگمانی ہوئی ہے اور جیسا کہ بالعموم عقل و مذہب کے یکجائی استعمال سے لوگ سمجھ بیٹھتے ہیں، خصوصاً جب کسی مذہبی آدمی کی زبان پر یہ الفاظ آجائیں، آج صبح ہی ایک تعلیم یافتہ دوست فرمانے لگے ’’ مذہب تو دیوالیہ ہوچکا ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ تم اس کی حمایت کیونکر کرتے ہو؟‘‘
مذہب و سائنس میں تصادم ناممکن ہے!
مذہب و سائنس کی بے تعلقی کو پوری طرح سمجھنے کے لئے پہلے ان کے باہمی فرق اور بعدِ حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے، ریل کی دو گاڑیاں ٹکراسکتی ہیں اور ٹکراتی ہیں، لیکن ریل گاڑی اور جہاز میں تصادم نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ ریل سمندر میں چل ہی نہیں سکتی اور نہ جہاز خشکی پر، بعینہٖ یہی حال سائنس اور مذہب کا ہے، سائنس کا مذہب کی حد میں داخل ہونا اس سے زیادہ ہے جتنا ریل کا پانی یا جہاز کا خشکی پر چلنا، مذہب جہاں سے شروع ہوتا ہے، سائنس کی رسائی وہاں ختم ہوجاتی ہے، سائنس کا جو منتہائے پرواز ہے مذہب کا وہ نقطۂ آغاز ہے، سائنس کی بحث و تحقیق کا تعلق تمام تر فطرت (نیچر) کے واقعات، مشاہدات اور تجربات سے ہے، مذہب کی بناء یکسر فوق الفطرت اور تجربہ و مشاہدہ کی دسترس سے ماوراء چیزوں پر ہے، مثلاً خدا، روح، حشر و نشر وغیرہ۔
ایک عام آدمی اور سائنٹسٹ کے تجربہ اور مشاہدہ میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ مؤخر الذکر اپنے مشاہدات اور تجربات کو تفریش اور مختلف قسم کے اختبارات (ایکپریمنٹس) سے وسیع کرکے استقرائی (انڈکیٹیو) کلیات بناتا ہے اور ان کی تشریح و توجیہ (اکسپلے نیشن) کے لئے اصول وضع کرتا ہے۔
ایک راہگیر بھی سیب کو درخت سے زمین پر گرتے دیکھتا ہے، لیکن نیوٹنؔ کا ذہن اس واقعہ سے ایک وسیع اصول کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، وہ اپنے تجربہ کو پھیلاتا ہے، طرح طرح کے اختبارات سے اپنے انتقالِ ذہنی کو مصدق و مستحکم بناتا ہے، مختلف واقعات کو ایک سلسلہ میں جوڑتا ہے اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سمندر کے مدّ و جزر، سیّارات کی گردش، نظامِ شمسی کے قیام جیسے عظیم الشان اور مختلف واقعات میں بھی وہی علۃ و قوۃ کار فرما ہے جو سیب کے زمین پر گرنے میں، اس قوت کا نام وہ کشش رکھتا ہے جس سے عالمِ جسمانیات کا ایک ذرّہ بندھا ہوا ہے، آگے چل کر یہی قانونِ کشش دنیائے سائنس کا عظیم ترین اکتشاف قرار پاتا ہے۔
لیکن خود یہ قانونِ کشش کیا ہے؟ کیسے وجود میں آیا ہے؟ ازلی ہے یا کسی کا مخلوق؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں علماءِ سائنس کی زبانیں گنگ ہیں، خود نیوٹنؔ کو اپنی اسی کتاب (پرنسیپیا) کے خاتمہ میں جس میں سائنس کے اس مایہ ناز اکتشاف پر بحث ہے، یہ کہنا پڑا کہ ’’عالمِ فطرت کی یہ نیرنگیاں واجب الوجود کے ارادہ کے علاوہ کسی اور شئے سے ظاہر نہیں ہوسکتیں، وہ واجب الوجود جو ہمیشہ اور ہر جگہ موجود ہے، یعنی خدائے برتر، نا محدود، قادرِ مطلق، سمیع و بصیر اور کمالِ بحث ہستی‘‘۔
مشہور حکیم (سائنٹسٹ) پروفیسر ٹنڈل نے سائنس کی اس حقیقت اور محدود رسائی کو ایک عام فہم تمثیل سے یوں سمجھایا ہے کہ ’’اگر تم گھڑی دیکھو تو اس میں گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ کی سوئیاں پھرتی نظر آتی ہیں، یہ سوئیاں کیوں پھرتی ہیں؟ اور ان کی حرکات کی یہ خاص باہمی نسبت جو ہم کو نظر آتی ہے، کیونکہ قائم ہے؟ ان سوالات کا جواب بے گھڑی کو کھولے، اس کے مختلف پُرزوں کو اچھی طرح دیکھے اور ان کا ایک دوسرے تعلق معلوم کئے بغیر نہیں دیا جاسکتا، جب یہ سب کچھ ہولیتا ہے تو ہم کو معلوم ہوجاتا ہے کہ سوئیوں کی یہ خاص حرکت گھڑی کی اس اندرونی ساخت اور مشین کا نتیجہ ہے جو کوک کی قوت سے چل رہی ہے؟ سوئیوں کی یہ حرکتِ صنعتِ انسانی کا ایک واقعہ یا حادثہ (فنامنن) کہا جاسکتا ہے، لیکن بعینہٖ یہی حال واقعات و حوادثِ فطرت کا ہے، ان کے اندر بھی ایک مخفی مشین کار فرمان ہے اور ایک خزانۂ قوت ہے جو اس مشین کو چلا رہا ہے، حکمتِ طبعی (فزیکل سائنس) کا انتہائی کام اسی مشین اور ذخیرۂ قوت پر سے پردہ ہٹاکر یہ بتانا ہے کہ یہ واقعات و حوادث انہی دونوں کے فعل و انفعال کا لازمی نتیجہ ہیں‘‘۔
علتِ اولیٰ کا پتہ لگانا سائنس کے دائرۂ بحث سے خارج ہے!
لیکن کارخانۂ عالم کی یہ اندرونی مشین خود کیا ہے اور کیسے بنی؟ اس گھڑی کو کس نے کوکا؟ اس کی چلانے والی قوت (انرجی) کہاں سے آئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب سائنس کے بس سے باہر ہے، علمی زبان میں یوں کہو کہ سائنس صرف ثانوی اور قریبی علل و اسباب پر سے پردہ اٹھاکر واقعاتِ عالم کی ایک گونہ توجیہ و تشریح کرسکتی ہے، عللِ اولیٰ کا پتہ لگانا سائنس کے دائرۂ بحث سے قطعاً خارج ہے، حکمیات (سائنس) کے بڑے امام ہکسلے نے اس عجز کا اعتراف ’’سائنس کی پرائمر‘‘ میں جو بچوں کے پڑھنے کے لئے ہے اس طرح کیا ہے کہ ’’کسی شئے کی بھی کامل توجیہ و تعلیل نہیں ہوسکتی کیونکہ انسان کا اعلیٰ سے اعلیٰ علم بھی سلسلۂ توجیہ میں آغاز اشیاء کی جانب چند قدم سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘، اب تم ہی سوچو کہ خدایا علت اولیٰ کے ابطال و اثبات کا بوجھ سائنس پر ڈالنا کیا سائنس کی حقیقت سے جہل اور بما لایرضی بہ القائل نہیں ہے؟
کیا بوالعجبی ہے کہ جس ذمہ داری سے سائنس کی کتاب ’’ابجد‘‘ اس صراحت کے ساتھ اباء و انکار کرتی ہے اسی کا ہم اپنے جہل سے اس کو مدعی بتاتے ہیں! عقل و دانس کے مدعی انسان کی بے عقلی اور گمراہی کا سب سے زیادہ حسرت ناک منظر وہ ہوتا ہے کہ بعض خارجی اتفاقات و حالات کی بناء پر وہ بہت سی ایسی چیزوں کو مسلم سمجھ بیٹھتا ہے جو واقفیت کے لحاظ سے اسی قدر بے سر و پا ہوتی ہیں جس قدر کہ مشہور و مقبولِ عام ہوتی ہیں۔
سائنس کے ہزاروں طلباء اس کے مختلف شعبوں میں تحصیل کرتے ہیں اور ایک ایک شعبہ پر بیسیوں کتابیں نظر سے گذرتی ہیں جن میں ایک باب بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں خدا، روح، حشر و نشر وغیرہ کے ابطال و اثبات سے ایک سائینٹفک واقعہ و حقیقت کی حیثیت سے بحث ہو، پھر بھی یہ غوغا ہے کہ ’’بے اعتقادی نے اعتقاد کی جگہ لے لی ہے، عقل نے صحیفۂ آسمانی کی، سیاست نے مذہب کی، زمین نے آسمان کی، عمل کی عبادت کی، مادّی احتیاج نے دوزح کی اور انسان نے دیندار کی‘‘۔ (مقدمہ فلسفہ، از:پاکن:۳۱۷)
بے شک ایک عالم ہیئت اجرام سماوی ان کی باہمی کشش اور قوانینِ حرکت سے بحث کرتا ہے اور کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ اس کشش و حرکت کی ماہیت اور انتہائی علت بھی بتاتا ہے یا بتاسکتا ہے؟ ریاضیات کا ماہر اور عدد اور مکان (اسپیس) کے علائق کا پتہ لگاسکتا ہے، لیکن کیا وہ مکان کی اصل حقیقت کا بھی کوئی نشان دے سکتا ہے؟ اتنا بھی تو نہیں معلوم کہ یہ کوئی ذہنی شئے ہے یا خارجی؟ علم الحیات کے اکتشافات سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ جاندار اجسام کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن سے مرکب ہوتے ہیں، لیکن کیا کوئی حیاتیات کا محقق اس کا سراغ لگا سکتا ہے کہ ان مختلف مواد کی کیمیاوی ترکیب و تعامل سے زندگی اور اس کے افعال احساس و شعور وغیرہ کیونکر اور کیسے پیدا ہوجاتے ہیں؟ عالم کیمیاء و طبعیات، سالمات (ایٹمس)، برق، برق پاروں (الکٹرنس) اور ایتھر کے وجود کا اعویٰ کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ بجلی اور ایتھر کی حقیقت کے علم کا بھی دعویدار بن سکتا ہے؟ الحاصل علم و حکمت کی جس صنف کو بھی دیکھو یہ بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ ’’توجیہ و تعلیل کا سلسلۂ آغاز اشیاء کی طرف چند قدم سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘، انسانی لاعلمی اور جہل کی تاریکی کے مقابل میں علم کی روشنی کا اتنا حصہ بھی نہیں جتنا گھنگھور گھٹا کے عالمِ ظلمات میں بجلی کی ایک آنی چمک کا ہوتا ہے۔
ایمان بالغیب کی مشعل صرف مذہب کے ہاتھ میں ہے:
مذہب اسی ظلمات میں اعتقاد و ایمان بالغیب کی مشعل سے رہنمائی کرنا چاہتا ہے، کیونکہ عقل و حکمت (ریزن و سائنس) کی چمک تاریکی کے ان بادلوں کو چھانٹ ہی نہیں سکتی، اس کا چراغِ ہدایت اس بحرِ ظلمات میں داخل ہوتے ہی گل ہوجاتا ہے۔
فوق الفطرت اَسرار کے دریافت کی انسانی خلش:
مگر انسان کی فطرت میں کُرید ہے، اس کو بال کی کھال نکالے بغیر کل نہیں پڑتی، اس لئے وہ صرف حوادث و ظاہر (اپیرنسز) کے جانے پر قناعت نہیں کرسکتا تھا، فکر ہوئی کہ عالم بحیثیت مجموعی کیا ہے؟ اس کی ابتداء کیسے ہوئی؟ انتہاء کیا ہوگی؟ ذہن اور موجودات کی خارجی کی اصل حقیقت کیا ہے؟ ہم کیا ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں، کہاں جانا ہے؟ غرض کائناتِ فطرت (نیچر) سے نکل کر فوق الفطرت اَسرار پر سے پردہ اٹھانے کی خلش پیدا ہوئی، جو عقلِ انسانی کے لئے شجرِ ممنوعہ تھا۔
یہاں پہنچ کر آدمی فلسفہ یا مابعد الطبعیات میں آجاتا ہے:
ان سوالات کے پیدا ہوتے ہی آدمی سائنس کی چار دیواری سے نکل کر فلسفہ یا صحیح معنیٰ میں مابعد الطبعیات (میٹافزکس) کی لا محدود فضاء میں داخل ہوجاتا ہے، یہاں پہنچ کر علوم طبیعیہ (فزیکل سائنس) کے یقینیات و قطعیات کا سر رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، یہ ظن و قیاس کا عالم ہے جہاں کسی بات کی قطعت و یقینیت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ ؎
ہر کس ز سرِ قیاس چیزے گفتند
معلوم نہ گشت و قصّہ کوتاہ نہ شد
جنگ و صلح کا امکان صرف مذہب و فلسفہ میں ہے!
مذہب انہی الٰہیاتی (میٹافزیکل) مسائل سے ٹکراتا ہے اور جنگ و صلح کا جو کچھ امکان ہے وہ ’’مذہب و فلسفہ‘‘ میں ہے، نہ کہ ’’مذہب و سائنس‘‘ میں۔
مذہب و فلسفہ کا فرق:
اس لئے اصل بحث ’’فلسفہ و مذہب‘‘ کے باہمی تعلقات کی توضیح و تصحیح ہے، جس کے سمجھنے کے لئے تین باتوں کو پیش نطر رکھنا چاہئے۔
(۱) فلسفہ و مذہب کی منزلِ مقصود بیشک ایک کہی جاسکتا ہے، لیکن دونوں کی راہیں اس قدر مختلف اور الگ ہیں کہ اگر غلط فہمیوں اور غلط مبحث کو صاف کردیا جائے تو تصادم کا کوئی احتمال و اندیشہ ہی باقی نہیں رہ جاتا، مذہب کی بنیاد تمام تر ایمان و اعتقاد پر ہے، اور فلسفہ کی تعمیر قیاس و استدلال سے ہوئی ہے، مذہب کے اندر جہاں عقل آرائیوں کو راہ دی گئی ہے وہ اپنی قوت و حقیقت گُم کرکے فلسفہ بن جاتا ہے۔ (تفصیل آگے آئے گی)
(۲) بحث کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر تصادم ہو بھی، تاہم یہ کہنا یا سمجھنا سخت جہل ہوگا کہ فلسفیانہ قیاسات و دلائل مذہب کو آخری اور قطعی طور پر باطل یا ثابت کرسکتے ہیں، فلسفہ و الٰہیات خود اتنے متناقض آراء و خیالات کے مجموعہ کا نام ہے کہ نہ تو وہ معیارِ حق بن سکتا ہے، نہ اس کی بناء پر عقل و مدہب میں سے کسی کی فتح و ہزیمت کا اعلان کیا جاسکتا ہے، اس کی غرض انسان کی صرف اسی فطری کُرید اور موشگانفیوں کی تسکین ہے جو اس کی عقل کو باوجود اعترافِ نارسائی ما بعد الطبعیات کی ارض مموعنہ میں قدم رکھنے پر مضطر و بے اختیار کردیتی ہے۔
(۳) سب سے آخری بحث یہ ہے کہ فلسفہ کی ڈھائی ہزار سال کی تاریخ ہمارے سامے موجود ہے، دیکھنا یہ ہے کہ واقعیت کے لحاظ سے اس طویل مدت میں فلسفہ کس حد تک مذہب کا حریف و عنید رہا ہے؟ اس کا صحیح جواب بیکنؔ نے دیا ہے، جس کی تصدیق و شبہات میں قدیم و جدید فلسفہ کے مجلدات ہم آہنگ ہیں کہ ’’فلسفہ کا قلیل و سطحی علم الحاد کی طرف مائل کردیتا ہے، لیکن اس کا گہرا علم مذہب سے قریب کردیتا ہے‘‘۔
فلسفہ کے چار مذاہب:
تاریخ فلسفہ کا دفتر یوں بے پایاں ہے، لیکن اس کا نچوڑ چار مذاہب (اسکول) ہیں۔
(۱) ثنویت یا دوئی۔ (۲) تصوّریت یا روحیت۔ (۳) مادّیت۔ (۴) ارتیابیت۔
اِن میں سے دونوں اوّل الذکر تو براہِ راست یا بالواسطہ مذہب کے مؤید و حامی ہیں، تیسرا معاند ہے اور چوتھا نہ دوست نہ دشمن۔
ثنویت کا ماحصل یہ ہے کہ کائنات میں دو بالکل مختلف و متضاد چیزیں موجود ہیں، جس و روح، ایک قطعاً بے بس و حرکت مادہ کا ڈھیر ہے، دوسری مجرد اور عقل و شعور کا مصد ہے، عہدِ قدیم کے سب سے بڑے فلسفی و حکیم ارسطوؔ کا مسلک یہی تھا، دورِ جدید کے آغاز تک دنیا کے فلسفہ کا بیشتر حصہ اسی کا پیرو رہا ہے، فلسفۂ جدیدہ کا ابوالآباء ڈیکارٹؔ بھی ارسطو ہی کا ہم مسلک ہے، تمام مذاہب کی ظاہری تعلیمات کا بھی یہی خلاصہ ہے؛ بلکہ سچ پوچھو تو روح ہی کا عقیدہ مذہب کی جڑ ہے، باقی جزاء و سزاء حشر و نشر وغیرہ اسی کی تعریفات ہیں۔
دوئی کے ماننے والوں کے خلاف ایک طرف تصوریہ (آئیڈیلیسٹس) کا یہ دعویٰ ہے کہ اصل الاصول ایک ہی شئے ہے اور وہ روح، عقل یا ذہن ہے، باقی تمام عالم جسمانیات، اسی کا تصور، پرتو یا اور کسی نہ کسی طرح سے اسی سے پیدا و مستنبط ہے، مادیات کا مستقل وجود محض ایک قسم کا فریب (الیوژن) ہے، اس مسلک کا پرانا رہبر افلاطونؔ مانا جاتا ہے، جس کی جگہ خالص فلسفہ کی بزم میں ارسطوؔ سے بھی بلند تر ہے اور عہدِ حاضر کے تو کہنا چاہئے کہ تمام اساطین فلسفہ اسی ایک علم کے نیچے جمع ہوگئے ہیں، اسپنوز، لبنز، برکلے، مختے، شیلنگ، ہیگل، برگن سب کے سُر اسی ایک تان پر آکے ٹوٹتے ہیں، مذہب میں صوفیہ اور اربابِ باطن سے ان قائلین تصوریت کے ڈانڈے اس قدر مل جاتے ہیں کہ صرف حال اور قال کا پردہ رہ جاتا ہے۔
دوسری طرف طبل مادّیت کی یہ صدا ہے کہ بے شک اصل الاصول ایک ہی شئے ہے، لیکن یہ روح نہیں ہے؛ بلکہ مادّہ ہے، عقل و شعور وغیرہ جن کو تم افعالِ روح خیال کرتے ہو یہ ذرّات مادی ہی کے اجتماع، ترکیب اور تعامل کی نتائج ہیں، یہ مادّہ اور اس کی قوت یا انرجی دونوں ازلی اور غیر مخلوق ہیں، اور اس لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں کہ ایک کا دوسرے سے انفکاک یا جدا ہونا ناممکن ہے۔
مادّہ یا قوت ہی کے بندے ہوئے مقررہ طریق عمل اور اصولِ عمل کا نام فطرت (نیچر) اور قوانینِ فطرت (لاز آف نیچر) ہے، ساری کائناتِ ارضی و سماوی اسی فطرت اور مادہ سے پیدا ہے، کسی خارج مستقل الوجود، صاحب الامر، خالق اور خدا کی احتیاج نہیں ہے، ’’فطرت خود بخود خداؤں کی مداخلت کے بغیر سب کچھ کرلیتی ہے‘‘، (لیوکریٹس کا مقولہ) ’’مادہ خالی ہیولیٰ یا محض منفعل ذات نہیں ہے، جیسا کہ فلاسفہ اس کی تصویر کھینچتے ہیں بلکہ وہ مادرِ کائنات ہے جو خود اپنے ہی رحم سے تمام نتائج بر آمد کرتی ہے‘‘۔ (برنو کا مقولہ)
پس فلسفہ کے مذاہبِ اربعہ میں یہی ایک مذہب ہے جو الحاد اور بے دینی کے نتائج پیدا کرسکتا ہے، یہ اسکول اگرچہ ’’اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود فلسفہ‘‘ اور آج سے تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے دیمقراطیسؔ کے ہاتھ مستقل نظام (سسٹم) کی صورت اختیار کرچکا تھا، لیکن قدیم زمانہ میں، اس کی تعلیمات کو کچھ زیادہ رواج اور قبولیت نہ حاصل ہوسکی، دیمقراطیسؔ کے مشاہیر اتباع میں اپیکورسؔ، لیوکریٹسؔ وغیرہ کے دو چار ناموں سے زیادہ نہیں ملتے۔
قرونِ وسطیٰ مدرسیت کے نقار خانہ کی صدا اس قدر فلسفہ کی فضاء میں گونجی ہوئی تھی کہ کوئی اور آواز سنائی نہیں پرتی تھی اور ’’مادیت‘‘ کی ہستی تو بس طاقِ نسیاں کے نقش و نگار سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی، سولہویں صدی کے آخر میں برونوؔ نے اِن فراموش نقش و نگار کو یاد کیا تو اس جرم میں مجلسِ احتساب کی آتش غیظ و غضب نے اس کو آگ میں جھکوادیا۔
اس عاشق علم کے ستی ہوجانے کے بعد سترہویں صدی میں جہاں سے اور چیزوں کے ساتھ فلسفہ کا ’’عصر جدید‘‘ شروع ہوتا ہے گسنڈیؔ نامی ایک شخص نے دیمقراطیسؔ کو پھر زندہ کیا اور سچ یہ ہے کہ دنیائے سائنس میں اب وہ زندۂ جاوید بن گیا ہے اور اس پر نظریۂ سالمات مسلّمات حکمت میں داخل ہوگیا ہے۔
لیکن اس نظریۂ مادت کو الحاد و انکار مذہب کا سرچشمہ بنانے میں سب سے زیادہ حصہ جس کا چیز ہے وہ پچھلی دو صدیوں میں سائنس کے عظیم الشان انکشافات و تحقیقات کے نتائج ہیں، ان میں سے چار ہماری موجودہ بحث کے لئے زیادہ اہم ہیں: (۱) استمرار مادہ و قوّت، (۲) نظریۂ اصل الانواع یا ارتقاء، (۳) کیمیاوی موادِ حیات کا علم اور (۴) افعالِ ذہنی و جسمی کا تعلق۔
یہاں ان مسائلِ سائنس کی تائید یا تضعیف مقصود نہیں، نہ ان کی واقعیت و قطعیت میں شک اندازی ہے؛ بلکہ محض ان مغالطہ آمیز نتائج پر سے پردہ اٹھا دینا ہے، جن پر عوام کیا خواص تک کی نظر نہیں پڑتی اور جو محض غلط فہمی اور خلط مبحث کی بدولت مذہب کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔
(۱) سب سے پہلے آخر الذکر کو لے لو، یعنی افعالِ ذہن و جسم کا تعلق، ثنویہ کی طرح اہل مذہب کا بھی یہ اعتقاد ہے کہ روح جسم سے ایک بالکل مختلف بلکہ متضاد حقیقت و ہستی ہے اور جسم اس کے لئے محض ایک آلۂ عمل ہے، افعالِ ذہنی اسی روح کے افعال ہیں، اس بات میں سائنس کی تحقیقات یا علم ’’افعال الاعضاء‘‘ (فزیالوجی) کے انکشافات کا ما حصل یہ ہے کہ ہر ذہنی یا روحی فعل کے مقابل میں کئوی نہ کوئی جسمی تغیر بھی پایا جاتا ہے، اگر افعال ذہن میں کچھ خلل واقع ہوتا ہے تو ساتھ ہی دماغ یا اعصاب میں بھی کوئی نہ کوئی فتور ملتا ہے، یہاں تک کہ مختلف افعالِ ذہن، شعور، حافظہ اور ادراک وغیرہ کے لئے دماغ میں الگ الگ خانے یا حصّے ہیں، اور ایک ہوشیار عالم عضویات ان حصوں میں سے جس کو چاہے علاحدہ کرکے ذہن کے اس فعل کو باطل کرسکتا ہے، مثلاً اگر حافظہ کا حصہ دماغی کاسۂ سر سے کسی طرح نکال لیا جائے، تو پھر اس آدمی کو کوئی بات یاد نہ رہے گی، کتوں وغیرہ پر اس قسم کی تجربات کئے بھی گئے ہیں، غرض تجربہ و استقراء سے یہ اچھی طرح ثابت ہوگیا ہے کہ افعال ذہن وتغیرات جسمیہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
اس نتیجۂ استقرائی کے تسلیم میں عذر نہیں، لیکن اس سے آگے بڑھ کر مادیت کا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ افعال ذہن ان تغیراتِ جسمیہ کے ہی پیدا کئے ہوئے یا معلول ہیں، نہ استقراء پر مبنی ہے اور نہ یہ فزیالوجی کی کوئی سائنٹفک تحقیقات ہیں، ماہر عضویات اتنا اور صرف اتنا جانتا ہے کہ جب شعور و ادراک کا فعل واقع ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ کاسۂ سر کے اندر جو بھورے رنگ کا مادّہ بند ہے، اس میں بھی ایک خاص تغیر واقع ہوتا ہے، اب اس کی تعلیل کے لئے جس طرح یہ صورت ممکن ہے کہ شعور و ادراک اس بھورے مادہ کا آفریدہ و معلول ہو، اس سے کسی طرح کم درجہ کا امکان کیا یہ نہیں ہے کہ شعور و ادراک کسی اور غیر مادی ہستی کا فعل ہو جو اعضائے دماغ و نظامِ عصبی کو بطور ایک آلہ کے استعمال کرتی ہو؟
یہ بحث مابعد الطبعیات کی دنیا کے ظنیات و قیاسیات کی ہے سائنس نہ اس کو ہاتھ لگاسکتی ہے، نہ کسی سائنٹفک واقعہ کی طرح تجربہ و مشاہدہ سے اس کا کوئی قطعی و یقینی فیصلہ کرسکتی ہے، اس بناء پر اب محققین و کبارِ علماء سائنس کا صرف اتنا ہی دعویٰ ہے کہ افعال ذہن و تغیراتِ جسم ساتھ ساتھ اور ایک دوسرے کے متوازی واقع ہوتے ہیں اور بس باقی ان کے باہمی تعلق کا (کہ کون علت ہے اور کون معلل) نہ علم ہے اور نہ اس کے جاننے کا کوئی ذریعہ ہے، پروفیسر ٹنڈل کو جو اپنے خطبۂ بلفاسٹ کو بدولت ملحد و مادہ پرست سب کچھ کہا جاتا ہے اور جس کا شمار رجالِ سائنس میں ہے اس کا اعتراف سنو:
’’اگر ہمارے ذہن و حواس کی وسعت، قوت اور روشنی اس درجہ بڑھ جاتی اور تیزہوتی کہ ہم دماغ کے خود مکسرات (مالی کیولز یعنی جسم کے غیر مرئی ذرّات) کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے اور محسوس کرلیتے، ان کے تمام حرکات مختلف اجتماعات اور برقی اعمال کو اگر ایسا ہوتا کہ ایک ایک کرکے جان لیتے اور ان کے مقابل کی کیفیات فکر و ادراک سے پوری طرح آگاہ ہوتے، جب بھی اس معمہ کے حل کرنے سے ہم اتنے ہی دو پڑے رہتے، جتنا کہ ہمیشہ رہے ہیں کہ ’’یہ جسمی تغیرات واقعات شعور سے کیونکر وابستہ ہیں یا ان میں کیا تعلق ہے؟‘‘ ان دو قسم کے واقعات کے درمیان جو خندق حائل ہے وہ اب بھی عقل کے لئے ناقابلِ عبوری ہی رہتی، فرض کرو کہ شعورِ محبت کا تعلق داہنی جانب کے مکسراتِ دماغ کی ایک پیچ دار حرکت سے ہے اور شعورِ نفرت بائیں جانب کی اس قسم کی ایک پیچیدہ حرکت سے وابستہ ہے، لہٰذا اس سے ہم کو یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ جب ہمارے اندر محبت کا شعور پیدا ہوتا ہے تو حرکت کا رُخ ایک طرف ہوتا ہے اور شعورِ نفرت کے وقت دوسری طرف لیکن ’’کیوں؟‘‘ اس کا جواب ہمیشہ اسی طرح ناممکن رہے گا جیسا کہ پہلے رہا ہے‘‘۔
’’میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مادّی یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کے ان مکسرات کی حرکات و اجتماعات (گروپس) سے ہر شئے کی توجیہ و تشریح ہوجاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان سے کسی شئے کی بھی توجیہ نہیں ہوتی، زیادہ سے زیادہ وہ جو کچھ دعویٰ کرسکتا ہے، وہ صرف ان دو قسم کے واقعات کی باہمی وابستگی کا ہے جن کے حقیقی رشتۂ اتحاد و ابستگی سے وہ مطلق جاہل ہے، جسم و روح کے تعلق کا مسئلہ آج بھی اپنی موجودہ صورت میں اسی طرح ناقابلِ حل ہے، جس طرح عصر حکمت و سائنس سے پہلے تھا۔ (خطبات و مقالات، از: ٹنڈل:۵۹، آر پی سیریس)
ہم نظام عصبی کے ارتقاء کا پتہ لگاسکتے ہیں اور احساس و کفر کے متوازی واقعات کو اس سے وابستہ بتاسکتے ہیں، اتنا ہم غیر مشتبہ یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، لیکن جب ہم ان کی باہمی وابستگی کی حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ محض ہوا ناپنے کی کوشش ہوتی ہے‘‘۔ (خطبۂ بلفاسٹ:۴۰)
(۲) روح ہی کی طرح ’’حقیقتِ حیات‘‘ کا راز بھی سربستہ ہے، کوئی نہیں بتاسکتا کہ زندگی کیا ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ کیونکر پیدا ہوئی یا ہوتی ہے؟ یہاں بھی سائنس کا قدم اپنی رسائی کی حد تک جاکر رُک جاتا ہے اور تجربہ و استقراء سے صرف اتنا دریافت ہوسکا ہے کہ حیات کی سب سے ابتدائی اور انتہاء سے انتہاء بسیط شکل کیا ہے، اس کا نام علم الحیاۃ کی اصطلاح میں پروٹو پلازم ہے، جو بقول ہکسلے کے مادّی یا ’’جسمی اساسِ حیاۃ‘‘ اور تمام معلوم اصنافِ زندگی کی بنیاد ہے، معمورہ حیات اسی پروٹو پلازم کے چھوٹے بڑے مختلف الانواع اجتماعات و مرکبات کی آبادی ہے۔
کیمسٹری نے ایک گرہ اور کھولی ہے اور یہ پتہ لگایا ہے کہ یہ بسیط اساسِ حیات کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن کے بسائط عناصر سے بناء ہوتا ہے، ان کیمیاوی اجزاء یا ’’موادِ حیات‘‘ کے معلوم ہوچکنے کے بعد سے اہلِ سائنس کے حلقوں میں یہ امید بھی باندھی جانے لگی ہے کہ کیا عجب ہے کہ وہ دن بھی آکر رہے جبکہ لبوریٹری میں ان عناصر کی ترکیب سے ہم زندگی اسی طرح پیدا کرلیا کریں گے جس طرح آکسیجن اور ہائیڈروجن ملاکر پانی بنالیتے ہیں، اس دن گویا رازِ زندگی کھل جائے گا۔
بلاشبہ ایسا ہونا کچھ ناممکن نہیں ہے اور اس حد تک رازِ زندگی کھل بھی سکتا ہے کہ سائنس ہفت خواں کی یہ آخری منزل ہوگی، لیکن اس سے حقیقت حیات کا آخری عقدہ بھی کھل جائے گا کہ زندگی بالذات کیا شئے ہے؟ ان بے جان عناصر کے خالی اجتماع سے جان کہاں سے اور کیونکر آجاتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب سے سائنس کی زبان اسی طرح عاجز ہے جس طرح یہ بتلانے سے بے بس تھی کہ ’’داہنی جانب کے مکسرات دماغ کی حرکت سے شعور محبت اور بائیں جانب کے مکسرات کی حرکت سے شعور نفرت کیونکر اور کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟‘‘
(۳) مذہب کی عمارت کا بڑا حصہ روح اور حیاۃ کی پُر اسرار بنیاد ہی پر قائم ہے، اس لئے اگر سائنس نے ان اسرار کے افشاء کا ادعا کیا اور اہلِ مذہب اس پر کھٹکے تو کچھ زیادہ بیجا نہ تھا، لیکن سخت حیرت کی بات یہ ہے کہ تحقیقات اصل الانواع (اوریجن آف اسپیشیز) یا ارتقاء کے انکشاف سے کیوں اربابِ مذہب اتنا بھڑک اٹھے، بات وہی ہے کہ مرعوب اور دہشت زدہ آدمی کو سایہ پر بھی دیو کا گمان ہوتا ہے۔
ورنہ اگر قانون ارتقاء وک ایک ناقابلِ انکار حقیقت بھی مان لیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ جسم کے ساتھ حیات و روح میں بھی ارتقاء ہے تو بھی ان کی ما بعد الطبعیاتی (میٹافزیکل) حقیقت کا راز اسی طرح سر بمہر رہ جاتا ہے، جیسا کہ اس انکشاف سے صدیوں پہلے تھا، نظریۂ ارتقاء اس سے زیادہ کچھ بھی دعویٰ نہیں کرسکتا نہ کرتا ہے کہ انسان کے جسم کی موجودہ ساخت اور اس کے نفس و روح کے افعال کا موجودہ درجہ ذی حیات اجسام و نفوس کے ابتدائی مدارج سے آہستہ آہستہ ترقی کرکے اس حد تک پہنچا ہے۔
لیکن یہ بعینہٖ وہی شئے ہے جس کو ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور ذرا بھی متعجب نہیں ہوتے، بچے کے روح یا ذہنی افعال ولادت کے دن سے لے کر ڈارون ہونے کے دن تک جس طرح بتدریج نشو و نماز پاتے ہیں اور تعلیم، صحت و تندرستی وغیرہ کے خارجی حالات عقل و ذہن کی ترقی و تربیت پر جو اثر رکھتے ہیں اس کو کون نہیں جانتا، پھر بچہ ’’ماءِدافق‘‘ کے چند قطرات سے انسان کامل کی صورت تک پہنچنے میں نو مہینوں کے اندر کتنے چولے تبدیل کرتا ہے، سانپ اور بندر خدا جانے کن کن مخلوقات کے عالم جنین سے گذرتا ہے جب جاکر کہیں اس قابل ہوتا ہے کہ ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا بچہ کہلائے، فرق صرف مدت کا ہے، ’’ماءِ دافق‘‘ کے جراثیم کو انسان بننے میں نو ہی مہینے لگتے ہیں لیکن ادنیٰ درجہ کے حیوانات کو انسانی ’’احسن تقویم‘‘ تک پہنچنے میں اَن گنت صدیاں لگ گئیں، بچہ کی بے عقلی پچاس ہی سال میں بڑھ کر ’’اصل الانواع‘‘ کے مصنف و مکتشف کی عقل کے برابر ہوجاتی ہے، مگر نفس حیوانی کو روح انسانی تک کی مسافت طے کرنے میں ہزاروں برس صرف ہوگئے۔
اس لئے اگر قانون ارتقاء کے علم سے مذہب کی زمین پر زلزلہ کا کوئی صدمہ محسوس ہوا تو ڈارون اور اسپنسر (اس نے قانونِ ارتقاء کو اس قدر وسعت دی کہ ذہنی، تمدنی، اخلاقی اور اجتماعی تمام چیزیں اس کی تحت میں آگئی ہیں) کے وجود سے پہلے ہی مذہب کی عمارت کو زمین دوز ہوجانا تھا، لیکن اگر مذہب کی تعمیر اسرار روح و جسم کی اساس پر ہے جس کی گہرائی تک سائنس کا واہمہ بھی نہیں جاسکتا ہے، تو مذہب کے دامن تک سائنس کا گستاخ ہاتھ نہ آج تک دراز ہوسکا اور نہ آئندہ ہوسکتا ہے۔ ؎ این زمیں را آسمانے دیگر ست
(۴) روح، حیات اور اصل الانواع سے متعلق سائنس کے ان اکتشافات کو زیادہ سے زیادہ مؤیداتِ مادّیت کہا جاسکتا ہے، لیکن اصل جڑ جس کے سبب یہ سب برگ و بار ہیں، استمرار مادہ و قوت کا ادعا ہے جس کا ما حصل یہ ہے کہ مادہ اور اس کی قوت دونوں ازلی اور ابدی ہیں، ان کو نہ کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ کوئی فناء کرسکتا ہے، ان کا وجود ایک دوسرے کے ساتھ غیر منفک طور پر وابستہ ہے، عالم کی تمام نیرنگیاں، زمین و آسمان کی ساری عجائب کاریاں اور جسم و روح کے سراپا مظاہر، یکسر و کلیۃً بلا استثناء انہی دو کے خلق و امر کا تماشہ گاہ ہے۔
اولاً تو ’’استمرار مادہ‘‘ کا نظریہ محض ایک نظریہ اور ما بعد الطبیعیاتی نظریہ ہے، یہ قول ایک حال کے عالم سائنس (الگزنڈر اسمتھ) کا ہے کہ اس کا تعلق ایسے ’’مفروض واقعات سے ہے جو گویا یکسر ہمارے ترجبہ کی حد سے باہر ہیں، اس لئے یہ ایک فوق الفطرۃ نوعیت کا مسئلہ ہے جس کی اصلی جگہ مابعد الطبیعیات میں ہے‘‘، یہ کوئی ایسی سائنٹفک حقیقت نہیں ہے جس کی نفی نہ کی جاسکتی ہو، بلکہ ہمارے زمانہ کا مشہور و مسلم سائنٹسٹ سر آلیور لاج تو علی رؤوس الاشہاد کہتا ہے کہ ’’مادہ کا فناء و تکوین اچھی طرح تخیلِ سائنس کے اندر داخل ہے اور امکانِ تجربہ کی حد میں آسکتا ہے‘‘۔
لیکن ہمارے مقصد کے لئے اس باب میں اہم المباحث نفس مادّہ کی حقیقت و ماہیت کا مسئلہ ہے، مادّہ کیا ہے؟ اس کی نسبت انسان کیا جانتا ہے یا جان سکتا ہے؟ قوت سے اس کا کیا تعلق ہے؟
اختیار و تجربہ کی مدد سے حقیقت مادہ کے متعلق سائنس جن قیاسی نتائج تک پہنچ سکی ہے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی قسم کے بھی مرکب خواہ مفرد اجسام اگر تم تحلیل و تقسیم کرتے چلے جاؤ تو بالآخر وہ ایسے چھوٹے سے چھوٹے اجزاء یا ذرات پر جاکر ٹھہر جائیں گے جن کی اب آگے تقسیم و تجزی نہیں ہوسکتی، انہی کا نام سالمات (آئٹم) ہے، ہر دو سالموں کے بیچ میں کچھ نہ کچھ فصل یا دوری ہوتی ہے جو ایک اور لطیف تر ناقابلِ وزن مادّہ سے پُر رہتی ہے، اس کا نام ایتھر ہے، یوں سمجھو کہ کائنات کی ساری فضاء ایتھر کا ایک سمندر ہے، جس میں سالمات تیرتے پھرتے ہیں، زیادہ حال کی تحقیقات یہ ہے کہ ان سالمات کی تعمیر ایک اور قسم کے ناقابلِ تصور چھوٹے چھوٹے ذرّات سے ہے جو بجلی کے ہیں، ان کو الکٹرنس (ذرّاتِ کہربائی یا برق پارہ) کہا جاتا ہے، ان قیاسات کو صحیح مان کر جو حقیقت میں صرف ساخت مادہ پر روشنی ڈالتے ہیں، ماہیت مادہ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، اب سوال یہ ہے کہ خود سالمات یا الکٹرنس کیا ہیں؟
اس کے جواب میں سائنس والی چیستان بچھاتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ جسم کے یہ آخری و انتہائی اجزائے ترکیبی مراکز قوت (سنٹر لائزڈ فورس) ہیں، کسی کا ادعا ہے کہ نہیں ان کی اصل مابعد الطبیعیات نقطوں (میٹا فزیکل پوائنٹس) سے زیادہ نہیں ہے، جو سکون سے حرکت میں آکر قابلِ حس مادّہ کی صورت اختیار کرتے ہیں اور کوئی سالمہ کی گجہ فقط اقلیدسی یا ہندسی نقطہ کا قائل ہے جو مبدءِ قوت ہے۔ (خواص مادہ، از: پی جی ٹیل)
الکٹرنس کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بحر ایتھر کے گرداب، اس کے تموجات کی گرہیں یا اس کی سطح شکنیں ہیں، غرض ؎ چوں ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند
مادّیت‘ خالص فلسفیانہ مسلک ہے:
بات یہ ہے کہ جس طرح نفس مادیت ایک خالص فلسفیانہ مسلک ہے، جس پر بحث دائرۂ سائنس سے خارج ہے، اسی طرح عقلیات میں ماہیت مادّہ کی نسبت موشگافیوں کا حق بھی تنہاء مابعد الطبیعیات ہی کو حاصل ہے، اور سائنس کا وظیفہ ماہیتِ اشیاء کی تحقیق نہیں ہے، لہٰذا اس بحث کے تصفیہ کے لئے سائنس کے بجائے فلسفہ کی عدالت کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔
فلسفۂ قدیمہ کے دور اول میں دیمقراطیس نے جب پہلے پل مادیت کی صدا بلند کی تو اس وقت تک کسی کو کہنا چاہئے کہ یہ وہم تک نہ تھا کہ خود مادہ کی حیثیت بحث طلب ہے یا اس کے اصل وجود سے انکار ممکن ہے، چند دن بعد افلاطون نے اس کی جرأت کی مگر اس کی بغاوت کا علم خود اس کے شاگرد ارسطوؔ ہی نے بلند کردیا اور آنے والی نسلوں پر وہ اپنے استیلاء و تسلط سے اس قدر چھاگیا کہ صدیوں تک دنیائے فلسفہ کا وہ خدائے غیر مسئول بن کر پجتا رہا، اس لئے اگر عہد قدیم اور قرونِ وسطیٰ میں پیروان ویمقراطیس کی زبانوں سے یہ کلمات نکل گئے تو کوئی محل استعجاب نہیں کہ ’’مادہ ساری کائنات کا رحم مادر ہے، تمام چیزیں صرف اسی کے نتائج ہیں‘‘، لیکن انیسویں صدی میں کسی ذمہ دار عالمِ فلسفہ و سائنس کا یہ کہہ گذرنا کہ ’’مادہ اور قوانینِ مادہ نے وجود روح اور عقیدۂ تکوین کو باطل کردیا‘‘ موجبِ صد حیرت ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں مادیت کی بنیاد کمزور تھی، جدید تحقیقات و انکشافات نے اس کو مستحکم بلکہ اٹل بنادیا ہے، لیکن واقعہ بالکل برعکس ہے، جدید تحقیقات و انکشافات ہی نے مادّیت کا قدم ہمیشہ کے لئے اکھاڑ دیا ہے۔
مادّیت میں گھن تو آج سے دو سو برس پہلے ہی لگ چکا تھا، جب لاکؔ نے صفاتِ اوّلیہ اور ثانویہ کی تقسیم کرکے یہ ثابت کردکھایا تھا کہ رنگ، مزہ اور بو وغیرہ صفاتِ ثانویہ محض ذہن کے احساسات ہیں اور خارج میں ان کا یا ان کے مماثل کسی شئے کا کوئی وجود نہیں، برکلےؔ نے صفاتِ اوّلیہ شکل (فیگر) و امتدادا (اکسٹنشن) وغیرہ کو بھی اسی حکم میں داخل کردیا اور اس طرح چھت سے لے کر نیو تک ساری عمارت ہی ڈھادی۔
آدمی براہِ راست جو کچھ جانتا ہے وہ اپنے ہی احساسات ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی احساس کا وجود احساسات کرنے والے ذہن یا نفس سے باہر نہیں موجود ہوتا، تمہارے پاؤں میں کانٹا چبھ جاتا ہے جس سے درد محسوس ہوتا ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ درد کی یہ خاص کیفیت یا اس کے ممثال کوئی چیز تم سے باہر کانٹے وغیرہ میں کہیں پائی جاتی ہے، کُنین زبان پر رکھتے ہی جس تلخی کے احساس سے تم منہ بنالیتے ہو کیا یہ احساس یا کیفیت خود کنین میں پائی جاتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ انسان کی طرح کنین میں بھی حاسۂ ذوق ہے موجود ہے، غرض اسی طرح سامعہ و باصرہ، لامسہ و شامّہ وغیرہ کے تمام محسوسات، رنگ، بو، مزہ، آواز، سردی، گرمی اور شکل و امتداد سب کی سب صرف احساس کرنے والی ذات کے اندر پائے جاتے ہیں، باہر کوئی وجود نہیں ہوتا، مثال کے لئے ایک آم لو، اس میں سے رنگ و بُو، شکل و صورت، وزن و ذائقہ وغیرہ کے تمام احساسات نکال ڈالو اور پھر بتاؤ کہ تمہارے پاس کیا رہ جاتا ہے جس کے براہِ راست معلوم ہونے کا تم دعویٰ کرسکتے ہو؟ کچھ نہیں! ان احساساتِ ذہنیہ کو مادہ نہیں کہا جاسکتا، ان کے ماوراء کسی چیز کا علم نہیں ہے۔ (مزید تفصیل و رفعِ شکوک کے لئے دیکھئے ’’برکلے‘‘ مطبوعہ شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ)
؎ پَر وہی گِر پڑا کبوتر کا
جس میں نامہ بندھا تھا دلبر کا
اس بناء پر برکلے نے کسی موجود فی الخارج، قائم بالذات شئے یا مادہ کا سرے سے انکار ہی کردیا، ہیومؔ بھی دبی زبان سے برکلے ہی کا ہم آواز ہے، کینٹؔ (۱۷۲۴ء یا ۱۸۰۴ء) نے البتہ ذرا ہٹ کر یہ کہا کہ ہاں اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ اپنے ہی احساسات ہوتے ہیں، ان کے ماوراء ذات اشیاء کا علم نہ ہوتا ہے اور نہ ہوسکتا ہے، نہ ان احساسات کے مماثل کوئی چیز ذہن سے باہر موجود ہوتی ہے، لیکن ایک ایسی نامعلوم شئے (Something unknown) کوئی ہے جو ان احساسات نفسی کی علت ہے، وہ خارج از ذہن پائی جاتی ہے اور وہی مادّہ ہے۔
کینٹ کی اس انجانی کوئی چیز Something unknown کا فرض چونکہ کسی مضبوط استدلال پر مبنی نہ تھا، اس لئے فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کی دنیا میں تو اس کو بہت زیادہ فروغ نصیب نہ ہوسکا، خود کینٹ کی مندگی اور اس کے وطن (جرمنی) ہی میں بعد کو جو ناماور فلاسفہ و متالہین (میٹا فریشنز) گذرے، یعنی فختے، شیلنگ اور ہیگل وغیرہ وہ سب کے سب آئیڈیلسٹ (تصوریہ) یا منکرین مادہ تھے۔ (’’ماہیتِ مادہ‘‘ کی تفصیل کے لئے دیکھئے ’’معارف‘‘ ڈسمبر ۱۹۱۹۱ء)
لیکن اہلِ سائنس جن کی کائنات ہی عالم جسمانیات ہے وہ اس سر رشتہ کو بالکل کیسے چھوڑ سکتے تھے، ان کو ’’انجانی کوئی چیز‘‘ کا کچّا دھاگا ہی غنیمت معلوم ہوا جس کو آخری سہارا سمجھ کر انہوں نے مضبوط پکڑ لیا اور اب کینٹ کے بعد سے تقریباً تمام حکماء کا یہی مذہب ہے کہ ذہن کے باہر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے، مگر ہم اس کے متعلق نام سے زیادہ کچھ نہیں جانتے، خود ہکسلے جو ایک جلیل القدر امامِ سائنس ہے اور جس کی زبان سے نکل گیا تھا کہ ’’مادہ اور قوانینِ مادہ نے روح و خلق کو باطل کردیا ہے‘‘ اس کا اعتراف سنئے:
’’آخر کار ہم اس ہیبت ناک مادہ کی نسبت سے اس سے زیادہ کیا جانتے ہیں کہ وہ ہماری کیفیات شعور کی ایک انجانی اور فرضی علت کا نام ہے؟ اسی طرح ہم اس روح کی نسبت بھی جس کے بارے میں تہدید ہے کہ مادہ نے اس کو فناء کردیا ہے اس سے زیادہ کیا جانتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے احوال و کوائف شعور کی نامعلوم و فرضی علت کا ایک نام ہے؟ دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ مادہ اور روح دونوں حوادث طبعی (نیچرل فنامنا) کے خیالی محل و ہیولیٰ کے محض نام ہیں‘‘۔ (خطاب و مضامین ہکسلے:۵۵، آر پی سیریز)
اتنا ہی نہیں بلکہ حقیقت مادہ کا طلسم ٹوٹ جانے کے بعد اب سائنس کو انتساب مادیت سے عار آنے لگی ہے اور ’’آج کل سائنس اس سے زیادہ کسی بات کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی کہ اس کی جانب مادیت کا انتساب ہو، اس لئے کہ یہ بھی بہر حال اسی طرح کا ایک فلسفیانہ ادعا (ڈاگما) ہے، جس طرح کہ تصوریت، مادیت مدعی ہے آغازِ کائنات سے چلنے کی، جو سائنس کے بس سے باہر ہے‘‘۔ (فطرت و لا ادریت(نیچرل ازم اینڈ آنڈیلزم):۱،۱۰)
اور مہدب کی بناء ’’آغاز و انجام کائنات‘‘ ہی کے معمہ پر ہے، جب سائنس کے ناخن سے یہ گرہ نہیں کھل سکتی تو اس کو مادیت کا حلیف اور مذہب کا حریف سمجھنے یا کہنے کی جو بساط ہے وہ ظاہر ہے۔ ؎
تھی خبر گرم کے غالبؔ کے اڑیں گے پُرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پر تماشا نہ ہوا
غرض اٹھارویں صدی کے اواخر سے جب سے عقلِ سائنس کو اپنی پروازہ کا سدرۃ المنتہیٰ معلوم ہوگیا، اس سے آگے نارسائی پوری طرح محقق ہوگئی اور جہلِ مرکب کا پردہ آنکھوں سے پر اٹھ چکا ہے، اسی وقت سے اہلِ سائنس کا فلسفیانہ مسلک مادّیت نہیں بلکہ وہ لا ادریت ہے جو ’’مابعد الطبیعیات‘‘ کے مذاہب اربعہ کا آخری نمبر ہے، جس کی نسبت ہم کہہ آئے ہیں کہ وہ نہ مذہب کا دوست ہے اور نہ دشمن۔
لا ادریت:
لا ادریت کا خلاصہ اعترافِ لا علمی ہے، یہ اسکول بھی اگرچہ فلسفہ کے دوسرے اسکولوں کی طرح زمانۂ قدیم ہی میں پیدا ہوچکا تھا اور تشکیک یا ارتبابیت (سپٹزم) کے نام سے پکارا جاتا ہے، مگر پرانے زمانہ میں اس کا مفہوم اس قدر مطلق و وسیع تھا کہ خود شک میں بھی شک کیا جاتا تھا، عصرِ جدید میں اس کو ہیومؔ نے زندہ اور کیا اور کینت نے تو اس کی بنیاد کو اس قدر مستحکم بنادیا کہ فلسفہ کیا علماء سائنس کو سرتابی کی مجال نہ رہی، لیکن اب مفہوم کی وہ پرانی وسعت اور اطلاق نہیں باقی ہے، بلکہ واقات و حوادث (فنامنا) ظواہر اشیاء ((اپیرنسز) اور مسائل طبعیہ کو عالم شک و لاعلمی سے نکال لیا گیا ہے، البتہ دوات داعیان (نامنا) حقائق اشیاء (ریلیٹیز) اور ما بعد الطبعیاتی مسائل کے دروازوں کو انسانی عقل و علم کے لئے ہمیشہ کے واسطے مقفل سمجھ لیا گیا ہے۔
لا ادریت (اگناسٹزم) کے لقب کا موجد ہکسلے ہے، اس لئے خود اسی کی زبان سے سنو کہ روح اور خدا وغیرہ الہٰیاتی مسائل کی نسبت ایک لا ادری کی کیا پوزیشن ہے، چارلس کنگ سلےؔ کو ایک خط میں لکھتا ہے کہ:
’’میں انسان (روح) کے غیر فانی ہونے کا نہ مدعی ہوں نہ منکر، میرے پاس اس کے یقین کے لئے کوئی دلیل نہیں، لیکن ساتھ ہی دوسری طرف اس کے ابطال کا بھی میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں‘‘۔
ایک اور موقع پر ’’اصول و نتائج‘‘ (میتھڈس ایڈ رزلٹس) میں لکھتا ہے کہ:
’’وجود کی علت اولیٰ کا مسئلہ میرے حقیر قویٰ کی دست رس سے باہر ہے، جتنی لا یعنی ہرزہ سرائیوں کے پڑھنے کا موقع مجھ کو ملا ہے ان میں سب سے بدتر ان فلاسفہ کے دلائل ہوتے ہیں جو خدا کی حقیقت کے بارے میں موشگافی کرتے ہیں، مگر ان فلاسفہ کے مہملات ان سے بھی بڑھ جاتے ہیں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں‘‘۔
ایک اور جگہ کہتا ہے:
’’چاہے حوادث و واقعاتِ مادہ کو روح کی اصطلاحات میں بیان کرو اور چاہے حوادثِ روح کو مادہ کی اصطلاحات سے تعبیر کرو، یہ بجائے خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا، ہاں اتنا ہے کہ سائنس کے لئے مادیانہ اصطلاح تعبیر زیادہ موزوں اور قابلِ ترجیح ہے‘‘۔
بعض غلط فہمیوں سے بچنے کے لئے لاادریت کی حقیقت و مدعا کی ذرا اور توضیح ضروری ہے، علمائے سائنس کے اس فلسفیانہ مسلک کا منشاء صرف اس قدر ہے کہ ہماری سائنٹیفک تحقیقات و عقلی استدلالات کا گذر واقعات و ظواہرِ اشیاء سے آگے نہیں، یعنی جس قسم کے استقرائی تجربات و عقلی دلائل و قیاسات سے ہم علوم طبعیہ کے مسائل کو قطعی طور پر ثابت کرسکتے ہیں اور طرح طرح کے انکشافات تک پہنچ سکتے ہیں، ان کے وسیلہ سے حقائق اشیاء اور مابعد الطبعیات کے مسائل کو ثابت یا باطل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان رموز کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔
فہمِ انسانی سے خارج اشیاء کا حیاتِ انسانی سے خارج ہونا ضروری نہیں!
لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا اور نہ نکالنا چاہے کہ جو شئے انسان کی عقل و فہم سے خارج ہے وہ اس کی زندگی سے بھی خارج ہے یا انسان فقط انہیں چیزوں کو مانتا اور قبول کرتا ہے، جو سائیٹیفک دلائل سے ثابت ہوچکی ہیں، اس لئے کہ عقل و دانش کے مدعی انسان کی عملی زندگی کا اکثر بلکہ کل حصہ ایسی ہی نادانیوں کا پروگرام ہے جن میں سے کسی ایک کو بھ عقل و حکمت سے ثابت نہیں کرسکتا، آدمی سمجھتا ہے کہ وہ ہر قدم عقل کی روشنی میں اٹھاتا ہے؛ حالانکہ اس کا سارا سفرِ زندگی جذبات و مرعوبات کی تاریکی میں طے ہوتا ہے۔
اس کے سارے اعمال زندگی کا محور زندگی اور عیش و آرام کی زندگی ہے، اس کا ایک فعل بھی نیک نامی، شہرت و عزت کے جذبات اور نفس کی لذت طلبیوں سے خالی نہیں ہوتا، لیکن کیا کوئی شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ ان جذبات کی حقیقت و صداق کو عقل نظری اور سائنس سے ثابت کیا جاسکتا ہے؟ آدمی جیسے کے لئے مرتا ہے، مگر کیا وہ اپنی زندگی کی ضرورت کسی سائنٹیفک دلیل سے ثابت کرسکتا ہے؟ صبح سے شام تک وہ ہزار چیزوں کو برا بھلا کہتا ہے، لیکن کیا ان میں سے وہ ایک کی برائی بھلائی کو بھی خالص عقلی نقطۂ نظر سے متعین کرسکتا ہے؟ علمائے اخلاق آج تک خیر و شر کا حقیقی معیار نہ بتاسکے، مگر انسان کی زندگی سے اگر یہ امتیاز نکال کیا جائے تو دفعۃً ساری مشین بے حرکت ہوکر رہ جائے، انسان کو خود مختار اور صاحب ارادہ کون ثابت کرسکتا ہے؟ بلکہ نفسیا و افعال الاعضاء سے اس کا مجبور محض اور قطعاً بے بس ہونا ثابت ہوتا ہے، مگر بتاؤ کہ تم صبح سے شام تک کتنے سیکنڈ اپنے کو بے اختیار و بے ارادہ سمجھتے ہو؟ کیا اگر انسان خود مختاری کے اس غیر سائنٹیفک اعتقاد کو ذہن سے نکال سکے تو پھر بھی عمل کے ہاتھ پاؤں میں کچھ جنبش باقی رہ جائے گی، کیا اولاد کے موت پر والدین کے غم و ماتم کو کوئی شخص خلافِ عقل کہہ کر روک سکتا ہے ؟جب تک ثواب آخرت یا صبر و تمل کے خراجِ تحسین کا کوئی اور زبردست جذبہ موجود نہ ہو۔
مذہب کی جڑ کو انسانی قلب سے نکال نہیں جاسکتا!
غرض انسان استدلالات نہیں، اعتقادات اور عقل نہیں، جذبات کا بندہ ہے اور مذہب کی بناء اعتقادات و جذبات ہی پر ہے، اس لئے جب تک امید و بیم، محبت و نفرت، یأس و بے بسی، انعام و انتقام، احترام و تعظیم، حیرت و استعجاب اور جمال پرستی وغیرہ کے جذبات انسان کے خمیر میں داخل ہیں، اس وقت تک مذہب بھی انسانی وجود کا جزو ہے، صورتیں بدل سکتی ہیں لیکن اس کی جڑ کو کوئی قوت دل سے اکھاڑ کر نہیں پھینک سکتی، بقول پروفیسر ٹنڈلؔ کے:
’’میرا دعویٰ ہے کہ کوئی ملحدانہ استدلال انسان کے دل سے مذہب کو خارج نہیں کرسکتا، منطق ہم کو زندگی محروم نہیں کرسکتی، اور مذہب اہلِ مذہب کی زندگی ہے، مذہب انسان کے ذاتی یا وجدانی تجربہ کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں مذہب کا گذر نہیں‘‘۔ (خطبات و مقالات ٹنڈل:۴۵، آر پی سیریز)
’’جذبہ مذہب کی جگہ انسان کے سویداء قلب میں ہے اور آغازِ تاریخ کےقرنوں پہلے سے تمام مذاہبِ عالم کا خمیر ہے، تم نے جو اس مذہب سے بھاگ کر عقل کی بلند و خشک روشنی میں پناہ لی ہے اور اس کی ہنستی اڑاتے ہو تو یاد رہے کہ ایسا کرنے سےتم صرف اعراض اور ظاہری صورتوں کو ہدف بناسکتے ہو، لیکن احساس مذہب کی اس غیر متزلزل اساس کو ہاتھ نہیں لگاسکتے، جن کی جگہ فطرتِ انسانی کی گہرائی میں ہے‘‘۔ (خطبات و مقالات ٹنڈل:۴۵، آر پی سیریز)
زمین اور پہاڑوں کو کھود کو طبقات الارض کے اسرار جانے جاسکتے ہیں، سمندوں کی سطح پر جہاز اور آبدوزی کشتیاں چلائی جاسکتی ہیں، لیکن کیا اس سے اُس عظمت و ہیبت کے احساس میں فرق آسکتا ہے جو ہمالیہ کی ہزار ہا فٹ بلند چوٹیوں کے نیچے کھڑے ہونے سے اور جہاز کی چھت پر کھڑے ہوکر ناپیدا کرنا سمندر پر نظر دوڑانے سے پیدا ہوتا ہے؟ کیا علمِ حیوانات و نباتات پرھ لینے سے جمالِ فطرت کی پرستش کا وہ ذوق فنا ہوجاتا ہے جو عالمِ بہار میں نظر کو ایک ایک پھول پتی سے حاصل ہوتا ہے؟ اور جو کوئل کی کوکو اور بلکل کی نغمہ سرائی سے سامعہ نوازی کرتا ہے؟ شاعر و مصور پر تو یہی پُر کیف موسم رقص طاری کردیتا ہے، ایک فنِ طب کا ماہر اپنے زمانہ کا سب سے مشہور معالج جس کے ہاتھ سے ہزاروں مریض شفاء پاچکے ہیں، وہ ایک معمولی مرض سے اپنی اکلوتی ہونہار جوان اولاد کو نہیں بچا سکتا اور اپنی آنکھوں سے اس کے دم توڑنے کا تماشا دیکھنا پرتا ہے، دوسری طرف ایک فاقہ کش کا بچہ دق میں مبتلا ہوتا ہے، دوا علاج تفریح و آرام کا کوئی سامان نہیں، مگر پھر بھی اچھا ہوجاتا ہے، کیا ان روز مرہ کے واقعات سے آدمی پر اپنی بے بسی و بے چارگی اور انسانی عقل و تدبیر کی ناکامی کا اثر نہیں پڑتا؟ ایک صاحب علم دانشمند اور نیکوکار کی ساری زندگی مایوسیوں اور ناکامیوں میں گذرتی ہے، سونے کو ہاتھ لگاتا ہے تو مٹی ہو جاتا ہے، ہر تدبیر الٹی پڑتی ہے، برخلاف اس کے اپنے پڑوس ہی میں ایک احمق جاہل و بدکار کو دیکھتا ہے کہ دولت و خوشحالی اس کی غلام ہیں اور کامیابیاں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں، کیا اس عالمِ یأس میں اس کو ایک اور زندگی اور عالم جزاء و سزاء سے ڈھارس اور تسکین نہیں حاصل ہوتی؟
شہود کے پردہ میں غیب کا اعتراف ناگزیر ہے!
غرض ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو اپنی روزانہ زندگی میں ایسے تجربات و حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جو بلا منطقی استدلال و سائیٹفک تحقیقات کے کسی نہ کسی صورت میں اعتراف و اعتقاد پر بے بس کردیتے ہیں کہ انسانی ہاتھوں کے اوپر بھی کوئی اور ہاتھ ہے، ید اللہ فوق ایدیھم اور اس عالمِ شہود کے پردہ میں کوئی نہ کوئی عالم غیب ہے، یہی اعتقاد و ایمان بالغیب مذہب کی جان ہے۔
خود اہلِ سائنس اور مادہ پرست ملاحدہ جو اپنے زعم میں ’’عقل کی فضائے خشک و بلند‘‘ میں پرواز کرتے ہیں، کیا اس ایمان بالغیب پر مضطر نہیں ہیں؟ کیا کوئی سائنٹسٹ یا مادّی، قوت، انرجی، نیچر، قانونِ فطرت اور مادّہ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے بغیر ایک قدم بھی چل سکتا ہے؟ لیکن کیا کوئی پرستار عقل بتاسکتا ہے کہ مادہ، قوت یا نیچر کیا ہے، ان کی کیا حقیقت ہے؟ سواء اس کے کہ معلوم واقعات و ظواہر کی نامعلوم علت کے لئے مختلف تعبیری الفاظ وضع کر لئے گئے ہیں، جن کی حقیقت معنوی کی تشریح سے ایک حکیم اسی طرح عاْم ہے جس طرح ایک اہلِ مذہب خدا کی تحدید و توصیف سے، دونوں اپنی اپنی جگہ پر ایک نامعلوم الحقیقت علت کائنات پر غیبی ہی اعتقاد و ایمان رکھتے ہیں۔
مثال کے لئے ایک قانونِ فطرت (لا آف نیچر) ہی کو لے لو جو آج کل سائنس اور لٹریچر میں اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ گویا واقعاتِ عالم اور حوادثِ کائنات کی انتہائی علّت اور اصل کنہ کو ہم نے پالیا، حالانکہ تجربۂ واقعات و حوادث سے ہمارا علم ایک انچ بھی آگے نہیں جاتا اور ’’قانونِ فطرت‘‘ کے دو لفظی مرکب کا مفہوم اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہ ایک ہی قسم کے مختلف تجربات و مشاہدات کا وہ ایک مجموعی یا کلی نام ہوتا ہے اور بس، جس طرح زید، عمر، بکر وغیرہ ایک ہی قسم کے افراد کا کلی نام انسان ہے، قانونِ فطرت ہم کو یہ مطلق نہیں بتاتا کہ فلاں واقعہ کیوں واقع ہوا یا اس کو لازماً اسی طرح واقع ہونا چاہئے، لزوم و وجوب کا راز اب بھی ویسا ہی سربمہر رہتا ہے جیسا کہ کسی قانونِ فطرت کی دریافت سے پہلے تھے، ہم اس کی مزید تشریح کے بجائے خود ایک نامور سائنٹسٹ کا بیان پیش کئے دیتے ہیں:
’’وہ ڈراؤنا لزوم و وجوب اور ’’آہنی‘‘ قانون کیا ہے جس نے لوگوں کو اس قدر خائف اور دہشت زدہ کر رکھا ہے؟ سچ پوچھو تو یہ ہمارے ہی واہمہ کا گڑھا ہوا محض ایک بھوت ہے، میرے خیال میں اگر کوئی آہنی قانون ہوسکتا ہے تو وہ قانونِ کشش ہے! اور اگر طبعی لزوم و وجوب کوئی چیز ہے تو وہ یہی ہے کہ جس پتھر کے لئے کوئی روک اور مزاحمت نہ ہو! وہ زمین پر گر پڑے گا لیکن اس واقعہ کی نسبت جو کچھ ہم جانتے ہیں یا جان سکتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ صرف اتنی ہی کہ انسانی تجربہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس خاص حالت میں یعنی جب کوئی سہارا نہ ہو تو پتھر زمین پر گر پڑتا ہے، اور ہمارے پاس اس یقین کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسی حالت میں پتھر زمین پر نہ گر پڑے گا؛ بلکہ بخلاف اس کے ہم معقول طور پر یقین کرسکتے ہیں کہ یہ گر ہی پڑے گا، البتہ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ صورت مذکورہ میں یقین کے تمام شرائط موجود ہیں، اس بیان کا کہ بے سہارے کا پتھر زمین پر گر پڑے گا، قانون فطرت نام رکھ دینا نہایت مناسب و بر محل ہے، لیکن جب ’’گا‘‘ کو ہم ’’چاہئے‘‘ (یعنی گر پڑے گا کی جگہ یہ کہنا کہ ضرور بالضرور گر پڑنا ہی چاہئے) سے بدل دیتے ہیں، جیسا کہ علی العموم کیا جاتا ہے تو ہم لزوم و وجوب کی ایک ایسی زائد شئے کا اضافہ کردیتے ہیں جس کا نہ تو مشاہدۂ واقعات میں نشان ملتا ہے اور نہ کہیں اور سے پتہ چل سکتا ہے، جہاں میری ذات کا تعلق ہے میں ایسے زبردستی کے دخل در معقولات دینے والوں سے قطعاً اپنی بیزاری اور تبرّی ظاہر کرتا ہوں، بے شک میں واقعہ جانتا ہوں اور اس قانون کا علم رکھتا ہوں مگر یہ لزوم خود اپنے ہی ذہن کے گڑھے ہوئے غولِ بیابانی کے سواء اور کیا ہے؟‘‘ (مضمون’’فزیکل بیسس آف لائف‘‘ از:ہکسلے)
غرض جس طرح اہلِ مذہب واقعات و حوادث کائنات کی ایک معلوم الاسم و نامعلوم المسمّٰی آخری علت (خدا) پر ایمان رکھتے ہیں جس میں چون و چرا کی گنجائش نہیں، اسی طرح مشرکین سائنس بھی انرجی، نیچر، لا آف نیچر وغیرہ بیسیوں دیوتاؤں کے سامنے خمیدہ سر ہیں جن کی نسبت چون و چرا کا جواب نہیں دے سکتے۔
لا ادرِیْ تک جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم کو حوادث محسوسہ یا ظواہر اشیاء کے ماوراء چیزوں سے نفیاً یا اثباتاً کوئی سروکار نہیں، کیا ان کی خود تبرّی میں اعیان و حقائق کا اعتراف، رازِ آشکار کی طرح نمایاں نہیں ہے؟ بقول اسپنسر کے کہ :
’’یہ تصور کرنا ہی سرے سے ناممکن ہے کہ ہمارا علم صرف ظواہر تک محدود ہے، بے اس کے کہ ان ظواہر کے پس پردہ کوئی حقیقت تسلیم کی جائے، کیونکہ ظاہر بلا باطن ناقابل تخیل ہے۔
کائنات کے اس محسوس ظواہر کی تہہ میں جو قائم الذات اور متغیر الصفات ہستی پنہاں ہے وہ انسانی علم و تخیل سے مافوق ایک نامعلوم اور ناممکن العلم قوت ہے، جس کی نسبت ہم اس اعتراف پر بے بس ہیں کہ وہ زمان و مکان کے قیود سے برتر ہے‘‘۔
اسپنسر کے اس قول کو نقل کرکے سیمول لینگ لکھتا ہے کہ:
’’یہ بلند ترین فلسفۂ لا ادریت ہے! دیکھو کہ یہ الحاد سے ایک بالکل ہی جدا گانہ شئے ہے، کیونکہ یہ علانیہ ایک پس پردہ قوت کی معترف ہے جو اگرچہ ’’نامعلوم و ناممکن العلم‘‘ ہے، پھر بھی ان ہی جذبات و احاسات کی صدائے باز گشت ہے جو تمام مذاہب کا سرچشمہ ہیں۔
مثلاً لا ادریت میں کوئی ایسی شئے نہیں ہے جس کی بناء پر حیاتِ مستقبل کے امکان سے انکار کیا جاسکتے، پردہ کے پیچھے کون جاتا ہے کہ کیا ہوتا ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ آدمی کا حس و شعور موت کے بعد نہیں باقی رہتا، یا اس کا حشر و نشر نہیں ہوسکتا، اور ہمیر آئندہ حالت موجودہ اعمال کے مطابق بہتر و بدتر نہیں ہوسکتی‘‘۔ (ایضاً، صفحہ:۸۷، آر پی سیریز)
معلوم ہوا کہ فلسفہ کا وہ اسکول بھی جو آج کل دنیائے سائنس میں سب سے زیادہ مقبول ہے، حریفِ مذہب تو کسی طرح بن ہی نہیں سکتا کہ اگرچہ لاادریت کی زبان نفی و اثبات، ردّ و قبول اور اقرار و انکار دونوں سے ساکت ہے، تاہم تم نے دیکھ لیا کہ شیوہائے چشم و ابرو سے اقرار پنہاں ٹپکا پڑتا ہے۔
؎ پرسش ہے اور پائے سخت درمیاں نہیں
بلکہ لا ادریت کے مخترعِ اوّل ہکسلے کو اتنا تو اعتراف ہی کرتے بن آیا کہ لا ادری مادّہ پرست کبھی نہیں ہوسکتا، کہتا ہے کہ ’’اگر مجھ کو خالص مادّیت و خالص روحیت میں سے کسی ایک کو اختیار ہی کرنا پرے تو میں روحیت ہی کے قبول کرنے پر مجبور ہوں گا‘‘۔
عقل مذہب کے ابطال اور اثبات دونوں ہی سے عاجز ہے!
لیکن ان باتوں سے اس غلط فہمی میں ہرگز نہ پڑنا چاہئے کہ مذہب عقل سے ثابت ہوگیا یا ہوسکتا ہے، عقل جس طرح مذہب کے ابطال سے بے بس ہے، اسی طرح اس کے اثبات سے بھی ہے اور یہ مذہب کے لئے کوئی ننگ نہیں بلکہ اس کے استحکام و مزیت کی عین دلیل ہے، عقلِ انسانی کے تفاوت و اختلاف کا یہ عالم ہے کہ دنیا میں کوئی موٹی سے موٹی بات بھی ایسی نہیں ہے کہ جس پر تمام عقول و آراء کا اتفاق و اجتماع ہوسکے۔
حرکت سے زیادہ کونسی چیز بدیہی الوجود ہے؟ میں اس وقت جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ جنبش قلم کے بغیر ناممکن ہے، پھر بھی ایک حکیم (زینو) کی عقل کہتی ہے کہ نہیں یہ فریبِ محض ہے، اتنا ہی نہیں کہ حرکت ناموجود ہے؛ بلکہ ناممکن الوجود ہے، اور اس پر سے ایسے دلائل قائم کرتا ہے کہ جواب نہیں بن پڑتا، کون شک کرسکتا تھا کہ سمندر، پہاڑ، آفتاب و ماہتاب، موجودات خارجی نہیں ہیں، لیکن برکلے نے نقارہ کی چوٹ پر کہہ دیا ہے کہ ذہن سے باہر سرے سے کسی چیز کا بھی وجود بھی نہیں، اور اس کو کوئی چپ نہ کرسکا، کون نہیں جانتا کہ تناقض محال ہے؟ مگر ہمارے زمانہ کا ہی ایک مشہور ترین فلسفی (ہیگل) مدعی ہے کہ تناقض نہ صرف ممکن ہے بلکہ متحقق ہے کہ وجودِ کائنات تناقض ہی پر مبنی ہے، تمام دنیا مانتی ہے کہ رشتۂ علت و معلول اٹل ہے، آفتاب نکلنے سے گرمی ہی پیدا ہونا چاہئے، لیکن ہیوم کے اصول سے یہ بالکل ممکن ہے کہ کل جو آفتاب نکلے وہ برف برسانے لگے، وزن ہمیشہ مادّہ کی تعریف بلکہ حقیقت میں داخل رہا، مگر اب ایک اور شئے شاغ المکان اہل سائنس کو ماننا پڑی جو ناقابل الوزن ہے، یعنی ایتھر جس کی نسبت یہ بھی نہیں معلوم کہ مادّہ ہے یا کچھ اور؟
غرض عقل کو خود اپنی گرہ کی عقل نہیں، وہ ہر زمانہ میں بدلتی رہتی ہے، ایک ہی زمانہ کے مختلف افراد میں شدید اختلاف ہوتا ہے، ایک ہی شخص مختلف حالات و اوقات میں مختلف الرّائے ہوجاتا ہے، اس لئے اگر مذہب اس قدر ناپائیدار متزلزل اور متناقض معیار پر پورا اُترنے کا مدعی ہے تو وہ خود کوئی پائیدار و ثابت حقیق نہیں ٹھہرتا، قدیم حکماء افلاک کے قائل تھے، تو قرآن میں بھی وہی افلاک آگئے، اب وہ حدِّ نظر ثابت ہوئے تو سیّارات کو ’’سبع السموات‘‘ بنادیا گیا، اگے چل کر اگر یہ سیارات اور ستارے تارِ نطر کے آخری نقطے ثابت ہوئے تو قرآن کی آواز بھی ہم آہنگ بن جائے گا، قرآن مجید بیالوجی کی کتاب بن گئی ہے، ہمارے انشاء پرداز دوست حضرت مہدی نے کیا خوب کہا کہ ’’کچھ ابرے سے لیا، کچھ اَستر سے اور برابر سرابس کردیا‘‘۔
علم کلام کا بڑا حصہ جلادینے کے قابل ہے!
سوچو کہ کیا اس طرح کی تطبیقات یا برابر سرابر کردینے سے مذہب بچوں کا کھلونا بن گیا؟ حکماء یا فلاسفہ کی دشمنی سے مذہب کو اتنا نقصان نہیں پہنچا، مذہب کے اصلی دشمن اس کے نادان دوست (متکلمین) ہیں، میں بلا خوف لامۃ لائم کہنا چاہتا ہوں کہ علم کلام کا بڑا حصہ قطعاً سوخت کردینے کے لائق ہے، یا زیادہ سے زیادہ زیاں کاری کی یادگار کے طور پر کسی عجائب خانہ میں مجتمع کردئے جانے کا مستحق ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ اپنا وقت و دماغ اس زیاں کاری میں شاید مسلمانوں ہی نے رائیگاں کیا ہے، اور فسوس ہے کہ ہندوستانِ جدید میں سر سید نے اپنی واجب الاعتراف خدمات کے ساتھ ساتھ اس فتنہ کو بھی جگادیا، استاد مرحوم (علامہ شبلیؒ) نے بھی اسی آواز میں آواز ملادی، اور اب تو جدید و قدیم تعلیم کے بہتیرے احبابِ علم و مذہب دونوں کی خدمت کا اہم المقاصد اسی کو جاننے لگے ہیں، کاش اردو زبان کو اس تریاق نام زہر سے زیادہ مسموم نہ کیا جاتا!
مذہب کے دو جزو ہیں: (الف) عقائد (ب) اعمال۔
(الف) عقائد:
اللہ، روح، حشر و نشر وغیرہ عقائد میں داخل ہیں، عقل ان فوق الفطرت چیزوں کا نہ اثبات کرسکتی ہے، نہ ابطال اور نہ اس کو ان کے تسلیم و انکار کا فتویٰ صادر کرنے کا منصب حاصل ہے، ان کا دار و مدار تمام تر اعتقاد یا ایمان پر ہے جو انسان کے مختلف فطری احساسات و جذبات سے پیدا ہوتا ہے، اس لئے جب تک حیرت و استعجاب، امید و بیم، انعام و انتقام، مایوسی و بے چارگی، ہیبت و جمال پرستی وغیرہ کے احساسات انسان کی فطرت ہیں، اس وقت تک مذہب بھی اس کی فطرت ہے، یا یوں کہو کہ جب تک انسان انسان ہے مذہب سے گریز پائی کا کوئی راستہ نہیں، تم شاخوں کو ہمیشہ چھانٹتے رہو، لیکن جب تک جڑ قائم ہے وہ بھی ہمیشہ نئے برگ و بار لاتی رہے گی، غرض جہاں تک اصولِ مذہب کا تعلق ہے وہ ایسی بنیاد پر قائم ہیں جو عقل سے کہیں زیادہ استوار و محکم ہے، اہلِ مذہب کی دانائی و فلاح اسی میں ہے کہ ان کی تعمیر کی ایک اینٹ بھی اس بنیاد سے بہکنے نہ پائے۔
مذہب، طرزِ منطق و استدلال کے بجائے احساسات و جذبات کو مخاطب بناتا ہے:
یہی بھید ہے کہ مذہبی کتابوں میں جن کے الہانی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، منطق کے اشکام و قیاسات اور فلسفیانہ طرز استدلال کا مشکل ہی سے کہیں نشان ملتا ہے، تمام تر انہی احساسات و جذبات کو مخاطب کیا جاتا ہے جن سے اعتقاد و ایمان کی کیفیت پیدا یا تازہ ہوتی ہے؛ بلکہ الٰہیات (میٹافزکس) کے مسائل میں عقلی خوض و فکر سے جابجا اجتناب کی تاکید ہوتی رہتی ہے، مسلمان جو عقائد میں بال کی کھال نکالنے کے سب سے زیادہ شیدائی رہے ہیں، ان کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہئے کہ خود قرآن نے کیا راہ اختیار کی ہے۔
قرآنی راہِ ہدایت:
قرآن اللہ کی ذات کا اعتقاد پیدا کرنے کے لئے زمین و آسمان کے ان عظیم عجائب پر توجہ دلاتا ہے جن سے نہ صرف انسانی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے بلکہ انسانی ارادہ و اختیار سے قطعاً باہر ہوتے ہیں، دن رات کا یکے بعد دیگرے پیدا ہوتے رہنا، آفتاب و ماہتاب کی بندھی ہوئی اور مسخر خدمت گذاریاں، ہواؤں اور بادلوں کی تصریف، نفس یا روح کے نہ سمجھ میں آنے والے افعال:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ۔ (البقرۃ:۱۶۴)
کچھ شک نہیں کہ زمین و آسمان کی آفرینش، فرمانبردار ہواؤں اور بادلوں کی زمین و آسمان کے بیچ میں تصریف میں سمجھنے والوں کے لئے یقینی نشانیاں ہیں۔
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ۔ (فاطر:۱۳)
ارے وہی تو تمہارا خدا ہے صاحب الملک ہے جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو مسخر کر رکھا ہے جو تمام کے تمام وقتِ مقررہ تک چلتے رہیں گے۔
وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ۔ (الذاریات:۲۱)
اپنے نفسوں کے اندر کیا تم کو کچھ نہیں دکھائی دیتا؟
انہی چیزوں کو دیکھ کر آدمی بے ساختہ پُکار اٹھتا ہے کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا۔ (اٰل عمران:۱۹۱) لیکن ہمارے متکلمین کی خوش فہمی دیکھو کہ وہ ان آیات کی تفسیر میں شرح چغمنی لکھ دیتے ہیں وار سمجھتے ہیں کہ ان سے علم ہیئت کی تعلیم مقصود ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آج کل کوئی یہ کہنے لگے کہ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ سے علم النفس کی تحصیل کا حکم ہے، قرآن یا مذہب ان علوم کی تعلیم و تعلیم کا مخالف نہیں ہے، لیکن اس کا کام ان کی تاکید و حمایت بھی نہیں ہے، اس کا مقصد صرف ان چیزوں کی عظمت و حیرت انگیزی سے ایک اجمالی اعتقاد یا ایمان پیدا کرنا ہوتا ہے اور بس۔
اسی طرح اگلوں کے قصے بیان کرنے کی غرض محض عبرت پذیری کے احساس کو ابھارنا ہوتا ہے، مشہور اقوام اور بڑے بڑے فراعنۂ ارض کی ہلاکت و بربادی کی داستانیں بار بار اس لئے دوہرائی جاتی ہیں کہ غافل انسان کو دنیا کی ناپائیداری، اپنی بے ثباتی اور بے بسی کا یقین پیدا ہو، آئندہ زندگی کی فکر اور نیکوکاری کا خیال ہو، تاریخ کی تحقیق مدعا نہیں ہوتی۔
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا أَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ (یوسف:۱۰۹)
کیا زمین میں وہ نہیں پھرے کہ دیکھتے اگلوں کا کیا حشر ہوا اور کچھ شک نہیں کہ آخرت کی بہتری پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے، کیا تمہاری سمجھ میں اتنی بات نہیں آتی؟
جزاء اور سزاء، نیکوکاری پر انعام کی توقع اور بدکاری پر انتقام کا خوف انسان کا اقتضائے فطرت ہے، اس لئے عود و حشر کی غرض کے لئے اسی جذبۂ فطری کو زیادہ تر مخاطب بنایا جاتا ہے۔
إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ۔ (یونس:۴)
بیشک وہی آفرینش کا آغاز کرتا ہے اور (مرنے کے بعد) وہی اعادۂ آفرینش بھی کرے گا، تاکہ ایمان والوں اور نیکوکاروں کو پوری پوری جزاء دے، اور کفر والوں کے لئے ان کے کفر کی بدولت گرم پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔
غرض الٰہیاتی استدلال (میٹافزیکل ریزننگ) کے بجائے اور عقل نظری کو خطاب کی جگہ مذہب کا روئے سخن زیادہ تر جذبات اور عقلِ عملی کی طرف ہوتا ہے۔
بلکہ قرآن نے صراحۃً و کنایۃً طرح طرح سے مذہبی عقائد کو فلسفیانہ استدلالات کا کھلونا بنانے سے روکا ہے اور الٰہیات یا نظر خوض و فکر سے اجتناب کی تعلیم کی ہے۔
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ۔ (الانعام:۶۸)
جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری نشانیوں میں خوض کرتے ہیں تو ان سے الگ رہو یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں خوض کریں اور اگر شیطان تم کو یہ حکم بھلادے تو یاد آنے پر ان ظالموں میں ہرگز نہ بیٹھو۔
اور خوض فی آیات اللہ کو ظلم قرار دیا۔
فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ۔ (الانعام:۸۱،۸۲)
کاش تم جانتے کہ فریقین میں سے امن کا کون زیادہ حقدار ہے، وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہیں آلودہ کیا، امن و ہدایت انہی لوگوں کے لئے ہے۔
جن لوگوں نے ان فوق الفہم چیزوں کے ایمان و اعتقاد کو اپنی کوتاہ رس عقل کے ظلم سے آلودہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ امن اور سکونِ نفس کی دولت ان کے نصیب میں نہیں رہی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی قوم نے خدا کے بارے میں حجت کی تو جواب ملا کہ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ ۔ (الانعام:۸۰) کیا تم مجھ سے خدا کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ (یہ بحث و حجت کی چیز ہی نہیں ہے)
لوگوں نے روح کی حقیقت دریافت کی تو یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي۔ (الاسراء:۸۵) وہ خدا کا ایک امر ہے۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ کہ قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کی اولین شرط یہ قرار دی گئی کہ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ۔الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ۔ (البقرۃ:۲،۳) ’’کچھ شبہ نہیں کہ اس کتاب کے اندر انہی لوگوں کے لئے رہنمائی ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ جو شخص خدا، روح، وحی اور الہام وغیرہ کے غیبیات ہر پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ قرآن یا کسی اور مذہبی کتاب سے کیسے رہنمائی حاصل کرسکتا ہے؟
کسی موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تقدیر کے مسئلہ میں الجھ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپہنچے تو آپؐ کا چہرۂ مبارک غصہ سے تمتما اٹھا اور فرمایا: ’’اگلی قومیں انہی باتوں سے تباہ ہوئی ہیں‘‘۔
وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى۔ (النجم:۴۲) کی حدیث میں یہ تفسیر ہے کہ لا فکرۃ فی الرب کہ خدا تک فکر کی رسائی نہیں، عقل انسانی کو یہیں تک پہنچ کر رک جانا چاہئے۔
اس نکتہ کو بعض ائمۂ دین نے بھی خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ عقائد کو عقل آرائیوں کا اکھاڑہ نہیں بنایا جاسکتا، یہ صرف ایمان کی چیزیں ہیں، چنانچہ حضرت سفیان اور حضرت مالک بن انس رحمہما اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ترویٰ ھذہ الاشیاء یومن بھا ولا یقال کیف؟ یہ باتیں صرف روایت اور ایمان کی ہیں، چوں چرا کی گنجائش نہیں ہے۔
(ب) اعمال:
عبادات بھی اگرچہ تمام مذاہب جزء ہیں، لیکن یہ حقیقت میں عقائد ہی کی تفریع اور لازمہ ہوتے ہیں، کیونکہ انسان بالطبع اپنے سے زبردست طاقتوں کے سامنے نیاز و عبودیت کا سرجھکادیتا ہے، لہٰذا اصولی طور پر مذہب کا جزو دوسرا معاملات ہی ہیں، جن کا تعلق احَاقی اور معاشرتی (سوشل) تعلیمات سے ہوتا ہے، سچ پوچھو تو سوادِ اعظم کے لئے مذہب کا یہی حصہ زیادہ اہم بلکہ اکثروں کے نزدیک تہذیب، اخلاق اور اصلاح و استقامت عمل ہی مذہب کی اصل غایت ہے، بالتخصیص قرآن نے تو اس کو اتنی اہمیت دی ہے کہ عمل صالح کو ایمان اور عملوا الصالحات کو اٰمنوا سے جُدا ہی نہیں ہونےدیتا۔
لیکن حضرات! یاد رکھنا چاہئے کہ اعمال و اخلاق کے لئے عقائد اُسی وقت تک مفید ہیں جب تک ان کی بنیاد اجمالی اعتقاد یا ایمان بالغیب پر ہے، اس لئے کہ ایمان بالغیب ہی رکھنے والوں کی یہ شان ہے کہ:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ۔ (الانفال:۲)
ایمان والے وہی ہیں جن کے دل خدا کے ذکر سے دہل جاتے ہیں۔
یہ اعتقاد و ایمان ہی کا وصف ہے کہ لا یزنی الزانی حین یزنی و ھو مؤمن۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایمان رکھ کر کوئی شخص زنا کا ارتکاب کرے۔
کیا مقدمات منطق سے ثابت کئے ہوئے خدا کا عمل پر یہ اثر پڑ سکتا ہے؟ ارسطو، ابن سینا اور متکلمین اپنے فلسفہ اور علم کلام سے جس واجب الوجود کو ثابت کرتے ہیں، کیا اس کے ذکر سے قلوب پر وہ وجل و ہیبت طاری ہوسکتی ہے، جو ارتکاب معصیت کے وقت بدن میں کپکپی ڈال دے؟ کیا عقائد نسفی، شرح مواقف، تفسیر احمدی (سرسیّد) اور الکلام (شبلیؒ) کے پڑھنے والوں کے دل میں وہ خشیتِ الٰہی باقی رہ جاتی ہے جو علم کلام کی ایجاد سے پہلے خالی متنِ قرآن کی تلاوت سے حاصل ہوتی تھی؟
اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر کیا اے حضرات! علم کلام مذہب کا عدوٌّ مبین نہیں؟ کیا مذہب کے نادان دوست متکلمین، اس کے دانا دشمن ملاحدہ اور مادّہ پرستوں سے زیادہ خطرناک نہیں؟
؎ سعدی از دستِ خویشتن فریاد!
اخیر میں صرف اتنا عرض کرنا اور رہ گیا ہے کہ چونکہ عقائد یا مذہب کے الٰہیاتی حصہ کی نسبت خالص الہیاتی نقطۂ نظر یا عقل نظری (پیور ریزن) کی رُو سے خطاء و صحت کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوسکتا، اس لئے چشمِ ظاہر کے واسطے مختلف مذاہب میں باہم ترجیح و تفصیل کا منشاء، اگر کوئی چیز کسی حد تک قرار پاسکتی ہے تو وہ معاملات ہی ہیں، یعنی مذہب کا عملی جزء عقائد سے متعلق بھی اگر کچھ رائے زنی جائز ہوسکتی ہے تو وہ بھی اس لحاظ سے کہ انسان کی عملی زندگی کے لئےکس نوع کے اعتقادات زیادہ سودمند اور بہتر ہیں۔
مذہب کا عملی حصہ بھی علومِ طبعیہ کی زد میں نہیں آتا!
اس بحث کو تفصیل کے ساتھ چھیڑنے کا یہ موقع نہیں ہے، کسی دوسری فرصت میں انشاء اللہ اس پر گفتگو ہوگی، البتہ موضوع بحث کی رعایت سے اتنا جان لینا ضروری ہے کہ مذہب کا عملی حصہ بھی علوم طبعیہ (نیچرل سائنس) کے یقنیات کی زد میں نہیں آتا، ہاں علم المعاشر (سوشیالوجی) و اقتصادیات (اکنامکس) وغیرہ کے مسائل سے تصادم ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔
اگرچہ اقتصادیات و معاشرت کے اصول تمام تر استقراء پر مبنی ہوتے ہیں جو مختلف مقامات اور زمانوں کے حالات کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان حالات کے اختلاف کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں، تاہم بحیثیت مجموعی اور اکثریت کے لحاظ سے اگر کسی مذہب کی عملی تعلیمات کے ردّ و قبول کا معیار عقل ہوسکتی ہے تو وہ فقط عقل عملی (پریکٹیکل ریزن) ہے، یعنی انسان کی عملی زندگی کے تجربات اور ان سے مأخوذ نتائج و اصول یا بہ الفاظ دیگر یوں کہو کہ اگر کوئی علمِ کلام کار آمد ہوسکتا ہے تو وہ جو علم المعاشرت و اقتصادیات وغیرہ کے مقابلہ میں تیار کیا جائے۔
لیکن ہمارے علمائے مذہب اب تک بالعموم ترکستان کے راستہ پر چلتے رہے۔ ؎
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی! کایں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان ست
خدا کرے آئندہ کعبہ کی راہِ مستقیم کی طرف قدم پڑیں۔
خلاصۂ مضمون
اس لکچر نے گو کہ قلم بند ہونے کے بعد لکچر سے زیادہ مضمون کی صورت اختیار کرلی ہے، پھر بھی ایک خالص مضمون کی چست بیانی اور مطالب کی منطقی ترتیب و تحلیل کی پوری پابندی نہیں کی گئی ہے، تاکہ کم از کم لکچر کے نام کی گنجائش رہ جائے، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذیل میں اختصار کے ساتھ ساری بحث کا خلاصہ درج کردیا جائے جس سے مغز سخن ایک نظر میں سامنے آجائے۔
(۱) مقصود بحث ’’مذہب و عقلیات میں تطبیق نہیں بلکہ دونوں کی اختلاف نوعیت اور تباعد حیثیت کی توضیح و تشریح ہے۔
(۲) عقلیات کی دومختلف اور اہم تقسیمات ہیں: (۱) سائنس اور (۲) فلسفہ۔
(۳) مذہب و سائنس کی باہمی نزاع اور اختلاف کا خیال اصل میں علمائے مذہب و اہلِ سائنس کی معرکہ آرائیوں اور اسی طرح بعض اور غلط فہمیوں سے پیدا ہوا ہے، ورنہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ مذہب و سائنس کے حدود بالکل الگ الگ ہیں، سائنس کا جو موضوع ہے مذہب کو اس سے کچھ واسطہ نہیں اور مذہب کو جن چیزوں سے بحث ہے، سائنس کو ان سے کچھ سروکار نہیں، فلسفہ البتہ کہیں کہیں مذہب سے ٹکراتا ہے، لیکن اس کا شمار قطعیات اور یقینیات میں نہیں‘‘۔ (الکلام:۱۱)
(۴) فلسفہ اور مذہب میں بے شک تصادم ہوسکتا تھا، لیکن دونوں کی حیثیت بالکل جُداگانہ ہے، فلسفہ کا منشاء فوق الفہم چیزوں کے متعلق عقلی موشگافیوں کی تسکین بخشی ہے، مذہب جہاں عقل کی رسائی نہیں ایمان و اعتقاد پر بس کرتا ہے، اس قسم کا ایمان و اعتقاد کسی نہ کسی صورت میں داخل فطرت ہے۔
(۵) اس کے علاوہ فلسفہ کے اصولی مذاہب اربعہ میں اگر کسی کو مذہب کے مخالف کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف مادّیت تھی، لیکن مادّیت کی بناء اسی وقت تک استوار تھی، جب تک خود ماہیتِ مادّہ کے بارے میں گفتگو نہیں چھڑتی تھی، مگر اب جبکہ مادّہ کی حقیقت کیسی اس کا وجود ہی مشتبہ ہوگیا تو لازماً مادیت کی ساری عمارت زمین دوز ہوگئی۔
(۶) اس کشمکش سے بچنے کے لئے دورِ جدید کے بہت سے حکماء و فلاسفہ نے فوق الفطرت (سپر نیچرل) مباحث سے کنارہ کش ہوکر لاعلمی یا لاادریت کی آڑ میں پناہ لینا چاہی، لیکن عدم علم عدم وجود کو مستلزم نہیں؛ بلکہ سچ یہ ہے کہ ماورائے ظواہر (اپیرنسز) کی نسبت اعتراف لاعلمی ہی میں کسی باطنی حقیقت کا اعتقاد جھلک رہا ہے جس سے حکیم فلسفی، عالم و جاہل کوئی اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا۔
بقول اسپنسر کے
’’اگرچہ اس ہستی مطلق کا علم ممکن نہیں، لیکن اس کا ایجابی اور قطعی وجود ہمارے احساس و شعور کا لازمہ ہے، جب تک شعور قائم ہے، اس سے ایک لمحہ کے لئے بھی ہم رہائی حاصل نہیں کرسکتے، لہٰذا یہ یقین جس پر نفس شعور دار و مدار ہے، ہر طرح کے یقین سے ارفع اور بڑھ کر ہے‘‘۔
اسی بناء پر جرمنی کا مشہور فلسفی شاعر گیٹے پکار اٹھا کہ:
’’ذی عقل ہستی (انسان) کی انتہائی سعادت یہی ہے کہ اپنی عقل ان ہی چیزوں میں دوڑائے جہاں وہ چل سکتی ہے اور جس شئے کی توصیف و تشریح نہیں ہوسکتی، اس کے سامنے خاموشی کے ساتھ سرِ عبودیت جھکادے‘‘۔
(۷) مذہب بھی بعینہٖ یہی چاہتا ہے کہ تفکروا فی الخلق و لا تفکروا فی الخالق، اس لئے کھلی بد دینی کی منادی کرنے والوں (ملاحدہ) سے کہیں زیادہ وہ حامیانِ دین (متکلمین) دین کے دشمن ہیں جو تفکروا فی الخالق کی بدعت کے مذہب کے موجد ہیں۔
(۸) علمِ کلام کی بدولت خود مذہب والوں میں خدا عقل کی شوخیوں اور گستاخیوں کا کھلونا بن گیا اور اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم کا اصلاح اعمال و معاملات پر جو اثر تھا وہ فکر و استدلال کے گڑھے ہوئے خدا کے ذکر میں مفقود ہوگیا۔
(۹) مذہب کے دو حصوں (۱) عقائد اور (۲) اعمال میں سے عقل کے لئے اگر کچھ گنجائش نکلتی ہے، تو صرف ثانی الذکر میں اس لئے اگر کسی علم کلام کا وجود کسی حد تک جائز ہوسکتا ہے تو وہ جس کو صرف اسرار اعمال سے بحث ہے، لیکن اعمال میں بھی عقل آخری حکم نہیں قرار پاسکتی، یعنی جو بات آج خلاف عقل معلوم ہوتی ہے اس کا ہمیشہ خلاف عقل معلوم ہونا یا فی نفسہٖ نامعقول ہونا ضروری نہیں، اس لئے عقل اور بالتخصیص عقلِ عملی کی حقیقت جو کچھ ہے اس کو مولانا حالی کی حکیمانہ زبان سے سن رکھو ؎
دیکھ عادت کا تسلط میں نے عادت سے کہا
گھیرلی عقلِ صواب اندیش کی سب تو نے جائے
ہنس کی عادت نے کہا کیا عقل ہی مجھ سے الگ
میں ہی بن جاتی ہوں ناداں رفتہ رفتہ عقل ورائے
محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)*حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ ›فہرست‹ قوتِ ایمانیہ و ظہورِ غیب*حضرت ڈاکٹر میر ولی الدینؒPosted on 09. Dec, 2013 by mgr_imaan
قوتِ ایمانیہ و ظہورِ غیب
حضرت ڈاکٹر میر ولی الدینؒ
چشم بگذشتہ ازیں محسوسہا
یافتہ از غیب بینی بوسہا
خود نمی یابم یکے گوشے کہ من
نکتۂ گویم ازانِ چشمِ حسن
مدتوں ہم اس خیال میں رہتے ہیں ہمیں ’’صداقت‘‘ کا علم ہے، لیکن یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں صداقت کے وہ آثار ہماری زندگی میں نمایاں نہیں ہوتے؟ جن کو حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم نے الفوزُ فی القضاء امورِ تکوینی میں کامیابی و کامرانی نزل الشہداء، ایسی اعلیٰ قسم کی میزبانی جیسی کہ شہیدوں کی جنت میں ہوگی، عیش السُّعداء سعیدوںو کا سا عیش، النصر علی الاعداء دشمنوں پر فتح کے الفاظ سے تعبیر فرمایا؟ کیوں رحمت کے وہ آثار ظاہر نہیں ہوتے جن سے ہمارے دل کو ہدایت ہو (تھدی بھا قلبی)، ہماری کاموں میں جمعیت ہو (تجمع بھا امری)، ہماری ابتری دور ہو اور ہماری پریشانیاں سلجھ جائیں (تلم بھا شعثی)، ہمارا دین سنور جائے (تصلح بھا دینی)، ہمارا قرض ادا ہوجائے (تقضیٰ بھا دَینی)، ہماری نظر غائب چیزوں کی نگہبانی ہو (تحفظ بھا غائبی)، ہماری پیشِ نظر چیزوں کو بلندی عطا ہو (ترفع بھا شاھدی)، ہمارا چہرہ نورانی ہوجائے (تبیض بھا وجھی) ہمارا عمل پاکیزہ ہوجائے (تزکّی بھا عملی)، تشد و ہادیت کا ہمارے قلب میں الہام ہو (تلہمنی بھا رشدی)، حق تعالیٰ کے ساتھ ہمارے فطری جذباتِ الفت از سرنو پیدا ہوجائیں (تردد بھا الفتی)، اور ہر برائی سے بچے رہیں (تعصمنی بھا من کلّ سوء)۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا علم یقین صادق کے درجہ کا نہیں، یا پختہ یقین نہیں اور وہ ایمان ہمیں حاصل نہیں جو ہمارے دل میں پیوست ہو گیا ہو جس کے مانگنے کی ہدایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا يُبَاشِرُ قَلْبِي وَيَقِينًا صَادِقًا۔الخ۔ (کنز العمال)
اے اللہ! میں تجھ سے وہ ایمان مانگتا ہوں جو میرے دل میں پیوست ہوجائے اور پختہ یقین۔ الخ
ہمیں علم و یقین کی وہ کیفیت حاصل نہیں جس کے پیدا ہوجانے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں حریتِ تامّہ حاصل ہوجاتی ہے۔
ہم میں سے اکثر ایک ایسے سادہ طریقہ کی تلاش میں اپنی مختصر زندگی کے دن گذار دیتے ہیں جس کا حصول اور جس پر مداومت ہمیں ایمان کے ان آثار و برکات سےمالا مال کردے جن کا اوپر ذکر ہوا، ہمیں ایک ایسی چیز کی تمنّا ہے جو ایمان کو ہمارے قلوب میں پیوست کردے، وہ پختہ یقین عطا کرے جس سے ایک بڑی تعداد محروم ہے، اور جس حاصل ہوجانے کے بعد ساری پریشانیاں سلجھ جائیں، ہمارا چہرہ نورانی ہوجائے اور ہمارا عمل پاکیزہ ہوجائے اور تمام امور میں کامرانی و کامیابی نصیب ہو!
یقیناً ایک ایسا سادہ طریقہ موجود ہے اور وہ اتنا سادہ اور سیدھا طریقہ ہے کہ اکثر تو اس کو جان کر بھی اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے، بعض کا تو یہ عقیدہ ہے کہ زندگی میں پریشانیوں سے نجات اور جمعیتِ خاطر کا حصول ناممکن ہے، ان کا خیال ہے کہ ؎
آدم از کثرتِ پریشانی
می کند جستجوئے جمعیت
آدم آمد سہ حرف و ہر سہ جُدا
نشود جمع تا دمِ میّت
بعض کا خیال ہے کہ یہ طریقہ پایا تو جاتا ہے لیکن وہ ایک رازِ نہفتہ ہے، اس تک کے ان کی رسائی ممکن نہیں، وہ رازِ سینہ ہے سفینہ پر نہیں ملتا، اور اس راز کے جاننے والے کالمعدوم ہیں، بعض سمجھتے ہیں کہ طریقہ سخت مشکل ہے، اس پر عمل نا ممکن ہے، یہ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں، الفاظ یا تعبیرات کی کثرت نے اس کو چھپا رکھا ہے اور دلائل کی کثرت نے اس کا ادراک مشکل کردیا ہے۔ ؎
از دلائل می شود مشکل بما ادراکِ حق
ایں رہ از بسیارئ سنگِ نشاں ہموار نیست
حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ موجود ہے اور وہ اتنا سادہ ہے کہ بچے بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں، بوڑھی خواتین بھی سمجھ سکتی ہیں، الہامی صداقتوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں بچوں کی طرح سلیم فطرت بن جانا ہے، اسی وقت ہم میں وہ شعور پیدا ہوتا ہے جس کی بیداری کے بعد ہمیں کامل حریت نصیب ہوتی ہے، یہ طریقہ مختصر الفاظ میں یہ ہے:
۱۔ ہمیں حق تعالیٰ کی ان ظاہری و باطنی نعمتوں اور عنایتوں کو یاد کرنا چاہئے جو ہماری پچھلی زندگی میں ہم پر کی گئیں اور ان پر حق تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
۲۔ ہمیں حق تعالیٰ کی ان آئندہ نعمتوں اور عنایتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے جن کا ابھی ظہور نہیں ہوا ہے!
اس اجمال کی تفصیل ضروری ہے
(۱) ایمان ان اشیاء کا جوہر ہے جن کی ہم حق تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں اور ان اشیاء کے وجود پر گواہی ہے جن کا ابھی ظہور نہیں ہوا ہے، حق تعالیٰ پر ایمان ان سے حسنِ ظن، ان سے انس و محبت مومن کا طُرّۂ امتیاز ہے، وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ اس ایمان، حسنِ ظن اور انس و محبت ہی سے وہ تمام نعمتیں جو ابھی پردۂ غیب میں ہیں خارج میں ظاہر ہوتی ہیں، یہ وہ پل ہیں جن سے گذر کر حق تعالیٰ کی نعمتیں مومن تک پہنچتی ہیں، اس راز کو عارف رومیؒ نے یوں فاش کیا ہے:
آں کہ صد اُنسش بشاہِ فرد خویش
یافت در مانہائے جملہ دردِ خویش
ایمان اور انس مسلسل شکر و حمد سے قوی ہوتا ہے، جب ہمارے قلب میں ان نعمتوں، راحتوں، عنایتوں اور احسانوں کا احساس موجود ہوتا ہے جو حق تعالیٰ نے ہم پر ہماری زندگی میں کی ہیں، ہم اس احساس کو تازہ کرکے ان نعمتوں کی جزئیات و تفصیلات پر نظر کرکے چیخ اٹھتے ہیں: ؎
بے لطفِ تو من قرار نتوانم کرد
احسان ترا شمار نتوانم کرد
گر برتنِ من زباں شود ہر موئے
یک شکرِ تو از ہزار نتوانم کرد (ابوسعید مہنہؒ)
بجائے پچھلی زندگی کی مصیبتوں اور بلاؤں پر شعور کو مرکوز کرنے کے ہمیں یاد کرنا چاہئے کہ کس طرح حق تعالیٰ نے پچھلے زمانہ میں ہمیں خوف و حزن سے نجات بخشی، غم و مصیبت سے آزادی مرحمت فرمائی، مرض و الم سے شفاء عطا کی، ہمیں ان موقعوں کو یاد کرنا چاہئے جن میں حق تعالیٰ کی کار سازی و بندہ نوازی نے ہماری جان کو آرام بخشا اور ضیق و پریشانی سے نجات دی، غم و مصیبت کی بے پناہ قوتوں نے ہمارے ضعیف جسم کو تباہ کرنا چاہا تھا، اور شر کی تباہ کن طاقتوں نے ہماری روح کے شیرازہ کو منتشر کرنا چاہا تھا، لیکن حق تعالیٰ کے کرم نے ہماری حفاظت کی، ان کے احسان نے ہمیں تباہی سے بچالیا! ؎؎
کجا لبِ صدف و شکر ابر نیسان است
کہ از شمار بروں قطرہ ہائے باراں است (حافظؔ)
ہاں ہم اپنے احسان مند قلب کی گہرائیوں سے حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ یہ سب کام اللہ تعالیٰ ہی کے تھے، ہماری حول و قوت کو اس میں کچھ دخل نہ تھا لا حول و لا قوۃ الا باللہ! جب ہم شکست خوردہ، دل سوختہ تھے تو ان کی ربوبیت نے ہماری دستگیری کی! جب ہم برگشتہ و پریشان تھے تو ان کی رحمت نے ہمیں راہ دکھائی! جب ہم غلط راہ پر پڑگئے تھے تو ان کی حکمت نے ہدایت کی طرف ہماری رہنمائی کی، جب ہم غم و مصیبت اور خوف حزن میں مبتلا تھے تو ان کے فضلِ عمیم نے ہمیں سنبھالا!
اے خدا قربانِ احسانت شوم
ایں چہ احسان است قربانت شوم
يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ۔
اے اللہ! تیرے لئے ایسی تعریف ہے جو تیری ذات کی بزرگی اور تیری بڑی بادشاہت کے سزاوار ہو۔
ہر روز کچھ دیر کے لئے ہمیں اپنی گذشتہ زندگی کے ان تجربوں کو تازہ کرنا چاہئے، جبکہ حق تعالیٰ نے ہماری خاص طور پر مدد فرمائی اور ہمارے لئے نجات کا سامان فراہم کیا، ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں ایسے تجربات و واقعات ضرور گذرے ہیں جن کی یاد تازہ کرسکتے ہیں، ہمیں انہیں یاد کرنا چاہئے، ان پر حق تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کرنا چاہئے، عارف حق شناس ہوتا ہے اور غیر عارف نا سپاس!
عارف آں باشد کہ باشد حق شناس
ہر کہ عارف نیست گردد ناسپاس (عطارؔ)
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے احسانات کا یوں شکر ادا کیا ہے:
اللهم لك الحمد بما هديتنا ولك الحمد بما أكرمتنا ولك الحمد بما سترتنا ولك الحمد بالقرآن ولك الحمد بالأهل والمال ولك الحمد بالمعافاة ولك الحمد حتى ترضى ولك الحمد إذا رضيت يا أهل التقوى ويا أهل المغفرة۔(الدعاء للطبرانی)
تیرے لئے ہی حمد ہے اس پر کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور تیرے ہی لئے حمد ہے اس پر کہ تو نے ہمیں عزت دی اور تیرے ہی لئے حمد ہے کہ تو نے ہماری ستر پوشی کی، اور تیرے ہی لئے حمد ہے قرآن پر، اور تیرے ہی لئے حمد ہے اہل و مال پر اور تیرے ہی لئے حمد ہے درگذر کرنے پر، اور تیرے ہی لئے حمد ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے، اور تیرے ہی لئے حمد ہے جبکہ تو خوش ہوجائے، اے وہ جس کی ذات سے ڈرنا چاہئے (ڈرنے کے قابل بس ایک تیری ہی ذات ہے) اے وہ کہ تو ہی مغفرت کرسکتا ہے۔
انہی انعامات پر جو ہماری پچھلی زندگی میں حق تعالیٰ نے ہم پر کئے ہیں ہمیں حق تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
نحمد اللہ خالق الاشیاء
نشکر اللہ رازق الاخیاء (مظہر الحق)
یاد رکھو ایسا کرنے سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے، ہمارا قلب یقین کے نور سے لبریز ہوجاتا ہے اور ہم حق الیقین کے طور پر جاننے لگتے ہیں کہ حق تعالیٰ ہر حال میں ہمارے لئے کافی ہیں، ہمارے قلب کی گہرائیوں سے یہ چیخ نکلتی ہے ؎
اللہ الکافی کافی! قصدت الکافی وجدت الکافی
لکل کافِ کافی کفانی الکافی و نعم الکافی و اللہ الحمد!
ہمارا خوف دور ہوجاتا ہے، امیدیں جاگ اٹھتی ہیں، نورِ یقین ہمارے قلب کی تاریکی کو دور کردیتا ہے اور ہم حق تعالیٰ کے قرب و معیت کی روشنی میں داخل ہوجاتے ہیں، اور ہمیں وہ شاندار آزادی حاصل ہوتی ہے جو مقربینِ بارگاہِ الہٰی کا حصہ ہے، وہ فرحت و سرور نصیب ہوتا ہے جس کو عیش السعداء سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اسی سرور کی حالت میں ہم بیدلؔ کی زبان میں گنگنانے لگتے ہیں ؎
تا مزرعِ سبز آسماں خواہد
بود تاخرمی باغِ جہاں خواہد بود
ہر تخم کہ ریشۂ بروں خواہد
بود شکرِ کرم ترا زباں خواہد بود
حق تعالیٰ کے ان گذشتہ احسانات کا حمد و شکر کےساتھ یاد کرنا وہ طریقہ ہے جس کو ہم زمانہ کے صلحاء و صدیقین نے اپنے ایمان کی قوت کے ازدیاد کے لئے ہمیشہ استعمال کیا ہے اور اس حد تک کیا ہے کہ ان سے عجیب و غریب کرامات و خوارقِ عادات کا ظہور ہوا ہے، ان کی کامیابی کا یہی ایک راز تھا، اسی طریقہ نے قوتِ الٰہیہ کے دروازوں پر ان پر کھول دیا تھا، ان کو حق تعالیٰ کے قریب کردیا تھا اور حق تعالیٰ کو ان سے قریب، اس کی وجہ سے ان کے لئے ایسی چیزیں ممکن ہوگئی تھیں جو عام طور پر انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتیں۔
دیکھو جب حضرت دانیال علیہ السلام کو بخت نصر نے ایک اندھے کنویں میں دو شیروں کے ساتھ قید کردیا تھا تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ دعاء کی تھی:
الحمد لله الذي لا يخيب من دعاه، الحمد لله الذي لا يكل من توكل عليه إلى غيره، الحمد لله الذي هو ثقتنا حين تنقطع عنا الحيل، الحمد لله الذي هو رجاؤنا حين تسوء ظنوننا بأعمالنا، الحمد لله الذي يكشف ضرنا عند كربنا، الحمد لله الذي يجزي بالإحسان إحسانا، الحمد لله الذي يجزي بالصبر نجاة۔ (ابن أبي الدنيا في الشكر وسنده حسن)
حمد اس خدا کی جو اپنے مانگنے والے کو محروم نہیں کرتا، حمد اس خدا کی جو اس شخص سے نہیں تھکتا جو اس سے پر بھروسہ کرے، حمد اس خدا کی جو ہمارا آسرا ہے، حمد اس خدا کی جو ہماری تکلیف کے وقت ہماری مصیبت کو دور کرتا ہے، حمد اس خدا کی جو احسان کا بدلہ احسان سے دیتا ہے، حمد اس خدا کی جو صبر کا بدلہ نجات و رستگاری سے دیتا ہے۔
یہ ساری دعاء حق تعالیٰ کی حمد و ثناء سے بھری ہوئی ہے، اس کا ہر جملہ ان تجربوں کو حافظہ میں تازہ کرتا ہے جبکہ حق تعالیٰ کی خاص تائید ہمیں ہوئی تھی اور طوفانِ حوادث سے ہماری کشتی نکل آئی تھی اور ہماری زبان سے بے اختیار یہ جملے تھے:
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ شُكْرًا وَلَكَ الْمَنُّ فَضْلا أنت ربنا حقاً ونحن عبيدك حقاً۔
اے اللہ! تیرے ہی لئے ہر تعریف ہے شکر کے ساتھ، اور تیرا ہی حصہ ہے فضل و کرم کے ساتھ، بے شک تو ہمارا رب ہے، پالنہار ہے اور ہم تیرے بندے ہی، ناتواں اور محتاج ہیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے مقابلہ کو چلے اور جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی کے لئے نکلے تو ان کی زبان پر حق تعالیٰ کی حمد ثناء ہی جاری تھی:
كُنْتَ وَتَكُونُ أَنْتَ حَيٌّ لا تَمُوتُ تَنَامُ الْعُيُونُ وَتَنْكَدِرُ النُّجُومُ وَأَنْتَ حَيٌّ قَيُّومٌ ، لا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ۔ (الاسماء و الصفات للبیھقی)
تو ہے اور رہے گا، تو ایسا زندہ ہے جس کو موت نہیں، آنکھیں سوتی ہیں اور ستارے بدلتے ہیں،تو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے، تجھ کو اونگھ اور نیند نہیں چُھوسکتی، یا حیّ یا قیّوم!
یاد رکھو کہ حق تعالیٰ کی رحمت و رأفت جو ہماری پچھلی زندگی میں ہمارے ساتھ رہی وہ اب بھی ہم پر محیط ہے، وہی قوت جو گذشتہ زمانہ میں ہماری دستگیری کرتی رہی ہے اب بھی ہماری مدد کر رہی ہے اور وہی فضلِ عمیم جس نے اب تک ہمیں سنبھالا ہے وہ اب بھی ہمیں اب بھی سنبھال رہا ہے۔
حق تعالیٰ اب بھی وہیں، ان میں کوئی تغیر نہیں، وہ تغیر سے منزّہ و ماوراء ہیں، یہ امر واقعی ہے کہ انہوں نے ہمیں گذشتہ زندگی میں بلا و غم سے نجات دی ہے، اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ اپنے ہی عدم تغیر و عدم تنفر کی وجہ سے ہمیں ہرگز فراموش نہ کریں گے۔
حضرت سعدیؒ اسی طریقہ کو جو ہم یہاں پیش کر رہے ہیں اصولاً استعمال کرتے ہوئے حق تعالیٰ کے گذشتہ احسانان کو یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎
فراموشت نہ کرد ایزدور آں حال
کو بودی نطفۂ مدفون و مدہوش
ردانت داد و عقل و طبع و ادراک
جمال و حسن و رائے و فکرت و ہوش
وہ انگشتت تب کرد برکف
دو بازویت مرتب ساخت بر دوش
کنوں پنداری اے ناچیز ہمت
کہ خواہد کردنت روزے فراموش
خوب سمجھ لو کہ صداقت جس وقت تک کہ وہ محض ایک ذہنی تعقل بنی رہتی ہے ہماری مدد کرنے سے قاصر ہوتی ہے، لیکن جب ہمیں اس کا تحقق ہوتا ہے وہ ایک ہمہ تواں قوّت بن جاتی ہے، اب اہم بات جاننے کی یہ رہ جاتی ہے کہ صداقت کا تحقق کس طرح ہوتا ہے؟ یاد رکھو کہ جب ہم یہ یاد کرتے ہیں کہ ہماری پچھلی زندگی میں حق تعالیٰ نے ہم پر کیا کیا احسانات کئے ہیں، تو ہم اس صداقت کے تحقق کے قابل ہوتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے جو کچھ اس کے پہلے کیا ہے وہ اب بھی کرسکتے ہیں، معاذ اللہ حق کے ہاتھ کمزور نہیں ہوگئے ہیں کہ وہ ہماری حفاظت نہ کرسکیں اور ہمیں نہ بچاسکیں اور نہ معاذ اللہ وہ بہرے ہی ہیں کہ سن نہ سکیں، وہ سمیع و بصیر، وہ علیم و قدری ہیں اور وہ ہر طرح کافی ہیں:
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ؟ وَكَفَى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللَّهِ نَصِيرًا۔
اگر ہم حق تعالیٰ کے ان احسانات کو یاد کرتے رہیں، جو پچھلی زندگی میں ہم پر بارش کی طرح نازل ہوتے رہے تو ہمیں شدّت سے اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ ہم حق تعالیٰ کا شکر ادا کریں، ان کے جملہ احسانوں کا، جملہ عنایتوں اور کرموں کا، نعمتوں اور راحتوں کا، اب ہمیں ایسا کرنا چاہئے اور خوب خوب کرنا چاہئے! وحئ غیر متلو کے الفاظ میں ہمیں کہنا چاہئے:
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ، اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، ولَك الشُّكرُ كُلُّهُ وَلَكَ الْمُلْكُ كُلُّهُ، وَلَكَ الْخَلْقُ كُلُّهُ، وَبِيَدِكَ الْخَيْرُ كُلُّهُ وَإِلَيْكَ يَرْجِعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ۔
حق تعالیٰ آپ کے لئے کل حمد ہے جیسی کہ آپ فرماتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کہ ہم جو کہتے ہیں، حق تعالیٰ آپ ہی کے لئےتعریف ہے سب کی اور آپ ہی کے لئے شکر ہے سب کا، اور آپ ہی کے لئے حکومت ہے سب کی اور آپ ہی کے لئے ہے مخلوق سب کی، آپ ہی کی طرف امور رجوع ہوتے ہیں سب کے۔
الحَمْدُ لله الذِي كَفَانِي وَآوَانِي وَأَطْعَمَنِي وَسَقَانِي وَالذِي مَنَّ عَلَىَّ فأَفْضَلَ وَالذِي أَعْطَانِي فأَجْزَلَ الحَمْدُ لله عَلَى كُلِّ حَالٍ۔ (اسماء اللہ الحسنیٰ)
سب تعریف اس اللہ کی ہے جو مجھ کو کافی ہوا اور جس نے مجھ کو ٹھکانہ دیا اور کھلایا اور پلایا اور مجھ پر احسان اور فضل کیا اور مجھ کو مال و دولت دی اور بہت دی، ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔
يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ۔
اے اللہ! تیرے لئے ایسی تعریف ہے جو تیری ذات کی بزرگی اور تیری بڑی بادشاہت کے سزاوار ہو۔
اس طرح حمد و شکر ادا کرنے سے تسبیح و تقدیس سے ہم میں ایک اعلیٰ شعور پیدا ہوتا ہے، ایک پختہ یقین، باطنی وقوف، براہِ راست وجدان پیدا ہوتا ہے، جو عقلی علم یا تعقّل سے ماوراء ہوتا ہے، اس کی کیفیت کا الفاظ میں ادا کرنا ممکن نہیں، ہمیں اس امر کا تحقق ہوجاتا ہے کہ جو کچھ بھی حق تعالیٰ نے اب تک کیا ہے وہ اب بھی کرسکتا ہے۔
انہ علی کل شیئ قدیر و بالاجابۃ جدیر نعم المولیٰ و نعم النصیر۔
(۲) اب ہمیں جو کامکرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم حق تعالیٰ کا جو زمین و آسمان کے خالق ہیں، جن کے ہاتھ میں سب کی بھلائی ہے اور جن کی طرف سب امور رجوع ہوتے ہیں ان نعمتوں کے لئے شکر ادا کریں جن کی ہمیں اب حاجت یا ضرورت ہے، ہمیں اس پر ایمان ہے، ہمیں اس کا امر کا تحقق حاصل ہے کہ حق تعالیٰ ہر دشوار کو آسان کرسکتے ہیں، ان کے لئے ہر دشواری کو آسان کردینا ؤسان ہے، (ان تیسیر کل عسیر علیک یسیر) پچھلی زندگی میں حق تعالیٰ نے ایسا کیا ہے اور اب بھی وہ کرسکتے ہیں اور قطعاً کرسکتے ہیں، اس لئے ہم ان کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ انہوں نے ہماری دعاء سن لی، اس نعمت کا ظہور جس کی ہمیں حاجت ہے پردۂ غیب سے قطعاً ہو رہا ہے، اور غیب میں تو وہ ظاہر ہو چکی، ہماری مراد ہمیں وہاں مل چکی، ہمارا ایمان اس لامتناہی قوت پر ہے جس کے لئے ہر دشوار آسان ہے، جس کے لئے ہر ناممکن ممکن ہے اور ہم ان چیزوں کا جو ظاہر نہیں ہوئیں اس طرح ذکر کرتے ہیں گویا وہ ظاہر ہوچکیں، یہی تاکید ہے ہمارے محبوب و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی۔
ادعوا اللہ و انتم موقنون بالاجابۃ۔ تم دعاء مانگو اور تم کو اس کے قبول ہونے کا یقین ہو۔
حق تعالیٰ کا ایک نام مجیب بھی تو ہے، یعنی دعاء اور سوال قبول کرنے والے، ان کا ارشاد ہے:
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ (غافر:۶۰)
مجھ کو پکارو میں تمہاری دعاء قبول کرلوں گا۔
أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔ (البقرۃ:۱۸۶)
جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی بات کا جواب دیتا ہوں۔
مَنْ يَدْعُونِى فَأَسْتَجِيبَ لَهُ۔ (اسماء اللہ الحسنیٰ)
کوئی مجھ سے دعاء کرتا ہے کہ میں اس کی دعاء قبول کروں؟
ما من مسلم یدعوا بدعاء الّا استجیب لہ۔
جو مسلمان کوئی دعاء کرتا ہے تو اس کی قبول ہوتی ہے۔
یہ اور اس طرح کی اور یقین آفرینیوں کے بعد اور خود اپنے ذاتی تجربہ کے بعد ہم دعاء کے ساتھ ہی اجابت کی قبولیت کے یقین کے ساتھ حق تعالیٰ کا اس نعمت پر شکر ادا کرتے ہیں جس کی ہمیں حاجت ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ نعمت ہمیں حاصل ہوچکی ہے، گو کہ ابھی پردۂ غیب سے اس کا ظہور نہیں ہوا ہے۔
بات یہ ہے کہ عام آدمی چاہتا ہے کہ حق تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے پہلے نعمت کا ظہور ہوچکا ہو، ظہورِ نعمت کے بعد شکر ادا کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس کی دعاء اکثر مؤثر نہیں ہوتی، جو شخص نعمِ الٰہی کے لئے ہمیشہ دعاء کرتا رہتا ہے اور حق تعالیٰ کا محض اسی وجہ سے شکر ادا نہیں کرنا چاہتا کہ ابھی اس کی دعاء کی قبولیت کے آثار و نتائج نہیں پیدا ہوئے ہیں وہ ایمانِ کامل کی دولت سے محروم ہے، کشر گذار (شکار) ذاکر (ذکّار) و مطیع و فرمانبردار روح حق تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہے، تحمید و تسبیح ہم میں وہی شعور پیدا کرتی ہے جو ہم میں اس وقت خود بحود پیدا ہوتا ہے جب ہماری دعاء قبول ہوچکی ہوتی ہے!
ہم اپنا رخ اس ذات کی طرف کئے ہوے ہیں جو ’’فاطر السمٰوات و الارض‘‘ ہے، اس کے ثناء خواں ہیں، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کر رہے ہیں، عرض کر رہے ہیں کہ حق تعالیو آپ خیر محض ہیں، رحمت مطلق ہیں، فکرِ تام ہیں، کمالِ مطلق ہیں، محسن ہیں، مکرم و منعم ہیں، مفضل ہیں، وہاب ہیں، نافع، رحمٰن و رحیم ہیں، مجیب ہیں، آپ ہمارے حالات میں کامل الٰہی تطابق پیدا کر رہے ہیں، یہ تطابق ہمارے قبل ہمارے منصوبوں سے کہیں زیادہ کامل ہے، ہم نے اپنی جانیں آپ کے سپرد کردی ہیں اور اپنا منہ آپ کی طرف کیا ہے اور اپنا کام آپ کو سونپ دیا ہے، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ ۔
اس دعاء و ثناء کے نتیجہ کے طور پر ہمارے شعور میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے، تاریکی دور ہوجاتی ہے اور قلب کی فضاء نورانی ہوجاتی ہے، قلب مسرت سے بھر جاتا ہے، اطمئنان، سکینۃ، وقار اور سرکار کا مبدأ فیاض کی جانب سے مسلسل ہونے لگتا ہے، باطن انوار و کیفیتِ محبت سے لبریز ہوجاتا، ہم جان لیتے ہیں کہ اب ہم حصارِ سلامتی میں ہیں اور ہماری دعائیں عالمِ قُدس میں پہنچ چکی ہیں، اب جو کچھ ہوگا وہ خیر ہوگا، گو ابھی خارج میں کوئی تغیّر نہیں ہوا ہے، معاملات ویسی ہی نازک ہیں لیکن ہمارا باطن یقین و مسرت سے پُر ہوجاتا ہے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ ایمان ان اشیاء کے وجود پر گواہی ہے جن کا ابھی ظہور نہیں ہوا ہے، ایمان ان اشیاء کی حقیقت یا جوہر ہے جن کی ہم حق تعالیٰ سے توقع کرتے ہیں۔
اس یقین و مسرت و سکینت کی وجہ سے ہم پھر حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، اس نعمت کے لئے اس بخشش و فضل کے لئے جس کا ابھی ظہور نہیں ہوا ہے اور جس کا وقوع ابھی قریب نظر نہیں آتا، ممکن ہے کہ اس کا کچھ عرصہ کے لئے ظہور نہ ہو اور وقوع نہ ہو لیکن یہی عدم ظہور و عدمِ وقوع ہمیں اپنی قوتِ ایمانیہ سے کام لینے کا موقع عطا کرتا ہے کہ ہم اس یا ’’پسندیدہ‘‘ کی حمد و ثناء میں مشغول و مصروف رہیں جس کے ہاتھوں میں سب کی بھلائی ہے اور ہر چیز کا پورا اختیار ہے، فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ۔
جامی از یار پسندیدہ مبرید حاشا
کاں پسندیدہ بجز کار پسندی نکند!
ہم شکر ادا کرتے ہیں حمد و ثناء کرتے ہیں اس نعمت پر بھی جس کا ابھی ظہور ہوا ہے، لیکن جس کے متعلق ہمارا ایمان ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یہ نعمت حق تعالیٰ نے ہمیں عطاء کردی ہے اور وہ ظاہر ہونے والی ہے، کہا جاتا ہے کہ جب بارش کی دعاء کے لئے لوگ جمع ہونے لگے تو ایک بچی اپنی چھتری ساتھ لئے دعاء میں شریک ہونے پہنچی، اس کو یقین تھا کہ بارش اب قطعاً ہوگی،ہمارا ایمان بھی اس معصوم جان کی طرح ہونا چاہئے کہ مبدأ فیاض کی جانب سے وہ نعمت ہمیں قطعاً عطاء ہوگی جس کا سوال ہم نے کیا ہے! جس قدری ہماری قوتِ ایمانی قوی ہوگی اسی قدر ہمارے تمام امور میں کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی اور ہماری ساری پریشانیاں سلجھ جائیں گی، مومن اپنی قوتِ ایمانی ہی سے ہمیشہ کام لیتا ہے اور کامران ہوتا ہے۔
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس نعمت کا خارجی ظہور نہیں ہوتا، جب ایسا ہو تو یقین رکھو کہ یہ ہمیں ایک بہتر حالت کی طرف منتقل کرنے کے لئے ہو رہا ہے اور ہمیں حق تعالیٰ کی حکمت و رحمت کا عمیق علم عطا کرنا مقصود ہے، اس لئے بجائے حزن و یاس کے ہمیں حق تعالیٰ کی حکمت میں مصروف رہنا چاہئے یہ ہمارے ایمان بڑی آزمائش ہے، اس خاص وقت کی دعاء یہ ہے:
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا دَائِمًا مَعَ دَوَامِکَ وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا خَالِدًا مَعَ خُلُودِكَ، وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا دَائِمًا لَا مُنْتَهَى لَهُ دُونَ مَشِيئَتِكَ ولك الحمد حمدا لا يريد قائله إلا رضاك ولك الحمد عند طرفة كل عين وتنفس كل نفس، اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقَلْبِي إِلَى دِينِكَ وَاحْفَظْ مَنْ وَرَاءَنَا بِرَحْمَتِكَ، اللهم ثبتني أن أزل واهدني أن أضل۔ (کنز العمال عن ابی الدرداء و علی)
اے اللہ! حمد تیرے ہی لئے ہے، ایسی حمد کہ تیری ہمیشگی کے ساتھ وہ بھی ہمیشہ رہے، اور تیرے ہی لئے حمد ہے، ایسی حمد کہ تیرے دوام کے ساتھ وہ دائم رہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے ایسی حمد کہ اس کی انتہاء تیری مشیت کے ادھر نہیں، اور تیرے ہی لئے حمد ہے ایسی حمد کہ اس کے قائل کا مقصود تیری ہی خوشنودی ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے ایسی حمد جو ہر پلک جھپکانے اور ہر سانس لینے کے ساتھ، اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین کی طرف متوجہ کردے اور ہماری حفاظت ہمارے اوپر سے رکھ، اپنی رحمت کے ساتھ، اے اللہ! مجھے ثابت قدم رکھ کہ کہیں ڈگمگا نہ جاؤں اور مجھے ہدایت پر رکھ کہ کہیں گمراہ نہ ہوجاؤں۔
ہم اس دعاء میں مصروف رہتے ہیں، حق تعالیٰ کی ثناء و حمد میں مشغول رہتے ہیں،
دفاعِ صحابہؓ کیوں ضروری ہے؟
از:۔ مولانا رب نواز طاہر
الحمد للہ العلیم الخبیر، المتقن نظام العالم بلا معین و نصیر، فسبحان اللہ الذی حکمتہ بالغۃ و علمہ عزیز، و نعمہ واصلۃ الی کل صغیر و کبیر، و نشھد ان لاالٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ فی نقیر و قطمیر، و نشھد ان سیدنا و مولانا محمد اعبدہ و رسولہ الذی ھدانا بکتاب منیر، و دعانا الی اللہ بالانذار و التبشیر صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ مادامت الکواکب تسیر۔ اما بعد!
پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت کا تاج پہنایا گیا ….. نبوت ملنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرہ سے بت پرستی …. اور دیگر برائیوں کے خلاف کام شروع کیا …… پورے معاشرہ کو ٹھیک کرنے کے لئے اور معاشرہ کے اندر موجود خرابیاں اور برائیاں دور کرنے کے لئے چونکہ افراد درکار ہوتے ہیں …… ایک جماعت اور گروہ ایسا ہونا چاہئے جو کہ منظّم اور مضبوط بنیاد پر کام کرسکے۔
اسی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات سے آراستہ ایک جماعت تیار کرنی شروع کی تو جو جماعت تیار ہوئی یعنی صحابہؓ کی جماعت جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات، اقوال و افعال اپنے سینوں اور صحیفوں میں محفوظ کرلئے، قرآن کریم جن کے سامنے نازل ہوا، اور یہ لوگ اس کے اولین مخاطبین بنے، کیونکہ اکثر سورتوں کا شانِ نزول ان صحابہ کرامؓ کے واقعات سے وابستہ ہیں۔
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء کی طرح طبعی عمر دے کر دنیا سے اٹھادیا یعنی آپؐ وصال فرماگئے۔
اسلام جو کہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا آخری دین ہے، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، اسی طرح یہ دین اسلام بھی آخری دین ہے، قیامت تک یہی اصل و قواعد دین کے رہیں گے۔
اب آپ دیکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے، دوسرے نبی کو آنا نہیں ہے اور نہ دوسرے دین کو آنا ہے۔
اب جو دین حضور صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ کر گئے ہیں، یہ کن کے پاس ہے، کن ہاتھوں میں ہے؟ آیا محفوظ ہاتھوں میں ہے یا غیر محفوظ؟
تو تحقیق و تفتیش کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ یہ دین محفوظ ہاتھوں میں ہے، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت کے پاس ہے۔
محفوظ کیوں؟ اس لئے کہ جب یہ چند افراد تھے بدر کے میدان میں انہوں نے ہزاروں کے مقابلہ میں اس دین کا کیان دفاع کیا تھا، جب یہ ہزاروں پر پہنچے تو لاکھوں دین دشمنوں کا مقابلہ کیا اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد تو یہ جماعت کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (۱۲۴۰۰۰) نفوسِ قدسیہ پر مشتمل تھی، اب تو پوری دنیائے کفر کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی، اس لئے معلوم ہوا کہ یہ دین جانبازوں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں کے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جو دین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اس کی بنیاد اور اساس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثابت ہوئے۔
قرآن و حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ہی اس امت تک پہنچایا اور پوری دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ پہنچایا، اس راستہ میں جتنی بھی تکالیف و شدائد آئے خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا،اس دین کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لئے اپنے گھر بار کو خیر باد کہا، اپنے بیوی بچے چھوڑے۔
اور آج انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی قبریں دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرامؓ اس دین کو پوری دنیا تک پہنچانے کا عزم لے کر نکلے تھے، آج اگر ان صحابہ کرامؓ کی عزت و ناموس محفوظ نہیں تو دین کیسے محفوظ رہ سکے گا، اور آئندہ نسلوں کے دلوں میں ان صحابہؓ کی محبت کیوں کر آئے گی؟ جس دن اس امت کے دل سے صحابہ کرامؓ کی محبت ختم ہوجائے گی اسی دن سے یہ بدعات اور رسوماتِ شرکیہ کا شکار ہوجائے گی، اس لئے آج ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ناموسِ صحابہؓ کی خاطر اٹھیں، اپنی جان و مال اور وقت صحابہ کرامؓ کے ناموس کے لئے وقف کردیں اور صحابہ کرامؓ کا ایسا کامیاب دفاع کرجائیں کہ آئندہ کسی کفریہ ٹولے کو اسلام کے مضبوط قلعہ میں شگاف ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکے۔
دفاعِ صحابہؓ کیوں ضروری ہے کہ عنوان پر چند پوائنٹ تحریر کرتا ہوں، آپ ان کو زبانی یاد کرلیں اور اس کی دعوت ہر مسلمان تک پہنچائیں۔
ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ناموسِ صحابہؓ کی سپاہی ہیں، مگر جب ہم سے کوئی یہ پوچھتا ہے کہ دفاعِ ناموسِ صحابہؓ کیوں ضروری ہے؟ تو ہمارے پاس خاطر خواہ جواب نہیں ہوتا، محض جذباتی نعروں سے کچھ نہیں ہوتا، اپنا مشن اور کاز گھر گھر پہنچائیں اور یہ نمبرز یاد کرکے ان کی دعوت دیں۔
پہلا پوائنٹ: صحابہ کرامؓ کا دفاع دینِ اسلام کا دفاع ہے:
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابہ کے دیباچہ میں امام ابوزرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:
إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُل يَنْتَقِصُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِيقٌ، ذَلِكَ أَنَّ الرَّسُول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالْقُرْآنَ حَقٌّ، وَمَا جَاءَ بِهِ حَقٌّ، وَإِنَّمَا أَدَّى إِلَيْنَا ذَلِكَ كُلَّهُ الصَّحَابَةُ، وَهَؤُلاَءِ يُرِيدُونَ أَنْ يُجَرِّحُوا شُهُودَنَا، لِيُبْطِلُوا الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ، وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى، وَهُمْ زَنَادِقَةٌ۔
ترجمہ:۔ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور جو دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں وہ دین برحق ہے اور یہ ساری چیزیں ہم تک صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہنچائی ہیں، لہٰذا صحابہؓ ہمارے لئے رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ و سلام) کے گواہ ہیں، اور یہ لوگ ہمارے گواہوں کو مجروح کرکے کتاب و سنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا یہ لوگ خود لائق جرح ہیں، اور یہ لوگ بد دین زندیق ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ہمارا دین حق تعالیٰ جل شانہ کی جانب سے نازل ہوا ہے اور چند واسطوں کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، دین پر اعتماد اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ہم تک لائقِ اعتماد واسطوں سے پہنچا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور بعد کی امت کے درمین پہلا واسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، اگر وہ لائقِ اعتماد نہیں تو دین کی کوئی چیز بھی لائقِ اعتماد نہیں رہتی، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجروح کرنا درحقیقت دین کے اعتماد کو مجروح کرنا ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اسلام کے ان اولین عینی شاہدین صحابہ کرامؓ کی عدالت کو مجروح ہونے سے بچائیں اور اسلام کے اس اولین بنیاد کا دفاع کریں، تاکہ اسلام کی پوری عمارت منہدم ہونے سے محفوظ رہے، اس لئے یہ پہلا نمبر ہے جس کی وجہ سے دفاعِ صحابہؓ ضروری ہے، حقیقت یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرامؓ کا دفاع در اصل دینِ اسلام کا دفاع ہے۔
دوسرا پوائنٹ: اللہ تعالیٰ کے طریقہ کی پیروی:
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت کا خود دفاع کیا ہے، جب اللہ تعالیٰ نے منافقین سے فرمایا:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ:۱۳)
ترجمہ:۔ اور جب کہا جاتا ہے ان کو کہ ایمان لاؤ! جس طرح ایمان لائے سب لوگ، تو کہتے ہیں: کیا ہم ایمان لائے جس طرح ایمان لائے بے وقوف لوگ؟ جان وہی ہیں بے وقوف لیکن وہ نہیں جانتے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور دیگر کفار سے فرمایا کہ تم صحابہ کرامؓ کی طرح ایمان لائے جس طرح وہ ایمان لائے ہیں، لیکن ان لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سفہاء یعنی بیوقوف کہا، تو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کا دفاع کرتے ہوئے ان کفار، منافقین کی طرف وہی کلمات لوٹائے جو انہوں نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں کہے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ یعنی بیوقوف تو تم ہی ہو‘‘ تو آج ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس طریقہ کی پیروی کرنی چاہئے اور اس طریقہ کی پیروی کی وجہ سے دفاعِ صحابہؓ نہایت ضروری ہوجاتا ہے، آج اگر کوئی صحابہ کرامؓ کو مرتد کہے تو ہمیں بھی وہی الفاظ ان کے بارے میں لوٹانے چاہئیں اور کھلے عام اُسے مرتد کہیں، اور اگر کوئی کافر کہے تو ہمیں سنت اللہ کی پیروی میں اُسے کافر کہنے سے کوئی چیز باز نہ رکھے، اللہ تعالیٰ کے اس طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے اگر ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے تو اُسے اپنی سعادت سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے طریقہ کی خاطر ہم مار کھا رہے ہیں۔
تیسرا پوائنٹ: صحابہ کرامؓ معیارِ ہدایت ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمارے لئے معیارِ ہدایت و ایمان قرار دئے گئے ہیں کہ ایمان وہ مطلوب ہے جو صحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہو، قرآن کریم میں رب کائنات ارشاد فرماتے ہیں: فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا۔ ’’پس اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہوں گے‘‘۔
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کو ہمارے ایمان کے لئے معیار اور پیمانہ مقرر کیا گیا اور اس ارشاد باری تعالیٰ سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا ایمان کامل، مکمل بلکہ اکمل تھا۔
اب صحابہ کرامؓ ہمارے لئے معیار اور کسوٹی ہیں کہ ہم اپنے ایمان کو اگر پرکھیں گے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھیں گے، ان کی زندگیوں سے راہنمائی حاصل کریں گے، اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ کے ایمان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں تو ہمارے ایمان کا معیار اور پیمانہ کیا رہے گا؟ ہم کس سے راہنمائی حاصل کریں گے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور ایماندار کہلاسکیں، تو اس کے لئے ہمیں صحابہ کرامؓ کی ناموں و ایمان کا سپاہی بن کر میدان میں آنا پڑے گا، پھر جو بھی زبان صحابہ کرامؓ کے ایمان کے بارے میں پوچھے، پہلے ہم اس کے ایمان کو پرکھیں اور اس کے ایمان پر بحث کریں۔
چوتھا پوائنٹ:صحابہ کرامؓ ہمارے محسن ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کادفاع ہم مسلمانوں پر اس لئے بھی ضروری ہے کہ صحابہ کرامؓ ہمارے محسن ہیں، محسن کہتے ہیں احسان کرنے والے کو، صحابہ کرامؓ جب ایمان لائے تو اس دین کے لئے اس قدر خدمات انجام دیں اور اس دین کی خاطر تمام تر مشکلات و مصائب سے ان کا واسطہ پڑا، وہ ہر ایک آزمائش و امتحان میں کامیاب ہوتے چلے گئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رضا کا سرٹیفیکٹ دنیا میں عطاء کردیا اور اعلان کردیا کہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔ (اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے)
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کا اعلان کردیا تو صحابہ کرامؓ نے یہ نہیں کیا کہ اب تو اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوچکے ہیں اور ہم جنت کے مستحق ہوگئے ہیں، لہٰذا آرام سے بیٹھ جائیں؟ بلکہ ان اللہ کے مقربین اور محبین نے ہمارے اور پوری کے بارے میں سوچا اور ہم تک یہ دین پہنچانے کے لئے اور ہمیں بھی جنت کا مستحق بنانے کے لئے اپنے ہر آرام کو تیاگ دیا، حالانکہ وہ تو بذات خود کامیاب ہوگئے تھے، پھر اتنی تکالیف اور مصائب ہمارے لئے برداشت کئے، تو یہ ہم پر احسان کیا، اب اس احسان کا حق تو یہ ہے کہ ہم اس جماعت کے نقش قدم پر چلیں اور جو جماعت یا گروہ ان پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتا ہے اُن کا ڈٹ کر مقابلے کیں، کل انہو نے ہمارے متعلق سوچا،کیا آج ہم ان کے بارے میں نہیں سوچ سکتے؟ کیا ان کا دفاع نہیں کرسکتے؟
احسان فراموش ایک کمینہ فعل ہے، وہ بدفطرت اور کمینے لوگ ہوتے ہیں جو احسان فراموشی کرتے ہیں۔
کوئی غیرتمند آدمی احسان فراموشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، چہ جائیکہ مسلمان احسان فراموشی کا ارتکاب کرے، اگر آج ہمارے ذہنوں اور عقل پر مصلحت کے پردے نہ ہوتے اور ہمارے جذبات غیرتِ ایمان سے لبریز ہوتے تو کسی بھی شخص کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت کی طرف کسی بھی الزام کو منسوب کرنے کی جرأت نہ ہوتی، جن صحابہؓ نے ہمارے لئے اپنے گھر بار چھوڑے، اپنا وطن چھوڑا، اس امت کی فکر میں ان دور دراز ملکوں میں مسافرانہ زندگی بسر کی اور ہم تک ایمان کی دولت پہنچائی، آج ان کے لئے ہم اپنا معمولی سا سکون بھی خراب کرنے کے روادار نہیں، ہم جیل اور گولی کے خوف سے خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں، اب غیرت اور ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے محسنوں کا دفاع کریں، ورنہ احسان فراموشی کا بدنما داغ اپنے ماتھے پر سجاکر جیسے سےمرجانا بہتر ہے۔
پانچواں پوائنٹ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابی کے لئے اپنی جانی قربانی کے لئے تیار تھے:
بیعتِ رضوان جیسی عظیم بیعت ایک صحابیؓ کی خاطر لی گئی، صرف ایک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خاطر تمام صحابہ اور خود سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر موت کی بیعت لی، یہاں اس بیعت سے یہ نقطہ واضح ہوتا ہے کہ صحابیؓ کا مقام کیا ہے؟ کیونکہ اس بیعت نیتجہ میں اگر یہ جنگ کفار کے ساتھ ہوجاتی تو اس میں کتنے صحابہ شہید ہوتے اور خود پیغمبرؐ بھی شہید ہوسکتے تھے، لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خود کو ایک صحابی کے بدلے پیش کیا، تو اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک صحابی کی کیا قدر و منزلت ہے۔
کیا ہماری جان پیغمبر علیہ السلام سے زیادہ قیمتی ہے کہ پیغمبر تو اپنی جان صحابہ کرامؓ کے دفاع میں پیش کریں اور ہم اپنی جان یہ کہہ کر بچالیں کہ جان بچانا بھی فرض ہے، تف ہے ایسی جان اور زندگی پر! کہ صحابہ کرامؓ پر طعن و تشنیع ہوتی رہے اور مسلمان زندہ رہیں، اس موقع پر مسلمان کی پہچان تو یہ ہونی چاہئے کہ خود اپنی جینا بھی اپنے آپ پر حرام کردیں اور دشمنانِ صحابہؓ کا جینا دوبھر کردیں۔
چھٹا پوائنٹ: صحابہ کرامؓ نبوت کی حفاظتی دیوار ہیں:
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئیس (۲۳) سال کی محنت اور جانفشانی سے جو جماعت تیار کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دین، اپنی کتاب اور اپنی لائی ہوئی ہدایت کو جس جماعت کے سپرد کرکے دنیا سے تشریف لے گئے اور آپؐ کی تیار کی وہئ جس جماعت کو آپؐ اور بعد کی امت کے درمیان اولین واسطہ بنایا وہ لائق اعتماد ہے، امانت دارہے، اور جب یہ لائق اعتماد ہے تو انہوں نے جو کچھ کیا وہ دین کے مطابق کیا، اور اگر اس جماعت کو لائق اعتماد نہ سمجھیں تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک اور خطرناک حد تک گمراہی میں جانے والا؛ کیونکہ پھر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ:
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت میں (نعوذ باللہ) ناکام ہوگئے اور ان کی تیئیس سالہ محنت رائیگاں گئی۔
۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بمد فضول ٹھہری (نعوذ باللہ)۔
۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بند کرتے ہی (نعوذ باللہ) دین اسلام کا خاتمہ ہوگیا اور دین اسلام آپؐ کے ساتھ ہی دفن ہوگیا، وہ آپؐ کے بعد ایک دن کے لئے کیا ایک لمحہ کے لئے بھی آگے نہیں چلا۔
۴۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کی ہوئی جماعت لائق اعتماد نہیں تھی تو اس ناقابل اعتبار جماعت کے ذریعہ سے ہیں جو قرآجن پہنچا وہ بھی لائق اعتماد نہ رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بھی لائق اعتماد نہ رہی اور دین اسلام کی کسی بھی چیز پر اعتماد نہ رہا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب، آپ کی نبوت اور آپ کے لائے ہوئے دین کی ایک ایک چیز ہمیں اسی جماعت کے ذریعہ ملی ہے، لہٰذا جو شخص یا فرقہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لائق اعتماد نہیں سمجھتا تو ان کے اندر مندرجہ بالاعقائد ضرور ہوں گے، (جیسا کہ خوارج روافض اور شیعہ مذہب کے مشاہدے سے ثابت ہے) اور اگر ہم آج صحابہ کرامؓ کا دفاع نہیں کریں گے، تو ہماری آئندہ نسلوں کے لئے یہ دین مشکوک بنادیا جائے گا، کیونکہ صحابہ کرامؓ نبوت کی حفاظتی دیوار ہیں، اگر یہ دیوار گرادی جائے تو نبوت محفوظ نہیں رہتی، اس لئے پیغمبر کی نبوت کی حفاظت کی خاطر بھی دفاع صحابہ کرامؓ ہمارے فرائض میں شامل ہیں۔
ساتواں پوائنٹ: صحابہ کرامؓ انتخابِ خداوندی:
حق تعالیٰ شانہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات میں سے منتخب فرمایا: اس لئے آپؐ زبدۂ کائنات ہیں، سید البشیر، خیر البشیر اور فخرِ اولاد آدم ہیں، آپؐ کی کتاب خیر الکتب ہے، آپؐ دین خیر الادیان ہے، آپؐ کی امت خیر الامم ہے اور آپؐ کا زمانہ خیر القرون ہے، لازماً آپؐ کے اصحاب بھی ’’خیر الاصحاب‘‘ ہیں (رضی اللہ عنہم اجمعین)، چنانچہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:
عَنْ عُوَيْم بْن سَاعِدَةَ قَالَ أَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إنَّ اللهَ اخْتَارَنِي، وَاخْتَارَ لِي أَصْحَاباً، جَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَاراً وَأَصْهَاراً، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَ المَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يَقْبَلُ اللّٰهُ مِنْهَ يَوْمَ القِيامَةِ صَرْفاً وَلاَ عَدْلاً، هذا حديث صحيح لإسناد و لم يخرجاه تعليق الذهبي قي التلخيص صحيح۔
ترجمہ:۔ حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لئے میرے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزی، میرے مددگار اور میرے سسرالی رشتہ دار بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت، قیامت دن نہ اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدمؑ میں سے چھانٹ کر منتخب فرمایا، اسی طرح لائق ترین افراد کو چھانٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب فرمایا، اس انتخابِ خداوندی کے نتیجہ میں یہ حضرات، جن صحبت نبویؐ کے لئے چنا گیا، اپنی علوِّ استعداد اور اپنے جوہری کمالات کے لحاظ سے انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل تھے، اسی بناء پر ان کو اللہ تعالیٰ نے ’’خیر امت‘‘ کا خطاب دیا، پس اگر صحابہ کرامؓ سے بہتر و افضل کوئی انسان ہوتے، تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و صحبت کے لئے ان کو منتخب فرماتے، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص صرف ’’صحبتِ نبویؐ‘‘ کی تنقیص نہیں بلکہ اسی کے ساتھ حق تعالیٰ شانہ کے انتخاب کی بھی توہین و تنقیص ہے، اور جو شخص صحبتِ نبویؐ کی تحقیر اور انتخابِ خداوندی کی تنقیص کرتا ہو اس کے بارے میں شدید وعید بھی قرینِ قیاس ہے۔ (مأخوذ از: شیعہ سنی اختلافات اور صراطِ مستقیم)
آٹھواں پوائنٹ: صحابہ کرامؓ دین کی اصل، اساس، بنیاد اور جڑ ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا دفاع سب سے ضروری کام اس لئے ہے کہ آج ہمارے پاس جو قرآن، کلمہ، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ، احادیثِ مبارکہ، جہاد، دعوت و تبلیغ، مساجد و مدارس موجود ہیں، یہ سب ہم نے صحابہ کرامؓ کے واسطے سے نبوت سے حاصل کی، آج اگر کوئی ان چیزوں کے بارے میں مسلمان سے سوال کردے کہ جو قرآن اور کلمہ تم پڑھتے ہو، جو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج تم ادا کرتے ہو، جن احادیث پر تم عمل کرتے، جو جہاد تم فرض سمجھ کر کرتے ہو، جس دعوت و تبلیغ کو تم ضروری سمجھتے ہو، جن مساجد و مدارس میں تم عبادت کرتے ہو اس کی اصل کیا ہے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ اس کے گواہ کون ہیں؟ اور آیا وہ گواہ ان تمام افعال کے عینی گواہ ہیں یا نہیں؟ آیا وہ گواہ مستند ہیں یا مجروح؟ تو ایک ایماندار مسلمان کا جواب یہی ہوگا کہ یہ تمام چیزیں ہم تک مضبوط، مستند ذریعہ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعہ پہنچی ہیں اور ان صحابہ کرامؓ پر جرح نہیں کی جاسکتی، وہ جرح و تنقید سے بالاتر ہیں، اس لئے کہ خود قرآن و نبوت ان کے لائق اعتماد ہونے کی گواہی دیتا ہے، اس لئے ان تمام چیزوں کےدین ہونے اور لائق اعتماد ہونے کے لئے سب سے پہلے صحابہ کرامؓ کو لائق اعتماد ماننا پڑے گا اور جو ان صحابہ کرامؓ کو لائق اعتماد نہیں مانتے ان کو دین اسلام سے الگ کرنا پڑے گا، دین اسلام کے ان عظیم الشان احکام کو بچانے کے لئے صحابہ کرامؓ کی ناموس کو بچانا ہوگا، قرآن کو مستند بتانے کے لئے صحابہ کرامؓ کو مستند ماننا ہونا، کلمہ، نماز، روزہ، زکوۃ، حج کی فرضیت منوانے کے لئے صحابہ کرامؓ کا لائق اعتماد ہونا پہلے منوانا ہوگا، جہاد اور دعوت و تبلیغ کو ضروری قرار دینے سے پہلے صحابہ کرامؓ کا وجود ضروری قرار دینا ہوگا، اس لئے کہ صحابہ کرامؓ بنیاد، اساس اور جڑ ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے متعلق ضروری عقائد:
عقیدہ (۱): رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بہت بڑی چیز ہے، اس امت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا رتبہ سب سے بڑا ہے، ایک لمحہ کے لئے بھی جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوگئی، بعد والوں میں بڑے سے بڑا ولی بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔
عقیدہ(۲):
وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ نُفْرِطُ في حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُم؛ وَلاَ نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُم، وَنُبْغِضُ مَنْ يُبْغِضُهُم، وَبِغَيْرِ الخَيْرِ يَذْكُرُهُم، ولا نُذْكُرُهُم إِلاَّ بِخَيْرٍ, وَحُبُّهُم دِينٌ وإيمَانٌ وإحْسَانٌ، وَبُغْضُهُم كُفْرٌ ونِفَاقٌ وطُغْيَانٌ۔ (عقیدۃ طحاویۃ:۱۲)
اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ سے محبت رکھتے ہیں، ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و تفریط نہیں کرتے اور کسی صحابیؓ سے براءت اختیار نہیں کرتے اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرامؓ سے بغض رکھے اور ان کو برائی سے یاد کرے، اور خیر کے سواء ان (صحابہؓ) کا تذکرہ نہیں کرتے، ان سے محبت رکھنا دین و ایمان اور احسان ہے اور ان بغض رکھنا کفر و نفاق اور طغیان ہے۔
عقیدہ(۳):
وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلًا لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَفْضِيلًا لَهُ وَتَقْدِيمًا عَلَى جَمِيعِ الْأُمَّةِ، ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ثُمَّ لِعُثْمَانَ، ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَهُمُ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ وَالْأَئِمَّةُ الْمَهْدِيُّونَ۔ (عقیدۃ طحاویۃ:۱۲)
اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کو سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے لئے ثابت کرتے ہیں، ان کو ساری امت سےافضل اور سب سے مقدم سمجھتے ہیں، ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ان کے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لئے اور یہ چاروں اکابر خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ امام ہیں۔
عقیدہ(۴): صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں مہاجرین و انصار کا مرتبہ باقی صحابہؓ سے زیادہ ہے، مہاجرین و انصار میں اہل حدیبیہ کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور اہل حدیبیہ میں اہل بدر اور اہل بدر میں چاروں خلفاء کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے، اور چاروں خلفاء میں بالترتیب حضرت ابوبکر صدیق، پھر حضرت عمر فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کے مراتب ہیں۔
عقیدہ(۵):
وَمَنْ أَحْسَنَ الْقَوْلَ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَزْوَاجِهِ الطَّاهِرَاتِ مِنْ كُلِّ دَنَسٍ ، وَذُرِّيَّاتِهِ الْمُقَدَّسِينَ مِنْ كُلِّ رِجْسٍ ، فَقَدَ بَرِئَ مِنَ النِّفَاقِ۔ (عقیدۃ طحاویۃ:۱۲)
ترجمہ:۔ اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، ازواجِ مطہرات اور ذریاتِ مقدسہ سے متعلق ہر آلائش اور رجس پاک بہترین بات کہے اور حسن عقیدت رکھے وہ نفاق سے بری ہے۔
عقیدہ(۶):
وَإِنَّ الْعَشَرَةَ الَّذِينَ سَمَّاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَشَّرَهُمْ بِالْجَنَّةِ، نَشْهَدُ لَهُمْ بِالْجَنَّةِ عَلَى مَا شَهِدَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْلُهُ الْحَقُّ، وَهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَسَعِيدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَهُوَ أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ رَضِيَ اللہُ عَنهُمْ أَجْمَعِينَ. (عقیدۃ طحاویۃ:۱۲)
اور جن دس صحابہ کا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشاعت دی ہم ان کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت پر جنت کی شہادت دیتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد برحق ہے، اور وہ ہیں: حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت سعید، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور امین الامت حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
عقیدہ(۷): صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مشاجرات یعنی ان کے باہم جھگڑوں کا بیان کرنا حرام ہے، مگر بہ ضرورتِ شرعی اور نیک نیت سے جائز ہے اور جن صحابہ کرامؓ میں باہم کوئی جھگڑا ہوا ہو ہمیں دونوں سے حسن ظن رکھنا اور دونوں کا ادب کرنا لازم ہے۔
عقیدہ(۸): ہمارے نزدیک ’’سید الشہداء‘‘ کا خطاب حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کوئی خاص لقب یا خطاب کسی کو دیا ہو وہ اس کے ساتھ مخصوص رہنا چاہئے۔
عقیدہ(۹): سیدا شباب اہل الجنۃ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ہیں۔
عقیدہ(۱۰): صحابیت ایک وہبی مرتبہ ہے جس طرح کوئی محنت اور تقویٰ کے زور سے نبی نہیں بن سکتا، اسی طرح کوئی عبادت و تقویٰ کے ذریعہ صحابی نہیں بن سکتا، یعنی صحابیت وہبی مرتبہ و مقام ہے نہ کہ کسبی۔
Home

Login | Register

.
اسلام
عقائد
تفسير
حدیث
سیرت
صحابہ
دعا اقوال
قیامت آخرت
فقہ
مسائل فتاویٰ
فقہاء محدثین
تزکیہ احسانتاریخکوئزفرق مللآڈیومضامین
You are here: Home » اہم مضامین » شیعہ کی چالیس کفریہ عبارات*مولانا عطاء الرحمٰن شہباز مدنی صاحبؒ
شیعہ کی چالیس کفریہ عبارات*مولانا عطاء الرحمٰن شہباز مدنی صاحبؒ
Bookmark and Share Increase the font size of this article Default font size Decrease the font size of this article

شیعہ کی چالیس کفریہ عبارات
مولانا عطاء الرحمٰن شہباز مدنی صاحبؒ

تحریفِ قرآن:
قرآن پاک جس پر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے، اس میں تحریف نہیں ہے، قرآن پاک میں سے ایک لفظ کا بھی انکار کفر ہے، اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی لفظ زیادہ ہے نہ کم ہے، لیکن شیعہ قرآن پاک میں کمی کے قائل ہی نہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ’’موجودہ قرآن میں سے بہت سےالفاظ نکال لئے ہیں‘‘، شیخ طوسی نے روایت کیا ہے کہ:
شیعہ کی تحریفا ت
(۱) ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً و اٰل ابراھیم و اٰل عمران و اٰل محمد علی العالمین میں اٰل محمد کے لفظ کو نکال لیا گیا ہے۔
معلوم ہوا کہ موجودہ قرآن میں لفظ اٰل محمد نہیں ہے۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۱۲۳)
(۲) قرآن پاک کی صحیح آیت: اِنَّ عَلَیْنَا لَلھُدیٰ۔
تحریف شدہ آیت: وَ اِنَّ عَلِیًّا لَلھُدٰی، یعنی علی اور ان کی ولایت ہدایت ہے۔
یہ لفظ عَلَیْنَا نہیں عَلِیًّا ہے، (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ (حیات القلوب:۲،۱۲۳)
(۳) قرآن پاک کی صحیح آیت: فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا۔ (الاسراء:۴۸، الفرقان:۹)
تحریف شدہ آیت: فلا یستطیعون ولایۃ علی سبیلاً۔
قرآن سے شعیہ عقیدہ کےمطابق یہ الفاظ ولایۃ علیّ نکال دئے گئے ہیں۔
(نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ (حیات القلوب:۲،۱۲۳)
(۴) قرآن پاک کی صحیح آیت: وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا۔ (الاسراء:۴۷)
تحریف شدہ آیت: و قال الظالمون اٰل محمد حقھم۔
(۹) قرآن پاک کی صحیح آیت: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ۔ (البقرۃ:۱۴۳)
تحریف شدہ آیت: و کذالک جعلناکم ائمتہ و سطا عدلا تکونوا شھداء علی الناس۔ (ترجمہ حیات القلوب:۳،۲۳۴)
(۱۰) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔ (الکھف:۲۹)
تحریف شدہ قرآنی آیت: انا اعتدنا للظالمین اٰل محمد ناراً احاط بھم سرادقھا۔
(۱۱) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: وَالْعَصْرِ ۔ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ (سورۃ العصر)
تحریف شدہ قرآنی آیت: ان الانسان لفی خسر، انہ فیہ من الدھر الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات وأتمروا بالتقویٰ وأتمروا بالصبر۔ (حیات القلوب:۳،۳۷۸)
قرآن پاک کی پوری سورۃ العصر کو بدل دیا۔
(۱۲) قرآن پاک کی صحیح آیت مبارکہ: وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔ (الکھف:۲۹)
تحریف شدہ قرآنی آیت: قل الحق من ربکم فی ولایۃ علی انا اعتدنا للظالمین اٰل محمد ناراً احاط بھم سرادقھا۔ (حیات القلوب:۳،۳۸۵)
(۱۳) قرآن کریم کی صحیح آیتِ مبارکہ: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ۔ (البقرۃ:۵۹)
تحریف شدہ قرآنی آیت: فبدل الذین ظلموا اٰل محمد حقھم قولاً غیر الذی قیل لھم فانزلنا علی الذین ظلموا اَٰ محمد حقھم رجزا من السماء۔
اس میں اٰل محمد کے الفاظ اپنی طرف سے درج کئے ہیں۔ (حیات القلوب)
(۱۴) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (النساء:۱۷۰)
تحریف شدہ قرآنی آیت: يا أيها الناس قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم فی ولایۃ علی فآمنوا خيرا لكم وإن تكفروا بولایۃ علی فإن لله ما في السماوات والأرض۔ (ترجمہ حیات القلوب بشارتی مترجم باقر مجلسی:۳۸۹)
فی ولایۃ علی اور بولایۃ علی کا اضافہ ہے۔
(۱۵) قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ۔ (النساء:۱۶۸)
تحریف شدہ قرآنی آیت: ان الذین ظلموا اٰل محمد حقھم۔ (حیات القلوب:۳،۳۸۹)
ان پندرہ آیاتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ شیعہ عقائد میں موجود قرآن مبارک نامکمل اور صحیح نہیں ہے، قرآن و سنت کے مطابق اور قرآنی قانون کے مطابق کلمۂ طیبہ کو تبدیل کرنے والا مرتد واجب القتل ہے، ان تمام آیات کی تبدیلی کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے اور ان کی کتاب جس مںی یہ آیات لکھی گئی ہیں ایک حوالہ بھی غلط نہیں لکھا گیا ہے۔
رسالت سے متعلق شیعہ کے کفریہ عقائد:
(۱) سرور دو عالم، رحمتِ کائنات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عقیدہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی گئی ہے، جاہل بے علم کتاب کے مصنف نے ترمذی شریف کا حوالہ دیتےہوئے باب الحج کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حج تمتع کے بارے میں لکھا ہے کہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ نبیؐ نے کیا، حج تمتع کی وضاحت کتاب میں موجود ہے کہ عمرہ اور حج کو اکٹھا ادا کرنا یعنی ایک دوسرے کے بعد ، لیکن افسوس کہ شیعہ نے عربی عبارت کو تبدیل کیا اور تمتع کا ترجمہ متعہ کیا اور صاف طور پر اپنی کتاب ’’خصائلِ معاویہ:۴۳۱‘‘ میں لکھ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ) متعہ کیا۔
صحیح حدیث: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ۔ (سنن ترمذی:باب ماجاء فی التمتع)
ترجمہ:۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے حجِ تمتع کیا۔
عمرہ اور حج ایک ہی احرام سے بلافصل جمع کرنے کو حجِ تمتع کہتے ہیں، لیکن شیعہ مصنف غلام حسین نجفی نے ترجمہ کیا: (نعوذ باللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے متعہ کیا، یہ شانِ رسالت میں گستاخی نہیں تو اور کیا ہے؟ روایت کا ترجمہ کرنا، لکھنا اور امام الانبیاء فخرِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہوں نے متعہ کیا! نعوذ باللہ
(۲) شرک فی الرسالۃ: کتاب نام ’’خورشدی خاور‘‘، ترجمہ شبہائے پشاور، مترجم محمد باقر مجلسی رئیس جوارس، کتب خانہ شاہ نجف لاہور میں یہ لکھتا ہے کہ ’’شیعہ وہ ہے جن کے نزدیک علیؓ تمام انبیاء سے افضل ہیں‘‘۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں، لہٰذا علیؓ ان سے بھی افضل ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انبیاء سےافضل ہونے کے ثبوت میں دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کوفہ کا مشہور خطیب ہے، اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:
اخبرنی انت افضل اَم آدم؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جوابات: ۱۔ انا افضل من آدم۔۲۔ انا افضل من ابراھیم۔ ۳۔ انا افضل من موسیٰ۔ ۴۔انا افضل من عیسیٰ۔ (خورشید خاور:۲۹۴)
ان پانچ عبارتوں پر شیعہ عقیدہ کی بنیاد ہے جو کہ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، صحیح عقیدہ کے مطابق امتی کسی پیغمبر کا بھی ہو وہ نبی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا، صحابی کا مقام اور ہے اور نبی کا مقام اور ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہؓ میں گو کتنا بڑا مقام رکھتے ہیں لیکن وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یا اور کسی بھی نبی سے مرتبہ میں زیادہ ہرگز نہیں ہوسکتے، لیکن شیعہ نے صحابی کو نبوت کا مقام دے کر شرکت فی الرسالۃ کیا ہے، جو کہ شیعہ کے کفر کا واضح ثبوت ہے۔
ان پانچ عبارتوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانا حضرت علیؓ کی طرف اس عبارت کو منسوب کرنا کفر و شرک سے بڑھ کر ہے، پھر اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتا ہے کہ ’’امیر المؤمنین حضرت علیؓ تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے‘‘۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک (خورشید خاور:۲۸۵)
ذرا انصاف کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا شرک فی الرسالۃ نہیں تو اور کیا ہے۔
کیا قرآن و سنت کی کھلی خلاف وروزی نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، لہٰذا شیعہ فرقہ باطلہ ہے اور ان کو کافر و مشرک کہنا ان کو غیر مسلم قرار دینا وقت کا فریضہ ہے، اور ایسی کتابیں جن کی اشاعت ہورہی ہے ان کو فی الفور ضبط کرنا ایسے مجرموں اور ایسے جہنمیوں کو سزاد دینا ہر مسلم کا فرض ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روزہ کسی کام کے لئے (حضرت) زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہ) کے گھر تشریف لے گئے، زید کی بیوی (حضرت) زینب (رضی اللہ عنہا) غسل کر رہی تھیں ….. آپؐ نے زینبؓ کا غسل کی حالت میں مشاہدہ فرمایا۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (ترجمہ حیات القلوب:۲،۸۹۱)
اس عبارت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگائی گئی ہے!!!
(۳) شیعہ کی تیسری روایت:
حضرت جعفر صادقؓ سے روایت ہے کہ ایک روز ابوبکرؓ و عمرؓ، ام سلمہؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ جناب رسولِ خداؐ سے پہلے دوسرے مرد کی زوجہ تھیں، بتائیے کہ رسول خدا اس شخص کےمقابلہ میں قوتِ مجامعت میں کیسے ہیں؟ تو ام المؤمنین ام سلمہؓ نے جواب دیا: وہ بھی دوسرے مردوں کے مثل ہیں، اسی کے آخر میں لکھا ہے کہ جبرئیلؑ بہشت سے ایک ہریہ ….. لایا اور جناب رسول خداؐ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین نے اس کو تناول فرمایا، اس کے سبب سے رسول خداؐ کو چالیس مردوں کی قوتِ مجامعت مرحمت فرمائی، اس کے بعد ایسا تھا کہ جب حضرت چاہتے ہیں ایک شب میں تمام بیویوں سے مقاربت فرماتے ہیں۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۸۹۶)
اسی طرح الشافی ترجمہ اصول کافی میں توہینِ نبیؐ کرتے ہوئے ملعون لکھتا ہے:
لوگ روایت کرتے ہیں کہ آگ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے (نعوذ باللہ) حضرت رسولِ خداؐ تھے۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۱۷)
ایسا عقیدہ رکھنے والا واجب القتل، جہنمی اور فرعون سے بڑھ کر ہے، شیعہ آج کے دور کا ہو یا پہلے کا ابولہب سے بڑھ کر ہے۔
اولادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین:
(۴) شیعہ رافضی اپنی بدنامِ زمانہ تصنیف ’’قولِ مقبول‘‘ کے صفحہ:۴۷۹ پر لکھتا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں سیدہ رقیہؓ، سیدہ ام کلثومؓ جوکہ حضرت عثمانؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں تھیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں‘‘۔
’’جس طرح جناب ابوہریرہؓ کے باپ کا فیصلہ یا عبد القادر جیلانی کے باپ کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا، اسی طرح عثمان غنی صاحب کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ نہیں ہوسکا، ان کے باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً نہیں ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک)
(۵) ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شیعہ اثنا عشریہ کے عقائد ملاحظہ ہوں:
’’ابن بابویہ امام محمد باقر سے روایت ہے کہ جب حضرت قائم اٰل محمد ظاہر ہوں گے تو (نعوذ باللہ) عائشہ صدیقہ کو زندہ کریں گے اور ان پر حد جاری کریں گے‘‘۔ (حیات القلوب:۲،۹۰۱)
(۷) غلام حسین نجفی ملعون ’’قولِ مقبول‘‘ میں لکھتا ہے ’’حضور پاکؐ نے غضبناک خروج کرنا ہے جو عائشہ سے صادر ہوا‘‘۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین
(۸) نجفی و مجلسی لکھتے ہیں کہ:
حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ عائشہ و حفصہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا اور اسی زہر سے حضورؐ شہید ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (حیات القلوب:۲،۱۰۲۶)
کیا یہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما پر الزام نہیں ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں جن کا خود اس نے اقرار کیا ہے، ان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا اور انکار کرنا بے حیائی والے الفاظ ادا کرنا کہاں کی مسلمانی ہے؟
’’قولِ مقبول‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’آج تک یہ فیصلہ اہل سنت نہیں کرسکے، حضرت ابراہیم کا باپ کون تھا؟ آذر تھا یا تارخ؟ پس جس طرح جناب ابوہریرہ کے باپ کا فیصلہ یا عبد القادر جیلانی کے باپ کا فیصلہ نہیں ہوسکا، اسی طرح عثمان صاحب کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ بھی نہیں ہوسکا، ان کے باپ نبی کریمؐ تو یقیناً نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ) (از غلام حسین نجفی:۴۷۹)
حضراتِ خلفائے راشدینؓ کے متعلق شیعہ اثنا عشریہ کے کفریہ عقائد:
(۱) ’’امام باقر سے روایت ہے کہ جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رحلت فرمائی، چار اشخاص علی ابن ابی طالب، مقداد، سلمان فارسی اور ابوذر کے سواء سب مرتد ہوگئے‘‘۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۹۲۳)
اس عبارت میں لفظ سب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف چار کے علاوہ باقی تمام صحابہ مرتد ہوگئے، جن میں حضرات حسنینؓ یعنی حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کا ذکر نہیں کیا، معلوم ہوا کہ شیعہ کافروں اور رافضیوں کے نزدیک یہ حضرات بھی مسلمان نہیں تھے۔ نعوذ باللہ
(۲) شیعہ کا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی ناموس پر حملہ:
’’خلفاء خاطی اور غیر معصوم تھے، ان پر شیطان تسلط کرتا تھا۔‘‘ (نورِ ایمان، مصنف خیرات احمد:۸۸)
(۳) حیات القلوب دوم میں ملا باقر مجلسی ملعون نے لکھا ہے کہ ’’اگر سب (صحابہؓ) ابوبکر کی بیعت کرلیتے تو خداوند عالم اہل زمین پر عذاب نازل کردیتا اور کوئی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ (نورِ ایمان:۹۲۰)
(۴) حضرت عمر فاروق نے بعد اسلام شراب نوشی کی۔ (نورِ ایمان:۸۲۰)
(۵) خیرات احمد لکھتا ہے کہ ’’قرآن کی روح سے مراد فرعون اور ہامان کا دل خلیفہ ثانی عمر ہوتے ہیں، پس جو شحص قرآن کی روح سے فرعون، ہامان اور قارون کا دل ثابت ہوا اس سے ہم لوگوں یعنی شیعہ کا دلی نفرت کرنا ہرگز خلافِ قیاس نہیں بلکہ عینِ فطرت ہے۔ نعوذ باللہ (نورِایمان:۲۹۵)
(۶) سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نجفی کی ایک اور تحریر کہ ’’عثمان ذوالنورین نے اپنی بیوی ام کلثوم کی موت کے بعد ان کے مردہ جسم سے ہمبستری کی ہے‘‘۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک، لعنۃ اللہ علی الکاذبین) (قولِ مقبول:۴۲۰)
(۷) اسی کتاب میں اہل سنت پر الزام لگاتے ہوئے لکھتا ہے:
’’امام مسجد افضل ہے، جس کا سربڑا ہو اور آلۂ تناسل چھوٹا ہو، چھوٹے آلۂ تناسل کی فضیلت اس لئے ہے کہ وہ زیادہ ہمبستری کے قابل ہوتا ہے اور جناب عثمان میں مذکورہ خوبی موجود تھی، اسی لئے تو مردہ بیوی کو بھی معاف نہیں کیا، اس کے مردہ جسم سے ہمبستری کی‘‘۔ (قول مقبول:۴۳۰)
معلون نجفی بے شرم و بے حیاء فربیا کے زناء کی اولاد کو شرم نہ آئی، یہ بات کہاں تک پہنچتی ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والے مجلسی گروہ کو خدا واصلِ جہنم کرے۔ آمین
(۸) اسی کتاب قولِ مقبول:۴۱۸ پر لکھتا ہے کہ ’’حضرت عثمان غنیؓ نے بغیر غسل کئے نماز جنازہ میں شرکت کی اور نماز جنازہ پڑھی‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الکاذبین)
(۹) اسی کتاب ’’قولِ مقبول:۴۳۵‘‘ پر لکھتا ہے کہ ’’عثمان عورتوں کے عاشق زار تھے، اسی لئے رقیہ کو حاصل کرنے کی لالچ میں مسلمان ہوگئے تھے‘‘۔
(اس بے حیاء و بے شرم نے یہ تحریر کہاں سے لی ہے؟)
(۱۰) حضرت عثمان غنی اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما اور اس عبارت میں حضور اکرم علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے غلام حسین نجفی فاضل عراقی اپنی کتاب قول مقبول:۴۲۵ میں لکھتا ہے کہ ’’جب آدمی کا ذَکر ایستادہ ہوتا ہے تو دو حصے عقل کے ختم ہوجاتے ہیں، پس جناب عثمان کا یہی حشر ہوا کہ شہوت کا غلبہ ہوا اور بیمار زوجہ یعنی ام کلثوم کو ہمبستری سے قتل کردیا‘‘۔
(۱۱) ’’امام جعفر نے امام ابوحنیفہ کی ماں سے متعہ کیا اور علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضور نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑبڑ نہ کریں، لیکن نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الرافضیہ) (قول مقبول:۳۹۵)
(۱۲) غلام حسین نجفی ’’خصائلِ معاویہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کو قتل کیا ہے‘‘۔ (خصائل معاویہ:۲۴۹)
نجفی کافر اسی کتاب میں لکھتا ہے ’’حضرت عثمان غنیؓ کی بیوی حضرت نائلہؓ نے ڈانس کیا‘‘۔(خصائل معاویہ:۱۴۳)
اسی کتاب میں نجفی غلام حسین لکھتا ہے:
حضرت خالد بن ولید نے ایک مسلمان کو شہید کیا اور پہلی ہی رات میں اس کی خوبصورت بیوی سے تمام رات زنا کرتا رہا۔ (نعوذ باللہ) (خصائل کا مصنف:غلام حسین نجفی)
(۱۳) اسی کتاب کے صفحہ:۳۹۱ میں حضرت معاویہؓ کے بارے میں لکھتا ہے ’’زانی باپ کا شرابی بیٹا خلیفہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
(نعوذ باللہ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شرابی لکھا گیا ہے۔
(۱۴) ’’ہندہ مشہور زناکار تھی، حضرت یہ سن کر مسکرائے اس کو پہچان کر فرمایا: تو ہی ہندہ ہے؟ عقبہ کی لڑکی ہندہ نے کہ: ہاں! پھر حضرت نے فرمایا: زنا مت کرنا، ہندہ نے کہا کہ آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے، یہ سن کر عمر مسکرائے اس لئے کہ ایامِ جاہلیت میں اس سے زنا کرچکے تھے اور ہندہ مشہور زنا کار تھی، اور معاویہ زنا ہی سے پیدا ہوا تھا‘‘۔ (حیات القلوب:۲،۷۰۰)
(۱۵) خصائل معاویہ میں غلام حسین نجفی لکھتا ہے کہ:
’’ابوسفیان آخر عمر تک زندیق اور منافق رہا‘‘۔(خصائل معاویہ:۲۹)
(۱۶) شیعہ اثناعشریہ فرعونوں اور یہودیوں کا عقیدہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ پر الزام اور توہینِ خلفائے راشدین و امہات المؤمنین، فارسی کا ترجمہ، اصل عبرت ملاحظہ ہو:
’’امام جعفر از جاے نماز خود برنمی خاستند تا چپار معلون و چہار معلونہ دا لعنت نمی کردند، پس باید از ہر نماز بگوید اللھم العن (نعوذ باللہ) ابابکر و عمر و عثمان و معاویہ و عائشہ و حفصہ وھتدو ام لحکم‘‘۔
ترجمہ:۔ امام جعفر صادق اپنی جائے نماز سے نہیں اٹھتے تھے جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، عائشہ اور حفصہ پر لعنت بھیجتے۔
(۱۷) شیعہ کی بدنامِ زمانہ کتاب ’’عین الحیوۃ‘‘ کے صفحہ:۴ پر لکھا ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب صحابہ مرتد ہوگئے تھے‘‘۔ (نعوذ باللہ)
خلفائے راشدین کے بارے میں شیعہ کا عقیدہ:
’’ابوبکر اور عمر کو امام غائب آکر قبروں سے نکال کر ان کو سزاء دیں گے‘‘۔(نعوذ باللہ) (حق الیقین:۳۸۵)
میرا عقیدہ ہے اہل تشیع اور ان کو ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ڈالے گا، کیونکہ ایسے شیطانی عقائد رکھنے والے قطعی جہنمی ہیں۔
شیعہ اثنا عشریہ کی صحابہ کرامؓ کو اپنی کتابوں میں گالیاں:
(۱) کہ مراد از فرعون و ہامان ….. ابوبکر و عمر است۔
ترجمہ:۔ فرعون اور ہامان سے مراد ابوبکر و عمر ہیں۔ (حق الیقین:۳۱۸)
(۲) ابوبکر خلیفہ نہیں مرتد ہے، مستحق قتل ہے۔ (نعوذ باللہ) (حق الیقین:۲۲۲)
(۳) عبارت ہے ’’مرادش از شیطان عمر باشد‘‘۔ یعنی شیطان سے مراد عمر ہے۔ (حق الیقین:۲۲۹)
(۴) ’’حضرت طلحہ و زبیر مرتد شوند’’۔ یعنی حضرت طلحہ و زبیر مرتد تھے۔ (حق الیقین:۲۳۱)
(۵) ابو لؤلؤ عمر را زخم زد وخبزم کرد لعہفتم واصل خواہد شد۔ (حق الیقین:۲۵۲)
(۶) عثمان لعین او را۔ (حق الیقین:۲۲۰)
(۷) عثمان کا قتل کفر پر ہوا۔ (حق الیقین:۲۸۰)
(۸) عثمان کو یہودیوں کے مقبرے میں دفن کیا۔ (حق الیقین:۲۸۳)
(۹) حضرت خالد بن ولید نے زنا کیا۔ (نجفی ملعون کی کتاب خصائل معاویہ:۲۷۶)
(۱۰) حضرت عثمان کی بیوی نائلہ نے ڈانس کیا، خون آلود قمیص پہن کر۔ (خصائل معاویہ:۱۴۳)
(۱۱) ابوہریرہ کا مردود ہونا ثابت ہے۔ (خورشید خاور:۱۹۵)
(۱۲) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والا ابوہریرہ ہے۔
مذکورہ عبارات سے ثابت ہوا کہ شیعہ شجرۂ ملعونہ خبیثہ ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
(۱) ہندہ نے معاویہ کو نکاح جماعت سے جنا ہے۔
(۲) معاویہ نے چالیس سال ظالمانہ حکومت کی ہے۔ (خورشید خاور:۳۹)
(۳) اگر معاویہ جنگِ صفین میں ہلاک ہوتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا حرام تھا۔ (خورشید خاور:۴۹)
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام!!!
(۴) معاویہ سوّر کھانے کو حلال جانتا تھا۔ (خورشید خاور:۴۳۳)
(۵) حکومت اسلامی بنو اُمیّہ کے ایک بدکار کے بعد دوسرے بدکار کو ملی۔ (خورشید خاور:۴۳۷)
(۶) یہ کونڈے مرگ معاویہ کی خوشی میں ہیں۔ (خورشید خاور:۵۲۰)
جو اہل سنت سادہ لوح مسلمان اس میں شامل ہیں ان کو شرم آنی چاہئے! کونڈے کرنا حرام ہے۔
(۷) اصحابِ نبی میں دو قسم کے لوگ تھے، مومن و منافق، نیک و بد، اہل و جاہل۔ (خورشید خاور:۵۷۰)
(۸) شیعوں کے امام متعہ کی بہت تعریفیں کرتے ہیں، تحفۃ العوام میں اس کی تفصیل لکھی گئی ہے، متعہ کرنے والا بہشتی ہے، متعہ کی قسموں میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ ایک لڑکا لڑکی کو بغیر گواہوں کے پسند کرکے یہ کہے کہ میں نے متعہ کے لئے اپنے جسم کو تیرے حوالے کیا۔
اسلام میں متعہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ یہ زنا ہے۔
شیعہ پیشوا کہتے ہیں ’’عفیفہ باکرہ لڑکی سے متعہ کرنے والا بہشتی ہے‘‘۔
اس کے علاوہ شیعہ کی کتاب ’’چودہ ستیارے‘‘ صفحہ:۲۲۱ پر لکھا ہے کہ ’’عمر فاروق ساری عمر کفر و شرک میں مبتلا رہے‘‘۔
اسی کتاب کے صفحہ:۲۰۴ میں لکھا ہے کہ ’’حضرت معاویہ زنا کی پیداوار تھے‘‘،
اور مصنفِ کتاب نجم الحسن کراروی نے اپنی اسی کتاب میں لکھا ہے ’’حضرت عائشہ کو حضرت علی سے پرانا بغض و عناد تھا۔ (چودہ ستیارے:۱۲۳)
اسی کتاب کے صفحہ:۴۸ پر لکھا ہے کہ ’’حلیمہ سعدیہؓ اور ثوبیہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ نہیں پلایا‘‘۔
(۹) شیعہ کی معتبر کتاب جو کہ فارسی زبان میں ہے، اس میں لکھا ہے:
’’بلاشبہ ابی بکر و عمر اتباع ایشاں کافر و ظالم بودہ اند، لعنت خدا و رسول و ملائکہ و غضبِ الٰہی متوجہ ایشاں است‘‘۔ (حلیۃ الیقین، جلد دوم فارسی)
ترجمہ:۔ بلاشبہ ابوبکر و عمراور ان کے متبعین کافر و ظالم تھے، اور خدا، رسول اور ملائکہ کی لعنت اور غضب الٰہی ان پر ہے۔
(۱۰) حلیۃ المتقین کی دوسری عبارت ہے:
’’آنکہ عمر بن خطاب و خالد ابن ولید و جمیع از منافقان بنی امیہ باعلی عداوت فطری بود‘‘۔(حلیۃ الیقین:۲،۴۴)
ترجمہ:۔ عمر بن خطاب اور خالد بن ولید دونوں اور تمام منافقین بنو امیہ علی سے دشمنی رکھتے تھے۔
(۱۱) عمر ایک بڑا بے حیاء اور بے غیرت شخص ہے۔ (نورِ ایماں:۷۵)
(۱۲) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایسا کونسا بے حیاء و بے غیرت گذار ہے۔ (نورِ ایماں:۷۱)
(۱۳) اسی طرح خلفائے ثلاثہ ہم تم مسلمان کے بزرگانِ دین ہو ہی نہیں سکتے۔ (نورِ ایماں:۱۶۲)
(۱۴) ازواجِ مطہرات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عمر فاروق مارا کرتے تھے۔ (نورِ ایماں:۲۰۹)
(۱۵) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں بیٹیاں صلبی نہیں تھی، عثمان کے معنیٰ سانپ، معاویہ کے معنیٰ کتیا ہے۔ (قولِ مقبول،از غلام حسین نجفی)
(۱۶) حضرت فاروق کی نسبی خرابی کو ہم سرآنکھوں پر رکھتے ہیں۔ (قولِ مقبول:۵۳۲)
(۱۷) امام بخاری مجوسی النسل ہے، یہودیوں کا یا سبائیوں کا نطفہ ہے۔ (قولِ مقبول:۵۳۴)
(۱۸) عائشہ نے وفات پر جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی افسوسناک ہے، حجرۂ نبیؐ کو جنابِ عائشہ ابوبکر و عمر کو اس میں دفن کرواکر قبرستان تو بناچکی تھی، جناب حسن وہاں دفن ہوتے تو کیا تھا، لیکن عائشہ بھی معاویہ سے کم نہ تھیں، بلکہ دوسرا معاویہ تھیں۔ (خصائل معاویہ:۸۳)
(۱۹) حضرت معاویہ نے حضرت حسن کی وفات پر سجدۂ شکر ادا کیا۔ (خصائل معاویہ:۸۲)
(۲۰) یزید اپنی ماؤں سے بہنوں اور بیٹیوں سے ہمبستری کرتا تھا اور ہارون رشید نے اپنی ماں سے ہمبستری کی تھی۔
(۲۱) جناب ابوبکر اور عمر اور عثمان نہ تو عوام مسلمانوں کے چُنے ہوئے لیڈر تھے اور نہ ہی خدا و رسول کے چنے ہوئے تھے، بلکہ چور دروازے سے آئے تھے۔
قارئین ذرا انصاف فرمائیں!
’’امام جعفر نے امام ابوحنیفہ کی ماں سے متعہ کیا اور علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضور نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑبڑ نہ کریں، لیکن نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الرافضیہ) (قول مقبول:۳۹۵)
ان اکیس (۲۱) حوالہ جات میں شیعہ کے کفریہ عقائد صاف اور واضح ہوچکے ہیں، ان عقائد کفریہ میں تمام شیعہ، روافض اور اثنا عشریہ شامل ہیں، اسی وجہ سے شیعہ کافر اور مرتد ہیں، تمام اہل سنت کے علماء کرام سے درخواست ہے کہ شیعہ کے کفر کو عوام الناس تک پہنچانے میں پوری صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کریں اور ارکانِ اسمبلی، صوبائی اور قومی کو ایسا مواد ضرور پہنچائیں تاکہ اسمبلیوں میں کثرت رائے سے شیعوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاسکے۔
(۲۲) خلفائے راشدین، خلفائے ثلاثہ اور سیدنا علی المرتضیٰ اور دیگر صحابہ کرام کے بارے میں شیعہ ملعونوں کا عقیدہ ہے:
ترجمہ:۔ حیات القلوب میں ملا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ ’’بسندِ حسن امام باقر سے راویت ہے کہ یہ جناب رسول خدا کے بعد مرتد ہوگئے، سوائے تین اشخاص سلمان، ابوذر اور مقداد کے۔
جو شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم مسلمان نہیں تھے وہ ہمارے نزدیک جہنمی، واجب القتل، مرتد اور بد ترین کافر ہیں۔ (حیات القلوب:۲،۹۹۲)
جناب رسول خدا نے بیٹی دو منافقوں کو دی، اس میں ایک ابوالعاص دوسرے عثمان، لیکن حضرت نے تقیہ کی وجہ سے ان کے نام نہ لئے۔ (حیات القلوب:۲،۸۱۵)
آپ نے اس عبارت کو غور سے پڑھا ہے، آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ الزام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا گیا ہے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور آپؐ کی بیٹیوں اور آپؐ کے داماد پر الزام لگانے والا اور آپؐ کو منافق کہنے والا دنیا کا بدترین کافر ہے۔
(۲۳) حضرت عثمان غنی نے وہ تمام کام کئے جو موجبِ کفر ہیں اور کافر و مرتد ہوگئے۔ (حیات القلوب:۲،۸۷۱)
حصور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کو جو کہ ذو النورین ہیں، جوکہ قرآن پاک کی سورۃ الفتح کے مطابق قطعی جنتی ہیں، ان کو کافر لکھنے والا کون ہے؟ ان کو مسلمانوں کا فرقہ سمجھنے والا خود کیا ہے؟
(۲۴) فیصلہ آپ کریں، حیات القلوب میں لکھا ہے:
’’ابوسفیان،عکرمہ، صفوان، خالد ابن ولید وغیرہ تمام صحابہ دین سے پھر گئے، ان کے خبیث دلوں میں اور گہرائیوں میں ابوبکر کی محبت تھی، جس طرح بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے اور سامری کی محبت جگہ کئے ہوئے تھی۔ (حیات القلوب:۲،۸۳۲)
(۲۵) تمام انبیاء علیہم السلام کی صریح توہین: علمائے شیعہ کا اعتقاد ہے کہ جناب علیؓ اور تمام ائمہ تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ (حیات القلوب:۲،۷۸۷)
ذرا انصاف فرمائیں کہ انبیاء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدرجۂ اتم ہمارے نزدیک پوری مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہیں۔
لیکن ملعون مجلسی نے اس تحریر میں سب انبیاء اور خاتم النبیین کی توہین نہیں کی؟ ایسی تو ہین کرنے والا کافر نہیں تو اور کیا ہے؟
(۲۶) قولِ مقبول میں لکھا ہے بقولِ عمر کے عائشہ بہت گوری چِٹّی تھیں، اللہ نے عائشہ مںی حلول کیا تھا، تو پھر جناب عائشہ سے حضورؐ نے ہمبستری کیسے کرتے تھے۔ (قولِ مقبول:۴۷۶)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی نانی امّاں کے بارے میں جو غلیظ عبارت تحریر کی ہے، جس سے اہل سنت کا ہر فرد کانپ جائے، ملاحظہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو شیشے سرمہ والی بات حضرت عائشہؓ سے کہی تھی اس کا نتیجہ معلوم ہے، شیشہ و سرمی والی عبارت حضرت عائشہ کی طرف منسوب کرکے ان پر الزام لگانا کہاں کی شرافت ہے؟ پھر ہم لکھنے پر مجبور ہیں کہ اُسے اہل سنت و الجماعۃ، بریلوی، اہل حدیث حضرات ایک ہوکر مقابلہ کریں تاکہ رافضیت ختم ہوسکے۔ (خصائل معاویہ:۳۶۹)
(۲۷) شیعہ ملعون نجم الحسن کراروی لکھا ہے ’’ائمۂ کفر سے مراد طلحہ، زبیر، عکرمہ اور ابوسفیان ہیں۔ (نعوذ باللہ) (روح القرآن:۱۱۷)
کراروی اسی کتاب میں لکھتا ہے کہ جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی بن ابی طالب پر ظلم کیا، چھوٹا ہو یا بڑا، کوفہ و شام میں رہنے والا ہو یا مکہ و مدینہ کا، دین سے خارج ہوجائے گا، جو دین سے خارج ہو وہ ائمہ کفر ہے ان سے جنگ مباح ہے۔ (روح القرآن:۱۱۸)
قرآن پاک میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کا منکر کافر ہے!
(۱) لفظ قرآن اِنَّ اللہَ مَعَنَا (التوبہ:۴۰) کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔
(۲) قرآن کی اس آیت: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ (التوبہ:۴۰) کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔
(۳) لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔ (الفتح:۱۸)
اس آیت کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔
(۴) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا۔ (البقرۃ:۱۳۷) شیعہ منکر قرآن ہے، اس آیت کا بھی وہ انکار کرتا ہے، لہٰذا ایسا کافر دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔
(۵) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ۔ (البقرۃ:۱۳)
اس آیت کا انکار کرنے والے سب سے پہلے منافقین ہیں، انہی کی اولاد شیعہ ہیں، جن سے جہاد کرنے کا حکم ہے، لہٰذا شیعہ دنیا کا بدترین کافر ہے۔
(۶) فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ۔ (النساء:۶۹)
اس آیت میں نبیوں کے بعد صدیقِ اکبر کو ماننے کا حکم قطعی ہے، اس قطعی حکم کا انکار کرنے والا معلون، مردود شیعہ ہے جو کہ قطعی کافر ہے۔
(۷) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ۔ جنتی لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
اس آیت کا انکار کفر ہے جو کہ شیعہ کرتے ہیں، لہذا شیعہ کافر ہیں۔
(۸) فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ (الاعراف:۱۵۷)
ترجمہ:۔ وہ لوگ پیغمبر پر ایمان لائے اور انہوں نے عزت اور نصرت کی اور نورِ ایمان کی اتباع کی وہی لوگ کامیاب ہوئے۔
اس آیت میں صحابہ کرام کو دین کی مدد کرنے والے فرمایا گیا ہے، شیعہ نے اس کا اس آیت میں انکار کیا، لہٰذا وہ کافر ہوگئے۔
(۹) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ۔ (الانفال:۲)
ترجمہ:۔ ایمان والے وہ لوگ ہیں جس کے سامنے خدا کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے قلوب روشن ہوتے ہیں۔
اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظمت بیان ہوئی ہے، اس کا شیعہ انکار کرتا ہے، تو شیعہ کافر ہیں۔
(۱۰) إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ۔ (التوبۃ:۱۱۹)
ترجمہ:۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے جنت کے بدلہ میں۔
اس آیتِ مبارکہ میں جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں وہاں علی المرتضیٰ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی شامل ہیں۔
تو جو شخص اس آیتِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو خارج کرے وہ کافر و زندیق ہے۔
شیعہ کراروی اور مجلسی اور نجفی نے انکار کیا ہے، لہٰذا وہ قطعی کافر و زندیق ہیں۔
(۱۱) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ (التوبۃ:۱۱۹)
اس آیت کریمہ میں تمام صحابہ کرام کے علاوہ خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے، آپ کی صداقت کو اس سے خارج کرنا کفر ہے، جس کا انکار شیعہ کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔
(۱۲) أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (یونس:۶۲)
اس آیتِ مبارکہ میں لفظ اولیاء میں صحابہ کرامؓ کا امت کے ولی ہونا ثابت ہے، جس طرح حضرت علیؓ کی ولایت اس میں موجود ہے اسی طرح خلفائے ثلاثہ کی ولایت بھی موجود ہے، بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ ولایت کا مقام صحابیت کے مقام سے کم ہے، لہٰذا اولیاء صحابیت ہی ہوسکتا ہے، اور یہی ترجمہ صحیح ہے، کیونکہ اولیاء اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کا مقام رکھتے ہیں، جوکہ مقامِ صحابیت کے فیضِ صحبت سے حاصل ہوتا ہے، امت کے تمام اولیاء ایک صحابی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔
(۱۳) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ (سورۃ الفاتحۃ:۶)
اس آیت مبارکہ کو قرآن کے شروع میں اور ہر نماز میں پڑھتے ہیں، اس میں جنت، کوثر، رضائے الٰہی اور رضائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مقامات اور انعامات حاصل ہونے والے اللہ کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، جس صحابیت کی ابتداء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتی ہے ان کا انکار کفر ہے۔
شیعہ کافر اس آیتِ کریمہ کا انکار کرکے درجہ کفر پہنچ گئے، صحابہ کرام خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے والا در اصل قرآنی آیات کو گالیاں دیتا ہے جسی وجہ سے شیعہ اثنا عشریہ دنیا کے بدترین کافر ہیں۔
(۱۴) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ۔ (الحج:۷۷)
ترجمہ:۔ اے ایمان والو رکوع کرو، سجدہ کرو، اپنے رب کی عبادت کرو۔
اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
سب سے پہلے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے اپنے رب کی عبادت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں، جب حضرت علیؓ نے فرضیت صلوٰۃ پر عمل کیا، اس وقت تک حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز مکمل کرچکے تھے، سجدۂ نماز عبادتِ خدا حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرچکے تھے، ایسی نماز جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عبادت اور رضائے الٰہی جوکہ ان کو حاصل ہوچکی تھی، ان کا انکار کرنا کفر ہے۔
(۱۵) یہ کافرانہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک کے قطعی فیصلہ کا انکار کیا جائے، شیعہ کفر میں بہت ضدی ہیں، ان کے کفر میں شدت ہے، اسی لئے شیعہ کے ایمان بگاڑے زنا خانے بنے ہوئے ہیں، شیعہ نے قرآنی آیت رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا صریحاً انکار کیا ہے، کیونکہ یہ الفاظ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرات حسنین، حضرت زبیر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر صادق آتے ہیں، وہ اللہ سے اور اللہ ان سے راضی ہے۔
جو رضاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مل چکی ہے وہ قرآن پاک میں موجود ہے، شیعہ اس کے منکر ہیں، لہٰذا شیعہ گروہ قطعی جہنمی کافر مردود ہے، شیعہ کا انکارِ قرآن کفر پر دلالت کرتا ہے۔
(۱۶) والذین معہٗ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، لفظ مع نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدینؓ ساتھی ہیں، ان کے ساتھی ہونے کا انکار قرآن کا انکار ہے، جس کا انکار کرنے والا کافر ہے، شیعہ ان کے ساتھی ہونے کا انکار کرتے ہیں، بوجہِ انکارِ قرآن شیعہ کافر ہیں۔
(۱۷) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ۔ (التوبۃ:۲۰)
ترجمہ:۔ وہ لوگ جو ایمان لانے کے ساتھ ساتھ جنہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں ان کے درجات بلند ہیں اللہ کے نزدیک اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ایمان، جہاد اور ہجرت کا انکار کرنے والے تمام شیعہ کافر ہیں، کیونکہ جنہوں نے انکار کیا صحابہؓ کی جماعت کے ان تین کاموں کا اس نے قرآن کا انکار کیا ہے، صحابہ کرامؓ کے درجات جو کہ اللہ کی طرف سے ان کو ملے ہیں ان کا انکار کفر ہے، شیعہ اس کا بھی انکار کرتے ہیں۔
لہٰذا تمام بوجہِ صحابہ کرامؓ کی عظمت کے انکار کرنے کے دنیا کے بدترین کافر ہیں۔
(۱۸) أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ۔ (السجدۃ:۱۸)
ترجمہ:۔ جو شخص ایمان دار ہے اس کے برابر بدکار نہیں ہوسکتے۔
بدکار شیعہ ہیں، کیونکہ شیعوں کی بدکاری ان کی کتابوں سے ثابت ہے، ان کے مدہب میں ہے، مثلاً متعہ بازار کی زنا کرنے والی عورتیں تمام شیعہ ہیں، ان کے نزدیک تبراء کرنا یعنی صحابہ کرامؓ کو گالیاں دیناان کے مذہب میں شامل ہے، شیعہ مجلسی، نجفی اور کراروی کا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرو جس کو اسلام جھوٹ کہتا ہے ایسے عقائد رکھنے والا کافر ہے۔
(۱۹) مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا۔ (الاحزاب:۲۳)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا واضح ذکر موجود ہے، صحابہ کرامؓ نے اپنے عہد کو پورا کیا ہے، ان کے وعدہ کو پورا کرنے پر اللہ تعالیٰ کی گواہی موجود ہے، اللہ گواہ ہے کہ حضرات خلفائے راشدینؓ نے کلمہ پڑھنے کے بعد جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا اس کو پورا کر دکھایا ہے، وعدہ وفا کرنے والے صحابہ کرامؓ کو گالیاں دینے والے قرآن و سنت کے مطابق شیعہ لعین کافر ہیں۔
(۲۰) إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ (الاحزاب:۵۷)
ترجمہ:۔ وہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت دونوں میں۔
یعنی ابدی لعنت ہے، یہ لعنتی و جہنمی ہے کافر ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ اور آپؐ کے اہل خانہ کو گالیاں دینے والے بدترین کافر ہیں۔
(۲۱) وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔ (الاحزاب:۵۷)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ مومنین مرد خلفائے راشدین اور مومنین عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں، یعنی وہ صحابیاتؓ ہوں یا مومنین کی مائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، ان کو گالیاں دینے والے یا بُرا کہنے والے سب کے سب جہنمی ہیں، شیعہ ملعونوں نے خصوصاً خمینی، مجلسی، نجفی، کراروی، خیرات برکاتی وکیل یہ سب کافر ہیں، کیونکہ یہ آیت کریمہ کا انکار کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ کو گالیاں دیتے ہیں، ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔
(۲۲) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ۔ (الزمر:۳۳)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے تصدیق ہے جو سچائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر ان کی طرف آئے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے سب سے پہلے تصدیق کی ہے اور اس میں اول تصدیق کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرکے اللہ کے نزدیک اول نمبر حاصل کیا ہے اور یہی تصدیق کرنے والے متقی ہیں، قرآن کے اس حکم کو نہ ماننا کفر ہے، شیعہ رافضی نے اس کا انکار کیا ہے، لہٰذا اس آیت قرآنی کا انکار کرنےوالا مسلمان نہیں شیطان کافر شیعہ ہے۔
(۲۳) وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ۔ (التوبۃ:۷۱)
ترجمہ:۔ مومن مرد آپس میں دوست ہیں، مومن عورتیں آپس میں دوست ہیں۔
اس آیت کریمہ میں مومن مرد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی دوستی و تعلق کا ذکر ہے اور حضرت فاطمہ اور حضرت نائلہ زوجۂ حضرت عثمانؓ رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کو مومنین مردوں اور عورتوں کی مائیں کہا گیا ہے کہ وہ امہات المؤمنین ہیں، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء کی والدہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں، پس ماں کو بیٹی سے مومن مردوں کو ماؤں سے کوئی جدا نہیں کرسکتا، حضرت کا تعلق حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہے، کیونکہ حضرت علیؓ خود حضرت عائشہؓ کو اپنی والدہ کہتے تھے، قرآن کریم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو مومنین کی ماں کہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کو ماں کا مقام دیتے تھے، یہ بات نہج البلاغہ میں موجود ہے، جس کو حضرت علیؓ اپنی والدہ کہیں شیعہ ان پر (نعوذ باللہ) کفر کا الزام لگائیں، حضرت علیؓ کی والدہ کو کافرہ لکھیں تو وہ شیعہ کافر ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔
(۲۴) وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ۔أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ۔ (الواقعۃ:۱۰و۱۱)
سبقت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے والے ہیں، حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سب سے پہلے تصدیق کی ہے۔
لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام لانے کی سبقت کا انکار قرآنی آیت کا انکار ہے، شیعہ کافر اس کا انکار رکتے ہیں، لہٰذا شیعہ قطعی کافر جہنمی ہیں۔
(۲۵) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ۔ (الحدید:۱۹)
اس آیت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور شہداء میں حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں، ان حضرات کی گواہی صداق ہے اور ان کی گواہی قابلِ قبول ہے، یہ اپنے آپ کے نزدیک قطعی جنتی ہیں، جو شخص حضرات خلفائے ثلاثہ کی صداقت و شہادت کو تسلیم نہیں کرتا وہ جہنمی کافر ابدی سزاء پانے والا ہے، جو شیعہ صحابہ کرامؓ اور قرآن کی ان آیات کا انکار کرتے ہیں وہ کافر ہے، اس کے کفر میں شک نہیں ہے۔
(۲۶) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور خصوصاً خلفائے اربعہؓ کو امت میں بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ۔ (البینۃ:۷) یہ مخلوق میں سب سے اچھے اور افضل اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نیک اعمال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جو رشتہ اور تعلق بچپن سے ہے وہ ہمارے سامنے ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا شیعہ نے ہمیشہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا انکار کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں کافر کہا ہے، یہی ان کا عقیدہ ہے، لہٰذا شیعہ کے کفر میں کوئی شک نہیں رہتا، شیعہ دنیا کا غلیظ ترین کافر ہے۔
شیعہ اثنا عشریہ کا انکارِ حدیث:
شیعہ اثنا عشریہ کفریہ ملعونیہ جہنمیہ کا احادیث صحیحہ کا انکار کرنا اور احادیث و اقوالِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنا کفر ہے، جس کی بناء پر تمام اہل تشیع کافر ہیں۔
(۱) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر میرے بھائی ہیں۔
اس حدیث کا انکار کرنا قولِ نبیؐ کا انکار کرنا ہے، لہٰذا شیعہ کافر ہے جو کہ اس کا انکار کرتے ہیں۔
(۲) اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو صحابی کو گالی دیتا ہے۔
یہ قول حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا صحابہؓ کو گالیاں دیتے ہیں جس کی بناء پر کافر ہیں۔
(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: و ان صاحبکم خلیل اللہ، اس قول کا انکار کرنا کفر ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا، شیعہ ملعون اس کا انکار کرکے کافر ہوا۔
(۴) جس قوم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوں ان کے علاوہ کوئی اور امامت نہ کرے، اس حکم کو نہ ماننے والا کافر ہے، اس کے کفر میں کو شک نہیں ہے۔
اس روایت میں امامتِ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حکم موجود ہے، یہ حکمِ امامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کا آپؐ کے ہوتے ہوئے نبیؐ کے مصلی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا تمام کتب میں ثابت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے آپؐ کی زندگی میں نماز پڑھ کر آپ کے حکم کی تعمیل کی، یہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مثال ہے کہ تمام آنے والی امت کو سبق دے دیا کہ میں نے اس حکم کو مانا ہے، امت کو بھی ایسے ہی تسلیم کرنا چاہئے، لہٰذا جو شخص اس قولِ علی، فعلِ علی اور حکمِ علی رضی اللہ عنہ کو نہ مانے وہ کافر ہے۔
شیعہ چونکہ فعلِ علی رضی اللہ عنہ کو نہیں مانتے لہٰذا فہ کافر ہیں، جس طرح شیطان کافر ہے، شیطان کی طرح نجفی ہو یا خمینی، مجلسی ہو یا کوئی اور ہو سب کافر ہیں۔
(۵) فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي۔ (ابوداؤد)
ترجمہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہو۔
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کرے وہ کافر ہے، لہٰذا شیعہ اس کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔
(۶) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔ (سنن ترمذی)
ترجمہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میری بعد کوئی نبی ہوتا تو یقیناً و عمر ہوتے۔
یہ شان حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور علیہ السلام کی حدیث ہے، چونکہ یہ فرمانِ نبیؐ ہے، لہٰذا اس کا انکار کرنا دائرۂ اسلام سے خارج ہونا ہے، شیعہ کافر اس کا انکار کرتا ہے بوجہِ انکار وہ مردود کافر ہے۔
(۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سچا قول ہے، آپ ؓ نے فرمایا:
مَا كُنَّا نُبْعِدُ أَنَّ السَّكِينَةَ تَنْطِقُ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ۔ (مشکوٰۃ، کنز العمال، فتاویٰ ابن تیمیہ)
ہم یہ بات بعید نہیں کہ سکینہ عمر کی زبان پر جاری ہوتی ہے۔
یہ فرمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے، اہل اسلام کے نزدیک حضرت علیؓ کا انکار کفر ہے، شیعہ کفار اس کے انکار کی وجہ سے قطعی کافر جہنمی ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کا انکار کرنا اور آپؐ کی بات پر اعتماد نہ کرنا اور آپ کی بات میں طرح طرح کی تاویل کرنا کفر ہے۔
(۸) قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ وَرَفِيقِي يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ۔ (ترمذی)
ترجمہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق جنت میں عثمانؓ ہیں۔
اس ارشاد کا انکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار ہے جو کفر ہے، لہٰذا شیعہ چونکہ اس کا انکار کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔
(۹) جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوست نہ رکھے وہ دشمنِ خدا اور دشمنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوست نہیں رکھتے، اس لئے کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے پیچھے ۲۳،سال نمازیں ادا کی ہیں، جو شخص حضرت علیؓ کے اماموں کو اور حضرت علیؓ کے اقوال و افعال کو نہیں مانتا وہ قیامت کے دن جہنم میں جائے گا، چونکہ حضرت علیؓ خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے تھے، اس لئے جو خلفائے ثلاثہ کی حضرت علیؓ سےمحبت تسلیم نہ کرےوہ کافر ہے۔
دفاعِ صحابہؓ کیوں ضروری ہے*مولانا رب نواز طاہر ›فہرست‹ عقائدِ اہل السنۃ و الجماعۃ*مولانا محمد الیاس گھمّن صاحبPosted on 09. Dec, 2013 by mgr_imaan
عقائدِ اہل السنۃ و الجماعۃ
مولانا محمد الیاس گھمّن صاحب
وجودِ باری تعالیٰ:
کوئی بھی چیز خود بخود وجود میں نہیں آتی بلکہ وہ کسی بنانے والے کی محتاج ہوتی ہے، اس لئے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ کائنات بھی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کو بنانے والی بھی کوئی ذات موجود ہے اور وہ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی ذات ہے۔
توحیدِ باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں یکتا ہیں، نہ کسی کے باپ نہ کسی کے بیٹے، کائنات کا ہر ذرّہ ان کا محتاج ہے، وہ کسی کے محتاج نہیں اور سارے جہاں کے خالق و مالک ہیں۔
تقدیسِ ذات و صفاتِ باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ جسم، اعضاءِ جسم (جیسے ہاتھ، چہرہ، پنڈلیاں اور انگلیاں وغیرہ) اور لوازمِ جسم (جیسے کھانے پینے، نیز اترنے چڑھنے اور دوڑنے وغیرہ) سے بھی پاک ہیں، قرآن و حدیث میں جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاءِ جسم یا مخلوق کی صفات کی نسبت ہے وہاں ظاہری معانی بالاتفاق مراد نہیں ہیں؛ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کی تعبیرات ہیں، پھر متقدمین کے نزدیک وہ صفات متشابہات میں سے ہیں، ان کی حقیقت اور مراد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، جبکہ متاخرین کے نزدیک ان کی حقیقت و مراد درجۂ ظن میں معلوم ہے، جیسے ید اللہ سے مراد قدرتِ باری تعالیٰ اور اترنے سے مراد رحمت کا متوجہ ہونا ہے۔
صدقِ باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ کا کلام سچا اور واقع کے مطابق ہے اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں جھوٹ کا وہم رکھنا بھی کفر ہے۔
عمومِ قدرت باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ اپنے کئے ہوئے فیصلوں کے تبدیل کرنے پر قادر ہیں، اگرچہ وہ اپنے فیصلوں کو بدلتے نہیں۔
تقدیر باری تعالیٰ:
اس عالم میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا وہ سب کچھ ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے موافق ہر چیز کو پیدا فرماتے ہیں، تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے نہ کہ امرِ الٰہی کا۔
اللہ کا عدل و فضل:
اللہ تعالیٰ جس طرح بندوں کے خالق ہیں اسی طرح بندوں کے افعال کے بھی خالق ہیں، البتہ بندوں کے بعض افعال اضطراری ہیں جن میں بندے کے ارادہ، اختیار اور خواہش و رغبت کا اختیار نہیں ہوتا، اور کچھ افعال اختیاری ہیں جن میں بندے کے طبعی شوق و رغبت یا طبعی نفرت و کراہت کا دخل ہوتا ہے، ان اختیاری افعال میں بندہ اپنے اختیار سے جو نیک کام کرے گا اس پر اس کا اجر و ثواب ملے گا اور جو برا کام کرے گا اس پر اُسے سزا ملے گی، یہ اللہ کا عدل ہے، البتہ اللہ اپنے فضل سے جس گناہگار کو چاہے معاف کردے، اللہ ہی سے مغفرت کی ہدایت مانگنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں:
ہر چیز کا وجود اور عدم اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے، ہر چیز کی کیفیت، خاصیت اور اس کی تاثیر کا ہونا اور نہ ہونا بھی اسی کے اختیار میں ہے، وہ مسبب الاسباب ہے، کائنات کے اسباب اسی کی مخلوق ہیں، اور اسباب کی سببیت بھی اس کی مخلوق اور اسی کی مشیت کے تابع ہے، دنیا کی کوئی چیز اپنی ذات میں مؤثر نہیں، نہ لطف و ثواب اور نہ قہر و عذاب، وہ جسے چاہے عزت دے وہ اس کی رحمت ہے اور جسے چاہے ذلت و مصیبت دے اور یہ اس کی حکمت ہے، وہ مالک الملک جسے چاہے اختیار اور اقتدار دے وار جس سے چاہے چھین لے۔
شرک:
شرک یہ تو ہے ہی کہ کسی کو اللہ کے برابر سمجھے اور اس کے مقابل جانے، لیکن شرک بس اسی پر موقوف نہیں ہے بلکہ شرک یہ بھی ہے جو چیزیں اللہ نے اپنی ذات والا صفات کے لئے مخصوص فرمائی ہیں اور بندوں کے لئے بندگی کی علامتیں قرار دی ہیں انہیں غیروں کے لئے بجا لایا جائے، شرک کی کئی صورتیں ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا، مثلاً عیسائیوں اور مجوسیوں کی طرح دو یا زائد خدا ماننا۔
(۲) کسی بھی بندے کے لئے ان غیب کی باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کی عطاء سے ماننا جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواء ان کو کوئی نہیں جانتا، مثلاً یہ علم کہ قیامت کب آئے گی؟ وغیرہ۔
(۳) کسی بندے میں تصرف و قدرت کو اللہ تعالیٰ کی عطاء سمجھے اور ساتھ یہ بھی مانے کہ اس کا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ کا پابند ہے، رکوع و سجدہ وغیرہ جیسے افعال کسی مخلوق کے لئے عبادت کے طور پر نہیں بلکہ صرف تعظیم کے طور پر کرنا، اس کو فسقیہ شرک کہتے ہیں، پھر شریک کرنے میں نبی، ولی جن اور شیطان وغیرہ سب برابر ہیں، جس سے بھی یہ معاملہ کیا جائے گا شرک ہوگا اور کرنے والا مشرک ہوگا۔
چند کفریہ باتیں:
عقیدہ: ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جبکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتوں کو سچا سمجھے اور ان سب کو مان لے، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں شک کرنا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس میں مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔
عقیدہ: قرآن و حدیث کے کھلے واضح مطلب کو نہ ماننا اور اس میں سے اپنے مطلب کے معانی گھڑنا بد دینی کی علامت ہے۔
عقیدہ: گناہ کو حلال سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے، اول تو گناہ کے قریب بھی نہ جانا چاہئے، لیکن اگر بدبختی سے اس میں مبتلا ہیں تو اس گناہ کو گناہ ضرور سمجھیں اور اس کی برائی اور اس کا حرام ہونا دل سے نہ نکالیں، ورنہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
عقیدہ: گناہ چاہے کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو جب تک اس کو برا سمجھتا رہے گا ایمان نہیں جاتا؛ البتہ کمزور ہوجاتا ہے۔
عقیدہ: اللہ تعالیٰ سے بے خوف و نڈر ہوجانا یا نا امید ہوجانا کفر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ سمجھ لینا کہ آخرت میں ہر حال میں مجھے بڑے درجات ملیں گے کوئی پکڑ نہ ہوگی یا یہ سمجھنا کہ میری ہرگز کسی طرح نہ ہوگی کفریہ غلطی ہے، مسلمان کو چاہئے کہ خوف اور امید کے درمیان میں رہے۔
عقیدہ: کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا اور ان کا یقین کرلینا کفر ہے۔
عقیدہ: یہ عقیدہ رکھیں کہ غیب کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا؛ البتہ انبیاء کرام علیہم السلام کو وحی سے اور اولیاء اللہ کو کشف اور الہام سے اور عام لوگوں وک نشانیوں سے بعض باتیں معلوم ہوجاتی ہیں، لیکن یہ باتیں علم الغیب نہیں بلکہ انباء الغیب (غیب کی خبریں) کہلاتی ہیں۔
عقیدہ: کسی کا نام لے کر کافر کہنا یا لعنت کنا بہت بڑا گناہ ہے، ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت، جھوٹوں پر لعنت، ہاں جن لوگوں کا نام لے کر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے یا ان کے کافر ہونے کی اطلاع دی ہے ان کو کافر یا ملعون کہنا گناہ نہیں۔
حقیقتِ نبوت:
’’نبی‘‘ ایسے انسان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو، معصوم عن الخطاء اور اس کی اتباع اور پیروی فرض ہو، یعنی وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہو اور اس کی تابعداری کرنا فرض ہو، ان صفات کو انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی انسان کے لئے ثابت کرنا؛ اگرچہ اس کے لئے نبی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے کفر ہے۔
نوٹ:۔ نبی ہمیشہ مرد ہوتا ہے عورت نبی نہیں بن سکتی، اور جناب کے لئے بھی انسان ہی نبی ہوتا ہے، نبوت وہبی چیز ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عطاء کرنے سے عطا ہوتی ہے، اپنی محنت سے عبادت کرکے کوئی شخص نہ نبی بن سکتا ہے اور نہ ہی نبی کے مرتبہ کو پہنچ سکتا ہے۔
صداقتِ نبوت:
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے نبی اور رسول آئے ہیں سارے برحق اور سچے ہیں۔
دوامِ نبوت:
انبیاء کرام علیہم السلام وفات کے بعد بھی اپنی مبارک قبروں میں اسی طرح حقیقتاً نبی اور رسول ہیں جس طرح وفات سے پہلے ظاہری حیات مبارکہ میں نبی اور رسول تھے؛ البتہ اب باقی انبیاء علیہم السلام کی شریعت منسوخ ہوچکی ہے اور قیامت تک کے لئے نجات کا مدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ہے۔
ختمِ نبوت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں، آپؐ کے بعد عالمِ دنیا میں کسی بھی قسم کی جدید نبوت کے جاری رہنے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
عظمتِ انبیاء علیہم السلام:
کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ مرتبہ اور مقام حضرات انبیاء علیہم السلام کا ہے اور انبیاءؑ میں سے بعض بعض سے افضل ہیں اور حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاءؑ سے افضل اور اعلیٰ اور تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں۔
توہینِ رسالت:
انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی و بے ادبی کرنا یا گستاخی اور بے ادبی کو جائز سمجھنا کفر ہے، مثلاً آپؐ کے لئے صرف اتنی سی فضیلت کا قائل ہونا جتنی بڑے بھائے کو چھوٹے بھائی پر ہے کفر اور بے دینی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی نیند:
نیند کی حالت میں انبیاء علیہم السلام کی آنکھیں تو سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا، اس لئے ان مبارک ہستیوں کا خواب بھی وحی کے حکم میں ہے اور نیند کے باوجود انبیاء علیہم السلام کا وضو باقی رہتا ہے۔
حیاتِ انبیاء علیہم السلام:
تمام انبیاء علیہم السلام اپنی مبارک قبروں میں اپنے دنیوی جسموں کے ساتھ بتعلقِ روح بغیر مکلّف ہونے اور بغیر لوازمِ دنیا کے زندہ ہیں اور مختلف جہتوں کے اعتبار سے اس حیا کے مختلف نام ہیں، جیسے حیاتِ دنیوی، حیاتِ جسمانی، حیاتِ برزخی اور حیاتِ روحانی۔
ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
وہ تمام حالات و واقعات جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا بھی تعلق ہے ان کا ذکر کرنا نہایت پسندیدہ اور مستحب ہے۔
فضیلت و زیارتِ روضۂ اطہر:
زمین کا وہ حضرت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے کائنات کے سب مقاماتِ مقدسہ حتی کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے۔
فائدہ:
روضۂ اطہر کی زیارت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب میں سے ہے اور اسی حالت میں دعاء مانگنا بہتر اور مستحب ہے۔
سفرِ مدینہ منورہ:
سفرِ مدینہ منورہ کے وقت روضۂ مبارک، مسجد نبویؐ اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کی نیت کرنا افضل اور باعثِ اجر و ثواب ہے؛ البتہ خالص روضۂ پاک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس میں آپؐ کی تعظیم زیادہ ہے۔
نبی کریم علیہ السلام پر صلوٰۃ و سلام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا آپؐ کا حق اور نہایت اجر و ثواب کا باعث ہے، کثرت کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب اور شفاعت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اور افضل درود شریف وہ ہے جس کے لفظ بھی آپؐ سے منقول ہوں، سب سے افضل درود درودِ ابراہیمی ہے۔
فائدہ:
زندی میں ایک مرتبہ صلوٰۃ و سلام پڑھنا فرض ہے اور جب مجلس میں آپؐ کا ذکر مبارک آئے تو ایک دفعہ صلوٰۃ و سلام پڑھنا واجب ہے اور ہر ہر بار پڑھنا مستحب ہے۔
عرضِ اعمال:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر روضۂ مبارک میں امت کے اچھے اور برے اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں۔
مسئلہ استشفاع:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے پاس حاضر ہوکر شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا کہ ’’اے نبیؐ! آپ میری مغفرت کی سفارش فرمائیں‘‘ جائز ہے۔
حقیقتِ معجزہ:
معجزہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور اس میں نبی کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا، اس لئے معجزہ کو شرک کہہ کر معجزہ کا انکار کرنا یا معجزہ سے دھوکہ کھاکر انبیاء علیہم السلام کے لئے مختارِ کل اور قادرِ مطلق ہونے کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں۔
معجزاتِ انبیاء علیہم السلام:
انبیاء علیہم السلام کے معجزات (مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصاء کا سانپ بن جانا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مُردوں کو زندہ کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حالتِ نماز میں پشت کی جانب سے سامنے کی طرف دیکھنا وغیرہ) بر حق ہیں۔
عظمتِ علومِ نبوت:
ہر نبی اپنے زمانہ میں شریعتِ مطہرہ کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے اور ہر نبی کو لوازمِ نبوت علوم سارے کے سارے عطاء ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اوّلین و آخرین کے نبی ہیں اس لئے آپؐ کو اوّلین و آخرین کے اور تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطاء کئے گئے۔
توہینِ علمِ نبوت:
اس بات کا قائل ہونا کہ فلاں شحص کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے یا علومِ نبوت یعنی علم دین کو باقی علوم و فنون کے مقابلہ میں گھٹیا و کمتر سمجھنا یا علمائے دین کی بوجہِ علمِ دین تحقیر کرنا کفر ہے۔
ملائکہ:
اللہ تعالیٰ نے ان کو نور سے پیدا فرمایا ہے، یہ ہماری نظروں سے غائب ہیں، نہ مرد ہیں اور نہ ہی عورت، جن کاموں پر اللہ نے ان کو مقرر کیا ہے ان کو سر انجام دیتے رہتے ہیں اور اس میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، ان کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، البتہ ان میں حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم السلام مقرب اور مشہور فرشتے ہیں۔
فائدہ:
رسلِ بشر، رسلِ ملائکہ سے افضل ہیں اور رسلِ ملائکہ باقی تمام فرشتوں اور انسانوں سے افضل ہیں، اور عام فرشتے عام انسانوں سے افضل ہیں۔
کتبِ سماویہ:
جس زمانہ میں جس نبی پر جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی وہ برحق اور سچی تھی، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توارات، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا، البتہ باقی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں اور اب قیامت تک کے لئے کتب سماویہ میں سے واجب الاتباع اور نجات کا مدار صرف قرآن کریم ہی ہے۔
صداقتِ قرآن:
’’سورۂ فاتحہ‘‘ سے ’’والناس‘‘ تک قرآن کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے، اس میں ایک لفظ بھی کا بلکہ ایک حرف کے انکار یا تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:
صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس کو حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوئی ہو اور اسی حالت پر اس کا خاتمہ ہوا ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیارِ حق و صداقت ہیں، یعنی وہی عقائد اور اعمال مقبول ہوں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد و اعمال کے مطابق ہوں گے، صحابہ کرامؓ ہر قسم کی تنقید سے بالاتر ہیں، قبر اور آخرت کے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ ہیں، وہ معصوم نہیں البتہ محفوظ ضرور ہیں، یعنی ان کی ہر قسم کی خطاء بخش دی گئی ہے اور وہ یقینی طور پر جنّتی ہیں، انبیاء علیہ السلام معصوم عن الخطاء ہیں اور صحابہؓ محفوظ عن الخطاء ہیں، معصوم عن الخطاء کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے گناہ ہونے ہی نہیں دیتا اور محفوظ عن الخطاء کا مطلب یہ ہے کہ صحابیؓ سے گناہ تو ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے نامۂ اعمال میں گناہ باقی نہیں رہنے دیتا۔
حبِ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین:
صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی علامت ہے اور صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں سے بغض یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے محبت اور دوسرے سے بغض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی علامت اور گمراہی ہے۔
معیارِ حق و صداقت:
پوری امت کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیارِ حق و صداقت ہیں، یعنی جو عقائد اور مسائل صحابہ کرامؓ اور مسائل کے مطابق ہوں وہ حق ہیں اور جو ان کے مطابق نہ ہوں وہ باطل اور گمراہی ہیں۔
عفت امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت جن کا اوّلین مصداق امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں کو پاکدامن اور صحابِ ایمان ماننا ضروری ہے۔
مقام صحابہ کرام رضی اللہ عنہن:
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب سے اعلیٰ ترین درجہ بہ ترتیبِ ذیل:
(۱) خلفائے راشدینؓ علی ترتیب الخلافۃ۔
(۲) عشرۂ مبشرہؓ۔ (۳) اصحابِ بدرؓ۔
(۴) اصحابِ بیعتِ رضوانؓ۔ (۵) شرکائے فتحِ مکہؓ۔
(۶) وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ان صحابہؓ کا ہے، اور قرآن کریم میں اہل ایمان کی جس قدر صفاتِ کمال کا ذکر آیا ہے ان کا اوّلین اور اعلیٰ ترین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
خلافتِ راشدہ موعودہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے خلیفۂ اول بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں، چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں، ان چاروں کو خلفائے راشدین اور ان کے زمانہ کو خلافتِ راشدہ کا دَور کہتے ہیں، آیتِ استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہوکر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر ختم ہوگئی، لہٰذا دورِ خلافتِ راشدہ سے مراد خلفائے اربعہ (چاروں خلفاءؓ) کا دور ہے، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت، خلافتِ عادلہ ہے۔
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم:
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حق حضرت علی کی جانب تھا اور ان کے مخالف خطاء پر تھے، لیکن یہ خطاء خطائے عنادی نہ تھی بلکہ خطاء اجتہادی تھی اور خطاء اجتہادی پر طعن اور ملامت جائز نہیں بلکہ سکوت واجب ہے اور اس پر اجر کا حدیثِ پاک میں وعدہ ہے۔
حق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے باہمی اختلاف میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید کی حکومت نہ خلافتِ راشدہ تھی اور نہ خلافتِ عادلہ، اور یزید کے اپنے عملی فسق سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بَری ہیں۔
اولیاء اللہ:
ولی اللہ: اس شخص کو کہتے ہیں جو گناہوں سے بچے، ولی کی بنیادی پہچان اتباعِ سنت ہے، جو جتنا زیادہ متبعِ سنت ہوگا وہ اتنا بڑا ولی اللہ ہوگا، ولی سے کرامت اور کشف کا ظہور برحق ہے۔
ولایت: کسبی چیز ہے، کوئی بھی انسان عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کا ولی بن سکتا ہے اور ولایت کا مدار کشف و الہام پر نہیں بلکہ تقویٰ اور اتباعِ سنت پر ہے۔
کراماتِ اولیاء:
اولیاء اللہ کی کرامات برحق ہیں اور کرامت چونکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو ولی کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے اور اس میں ولی کے اپنے اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا، اس لئے کرامت کو شرک کہہ کر اس کا انکار کرنا یا کرامت سے دھوکہ کھاکر اولیاء اللہ کے لئے اختیارات کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں، غیر متقی سے خرق عادت کام کا صدور استدراج ہے نہ کرامت، کرامت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور استدراج شیطان کی طرف سے۔
تصوف:
روحانی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا نام تصوف ہے، جس کو قرآن کریم میں ’’تزکیہ نفس‘‘ اور حدیث میں لفظ ’’احسان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بیعت:
عقائد و اعمال کی اصلاح فرض ہے، جس کے لئے صحیح العقیدہ، سنت کے پابند، دنیا سے بے رغبت و آخرت کے طالب، مجازِ بیعت، شیخِ طریقت سے بیعت ہونا مستحب بلکہ واجب کے قریب ہے۔
وسیلہ جائز ہے:
دعاء میں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کا وسیلہ ان کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد (مثلاً یوں کہنا ’’اے اللہ! فلاں نبی یا فلاں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعاء قبول فرما) جائز ہے، کیونکہ ذواتِ صالحہ کے ساتھ توسّل در حقیقت ان کے نیک اعمال کے ساتھ وسیلہ ہے اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ وسیلہ بالاتفاق جائز ہے۔
جنّات:
اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو آگ سے پیدا فرمایا ہے جس کو ’’جِنّات‘‘ کہتے ہیں، ان میں اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی، جنات بھی انسانوں کی طرح احکامِ شریعت کے مکلّف ہیں اور مرنے بعد انسانوں کی طرح ان کو بھی ثواب و عذاب ہوگا اور جنات میں کوئی نبی نہیں ہے، ان میں سے زیادہ مشہور اور معروف ابلیسِ لعین ہے، یہ فرشتے اور جنات اگرچہ ہمیں نظر نہیں آتے مگر ہم ان کے وجود کو ایمان بالغیب کے طور پر مانتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیثِ مبارکہ میں ان کا ذکر فرمایا ہے۔
اجتہاد و تقلید:
اکمالِ دین کی عملی صورت مجتہد کا اجتہاد اور مجتہد کے اجتہاد پر عمل یعنی تقلید ہے، پس مطلق اجتہاد اور مطلق تقلید ضروریاتِ دین میں سے ہے جس کا انکار کفر ہے، البتہ متعین چار ائمہ (امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ، امام مالک بن انس رحمہ اللہ، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) کی فقہ اور تقلید کا انکار کرنا گمراہی ہے۔
چونکہ حق اہل السنۃ و الجماعۃ کے مذاہب اربعہ(حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) میں بند ہے اس لئے نفس پرستی اور خواہش پرستی کے اس زمانہ میں ان چاروں اماموں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔
نوٹ:۔ ہم اور ہمارے سارے مشائخ تمام اصول و فروع میں امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلِّد ہیں۔
اعتقادی و اجتہادی اختلاف:
اعتقادی اختلاف امت کے لئے زحمت ہے، جبکہ مجتہدین کا اجتہادی اختلاف امت کے لئے رحمت ہے اور مقلدین و مجتہدین دونوں کے لئے باعثِ اجر وثواب ہے، مگر درست اجتہاد پر دو اجر ہیں اور غلط اجتہاد پر ایک اجر، بشرطیکہ اجتہاد کنندہ میں اجتہاد کرنے کی اہلیت ہو۔
اصولِ اربعہ:
دین اسلام کے اعمال و احکام اور جامعیت کے لئے اصولِ اربعہ یعنی چار اصولوں (۱) کتاب اللہ (۲) سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (۳) اجماعِ امت (۴) قیاسِ شرعی، کا ماننا ضروری ہے اور ان اصولِ اربعہ سے ثابت شدہ مسائل کا نام فقہ ہے، جس کا انکار حدیث کے انکار کی طرح دین میں تحریف کا بہت بڑا سبب ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ:
دین اسلام کی سربلندی کے لئے دشمنانِ اسلام سے مسلح جنگ کرنا اور اس میں خوب جان و مال خرچ کرنا ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہلاتا ہے، دین اسلام کی سربلندی، دین کا تحفظ، دین کا نفاذ، دین کی بقاء، مسلمانوں کی عصمت، عزت و عظمت، شان و شوکت اور جان و مال کا واحد ذریعہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ التوبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ (۱۱۱)
ترجمہ:۔ بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے، وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستہ میں، (مجرموں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کی سورۃ الصفّ میں فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ(۴)
ترجمہ:۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَوَاقَ نَاقَةٍ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ۔ (سنن ترمذی:۱۵۷۴)
ترجمہ:۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قتال کرتا ہے جنت اس کے لئے واجب ہوجاتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۷،مرتبہ خود جہاد کا سفر فرمایا اور اللہ کے راستہ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی تمناء فرمائی ہے۔
جہاد کے اقسام:
(۱) اقدامی جہاد۔ (۲) دفاعی جہاد۔
اقدامی جہاد:
کافروں کے ملک میں جاکر کافروں سے لڑنا اقدامی جہاد کہلاتا ہے، اقدامی جہاد میں سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے، اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کردیں تو پھر ان سے قتال کیا جاتا ہے، عام حالات میں جہادِ اقدامی فرضِ کفایہ ہے اور اگر امیر المؤمنین نفیرِ عام (یعنی سب کو نکلنے) کا حکم دے تو اقدامی جہاد بھی فرض عین ہوجاتا ہے۔
دفاعی جہاد:
اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو ان مسلمان کا کافروں کے حملے کو روکنا دفاعی جہاد کہلاتا ہے، اگر وہ مسلمان ان کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اگر طاقت رکھتے ہوں مگر سستی کرتے ہوں تو ہمسایہ ممالک کے مسلمان ان کے حملے کو روکیں۔
دفاعی جہاد فرض عین ہے:
جہاد کرنے سے پہلے جہاد کی تربیت کرنا بھی ضروری ہے، جہاد کی تربیت کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال میں ارشاد فرمایا:
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ۔ (۶۰)
ترجمہ:۔ اور کافروں کے ساتھ لڑنے کے لئے جتنی قوت حاصل کر سکتے ہو کرو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہاد کی توفیق عطاء فرمائے اور لڑتے ہوئے میدانِ جہاد میں شہادت کی موت عطاء فرمائے۔ (آمین)
موت اور موت کے بعد کے متعلق عقیدہ:
جب انسان مرجاتا ہے تو اس کو جس جگہ دفن کیا جاتا ہے اس کو ’’قبر‘‘ کہتے ہیں اور اگر کوئی مردہ جل کر راکھ ہوجائے یا کوئی انسان پانی میں غرق ہوجائے یا کسی انسان کو کوئی جانور کھا جائے تو جہاں جہاں بھی اُس کے ذرّات ہوں گے ان کے ساتھ روح کا تعلق قائم کرکے اسی جگہ کو اس انسان کے لئے قبر بنادیا جاتا ہے، مردے سے قبر مںی سوالات کے لئے فرشتے ’’منکَر و نکیر‘‘ آتے ہیں، وہ تین سوال کرتے ہیں:
(۱) من ربُّکَ۔ تیرا رب کون ہے؟
(۲) مَنْ نبیُّکَ۔ تیرا نبی کون ہے؟
(۳) مَا دینُکَ۔ تیرا دین کیا ہے؟
جو انسان ان تین سوالات کا درست جواب دیتا ہے اس کو قبر میں سکون اور آرام ملتا ہے، اس کے لئے جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو جنت کا باغ بنادیا جاتا ہے۔
اور جن ان تین سوالوں کا درست جواب نہیں دیتا اس کی قبر کو اس کے لئے تنگ کردیا جاتا ہے اور قبر کو جہنم کا گڑھا بنادیاجاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ۔ (ترمذی:۲۳۸۴)
’’قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑوھوں میں سے ایک گڑھا ہے‘‘۔
قیامت:
اللہ تعالیٰ جب اس عالم کو فناء کرنا چاہیں گے تو حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہوگا تو وہ صور پھونکیں گے، جس کی آواز شروع میں نہایت دھیمی اور سریلی ہوگی جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جائے گی جس سے انسان، جنات، چرند پرند اور ہر جاندار سب حیرت کے عالم میں بھاگنے لگیں گے، جب آواز کی شدت اور بڑھے گی تو سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہوں جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، اللہ ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔
کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرکے دوبارہ صور پھونکنے کا حکم دیں گے جس سے پورا عالم ایک پھر وجود میں آجائے گا، مردے قبروں سے اٹھیں گے، یہی قیامت کا دن ہوگا، ہر بندے کو بارگاہِ الٰہی میں پیش ہونا پڑے گا، رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا، درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا، دنیا میں کے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے، ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی، انسان کا ہر عمل اللہ کے علم، لوح محفوظ اور کراماً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔
جس طرح ٹیپ ریکارڈر انسان کی آواز کو محفوظ کرلیتا ہے، اسی طرح زمین بھی انسان کے ہر قول و فعل کو ریکارڈ کر رہی ہے اور قیامت کے دن وہ سب کچھ اُگل دے گی اور گواہی دے گی کہ اس انسان نے فلاں وقت اور فلاں جگہ یہ کام (اچھا یا بُرا) کیا تھا، انسانی اعضاء و جوارح کو بھی اُس دن زبان مل جائے گی جو انسان کے حق میں یا اس کے خلاف بولیں گے، اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے، آپؐ کے پیروکاروں کو یہ سعادت نصیب ہوگی اور گمراہ اس سے محروم رہیں گے۔
اس دن ایک ترازو قائم ہوگا جس کے ذریعہ اعمال تولے جائیں گے، جبکہ جہنم کی پشت پر پلصراط قائم ہوگا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا، ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہوگی، قیامت کا دن دنیا کے دنوں کے اعتبار سے پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) سال کا ہوگا، اس دن موت کو ایک دنبے کی شکل میں لاکر ذبح کردیا جائے گا، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ اس کے بعد کسی کو موت نہیں آئے گی، اہل جنت اور اہل جہنم سب کو ہمیشہ رہنا ہے، یہ فیصلہ کا دن ہے، انجام کار جنّتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے۔
قیامت کی علامتِ صغریٰ:
یہ وہ علامات ہیں جن میں بعض کا ظہور تو آج سے کافی عرضہ پہلے ہوچکا ہے اور بعض کا ظہور ہو رہا ہے اور بڑی علامات ظاہر ہونے تک سلسلہ جاری رہے گا، علاماتِ صغریٰ بہت ساری ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
(۱) چرواہے اور کم درجے کے لوگ فخر و نمود کے طور پر اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے۔
(۲) ظلم و ستم عام ہوجائے گا۔
(۳) شرم و حیاء اٹھ جائے گی۔
(۴) شراب کو ’’نبیذ‘‘ سود کو ’’خرید و فروخت‘‘ اور رشوت کو ’’ہدیہ‘‘ کا نام دے دیا جائے گا۔
(۵) علم اٹھ جائے گا اور جہل زیادہ ہوجائے گا۔
(۶) سرکاری خزانہ کو حکومتی لوگ لوٹیں گے۔
(۷) زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جائے گا۔
(۸) دین کو دنیا کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
(۹) شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا اور ماں کی نافرمانی کرے گا۔
(۱۰) دوست سے پیار کرے گا اور باپ سے بے توجہی کرے گا۔
(۱۱) ذلیل اور فاسق شخص قوم کے سردار بن جائیں گے۔
(۱۲) گانا گانے والیوں کا بول بولا ہوگا۔
(۱۳) مسجدوں میں زور زور سے باتیں ہوں گی۔
(۱۴) شراب عام ہوگی۔
(۱۵) اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کریں گے۔
(۱۶) مردوں میں ریشم عام ہوجائے گا۔
(۱۷) جھوٹ کا رواج عام ہوجائے گا۔
قیامت کی علامتِ کُبریٰ:
وہ نشانیاں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی، جیسے امام مہدیؑ کا ظہور، دجال کا خروج، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول، یاجوج ماجوج اور دابۃ الارض کا خروج وغیرہ۔
(۱) ظہور امام مہدی علیہ السلام:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں پہلی علامت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے، مہدی لغت میں ہر ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں، لغوی معنیٰ کے لحاظ سے ہر اس عالم کو جس کا علم صحیح ہو اس کو مہدی کہا جاسکتا ہے، بلکہ ہر سچے اور پکے مسلمان کو مہدی کہا جاسکتا ہے، لیکن جس ’’مہدی موعود‘‘ کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر زمانہ میں ان کے ظہور کی خبر دی ہے اس سے ایک خاص شخص مراد ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے، ان کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، سیرت میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، مدینہ کے رہنے والے ہوں گے، مکہ میں ظہور ہوگا، شام اور عراق کے اولیاء اور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جو خزانہ خانۂ کعبہ میں مدفون ہے وہ نکال کر مسلمانوں پر تقسیم فرمائیں گے، پہلے عرب اور پھر تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوں گے، دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسا کہ اس سے بیشتر ظلم و ستم سے بھری ہوگی، شریعتِ محمدیہ کے مطابق ان کا عمل ہوگا، امام مہدیؑ کے زمانہ میں دجال نکلے گا اور انہی کے زمانہ بادشاہت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کے مشرقی منارہ پر عصر کی نماز کے قریب نازل ہوں گے اور امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے، امام مہدی علیہ السلام نصاریٰ سے جہاد کریں گے اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔
(۲) خروجِ دجال:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں دوسری علامت خروجِ دجال ہے، جو احادیث متواترہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، دجال دجل سے مشتق ہے جس کے معنیٰ لغت میں بڑے جھوٹ، مکر، فریب اور حق و باطل کو خلط ملط کرنے کے ہیں، لغوی معنیٰ کے لحاظ سے ہر جھوٹے اور مکار کو دجال کہہ سکتے ہیں، لیکن حدیث شریف میں جس دجال موعود کے خروج خبر دی گئی ہے، وہ ایک خاص کافر شخص کا نام ہے جو قوم یہود سے ہوگا اور مسیح لقب کا ہوگا، اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانا ہوگا، اور مسیح کا مطلب ہوا جس کی آنکھ ہاتھ پھیر کر صاف اور ہموار کردی گئی ہو، ایک آنکھ میں انگور کے دانے کے برابر ناخونہ ہوگا، دونوں کے آنکھوں کے درمیان ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوا ہوگا۔
سب سے پہلے اس کا ظہور شام اور عراق کے درمیان ہوگا اور نبوت کا دعویٰ کرے گا، پھر اصفہان آئے گا، وہاں ستر ہزار یہودی اس کے تابع ہوجائیں گے، بعد ازاں وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور زمین میں فساد پھیلاتا پھرے گا، حق تعالیٰ بندوں کے امتحان کے لئے اس کے ہاتھ سے قسم قسم کے کرشمے اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے، لیکن اخیر میں وہ ایک شخص کو قتل کرکے زندہ کرے گا اور پھر اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن اس کے قتل پر ہرگز قادر نہ ہوگا، تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ شخص دعوے خدائی میں بالکل جھوٹا ہے۔
اول تو اس کا کانا ہونا ہی اس کے خدا نہ ہونے کی نہایت روشن اور بیِّن دلیل تھی، دوم یہ کہ اس کی آنکھوں کے درمیان ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوگا، سوم یہ کہ قتل کرنا ایسا فعل ہے جو بشر کی قدرت میں داخل ہے، جب اس میں اب یہ قدرت باقی نہ رہی کہ وہ دوبارہ قتل کرسکے تو وہ خدا کیونکر ہوسکتا ہے؟ اور یہ جو چند روز اس کے ہاتھ سے احیاءِ موتیٰ کا ظہور ہوتا رہا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل تھا جو اس کے ہاتھ سے محض استدراج، ابتلاء اور امتحان کے طور پر کرایا گیا۔
خروج دجال کب ہوگا؟
حضرت امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہونے کے بعد نصاریٰ سے جہاد و قتال کریں گے یہاں تک کہ جب قسطنطنیہ کو فتح کرکے شام واپس ہوں گے اور شہر دمشق میں مقیم ہوں گے اور مسلمانوں کے انتظام میں مصروف ہوں گے اس وقت دجال کا خروج ہوگا، دجال مع اپنے لشکر کے زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، یمن سے ہوکر مکہ مکرمہ کا رخ کرے گا، مکہ مکرمہ پر فرشتوں کا پہرہ ہوگا اس لئے دجال مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا، مدینہ منورہ کے دروازہ پر بھی فرشتوں کا پہرہ ہوگا اس لئے دجال مدینہ منورہ میں بھی داخل نہ ہوسکے گا، بالآخر پھر پھرا کر شام واپس آئے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارہ پر دو فرشتوں کے بازؤوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس لعین کو قتل کردیں گے، جیسا کہ آئندہ علامات کے بیان میں آئے گا۔
(۳) نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام:
قیامت کی علامات کبریٰ مںی سے تیسری علامت یہ ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے جو برحق اور سچ ہے، اور قرآن کریم و احادیثِ متواترہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض اور ضروری ہے۔
کانا دجال کا خروج ہوچکا ہوگا اور امام مہدی علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد میں نماز کے لئے تیاری میں ہوں گے، یکایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارہ پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے اور نماز سے فراغ کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی معیت میں دجّال پر چڑھائی کریں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ کافر اس کی تاب نہ لاسکے گا، اس کے پہنچتے ہی مرجائے گا اور دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور ’’باب لُد‘‘ جاکر اس کو اپنے نیزے سے قتل کردیں گے اور اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے، بعد ازاں لشکرِ اسلام کا مقابلہ دجال کے لشکر سے ہوگا جو یہودی ہوں گے ان کو خوب قتل کرے گا اور اسی طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے گی، جن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کردیا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ تھے اور اب آسمان سے ہمارے قتل کے لئے زمین پر اُترے ہیں۔
حضرت عیسیٰ اور حضرت امام مہدی علیہما السلام دو الگ الگ شخصیات ہیں:
ظہورِ امام مہدی علیہ السلام اور نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو احادیث آئی ہیں ان سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدی علیہ السلام دو شخصیتیں علاحدہ علاحدہ ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے وقت سے لے کر اس وقت تک کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ نازل ہونے والے مسیح اور ظاہر ہونے والے مہدی ایک ہی شخص ہوں گے! کیونکہ…..
(۱) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نبی اور رسول ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام امتِ محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے، نبی نہیں ہوں گے۔
(۲) حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے بغیر باپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ۶۰۰،سال پہلے بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام قیامت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا۔
(۳) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ کہ نہیں ہیں کوئی مہدی مگر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام‘‘، اس راویت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور مہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں۔
جواب:
یہ ہے اوّل تو یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف اور غیر مستند ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (۶،۳۵۸) میں اس کی تصریح کی ہے، دوم یہ کہ یہ روایت ان بے شمار احادیثِ صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ اور امام مہدی علیہ السلام کا دو الگ الگ شخص ہونا خوب صاف ظاہر ہے اور متواتر کے مقابلہ میں ضعیف اور منکر روایت معتبر نہیں ہوتی۔
(۴) خروج یاجوج ماجوج:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام انتقال فرما جائیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، بیت المقدس میں ان کا انتقال ہوگا اور وہیں مدفون ہوں گے، امام مہدی علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوگا اور زمانہ نہایت سکون اور راحت سے گذر رہا ہوگا کہ یکایک وحی نازل ہوگی کہ ’’عیسیٰ! تم میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جاؤ! میں اب ایک ایسی قوم نکالنے والا ہوں کہ جس کے ساتھ کسی کو لڑائی کی طاقت نہیں، وہ قوم یاجوج ماجوج کی قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہے۔
شاہ ذو القرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مستحکم آہنی سیسہ کی دیوار قائم کرکے ان کا راستہ بند کردیا تھا، قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم ٹڈی دل کی طرح ہر طرف نکل پڑے گی اور دنیا میں فساد پھیلائے گی، (جس کا ذکر قرآن کریم کے سورۂ کہف کی آیات ۹۳ تا ۹۸ میں ہے) اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہِ طور کی طرف چلے جائیں گے، بارگاہِ خداوندی میں یاجوج ماجوج کو طاعون سے ہلاکت کی دعاء کریں گے، جبکہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر قلعہ بن اور محفوظ مکانوں میں بند ہوجائیں گے۔
اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو طاعون کی بیماری سے ہلاک کردیں گے اور اس بلاءِ آسمانی سے سب مرجائیں گے، بعد ازاں اللہ تعالیٰ لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو بعض کو تو کھا جائیں گے اور بعض کو اٹھاکر سمندر میں ڈال دیں گے، پھر بارش ہوگی جس کے سبب ان مرداروں کی بدبو سے نجات ملے گی اور زندگی نہایت راحت اور آرام سے گذرے گی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس (۴۰) یا پینتالیس (۴۵) سال زندہ رہ کر مدینہ منورہ میں انتقال فرمائیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک قحطانی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کر جائیں گے جس کا نام ’’جہجاہ‘‘ ہوگا، وہ خوب اچھی طرح عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے گا مگر ساتھ ہی شر اور فساد بھی پھیلنا شروع ہوجائے گا۔
(۵) خروجِ دُخان یعنی دھویں کا ظاہریں ہونا:
جہجاہ کے بعد چند بادشاہ ہوں گے، کفر و الحاد، شر اور فساد بڑھنا شروع ہوجائے گا، یہاں تک کہ ایک مکان مغرب میں اور ایک مکان مشرق میں جہاں منکرینِ تقدیر رہتے ہوں گے وہ دھنس جائے گا اور انہیں دِنوں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھواں ظاہر ہوگا جو آسمان سے زمین تک تمام چیزوں کو گھیر لے گا، جس سے لوگوں لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا، وہ دھواں چالیس دن تک رہے گا، مسلمانوں کو زُکام سا معلوم ہوگا اور کافروں پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی، کسی کو دو دن میں اور کسی کو تین دن میں ہوش آئے گا، قرآن کریم میں اس دُخان کا ذکر ہے:
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ۔ (سورۃ الدخان:۱۰)
ترجمہ:۔ پس اس روز کا انتظار کیجئے کہ آسمان کی طرف سے ایک دھواں نمودار ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ دخان کی علامت گذر چکی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعاء سے اس زمانہ میں سخت قحط پڑا تھا جس کی شدت سے کفار زمین پر دھواں دیکھتے تھے۔
(۶) دابۃ الارض کا نکلنا:
قیامت کی ایک بڑی نشانی زمین سے دابۃ الارض کا نکلنا ہے، جو نصِّ قرآنی سے ثابت ہے:
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ۔ (النمل:۸۲)
ترجمہ:۔ اور جب قیامت کا وعدہ پورا کرنے کا وقت قریب الوقوع ہوجائے گا تو اس وقت ہم لوگوں کی عبرت کے لئے زمین سے ایک عجیب و غریب جانور نکالیں گے جو لوگوں سے باتیں کرے گا (اور کہے گا کہ اب قیامت قریب آگئی ہے، یہ جانور زمین ہم اس لئے نکالیں گے) کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہیں کرتے تھے۔
جس روز آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا اسی دن یہ عجیب الخلقت جانور زمین سے نکلے گا، مکہ مکرمہ کا ایک پہاڑ جس کو کوہِ صفا کہتے ہیں وہ پھٹے گا، اس میں سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو پتھر سے نکالا تھا اسی طرح اپنی قدرت سے قیامت کی خبر دے گا، مؤمنوں کے چہرے پر ایک نورانی نشانی لگائے گا جس سے مؤمنین کے چہرے روشن ہوجائیں گے اور کافروں کی آنکھوں کے درمیان ایک مہر لگائے گا جس سے ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے، اور ارشادِ باری تعالیٰ وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ کے مطابق اس طرح مسلم اور مجرم کا امتیاز شروع ہوجائے گا اور پورا امتیاز حساب و کتاب کے بعد ہوگا۔
(۷) ٹھنڈی ہوا کا چلنا:
دابۃ الارض کے نکلنے کے کچھ عرصہ بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے تمام اہلِ ایمان اور اہلِ خیر مرجائیں گے، یہاں تک کہ اگر کوئی مومن کسی غار یا پہاڑ میں چھپا ہوا ہوگا تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ شخص اس ہوا سے مرجائے گا، نیک لوگ سب مرجائیں اور نیکی اور بدی میں فرق کرنے والا بھی کوئی باقی نہ رہے گا۔
(۸) حبشیوں کا غلبہ اور خانۂ کعبہ کو ڈھانا:
بعد ازاں حبشہ کے کافروں کا غلبہ ہوگا اور زمین پر ان کی سلطنت ہوگی، ظلم و فساد عام ہوگا، بے شرمی اور بے حیائی کھلم کھلا ہوگی، چوپایوں (جانوروں) کی طرح لوگ سڑکوں پر جماع کریں گے، وہ خانہ کعبہ کی ایک ایک اینٹ کرکے توڑدیں گے۔
حدیث میں ہے:
لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ۔ (ابوداؤد:۳۷۵۵)
ترجمہ:۔ خانہ کعبہ کے (امام مہدی علیہ السلام کے بعد جمع ہونے والے) خزانہ کو چھوٹی پنڈلیوں والا حبشہ کا رہنے والا آدمی نکالے گا۔
(۹) آگ کا نکلنا:
قیامت کی آخری نشانی یہ ہے کہ وسط عدن سے ایک آگ نکلے گی، لوگوں کو گھیر کر ملکِ شام کی طرف لائے گی، جہاں مرنے کے بعد حشر ہوگا، (یعنی قیامت میں جو نئی زمین بنائی جائے گی اس کا وہ حصہ جو موجودہ زمین کے ملک شام کے مقابل ہوگا) یہ آگ لوگوں سے دن رات میں کسی وقت جدا نہ ہوگی اور جب صبح ہوگی اور آفتاب بلند ہوجائے گا تو یہ آگ لوگوں کو ہنکائے گی، جب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہوجائے گی۔
صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس علامتیں بیان فرمائیں، ان میں سے آخری علامت یہ ہے:
نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ۔ (صحیح مسلم،ح:۵۱۶۲)
ترجمہ:۔ ایک آگ یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ارضِ محشر یعنی سر زمینِ شام کی طرف ہنکا کر لے جائے گی۔
اس کے بعد کچھ عرصہ نہایت عیش و آرام سے گذرے گا، کفر اور بت پرستی پھیل جائے گی اور زمین پر کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہ ہوگا، اس وقت قیامت قائم ہوگی اور حضرات اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔
تنبیہ:
اکثر احادیث میں خروجِ نار کو قیامت کی آخری نشانی بتایا گیا ہے، لیکن صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ اوّل نشانی قیامت کی وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف نکالے گی، ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ گذشتوں علامتوں کے اعتبار سے یہ آخری نشانی ہے، لیکن اس اعتبار سے کہ اس علامت کے ظہور کے بعد اب دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی؛ بلکہ اس کے بعد متصل نفخِ صور واقع ہوگا، اس کو اوّل نشانی کہا گیا ہے۔
اعتبارِ خاتمہ کا ہے:
عقیدہ: عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا ہو مگر جس حالت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کا اچھا برا بدلہ ملتا ہے۔
عقیدہ: آدمی عمر بھر میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو، اللہ کے یہاں مقبول ہے، البتہ مرتے دم جب سانس ٹوٹنے لگے اور عذاب کے فرشتے دکھائی دینے لگیں اس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان۔